• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیغام قرآن: بیسویں پارے کے مضامین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


پیغام قرآن

بیسویں پارہ کے مضامین

مؤلف : یوسف ثانی، مدیر اعلیٰ پیغام قرآن ڈاٹ کام





یوسف ثانی بھائی کے شکریہ کے ساتھ کہ انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پیج فائلز مہیا کیں۔
احباب سے درخواست ہے کہ کہیں ٹائپنگ یا گرامر کی کوئی غلطی پائیں تو ضرور بتائیں۔ علمائے کرام سے گزارش ہے کہ ترجمے کی کسی کوتاہی پر مطلع ہوں تو ضرور یہاں نشاندہی کریں تاکہ یوسف ثانی بھائی کے ذریعے آئندہ ایڈیشن میں اصلاح کی جا سکے۔
پی ڈی ایف فائلز کے حصول کے لئے ، وزٹ کریں:
Please select from ::: Piagham-e-Quran ::: Paigham-e-Hadees


 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
امن خلق کے مضامین


۱۔اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا
۲۔انسان کو زمین کا خلیفہ کس نے بنایا؟
۳۔خلق کی ابتدا اور اس کا اعادہ کرنے والا
۴۔ کیا عجب کہ عذاب کا ایک حصہ قریب ہی ہو
۵۔ جانور لوگوں سے کلام کرے گا
۶۔روشن دن اور سکون آور رات نشانیاں ہیں
۷۔جب پہاڑ بادلوں کی طرح اْڑ یں گے
۸۔ ہدایت اختیار کرو، اپنے ہی بھلے کے لیے
۹۔فرعون و موسیٰؑ کے قصہ میں سبق ہے
۱۰۔ نومولود موسیٰؑ کادریا سے فرعون کے گھر پہنچنا
۱۱۔ نومولود موسیٰؑ کا ماں سے دوبارہ ملنا
۱۲۔جھگڑے میں موسیٰؑ کے ہاتھوں قتل
۱۳۔ موسیٰؑ کا شہر چھوڑ کر نکل جانا
۱۴۔ مدین میں کنویں پر عورتوں کی مدد کرنا
۱۵۔۱۰ ؍سال تک ملازمت اور شادی کا معاہدہ
۱۶۔طور کی جانب روانگی اوراللہ سے ہم کلامی
۱۷۔موسیٰؑ کی نبوت میں ہارونؑ کا شریک ہونا
۱۸۔ اونچی عمارت بنا کہ خدا کو دیکھ سکوں : فرعون
۱۹۔لشکرِ فرعون کا گھمنڈ اور ان کی تباہی
۲۰۔ جب موسیٰؑ کو فرمانِ شریعت عطا ہوا
۲۱۔خدائی ہدایت کے بغیر خواہشات کی پیروی
۲۲۔جو بُرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں
۲۳۔خوشحالی پراترانے والی بستیاں تباہ ہوگئیں
۲۴۔جب بستی والے ظالم ہوجائیں
۲۵۔ صرف حیاتِ دنیا کاسامان پانے والے
۲۶۔اللہ جسے چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے
۲۷۔ اگر رات یا دن تا قیامت طول پکڑجائیں
۲۸۔اللہ ہر امت سے ایک گواہ نکال لائے گا
۲۹۔ قارون کا خزانہ اور اس کی سرکشی
۳۰۔ قارون کا خزانہ زمین میں دھنسا دیاگیا
۳۱۔ انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے
۳۲۔کیا لوگوں کو آزمایا نہ جائے گا؟
۳۳۔شرک میں والدین کی اطاعت نہ کرو
۳۴۔دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم ہے
۳۵۔ کافروں کے طریقے کی پیروی کرنا
۳۶۔ نوحؑ ساڑھے نو سو برس تک جیے
۳۷۔اللہ سے رزق مانگو اور اُسی کی بندگی کرو
۳۸۔ اللہ سے بچانے والا کوئی مددگارنہیں
۳۹۔جنہوں نے اللہ سے ملاقات کا انکار کیا
۴۰۔قومِ لوطؑ نے فحش کام کا آغاز کیا
۴۱۔قومِ لوطؑ کی تباہی کی خبر ابراہیمؑ کودی گئی
۴۲۔زمین میں مفسد بن کر زیادتیاں نہ کرو
۴۳۔جنہوں نے زمین میں اپنی بڑائی کا زعم کیا
۴۴۔غیر اللہ کی سرپرستی یا مکڑی کا گھر
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۔اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا
بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا پھر اُس کے ذریعہ وہ خوشنما باغ اگائے جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی (ان کاموں میں شریک) ہے؟(نہیں )، بلکہ یہی لوگ راہ راست سے ہٹ کر چلے جارہے ہیں ۔ اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے اندر دریا رواں کیے اور اس میں (پہاڑوں کی) میخیں گاڑ دیں اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کردیئے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (ان کاموں میں شریک) ہے؟ نہیں بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نادان ہیں ۔ (النمل۶۱)

۲۔انسان کو زمین کا خلیفہ کس نے بنایا؟
کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے ؟ اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔اور وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تم کو راستہ دکھاتا ہے اور کون اپنی رحمت کے آگے ہواؤں کو خوشخبری لے کر بھیجتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی (یہ کام کرتا) ہے؟ بہت بالا و برتر ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ (النمل۶۳)

۳۔خلق کی ابتدا اور اس کا اعادہ کرنے والا
اور وہ کون ہے جو خلق کی ابتدا کرتا اور پھر اس کااعادہ کرتا ہے؟ اور کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (ان کاموں میں حصہ دار) ہے؟ کہو کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو۔ان سے کہو، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا۔ اور وہ (تمہارے معبود تو یہ بھی) نہیں جانتے کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے۔ بلکہ آخرت کا تو علم ہی ان لوگوں سے گم ہوگیا ہے، بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں ، بلکہ یہ اُس سے اندھے ہیں ۔(النمل۶۶)

۴۔ کیا عجب کہ عذاب کا ایک حصہ قریب ہی ہو
یہ منکرین کہتے ہیں ’’کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہوچکے ہوں گے تو ہمیں واقعی قبروں سے نکالا جائے گا؟ یہ خبریں ہم کو بھی بہت دی گئی ہیں اور پہلے ہمارے آباؤاجداد کو بھی دی جاتی رہی ہیں ، مگر یہ بس افسانے ہی افسانے ہیں جو اگلے وقتوں سے سنتے چلے آرہے ہیں ‘‘۔کہو ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ مجرموں کا کیا انجام ہوچکا ہے۔اے نبی ﷺ، ان کے حال پررنج نہ کرو اور نہ ان کی چالوں پر دل تنگ ہو…وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ دھمکی کب پوری ہوگی اگر تم سچے ہو‘‘؟ کہو کیا عجب کہ جس عذاب کے لیے تم جلدی مچا رہے ہو اس کا ایک حصہ تمہارے قریب ہی آلگا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب تو لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ بلاشُبہ تیرا رب خوب جانتا ہے جو کچھ ان کے سینے اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں ۔ آسمان و زمین کی کوئی پوشیدہ چیز ایسی نہیں ہے جو ایک واضح کتاب میں لکھی ہوئی موجود نہ ہو ۔ (النمل:…۷۵)

۵۔ جانور لوگوں سے کلام کرے گا
یہ واقعہ ہے کہ یہ قرآن بنی اسرائیل کو اکثر ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہے جن میں وہ اختلاف رکھتے ہیں اور یہ ہدایت اور رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لیے۔ یقینا (اسی طرح) تیرا رب ان لوگوں کے درمیان بھی اپنے حکم سے فیصلہ کردے گا اور وہ زبردست اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ پس اے نبی ﷺ، اللہ پر بھروسہ رکھو، یقینا تم صریح حق پر ہو۔ تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے، نہ اُن بہروں تک اپنی پکار پہنچا سکتے ہو جو پیٹھ پھیر کر بھاگے جارہے ہوں ، اور نہ اندھوں کو راستہ بتاکر بھٹکنے سے بچا سکتے ہو۔ تم تو اپنی بات انہی لوگوں کو سُنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر فرماں بردار بن جاتے ہیں ۔اور جب ہماری بات پوری ہونے کا وقت اُن پر آپہنچے گا تو ہم ان کے لیے ایک جانور زمین سے نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات پریقین نہیں کرتے تھے۔ (النمل…۸۲)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۶۔روشن دن اور سکون آور رات نشانیاں ہیں
اور ذرا تصور کرو اس دن کا جب ہم ہر امت میں سے ایک فوج کی فوج ان لوگوں کی گھیر لائیں گے جو ہماری آیات کو جُھٹلایا کرتے تھے، پھر ان کو (ان کی اقسام کے لحاظ سے درجہ بدرجہ) مرتب کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب سب آجائیں گے، تو (ان کا رب ان سے) پُوچھے گا کہ ’’تم نے میری آیات کو جھٹلا دیا حالانکہ تم نے ان کا علمی احاطہ نہ کیا تھا؟ اگر یہ نہیں تو اور تم کیا کررہے تھے‘‘؟ اور ان کے ظلم کی وجہ سے عذاب کا وعدہ ان پر پورا ہوجائے گا، تب وہ کچھ بھی نہ بول سکیں گے۔ کیاان کو سُجھائی نہ دیتا تھا کہ ہم نے رات ان کے لیے سکون حاصل کرنے کو بنائی تھی اور دن کو روشن کیا تھا؟ اس میں بہت نشانیاں تھیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے تھے۔(النمل۸۶)

۷۔جب پہاڑ بادلوں کی طرح اْڑ یں گے
اورکیاگزرے گی اس روز جبکہ صُور پھونکا جائے گا اور ہَول کھاجائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں … سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ اس ہَول سے بچانا چاہے گا … اور سب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہوجائیں گے۔ آج تُو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں ، مگر اس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے، یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہوگا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ اُستوار کیا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ تم لوگ کیا کرتے ہو۔ جو شخص بھلائی لے کر آئے گا اسے اس سے زیادہ بہتر صلہ ملے گا اور ایسے لوگ اس دن کے ہَول سے محفوظ ہوں گے، اور جو بُرائی لیے ہوئے آئے گا، ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے۔ کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پاسکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو؟ (النمل۹۰)

۸۔ ہدایت اختیار کرو، اپنے ہی بھلے کے لیے
(اے نبی ﷺ، ان سے کہو) ’’مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہر (مکہ) کے رب کی بندگی کروں جس نے اسے حرم بنایا ہے اور جو ہر چیز کا مالک ہے۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بن کر رہوں اور یہ قرآن پڑھ کر سُناؤں ‘‘۔ اب جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے ہی بھلے کے لیے ہدایت اختیار کرے گا اور جو گمراہ ہو اس سے کہہ دو کہ ’’میں تو بس خبردار کردینے والا ہوں ‘‘۔ ان سے کہو، تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے گا اور تم انہیں پہچان لو گے، اور تیرا رب بے خبر نہیں ہے ان اعمال سے جو تم لوگ کرتے ہو۔(النمل۹۳)

۹۔فرعون و موسیٰؑ کے قصہ میں سبق ہے
سورۃ القصص: اللہ کے نام سے جو بے انتہامہربا ن اور رحم فرمانے والا ہے۔ ط ۔ س۔ م ۔ یہ کتاب مُبین کی آیات ہیں ۔ ہم موسٰیؑ اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک تمہیں سناتے ہیں ، ایسے لوگوں کے فائدے کے لیے جو ایمان لائیں ۔واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی والواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنادیں اور اُنہی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا۔ (سورۃ القصص۶)

۱۰۔ موسیٰؑ کادریا سے فرعون کے گھر پہنچنا
ہم نے موسٰیؑ کی ماں کو اشارہ کیا کہ ’’اس کو دُودھ پلا، پھر جب تجھے اس کی جان کا خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر، ہم اسے تیرے ہی پاس لے آئیں گے اور اس کو پیغمبروں میں شامل کریں گے‘‘۔ آخرکار فرعون کے گھر والوں نے اسے (دریا سے) نکال لیا تاکہ وہ ان کا دشمن اور ان کے لیے سبب رنج بنے، واقعی فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر (اپنی تدبیر میں ) بڑے غلط کار تھے۔ فرعون کی بیوی نے (اس سے ) کہا ’’یہ میرے اور تیرے لیے آنکھوں کو ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، کیاعجب کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا ہی بناڈالیں ‘‘۔ اور وہ (انجام سے) بے خبر تھے۔ (سورۃ القصص۹)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۱۔ نومولود موسیٰؑ کا ماں سے دوبارہ ملنا
اُدھر موسٰیؑ کی ماں کا دل اُڑا جارہا تھا۔وہ اُس کا راز فاش کر بیٹھتی اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھا دیتے تاکہ وہ (ہمارے وعدے پر) ایمان لانے والوں میں سے ہو۔ اس نے بچے کی بہن سے کہا اس کے پیچھے پیچھے جا۔ چنانچہ وہ الگ سے اس کو اس طرح دیکھتی رہی کہ (دشمنوں کو) اس کا پتہ نہ چلا۔اور ہم نے بچے پر پہلے ہی دُودھ پلانے والوں کی چھاتیاں حرام کررکھی تھیں ۔ (یہ حالت دیکھ کر) اس لڑکی نے اُن سے کہا ’’میں تمہیں ایسے گھرکا پتا بتاؤں جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمہ لیں اور خیرخواہی کے ساتھ اسے رکھیں ‘‘؟ اس طرح ہم موسٰیؑ کو اس کی ماں کے پاس پلٹا لائے تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غمگین نہ ہو اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا تھا، مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔(سورۃ القصص۱۳)

۱۲۔جھگڑے میں موسیٰؑ کے ہاتھوں قتل
جب موسیٰؑ اپنی پوری جوانی کو پہنچ گیا اور اس کا نشوونما مکمل ہوگیاتو ہم نے اسے حُکم اور علم عطا کیا، ہم نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ۔ (ایک روز) وہ شہر میں ایسے وقت داخل ہوا جبکہ اہل شہر غفلت میں تھے۔ وہاں اس نے دیکھا کہ دو آدمی لڑرہے ہیں ۔ ایک اس کی اپنی قوم کا تھا اور دوسرا اس کی دشمن قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی قوم کے آدمی نے دشمن قوم والے کے خلاف اُسے مدد کے لیے پکارا۔ موسٰیؑ نے اس کو ایک گھونسا مارا اور اس کا کام تمام کردیا۔ (یہ حرکت سرزد ہوتے ہی) موسیٰؑ نے کہا، ’’یہ شیطان کی کارفرمائی ہے، وہ سخت دشمن اور کھلا گمراہ کُن ہے‘‘، پھر وہ کہنے لگا ’’اے میرے رب، میں نے اپنے نفس پر ظلم کرڈالا، میری مغفرت فرمادے؟‘‘۔ چنانچہ اللہ نے اس کی مغفرت فرمادی، وہ غفور رحیم ہے۔موسیٰؑ نے عہد کیا کہ ’’اے میرے رب، یہ احسان جو تو نے مجھ پر کیا ہے اس کے بعد اب میں کبھی مجرم کا مددگار نہ بنوں گا‘‘۔ (سورۃ القصص۱۷)

۱۳۔ موسیٰؑ کا شہر چھوڑ کر نکل جانا
دوسرے روز وہ صبح سویرے ڈرتا اور ہر طرف سے خطرہ بھانپتا ہوا شہر میں جارہا تھا کہ یکایک کیادیکھتا ہے کہ وہی شخص جس نے کل اسے مدد کے لیے پکارا تھا آج پھر اسے پکا رہاہے۔موسیٰؑ نے کہا ’’تُو تو بڑا ہی بہکا ہوا آدمی ہے‘‘۔ پھر جب موسیٰؑ نے ارادہ کیا کہ دشمن قوم کے آدمی پر حملہ کرے تو وہ پکار اٹھا ’’اے موسیٰؑ ، کیاآج تو مجھے اُسی طرح قتل کرنے لگا ہے جس طرح کل ایک شخص کو قتل کرچکا ہے؟ تو اس ملک میں جبار بن کر رہنا چاہتا ہے،اصلاح کرنا نہیں چاہتا‘‘۔ اس کے بعد ایک آدمی شہرکے پرلے سرے سے دوڑتا ہوا آیا اور بولا، ’’موسیٰؑ ، سرداروں میں تیرے قتل کے مشورے ہورہے ہیں ،یہاں سے نکل جا میں تیرا خیرخواہ ہوں ‘‘۔ یہ خبر سنتے ہی موسیٰؑ ڈرتا اور سہما نکل کھڑا ہوا اوراس نے دعا کی کہ ’’اے میرے رب، مجھے ظالموں سے بچا‘‘(سورۃ القصص۲۱)

۱۴۔ مدین میں کنویں پر عورتوں کی مدد کرنا
(مصر سے نکل کر) جب موسٰیؑ نے مدین کا رخ کیا تو اس نے کہا ’’امید ہے کہ میرا رب مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا‘‘۔ اور جب وہ مدین کے کنویں پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلارہے ہیں اور ان سے الگ ایک طرف دو عورتیں اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں ۔ موسیٰؑ نے ان عورتوں سے پوچھا ’’تمہیں کیا پریشانی ہے‘‘؟ انہوں نے کہا ’’ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلاسکتیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ نکال لے جائیں ، اور ہمارے والد ایک بہت بوڑھے آدمی ہیں ‘‘۔ یہ سُن کر موسٰیؑ نے ان کے جانوروں کو پانی پلادیا، پھر ایک سائے کی جگہ جابیٹھا اور بولا ’’پروردگار، جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کردے میں اس کا محتاج ہوں ‘‘۔ (سورۃ القصص۲۴)

۱۵۔۱۰؍سال تک ملازمت اور شادی کا معاہدہ
(کچھ دیر نہ گزری تھی کہ) ان دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی ’’میرے والد آپ کو بُلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے لیے جانوروں کو پانی جو پلایاہے اس کا اجر آپ کو دیں ‘‘۔موسٰیؑ جب اس کے پاس پہنچا اوراپنا سارا قصہ اسے سُنایا تو اس نے کہا ’’کچھ خوف نہ کرو، اب تم ظالم لوگوں سے بچ نکلے ہو‘‘۔ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا ’’ابا جان، اس شخص کو نوکر رکھ لیجئے، بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں وہی ہوسکتا ہے جومضبوط اور امانت دار ہو‘‘۔ اس کے باپ نے (موسٰیؑ سے) کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تمہارے ساتھ کردوں بشرطیکہ تم آٹھ سال تک میرے ہاں ملازمت کرو، اور اگر دس سال پورے کردو تو یہ تمہاری مرضی ہے۔ میں تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا۔ تم ان شاء اللہ مجھے نیک آدمی پاؤ گے‘‘۔موسٰیؑ نے جواب دیا ’’یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہوگئی۔ان دونوں مدتوں میں سے جو بھی پوری کردوں اس کے بعد پھر کوئی زیادتی مجھ پر نہ ہو، اور جو کچھ قول قرار ہم کررہے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے‘‘۔ (سورۃ القصص…۲۸)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۶۔طور کی جانب روانگی اوراللہ سے ہم کلامی
جب موسٰیؑ نے مدت پوری کردی اور وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا تو طُور کی جانب اس کو ایک آگ نظر آئی۔ اس نے اپنے گھر والوں سے کہا ’’ٹھیرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے کوئی خبر لے آؤں یا اس آگ سے کوئی انگارہ اٹھا لاؤں جس سے تم تاپ سکو‘‘۔ وہاں پہنچا تو وادی کے داہنے کنارے پر مبارک خطے میں ایک درخت سے پکاراگیا کہ ’’اے موسٰیؑ ، میں ہی اللہ ہوں ، سارے جہان والوں کا مالک‘‘۔ اور (حکم دیاگیا کہ) پھینک دے اپنی لاٹھی۔ جوں ہی موسٰیؑ نے دیکھا کہ وہ لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگا اور اس نے مڑکر بھی نہ دیکھا۔ (ارشاد ہوا) ’’موسٰیؑ پلٹ آ اور خوف نہ کر، تو بالکل محفوظ ہے۔ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔اور خوف سے بچنے کے لیے اپنا بازوبھینچ لے۔ (سورۃ القصص۳۲)

۱۷۔موسیٰؑ کی نبوت میں ہارونؑ کا شریک ہونا
یہ دو روشن نشانیاں ہیں تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے، وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں ‘‘۔ موسٰیؑ نے عرض کیا ’’میرے آقا، میں توان کا ایک آدمی قتل کرچکا ہوں ، ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے، اور میرا بھائی ہارونؑ مجھ سے زیادہ زبان آور ہے، اسے میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج تاکہ وہ میری تائید کرے، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے‘‘ فرمایا ’’ہم تیرے بھائی کے ذریعہ سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمہارا اور تمہارے پیروؤں کا ہی ہوگا‘‘۔ (سورۃ القصص۳۵)

۱۸۔ اونچی عمارت بنا کہ خدا کو دیکھ سکوں : فرعون
پھر جب موسٰیؑ ان لوگوں کے پاس ہماری کُھلی کھُلی نشانیاں لے کر پہنچا تو انہوں نے کہا ’’یہ کچھ نہیں ہے مگر بناوٹی جادو۔ اور یہ باتیں تو ہم نے اپنے باپ دادا کے زمانے میں کبھی سنی ہی نہیں ‘‘۔موسٰیؑ نے جواب دیا’’میرا رب اس شخص کے حال سے خوب واقف ہے جو اس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ آخری انجام کس کااچھا ہونا ہے، حق یہ ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے‘‘۔اور فرعون نے کہا ’’اے اہل دربار، میں تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں جانتا۔ ہامان، ذرا اینٹیں پکواکر میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا، شاید کہ اس پر چڑھ کر میں موسٰیؑ کے خدا کو دیکھ سکوں ، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں ‘‘۔(سورۃ القصص۳۸)

۱۹۔لشکرِ فرعون کا گھمنڈ اور ان کی تباہی
اس نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیااور سمجھے کہ انہیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے۔ آخرکار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا۔ اب دیکھ لو کہ ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔ ہم نے انہیں جہنم کی طرف دعوت دینے والے پیش رو بنا دیا اور قیامت کے روز وہ کہیں سے کوئی مدد نہ پاسکیں گے۔ہم نے اس دنیا میں اس کے پیچھے لعنت لگادی اور قیامت کے روز وہ بڑی قباحت میں مُبتلا ہوں گے۔ (سورۃ القصص۴۲)

۲۰۔ جب موسیٰؑ کو فرمانِ شریعت عطا ہوا
پچھلی نسلوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسٰیؑ کو کتاب عطا کی، لوگوں کے لیے بصیرتوں کا سامان بناکر،ہدایت اوررحمت بناکر، تاکہ شاید لوگ سبق حاصل کریں ۔ (اے نبی ﷺ) تم اس وقت مغربی گوشے میں موجود نہ تھے جب ہم نے موسٰیؑ کو یہ فرمان شرعیت عطا کیا، اور نہ تم شاہدین میں شامل تھے، بلکہ اس کے بعد (تمہارے زمانے تک) ہم بہت سی نسلیں اٹھاچکے ہیں اور ان پر بہت زمانہ گزر چکا ہے۔ تم اہل مدین کے درمیان بھی موجود نہ تھے کہ ان کو ہماری آیات سُنا رہے ہوتے، مگر (اس وقت کی یہ خبریں ) بھیجنے والے ہم ہیں ۔ اور تم طور کے دامن میں بھی اس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے موسٰیؑ کو پہلی مرتبہ) پکارا تھا، مگر یہ تمہارے رب کی رحمت ہے (کہ تم کو یہ معلومات دی جارہی ہیں ) تاکہ تم ان لوگوں کو متنبہ کرو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہوش میں آئیں ۔ (اور یہ ہم نے اس لیے کیا کہ) کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے اپنے کیے کرتوتوں کی بدولت کوئی مصیبت جب ان پر آئے تو وہ کہیں ’’اے پروردگار، تُونے کیوں نہ ہماری طرف کوئی رسول بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اورا ہل ایمان میں سے ہوتے‘‘۔(القصص۴۷)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۲۱۔خدائی ہدایت کے بغیر خواہشات کی پیروی
مگرجب ہمارے ہاں سے حق ان کے پاس آگیا تو وہ کہنے لگے ’’کیوں نہ دیا گیااس کو وہی کچھ جو موسٰیؑ کو دیا گیا تھا‘‘؟ کیا یہ لوگ اس کا انکار نہیں کرچکے ہیں جو اس سے پہلے موسٰیؑ کو دیاگیا تھا؟ انہوں نے کہا ’’دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ‘‘۔ اور کہا ’’ہم کسی کو نہیں مانتے‘‘۔ (اے نبی ﷺ) ان سے کہو، ’’اچھا تو لاؤ اللہ کی طرف سے کوئی کتاب جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہو اگر تم سچے ہو، میں اسی کی پیروی اختیار کروں گا‘‘۔ اب اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں ، اور اس شخص سے بڑھ کرکون گمراہ ہوگا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟ اللہ ایسے ظالموں کو ہر گز ہدایت نہیں بخشتا۔(سورۃ القصص۵۰)

۲۲۔جو بُرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں
اور (نصیحت کی) بات پے درپے ہم انہیں پہنچا چکے ہیں تاکہ وہ غفلت سے بیدار ہوں ۔جن لوگوں کو اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں ۔ اور جب یہ ان کو سُنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم اس پر ایمان لائے، یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے، ہم تو پہلے ہی سے مسلم ہیں ‘‘۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دو بار دیاجائے گا اس ثابت قدمی کے بدلے جو انہوں نے دکھائی۔ وہ بُرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے ان میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ اور جب انہوں نے بے ہودہ بات سُنی تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہوگئے کہ ’’ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم کو سلام ہے، ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیارکرنا نہیں چاہتے‘‘ اے نبیﷺ، تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں ۔(سورۃ القصص۵۶)

۲۳۔خوشحالی پراترانے والی بستیاں تباہ ہوگئیں
وہ کہتے ہیں ’’اگر ہم تمہارے ساتھ اس ہدایت کی پیروی اختیار کرلیں تو اپنی زمین سے اُچک لیے جائیں گے‘‘۔کیایہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پُرامن حرم کو ان کے لیے جائے قیام بنا دیا جس کی طرف ہر طرح کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں ، ہماری طرف سے رزق کے طور پر؟مگران میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کرچکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اِتراگئے تھے۔سو دیکھ لو، وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے، آخرکار ہم ہی وارث ہوکر رہے۔(سورۃ القصص۵۸)

۲۴۔جب بستی والے ظالم ہوجائیں
اور تیرا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہ تھا جب تک کہ ان کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دیتا جو ان کو ہماری آیات سُناتا۔ اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجاتے۔ تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیاگیا ہے وہ محض دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے۔ کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟ ( القصص…۶۰)

۲۵۔ صرف حیاتِ دنیا کاسامان پانے والے
بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو کبھی اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جسے ہم نے صرف حیاتِ دنیا کا سروسامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے روز سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو؟اور (بھول نہ جائیں یہ لوگ) اُس دن کو جبکہ وہ ان کو پکارے گا اور پُوچھے گا ’’کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے‘‘؟ یہ قول جن پر چسپاں ہوگا وہ کہیں گے ؟’’اے ہمارے رب! بے شک یہی لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا۔ انہیں ہم نے اسی طرح گمراہ کیا جیسے ہم خود گمراہ ہوئے۔ ہم آپ کے سامنے براء ت کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہ ہماری تو بندگی نہیں کرتے تھے‘‘۔ پھر ان سے کہا جائے گا کہ پکارو اب اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو۔ یہ انہیں پکاریں گے مگر وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے۔ اور یہ لوگ عذاب دیکھ لیں گے۔ کاش یہ ہدایت اختیار کرنے والے ہوتے۔(سورۃ القصص۶۴)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۲۶۔اللہ جسے چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے
اور (فراموش نہ کریں یہ لوگ)وہ دن جب کہ وہ ان کو پکارے گا اور پوچھے گاکہ ’’جو رسول بھیجے گئے تھے انہیں تم نے کیا جواب دیا تھا‘‘؟ اس وقت کوئی جواب ان کو نہ سوجھے گا اور نہ یہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ ہی سکیں گے۔ البتہ جس نے آج توبہ کرلی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے وہی یہ توقع کرسکتا ہے کہ وہاں فلاح پانے والوں میں سے ہوگا۔تیرا رب پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور (خود ہی اپنے کام کے لیے جسے چاہتا ہے) منتخب کرلیتا ہے، یہ انتخاب ان لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ اللہ پاک ہے اور بہت بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ تیرا رب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں ۔ وہی ایک اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ۔ اسی کے لیے حمد ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، فرماں روائی اس کی ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔ (سورۃ القصص۷۰)

۲۷۔ اگر رات یا دن تا قیامت طول پکڑجائیں
اے نبی ﷺ، ان سے کہو کبھی تم لوگوں نے غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات طاری کردے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہیں روشنی لادے؟ کیا تم سُنتے نہیں ہو؟ ان سے پوچھو، کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے دن طاری کردے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہیں رات لادے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرسکو؟ کیا تم کو سُوجھتا نہیں ؟ یہ اُسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم (رات میں ) سکون حاصل کرو اور (دن کو) اپنے رب کا فضل تلاش کرو، شاید کہ تم شکرگزار بنو۔ (سورۃ القصص۷۳)

۲۸۔اللہ ہر امت سے ایک گواہ نکال لائے گا
(یاد رکھیں یہ لوگ) وہ دن جب کہ وہ انہیں پکارے گا پھر پُوچھے گا ’’کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے‘‘؟اور ہم ہر امت میں سے ایک گواہ نکال لائیں گے پھر کہیں گے کہ ’’لاؤ اب اپنی دلیل‘‘۔ اُس وقت انہیں معلوم ہوجائے گا کہ حق اللہ کی طرف ہے، اور گم ہو جائیں گے ان کے وہ سارے جُھوٹ جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے۔(سورۃ القصص۷۵)

۲۹۔ قارون کا خزانہ اور اس کی سرکشی
یہ ایک واقعہ ہے کہ قارون موسٰیؑ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہوگیا۔ اور ہم نے اُس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی۔ ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا ’’پُھول نہ جا، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے ا س سے آخرت کا گھر بنانے کی فکرکر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے، اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ تو اس نے کہا ’’یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیاگیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے‘‘… کیا اس کو یہ علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کرچکا ہے جو اس سے زیادہ قوت اورجمعیت رکھتے تھے؟ مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے (القصص:۷۸)

۳۰۔ قارون کا خزانہ زمین میں دھنسا دیاگیا
ایک روز وہ اپنی قوم کے سامنے اپنے پُورے ٹھاٹھ میں نکلا۔ جو لوگ حیاتِ دنیا کے طالب تھے وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے ’’کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے، یہ تو بڑا نصیبے والا ہے‘‘۔ مگر جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے ’’افسوس تمہارے حال پر، اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے ، اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو‘‘۔آخرکار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دَھنسا دیا۔ پھر کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کو آتا اور نہ وہ خود اپنی مدد آپ کرسکا۔ اب وہی لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کررہے تھے کہنے لگے ’’افسوس، ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپَا تُلا دیتا ہے۔ اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا تو ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا۔ افسوس ہم کو یاد نہ رہا کہ کافر فلاح نہیں پایا کرتے‘‘۔ (القصص۸۲)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۳۱۔ انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے
وہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کردیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں ۔ اور انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے۔ جو کوئی بھلائی لے کر آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر بھلائی ہے ، اور جو برائی لے کر آئے تو برائیاں کرنے والوں کو ویسا ہی بدلہ ملے گا جیسے عمل وہ کرتے تھے۔ اے نبی ﷺ، یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے وہ تمہیں ایک بہترین انجام کو پہنچا نے والا ہے۔ ان لوگوں سے کہہ دو کہ ’’میرا رب خوب جانتا ہے کہ ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کُھلی گمراہی میں کون مُبتلا ہے‘‘۔ تم اس بات کے ہرگز امیدوار نہ تھے کہ تم پر کتاب نازل کی جائے گی، یہ تو محض تمہارے رب کی مہربانی سے (تم پر نازل ہوئی ہے)، پس تم کافروں کے مددگار نہ بنو۔ اور ایسا کبھی نہ ہونے پائے کہ اللہ کی آیات جب تم پر نازل ہوں تو کفار تمہیں ان سے باز رکھیں ۔ اپنے رب کی طرف دعوت دو اور ہرگز مشرکوں میں شامل نہ ہو اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے۔ فرمانروائی اسی کی ہے اوراسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو(القصص۸۸)

۳۲۔کیا لوگوں کو آزمایا نہ جائے گا؟
سورۃ العنکبوت :اللہ کے نام سے جو بے انتہامہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ ا۔ ل۔ م ۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں ۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔اور کیا وہ لوگ جو بُری حرکتیں کررہے ہیں ۔یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے؟بڑا غلط حکم ہے جووہ لگارہے ہیں ۔ جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو (اسے معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے ہی والا ہے، اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ جو شخص بھی مجاہدہ کرے گا اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا۔اللہ یقینا دنیا جہان والوں سے بے نیاز ہے۔ اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک اعمال کریں گے ان کی برائیاں ہم ان سے دور کردیں گے اور انہیں ان کے بہترین اعمال کی جزا دیں گے۔ (العنکبوت…۷)

۳۳۔شرک میں والدین کی اطاعت نہ کرو
ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود) کو شریک ٹھیرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر۔ میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کرآنا ہے، پھر میں تم بتا دوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ اور جو لوگ ایمان لائے ہوں گے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ہوں گے ان کو ہم ضرور صالحین میں داخل کریں گے۔ (العنکبوت۹)

۳۴۔دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم ہے
لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر۔ مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایاگیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا۔ اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آگئی تو یہی شخص کہے گا کہ ’’ہم تو تمہارے ساتھ تھے‘‘۔ کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے؟ اوراللہ کو تو ضروریہ دیکھنا ہی ہے کہ ایمان لانے والے کون ہیں اور منافق کون۔ (سورۃ العنکبوت۱۱)

۳۵۔ کافروں کے طریقے کی پیروی کرنا
یہ کافر لوگ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اوپر لے لیں گے۔ حالانکہ ان کی خطاؤں میں سے کچھ بھی وہ اپنے اوپر لینے والے نہیں ہیں ، وہ قطعاً جھوٹ کہتے ہیں ۔ہاں ضرور وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے بہت سے بوجھ بھی۔ اور قیامت کے روز یقینا ان سے ان افتراپردازیوں کی بازپرس ہوگی جو وہ کرتے رہے ہیں ۔ (سورۃ العنکبوت…۱۳)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top