• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیغام قرآن: نویں پارے کے مضامین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


پیغام قرآن

نویں پارہ کے مضامین

مؤلف : یوسف ثانی، مدیر اعلیٰ پیغام قرآن ڈاٹ کام



یوسف ثانی بھائی کے شکریہ کے ساتھ کہ انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پیج فائلز مہیا کیں۔
احباب سے درخواست ہے کہ کہیں ٹائپنگ یا گرامر کی کوئی غلطی پائیں تو ضرور بتائیں۔ علمائے کرام سے گزارش ہے کہ ترجمے کی کسی کوتاہی پر مطلع ہوں تو ضرور یہاں نشاندہی کریں تاکہ یوسف ثانی بھائی کے ذریعے آئندہ ایڈیشن میں اصلاح کی جا سکے۔
پی ڈی ایف فائلز کے حصول کے لئے ، وزٹ کریں:
Please select from ::: Piagham-e-Quran ::: Paigham-e-Hadees
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
قال الملا کے مضامین


۱۔قومِ شعیبؑ کی تباہی کا احوال
۲۔اچانک عذابِ الٰہی کا سبب
۳۔تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے
۴۔دربارِ فرعون میں عصائِ موسیٰ کا اژدہا بننا
۵۔جادوگروں کا حضرت موسیٰ سے شکست کھانا
۶۔دربارِ فرعون میں جادوگروں کا قبولِ اسلام
۷۔زمین کا وار ث اللہ اپنی مرضی سے بناتا ہے
۸۔ فرعون کا قحط اور خوشحالی پر ردِّ عمل
۹۔طوفان ، ٹڈّی دَل، مینڈک اور خو ن کی بارش
۱۰۔ طاقتور کی جگہ کمزوروں کوحکمراں بنادیا
۱۱۔ بنی اسرائیل کی بت پرستی کی خواہش
۱۲۔ موسٰیؑ کا اللہ سے ہم کلا می ، دیدار کی خواہش
۱۳۔ شریعت ِ موسویؑ اوراللہ کی ہدایت
۱۴۔قومِ موسٰیؑ کا بچھڑے کے پتلے کو پوجنا
۱۵۔برے عمل کے بعد توبہ و ایمان
۱۶۔موسیٰؑ کا قوم کی طرف سے معافی مانگنا
۱۷۔آخری پیغمبرﷺ کی پیروی میں فلاح ہے
۱۸۔ محمدﷺ سب انسانوں کے لئے نبی ہیں
۱۹۔ قومِ موسٰیؑ : بارہ چشمے او رمن و سلویٰ
۲۰۔آسمان سے عذابِ الٰہی کا نزول
۲۱۔برائی سے روکنے والے بچا لئے گئے
۲۲۔بنی اسرائیل پر قیامت تک عذاب ہوگا
۲۳۔اللہ کی ربوبیت اور اولادِ آدمؑ کی گواہی
۲۴۔آیاتِ ربّانی کو جھٹلانے والے کی مثال
۲۵۔غفلت میں کھوئے گئے جانوروں جیسے ہیں
۲۶۔اللہ کو اچھے ناموں سے پکارو
۲۷۔اللہ رہنمائی نہ دے تو پھر کوئی رہنما نہیں
۲۸۔اللہ جانتا ہے ،قیامت کب نازل ہوگی
۲۹۔ اللہ ہی نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا
۳۰۔خدا کے بندوں کو خدا ماننے والے
۳۱۔شیطان اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو
۳۲۔قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو
۳۳۔ اللہ کا ذکر اور مومنین کے د ل کی حالت
۳۴۔مدد اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے
۳۵۔ جو اللہ اوراس کے رسول کا مقابلہ کرے
۳۶۔چال کے طور پرمیدانِ جنگ سے فرار
۳۷۔جولوگ عقل سے کام نہیں لیتے
۳۸۔فتنہ گناہ گاروں تک محدود نہیں رہتا
۳۹۔اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے
۴۰۔ اصلی دیوالیے کون لوگ ہیں
۴۱۔اللہ بہترین مددگار ہے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۔قومِ شعیبؑ کی تباہی کا احوال
اُس کی قوم کے سرداروں نے، جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، اس سے کہا کہ ’’اے شعیبؑ، ہم تجھے اور اُن لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا‘‘۔ شعیبؑ نے جواب دیا ’’کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں؟ ہم اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے ہوں گے اگر تمہاری ملّت میں پلٹ آئیں جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے۔ ہمارے لیے تو اس کی طرف پلٹنا اب کسی طرح ممکن نہیں الاّ یہ کہ خدا ہمارا رب ہی ایسا چاہے۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز پر حاوی ہے، اُسی پر ہم نے اعتماد کرلیا۔ اے رب، ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردے اور تُو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے‘‘۔ (الاعراف…۸۹)
اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اس کی بات ماننے سے انکار کرچکے تھے، آپس میں کہا ’’اگر تم نے شعیبؑ کی پیروی قبول کرلی تو برباد ہو جاؤ گے‘‘۔ مگر ہوا یہ کہ ایک دہلا دینے والی آفت نے اُن کو آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے۔ جن لوگوں نے شعیبؑ کو جھٹلایا وہ ایسے مٹے کہ گویا کبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے۔ شعیبؑ کے جھٹلانے والے ہی آخرکار برباد ہو کر رہے۔ اور شعیبؑ یہ کہہ کر ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ ’’اے برادران قوم، میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دیے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کردیا۔ اب میں اُس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبولِ حق سے انکار کرتی ہے‘‘۔ (الاعراف…۹۳)

۲۔اچانک عذابِ الٰہی کا سبب
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مُبتلا نہ کیا ہو، اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اُتر آئیں۔ پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پُھولے اور کہنے لگے کہ ’’ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور بُرے دن آتے ہی رہے ہیں‘‘۔ آخرکار ہم نے اُنہیں اچانک پکڑ لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم اُن پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر انہوں نے تو جُھٹلایا، لہٰذا ہم نے اس بُری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔ پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آ جائے گی جب کہ وہ سوتے پڑے ہوں؟ یا انہیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جبکہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔ (الاعراف…۹۹)

۳۔تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے
اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہلِ زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں؟ (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافُل برتتے ہیں) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سُنتے۔ یہ قومیں جن کے قصے ہم تمہیں سنا رہے ہیں (تمہارے سامنے مثال میں موجود ہیں) اُن کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، مگر جس چیز کو وہ ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے پھر اسے وہ ماننے والے نہ تھے۔ دیکھو اس طرح ہم منکرینِ حق کے دلوں پر مُہر لگا دیتے ہیں۔ ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاسِ عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا۔ (الاعراف…۱۰۲)

۴۔دربارِ فرعون میں عصاء موسیٰ کا اژدہا بننا
پھر اُن قوموں کے بعد (جن کا ذکر اوپر کیا گیا) ہم نے موسٰیؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا۔ مگر انہوں نے بھی ہماری نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا، پس دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔موسٰیؑ نے کہا ’’اے فرعون، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں، میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیلِ ماموریت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تُو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے‘‘۔ فرعون نے کہا ’’اگر تُو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر‘‘۔ موسٰیؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا۔ اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا۔ (الاعراف…۱۰۸)

۵۔جادوگروں کا حضرت موسیٰ سے شکست کھانا
اس پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ ’’یقیناً یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے، تمہیں تمہاری زمین سے بیدخل کرنا چاہتا ہے، اب کہو کیا کہتے ہو‘‘؟ پھر ان سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھائی کو انتظار میں رکھیے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے کہ ہر ماہرِ فن جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں۔ چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آگئے۔ انہوں نے کہا ’’اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا‘‘؟ فرعون نے جواب دیا ’’ہاں، اور تم مقرب بارگاہ ہو گے‘‘۔ پھر انہوں نے موسٰیؑ سے کہا۔ ’’تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں‘‘؟ موسٰیؑ نے جواب دیا ’’تم ہی پھینکو‘‘۔ انہوں نے جو اپنے آنچھر پھینکے تو نگاہوں کو مسحور اور دلوں کو خوف زدہ کردیا اور بڑا ہی زبردست جادو بنا لائے۔ ہم نے موسٰیؑ کو اشارہ کیا کہ پھینک اپنا عصا۔ اس کا پھینکنا تھا کہ آن کی آن میں وہ ان کے اس جھوٹے طلسم کو نگلتا چلا گیا۔(الاعراف…۱۱۷)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۶۔دربارِ فرعون میں جادوگروں کا قبولِ اسلام
اس طرح جو حق تھا وہ حق ثابت ہوا اور جو کچھ انہوں نے بنا رکھا تھا وہ باطل ہو کر رہ گیا۔ فرعون اور اس کے ساتھی میدانِ مقابلہ میں مغلوب ہوئے اور (فتح مند ہونے کے بجائے) اُلٹے ذلیل ہوگئے۔ اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں سجدے میں گرا دیا۔ کہنے لگے ’’ہم نے مان لیا رب العالمین کو، اُس رب کو جسے موسٰیؑ اور ہارونؑ مانتے ہیں‘‘۔فرعون نے کہا ’’تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں؟ یقینا یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اس دارالسلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کردو۔ اچھا تو اس کا نتیجہ اب تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے۔ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر چڑھاؤں گا‘‘۔انہوں نے جواب دیا ’’بہرحال ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف ہے۔ تُو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آگئیں تو ہم نے انہیں مان لیا۔ اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرمانبردار ہوں‘‘۔ (الاعراف…۱۲۶)

۷۔زمین کا وار ث اللہ اپنی مرضی سے بناتا ہے
فرعون سے اس کی قوم کے سرداروں نے کہا ’’کیا تُو موسٰیؑ اور اس کی قوم کو یوں ہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھیں؟‘‘ فرعون نے جواب دیا ’’میں ان کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور ان کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا۔ ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے‘‘۔موسٰیؑ نے اپنی قوم سے کہا ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی اُن ہی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں‘‘۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا ’’تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔ (الاعراف…۱۲۹)

۸۔ فرعون کا قحط اور خوشحالی پر ردِّ عمل
ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قحط اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاید ان کو ہوش آئے۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب اچھا زمانہ آتا تو کہتے کہ ہم اسی کے مستحق ہیں، اور جب بُرا زمانہ آتا تو موسٰیؑ اور اس کے ساتھیوں کو اپنے لیے فالِ بد ٹھیراتے، حالانکہ درحقیقت اُن کی فالِ بد تو اللہ کے پاس تھی، مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے۔ انہوں نے موسٰیؑ سے کہا کہ ’’تُو ہمیں مسحور کرنے کے لیے خواہ کوئی نشانی لے آئے، ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں ہیں‘‘۔ (الاعراف…۱۳۲)

۹۔طوفان ، ٹڈّی دَل، مینڈک اور خو ن کی بارش
آخرکار ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ٹڈّی دَل چھوڑے، سُرسُریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کرکے دکھائیں۔ مگر وہ سرکشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔ جب کبھی اُن پر بلا نازل ہو جاتی تو کہتے ’’اے موسٰی، تجھے اپنے رب کی طرف سے جو منصب حاصل ہے اس کی بنا پر ہمارے حق میں دعا کر، اگر اب کے تُو ہم پر سے یہ بلاٹلوا دے تو ہم تیری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے‘‘۔ مگر جب ہم اُن پر سے اپنا عذاب ایک وقتِ مقرر تک کے لیے، جس کو وہ بہرحال پہنچنے والے تھے، ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے۔ تب ہم نے اُن سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کردیا کیونکہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جُھٹلایا تھا اور اُن سے بے پروا ہو گئے تھے۔ (الاعراف…۱۳۶)

۱۰۔ طاقتور کی جگہ کمزوروں کوحکمراں بنادیا
اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے، اُس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا۔ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدۂ خیر پورا ہوا کیونکہ انہوں نے صبر سے کام لیا تھا اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کردیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے۔ (الاعراف…۱۳۷)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۱۔ بنی اسرائیل کی بت پرستی کی خواہش
بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر ان کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے ’’اے موسٰیؑ ، ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں‘‘۔ موسٰیؑ نے کہا ’’تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو۔ یہ لوگ جس طریقہ کی پیروی کر رہے ہیں وہ تو برباد ہونے والا ہے اور جو عمل وہ کر رہے ہیں وہ سراسر باطل ہے‘‘۔ پھر موسٰیؑ نے کہا ’’کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود تمہارے لیے تلاش کروں؟ حالانکہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں دنیا بھر کی قوموں پر فضیلت بخشی ہے۔ اور (اللہ فرماتا ہے) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرعون والوں سے تمہیں نجات دی، جن کا حال یہ تھا کہ تمہیں سخت عذاب میں مبتلا رکھتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی‘‘۔ (الاعراف…۱۴۱)

۱۲۔ موسٰیؑ کا اللہ سے ہم کلا می ، دیدار کی خواہش
ہم نے موسٰیؑ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہ سینا پر) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کر دیا، اس طرح اس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہوگئی۔ موسٰیؑ نے چلتے ہوئے اپنے بھائی ہارونؑ سے کہا کہ ’’میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلنا‘‘۔ جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے التجا کی کہ ’’اے رب! مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں‘‘۔ فرمایا تُو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں ذرا سامنے کے پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تُو مجھے دیکھ سکے گا‘‘۔ چنانچہ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسٰیؑ غش کھا کر گر پڑا۔ جب ہوش آیا تو بولا ’’پاک ہے تیری ذات، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والا میں ہوں‘‘۔ فرمایا ’’اے موسٰی، میں نے تمام لوگوں پر ترجیح دے کر تجھے منتخب کیا کہ میری پیغمبری کرے اور مجھ سے ہم کلام ہو۔ پس جو کچھ میں تجھے دوں اسے لے اور شکر بجا لا‘‘۔(الاعراف…۱۴۴)

۱۳۔ شریعت ِ موسویؑ اوراللہ کی ہدایت
اس کے بعد ہم نے موسٰیؑ کو ہر شعبۂ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی اور اس سے کہا: ’’ان ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں، عنقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاؤں گا۔ میں اپنی نشانیوں سے اُن لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں، وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں کبھی اس پر ایمان نہ لائیں گے، اگر سیدھا راستہ اُن کے سامنے آئے تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ٹیڑھا راستہ نظر آئے تو اس پر چل پڑیں گے، اس لیے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے بے پروائی کرتے رہے۔ ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلایا اور آخرت کی پیشی کا انکار کیا اس کے سارے اعمال ضائع ہوگئے۔ کیا لوگ اس کے سوا کچھ اور جزا پا سکتے ہیں کہ جیسا کریں ویسا بھریں‘‘؟ (الاعراف…۱۴۷)

۱۴۔قومِ موسٰیؑ کا بچھڑے کے پتلے کو پوجنا
موسٰیؑ کے پیچھے اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ کیا انہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے؟ مگر پھر بھی انہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے۔ پھر جب ان کی فریب خوردگی کا طلسم ٹوٹ گیا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ درحقیقت وہ گمراہ ہوگئے ہیں تو کہنے لگے کہ ’’اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہم سے درگزر نہ کیا تو ہم برباد ہو جائیں گے‘‘۔ اُدھر سے موسٰیؑ غصے اور رنج میں بھرا ہوا اپنی قوم کی طرف پلٹا۔ آتے ہی اس نے کہا ’’بہت بُری جانشینی کی تم لوگوں نے میرے بعد! کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کر لیتے‘‘؟ اور تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی (ہارونؑ ) کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچا۔ ہارونؑ نے کہا ’’اے میری ماں کے بیٹے، ان لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے۔ پس تو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور اس ظالم گروہ کے ساتھ مجھے نہ شامل کر‘‘۔ تب موسٰیؑ نے کہا ’’اے رب، مجھے اور میرے بھائی کو معاف کر اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تو سب سے بڑھ کر رحیم ہے‘‘۔(الاعراف…۱۵۱)

۱۵۔برے عمل کے بعد توبہ و ایمان
(جواب میں ارشاد ہوا کہ) ’’جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا وہ ضرور اپنے رب کے غضب میں گرفتار ہو کر رہیں گے اور دنیا کی زندگی میں ذلیل ہوں گے۔ جھوٹ گھڑنے والوں کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ اور جو لوگ بُرے عمل کریں پھر توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں تو یقیناً اس توبہ و ایمان کے بعد تیرا رب درگزر اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (الاعراف…۱۵۳)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۶۔موسیٰؑ کا قوم کی طرف سے معافی مانگنا
پھر جب موسٰیؑ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس نے وہ تختیاں اٹھا لیں جن کی تحریر میں ہدایت اور رحمت تھی ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، اور اس نے اپنی قوم کے ستر آدمیوں کو منتخب کیا تاکہ وہ (اُس کے ساتھ) ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر حاضر ہوں۔ جب ان لوگوں کو ایک سخت زلزلے نے آ پکڑا تو موسٰیؑ نے عرض کیا ’’اے میرے سرکار، آپ چاہتے تو پہلے ہی ان کو اور مجھے ہلاک کر سکتے تھے۔ کیا آپ اُس قصور میں جو ہم میں سے چند نادانوں نے کیا تھا ہم سب کو ہلاک کردیں گے؟ یہ تو آپ کی ڈالی ہوئی ایک آزمائش تھی جس کے ذریعہ سے آپ جسے چاہتے ہیں گمراہی میں مبتلا کر دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ہدایت بخش دیتے ہیں۔ ہمارے سرپرست تو آپ ہی ہیں۔ پس ہمیں معاف کردیجیے اور ہم پر رحم فرمائیے، آپ سب سے بڑھ کر معاف فرمانے والے ہیں۔ اور ہمارے لیے اس دنیا کی بھلائی بھی لکھ دیجیے اور آخرت کی بھی، ہم نے آپ کی طرف رجوع کر لیا‘‘۔ جواب میں ارشاد ہوا ’’سزا تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں، مگر میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اور اسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے، زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے‘‘۔(الاعراف…۱۵۶)

۱۷۔آخری پیغمبرﷺ کی پیروی میں فلاح ہے
(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اِس پیغمبر، بنی اُمی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (الاعراف…۱۵۷)

۱۸۔ محمدﷺ سب انسانوں کے لئے نبی ہیں
اے محمدﷺ، کہو کہ ’’اے انسانو! میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے بنی اُمیّ پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اس کی،امید ہے کہ تم راہِ راست پا لو گے‘‘۔ (الاعراف…۱۵۸)

۱۹۔ قومِ موسٰیؑ : بارہ چشمے او رمن و سلویٰ
موسٰیؑ کی قوم میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو حق کے مطابق ہدایت کرتا اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا تھا۔ اور ہم نے اس قوم کو بارہ گھرانوں میں تقسیم کر کے انہیں مستقل گروہوں کی شکل دے دی تھی۔ اور جب موسٰیؑ سے اس کی قوم نے پانی مانگا تو ہم نے اس کو اشارہ کیا کہ فلاں چٹان پر اپنی لاٹھی مارو۔ چنانچہ اس چٹان سے یکایک بارہ چشمے پُھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی لینے کی جگہ متعین کرلی۔ ہم نے ان پر بادل کا سایہ کیا اور اُن پر من و سلویٰ اُتارا __ ’’کھاؤ وہ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو بخشی ہیں‘‘۔ مگر اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا تو ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے۔ (الاعراف…۱۶۰)

۲۰۔آسمان سے عذابِ الٰہی کا نزول
یاد کرو وہ وقت جب ان سے کہا گیا تھا کہ ’’اس بستی میں جا کر بس جاؤ اور اس کی پیداوار سے اپنے حسبِ منشا روزی حاصل کرو اور حِطّۃ حِطّۃ کہتے جاؤ اور شہر کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہو، ہم تمہاری خطائیں معاف کریں گے اور نیک رویہ رکھنے والوں کو مزید فضل سے نوازیں گے‘‘۔ مگر جو لوگ ان میں سے ظالم تھے انہوں نے اُس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی بدل ڈالا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے ان کے ظلم کی پاداش میں ان پر آسمان سے عذاب بھیج دیا۔ (الاعراف…۱۶۲)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۲۱۔برائی سے روکنے والے بچا لئے گئے
اور ذرا ان سے اُس بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔ انہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سَبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سَبت ہی کے دن اُبھر اُبھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور سَبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے۔ اور انہیں یہ بھی یاد دلاؤ کہ جب ان میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ ’’تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’’ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس امید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں‘‘۔ آخرکار جب وہ اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے، اورباقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا کہ بندر ہوجاؤ، ذلیل اور خوار۔ (الاعراف…۱۶۶)

۲۲۔بنی اسرائیل پر قیامت تک عذاب ہوگا
اور یاد کرو جبکہ تمہارے رب نے اعلان کر دیا کہ ’’وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو ان کو بدترین عذاب دیں گے‘‘۔ یقیناً تمہارا رب سزا دینے میں تیزدست ہے اور یقیناً وہ درگزر اور رحم سے بھی کام لینے والا ہے۔ہم نے ان کو زمین میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے بہت سی قوموں میں تقسیم کر دیا۔ کچھ لوگ ان میں نیک تھے اور کچھ اس سے مختلف۔ اور ہم ان کو اچھے اور بُرے حالات سے آزمائش میں مُبتلا کرتے رہے کہ شاید یہ پلٹ آئیں۔ پھر اگلی نسلوں کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جو کتاب الٰہی کے وارث ہو کر اسی دنیائے دَنی کے فائدے سمیٹتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ توقع ہے ہمیں معاف کردیا جائے گا، اور اگر وہی متاعِ دنیا سامنے آتی ہے تو پھر لپک کر اسے لے لیتے ہیں۔ کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا جا چکا ہے کہ اللہ کے نام پر وہی بات کہیں جو حق ہو؟ اور یہ خود پڑھ چکے ہیں جو کتاب میں لکھا ہے۔ آخرت کی قیام گاہ تو خدا ترس لوگوں کے لیے ہی بہتر ہے، کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے؟ جو لوگ کتاب کی پابندی کرتے ہیں اور جنہوں نے نماز قائم کر رکھی ہے، یقیناً ایسے نیک کردار لوگوں کا اَجر ہم ضائع نہیں کریں گے۔ انہیں وہ وقت بھی کچھ یاد ہے جبکہ ہم نے پہاڑ کو ہلا کر ان پر اس طرح چھا دیا تھا کہ گویا وہ چھتری ہے اور یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ ان پر آپڑے گا اور اُس وقت ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو، توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گے۔ (الاعراف…۱۷۱)

۲۳۔اللہ کی ربوبیت اور اولادِ آدمؑ کی گواہی
اور اے نبیﷺ، لوگوں کو یاد دلائو وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ’’کیا میں تمہارارب نہیں ہوں‘‘؟ انہوں نے کہا ’’ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں‘‘۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ’’ہم تو اس بات سے بے خبر تھے‘‘ یا یہ نہ کہنے لگو کہ ’’شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اُس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا‘‘؟ دیکھو، اس طرح ہم نشانیاں واضح طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ پلٹ آئیں۔ (الاعراف…۱۷۴)

۲۴۔آیاتِ ربّانی کو جھٹلانے والے کی مثال
اور اے نبیﷺ، ان کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا۔ آخرکار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ اگر ہم چاہتے تو اسے اُن آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جُھک کر رہ گیا اور اپنی خواہشِ نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہٰذا اس کی حالت کُتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں۔تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو، شاید کہ کچھ غوروفکر کریں (الاعراف۱۷۶)

۲۵۔غفلت میں کھوئے گئے جانوروں جیسے ہیں
بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جُھٹلایا، اور وہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت بخشے بس وہی راہِ راست پاتا ہے اور جس کو اللہ اپنی رہنمائی سے محروم کر دے وہی ناکام و نامراد ہو کر رہتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔ (الاعراف…۱۷۹)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۲۶۔اللہ کو اچھے ناموں سے پکارو
اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کا بدلہ وہ پا کر رہیں گے۔ ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا ہے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہے، تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی۔ میں اُن کو ڈھیل دے رہا ہوں، میری چال کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ (الاعراف…۱۸۳)

۲۷۔اللہ رہنمائی نہ دے تو پھر کوئی رہنما نہیں
اور کیا ان لوگوں نے کبھی سوچا نہیں؟ ان کے رفیق پر جُنون کا کوئی اثر نہیں ہے۔ وہ تو ایک خبردار کرنے والا ہے جو (برا انجام سامنے آنے سے پہلے) صاف صاف متنبہ کر رہا ہے۔ کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پرکبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا؟ اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلت زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آ لگا ہو؟ پھر آخر پیغمبرﷺ کی اس تنبیہ کے بعد اور کونسی بات ایسی ہوسکتی ہے جس پر یہ ایمان لائیں؟__ جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کر دے اس کے لیے پھر کوئی رہنما نہیں ہے، اور اللہ انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔ (الاعراف…۱۸۶)

۲۸۔اللہ جانتا ہے ،قیامت کب نازل ہوگی
یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی؟ کہو’’اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے۔ اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا۔ آسمانوں اور زمین میں وہ بڑا سخت وقت ہوگا۔ وہ تم پر اچانک آ جائے گا‘‘۔ یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پُوچھتے ہیں گویا کہ تم اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہو۔ کہو ’’اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں‘‘۔ اے نبیﷺ، ان سے کہو کہ ’’میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں‘‘۔ (الاعراف…۱۸۸)

۲۹۔ اللہ ہی نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا
وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلی پھرتی رہی۔ پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں نے مل کر اللہ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تُو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔ مگر جب اللہ نے ان کو ایک صحیح و سالم بچہ دے دیا تو وہ اس بخشش و عنایت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھیرانے لگے۔ اللہ بہت بلند و برتر ہے اُن مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ اُن کو خدا کا شریک ٹھیراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں، جو نہ ان کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ آپ اپنی مدد ہی پر قادر ہیں۔ (الاعراف…۱۹۲)

۳۰۔خدا کے بندوں کو خدا ماننے والے
اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کی دعوت دو تو وہ تمہارے پیچھے نہ آئیں۔ تم خواہ انہیں پکارو یا خاموش رہو، دونوں صورتوں میں تمہارے لیے یکساں ہی رہے۔ تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو۔ ان سے دعائیں مانگ دیکھو، یہ تمہاری دعاؤں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمہارے خیالات صحیح ہیں۔ کیا یہ پاؤں رکھتے ہیں کہ ان سے چلیں؟ کیا یہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ ان سے پکڑیں؟ کیا یہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے دیکھیں؟ کیا یہ کان رکھتے ہیں کہ ان سے سُنیں؟ اے نبیﷺ، ان سے کہو کہ ’’بلا لو اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو، پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو، میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے۔ بخلاف اس کے تم جنہیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں، بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سُن بھی نہیں سکتے ۔ بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے‘‘۔(الاعراف…۱۹۸)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۳۱۔شیطان اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو
اے نبیﷺ نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔ اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو، وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی بُرا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریقِ کار کیا ہے۔ رہے ان کے (یعنی شیاطین کے) بھائی بند، تو وہ انہیں ان کی کج روی میں کھینچے چلے جاتے ہیں اور اُنہیں بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے (الاعراف۲۰۲)

۳۲۔جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو
اے نبیﷺ، جب تم ان لوگوں کے سامنے کوئی نشانی (یعنی معجزہ) پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کرلی؟ ان سے کہو ’’میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں۔ جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہو جائے‘‘۔اے نبیﷺ! اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آ کر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے، اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں۔ (الاعراف…۲۰۶)

۳۳۔ اللہ کا ذکر اور مومنین کے د ل کی حالت
سورۃ الانفال :اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو ’’یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے ہیں پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو‘‘۔ سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں، قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔ (اِس مال غنیمت کے معاملہ میں بھی ویسی ہی صورت پیش آرہی ہے جیسی اُس وقت پیش آئی تھی جب کہ) تیرا رب تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکال لایا تھا اور مومنوں میں سے ایک گروہ کو یہ ناگوار تھا۔ وہ اس حق کے معاملہ میں تجھ سے جھگڑ رہے تھے دراں حالیکہ وہ صاف صاف نمایاں ہو چکا تھا۔ ان کا حال یہ تھا کہ گویا وہ آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں۔ (الانفال…۶)

۳۴۔مدد اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے
یاد کرو وہ موقع جبکہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مل جائے گا۔ تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے۔ مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے تاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطل باطل ہو کر رہ جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔اور وہ موقع جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ یقیناً اللہ زبردست اور دانا ہے۔ (الانفال:۱۰)

۳۵۔ جو اللہ اوراس کے رسول کا مقابلہ کرے
اور وہ وقت جبکہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا، اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جما دے۔اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ ’’میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگائو‘‘۔ یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اوراس کے رسول کا مقابلہ کرے اللہ اُس کے لیے نہایت سخت گیر ہے __ یہ ہے تم لوگوں کی سزا، اب اس کا مزا چکھو، اور تمہیں معلوم ہو کہ حق کا انکار کرنے والوں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے۔(الانفال…۱۴)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top