• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیغام قرآن: انیسویں پارے کے مضامین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


پیغام قرآن

انیسویں پارہ کے مضامین

مؤلف : یوسف ثانی، مدیر اعلیٰ پیغام قرآن ڈاٹ کام




یوسف ثانی بھائی کے شکریہ کے ساتھ کہ انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پیج فائلز مہیا کیں۔
احباب سے درخواست ہے کہ کہیں ٹائپنگ یا گرامر کی کوئی غلطی پائیں تو ضرور بتائیں۔ علمائے کرام سے گزارش ہے کہ ترجمے کی کسی کوتاہی پر مطلع ہوں تو ضرور یہاں نشاندہی کریں تاکہ یوسف ثانی بھائی کے ذریعے آئندہ ایڈیشن میں اصلاح کی جا سکے۔
پی ڈی ایف فائلز کے حصول کے لئے ، وزٹ کریں:
Please select from ::: Piagham-e-Quran ::: Paigham-e-Hadees


 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
وقال الذین کے مضامین


۱۔ شیطان انسان کے حق میں بڑا بے وفا ہے
۲۔قرآن بتد ریج کیوں نازل کیا گیا
۳۔ہر قوم کو سابقہ تباہ شدہ قو م کی خبر دی گئی
۴۔ جس نے اپنی خواہش ِ نفس کو اپنا خدا بنالیا
۵۔رات کو لباس اور نیند کو سکونِ موت بنایا گیا
۶۔بارش کا پانی مردہ علاقہ کو زندگی بخشتا ہے
۷۔سمندر میں میٹھا اور کھارا پانی ساتھ ساتھ
۸۔ کافر اللہ کے ہر باغی کے مددگار ہیں
۹۔ آسمانوں اورزمین کی تخلیق چھ دنوں میں ہوئی
۱۰۔آسمان میں بْرج اور چمکتا چاندبنا یاگیا
۱۱۔جونہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل
۱۲۔توبہ کرکے نیک عمل کرنے والے
۱۳۔ نباتات کی کثیر مقدارمیں ایک نشانی ہے
۱۴۔فرعون کے پاس جانے سے موسیٰؑ کا گریز
۱۵۔فرعون نے بنی اسرائیل کو غلام بنالیا تھا
۱۶۔فرعون کے دربار میں موسٰیؑ کامعجزہ دکھلانا
۱۷۔فرعون کا جادوگروں کو اکٹھا کرنا
۱۸۔جادو گروں کا موسیٰؑ سے شکست کھانا
۱۹۔فرعون کا جادوگروں پر ناراض ہونا
۲۰۔موسیٰؑ کا ساتھیوں سمیت شہر سے نکلنا
۲۱۔ لشکرِفرعون کا سمندر میں غرق ہونا
۲۲۔ابراہیمؑ کا بت پرست قوم سے مکالمہ
۲۳۔ رب العالمین موت کے بعد زندگی بخشے گا
۲۴۔ دوزخ گمراہوں کے سامنے کھلی ہوگی
۲۵۔نوحؑ کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں بچالیاگیا
۲۶۔قومِ عاد کا لاحاصل یادگار عمارات بنانا
۲۷۔اہلِ ثمود کے لیے اونٹنی کی نشانی
۲۸۔قومِ لوطؑ کے لیے بارش کا عذاب
۲۹۔پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو، شعیبؑ
۳۰۔قرآن کو واضح عربی زبان میں اتارا گیا
۳۱۔اللہ خبردار کیے بغیر کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتا
۳۲۔ شیاطین جعل ساز،بدکار پر اترا کرتے ہیں
۳۳۔ شعراء نہ کرنے والی باتیں کرتے ہیں
۳۴۔منکرینِ کے کرتوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں
۳۵۔ فرعون اور اس کی قوم کی طرف نو نشانیاں
۳۶۔ سلیمانؑ کے لشکر: جن ، انسان اور پرندے
۳۷۔ملکہ سبا کی خبر سلیمانؑ کوہدہد نے دی
۳۸۔ملکہ سبا کو ہدہد نے سلیمانؑ کا خط پہنچایا
۳۹۔ملکہ سبا کا سلیمانؑ کو تحائف بھیجنا
۴۰۔ملکہ سبا کا تخت سلیمانؑ کے دربار میں
۴۱۔ سلیمانؑ کے اوصاف دیکھ کر ملکہ سبا کاایمان لانا
۴۲۔ نیک و بدشگون کا سر رشتہ اللہ کے پاس ہے
۴۳۔جو ملک میں فساد پھیلاتے تھے
۴۴۔قوم لوطؑ کی بدکاری اور تباہی
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۔ شیطان انسان کے حق میں بڑا بے وفا ہے
جو لوگ ہمارے حضور پیش ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں ’’کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے جائیں ؟ یا پھر ہم اپنے رب کودیکھیں ‘‘۔ بڑا گھمنڈ لے بیٹھے یہ اپنے نفس میں اور حد سے گزر گئے یہ اپنی سرکشی میں ۔ جس روز یہ فرشتوں کو دیکھیں گے وہ مجرموں کے لیے کسی بشارت کا دن نہ ہوگا۔چیخ اٹھیں گے کہ پناہ بخدا، اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑادیں گے۔ بس وہی لوگ جو جنت کے مستحق ہیں اس دن اچھی جگہ ٹھیریں گے اور دوپہر گزارنے کو عمدہ مقام پائیں گے۔آسمان کو چیرتا ہوا ایک بادل اس روز نمودار ہوگا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اتار دیئے جائیں گے۔ اس روز حقیقی بادشاہی صرف رحمن کی ہوگی۔اور وہ منکرین کے لیے بڑا سخت دن ہوگا۔ ظالم انسان اپنے ہاتھ چبائے گا اور کہے گا ’’کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔ ہائے میری کم بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس کے بہکائے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی، شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بے وفا نکلا‘‘۔ اور رسول کہے گا کہ ’’اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنالیا تھا‘‘۔اے نبی ﷺ، ہم نے تو اسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی رہنمائی اور مددکو کافی ہے۔ (الفرقان۳۱)

۲۔قرآن بتد ریج کیوں نازل کیا گیا
منکرین کہتے ہیں ’’اس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیاگیا؟‘‘؟… ہاں ایسا اس لیے کیاگیا ہے کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں اور (اسی غرض کے لیے) ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے اور (اس میں یہ مصلحت بھی ہے) کہ جب کبھی وہ تمہارے سامنے کوئی نرالی بات (یا عجیب سوال) لے کر آئے،اس کا ٹھیک جواب بروقت ہم نے تمہیں دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کھول دی … جو لوگ اوندھے منہ جہنم کی طرف دھکیلے جانے والے ہیں ان کا موقف بہت بُرا ہے اور ان کی راہ حد درجہ غلط۔(الفرقان۳۴)

۳۔ہر قوم کو سابقہ تباہ شدہ قو م کی خبر دی گئی
ہم نے موسٰیؑ کو کتاب دی اور اس کے ساتھ ان کے بھائی ہارونؑ کو مددگار کے طور پر لگایا اور ان سے کہا کہ جاؤ اس قوم کی طرف جس نے ہماری آیات کو جھٹلادیا ہے۔ آخرکار ان لوگوں کو ہم نے تباہ کرکے رکھ دیا۔ یہی حال قوم نوحؑ کا ہوا جب انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔ ہم نے ان کو غرق کردیا اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک نشان عبرت بنادیا اور ان ظالموں کے لیے ایک دردناک عذاب ہم نے مہیاکررکھا ہے۔ اسی طرح عاد اور ثمود اور اصحاب الرس اور بیچ کی صدیوں کے بہت سے لوگ تباہ کیے گئے۔ ان میں سے ہر ایک کو ہم نے (پہلے تباہ ہونے والوں کی) مثالیں دے دے کر سمجھایا اور آخرکار ہر ایک کو غارت کردیا۔ اور اس بستی پر تو ان کا گزر ہوچکا ہے جس پر بدترین بارش برسائی گئی تھی۔ کیا انہوں نے اس کا حال دیکھا نہ ہوگا؟ مگر یہ موت کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے۔(الفرقان۴۰)

۴۔ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنالیا
یہ لو گ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنالیتے ہیں ۔ (کہتے ہیں ) ’’کیا یہ شخص ہے جسے خدا نے رسول بناکر بھیجا ہے؟ اس نے تو ہمیں گمراہ کرکے اپنے معبودوں سے برگشتہ ہی کردیا ہوتا اگر ہم ان کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے‘‘۔ اچھا، وہ وقت دور نہیں ہے جب عذاب دیکھ کر انہیں خود معلوم ہوجائے گا کہ کون گمراہی میں دور کل گیا تھا۔کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنالیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کوراہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں ؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں ، بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔ (الفرقان۴۴)

۵۔رات کو لباس اور نیند کو سکونِ موت بنایا گیا
تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا رب کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا۔ ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا، پھر (جیسے جیسے سورج اٹھتا جاتا ہے) ہم اس سائے کو رفتہ رفتہ اپنی طرف سمیٹتے چلے جاتے ہیں ۔ اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے لباس، اورنیند کو سکونِ موت، اور دن کو جی اٹھنے کا وقت بنایا۔(الفرقان۴۷)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۶۔بارش کا پانی مردہ علاقہ کو زندگی بخشتا ہے
اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بشارت بناکر بھیجتا ہے۔ پھر آسمان سے پاک پانی نازل کرتا ہے تاکہ ایک مردہ علاقے کو اس کے ذریعے زندگی بخشے اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو سیراب کرے۔ اس کرشمے کو ہم بار بار ان کے سامنے لاتے ہیں تاکہ وہ کچھ سبق لیں ، مگر اکثر لوگ کفر اور ناشکری کے سوا کوئی دوسرا رویہ اختیار کرنے سے انکار کردیتے ہیں ۔ اگر ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک خبردار کرنے والا اٹھا کھڑا کرتے۔ پس اے نبی ﷺ ،کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو۔(الفرقان۵۲)

۷۔سمندر میں میٹھا اور کھارا پانی ساتھ ساتھ
اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملارکھا ہے۔ ایک لذیز و شیریں ، دوسرا تلخ و شور، اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔ اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس سے نسب اورسسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے۔ (الفرقان۵۴)

۸۔ کافر اللہ کے ہر باغی کے مددگار ہیں
اس خدا کو چھوڑ کر لوگ ان کو پوج رہے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، اور اوپر سے مزید یہ کہ کافر اپنے رب کے مقابلے میں ہر باغی کا مددگار بنا ہوا ہے۔اے نبیﷺ، تم کو تو ہم نے بس ایک بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بناکر بھیجا ہے۔ان سے کہہ دو کہ ’’میں اس کام پرتم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کرلے‘‘۔(الفرقان۵۷)

۹۔ آسمانوں اورزمین کی تخلیق چھ دنوں میں ہوئی
اے نبی ﷺ، اس خدا پر بھروسہ رکھو جو زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں ۔ اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ اپنے بندوں کے گناہوں سے بس اسی کا باخبر ہونا کافی ہے۔ وہ جس نے چھ دنوں میں زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو بناکررکھ دیاجو آسمانوں اور زمین کے درمیان ہیں ، پھر آپ ہی ’’عرش‘‘ پر جلوہ فرماہوا۔ رحمن، اس کی شان بس کسی جاننے والے سے پوچھو۔ (الفرقان۵۹)

۱۰۔آسمان میں بْرج اور چمکتا چاندبنا یاگیا
ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اس رحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں ’’رحمن کیا ہوتا ہے؟ کیا بس جسے تو کہہ دے اُسی کو ہم سجدہ کرتے پھریں ‘‘؟ یہ دعوت ان کی نفرت میں الٹا اور اضافہ کردیتی ہے۔ بڑا متبرک ہے وہ جس نے آسمان میں بُرج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک چمکتا چاند روشن کیا۔ وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا، ہر اس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے، یا شکرگزار ہونا چاہے۔ (الفرقان۶۲)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۱۔جونہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل
رحمن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضور سجدے اورقیام میں راتیں گزارتے ہیں ۔ جو دعائیں کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچالے، اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی بُرا مستقراور مقام ہے‘‘۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں … یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اس کو مکرر عذاب دیاجائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ الاّیہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکا ہو اور ایمان لاکر عمل صالح کرنے لگا ہو۔ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور رحیم ہے(الفرقان۷۰)

۱۲۔توبہ کرکے نیک عمل کرنے والے
جو شخص توبہ کرکے نیک عملی اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے… (اور رحمن کے بندے وہ ہیں ) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پران کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں ۔ جنہیں اگر ان کے رب کی آیات سناکر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پراندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے۔جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘… یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر کا پھل منزلِ بلند کی شکل میں پائیں گے۔آداب و تسلیمات سے ان کا استقبال ہوگا۔وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔ کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور وہ مقام۔اے نبی ﷺ، لوگوں سے کہو ’’میرے رب کو تہاری کیاحاجت پڑی ہے اگر تم اس کو نہ پکارو۔اب کہ تم نے جھٹلا دیا ہے، عنقریب وہ سزا پاؤ گے کہ جان چھڑانی محال ہوگی‘‘ (الفرقان۷۷)

۱۳۔ نباتات کی کثیر مقدارمیں ایک نشانی ہے
سورۃ الشعراء : اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔ط ۔ س ۔ م۔ یہ کتاب مُبین کی آیات ہیں ۔ اے نبیﷺ، شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کرسکتے ہیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں ۔ ان لوگوں کے پاس رحمن کی طرف سے جو نئی نصیحت بھی آتی ہے یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔اب کہ یہ جھٹلاچکے ہیں ، عنقریب ان کو اس چیز کی حقیقت (مختلف طریقوں سے) معلوم ہوجائے گا جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں ۔اور کیا انہوں نے کبھی زمین پر نگاہ نہیں ڈالی کہ ہم نے کتنی کثیر مقدار میں ہر طرح کی عمدہ نباتات اس میں پیدا کی ہیں ؟ یقینا اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثرماننے والے نہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔ (الشعراء۹)

۱۴۔فرعون کے پاس جانے سے موسیٰؑ کا گریز
انہیں اس وقت کا قصہ سناؤ جب کہ تمہارے رب نے موسٰیؑ کو پکارا ’’ظالم قوم کے پاس جا … فرعون کی قوم کے پاس …کیا وہ نہیں ڈرتے‘‘؟ اس نے عرض کیا، ’’اے میرے رب، مجھے خوف ہے کہ وہ مجھ کو جھٹلادیں گے۔میرا سینہ گھٹتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی۔ آپ ہارونؑ کی طرف رسالت بھیجیں ۔ اور مجھ پر ان کے ہاں ایک جرم کا الزام بھی ہے، اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کردیں گے‘‘۔ فرمایا ’’ہرگز نہیں ، تم دونوں جاؤ ہماری نشانیاں لے کر، ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے۔ فرعون کے پاس جاؤ اور اس سے کہو، ہم کو رب العالمین نے اس لیے بھیجا ہے کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے‘‘۔ (الشعراء۱۷)

۱۵۔فرعون نے بنی اسرائیل کو غلام بنالیا تھا
فرعون نے کہا ’’کیا ہم نے تجھ کو اپنے ہاں بچہ سا نہیں پالا تھا؟ تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں گزارے،اور اس کے بعد کرگیا جو کچھ کرگیا، تو بڑا احسان فراموش آدمی ہے‘‘۔موسٰیؑ نے جواب دیا ’’اس وقت وہ کام میں نے نادانستگی میں کردیا تھا۔پھر میں تمہارے خوف سے بھاگ گیا۔اس کے بعد میرے رب نے مجھ کو حکم عطا کیا اور مجھے رسولوں میں شامل فرمالیا۔ رہا تیرا احسان جو تو نے مجھ پر جتایا ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ تُو نے بنی اسرائیل کو غلام بنالیا تھا‘‘۔(الشعراء۲۲)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۶۔فرعون کے دربار میں موسٰیؑ کامعجزہ دکھلانا
فرعون نے کہا ’’اور یہ رب العالمین کیاہوتا ہے؟‘‘ موسٰیؑ نے جواب دیا ’’آسمانوں اور زمین کا رب، اور ان سب چیزوں کا رب جو آسمان اور زمین کے درمیان ہیں ، اگر تم یقین لانے والے ہو‘‘۔ فرعون نے اپنے گردوپیش کے لوگوں سے کہا ’’سنتے ہو‘‘؟ موسٰیؑ نے کہا ’’تمہارا رب بھی اورتمہارے ان آباؤاجداد کا رب بھی جو گزرچکے ہیں ‘‘۔ فرعون نے (حاضرین سے) کہا ’’تمہارے یہ رسول صاحب جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں ، بالکل ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں ‘‘۔موسٰیؑ نے کہا ’’مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب،اگر آپ لوگ کچھ عقل رکھتے ہیں ‘‘۔ فرعون نے کہا ’’اگر تو نے میرے سوا کسی اور معبود مانا تو تجھے بھی ان لوگوں میں شامل کردوں گا جو قید خانوں میں پڑے سڑرہے ہیں ‘‘۔ موسٰیؑ نے کہا ’’اگرچہ میں لے آؤں تیرے سامنے ایک صریح چیز بھی‘‘؟ فرعون نے کہا ’’اچھا تو لے آ اگر تو سچا ہے‘‘۔(اس کی زبان سے یہ بات نکلتے ہی) موسٰیؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک صریح اژدہا تھا۔ پھراس نے اپنا ہاتھ (بغل سے) کھینچا اور وہ سب دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہا تھا۔(الشعراء۳۳)

۱۷۔فرعون کا جادوگروں کو اکٹھا کرنا
فرعون اپنے گردوپیش کے سرداروں سے بولا ’’یہ شخص یقینا ایک ماہرجادوگر ہے۔ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہارے ملک سے نکال دے۔ اب بتاؤ تم کیا حکم دیتے ہو‘‘؟انہوں نے کہا ’’اسے اور اس کے بھائی کو روک لیجیے اور شہروں میں ہرکارے بھیج دیجئے کہ ہرسیانے جادوگرکو آپ کے پاس لے آئیں ‘‘۔ چنانچہ ایک روز مقرر وقت پرجادوگر اکٹھے کرلیے گئے اور لوگوں سے کہاگیا ’تم اجتماع میں چلو گے؟ شاید کہ ہم جادوگروں کے دین ہی پررہ جائیں اگر وہ غالب رہے‘‘۔(الشعراء۴۰)

۱۸۔جادو گروں کا موسیٰؑ سے شکست کھانا
جب جادوگر میدان میں آئے تو انہوں نے فرعون سے کہا ’’ہمیں انعام تو ملے گا اگر ہم غالب رہے‘‘؟اس نے کہا ’’ہاں ،اور تم تو اس وقت مقربین میں شامل ہوجائو گے‘‘۔موسٰیؑ نے کہا ’’پھینکو جو تمہیں پھینکنا ہے‘‘۔ انہوں نے فوراً اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں اور بولے ’’فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے‘‘۔ پھر موسٰیؑ نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ان کے جھوٹے کرشموں کو ہڑپ کرتا چلا جارہا تھا۔ اس پرسارے جادوگربے اختیار سجدے میں گرپڑے اور بول اٹھے کہ ’’مان گئے ہم رب العالمین کو۔موسٰیؑ اور ہارونؑ کے رب کو‘‘ ( الشعراء…۴۸)

۱۹۔فرعون کا جادوگروں پر ناراض ہونا
فرعون نے کہا ’تم موسٰیؑ کی بات مان گئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا! ضرور یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ اچھا ، ابھی تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے،میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواؤں گا اور تم سب کو سُولی پر چڑھا دوں گا‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’کچھ پروا نہیں ، ہم اپنے رب کے حضور پہنچ جائیں گے۔ اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کردے گا، کیونکہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں ‘‘۔ (الشعراء:۵۱)

۲۰۔موسیٰؑ کا ساتھیوں سمیت شہر سے نکلنا
ہم نے موسٰیؑ کو وحی بھیجی کہ ’’راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ، تمہارا پیچھا کیا جائے گا‘‘۔ اس پر فرعون نے (فوجیں جمع کرنے کے لیے) شہروں میں نقیب بھیج دیئے (اور کہلا بھیجا) کہ ’’یہ کچھ مُٹھی بھر لوگ ہیں ، اور انہوں نے ہم کو بہت ناراض کیا ہے، اور ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کا شیوہ ہر وقت چوکنا رہنا ہے‘‘۔ اس طرح ہم انہیں ان کے باغوں اور چشموں اور خزانوں اور ان کی بہترین قیام گاہوں سے نکال لائے۔ یہ تو ہوا ان کے ساتھ، اور (دوسری طرف) بنی اسرائیل کو ہم نے ان سب چیزوں کا وارث کردیا۔ (الشعراء۵۹)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۲۱۔ لشکرِفرعون کا سمندر میں غرق ہونا
صبح ہوتے یہ لوگ ان کے تعاقب میں چل پڑے۔ جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسٰیؑ کے ساتھی چیخ اٹھے کہ ’’ہم تو پکڑے گئے‘‘۔ موسٰیؑ نے کہا ’’ہرگز نہیں ۔ میرے ساتھ میرا رب ہے۔وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا‘‘۔ ہم نے موسٰیؑ کو وحی کے ذریعے سے حکم دیا کہ ’’مار اپنا عصا سمندر پر‘‘۔ یکایک سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک عظیم الشان پہاڑ کی طرح ہوگیا۔ اسی جگہ ہم دوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے۔ موسٰیؑ اور ان سب لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے، ہم نے بچالیا، اور دوسروں کو غرق کردیا۔ اس واقعہ میں ایک نشانی ہے، مگر ان لوگوں میں سے اکثرماننے والے نہیں ہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔ (الشعراء۶۸)

۲۲۔ابراہیمؑ کا بت پرست قوم سے مکالمہ
اور انہیں ابراہیمؑ کا قصہ سناؤ جبکہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے پوچھا تھا کہ ’’یہ کیا چیزیں ہیں جن کو تم پوجتے ہو‘‘؟ انہوں نے جواب دیا ’’کچھ بُت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں اور انہی کی سیوا میں ہم لگے رہتے ہیں ‘‘۔ اس نے پوچھا ’’کیا یہ تمہاری سُنتے ہیں جب تم انہیں پکارتے ہو؟ یا یہ تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں ‘‘؟ انہوں نے جواب دیا ’’نہیں ، بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے‘‘۔ اس پر ابراہیمؑ نے کہا ’’کبھی تم نے (آنکھیں کھول کر) ان چیزوں کو دیکھا بھی جن کی بندگی تم اور تمہارے پچھلے باپ دادا بجالاتے رہے؟( الشعراء:۷۶)

۲۳۔ رب العالمین موت کے بعد زندگی بخشے گا
میرے تو یہ سب دشمن ہیں ،بجز ایک رب العٰلمین کے،جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے۔ جو مجھے کھلاتا اورپلاتا ہے۔ اور جب بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ جو مجھے موت دے گا۔ اور پھر دوبارہ مجھ کو زندگی بخشے گا۔ اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روز جزا میں وہ میری خطا معاف فرمادے گا‘‘۔ (اس کے بعدابراہیمؑ نے دعا کی کہ) ’’اے میرے رب، مجھے حکم عطاکر۔ اور مجھ کوصالحوں کے ساتھ ملا۔ اور بعد کے آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطاکر۔ اور مجھے جنتِ نعیم کے وارثوں میں شامل فرما۔ اورمیرے باپ کو معاف کردے کہ بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے ہے۔ اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جبکہ سب لوگ زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے۔ جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کوئی شخص قلبِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘ (الشعراء۸۹)

۲۴۔ دوزخ گمراہوں کے سامنے کھلی ہوگی
(اس روز) جنت پرہیزگاروں کے قریب لے آئی جائے گی۔ اور دوزخ بہکے ہوئے لوگوں کے سامنے کھول دی جائے گی اور ان سے پوچھا جائے گا کہ ’’اب کہاں ہیں وہ جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے؟ کیا وہ تمہاری کچھ مدد کررہے ہیں یا خود اپنا بچاؤ کرسکتے ہیں ؟‘‘۔ پھر وہ معبود اور یہ بہکے ہوئے لوگ، اور ابلیس کے لشکر سب کے سب اس میں اوپر تلے دھکیل دیئے جائیں گے۔ وہاں یہ سب آپس میں جھگڑیں گے اور یہ بہکے ہوئے لوگ (اپنے معبودوں سے) کہیں گے کہ ’’خدا کی قسم، ہم تو صریح گمراہی میں مبتلا تھے جبکہ تم کو رب العٰلمین کی برابری کا درجہ دے رہے تھے۔اور وہ مجرم لوگ ہی تھے جنہوں نے ہم کو اس گمراہی میں ڈالا۔ اب نہ ہمارا کوئی سفارشی ہے اور نہ کوئی جگری دوست۔کاش ہمیں ایک دفعہ پھر پلٹنے کا موقع مل جائے تو ہم مومن ہوں ‘‘۔یقینا اس میں ایک بڑی نشانی ہے،مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ۔اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔(الشعراء۱۰۴)

۲۵۔نوحؑ کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں بچالیاگیا
قوم نوحؑ نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جب کہ ان کے بھائی نوحؑ نے ان سے کہا تھا ’’کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور (بے کھٹکے) میری اطاعت کرو‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’کیا ہم تجھے مان لیں حالانکہ تیری پیروی رذیل ترین لوگوں نے اختیار کی ہے‘‘؟ نوحؑ نے کہا ’’میں کیاجانوں کہ ان کے عمل کیسے ہیں ، ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ ہے، کاش تم کچھ شعور سے کام لو۔میرا یہ کام نہیں ہے کہ جو ایمان لائیں ان کو میں دھتکار دوں ۔میں تو بس ایک صاف صاف متنبہ کردینے والا آدمی ہوں ‘‘۔ انہوں نے کہا ’’اے نوحؑ ، اگر تو باز نہ آیا تو پھٹکارے ہوئے لوگوں میں شامل ہوکر رہے گا‘‘۔نوحؑ نے دعا کی ’’اے میرے رب، میری قوم نے مجھے جھٹلادیا۔ اب میرے اور ان کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کردے اور مجھے اورجو مومن میرے ساتھ ہیں ان کو نجات دے‘‘۔ آخرکار ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو ایک بھری ہوئی کشتی میں بچالیا۔اور اس کے بعد باقی لوگوں کو غرق کردیا۔یقینا اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں ۔اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔(الشعراء:۱۲۲)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۲۶۔قومِ عاد کا لاحاصل یادگار عمارات بنانا
عاد نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جبکہ ان کے بھائی ہودؑنے ان سے کہا تھا ’’کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ۔میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بناڈالتے ہو،اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو جبار بن کر ڈالتے ہو۔ پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ ڈرو اس سے جس نے وہ کچھ تمہیں دیا ہے جو تم جانتے ہو۔ تمہیں جانور دیئے، اولادیں دیں ، باغ دیئے اور چشمے دیئے۔مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’تُو نصیحت کر یا نہ کر، ہمارے لیے سب یکساں ہے۔ یہ باتیں تو یوں ہی ہوتی چلی آئی ہیں ۔اور ہم عذاب میں مُبتلا ہونے والے نہیں ہیں ‘‘۔ آخرکار انہوں نے اسے جھٹلادیا اور ہم نے ان کو ہلاک کردیا۔یقینااس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں ہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے۔اور رحیم بھی۔ (الشعراء۱۴۰)

۲۷۔اہلِ ثمود کے لیے اونٹنی کی نشانی
ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جبکہ ان کے بھائی صالحؑ نے ان سے کہا ’’کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ۔ لہٰذاتم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پرتم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔کیا تم ان سب چیزوں کے درمیان، جو یہاں ہیں ، بس یونہی اطمینان سے رہنے دیئے جاؤ گے؟ان باغوں اور چشموں میں ؟ ان کھیتوں اور نخلستانوں میں جن کے خوشے رس بھرے ہیں ؟ تم پہاڑ کھودکھود کر فخریہ ان میں عمارتیں بناتے ہو۔اللہ سے ڈرو اورمیری اطاعت کرو۔ان بے لگام لوگوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے‘‘۔ انہوں نے جواب دیا۔ ’’تُو محض ایک سِحرزدہ آدمی ہے۔ تو ہم جیسے ایک انسان کے سوا اور کیا ہے؟ لا کوئی نشانی اگر تو سچا ہے‘‘۔ صالحؑ نے کہا ’’یہ اونٹنی ہے۔ ایک دن اس کے پینے کا ہے اور ایک دن تم سب کے پانی لینے کا۔ اس کو ہرگز نہ چھیڑنا ورنہ ایک بڑے دن کا عذاب تم کو آلے گا‘‘۔ مگر انہوں نے اس کی کوچیں کاٹ دیں اور آخرکار پچھتاتے رہ گئے۔عذاب نے انہیں آلیا۔یقینا اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔(الشعراء۱۵۹)

۲۸۔قومِ لوطؑ کے لیے بارش کا عذاب
لوطؑ کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔یاد کرو جب کہ ان کے بھائی لوطؑ نے ان سے کہا تھا، ’’کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے ۔ کیا تم دنیا کی مخلوق میں سے مردوں کے پاس جاتے ہو اور تمہاری بیویوں میں تمہارے رب نے تمہارے لیے جو کچھ پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو؟ بلکہ تم لوگ تو حد سے ہی گزرگئے ہو‘‘۔ انہوں نے کہا ’’اے لوطؑ ، اگر تو ان باتوں سے باز نہ آیا تو جو لوگ ہماری بستیوں سے نکالے گئے ہیں ان میں تو بھی شامل ہوکر رہے گا‘‘۔ اس نے کہا ’’تمہارے کرتوتوں پرجو لوگ کُڑھ رہے ہیں ،میں ان میں شامل ہوں ۔ اے پروردگار، مجھے اور میرے اہل وعیال کو ان کی بدکرداریوں سے نجات دے‘‘۔ آخرکار ہم نے اسے اور اس کے سب اہل و عیال کو بچالیا،بجز ایک بوڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔ پھر باقی ماندہ لوگوں کو ہم نے تباہ کردیا اور ان پر برسائی ایک برسات، بڑی ہی بُری بارش تھی جو ان ڈرائے جانے والوں پرنازل ہوئی۔یقینا اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرارب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔(الشعراء۱۷۵)

۲۹۔پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو، شعیبؑ
اصحاب الایکہ نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جب کہ شعیبؑ نے ان سے کہا تھا ’’کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ۔میرا اجر تو رب العٰلمین کے ذمہ ہے۔ پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو۔ صحیح ترازو سے تولو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو۔ زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو اور اس ذات کا خوف کرو جس نے تمہیں اور گذشتہ نسلوں کو پیدا کیا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’تو محض ایک سِحرزدہ آدمی ہے،اور تو کچھ نہیں ہے مگر ایک انسان ہم ہی جیسا،اور ہم تو تجھے بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں ۔اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرادے‘‘۔شعیبؑ نے کہا ’’میرا رب جانتا ہے جو کچھ تم کررہے ہو‘‘۔انہوں نے اسے جھٹلادیا، آخرکار چھتری والے دن کا عذاب ان پرآگیا،اور وہ بڑے ہی خوفناک دن کا عذاب تھا۔یقینا اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں ۔ا ور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔(الشعراء۱۹۱)

۳۰۔قرآن کو واضح عربی زبان میں اتارا گیا
یہ رب العٰلمین کی نازل کردہ چیز ہے۔اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار روح اتری ہے تاکہ تو ان لوگوں میں شامل ہو جو (خدا کی طرف سے خلقِ خدا کو) متنبہ کرنے والے ہیں ، صاف صاف عربی زبان میں ۔ اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ موجود ہے۔ کیاان (اہل مکہ) کے لیے یہ کوئی نشانی نہیں ہے کہ اسے علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں ؟ (لیکن ان کی ہٹ دھرمی کا حال تو یہ ہے کہ) اگر ہم اسے کسی عجمی پربھی نازل کردیتے تواور یہ (فصیح عربی کلام) وہ ان کو پڑ ھ کر سناتا تب بھی یہ مان کر نہ دیتے۔اسی طرح ہم نے اس (ذکر) کو مجرموں کے دلوں میں گزارا ہے۔وہ اس پر ایمان نہیں لاتے جب تک کہ عذاب الیم نہ دیکھ لیں ۔ پھر جب وہ بے خبری میں ان پر آپڑتا ہے اس وقت وہ کہتے ہیں کہ ’’کیا اب ہمیں کچھ مہلت مل سکتی ہے‘‘؟ تو کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچارہے ہیں ؟ تم نے کچھ غور کیا، اگر ہم انہیں برسوں تک عیش کرنے کی مہلت بھی دے دیں اور پھر وہی چیز ان پر آجائے جس سے انہیں ڈرایا جارہا ہے تو وہ سامان زیست جو ان کو ملا ہوا ہے ان کے کس کام آئے گا؟ (الشعراء۲۰۷)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۳۱۔اللہ خبردار کیے بغیر کسی بستی کو ہلاک نہیں کرتا
(دیکھو) ہم نے کبھی کسی بستی کواس کے بغیر ہلاک نہیں کیا کہ اس کے لیے خبردار کرنے والے حق نصیحت ادا کرنے کوموجود تھے۔ اور ہم ظالم نہ تھے۔اس (کتاب مبین) کو شیاطین لے کر نہیں اترے ہیں ، نہ یہ کام ان کو سجتا ہے،ا ورنہ وہ ایسا کر ہی سکتے ہیں ۔وہ تو اس کی سماعت تک سے دور رکھے گئے ہیں ۔پس اے نبی ﷺ، اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو، ورنہ تم بھی سزا پانے والوں میں شامل ہوجاؤ گے۔ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراؤ، اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ، لیکن اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں تو ان سے کہہ دو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں ۔اور اس زبردست اوررحیم پر توکل کرو جو تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو، اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ (الشعراء۲۲۰)

۳۲۔ شیاطین جعل ساز،بدکار پر اترا کرتے ہیں
لوگو، کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترا کرتے ہیں ؟وہ ہر جعل ساز،بدکار پر اترا کرتے ہیں ۔سنی سنائی باتیں کانوں میں پُھونکتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ۔ (الشعراء:۲۲۳)

۳۳۔ شعراء نہ کرنے والی باتیں کرتے ہیں
رہے شعراء، تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں ۔کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں … بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیاگیا تو صرف بدلہ لے لیا… اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں ۔ (الشعراء۲۲۷)

۳۴۔منکرینِ آخرت کے کرتوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں
سورۃالنمل:اللہ کے نام سے جو بے انتہامہربا ن اور رحم فرمانے والا ہے۔ط۔س۔یہ آیات ہیں قرآن اور کتاب مبین کی، ہدایت اور بشارت ان ایمان لانے والوں کے لیے جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں ، اور پھر وہ ایسے لوگ ہیں جو آخرت پر پورا یقین رکھتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان کے لیے ہم نے ان کے کرتوتوں کو خوشنما بنا دیا ہے، اس لیے وہ بھٹکتے پھرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے بُری سزا ہے اور آخرت میں یہی سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے ہیں ۔ اور (اے نبی ﷺ) بلاشبہ تم یہ قرآن ایک حکیم و علیم ہستی کی طرف سے پارہے ہو۔(النمل۶)

۳۵۔ فرعون اور اس کی قوم کی طرف نو نشانیاں
(انہیں اس وقت کا قصہ سناؤ) جب موسٰیؑ نے اپنے گھر والوں سے کہاکہ ’’مجھے ایک آگ سی نظر آئی ہے، میں ابھی یا تو وہاں سے کوئی خبر لے کر آتا ہوں یا کوئی انگاراچُن لاتا ہوں تاکہ تم لوگ گرم ہوسکو‘‘۔ وہاں جو پہنچا تو ندا آئی کہ ’’مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور جو اس کے ماحول میں ہے۔ پاک ہے اللہ، سب جہان والوں کا پروردگار۔ اے موسٰیؑ ، یہ میں ہوں اللہ، زبردست اور دانا۔اور پھینک تو ذرا اپنی لاٹھی‘‘۔جونہی کہ موسٰیؑ نے دیکھا لاٹھی سانپ کی طرح بل کھارہی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ ’’اے موسٰیؑ ، ڈرو نہیں ۔ میرے حضور رسول ڈرا نہیں کرتے، الاّیہ کہ کسی نے قصورکیاہو۔ پھر اگر بُرائی کے بعد اس نے بھلائی سے (اپنے فعل کو) بدل لیا تو میں معاف کرنے والا مہربان ہوں ۔اور ذرا اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں تو ڈالو، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔ یہ (دو نشانیاں ) نو نشانیوں میں سے ہیں فرعون اور اس کی قوم کی طرف (لے جانے کے لیے)، وہ بڑے بدکردار لوگ ہیں ‘‘۔مگر جب ہماری کھلی کھلی نشانیاں ان لوگوں کے سامنے آئیں تو انہوں نے کہا یہ تو کھلم کھلا جادو ہے۔ انہوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہوچکے تھے۔اب دیکھ لو کہ ان مفسدوں کا انجام کیسا ہوا۔ (النمل۱۴)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top