• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیغام قرآن: تیسرے پارے کے مضامین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۳۶۔ قتلِ ناحق کی دردناک سزا ہے
جو لوگ اللہ کے احکام و ہدایات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں جو خلقِ خدا میں سے عدل و راستی کا حکم دینے کے لیے اٹھیں، ان کو دردناک سزا کی خوشخبری سنا دو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہوگئے، اور ان کا مددگار کوئی نہیں ہے۔(آلِ عمران:۲۲)
۳۷۔ دینی معاملات میں غلط فہمیاں
تم نے دیکھا نہیں کہ جن لوگوں کو کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ ملا ہے، ان کا حال کیا ہے؟ انہیں جب کتابِ الٰہی کی طرف بُلایا جاتا ہے تاکہ وہ اُن کے درمیان فیصلہ کرے، تو ان میں سے ایک فریق اس سے پہلو تہی کرتا ہے اور اس فیصلے کی طرف آنے سے منہ پھیر جاتا ہے۔ ان کا یہ طرزِ عمل اس وجہ سے ہے کہ وہ کہتے ہیں ’’آتشِ دوزخ تو ہمیں مَس تک نہ کرے گی اور اگر دوزخ کی سزا ہم کو ملے گی بھی تو بس چند روز‘‘۔ ان کے خود ساختہ عقیدوں نے ان کو اپنے دین کے معاملے میں بڑی غلط فہمیوں میں ڈال رکھا ہے۔ مگر کیا بنے گی اُن پر جب ہم انہیں اس روز جمع کریں گے جس کا آنا یقینی ہے؟ اس روز ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ پورا پورا دے دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔کہو، خدایا! ملک کے مالک! تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔ جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں۔ بے جان میں سے جان دار کو نکالتا ہے اور جان دار میں سے بے جان کو۔ اور جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق دیتا ہے۔ (آلِ عمران…۲۷)

۳۸۔ کافروں کو اپنا مددگار ہرگز نہ بنائیں
مومنین اہلِ ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور یار و مددگار ہرگز نہ بنائیں۔ جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرزِ عمل اختیار کر جاؤ۔ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اُسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔(آلِ عمران…۲۸)

۳۹۔ہر نفس اپنے کیے کا پھل پائے گا
اے نبیﷺ! لوگوں کو خبردار کر دو کہ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اُسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ بہرحال اسے جانتا ہے، زمین اور آسمانوں کی کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے اور اس کا اقتدار ہر چیز پر حاوی ہے۔ وہ دن آنے والا ہے، جب ہر نفس اپنے کیے کا پھل حاضر پائے گا خواہ اس نے بھلائی کی ہو یا بُرائی۔ اُس روز آدمی یہ تمنا کرے گا کہ کاش ابھی یہ دن اس سے بہت دور ہوتا! اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور وہ اپنے بندوں کا نہایت خیر خواہ ہے۔ (آلِ عمران…۳۰)

۴۰۔ اللہ سے محبت کی نشانی ، نبیﷺ کی پیروی
اے نبیﷺ! لوگوں سے کہہ دو کہ ’’اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ ان سے کہو کہ ’’اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کرلو‘‘۔ پھر ا گر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں، تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔(آلِ عمران…۳۲)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۴۱۔حضرت مریمؑ کی پیدائش
اللہ نے آدم ؑ اور نوحؑ اور آلِ ابراہیم ؑ اور آلِ عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اپنی رسالت کے لیے) منتخب کیا تھا۔ یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے، جو ایک دوسرے کی نسل سے پیدا ہوئے تھے۔ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ (وہ اس وقت سن رہا تھا) جب عمران کی عورت کہہ رہی تھی کہ ’’میرے پروردگار! میرے اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں، وہ تیرے ہی کام کے لیے وقف ہوگا۔ میری اس پیشکش کو قبول فرما۔ تو سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔ پھر جب وہ بچی اس کے ہاں پیدا ہوئی تو اس نے کہا ’’مالک! میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہوگئی ہے حالانکہ جو کچھ اس نے جنا تھا، اللہ کو اس کی خبر تھی اور لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا۔ خیر، میں نے اس کا نام مریم رکھ دیا ہے اور میں اسے اور اس کی آئندہ نسل کو شیطان مردُود کے فتنے سے تیری پناہ میں دیتی ہوں‘‘۔ آخرکار اس کے رب نے اس لڑکی کو بخوشی قبول فرما لیا، اسے بڑی اچھی لڑکی بنا کر اٹھایا، اور زکریا کو اس کا سرپرست بنا دیا۔(آلِ عمران…۳۷)
۴۲۔حضرت زکریا ؑ کو اللہ کی خوشخبری
زکریا جب کبھی اس کے پاس محراب میں جاتا تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان پاتا۔ پوچھتا مریم! یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟ وہ جواب دیتی اللہ کے پاس سے آیا ہے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ یہ حال دیکھ کر زکریا نے اپنے رب کو پکارا ’’پروردگار، اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر۔ تو ہی دعا سننے والا ہے‘‘۔ جواب میں فرشتوں نے آواز دی، جبکہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا، کہ ’’اللہ تجھے یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے۔ وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان کی تصدیق کرنے والا بن کر آئے گا۔ اس میں سرداری و بزرگی کی شان ہوگی۔ کمال درجہ کا ضابط ہوگا۔ نبوت سے سرفراز ہوگا اور صالحین میں شمار کیا جائے گا‘‘۔ زکریا نے کہا ’’پروردگار! بھلا میرے ہاں لڑکا کہاں سے ہوگا؟ میں تو بہت بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے‘‘۔ جواب ملا ’’ایسا ہی ہوگا، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے‘‘۔ عرض کیا ’’مالک! پھر کوئی نشانی میرے لیے مقرر فرما دے‘‘۔کہا ’’نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارہ کے سوا کوئی بات چیت نہ کرو گے (یا نہ کرسکو گے) اس دوران میں اپنے رب کو بہت یاد کرنا اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہنا‘‘۔ (آلِ عمران…۴۱)

۴۳۔حضرت مریمؑ کو خوشخبری
پھر وہ وقت آیا جب مریمؑ سے فرشتوں نے آ کرکہا ’’اے مریمؑ ، اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطا کی اور تمام دنیا کی عورتوں پر تجھ کو ترجیح دے کر اپنی خدمت کے لیے چُن لیا۔ اے مریم! اپنے رب کی تابعِ فرماں بن کر رہ، اس کے آگے سربسجود ہو، اور جو بندے اس کے حضور جھکنے والے ہیں ان کے ساتھ تو بھی جھک جا‘‘۔
اے نبیﷺ! یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تم کو وحی کے ذریعے سے بتا رہے ہیں ورنہ تم اس وقت وہاں موجود نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم کا سرپرست کون ہو اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے، اور نہ تم اس وقت حاضر تھے جب ان کے درمیان جھگڑا برپا تھا۔
اور جب فرشتوں نے کہا ’’اے مریم! اللہ تجھے اپنے ایک فرمان کی خوشخبری دیتا ہے۔ اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا، دنیا اور آخرت میں معزز ہوگا، اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کیا جائے گا، لوگوں سے گہوارے میں بھی کلام کرے گا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی، اور وہ ایک مرد صالح ہوگا‘‘۔ یہ سن کر مریم ؑبولی ’’پروردگار، میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا‘‘۔ جواب ملا ’’ایسا ہی ہوگا، اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہوجاتا ہے‘‘۔ (فرشتوں نے پھر اپنے سلسلۂ کلام میں کہا) ’’اور اللہ اسے کتاب اور حکمت کی تعلیم دے گا، تورات اور انجیل کا علم سکھائے گا اور بنی اسرائیل کی طرف اپنا رسول مقرر کرے گا‘‘۔(آلِ عمران:۴۹)

۴۴۔ عیسیٰ ؑ کا مردے کو زندہ کرنا
(اور جب وہ بحیثیت رسول بنی اسرائیل کے پاس آیا تو اس نے کہا) ’’میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت کا ایک مجسمہ بناتا ہوں اور اس میں پُھونک مارتا ہوں، وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے۔ میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا ہوں اور اس کے اِذن سے مُردے کو زندہ کرتا ہوں۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا اپنے گھروں میں ذخیرہ کر کے رکھتے ہو۔ اس میں تمہارے لیے کافی نشانی ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو۔ اور میں اُس تعلیم و ہدایت کی تصدیق کرنے والا بن کر آیا ہوں جو تورات میں سے اِس وقت میرے زمانہ میں موجود ہے۔ اور اس لیے آیا ہوں کہ تمہارے لیے بعض ان چیزوں کو حلال کر دوں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں۔ دیکھو، میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاے پاس نشانی لے کر آیا ہوں ، لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اللہ میرا رب بھی ہے اورتمہارا رب بھی، لہٰذا تم اُسی کی بندگی اختیار کرو ، یہی سیدھا راستہ ہے‘‘۔
جب عیسٰی ؑ نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو اس نے کہا ’’کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہوتا ہے؟‘‘ حواریوں نے جواب دیا ’’ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے، آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلم (اللہ کے آگے سر ِاطاعت جھکا دینے والے ) ہیں۔ مالک! جو فرمان تو نے نازل کیا ہے ہم نے اسے مان لیا اور رسول کی پیروی قبول کی، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے‘‘(آلِ عمران:۵۳)

۴۵۔اللہ کا عیسیٰؑ کو واپس اٹھالینے کا اعلان
پھر بنی اسرائیل (مسیح کے خلاف) خفیہ تدبیریں کرنے لگے۔ جواب میں اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے۔ (وہ اللہ کی خفیہ تدبیر ہی تھی) جب اس نے کہا کہ ’’اے عیسٰی ؑ اب میں تجھے واپس لے لوں گا اور تجھ کو اپنی طرف اٹھالوں گا اور جنہوں نے تیرا انکا ر کیا ہے ان سے (یعنی ان کی معیت سے اور ان کے گندے ماحول میں ان کے ساتھ رہنے سے) تجھے پاک کر دوں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان لوگوں پر بالادست رکھوں گا جنہوں نے تیرا انکار کیا ہے۔ پھر تم سب کو آخرکار میرے پاس آنا ہے، اس وقت میں ان باتوں کا فیصلہ کر دوں گا جن میں تمہارے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ جن لوگوں نے کفر و انکار کی روش اختیار کی ہے انہیں دنیا اور آخرت دونوں میں سخت سزا دوں گا اور وہ کوئی مددگار نہ پائیں گے، اور جنہوں نے ایمان اور نیک عملی کا رویہ اختیار کیا ہے انہیں ان کے اجر پورے پورے دے دیے جائیں گے اور (خوب جان لے کہ) ظالموں سے اللہ ہرگز محبت نہیں کرتا‘‘۔(آلِ عمران…۵۷)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۴۶۔ عیسیٰ ؑ کی مثال آدم ؑ کی سی ہے
اے نبیﷺ! یہ آیات اور حکمت سے لبریز تذکرے ہیں جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں۔ اللہ کے نزدیک عیسٰی ؑ کی مثال آدم ؑ کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہو جا اور وہ ہوگیا۔ یہ اصل حقیقت ہے جو تمہارے رب کی طرف سے بتائی جا رہی ہے اور تم ان لوگوں میں شامل نہ ہو جو اس میں شک کرتے ہیں۔(آلِ عمران…۶۰)

۴۷۔جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت
یہ علم آجانے کے بعد اب جو کوئی اس معاملہ میں تم سے جھگڑا کرے تو اے نبیﷺ! اس سے کہو کہ ’’آؤ ہم اور تم خود بھی آجائیں اور اپنے اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیں اور خدا سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو‘‘۔ یہ بالکل صحیح واقعات ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی خداوند نہیں ہے، اور وہ اللہ ہی کی ہستی ہے جس کی طاقت سب سے بالا اور جس کی حکمت نظام عالم میں کارفرما ہے۔ پس اگر یہ لوگ (اس شرط پر مقابلہ میں آنے سے) منہ موڑیں تو (ان کا مفسد ہونا صاف کھل جائے گا) اور اللہ تو مُفسدوں کے حال سے واقف ہی ہے۔ (آلِ عمران…۶۳)

۴۸۔اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں
اے نبیﷺ کہو، ’’اے اہلِ کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنالے‘‘__ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں۔(آلِ عمران…۶۴)

۴۹۔ ابراہیم ؑ یہودی عیسائی نہیں مسلم تھا
اے اہلِ کتاب! تم ابراہیم ؑ کے (دین کے) بارے میں کیوں جھگڑا کرتے ہو؟ تورات اور انجیل تو ابراہیمؑ کے بعد ہی نازل ہوئی ہیں۔ پھر کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے تم لوگ جن چیزوں کا علم رکھتے ہو ان میں تو خوب بحثیں کر چکے، اب ان معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہو جن کا تمہارے پاس کچھ بھی علم نہیں۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔ ابراہیم ؑ نہ یہودی تھا نہ عیسائی، بلکہ وہ تو ایک مسلمِ یکسُو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا۔ ابراہیم ؑسے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق اگر کسی کو پہنچتا ہے تو ان لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے اس کی پیروی کی اور اب یہ نبیﷺ اور اس کے ماننے والے اس نسبت کے زیادہ حقدار ہیں۔ اللہ صرف انہی کا حامی و مددگار ہے جو ایمان رکھتے ہوں۔(آلِ عمران…۶۸)

۵۰۔وہ مومنوں کی گمراہی چاہتے ہیں
(اے ایمان لانے والو) اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ چاہتا ہے کہ کسی طرح تمہیں راہ راست سے ہٹا دے، حالانکہ درحقیقت وہ اپنے سوا کسی کو گمراہی میں نہیں ڈال رہے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ اے اہلِ کتاب! کیوں اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود ان کا مشاہدہ کر رہے ہو؟ اے اہلِ کتاب! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو؟
اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ اس نبی کے ماننے والوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر صبح ایمان لاؤ اور شام کو اس سے انکار کر دو، شاید اس ترکیب سے یہ لوگ اپنے ایمان سے پِھر جائیں۔ نیز یہ لوگ آپس میں کہتے ہیں کہ اپنے مذہب والے کے سوا کسی کی بات نہ مانو۔ اے نبیﷺ! ان سے کہہ دو کہ ’’اصل میں ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے اور یہ اُسی کی دین ہے کہ کسی کو وہی کچھ دے دیا جائے جو کبھی تم کو دیا گیا تھا، یا یہ کہ دوسروں کو تمہارے رب کے حضور پیش کرنے کے لیے تمہارے خلاف قوی حجّت مل جائے‘‘۔ اے نبیﷺ! ان سے کہو کہ ’’فضل و شرف اللہ کے اختیار میں ہے، جسے چاہے عطا فرمائے۔ وہ وسیع النظر ہے اور سب کچھ جانتا ہے، اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہتا ہے مخصوص کرلیتا ہے اور اس کا فضل بہت بڑا ہے‘‘۔(آلِ عمران…۷۴)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۵۱۔اہلِ کتاب میں اچھے اور برے لوگ
اہلِ کتاب میں کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے اعتماد پر مال و دولت کا ایک ڈھیر بھی دے دو تو وہ تمہارا مال تمہیں ادا کردے گا، اور کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینار کے معاملہ میں بھی اس پر بھروسہ کرو تو وہ ادا نہ کرے گا الاّ یہ کہ تم اس کے سر پر سوار ہو جاؤ۔ ان کی اس اخلاقی حالات کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں ’’امیوں (غیر یہودی لوگوں) کے معاملہ میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے‘‘۔ اور یہ بات وہ محض جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی ہے۔ آخر کیوں ان سے باز پرس نہ ہوگی؟(آلِ عمران:۷۵)

۵۲۔عہد کو پورا کرنے والے اللہ کو پسند ہیں
جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا وہ اللہ کا محبوب بنے گا، کیونکہ پرہیزگار لوگ اللہ کو پسند ہیں۔ رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، تو ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ ان کے لیے تو سخت دردناک سزا ہے۔(آلِ عمران…۷۷)

۵۳۔اللہ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا
ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان کا الٹ پھیر کرتے ہیں کہ تم سمجھو جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں وہ کتاب ہی کی عبارت ہے، حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا، وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔(آلِ عمران…۷۸)

۵۴۔نبی لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے
کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ۔ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے ربانی بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔ وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو یا پیغمبروں کو اپنا رب بنا لو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نبی تمہیں کفر کا حکم دے جبکہ تم مسلم ہو؟ (آلِ عمران…۸۰)

۵۵۔ دیگر رسولوں کو ماننے کا عہد
یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ ’’آج ہم نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اُسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے، تو تم کو اس پرایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی‘‘۔ یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا ’’کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ہاں ہم اقرار کرتے ہیں‘‘۔ اللہ نے فرمایا ’’اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں، اس کے بعد جو اپنے عہد سے پِھر جائے وہی فاسق ہے‘‘۔
اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟ اے نبیﷺ! کہو کہ ’’ہم اللہ کو مانتے ہیں، اس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، اُن تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم ؑ، اسماعیل ؑ، اسحاق ؑ، یعقوبؑ اور اولادِ یعقوبؑ پر نازل ہوئی تھیں، اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسٰی ؑ اور عیسٰی ؑ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابعِ فرمان (مسلم) ہیں‘‘۔ اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔(آلِ عمران…۸۵)

۵۶۔کافروں کو ہدایت نہیں ملتی
کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ ان لوگوں کو ہدایت بخشے جنہوں نے نعمتِ ایمان پا لینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا حالانکہ وہ خود اس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسول حق پر ہے اور ان کے پاس روشن نشانیاں بھی آچکی ہیں۔ اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ان کے ظلم کا صحیح بدلہ یہی ہے کہ ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی پِھٹکار ہے، اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کی سزا میں تخفیف ہوگی اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔ البتہ وہ لوگ بچ جائیں گے جو اِس کے بعد توبہ کر کے اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کرلیں، اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ مگر جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے ان کی توبہ بھی قبول نہ ہوگی، ایسے لوگ تو پکے گمراہ ہیں۔ یقین رکھو، جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر ہی کی حالت میں جان دی ان میں سے کوئی اگر اپنے آپ کو سزا سے بچانے کے لیے روئے زمین بھر کر بھی سونا فدیہ میں دے تو اُسے قبول نہ کیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک سزا تیار ہے اور وہ اپنا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔(آلِ عمران…۹۱)
----------------------٭٭٭٭٭----------------------
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top