- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,395
- پوائنٹ
- 891
۳۶۔شیطان بہکا سکتا ہے، مجبور نہیں کرسکتا
۳۷۔ کلمۂ طیبہ اور کلمۂ خبیثہ کی مثالیں
۳۸۔نعمت کو کفرانِ نعمت میں بدلنے والے
۳۹۔ دنیا میں طلب کے مطابق سب کچھ ملتاہے
۴۰۔ ابراہیمؑ کو اسماعیلؑ اور اسحاقؑ کب ملے
اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا۔ میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں ، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پرلبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کوملامت کرو۔ یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اِس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذمہ ہوں ، ایسے ظالموں کے لیے تو دردناک سزا یقینی ہے‘‘۔ (سورۃ ابراہیم…۲۲)
۳۷۔ کلمۂ طیبہ اور کلمۂ خبیثہ کی مثالیں
بخلاف اس کے جو لوگ دنیا میں ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہاں وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیشہ رہیں گے، اور وہاں ان کا استقبال سلامتی کی مبارک باد سے ہوگا۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمۂ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ، ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں اور کلمۂ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے۔ ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے، اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔(ابراہیم…۲۷)
۳۸۔نعمت کو کفرانِ نعمت میں بدلنے والے
تم نے دیکھا ان لوگوں کو جنہوں نے اللہ کی نعمت پائی اور اسے کفرانِ نعمت سے بدل ڈالا اور (اپنے ساتھ) اپنی قوم کو بھی ہلاکت کے گھر میں جھونک دیا، یعنی جہنم، جس میں وہ جھلسے جائیں گے اور وہ بدترین جائے قرار ہے ، اور اللہ کے کچھ ہمسر تجویز کر لیے تاکہ وہ انہیں اللہ کے راستے سے بھٹکادیں ؟ ان سے کہو، اچھا مزے کرلو، آخرکار تمہیں پلٹ کر جانا دوزخ ہی میں ہے۔ (سورۃ ابراہیم…۳۰)
۳۹۔ دنیا میں طلب کے مطابق سب کچھ ملتاہے
اے نبی ﷺ، میرے جو بندے ایمان لائے ہیں ان سے کہہ دوکہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کھلے اور چُھپے (راہِ خیر میں ) خرچ کریں قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوست نوازی ہوسکے گی۔اللہ وہی تو ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے سے تمہاری رزق رسانی کے لیے طرح طرح کے پھل پیدا کیے۔ جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لیے مسخر کیا۔ جس نے سُورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ لگا تار چلے جارہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے لیے مسخر کیا جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشُکرا ہے۔ (سورۃ ابراہیم…۳۴)
۴۰۔ ابراہیمؑ کو اسماعیلؑ اور اسحاقؑ کب ملے
یاد کرو وہ وقت جب ابراہیمؑ نے دُعا کی تھی کہ’’پروردگار، اس شہر (یعنی مکہ) کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بُت پرستی سے بچا، پروردگار، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولادکو بھی یہ گمراہ کردیں ، لہٰذا ان میں سے) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔ پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار، یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں ، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکرگزار بنیں ۔ پروردگار، تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ‘‘۔ اور واقعی اللہ سے کچھ بھی چُھپا ہوا نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمانوں میں … ’’شُکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیلؑ اور اسحاقؑ جیسے بیٹے دیئے، حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ضرور دُعا سُنتا ہے۔ اے میرے پروردگار، مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی (ایسے لوگ اٹھا جو یہ کام کریں )۔ پروردگار، میری دعا قبول کر۔ پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اس دن معاف کردیجیو جبکہ حساب قائم ہوگا‘‘۔ (سورۃ ابراہیم…۴۱)