• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیغام قرآن: پہلے پارے کے مضامین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


پیغام قرآن

پہلے پارہ کے مضامین

مؤلف : یوسف ثانی، مدیر اعلیٰ پیغام قرآن ڈاٹ کام

تبصرہ کے لئے اس دھاگے میں تشریف لائیں

یوسف ثانی بھائی کے شکریہ کے ساتھ کہ انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پیج فائلز مہیا کیں۔
احباب سے درخواست ہے کہ کہیں ٹائپنگ یا گرامر کی کوئی غلطی پائیں تو ضرور بتائیں۔ علمائے کرام سے گزارش ہے کہ ترجمے کی کسی کوتاہی پر مطلع ہوں تو ضرور یہاں نشاندہی کریں تاکہ یوسف ثانی بھائی کے ذریعے آئندہ ایڈیشن میں اصلاح کی جا سکے۔
پی ڈی ایف فائلز کے حصول کے لئے ، وزٹ کریں:
Please select from ::: Piagham-e-Quran ::: Paigham-e-Hadees
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
الٓم ٓ کے مضامین


۱۔ اللہ کے بندے اللہ ہی سے مدد مانگتے ہیں
۲۔ اللہ کی کتاب کیا ہے ؟
۳۔اللہ کی کتاب کا انکار کرنے والے
۴۔منافقین کی دھوکہ بازی
۵۔ رب کی بندگی اختیار کرو
۶۔قرآن کی نقل ممکن نہیں
۷۔عامل قرآن کو جنت کی خوشخبری
۸۔اللہ تمثیلیں کیوں بیان کرتا ہے
۹۔اللہ دوبارہ زندگی عطاکرے گا
۱۰۔تخلیقِ آدمؑ پر فرشتوں کا اعتراض
۱۱۔نکلنا خلد سے آدمؑ کا
۱۲۔بنی اسرائیل سے اللہ کا خطاب
۱۳۔بنی اسرائیل کو فضیلت عطا کی گئی
۱۴۔ فرعون کا لڑکوں کو ذبح کروانا
۱۵۔اللہ نے سمندر پھاڑ کر راستہ بنایا
۱۶۔بنی اسرائیل کا بچھڑے کو معبود بنانا
۱۷۔ بنی اسرائیل کا خدا کو دیکھنے پر اصرار
۱۸۔ قومِ موسیٰ پرمن و سلویٰ کا نزول
۱۹۔اور چٹان سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے
۲۰۔وہ پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے
۲۱۔ نیک عمل کا اجر رب کے پاس ہے
۲۲۔نافرمان انسانوں کا بندر بننا
۲۳۔قومِ موسیٰ کو گائے ذبح کرنے کا حکم
۲۴۔ پتھر سا دِل رکھنے والے
۲۵۔ کلام اللہ میں تحریف کرتے رہے
۲۶۔بنی اسرائیل سے اللہ کا عہد
۲۷۔ عیسٰی ؑ کو روحِ پاک سے مدد کی گئی
۲۸۔بنی اسرائیل کا حق کو ماننے سے انکار
۲۹۔کافر کبھی موت کی تمنا نہ کرینگے
۳۰۔فرشتوں کا دشمن اللہ کا دشمن ہے
۳۱۔قرآن کا انکار کرنے والے
۳۲۔سلیمان ؑ ا ور ہاروت و ماروت کا ذکر
۳۳۔اہل کتاب و مشرکین کا رویہ
۳۴۔عیسائی ویہودی، جنتی ہونے کا دعویٰ
۳۵۔یہودی و عیسائی کے اختلافات
۳۶۔بڑا ظالم شخص کون ہوگا؟
۳۷۔مشرق و مغرب سب اللہ کے ہیں
۳۸۔اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے
۳۹۔ نشانی ہمارے پاس کیوں نہیں آتی؟
۴۰۔یہودی اور عیسائی راضی نہ ہوں گے
۴۱۔بنی اسرائیل کو عطا کردہ نعمت
۴۲۔حضرت ابراہیم ؑ کی آزمائش
۴۳۔کعبہ امن کی جگہ ہے
۴۴۔سامان ِ زندگی توکافروں کو بھی ملے گا
۴۵۔تعمیر کعبہ اور ابراہیمؑ و اسمٰعیل ؑ کی دعا
۴۶۔ دین ابراہیم ؑسے نفرت کرنے والے
۴۷۔ حضرت یعقوبؑ کی وصیت
۴۸۔یہودی عیسائی راہ راست پر نہیں
۴۹۔اللہ کا رنگ سب سے بہتر ہے
۵۰۔انبیاؑ یہودی یا نصرانی نہ تھے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۔ اللہ کے بندے اللہ ہی سے مدد مانگتے ہیں
سورہ فاتحہ: اللہ کے نام سے جو رحمان اور رحیم ہے۔تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے، رحمان اور رحیم ہے، روز جزا کا مالک ہے۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جوبھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔ (فاتحۃ …۷)

۲۔ اللہ کی کتاب کیا ہے؟
سورہ البقرۃ: اللہ کے نام سے جو رحمان اور رحیم ہے۔ الف، لام، میم۔ یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے ان پرہیزگار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں، جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔(البقرۃ…۵)

۳۔ کتاب اللہ کا انکار کرنے والے
جن لوگوں نے (ان باتوں کو تسلیم کرنے سے) انکار کردیا، ان کے لیے یکساں ہے، خواہ تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو، بہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں۔ اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ (البقرۃ…۷)

۴۔منافقین کی دھوکہ بازی
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں، حالانکہ درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں۔ وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا ہے، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں، اس کی پاداش میں ان کے لیے دردناک سزا ہے۔ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں خبردار! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے۔ اور جب ان سے کہا گیا کہ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو انہوں نے یہی جواب دیا کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟ خبردار حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں، مگر یہ جانتے نہیں ہیں۔ جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، اور جب علیٰحدگی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے محض مذاق کررہے ہیں۔ اللہ ان سے مذاق کررہا ہے، وہ ان کی رسی دراز کیے جاتا ہے، اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے، مگر یہ سودا ان کے لیے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اس نے سارے ماحول کو روشن کردیا تو اللہ نے ان کا نور ِ بصارت سلب کرلیا اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، یہ اب نہ پلٹیں گے۔ یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہورہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک بھی ہے، یہ بجلی کے کڑاکے سن کر اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے لیتے ہیں اور اللہ اِن منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ چمک سے ان کی حالت یہ ہورہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی اِن کی بصارت اُچک لے جائے گی۔ جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسوس ہوتی ہے تو اس میں کچھ دور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل ہی سلب کرلیتا، یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ…۲۰)

۵۔ رب کی بندگی اختیار کرو
لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ان سب کا خالق ہے، تمہارے بچنے کی توقع اسی صورت سے ہوسکتی ہے۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا۔ پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مدمقابل نہ ٹھہراؤ۔(البقرۃ…۲۲)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۶۔قرآن کی نقل ممکن نہیں
اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے، یہ ہماری ہے یا نہیں، تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ، اپنے سارے ہم نواؤں کو بلا لو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو، مدد لے لو، اگر تم سچے ہو تو یہ کام کرکے دکھاؤ۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، اور یقیناً کبھی نہیں کرسکتے، تو ڈرو اس آگ سے، جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر، جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لیے۔(البقرۃ…۲۴)

۷۔عاملِ قرآن کو جنت کی خوشخبری
اور اے پیغمبر، جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کرلیں، انہیں خوشخبری دے دو کہ ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے۔ ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔(البقرۃ…۲۵)

۸۔اللہ تمثیلیں کیوں بیان کرتا ہے
ہاں، اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے۔ جو لوگ حق کو قبول کرنے والے ہیں، وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے، اور جو ماننے والے نہیں ہیں، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے۔ اور اس سے گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں، اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں، اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں، اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔(البقرۃ…۲۷)

۹۔اللہ دوبارہ زندگی عطاکرے گا
تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو، حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمہاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے۔ اور وہ ہر چیزکا علم رکھنے والا ہے۔ (البقرۃ…۲۹)

۱۰۔تخلیقِ آدم ؑپر فرشتوں کا اعتراض
پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔ انہوں نے عرض کیا: ’’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے‘‘۔ اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے۔ پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا ’’اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا)، تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا ’’نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں‘‘۔ پھر اللہ نے آدم سے کہا: ’’تم انہیں ان چیزوں کے نام بتاؤ‘‘۔ جب اس نے ان کو اُن سب کے نام بتا دیے، تواللہ نے فرمایا: ’’میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں، جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، وہ بھی معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے بھی میں جانتا ہوں‘‘۔ پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھگ جاؤ، تو سب جھک گئے، مگر ابلیس نے انکار کیا۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔(البقرۃ…۳۴)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۱۔نکلنا خلد سے آدمؑ کا
پھر ہم نے آدم سے کہا کہ ’’تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کا رخ نہ کرنا، ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے‘‘۔ آخرکار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے۔ ہم نے حکم دیا کہ ’’اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے‘‘۔ اس وقت آدمؑ نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی جس کو اس کے رب نے قبول کرلیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
ہم نے کہا کہ ’’تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور ر نج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔(البقرۃ…۳۹)

۱۲۔بنی اسرائیل سے اللہ کا خطاب
اے بنی اسرائیل! ذرا خیال کرو میری اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی۔ میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا اسے تم پورا کرو تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا اسے میں پورا کروں، اور مجھ ہی سے تم ڈرو۔ اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ۔ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو اور میرے غضب سے بچو۔ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور جو لوگ میرے آگے جھک رہے ہیں ان کے ساتھ تم بھی جھک جاؤ۔ تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو۔ کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟ صبر اور نماز سے مدد لو، بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخرکار انہیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ (البقرۃ…۴۶)

۱۳۔بنی اسرائیل کو فضیلت عطا کی گئی
اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اس نعمت کو، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی۔ اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہوگی، نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مل سکے گی۔(البقرۃ…۴۸)

۱۴۔ فرعون کا لڑکوں کو ذبح کروانا
یادکرو وہ وقت جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی، انہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔(البقرۃ…۴۹)

۱۵۔اللہ نے سمندر پھاڑ کر راستہ بنایا
یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہارے لیے راستہ بنایا، پھر اس میں سے تمہیں بخیریت گزروا دیا، پھر وہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے فرعونیوں کو غرقاب کیا۔ یاد کرو، جب ہم نے موسیٰ ؑ کو چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر بلایا، تو اس کے پیچھے تم بچھڑے کو اپنا معبود بنا بیٹھے۔ اس وقت تم نے بڑی زیادتی کی تھی، مگر اس پر بھی ہم نے تمہیں معاف کردیا کہ شاید اب تم شکر گزار بنو۔(البقرۃ…۵۲)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۱۶۔بنی اسرائیل کا بچھڑے کو معبود بنانا
یاد کرو کہ (ٹھیک اس وقت جب تم یہ ظلم کررہے تھے) ہم نے موسیٰؑ کو کتاب اور فرقان عطا کی تاکہ تم اس کے ذریعے سے سیدھا راستہ پا سکو۔یادکرو جب موسیٰؑ (یہ نعمت لیے ہوئے پلٹا، تو اس) نے اپنی قوم سے کہاکہ ’’لوگو، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو، اسی میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے‘‘۔ اُس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کرلی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(البقرۃ…۵۴)

۱۷۔ بنی اسرائیل کا خدا کو دیکھنے پر اصرار
یاد کرو جب تم نے موسیٰ ؑ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے، جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علانیہ خدا کو (تم سے کلام کرتے) نہ دیکھ لیں۔ اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک زبردست کڑکے نے تم کو آ لیا۔ تم بے جان ہو کر گر چکے تھے، مگر پھر ہم نے تم کو جِلا اٹھایا، شاید کہ اس احسان کے بعد تم شکر گزار بن جاؤ۔(البقرۃ…۵۶)

۱۸۔ قومِ موسیٰ پرمن و سلویٰ کا نزول
ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا، من و سلویٰ کی غذا تمہارے لیے فراہم کی اور تم سے کہا کہ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں، انہیں کھاؤ، مگر تمہارے اسلاف نے جو کچھ کیا وہ ہم پر ظلم نہ تھا، بلکہ انہوں نے آپ اپنے ہی اوپر ظلم کیا۔پھر یاد کرو جب ہم نے کہا تھا کہ ’’یہ بستی، جو تمہارے سامنے ہے، اس میں داخل ہو جاؤ، اس کی پیداوار، جس طرح چاہو، مزے سے کھاؤ، مگر بستی کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہونا اورکہتے جانا حِطّۃ حِطّۃ، ہم تمہاری خطاؤں سے درگزر کریں گے اور نیکو کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے‘‘ مگر جو بات کہی گئی تھی، ظالموں نے اسے بدل کر کچھ اور کردیا۔ آخرکار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا۔ یہ سزا تھی ان نافرمانیوں کی، جو وہ کررہے تھے۔(البقرۃ…۵۹)

۱۹۔اور چٹان سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے
یاد کرو، جب موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہا کہ فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر قبیلے نے جان لیا کہ کونسی جگہ اس کے پانی لینے کی ہے۔ (اس وقت یہ ہدایت کردی گئی تھی کہ) اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔(البقرۃ…۶۰)

۲۰۔وہ پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے
یاد کرو، جب تم نے کہا تھا کہ ’’اے موسیٰؑ ، ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے۔ اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار، ساگ، ترکاری، کھیرا، ککڑی، گیہوں، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کرے‘‘۔ تو موسیٰ ؑ نے کہا : ’’کیا ایک بہتر چیز کے بجائے تم ادنیٰ درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو؟ اچھا،کسی شہری آبادی میں جا رہو۔ جو کچھ تم مانگتے ہو، وہاں مل جائے گا‘‘۔ آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گِھر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اِس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے۔یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے۔ (البقرۃ…۶۱)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۲۱۔ نیک عمل کا اجر رب کے پاس ہے
یقین جانو کہ نبی عربی کو ماننے والے ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں یا صابی، جو بھی اللہ اور روز آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے طور کو تم پر اٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھا اور کہا تھا کہ ’’جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامنا اور جو احکام و ہدایات اس میں درج ہیں انہیں یاد رکھنا۔ اسی ذریعے سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم تقویٰ کی روش پر چل سکو گے‘‘۔ مگر اس کے بعد تم نے اپنے عہد سے پِھرگئے۔ اس پر بھی اللہ کے فضل اور اس کی رحمت نے تمہارا ساتھ نہ چھوڑا، ورنہ تم کبھی کے تباہ ہو چکے ہوتے۔(البقرۃ…۶۴)

۲۲۔نافرمان انسانوں کا بندر بننا
پھر تمہیں اپنی قوم کے ان لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا۔ ہم نے انہیں کہہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے۔ اس طرح ہم نے ان کے انجام کو اس زمانے کے لوگوں اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لیے عبرت اور ڈرنے والوں کے لیے نصیحت بنا کر چھوڑا۔(البقرۃ…۶۶)

۲۳۔قومِ موسیٰ کو گائے ذبح کرنے کا حکم
پھر وہ واقعہ یاد کرو، جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ کہنے لگے کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو؟ موسیٰؑ نے کہا: میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں۔ بولے اچھا، اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ ہمیں اس گائے کی کچھ تفصیل بتائے۔ موسیٰؑ نے کہا، اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ ایسی گائے ہونی چاہیے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا، بلکہ اوسط عمر کی ہو۔ لہٰذا جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرو۔ پھر کہنے لگے اپنے رب سے یہ اور پوچھ دو کہ اس کا رنگ کیسا ہو۔ موسٰی ؑ نے کہا وہ فرماتا ہے زرد رنگ کی گائے ہونی چاہیے جس کا رنگ ایسا شوخ ہو کہ دیکھنے والوں کا جی خوش ہو جائے۔ پھر بولے اپنے رب سے صاف صاف پوچھ کر بتاؤ کیسی گائے مطلوب ہے، ہمیں اس کی تعیین میں اشتباہ ہوگیا ہے، اللہ نے چاہا، تو ہم اس کا پتہ پالیں گے۔ موسٰیؑ نے جواب دیا: اللہ کہتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی، نہ زمین جوتتی ہے نہ پانی کھینچتی ہے، صحیح سالم اور بے داغ ہے۔ اس پر وہ پکار اٹھے کہ ہاں، اب تم نے ٹھیک پتہ بتایا ہے۔ پھر انہوں نے اسے ذبح کیا، ورنہ وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔ (البقرۃ…۷۱)

۲۴۔ پتھر سا دِل رکھنے والے
اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کی جان لی تھی، پھر اس کے بارے میں جھگڑنے اور ایک دوسرے پر قتل کا الزام تھوپنے لگے تھے اور اللہ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے کھول کر رکھ دے گا۔ اس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ۔ دیکھو، اس طرح اللہ مُردوں کو زندگی بخشتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخرکار تمہارے دل سخت ہوگئے، پتھروں کی طرح سخت، بلکہ سختی میں کچھ اُن سے بھی بڑھے ہوئے، کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے، اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے۔ اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔(البقرۃ…۷۴)

۲۵۔ کلام اللہ میں تحریف کرتے رہے
اے مسلمانو! اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔ (محمد رسول اللہﷺ پر) ایمان لانے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی انہیں مانتے ہیں، اور جب آپس میں ایک دوسرے سے تخلیے کی بات چیت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ بیوقوف ہوگئے ہو؟ ان لوگوں کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ تمہارے رب کے پاس تمہارے مقابلے میں انہیں حجت میں پیش کریں؟ اور کیا یہ جانتے نہیں ہیں کہ جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، اللہ کو سب باتوں کی خبر ہے؟ ان میں ایک دوسرا گروہ اُمّیوں کا ہے، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں۔ پس ہلاکت اور تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کرلیں۔ ان کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجبِ ہلاکت۔ وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چُھونے والی نہیں الّا یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے۔ ان سے پوچھو، کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا؟ یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اس نے ان کا ذمہ لیا ہے؟ آخر تمہیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھوئے گی؟ جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطاکاری کے چکر میں پڑا رہے گا، وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔(البقرۃ…۸۲)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۳۱۔قرآن کا انکار کرنے والے
ہم نے تمہاری طرف ایسی آیات نازل کی ہیں جو صاف صاف حق کا اظہار کرنے والی ہیں۔ اور ان کی پیروی سے صرف وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو فاسق ہیں۔ کیا ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا ہے کہ جب انہوں نے کوئی عہد کیا، تو ان میں سے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرور ہی بالائے طاق رکھ دیا؟ بلکہ ان میں سے اکثر ایسے ہی ہیں جو سچے دل سے ایمان نہیں لاتے۔ اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق و تائید کرتا ہوا آیا جو اِن کے ہاں پہلے سے موجود تھی، تو ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پس پُشت ڈالا گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں۔ (البقرۃ…۱۰۱)

۳۲۔سلیمان ؑ ا ور ہاروت و ماروت کا ذکر
اور لگے ان چیزوں کی پیروی کرنے، جو شیاطین، سلیمان ؑ کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے، حالانکہ سلیمان ؑنے کبھی کفر نہیں کیا، کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے۔ وہ پیچھے پڑے اس چیز کے جو بابِل میں دو فرشتوں، ہاروت و ماروت پر نازل کی گئی تھی، حالانکہ وہ (فرشتے) جب بھی کسی کو اس کی تعلیم دیتے تھے، تو پہلے صاف طور پر متنبہ کردیا کرتے تھے کہ ’’دیکھ، ہم محض ایک آزمائش ہیں، تو کفر میں مبتلا نہ ہو‘‘۔ پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے تھے جس سے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ ظاہر تھا کہ اذنِ الٰہی کے بغیر وہ اس ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہ پہنچا سکتے تھے، مگر اس کے باوجود وہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو خود ان کے لیے نفع بخش نہیں، بلکہ نقصان دہ تھی اور انہیں خوب معلوم تھا کہ جو اس چیز کا خریدار بنا، اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ کتنی بُری متاع تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا، کاش انہیں معلوم ہوتا! اگر وہ ایمان اور تقویٰ اختیار کرتے، تو اللہ کے ہاں اس کا جو بدلہ ملتا، وہ ان کے لیے زیادہ بہتر تھا۔ کاش انہیں خبر ہوتی! (البقرۃ…۱۰۳)

۳۳۔اہل کتاب و مشرکین کا رویہ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رَاعِنا نہ کہا کرو، بلکہ اُنظُرنا کہو اور توجہ سے بات کو سنو، یہ کافر تو عذاب الیم کے مستحق ہیں۔ یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو، مگر اللہ جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے چُن لیتا ہے اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔
ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا بُھلا دیتے ہیں، اس کی جگہ اس سے بہتر لاتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے؟ کیا تمہیں خبر نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کی فرمانروائی اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے سوا کوئی تمہاری خبرگیری کرنے اور تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے؟

پھر کیا تم اپنے رسول سے اس قسم کے سوالات اور مطالبے کرنا چاہتے ہو جیسے اس سے پہلے موسٰیؑ سے کیے جا چکے ہیں؟ حالانکہ جس شخص نے ایمان کی روش کو کفر کی روش سے بدل لیا، وہ راہ راست سے بھٹک گیا۔ اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں۔ اگرچہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لیے ان کی یہ خواہش ہے۔ اس کے جواب میں تم عفو و درگزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کردے۔ مطمئن رہو کہ اللہ (تعالیٰ) ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ تم اپنی عاقبت کے لیے جو بھلائی کما کر آگے بھیجو گے، اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے۔ جو کچھ تم کرتے ہو، وہ سب اللہ کی نظر میں ہے۔(البقرۃ…۱۱۰)

۳۴۔عیسائی ویہودی کا جنتی ہونے کا دعویٰ
ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو یا (عیسائیوں کے خیال کے مطابق) عیسائی نہ ہو۔ یہ ان کی تمنائیں ہیں۔ ان سے کہو، اپنی دلیل پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ دراصل نہ تمہاری کچھ خصوصیت ہے، نہ کسی اور کی۔ حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے، اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں۔ (البقرۃ…۱۱۲)

۳۵۔یہودی و عیسائی کے اختلافات
یہودی کہتے ہیں: عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں۔ عیسائی کہتے ہیں: یہودیوں کے پاس کچھ نہیں حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے ہیں اور اسی قسم کے دعوے ان لوگوں کے بھی ہیں جن کے پاس کتاب کا علم نہیں ہے۔ یہ اختلافات جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں، ان کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز کردے گا۔(البقرۃ…۱۱۳)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
۳۶۔بڑا ظالم شخص کون ہوگا؟
اور اس شخص سے بڑ ھ کر ظالم کون ہوگا جواللہ کے معبدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے درپے ہو؟ ایسے لوگ اس قابل ہیں کہ ان عبادت گاہوں میں قدم نہ رکھیں اور اگر وہاں جائیں بھی تو ڈرتے ہوئے جائیں۔ ان کے لیے تو دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذابِ عظیم۔ (البقرۃ…۱۱۴)

۳۷۔مشرق و مغرب سب اللہ کے ہیں
مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ جس طرف بھی تم رخ کرو گے، اسی طرف اللہ کا رخ ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ (البقرۃ…۱۱۵)

۳۸۔اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے
ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ اللہ پاک ہے ان باتوں سے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تمام موجودات اس کی مِلک ہیں۔ سب کے سب اس کے مطیعِ فرمان ہیں، وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ اور وہ ہوجاتی ہے۔(البقرۃ…۱۱۷)

۳۹۔ نشانی ہمارے پاس کیوں نہیں آتی
نادان کہتے ہیں کہ اللہ خود ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پاس کیوں نہیں آتی؟ ایسی ہی باتیں ان سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے۔ ان سب (اگلے پچھلے گمراہوں) کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں۔ یقین دلانے والوں کے لیے تو ہم نشانیاں صاف صاف نمایاں کرچکے ہیں۔ (اس سے بڑھ کر نشانی کیا ہوگی کہ) ہم نے تم کو علمِ حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ اب جو لوگ جہنم سے رشتہ جوڑ چکے ہیں، ان کی طرف سے تم ذمہ دار و جواب دہ نہیں ہو۔(البقرۃ…۱۱۹)

۴۰۔یہودی اور عیسائی راضی نہ ہوں گے
یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔ صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔ ورنہ اگر اُس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آچکا ہے، تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارے لیے نہیں ہے۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔ وہ اس (قرآن) پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں۔ اور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کریں، وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (البقرۃ…۱۲۱)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top