• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیغام قرآن: تیرہویں پارے کے مضامین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


پیغام قرآن

تیرہویں پارہ کے مضامین

مؤلف : یوسف ثانی، مدیر اعلیٰ پیغام قرآن ڈاٹ کام






یوسف ثانی بھائی کے شکریہ کے ساتھ کہ انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پیج فائلز مہیا کیں۔
احباب سے درخواست ہے کہ کہیں ٹائپنگ یا گرامر کی کوئی غلطی پائیں تو ضرور بتائیں۔ علمائے کرام سے گزارش ہے کہ ترجمے کی کسی کوتاہی پر مطلع ہوں تو ضرور یہاں نشاندہی کریں تاکہ یوسف ثانی بھائی کے ذریعے آئندہ ایڈیشن میں اصلاح کی جا سکے۔
پی ڈی ایف فائلز کے حصول کے لئے ، وزٹ کریں:
Please select from ::: Piagham-e-Quran ::: Paigham-e-Hadees


 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
ومآابرّی کے مضامین



۱۔بادشاہ کا یوسفؑ پر بھروسہ کرنا
۲۔ یوسفؑ کے بھائی مصر آئے
۳۔زیادہ غلہ کے لیے یوسفؑ کی شرط
۴۔ اپنے سگے بھائی کو پکڑوانے کی ترکیب
۵۔ برادرانِ یوسفؑ کی پریشانی
۶۔ بیٹوں کے غم میں یعقوبؑ کی افسردگی
۷۔یوسفؑ کا بھائیوں کو اپنی حقیقت بتلانا
۸۔ یعقوبؑ کی بینائی لوٹ آئی
۹۔ بھائیوں کا یوسفؑ کے آگے سجدہ ریزہونا
۱۰۔زمین اور آسمانوں میں اللہ کی نشانیاں
۱۱۔ سارے پیغمبرؑ انسان ہی تھے
۱۲۔ آفتاب و ماہتاب ایک قانون کا پابند ہیں
۱۳۔پہاڑ زمین کے کھونٹے ہیں
۱۴۔ایک ہی پانی سے الگ الگ مزے
۱۵۔ اللہ حمل کی تفصیلات تک سے واقف ہے
۱۶۔اللہ کسی قوم کی حالت کب تک نہیں بدلتا ؟
۱۷۔پانی سے لدے بادل اور کڑکتی بجلیاں
۱۸۔ غیر اللہ کو پکارنے والے کی مثال
۱۹۔اللہ کے علاوہ دیگر معبودوں کو کارساز بنانا
۲۰۔پانی کا برسنا اور ندی نالہ کا بہنا
۲۱۔ رب کی دعوت قبول نہ کرنے کی سزا
۲۲۔نصیحت دانشمند لوگ قبول کرتے ہیں
۲۳۔ جنت میں فرشتے استقبال کریں گے
۲۴۔دلوں کا اطمینان اللہ کی یاد میں ہے
۲۵۔مصیبت کرتوتوں کی وجہ سے آتی رہتی ہے
۲۶۔خدا کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا
۲۷۔ رسول از خود کوئی نشانی نہیں دکھا سکتا
۲۸۔اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی
۲۹۔دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینا
۳۰۔ تاریخِ الٰہی کے واقعات سبق آموز ہیں
۳۱۔کُفرانِ نعمت کی سزا بہت سخت ہے
۳۲۔ اہل ایمان کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے
۳۳۔ جہنم میں کچ لہو کا سا پانی پینے کو ملے گا
۳۴۔کافروں کے اعمال راکھ جیسی ہے
۳۵۔ عذابِ الٰہی سے بڑے بھی نہیں بچا سکتے
۳۶۔شیطان بہکا سکتا ہے، مجبور نہیں کرسکتا
۳۷۔ کلمۂ طیبہ اور کلمۂ خبیثہ کی مثالیں
۳۸۔نعمت کو کفرانِ نعمت میں بدلنے والے
۳۹۔ دنیا میں طلب کے مطابق سب کچھ ملتاہے
۴۰۔ ابراہیمؑ کو اسماعیلؑ اور اسحاقؑ کب ملے
۴۱۔اللہ ظالموں کے اعمال سے غافل نہیں
۴۲۔ اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۔بادشاہ کا یوسفؑ پر بھروسہ کرنا
میں کچھ اپنے نفس کی برأت نہیں کررہا ہوں ، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الاّیہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو، بے شک میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے‘‘۔بادشاہ نے کہا ’’انہیں میرے پاس لاؤ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصوص کرلوں ‘‘۔جب یوسفؑ نے اس سے گفتگو کی تواس نے کہا ’’اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسہ ہے‘‘۔ یوسفؑ نے کہا، ’’ملک کے خزانے میرے سپرد کیجئے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں ‘‘(سورۃ یوسف…۵۵)
اس طرح ہم نے اس سرزمین میں یوسفؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں ،نیک لوگوں کا اجرہمارے ہاں مارا نہیں جاتا،اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لے آئے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ (سورۃ یوسف…۵۷)

۲۔ یوسفؑ کے بھائی مصر آئے
یوسفؑ کے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے۔اس نے انہیں پہچان لیا مگر وہ اس سے ناآشنا تھے۔ پھر جب اس نے ان کا سامان تیار کروادیا تو چلتے وقت ان سے کہا ’’اپنے سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا۔ دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں ۔ اگر تم اسے نہ لاؤ گے تو میرے پاس تمہارے لیے کوئی غلہ نہیں ہے بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ہم کوشش کریں گے کہ والد صاحب اسے بھیجنے پر راضی ہوجائیں ، اور ہم ایسا ضرور کریں گے‘‘۔ یوسفؑ نے اپنے غلاموں کو اشارہ کیا کہ ’’ان لوگوں نے غلے کے عوض جو مال دیا ہے وہ چپکے سے ان کے سامان ہی میں رکھ دو‘‘۔ یہ یوسفؑ نے اس امید پر کیا کہ گھر پہنچ کر وہ اپنا واپس پایا ہوا مال پہچان جائیں گے (یا اس فیاضی پر احسان مند ہوں گے) اور عجب نہیں کہ پھر پلٹیں ۔ (سورۃ یوسف…۶۲)

۳۔زیادہ غلہ کے لیے یوسفؑ کی شرط
جب وہ اپنے باپ کے پاس گئے تو کہا ’’ابا جان ، آئندہ ہم کو غلہ دینے سے انکار کردیا گیا ہے، لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ لے کر آئیں ۔اور اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں ‘‘۔ باپ نے جواب دیا ’’کیا میں اس کے معاملہ میں تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا اس سے پہلے اُس کے بھائی کے معاملہ کرچکا ہوں ؟ اللہ ہی بہترمحافظ ہے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ پھر جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ اُن کا مال بھی انہیں واپس کردیا گیا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ پکار اٹھے۔ ’’ابا جان، اور ہمیں کیا چاہیے، دیکھئے یہ ہمارا مال بھی ہمیں واپس دے دیاگیا ہے۔ بس اب ہم جائیں گے اوراپنے اہل و عیال کے لیے رسد لے کر آئیں گے، اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اورایک بار شتر اور زیادہ بھی لے آئیں گے، اتنے غلّہ کا اضافہ آسانی کے ساتھ ہوجائے گا‘‘۔ ان کے باپ نے کہا ’’میں اس کو ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے نام سے مجھ کو پیمان نہ دے دو کہ اسے میرے پاس ضرور واپس لے کر آؤ گے الاّیہ کہ تم گھیر ہی لیے جاؤ‘‘۔ جب انہوں نے اس کو اپنے اپنے پیمان دے دیئے تو اس نے کہا ’’دیکھو، ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے‘‘۔ پھراس نے کہا ’’میرے بچو، مصر کے دارالسلطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا۔ مگر میں اللہ کی مشیت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا، اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پرکرے‘‘۔ اور واقعہ بھی یہی ہوا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق شہر میں (متفرق دروازوں سے) داخل ہوئے تو اس کی یہ احتیاطی تدابیر اللہ کی مشیت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آسکی۔ ہاں بس یعقوبؑ کے دل میں جو ایک کھٹک تھی اسے دور کرنے کے لیے اس نے اپنی سی کوشش کرلی۔ بیشک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحب علم تھا مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں ۔(سورۃ یوسف…۶۸)

۴۔ اپنے سگے بھائی کو پکڑوانے کی ترکیب
یہ لوگ یوسفؑ کے حضور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلالیااور اسے بتادیا کہ ’’میں تیرا وہی بھائی ہوں (جو کھویا گیا تھا) اب تو ان باتوں کا غم نہ کر جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں ‘‘۔جب یوسفؑ ان بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تواس نے اپنے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا۔ پھر ایک پکارنے والے نے پکارکر کہا ’’اے قافلے والو، تم لوگ چور ہو‘‘۔ انہوں نے پلٹ کر پوچھا ’’تمہاری کیا چیز کھوئی گئی؟‘‘ سرکاری ملازموں نے کہا ’’بادشاہ کا پیمانہ ہم کو نہیں ملتا‘‘۔ (اور اُن کے جمعدار نے کہا) ’’جو شخص لاکر دے گا اس کے لیے ایک بار شتر انعام ہے، اس کا میں ذمہ لیتا ہوں ‘‘ ان بھائیوں نے کہا ’’خداکی قسم ، تم لوگ خوب جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے ہیں اور ہم چوریاں کرنے والے لوگ نہیں ہیں ‘‘انہوں نے کہا ’’اچھا، اگر تمہاری بات جھوٹی نکلی تو چور کی کیا سزا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’اس کی سزا؟ جس کے سامان میں سے چیزنکلے وہ آپ ہی اپنی سزا میں رکھ لیا جائے، ہمارے ہاں تو ایسے ظالموں کو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے‘‘۔ تب یوسفؑ نے اپنے بھائی سے پہلے اُن کی خُرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خرجی سے گم شدہ چیز برآمد کرلی… اس طرح ہم نے یوسفؑ کی تائید اپنی تدبیر سے کی۔ اُس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین (یعنی مصر کے شاہی قانون) میں اپنے بھائی کو پکڑتا الاّیہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔ ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کردیتے ہیں ، اورایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحب ِعلم سے بالاتر ہے۔(سورۃ یوسف…۷۶)
ان بھائیوں نے کہا ’’یہ چوری کرے تو کچھ تعجب کی بات بھی نہیں ، اس سے پہلے اس کا بھائی (یوسفؑ ) بھی چوری کرچکا ہے‘‘۔یوسفؑ ان کی یہ بات سُن کر پی گیا، حقیقت ان پر نہ کھولی، بس (زیرلب) اتنا کہہ کر رہ گیاکہ ’’بڑے ہی بُرے ہو تم لوگ، (میرے منہ در منہ مجھ پر) جو الزام تم لگارہے ہو اس کی حقیقت خُدا خوب جانتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’اے سردارِ ذی اقتدار (عزیز)اس کا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے، اس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے، ہم آپ کو بڑا ہی نیک نفس انسان پاتے ہیں ‘‘۔یوسفؑ نے کہا ’’پناہ بخدا، دوسرے کسی شخص کو ہم کیسے رکھ سکتے ہیں ؟جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے اس کو چھوڑ کر دوسرے کو رکھیں گے تو ہم ظالم ہوں گے‘‘۔ ( یوسف…۷۹)
۵۔ برادرانِ یوسفؑ کی پریشانی
جب وہ یوسفؑ سے مایوس ہوگئے تو ایک گوشے میں جاکر آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا ’’تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے والد تم سے خدا کے نام پر عہد و پیمان لے چکے ہیں ؟ اور اس سے پہلے یوسفؑ کے معاملہ میں جو تم کرچکے ہو وہ بھی تم کو معلوم ہے۔ اب میں تو یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا جب تک کہ میرے والد مجھے اجازت نہ دیں ، یا پھر اللہ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ فرما دے کہ وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ تم جاکر اپنے والد سے کہو کہ اباجان، آپ کے صاحبزادے نے چوری کی ہے۔ ہم نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے بس وہی ہم بیان کررہے ہیں ، اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کرسکتے تھے۔ آپ اُس بستی کے لوگوں سے پوچھ لیجئے جہاں ہم تھے۔ اُس قافلے سے دریافت کیجئے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں ۔ ہم اپنے بیان میں بالکل سچے ہیں ‘‘۔ (سورۃ یوسف…۸۲)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۶۔ بیٹوں کے غم میں یعقوبؑ کی افسردگی
باپ نے یہ داستان سن کر کہا ’’دراصل تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک اور بڑی بات کو سہل بنادیا۔ اچھا اس پر بھی صبرو کروں گا اور بخوبی کروں گا۔ کیا بعید کہ اللہ ان سب کو مجھ سے لاملائے،وہ سب کچھ جانتا ہے اور اس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں ‘‘۔ پھروہ ان کی طرف سے منہ پھیر کر بیٹھ گیا اورکہنے لگاکہ ’’ہائے یوسفؑ !‘‘… وہ دل ہی دل میں غم سے گُھٹا جارہا تھا اوراس کی آنکھیں سفید پڑگئی تھیں … بیٹوں نے کہا ’’خدارا! آپ تو بس یوسفؑ ہی کو یادکیے جاتے ہیں ۔نوبت یہ آگئی ہے کہ اس کے غم میں اپنے آپ کو گُھلا دیں گے یا اپنی جان ہلاک کرڈالیں گے‘‘۔ اُس نے کہا ’’میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا، اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم نہیں ہو۔میرے بچو، جاکر یوسفؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ‘‘۔ (سورۃ یوسف…۸۷)

۷۔یوسفؑ کا بھائیوں کو اپنی حقیقت بتلانا
جب یہ لوگ مصر جاکر یوسفؑ کی پیشی میں داخل ہوئے تو انہوں نے عرض کیا کہ ’’اے سردارِ بااقتدار، ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت مصیبت میں مبتلا ہیں ، اور ہم کچھ حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں ، آپ ہمیں بھرپور غلہ عنایت فرمائیں اور ہم کو خیرات دیں ، اللہ خیرات دینے والوں کو جزا دیتا ہے‘‘۔ (یہ سن کر یوسفؑ سے نہ رہاگیا) اس نے کہا ’’تمہیں کچھ یہ بھی معلوم ہے کہ تم نے یوسفؑ اورا س کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا جبکہ تم نادان تھے؟‘‘وہ چونک کر بولے، ’’ہائیں ! کیا تم یوسفؑ ہو؟‘‘ اس نے کہا ’’ہاں ، میں یوسفؑ ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقویٰ اور صبر سے کام لے تو اللہ کے ہاں ایسے نیک لوگوں کا اجرمارا نہیں جاتا‘‘۔ انہوں نے کہا ’’بخدا کہ تم کو اللہ نے ہم پر فضیلت بخشی اور واقعی ہم خطاکار تھے‘‘۔ اُس نے جواب دیا، ’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں ، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ جاؤ ، میرا یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو، ان کی بینائی پلٹ آئے گی، اور اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ‘‘۔ (یوسف…۹۳)

۸۔ یعقوبؑ کی بینائی لوٹ آئی
جب یہ قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں ) کہا ’’میں یوسفؑ کی خوشبومحسوس کررہا ہوں ، تم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیاگیا ہوں ‘‘۔ گھر کے لوگ بولے’’خدا کی قسم آپ ابھی تک اپنے اُسی پُرانے خبط میں پڑے ہوئے ہیں ‘‘۔پھر جب خوشخبری لانے والا آیا تواس نے یوسفؑ کا قمیص یعقوبؑ کے منہ پر ڈال دیا اور یکایک اس کی بینائی عود کر آئی۔ تب اس نے کہا ’’میں تم سے کہتا نہ تھا؟ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘۔ سب بول اٹھے ’’ابا جان، آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کریں ، واقعی ہم خطاکار تھے‘‘۔ اس نے کہا، ’’میں اپنے رب سے تمہارے لیے معافی کی درخواست کروں گا، وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ ( یوسف…۹۸)

۹۔ بھائیوں کا یوسفؑ کے آگے سجدہ ریزہونا
پھر جب یہ لوگ یوسفؑ کے پاس پہنچے توا س نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھالیا اور (اپنے سب کُنبے والوں سے) کہا ’’چلو، اب شہر میں چلو، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے‘‘۔ (شہرمیں داخل ہونے کے بعد) اس نے اپنے والدین کو اٹھاکر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اورسب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں جُھک گئے۔ یوسفؑ نے کہا، اباجان، یہ تعبیر ہے میرے اس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا، میرے رب نے اسے حقیقت بنادیا۔ اُس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نکالا، اور آپ لوگوں کو صحرا سے لاکر مجھ سے ملایا، حالانکہ شیطان میرے اورمیرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرا رب غیرمحسوس تدبیروں سے اپنی مشیت پوری کرتا ہے، بے شک وہ علیم اور حکیم ہے۔ اے میرے رب، تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھایا۔ زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا‘‘۔ ( یوسف…۱۰۱)
اے نبیﷺ، یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تم پر وحی کررہے ہیں ، ورنہ تم اس وقت موجود نہ تھے جب یوسفؑ کے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کرکے سازش کی تھی۔ مگر تم خواہ کتنا ہی چاہو ان میں سے اکثر لوگ مان کر دینے والے نہیں ہیں ۔ حالانکہ تم اس خدمت پران سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے ہو۔ یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے۔ (سورۃ یوسف…۱۰۴)

۱۰۔زمین اور آسمانوں میں اللہ کی نشانیاں
زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے۔ ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہیں ۔ کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی یا بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ان پر نہ آجائے گی؟ تم ان سے صاف کہہ دو کہ ’’میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بُلاتا ہوں ، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں ‘‘۔(یوسف…۱۰۸)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۱۔ سارے پیغمبرؑ انسان ہی تھے
اے نبی ﷺ، تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے، اورا ُنہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں ۔ پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اُن قوموں کا انجام انہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں ؟ یقینا آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے اور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے (پیغمبروں کی بات مان کر) تقویٰ کی روش اختیار کی۔ کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے؟ (پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ وہ مدتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سن کر نہ دیا) یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہوگئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ اُن سے جھوٹ بولا گیا تھا، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔ پھر جب ایسا موقع آجاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچالیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جاسکتا۔ اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے۔ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جارہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت۔ (سورۃ یوسف…۱۱۱)

۱۲۔ آفتاب و ماہتاب ایک قانون کا پابند ہیں
سورۃ رعد: اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔ اَ۔لَ۔مَ۔رَ۔ یہ کتاب الٰہی کی آیات ہیں ، اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیاگیا ہے وہ عین حق ہے، مگر (تمہاری قوم کے) اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں ۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں ، پھر وہ اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا، اور اس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا۔ اس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقت مقرر تک کے لیے چل رہی ہے اور اللہ ہی اس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے۔ وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔ (سورۃ الرعد…۲)

۱۳۔پہاڑ زمین کے کھونٹے ہیں
اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے، اس میں پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریا بہا دیئے ہیں ۔ اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں اور وہی دن پر رات طاری کرتا ہے۔ ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر سے کام لیتے ہیں ۔ (الرعد…۳)

۱۴۔ایک ہی پانی سے الگ الگ مزے
اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں ۔ انگور کے باغ ہیں ، کھیتیاں ہیں ، کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دوہرے۔ سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے، مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنادیتے ہیں اور کسی کو کمتر۔ ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۔( الرعد…۴)
اب اگر تمہیں تعجب کرنا ہے تو تعجب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ ’’جب ہم مرکر مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب سے کفرکیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں ۔ یہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔یہ لوگ بھلائی سے پہلے بُرائی کے لیے جلدی مچا رہے ہیں حالانکہ ان سے پہلے (جو لوگ اس روش پرچلے ہیں ان پر خدا کے عذاب کی) عبرتناک مثالیں گزر چکی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود ان کے ساتھ چشم پوشی سے کام لیتا ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تیرا رب سخت سزا دینے والا ہے۔ یہ لوگ جنہوں نے تمہاری بات ماننے سے انکار کردیا ہے، کہتے ہیں کہ ’’اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اُتری؟‘‘ تم تو محض خبردار کردینے والے ہو، اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے (الرعد…۷)

۱۵۔ اللہ حمل کی تفصیلات تک سے واقف ہے
اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے، جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔ ہر چیز کے لیے اُس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔ وہ پوشیدہ اور ظاہر، ہر چیز کا عالم ہے۔ وہ بزرگ ہے اور ہر حال میں بالاتر رہنے والا ہے۔ (الرعد:۹)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۶۔اللہ کسی قوم کی حالت کب تک نہیں بدلتا ؟
تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ،اور کوئی رات کی تاریکی میں چُھپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو، اس کے لیے سب یکساں ہیں ، ہر شخص کے آگے اور پیچھے اس کے مقرر کیے ہوئے نگران لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کررہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہوسکتا ہے۔(سورۃ الرعد…۱۱)

۱۷۔پانی سے لدے بادل اور کڑکتی بجلیاں
وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے جنہیں دیکھ کر تمہیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور امیدیں بھی بندھتی ہیں ۔ وہی ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھاتا ہے۔ بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اس کی تسبیح کرتے ہیں ۔ وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے۔ اور (بسا اوقات) انہیں جس پر چاہتا ہے عین اُس حالت میں گرادیتا ہے جبکہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں ۔ فی الواقع اُس کی چال بڑی زبردست ہے۔ (سورۃ الرعد…۱۳)

۱۸۔ غیر اللہ کو پکارنے والے کی مثال
اُسی کو پکارنا برحق ہے۔ رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اُس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں ، وہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں ۔ انہیں پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلاکر اس سے درخواست کرے کہ تومیرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں ۔ بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیرِ بے ہدف! وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعًا و کرھًا سجدہ کررہی ہے اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اُس کے آگے جُھکتے ہیں ۔(سورۃ الرعد…۱۵)

۱۹۔اللہ کے علاوہ دیگر معبودوں کو کارساز بنانا
ان سے پوچھو، آسمان و زمین کا رب کون ہے؟ کہو، اللہ۔ پھر ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھیرالیا جوخود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہواکرتا ہے؟ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں ؟ اور اگر ایسا نہیں تو کیا ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اس کی وجہ سے ان پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہوگیا؟ کہو ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے،سب پر غالب! (سورۃ الرعد…۱۶)

۲۰۔پانی کا برسنا اور ندی نالہ کا بہنا
اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پربھی اٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں ۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیرجاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔(سورۃ الرعد…۱۷)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۲۱۔ رب کی دعوت قبول نہ کرنے کی سزا
جن لوگوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کرلی ان کے لیے بھلائی ہے، اور جنہوں نے اسے قبول نہ کیا وہ اگر زمین کی ساری دولت کے بھی مالک ہوں اور اُتنی ہی اور فراہم کرلیں تو وہ خدا کی پکڑ سے بچنے کے لیے اس سب کو فدیہ میں دے ڈالنے پر تیار ہوجائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے بُری طرح حساب لیا جائے گا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے، بہت ہی بُرا ٹھکانا۔ (سورۃ الرعد…۱۸)

۲۲۔نصیحت دانشمند لوگ قبول کرتے ہیں
بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے رب کی اس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہوجائیں ؟ نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں ۔ اور ان کا طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں ،اسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔ ان کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں برقرار رکھتے ہیں ، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے عَلانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں ، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں ۔(سورۃ الرعد…۲۲)

۲۳۔ جنت میں فرشتے استقبال کریں گے
آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے۔ یعنی ایسے باغ جو ان کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور اُن کے آباؤ اجداد اور اُن کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے اور ان سے کہیں گے ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو‘‘۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر! رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں ، جو ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، اورجو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ، وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت بُرا ٹھکانا ہے۔اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا رزق دیتا ہے۔ یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں ، حالانکہ دنیاکی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاعِ قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ (سورۃ الرعد…۲۶)

۲۴۔دلوں کا اطمینان اللہ کی یاد میں ہے
یہ لوگ جنہوں نے (رسالتِ محمدی ﷺ کو ماننے سے) انکار کردیا ہے، کہتے ہیں ، اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری‘‘…کہو اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔ ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنہوں نے (اس نبی ﷺکی دعوت کو) مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔ پھر جن لوگوں نے دعوتِ حق کو مانا اور نیک عمل کیے وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لیے اچھا انجام ہے۔(سورۃ الرعد…۲۹)

۲۵۔مصیبت کرتوتوں کی وجہ سے آتی رہتی ہے
اے نبی ﷺ، اسی شان سے ہم نے تم کو رسول بناکر بھیجا ہے ایک ایسی قوم میں جس سے پہلے بہت سی قومیں گزرچکی ہیں ، تاکہ تم ان لوگوں کو وہ پیغام سناؤ جو ہم نے تم پرنازل کیا ہے۔ اس حال میں کہ یہ اپنے نہایت مہربان خداکے کافر بنے ہوئے ہیں ۔ ان سے کہو کہ وہی میرا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی میراملجا و ماویٰ ہے۔ اورکیا ہوجاتا اگر کوئی ایسا قرآن اتار دیاجاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہوجاتی، یا مردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟ (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پھرکیا اہلِ ایمان (ابھی تک کفارکی طلب کے جواب میں کسی نشانی کے ظہور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ یہ جان کر) مایوس نہیں ہوگئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا؟ جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفرکا رویہ اختیار کر رکھا ہے ان پر اُن کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے، یا ان کے گھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو۔ یقینا اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جاچکا ہے، مگر میں نے ہمیشہ منکرین کو ڈھیل دی اور آخرکار ان کو پکڑ لیا، پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی۔(سورۃ الرعد…۳۲)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۲۶۔خدا کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا
پھر کیا وہ جو ایک ایک متنفس کی کمائی پر نظر رکھتا ہے (اس کے مقابلے میں یہ جسارتیں کی جارہی ہیں کہ) لوگوں نے اس کے کچھ شریک ٹھیرا رکھے ہیں ؟ اے نبیﷺ، ان سے کہو (اگر واقعی وہ خدا کے اپنے بنائے ہوئے شریک ہیں تو) ذرا ان کے نام لو کہ وہ کون ہیں ؟… کیا تم اللہ کو ایک نئی بات کی خبر دے رہے ہو جسے وہ اپنی زمین میں نہیں جانتا؟ یا تم لوگ بس یونہی جو منہ میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے دعوت حق کو ماننے سے انکار کیا ہے ان کے لیے ان کی مکاریاں خوشنما بنادی گئی ہیں اور وہ راہ راست سے روک دیئے گئے ہیں ، پھر جس کو اللہ گمراہی میں پھینک دے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا کی زندگی ہی میں عذاب ہے، اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کوئی ایسا نہیں جو انہیں خدا سے بچانے والا ہو۔ خدا ترس انسانوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیاگیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ،اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لازوال۔ یہ انجام ہے متقی لوگوں کا۔اورمنکرین حق کا انجام یہ ہے کہ ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے۔(سورۃ الرعد…۳۵)

۲۷۔ رسول از خود کوئی نشانی نہیں دکھا سکتا
اے نبی ﷺ، جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اس کتاب سے جو ہم نے تم پر نازل کی ہے، خوش ہیں اورمختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے۔ تم صاف کہہ دو کہ ’’مجھے تو صرف اللہ کی بندگی کا حکم دیاگیا ہے اور اس سے منع کیاگیا ہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھیراؤں ، لہٰذا میں اُسی کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میرارجوع ہے‘‘۔ اسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ فرمانِ عربی تم پر نازل کیا ہے۔اب اگر تم نے اس علم کے باوجود جو تمہارے پاس آچکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچاسکتا ہے۔ تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ان کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا اورکسی رسول کی بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی خود لادکھاتا۔ ہر دور کے لیے ایک کتاب ہے۔ اللہ جو کچھ چاہتاہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے، ام الکتاب اسی کے پاس ہے۔ (سورۃ الرعد…۳۹)

۲۸۔اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی
اور اے نبی ﷺ، جس بُرے انجام کی دھمکی ہم ان لوگوں کو دے رہے ہیں اس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھادیں یا اس کے ظہورمیں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھالیں ،بہرحال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اس سرزمین پر چلے آرہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آتے ہیں ؟ اللہ حکومت کررہا ہے، کوئی اس کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے والا نہیں ہے اور اسے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ان سے پہلے جو لوگ ہوگزرے ہیں وہ بھی بڑی بڑی چالیں چل چکے ہیں ، مگر اصل فیصلہ کُن چال تو پوری کی پوری اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔وہ جانتا ہے کہ کون کیا کچھ کمائی کررہا ہے، اور عنقریب یہ منکرینِ حق دیکھ لیں گے کہ انجام کس کا بخیر ہوتا ہے۔ یہ منکرین کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہو۔ کہو، ’’میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور پھر اس شخص کی گواہی جو کتابِ آسمانی کا علم رکھتا ہے۔‘‘۔(سورۃ الرعد…۴۳)

۲۹۔دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینا
سورۃ ابراہیم :اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ اَ۔لَ۔رَ۔ اے محمد ﷺ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے رب کی توفیق سے، اس خداکے راستے پر جو زبردست اوراپنی ذات میں آپ محمود ہے اور زمین اور آسمانوں کی ساری موجودات کا مالک ہے۔ اور سخت تباہ کُن سزا ہے قبولِ حق سے انکار کرنے والوں کے لیے جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ، جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ (اُن کی خواہشات کے مطابق) ٹیڑھا ہوجائے۔ یہ لوگ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں ۔ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے۔ پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے ،وہ بالادست اورحکیم ہے۔ (سورۃ ابراہیم…۴)

۳۰۔ تاریخِ الٰہی کے واقعات سبق آموز ہیں
ہم اس سے پہلے موسٰیؑ کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں ۔ اسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں تاریخِ الٰہی کے سبق آموز واقعات سناکر نصیحت کر۔ان واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔ یاد کرو جب موسٰیؑ نے اپنی قوم سے کہا ’’اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔اس نے تم کو فرعون والوں سے چھُڑایا جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کرڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ بچا رکھتے تھے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔(سورۃ ابراہیم…۶)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۳۱۔کُفرانِ نعمت کی سزا بہت سخت ہے
اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کُفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘۔ اورموسٰیؑ نے کہاکہ ’’اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہوجائیں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے‘‘۔ (سورۃ ابراہیم…۸)
۳۲۔ اہل ایمان کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے
کیا تمہیں اُن قوموں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے گزرچکی ہیں ؟ قومِ نوحؑ،عاد، ثمود اور ان کے بعد آنے والی بہت سی قومیں جن کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے؟ ان کے رسول جب اُن کے پاس صاف صاف باتیں اورکھلی کھلی نشانیاں لیے ہوئے آئے تو انہوں نے اپنے منہ میں ہاتھ دبالیے اور کہاکہ ’’جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو اس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں ‘‘۔ ان کے رسولوں نے کہا ’’کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں بلا رہا ہے تاکہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کو ایک مدت مقرر تک مہلت دے‘‘۔ انہوں نے جواب دیا ’’تم کچھ نہیں ہو مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں ۔ تم ہمیں اُن ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو جن کی بندگی باپ دادا سے ہوتی چلی آرہی ہے۔ اچھا تو لاؤ کوئی صریح سند‘‘۔ ان کے رسولوں نے ان سے کہا ’’واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان۔ لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے، اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمہیں کوئی سند لادیں ۔سند تو اللہ ہی کے اذن سے آسکتی ہے اور اللہ ہی پر اہل ایمان کو بھروسہ کرنا چاہیے۔اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جبکہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے؟ جو اذیتیں تم لوگ ہمیں دے رہے ہو ان پر ہم صبر کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کا بھروسا اللہ ہی پر ہوناچاہیے‘‘۔ (سورۃ ابراہیم…۱۲)

۳۳۔ جہنم میں کچ لہو کا سا پانی پینے کو ملے گا
آخرکار منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ ’’یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے‘‘۔ تب ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ ’’ہم ان ظالموں کو ہلاک کردیں گے اور ان کے بعد تمہیں زمین میں آباد کریں گے۔ یہ انعام ہے اس کا جو میرے حضور جواب دہی کا خوف رکھتا ہو اور میری وعید سے ڈرتا ہو‘‘۔ انہوں نے فیصلہ چاہا تھا (تو یوں ان کا فیصلہ ہوا) اور ہر جبا ر دشمنِ حق نے منہ کی کھائی، پھراس کے بعد آگے اس کے لیے جہنم ہے۔وہاں اسے کچ لہو کا سا پانی پینے کو دیا جائے گا جسے وہ زبردستی حلق سے اتارنے کی کوشش کرے گا اور مشکل ہی سے اتار سکے گا۔ موت ہر طرف سے اس پر چھائی رہے گی مگر وہ مرنے نہ پائے گا اور آگے ایک سخت عذاب اس کی جان کا لاگو رہے گا۔ (سورۃ ابراہیم…۱۷)

۳۴۔کافروں کے اعمال راکھ جیسی ہے
جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑادیا ہو۔ وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پاسکیں گے۔ یہی پرلے درجے کی گم گشتگی ہے۔کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے؟ وہ چاہے تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے۔ایسا کرنا اس پرکچھ بھی دشوار نہیں ہے۔ (سورۃ ابراہیم…۲۰)

۳۵۔ عذابِ الٰہی سے بڑے بھی نہیں بچا سکتے
اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے تو اُس وقت ان میں سے جو دنیا میں کمزور تھے وہ ان لوگوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گے ’’دنیا میں ہم تمہارے تابع تھے، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لیے بھی کچھ کرسکتے ہو‘‘؟ وہ جواب دیں گے ’’ اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں دکھا دیتے۔ اب تو یکساں ہے خواہ ہم جزع فزع کریں یا صبر، بہرحال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں ‘‘۔(سورۃ ابراہیم…۲۱)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top