• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم پہلی بیعت عقبہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پہلی بیعت عقبہ1

ہم بتاچکے ہیں کہ نبوت کے گیارہویں سال موسم ِ حج میں یثرب کے چھ آدمیوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور رسول اللہﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ اپنی قوم میں جاکر آپﷺ کی رسالت کی تبلیغ کریں گے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے سال موسمِ حج آیا ( یعنی ذی الحجہ ۱۲ نبوی، مطابق جولائی ۶۲۱ء ) تو بارہ آدمی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں حضرت جابر بن عبد اللہ بن رئاب کو چھوڑ کر باقی پانچ وہی تھے جو پچھلے سال بھی آچکے تھے اور ان کے علاوہ سات آدمی نئے تھے۔ جن کے نام یہ ہیں :
1 معاذ بن الحارث ، ابن عفراء قبیلۂ بنی النجار (خزرج)
2 ذکوان بن عبد القیس ؍؍ بنی زریق ( ؍؍ )
3 عباد ہ بن صامت ؍؍ بنی غنم (؍؍ )
4 یزید بن ثعلبہ ؍؍ بنی غنم کے حلیف (؍؍ )
5 عباس بن عبادہ بن نضلہ ؍؍ بنی سالم (؍؍ )
6 ابوالہیثم بن التیہان ؍؍ بنی عبد الاشہل (اوس)
7 عویم بن ساعدہ ؍؍ بنی عمرو بن عوف (؍؍)
ان میں صرف اخیر کے دوآدمی قبیلۂ اوس سے تھے۔ بقیہ سب کے سب قبیلۂ خزرج سے تھے۔2ان لوگوں نے رسول اللہﷺ سے منیٰ میں عقبہ کے پاس ملاقات کی اور آپﷺ سے چند باتوں پر بیعت کی۔ یہ باتیں وہی تھیں جن پر آئندہ صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ کے وقت عورتوں سے بیعت لی گئی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 عقبہ (ع ، ق، ب تینوں کو زبر ) پہاڑ کی گھاٹی، یعنی تنگ پہاڑی گزرگاہ کو کہتے ہیں۔ مکہ سے منیٰ آتے جاتے ہوئے منیٰ کے مغربی کنارے پر ایک تنگ پہاڑی راستے سے گزرنا پڑتا تھا۔ یہی گزرگاہ عَقَبَہ کے نام سے مشہور ہے۔ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو جس ایک جمرہ کو کنکری ماری جاتی ہے وہ اسی گزرگاہ کے سرے پر واقع ہے اس لیے اِسے جمرہ ٔ عقبہ کہتے ہیں۔اس جمرہ کا دوسرا نام جمرہ کبریٰ بھی ہے۔ باقی دو جمرے اس سے مشرق میں تھوڑے فاصلے پر واقع ہیں۔ چونکہ منیٰ کا پورا میدان ، جہاں حجاج قیام کرتے ہیں۔ ان تینوں جمرات کے مشرق میں ہے۔ اس لیے ساری چہل پہل ادھر ہی رہتی ہے اور کنکریاں مارنے کے بعد اس طرف لوگوں کی آمد ورفت کا سلسلہ ختم ہوجاتا تھا۔ اسی لیے نبیﷺ نے بیعت لینے کے لیے اس گھاٹی کو منتخب کیا اور اسی مناسبت سے اس کو بیعت عقبہ کہتے ہیں۔ اب پہاڑ کاٹ کر یہاں کشادہ سڑکیں نکال لی گئی ہیں۔
2 ابن ہشام ۱/۴۳۱تا ۴۳۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عَقَبَہ کی اس بیعت کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : آؤ! مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی چیزکو شریک نہ کروگے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے۔ اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان سے گھڑ کر کوئی بہتان نہ لاؤ گے اور کسی بھلی بات میں میری نافرمانی نہ کرو گے۔ جو شخص یہ ساری باتیں پوری کرے گا اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر بیٹھے گا پھر اسے دنیا ہی میں اس کی سزادے دی جائے گی تویہ اس کے لیے کفارہ ہوگی اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر بیٹھے گا۔ پھر اللہ اس پر پردہ ڈال دے گا تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ چاہے گا تو سزادے گا اور چاہے گا تو معاف کردے گا۔ حضرت عبادہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس پر آپﷺ سے بیعت کی۔1
مدینہ میں اسلام کا سفیر :
بیعت پور ی ہوگئی اور حج ختم ہو گیا تو نبیﷺ نے ان لوگوں کے ہمراہ یثرب میں اپنا پہلا سفیر بھیجا تا کہ وہ مسلمانوں کو اسلامی احکام کی تعلیم دے اور انہیں دین کے دروبست سکھائے اور جو لوگ اب تک شرک پر چلے آرہے ہیں ان میں اسلام کی اشاعت کرے۔ نبیﷺ نے اس سفارت کے لیے سابقین اولین میں سے ایک جوان کا انتخاب فرمایا۔ جس کا نام اور اسم گرامی مصعب بن عمیر عبدریؓ ہے۔
قابل رشک کامیابی:
حضرت مصعب بن عمیرؓ مدینہ پہنچے تو حضرت اسعد بن زرارہؓ کے گھر نزول فرماہوئے۔ پھر دونوں نے مل کر اہلِ یثرب میں جوش خروش سے اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ حضرت مصعب ؓ مُقری کے خطاب سے مشہور ہوئے۔ (مقری کے معنی ہیں پڑھانے والا۔ اس وقت معلم اور استاد کو مقری کہتے تھے )
تبلیغ کے سلسلے میں ان کی کامیابی کا ایک نہایت شاندار واقعہ یہ ہے کہ ایک روز حضرت اسعد بن زرارہؓ انہیں ہمراہ لے کر بنی عبد الاشہل اور بنی ظفر کے محلے میں تشریف لے گئے اور وہاں بنی ظفر کے ایک باغ کے اندر مرق نامی کنویں پر بیٹھ گئے، ان کے پاس چند مسلمان بھی جمع ہوگئے۔ اس وقت تک بنی عبد الاشہل کے دونوں سردار، یعنی حضرت سعد بن معاذ ؓ اور حضرت اُسید بن حضیر (مسلمان نہیںہوئے تھے ) بلکہ شرک ہی پر تھے۔ انہیں جب خبر ہوئی تو حضرت سعد ؓ نے حضرت اُسید سے کہا کہ ذرا جاؤ اور ان دونوں کو ، جو ہمارے کمزوروں کو بیوقوف بنانے آئے ہیں ، ڈانٹ دو اور ہمارے محلے میں آنے سے منع کردو۔ چونکہ اسعد بن زرارہ میری خالہ کا لڑکا ہے (اس لیے تمہیں بھیج رہا ہوں ) ورنہ یہ کام میں خود انجام دے دیتا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1صحیح بخاری ، باب بعد باب حلاوۃ الایمان ۱/۷ ، باب وفود الانصار ۱/۵۵۰ ، ۵۵۱،(لفظ اسی با ب کا ہے ) باب قولہ تعالیٰ اذا جاء ک المؤمنات ۲/۷۲۷ ، باب الحدود کفارۃ ۲/۱۰۰۳ ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسید ؓ نے اپنا حربہ اٹھا یا اور ان دونوں کے پاس پہنچے۔ حضرت اسعد ؓ نے انہیں آتا دیکھ کر حضرت مصعب ؓ سے کہا :یہ اپنی قوم کا سردار تمہارے پا س آرہا ہے۔ اس کے بارے میں اللہ سے سچائی اختیار کرنا۔ حضرت مصعب ؓ نے کہا : اگر یہ بیٹھا تو اس سے بات کروں گا۔ اُسَیْد پہنچے تو ان کے پاس کھڑے ہوکرسخت سست کہنے لگے۔ بولے : تم دونوں ہمارے یہاں کیوں آئے ہو ؟ ہمارے کمزوروں کو بیوقوف بناتے ہو؟ یاد رکھو ! تمہیں اپنی جان کی ضرورت ہے تو ہم سے الگ ہی رہو۔
حضرت مصعبؓ نے کہا : کیوں نہ آپ بیٹھیں اور کچھ سنیں۔ اگر کوئی بات پسند آجائے تو قبول کرلیں۔ پسند نہ آئے تو چھوڑ دیں۔حضرت اسید نے کہا : بات منصفانہ کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد اپنا حربہ گاڑکر بیٹھ گئے۔ اب حضرت مصعب ؓ نے اسلام کی بات شروع کی اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ ان کا بیان ہے کہ واللہ! ہم نے حضرت اُسید ؓ کے بولنے سے پہلے ہی ان کے چہرے کی چمک دمک سے ان کے اسلام کا پتہ لگا لیا۔ اس کے بعد انہوں نے زبان کھولی تو فرمایا: یہ تو بڑا عمدہ اور بہت ہی خوب تر ہے۔ تم لوگ کسی کو اس دین میں داخل کرنا چاہتے ہوتو کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا : آپ غسل کرلیں۔ کپڑے پاک کرلیں۔ پھر حق کی شہادت دیں، پھر دو رکعت نماز پڑھیں۔ انہوں نے اٹھ کر غسل کیا۔ کپڑے پاک کیے۔ کلمۂ شہادت ادا کیا اور دورکعت نماز پڑھی، پھر بولے : میرے پیچھے ایک اورشخص ہے ، اگر وہ تمہارا پیرو کار بن جائے تو اس کی قوم کا کوئی آدمی پیچھے نہ رہے گا اور میں اس کو ابھی تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔ (اشارہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کی طرف تھا )
اس کے بعد حضرت اُسید ؓ نے اپنا حربہ اٹھا یا اور پلٹ کر حضرت سعد ؓ کے پاس پہنچے۔ وہ اپنی قوم کے ساتھ محفل میں تشریف فرماتھے۔ (حضرت اُسید کو دیکھ کر) بولے: میں واللہ! کہہ رہا ہوں کہ یہ شخص تمہارے پاس جو چہرہ لے کر آرہا ہے یہ وہ چہرہ نہیں ہے جسے لے کر گیا تھا۔ پھر جب حضر ت اُسید محفل کے پاس آن کھڑے ہوئے تو حضرت سعد ؓ نے ان سے دریافت کیا کہ تم نے کیا کیا ؟ انہوں نے کہا : میں نے ان دونوں سے بات کی تو واللہ! مجھے کوئی حرج تو نظر نہیں آیا۔ ویسے میں نے انہیں منع کردیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ ہم وہی کریں گے جو آپ چاہیں گے۔
اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ بنی حارثہ کے لوگ اسعدبن زرارہ کو قتل کر نے گئے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اسعد آپ کی خالہ کا لڑکا ہے۔ لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کا عہد توڑ دیں۔ یہ سن کر سعد غصے سے بھڑک اٹھے اور اپنا نیز ہ لے کر سیدھے ان دونوں کے پاس پہنچے۔ دیکھا تو دونوں اطمینان سے بیٹھے ہیں۔ سمجھ گئے کہ اُسید کا منشا یہ تھا کہ آپ بھی ان کی باتیں سنیں لیکن یہ ان کے پاس پہنچے تو کھڑے ہو کر سخت سست کہنے لگے۔ پھر اسعد بن زرارہ کو مخاطب کر کے بولے : اللہ کی قسم اے ابو امامہ !اگر میرے اور تیرے درمیان قرابت کا معاملہ نہ ہوتا تو تم مجھ سے اس کی امید نہ رکھ سکتے تھے۔ ہمارے محلے میں آکر ایسی حرکتیں کرتے ہو جو ہمیں گوارا نہیں ؟
ادھر حضرت اسعد ؓ نے حضرت مُصعب ؓ سے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ واللہ! تمہارے پاس ایک ایسا سردار آرہا ہے، جس کے پیچھے اس کی پوری قوم ہے۔ اگر اس نے تمہاری بات مان لی توپھر ان میں سے کوئی بھی نہ پچھڑے گا۔ اس لیے حضرت مصعب ؓ نے حضرت سعد سے کہا : کیوں نہ آپ تشریف رکھیں اور سنیں۔ اگر کوئی بات پسند آگئی تو قبول کرلیں اور اگر پسند نہ آئی تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات کو آپ سے دور ہی رکھیں گے۔ حضرت سعد نے کہا : انصاف کی بات کہتے ہو ، اس کے بعد اپنا نیزہ گاڑ کر بیٹھ گئے۔ حضرت مصعب ؓ نے ان پر اسلام پیش کیا اور قرآن کی تلاوت کی۔ ان کا بیان ہے کہ ہمیں حضرت سعد کے بولنے سے پہلے ہی ان کے چہرے کی چمک دمک سے ان کے اسلام کا پتہ لگ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے زبان کھولی اور فرمایا : تم لوگ اسلام لاتے ہو تو کیا کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا :آپ غسل کرلیں، پھر حق کی شہادت دیں ، پھر دورکعت نماز پڑھیں۔ حضرت سعدؓ نے ایسا ہی کیا۔
اس کے بعد اپنا نیزہ اٹھا یا اور اپنی قوم کی محفل میں تشریف لائے۔ لو گوں نے دیکھتے ہی کہا : ہم واللہ! کہہ رہے ہیں کہ حضرت سعدؓ جو چہرہ لے کر گئے تھے اس کے بجائے دوسراہی چہرہ لے کر پلٹے ہیں۔ پھر جب حضرت سعدؓ اہل مجلس کے پاس آکر رکے تو بولے: اے بنی عبد الاشہل ! تم لو گ اپنے اندر میرا معاملہ کیسا جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا : آپ ہمارے سردار ہیں۔ سب سے اچھی سوجھ بوجھ کے مالک ہیں اور ہمارے سب سے بابرکت پاسبان ہیں۔ انہوں نے کہا : اچھا تو سنو ! اب تمہارے مردوں اور عورتوں سے میری بات چیت حرام ہے جب تک کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان نہ لاؤ۔ ان کی اس بات کا یہ اثر ہواکہ شام ہوتے ہوتے اس قبیلے کا کوئی بھی مرد اور کوئی بھی عورت ایسی نہ بچی جو مسلمان نہ ہوگئی ہو۔ صرف ایک آدمی جس کا نا م اُصیرم تھا اس کا اسلام جنگِ احد تک موخر ہوا۔ پھر احد کے دن اس نے اسلام قبول کیا اور جنگ میں لڑتا ہو ا کام آگیا۔ اس نے ابھی اللہ کے لیے ایک سجدہ بھی نہ کیا تھا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ اس نے تھوڑا عمل کیا اور زیادہ اجر پایا۔
حضرت مصعب ؓ ، حضرت اسعد ؓ بن زرارہ ہی کے گھر مقیم رہ کر اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انصار کا کوئی گھر باقی نہ بچا جس میں چند مرد اور عورت مسلمان نہ ہوچکی ہوں۔ صرف بنی امیہ بن زید اور خطمہ اور وائل کے مکانات باقی رہ گئے تھے۔ مشہور شاعر ابو قیس بن اسلت انہیں کا آدمی تھا اور یہ لوگ اسی کی بات مانتے تھے۔ اس شاعر نے انہیں جنگ خندق ( ۵ ہجری ) تک اسلام سے روکے رکھا۔ بہرحال اگلے موسمِ حج، یعنی تیرہویں سال نبوت کا موسمِ حج آنے سے پہلے حضرت مصعب بن عمیرؓ کامیابی کی بشارتیں لے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں مکہ تشریف لائے اور آپﷺ کو قبائل یثرب کے حالات ، ان کی جنگی اور دفاعی صلاحیتوں ، اور خیر کی لیاقتوں کی تفصیلات سنائیں۔ 1
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۳۵-۵۳۸ ، ۲/۹۰، زادالمعاد ۲/۵۱
 
Top