• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیغام قرآن: ساتویں پارے کے مضامین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


پیغام قرآن

ساتویں پارہ کے مضامین

مؤلف : یوسف ثانی، مدیر اعلیٰ پیغام قرآن ڈاٹ کام



یوسف ثانی بھائی کے شکریہ کے ساتھ کہ انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پیج فائلز مہیا کیں۔
احباب سے درخواست ہے کہ کہیں ٹائپنگ یا گرامر کی کوئی غلطی پائیں تو ضرور بتائیں۔ علمائے کرام سے گزارش ہے کہ ترجمے کی کسی کوتاہی پر مطلع ہوں تو ضرور یہاں نشاندہی کریں تاکہ یوسف ثانی بھائی کے ذریعے آئندہ ایڈیشن میں اصلاح کی جا سکے۔
پی ڈی ایف فائلز کے حصول کے لئے ، وزٹ کریں:
Please select from ::: Piagham-e-Quran ::: Paigham-e-Hadees
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
واِذا سَمِعوا کے مضامین


۱۔ قرآن کو نہ ماننے والے جہنمی ہیں
۲۔حلال کو حرام نہ کر لو
۳۔ قسم کا کفارہ۳ روزہ یا۱۰ ،افراد کو کھانا کھلانا
۴۔ شراب اور جُوا شیطانی کام ہیں
۵۔دورِ جہالت کے اعمال پر گرفت نہیں
۶۔احرام میں شکار اور اس کا کفارہ
۷۔احرام میں سمندر کا شکار حلال ہے
۸۔کعبہ، ماہِ حرام اور قربانی
۹۔ناگوار باتیں نہ پو چھا کرو
۱۰۔ قانونِ الٰہی کے خلاف باپ دادا کی تقلید
۱۱۔وصیت کرتے وقت دو گواہ بنانے کا حکم
۱۲۔عیسٰیؑ کا گہوارے میں بات کرنا
۱۳۔عیسٰیؑ کا مردے کو زندہ اور کوڑھی کواچھا کرنا
۱۴۔عیسٰیؑ کے حواریوں کے لئے کھانے کا خوان
۱۵۔عیسٰیؑ نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا
۱۶۔زندگی کی ایک دوسری مدت کا بیان
۱۷۔رب کی نشانیوں کا مذاق اڑانے والے
۱۸۔حق کو جھٹلانے والوں کا انجام
۱۹۔اللہ رازق کے سامنے جھکنے کا حکم
۲۰۔میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے
۲۱۔ روز حشر مشرکوں کا جھوٹ گھڑنا
۲۲۔ اپنی تباہی کا سامان پیدا کرنے والے
۲۳۔ اللہ سے ملاقات کا انکار کرنے والے
۲۴۔ نبیﷺ کو جھٹلانا اللہ کی آیات کو جھٹلانا ہے
۲۵۔مصیبت میں انسان اللہ ہی کو یاد کرتا ہے
۲۶۔اللہ نافرمان قوموں کو بھی خوشحالی دیتا ہے۔
۲۷۔بینائی و سماعت اللہ ہی چھینتااور عطا کرتا ہے
۲۸۔ نبیﷺ غیب کا علم نہیں رکھتے
۲۹۔ایک کے ذریعہ دوسرے کو آزمائش میں ڈالنا
۳۰۔ توبہ و اصلاح سے معافی مل جاتی ہے
۳۱۔ فیصلہ کا سارا اختیار اللہ کو ہے
۳۲۔ زندگی کی مقررہ مدت پوری ہوگی
۳۳۔خطرات سے اللہ ہی بچاتا ہے۔
۳۴۔قرآن پر نکتہ چینی کرنے والوں کی محفل
۳۵۔ صور پھونکنے پر حشر برپا ہوگا
۳۶۔قصہئِ ابراہیمؑ اور حقیقی رب کی تلاش
۳۷۔آلِ ابراہیمؑ کا ذکر
۳۸۔ دینِ ابراہیمؑ کواختیار کرو
۳۹۔ مکہ مرکز دنیا ہے
۴۰۔اللہ کے سامنے تنِ تنہا پیش ہونا ہے
۴۱۔اللہ ہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے
۴۲۔اللہ ہی نے پانی برسایا اور نباتات اگائی
۴۳۔اللہ کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ کوئی شریکِ زندگی
۴۴۔جھوٹے خداؤں کو گالیاں نہ دو
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۔ قرآن کو نہ ماننے والے جہنمی ہیں
جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں۔ وہ بول اٹھتے ہیں کہ ’’پروردگار! ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے‘‘۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ’’آخر کیوں نہ ہم اللہ پر ایمان لائیں اور جو حق ہمارے پاس آیا ہے اُسے کیوں نہ مان لیں جبکہ ہم اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صالح لوگوں میں شامل کرے‘‘؟ اُن کے اِس قول کی وجہ سے اللہ نے اُن کو ایسی جنتیں عطا کیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزاء ہے نیک رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا اور انہیں جھٹلایا، تو وہ جہنم کے مستحق ہیں۔ (المآئدۃ…۸۶)

۲۔حلال کو حرام نہ کر لو
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کر لو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں۔ جو کچھ حلال و طیّب رزق اللہ نے تم کو دیا ہے اُسے کھاؤ پیو اور اُس خدا کی نافرمانی سے بچتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو۔(المآئدۃ…۸۸)

۳۔ قسم کا کفارہ تین روزے رکھنا
تم لوگ جو مُہمل قسمیں کھا لیتے ہو اُن پر اللہ گرفت نہیں کرتا، مگر جو قسمیں تم جان بُوجھ کر کھاتے ہو اُن پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔ (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجہ کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچّوں کو کھلاتے ہو، یا انہیں کپڑے پہناؤ، یا ایک غلام آزاد کرو، اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھا کر توڑ دو۔ اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لیے واضح کرتا ہے شاید کہ تم شکر ادا کرو۔(المآئدۃ…۸۹)

۴۔ شراب اور جُوا شیطانی کام ہیں
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں۔ ان سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے ۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی بات مانو اور باز آ جاؤ، لیکن اگر تم نے حکم عدُولی کی تو جان لو کہ ہمارے رسولﷺ پر بس صاف صاف حکم پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی۔ (المآئدۃ…۹۲)

۵۔دورِ جہالت کے اعمال پر گرفت نہیں
جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا تھا اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی بشرطیکہ وہ آئندہ اُن چیزوں سے بچے رہیں جو حرام کی گئی ہیں اور ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اچھے کام کریں، پھر جس جس چیز سے روکا جائے اس سے رُکیں اور جو فرمان الٰہی ہو اُسے مانیں، پھر خدا ترسی کے ساتھ نیک رویہ رکھیں۔ اللہ نیک کردار لوگوں کو پسندکرتا ہے۔ (المآئدۃ…۹۳)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۶۔احرام میں شکار اور اس کا کفارہ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ تمہیں اُس شکار کے ذریعہ سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے، پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اس کے لیے دردناک سزا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میں شکار نہ مارو، اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کرگزرے گا تو جو جانور اس نے مارا ہو اُسی کے ہم پلّہ ایک جانور اُسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہوگا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے، اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا، یا نہیں تو اس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا، یا اُس کے بقدر روزے رکھنے ہوں گے، تاکہ وہ اپنے کیے کا مزا چکھے۔ پہلے جو کچھ ہوچکا اُسے اللہ نے معاف کر دیا، لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا، اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔(المآئدۃ…۹۵)

۷۔احرام میں سمندر کا شکار حلال ہے
تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا، جہاں تم ٹھیرو وہاں بھی اسے کھا سکتے ہو اور قافلے کے لیے زادِراہ بھی بنا سکتے ہو، البتہ خشکی کا شکار، جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، تم پر حرام کیا گیا ہے۔ پس بچو اس خدا کی نافرمانی سے جس کی پیشی میں تم سب کو گھیر کر حاضر کیا جائے گا۔(المآئدۃ…۹۶)

۸۔کعبہ، ماہِ حرام اور قربانی
اللہ نے مکانِ محترم، کعبہ کو لوگوں کے لیے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہِ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قَلادوں کو بھی (اس کام میں معاون بنا دیا) تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اُسے ہر چیز کا علم ہے۔ خبردار ہوجاؤ! اللہ سزا دینے میں بھی سخت ہے اور اس کے ساتھ بہت درگزر اور رحم بھی کرنے والا ہے۔ رسول پر تو صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے، آگے تمہارے کُھلے اور چُھپے سب حالات کا جاننے والا اللہ ہے۔ اے پیغمبرﷺ! ان سے کہہ دو کہ پاک اور ناپاک بہرحال یکساں نہیں ہیں خواہ ناپاک کی بُہتات تمہیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو، پس اے لوگو جو عقل رکھتے ہو، اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔ (المآئدۃ:۱۰۰)

۹۔ناگوار باتیں نہ پو چھا کرو
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں، لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جبکہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی۔ اب تک جو کچھ تم نے کیا اسے اللہ نے معاف کردیا، وہ درگزر کرنے والا اور بُردبار ہے۔ تم سے پہلے ایک گروہ نے اسی قسم کے سوالات کیے تھے، پھر وہ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے کفر میں مُبتلا ہوگئے۔(المآئدۃ…۱۰۲)

۱۰۔ قانونِ الٰہی کے خلاف باپ دادا کی تقلید
اللہ نے نہ کوئی بَحِیرہ مقرر کیا ہے نہ سائبہ نہ وَصیلہ اور نہ حام ۔ مگر یہ کافر اللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر بے عقل ہیں (کہ ایسے وہمیات کو مان رہے ہیں)۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس قانون کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور آؤ پیغمبر کی طرف تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا یہ باپ دادا ہی کی تقلید کیے چلے جائیں گے خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں اور صحیح راستہ کی انہیں خبر ہی نہ ہو؟ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہ راست پر ہو، اللہ کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔(المآئدۃ…۱۰۵)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۱۔وصیت کرتے وقت دو گواہ بنانے کا حکم
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لیے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحبِ عدل آدمی گواہ بنائے جائیں، یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیر مسلموں ہی میں سے دو گواہ لے لیے جائیں۔ پھر اگر کوئی شک پڑ جائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو (مسجد میں) روک لیا جائے اور وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ ’’ہم کسی ذاتی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں، اور خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو (ہم اس کی رعایت کرنے والے نہیں)، اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو گناہ گاروں میں شمار ہوں گے‘‘۔ لیکن اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو گناہ مبتلا کیا ہے تو پھر ان کی جگہ دو اور شخص جو اُن کی بہ نسبت شہادت دینے کے لیے اہل تر ہوں ان لوگوں میں سے کھڑے ہوں جن کی حق تلفی ہوئی ہو، اور وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ ’’ہماری شہادت اُن کی شہادت سے زیادہ برحق ہے اور ہم نے اپنی گواہی میں کوئی زیادتی نہیں کی ہے، اگر ہم ایسا کریں تو ظالموں میں سے ہوں گے‘‘۔ اس طریقہ سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ لوگ ٹھیک ٹھیک شہادت دیں گے، یا کم از کم اس بات ہی کا خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد دوسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ ہو جائے۔ اللہ سے ڈرو اور سنو، اللہ نافرمانی کرنے والوں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے۔ (المآئدۃ…۱۰۸)

۱۲۔عیسٰیؑ کا گہوارے میں بات کرنا
جس روز اللہ سب رسولوں کو جمع کر کے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا، تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں، آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں کو جانتے ہیں۔ پھر تصور کرو اُس موقع کا جب اللہ فرمائے گا کہ ’’اے مریمؑ کے بیٹے عیسٰیؑ ! یاد کر میری اس نعمت کو جو میں نے تجھے اور تیری ماں کو عطا کی تھی۔ میں نے رُوح پاک سے تیری مدد کی، تو گہوارے میں بھی لوگوں سے بات کرتا تھا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی۔ (المآئدۃ…۱۱۰)

۱۳۔عیسٰیؑ کا مردے کو زندہ ، کوڑھی کواچھا کرنا
میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی، تُو میرے حکم سے مٹی کا پُتلا پرندے کی شکل کا بناتا اور اس میں پھونکتا تھا اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا، تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا، تو مُردوں کو میرے حکم سے نکالتا تھا۔ پھر جب تُو بنی اسرائیل کے پاس صریح نشانیاں لے کر پہنچا اور جو لوگ ان میں سے منکر حق تھے انہوں نے کہا کہ یہ نشانیاں جادوگری کے سوا اور کچھ نہیں ہیں تو میں نے ہی تجھے اُن سے بچایا۔(المآئدۃ…۱۱۰)

۱۴۔عیسٰیؑ کے حواری:کھانے کا خوان اترنا
اور جب میں نے حواریوں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تب انہوں نے کہا ’’ہم ایمان لائے اور گواہ ہو کہ ہم مسلم ہیں‘‘۔ (حواریوں کے سلسلہ میں) یہ واقعہ بھی یاد رہے کہ جب حواریوں نے کہا ’’اے عیسٰیؑ ابن مریم! کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے‘‘؟ تو عیسٰیؑ نے کہا اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ انہوں نے کہا ’’ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ اُس خوان سے کھانا کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور ہمیں معلوم ہو جائے کہ آپ نے جو کچھ ہم سے کہا ہے وہ سچ ہے اور ہم اُس پر گواہ ہوں‘‘۔ اس پر عیسٰیؑ ابن مریم نے دعا کی ’’خدایا! ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو، ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو، ہم کو رزق دے اور تُو بہترین رازق ہے‘‘۔ اللہ نے جواب دیا ’’میں اُس کو تم پر نازل کرنے والا ہوں، مگر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا اسے میں ایسی سزا دوں گا جو میں نے کسی کو نہ دی ہوگی‘‘۔ (المآئدۃ…۱۱۵)

۱۵۔عیسٰیؑ نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا
غرض جب (یہ احسانات یاد دلا کر) اللہ فرمائے گا کہ ’’اے عیسٰیؑ بن مریم، کیا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو؟‘‘ تو وہ جواب میں عرض کرے گا کہ ’’سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کو ضرور علم ہوتا، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالِم ہیں۔ میں نے اُن سے اُس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ میں اُسی وقت تک ان کا نگراں تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا۔ جب آپ نے مجھے واپس بُلا لیا تو آپ ان پر نگراں تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں پر نگراں ہیں۔ اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں‘‘۔ تب اللہ فرمائے گا ’’یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے، ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔زمین اور آسمانوں اور تمام موجودات کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (المآئدۃ…۱۲۰)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۶۔زندگی کی ایک دوسری مدت کا بیان
سورۃ الانعام : اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں۔ پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے دُوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھیرا رہے ہیں۔ وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر تمہارے لیے زندگی کی ایک مدت مقرر کر دی، اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جو اس کے ہاں طے شدہ ہے۔ مگر تم لوگ ہو کہ شک میں پڑے ہوئے ہو۔ وہی ایک خدا آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی، تمہارے کُھلے اور چُھپے سب حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو اُس سے خوب واقف ہے۔ (الانعام…۳)

۱۷۔رب کی نشانیوں کا مذاق اڑانے والے
لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں جو ان کے سامنے آئی ہو اور انہوں نے اس سے منہ نہ موڑ لیا ہو۔ چنانچہ اب جو حق ان کے پاس آیا تو اسے بھی انہوں نے جھٹلا دیا۔ اچھا، جس چیز کا وہ اب تک مذاق اڑاتے رہے ہیں عنقریب اس کے متعلق کچھ خبریں انہیں پہنچیں گی۔ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کا اپنے اپنے زمانہ میں دور دَورہ رہا ہے؟ اُن کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا ہے، ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں، (مگر جب انہوں نے کفرانِ نعمت کیا تو) آخرکار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کردیا اور ان کی جگہ دوسرے دَور کی قوموں کو اُٹھایا۔ (الانعام…۶)

۱۸۔حق کو جھٹلانے والوں کا انجام
اے پیغمبرﷺ! اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چُھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے ہیں کہ یہ تو صریح جادُو ہے۔ کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اُتارا گیا؟ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا، پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی۔ اور اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل ہی میں اتارتے اور اس طرح انہیں اُسی شبہ میں مُبتلا کر دیتے جس میں اب یہ مُبتلا ہیں۔اے نبیﷺ، تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے، مگر ان مذاق اُڑانے والوں پر آخرکار وہی حقیقت مسلط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ان سے کہو، ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔ان سے پوچھو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے؟ __کہو سب کچھ اللہ ہی کا ہے، اس نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ہے (اسی لیے وہ نافرمانیوں اور سرکشیوں پر تمہیں جلدی سے نہیں پکڑ لیتا)، قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا، یہ بالکل ایک غیر مشتبہ حقیقت ہے، مگر جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود تباہی کے خطرے میں مُبتلا کر لیا ہے وہ اسے نہیں مانتے۔(الانعام:۱۲)

۱۹۔اللہ رازق کے سامنے جھکنے کا حکم
رات کے اندھیرے اور دن کے اُجالے میں جو کچھ ٹھیرا ہوا ہے، سب اللہ کا ہے اور وہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ کہو، اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سرپرست بنا لوں؟ اُس خدا کو چھوڑ کر جو زمین و آسمان کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے؟ کہو، مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اُس کے آگے سرِ تسلیم خم کروں (اور تاکید کی گئی ہے کہ کوئی شرک کرتا ہے تو کرے) تُو بہرحال مشرکوں میں شامل نہ ہو۔ کہو، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے (خوفناک) دن مجھے سزا بھگتنی پڑے گی۔ اس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا ہی رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی ہے۔ اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے، اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ اپنے بندوں پر کامل اختیارات رکھتا ہے اور دانا اور باخبر ہے۔(الانعام…۱۸)

۲۰۔میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے
ان سے پوچھو، کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟ کہو میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے، اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کر دوں۔ کیا واقعی تم لوگ یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہیں؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہرگز نہیں دے سکتا۔ کہو، خدا تو وہی ایک ہے اور میں اُس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو اس طرح غیر مشتبہ طور پر پہچانتے ہیں جیسے اُن کو اپنے بیٹوں کے پہچاننے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا۔ مگر جنہوں نے اپنے آپ کو خود خسارے میں ڈال دیا ہے وہ اسے نہیں مانتے۔ اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جُھوٹا بہتان لگائے، یا اللہ کی نشانیوں کو جُھٹلائے؟ یقیناً ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔(الانعام…۲۱)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۲۱۔ روز حشر مشرکوں کا جھوٹ گھڑنا
جس روز ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے اور مشرکوں سے پُوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم اپنا خدا سمجھتے تھے تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اُٹھا سکیں گے کہ (یہ جُھوٹا بیان دیں کہ) اے ہمارے آقا! تیری قسم ہم ہرگز مشرک نہ تھے۔ دیکھو، اُس وقت یہ کس طرح اپنے اوپر آپ کو جھوٹ گھڑیں گے، اور وہاں ان کے سارے بناوٹی معبود گم ہو جائیں گے۔(الانعام…۲۴)

۲۲۔ اپنی تباہی کا سامان پیدا کرنے والے
ان میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سُنتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ ہم نے اُن کے دلوں پر پردے ڈال رکھے ہیں جن کی وجہ سے وہ اس کو کچھ نہیں سمجھتے اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دی ہے (کہ سب کچھ سننے پر بھی کچھ نہیں سنتے)۔ وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں، اس پر ایمان لا کر نہ دیں گے۔ حد یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس آ کر تم سے جھگڑتے ہیں تو ان میں سے جن لوگوں نے انکار کا فیصلہ کرلیا ہے وہ (ساری باتیں سننے کے بعد) یہی کہتے ہیں کہ یہ ایک داستانِ پارینہ کے سوا کچھ نہیں۔ وہ اس امرِ حق کو قبول کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دُور بھاگتے ہیں۔ (وہ سمجھتے ہیں کہ اس حرکت سے وہ تمہارا کچھ بگاڑ رہے ہیں) حالانکہ دراصل وہ خود اپنی ہی تباہی کا سامان کر رہے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ کاش تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے۔ اس وقت وہ کہیں گے کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دُنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں۔ درحقیقت یہ بات وہ محض اس وجہ سے کہیں گے کہ جس حقیقت پر انہوں نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ اُس وقت بے نقاب ہو کر ان کے سامنے آ چکی ہوگی، ورنہ اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں جس سے انہیں منع کیا گیا ہے، وہ تو ہیں ہی جُھوٹے (اس لیے اپنی اس خواہش کے اظہار میں بھی جُھوٹ ہی سے کام لیں گے)۔ آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے۔ کاش وہ منظر تم دیکھ سکو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے۔ اس وقت ان کا رب ان سے پوچھے گا ’’کیا یہ حقیقت نہیں ہے‘‘؟ یہ کہیں گے ’’ہاں اے ہمارے رب! یہ حقیقت ہی ہے‘‘۔ وہ فرمائے گا ’’اچھا، تو اب اپنے انکارِ حقیقت کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو‘‘۔(الانعام…۳۰)

۲۳۔ اللہ سے ملاقات کا انکار کرنے والے
نقصان میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے اپنی ملاقات کی اطلاع کو جھوٹ قرار دیا۔ جب اچانک وہ گھڑی آجائے گی تو یہی لوگ کہیں گے ’’افسوس! ہم سے اس معاملہ میں کیسی تقصیر ہوئی‘‘۔ اور ان کا حال یہ ہوگا کہ اپنی پیٹھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے۔ دیکھو! کیسا بُرا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں۔ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور ایک تماشا ہے۔ حقیقت میں آخرت ہی کا مقام ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں۔ پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لو گے؟(الانعام…۳۲)

۲۴۔ نبیﷺ کو جھٹلانا اللہ کی آیات کو جھٹلانا ہے
اے نبیﷺ! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں۔ تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں، انہوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی۔ اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں۔ تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو۔ اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر سکتا تھا، لہٰذا نادان مت بنو۔ دعوتِ حق پر لبیک وہی لوگ کہتے ہیں جو سُننے والے ہیں۔ رہے مُردے، تو انہیں تو اللہ بس قبروں ہی سے اٹھائے گا اور پھر وہ (اس کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے) واپس لائے جائیں گے۔(الانعام…۳۶)

۲۵۔مصیبت میں انسان اللہ ہی کو یاد کرتا ہے
یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی؟ کہو، اللہ نشانی اتارنے کی پُوری قدرت رکھتا ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ نادانی میں مُبتلا ہیں۔ زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اُڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو ، یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں، ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں۔ مگر جو لوگ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں وہ بہرے اور گونگے ہیں۔ تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے رستے پر لگا دیتا ہے۔ ان سے کہو، ذرا غور کر کے بتاؤ، اگر کبھی تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آ جاتی ہے یا آخری گھڑی آ پہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو؟ بولو اگر تم سچے ہو۔ اس وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو، پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے۔ ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو۔(الانعام…۴۱)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۲۶۔اللہ نافرمان قوموں کو بھی خوشحالی دیتا ہے۔
تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور اُن قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جُھک جائیں۔ پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انہوں نے عاجزی اختیار کی؟ مگر اُن کے دل تو اور سخت ہوگئے اور شیطان نے اُن کو اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو خوب کر رہے ہو۔ پھر جب انہوں نے اُس نصیحت کو جو انہیں کی گئی تھی، بُھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ان بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہو گئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔ اس طرح اُن لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظُلم کیا تھا اور تعریف ہے اللہ رب العٰلمین کے لیے (کہ اس نے ان کی جڑ کاٹ دی)۔(الانعام…۴۵)

۲۷۔بینائی و سماعت اللہ ہی عطا کرتا ہے
اے نبیﷺ! ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ تمہاری بینائی اور سماعت تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مُہر کر دے تو اللہ کے سوا اور کون سا خدا ہے جو یہ قوتیں تمہیں واپس دلا سکتا ہو؟ دیکھو، کس طرح ہم بار بار اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر یہ کس طرح ان سے نظر چُرا جاتے ہیں۔ کہو، کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ کی طرف سے اچانک یا عَلانیہ تم پر عذاب آجائے تو کیا ظالم لوگوں کے سوا کوئی اور ہلاک ہوگا؟ ہم جو رسول بھیجتے ہیں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ وہ نیک کردار لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والے اور بدکرداروں کے لیے ڈرانے والے ہوں۔ پھر جو لوگ اُن کی بات مان لیں اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کرلیں ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ اور جو ہماری آیات کو جھٹلائیں وہ اپنی نافرمانیوں کی پاداش میں سزا بُھگت کر رہیں گے۔(الانعام…۴۹)

۲۸۔ نبیﷺ غیب کا علم نہیں رکھتے
اے نبیﷺ! ان سے کہو، ’’میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔ پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟ (الانعام…۵۰)

۲۹۔ایک کے ذریعہ دوسرے کی آزمائش
اور اے نبیﷺ! تم اس (علمِ وحی) کے ذریعہ سے اُن لوگوں کو نصیحت کرو جو اس کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کیے جائیں گے کہ اُس کے سوا وہاں کوئی (ایسا ذی اقتدار) نہ ہوگا جو ان کا حامی و مددگار ہو، یا ان کی سفارش کرے، شاید کہ (اس نصیحت سے متنبہ ہو کر) وہ خدا ترسی کی روش اختیار کر لیں۔ اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دُور نہ پھینکو۔ اُن کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کسی چیز کا بار ان پر نہیں۔ اس پر بھی اگر تم انہیں دُور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہوگے۔ دراصل ہم نے اس طرح ان لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈالا ہے تاکہ وہ انہیں دیکھ کر کہیں ’’کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل و کرم ہوا ہے‘‘؟ ہاں! کیا خدا اپنے شکر گزار بندوں کو ان سے زیادہ نہیں جانتا ہے؟ (الانعام…۵۳)

۳۰۔ توبہ و اصلاح سے معافی مل جاتی ہے
جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہو ’’تم پر سلامتی ہے۔ تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔ (یہ اس کا رحم و کرم ہی ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی بُرائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرلے تو وہ اسے معاف کر دیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے‘‘۔ اور اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہو جائے۔ (الانعام…۵۵)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۳۱۔ فیصلہ کا سارا اختیار اللہ کو ہے
اے نبیﷺ! ان سے کہو کہ تم لوگ اللہ کے سوا جن دوسروں کو پکارتے ہو اُن کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے۔ کہو، میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا، اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہ ہوگیا، راہ راست پانے والوں میں سے نہ رہا۔ کہو، میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر قائم ہوں اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے، اب میرے اختیار میں وہ چیز ہے نہیں جس کے لیے تم جلدی مچا رہے ہو، فیصلہ کا سارا اختیار اللہ کو ہے، وہی امرِ حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (الانعام…۵۷)

۳۲۔ زندگی کی مقررہ مدت پوری ہوگی
کہو، اگر کہیں وہ چیز میرے اختیار میں ہوتی جس کی تم جلدی مچا رہے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ مگر اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ظالموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہیے۔ اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بحروبر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے۔ درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو۔ خشک و تر سب کچھ ایک کُھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے، پھر دوسرے روز وہ تمہیں اِسی کاروبار کے عالم میں واپس بھیج دیتا ہے تاکہ زندگی کی مقرر مدت پوری ہو۔ آخرکار اسی کی طرف تمہاری واپسی ہے، پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ اپنے بندوں پر وہ پُوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کرکے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دینے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے، پھر سب کے سب اللہ، اپنے حقیقی آقا کی طرف واپس لائے جاتے ہیں۔ خبردار ہوجاؤ، فیصلہ کے سارے اختیارات اسی کو حاصل ہیں اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔(الانعام…۶۲)

۳۳۔خطرات سے اللہ ہی بچاتا ہے۔
اے نبیﷺ! ان سے پوچھو، صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے؟ کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گِڑگڑا گِڑگڑا کر اور چُپکے چُپکے دُعائیں مانگتے ہو؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے تُو نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے؟ __ کہو، اللہ تمہیں اُس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے پھر تم دوسروں کو اس کا شریک ٹھیراتے ہو۔ کہو، وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔ دیکھو، ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں۔ تمہاری قوم اُس کا انکار کر رہی ہے حالانکہ وہ حقیقت ہے۔ ان سے کہہ دو کہ میں تم پر حوالہ دار نہیں بنایا گیا ہوں، ہر خبر کے ظہور میں آنے کا ایک وقت مقرر ہے، عنقریب تم کو خود انجام معلوم ہوجائے گا۔(الانعام…۶۷)

۳۴۔قرآن پر نکتہ چینی کرنے والوں کی محفل
اور اے نبیﷺ! جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیات پر نکتہ چینیاں کر رہے ہیں تو ان کے پاس سے ہٹ جاؤ یہاں تک کہ وہ اس گفتگو کو چھوڑ کر دوسری باتوں میں لگ جائیں۔ اور اگر کبھی شیطان تمہیں بُھلاوے میں ڈال دے تو جس وقت تمہیں اس غلطی کا احساس ہو جائے اس کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے پاس نہ بیٹھو۔ ان کے حساب میں سے کسی چیز کی ذمہ داری پرہیزگار لوگوں پر نہیں ہے، البتہ نصیحت کرنا ان کا فرض ہے شاید کہ وہ غلط روی سے بچ جائیں۔ چھوڑو ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ ہاں مگر یہ قرآن سنا کر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کیے کرتوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے، اور گرفتار بھی اس حال میں ہو کہ اللہ سے بچانے والا کوئی حامی و مددگار اور کوئی سفارشی اس کے لیے نہ ہو، اور اگر وہ ہر ممکن چیز فدیہ میں دے کر چُھوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے، کیونکہ ایسے لوگ تو خود اپنی کمائی کے نتیجے میں پکڑے جائیں گے، ان کو تو اپنے انکارِ حق کے معاوضہ میں کھولتا ہوا پانی پینے کو اور دردناک عذاب بھگتنے کو ملے گا۔ (الانعام…۷۰)

۳۵۔ صور پھونکنے پر حشر برپا ہوگا
اے نبیﷺ! ان سے پوچھو کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان؟ اور جب کہ اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا چکا ہے تو کیا اب ہم الٹے پاؤں پھِر جائیں؟ کیا ہم اپنا حال اُس شخص کا سا کر لیں جسے شیطانوں نے صحرا میں بھٹکا دیا ہو اور وہ حیران و سرگرداں پھِر رہا ہو دراں حالیکہ اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ ادھر آ، یہ سیدھی راہ موجود ہے؟ کہو، حقیقت میں صحیح رہنمائی تو صرف اللہ ہی کی رہنمائی ہے اور اس کی طرف سے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ مالکِ کائنات کے آگے سرِ اطاعت خم کر دو، نماز قائم کرو اور اس کی نافرمانی سے بچو، اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔ وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ اور جس دن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے اس دن وہ ہو جائے گا۔ اس کا ارشاد عین حق ہے۔ اور جس روز صُور پھونکا جائے گا اس روز بادشاہی اُسی کی ہوگی، وہ غیب اور شہادت ہر چیز کا عالِم ہے اور دانا اور باخبر ہے۔ (الانعام…۷۳)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top