• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیپر کرنسی اور زکوٰۃ

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
احادیث میں زکوٰۃ کے مختلف نصاب ملتے ہیں، جیسے دینار (سونا)، درہم (چاندی) ، مویشی وغیرہ

آج کل سونے چاندی کے سکوں کی بجائے ”پیپر کرنسی“ کا رواج ہے۔ اور عام طور سے لوگوں کے پاس ”دولت“ پیپر کرنسی کی شکل میں ہوتی ہے۔ یہ پیپر کرنسی حکومتیں اپنے قومی خزانہ میں موجود سونے کے ذخائر کے ”بدلہ“ میں جاری کرتی ہیں۔ یعنی جتنی پیپر کرنسی گردش میں ہوتی ہے، اُسی کی ”مالیت کے مساوی“ سونا حکومت کے پاس ہوتا ہے یا ہونا چاہئے (اگر اس مد میں حکومتی کرپشن یا فراڈ کے عنصر کو نظر انداز کردیا جائے تو)

سوال یہ ہے کہ ہم پیپر کرنسی کی زکوٰۃ کا ”نصاب“ کسے بنائیں سونے کو یا چاندی کو ؟ اُصولاً تو ہمیں اسی سونے کو بنانا چاہئے، جس کے عوض یہ پیپر کرنسی جاری ہوئی ہے۔ یعنی ساڑھے سات تولہ سونا کے مساوی پیپر کرنسی کی مالیت۔ جو اس وقت تقریباً (53 ہزار فی تولہ کے حساب سے) 3 لاکھ 97 ہزار پانسو روپے ہے۔

واضح رہے کہ چاندی کی زکوٰۃ کے نصاب کو معیار بنانے سے پیپر کرنسی کی زکوٰۃ بہت کم بنتی ہے۔ اس وقت پاکستان مین چاندی 760 روپے فی تولہ ہے اور ساڑھے باون تولہ چاندی کی پیپر کرنسی صرف 39 ہزار 900 روپے ہے۔

حکومت پاکستان اسی چاندی کے نصاب کو معیار بناتے ہوئے بنک کھاتہ داروں کے اکاؤنٹ سے زکوٰۃ منہا کرتی ہے۔ یعنی یکم رمضان کو جس کے اکاؤنٹ میں بھی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کی کرنسی موجود ہوتی ہے، اس میں سے ڈھائی فیصد زکوٰۃ کی کٹوتی کرلیتی ہے۔ (حکومت سال بھر کی ”بچت“ کا کوئی لحاظ نہیں کرتی، حالانکہ زکوٰۃ ”سالانہ بچت“ پر ہوتی ہے، فی الحال حکومت کی اس ”بدعنوانی“ کو بھی نظر انداز کیجئے)۔

اگر کوئی شخص اپنے پاس موجود کرنسی کی سالانہ بچت پر خود زکوٰۃ دینا چاہے تو وہ نصاب کسے بنائے۔ سونے کو یا چاندی کو۔ سونے کے حساب سے تو کم از کم اس کی سالانہ بچت 3 لاکھ 97 ہزار پانسو روپے ہونی چاہئے جبکہ چاندی کے نصاب سے یہ رقم محض 39 ہزار 900 روپے ہے۔

تنخواہ دار طبقہ (یا بنک اکاؤنٹ ہولڈرز) کے لئے ایک دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کی تنخواہ (یا کاروباری آمدن) بنک میں ہر ماہ آتی ہے۔ جس میں سے کبھی کچھ بچ جاتا ہے اور کبھی نہیں بچتا۔ اسے تنخواہ کے سال میں ایک یا کئی بار ایک بڑی رقم بطور بونس بھی ملتا رہتا ہے۔ یہ اضافی رقم مختلف ماہ میں جمع ہوتی ہے۔ اور سال بھر تک خرچ ہوتی رہتی ہے۔ اب اگر کوئی رمضان میں زکوٰۃ نکالنا چاہتا ہے تو وہ کس بیلنس اماؤنٹ کو ”سال بھر تک رہنے والی بچت“ قرار دے تاکہ اول اسے معلوم ہوسکے کہ وہ ”صاحب نصاب“ ہے یا نہیں۔ دوم وہ اسی اماؤنٹ کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ دے۔ کیونکہ بنک اکاؤنت میں تو ہر ماہ رقم گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔

امید ہے کہ اہل علم ان دونوں نکات پر روشنی ڈالیں گے کہ پیپر کرنسی کی زکوٰۃ سونے کے نصاب سے طے کی جائے یا چاندی کے نصاب سے اور ہم اپنے بنک اکاؤنٹ کے کس بیلنس اماؤنٹ کو زکوٰۃ نکالنے کے لئے استعمال کریں۔
والسلام
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
موجودہ کرنسی اور نصابِ زکوٰۃ۔۔۔

اب ایک عرصہ سے سونے، چاندی کے سکوں کی جگہ پیپر کرنسی نے لے رکھی ہے، اس لئے اب اسی نقدی پر زکوٰۃ ہوگی اور اس میں کوئی مؤثر اختلاف نہیں تاہم اس بات پر اختلاف ضرور ہے کہ موجودہ کرنسی کا نصاب سونے کے نصاب سے متعین کیا جائے یا چاندی کے نصاب سے؟ بعض فقہا کا خیال ہے کہ نصابِ زکوٰۃ کا تعین سونے سے کیا جائے گا اور اس کی وہ مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں جیسا کہ یوسف قرضاوی رقم طراز ہیں:
''جبکہ بعض دیگر علما کی رائے یہ ہے کہ آج کل نصابِ زکوٰۃ کا اندازہ سونے سے ہونا چاہئے اس لئے کہ چاندی کی قیمت میں عہد ِنبوت کے بعد سے بہت زیادہ فرق آچکا ہے۔ کیونکہ تمام اشیا کی طرح چاندی کی بھی قیمت بڑھتی رہی ہے جب کہ سونے کی قیمت کافی حد تک مستحکم رہی ہے اور زمانے کے اختلاف سے سونے کے سکوں کی قیمت میں فرق نہیں آیا اور سونا ہر زمانے میںایک ہی اندازے کا حامل رہا ہے۔ یہ رائے ہمارے اساتذہ ابوزہرہ[عبد الوہاب] خلاف اور[عبد الرحمن] حسن نے زکوٰۃ پراپنی تحقیق کے دوران اختیارکی ہے۔ مجھے بھی یہ قول بلحاظِ دلیل زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے اس لئے اگر مذکورہ اموالِ زکوٰۃ کا موازنہ کرکے دیکھا جائے کہ پانچ اونٹوں پر زکوٰۃ ہے، چالیس بکریوں پر زکوٰۃ ہے، پانچ وسق کھجور یاکشمش پر زکوٰۃ ہے تو ہمیںمعلوم ہوگا کہ اس عہدمیں زکوٰۃ کے تمام نصابوں سے قریب سونا ہے،چاندی نہیں ہے۔ پانچ اونٹوں اور چالیس بکریوں کی قیمت تقریباً (کم و بیش)چار سو دینار یا گنی [جُنیہ(پائونڈ؍] مصری کرنسی) کے مساوی ہوگی تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شارع کی نظر میں چار اونٹوں یا اُنتالیس بکریوں کا مالک توفقیر ہو اور اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو لیکن جس کے پاس اتنی نقدی(یعنی چاندی کے حساب سے، ناقل) ہو جس سے وہ ایک بکری بھی نہ خرید سکتا ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو؟ اور کس طرح اس حقیر مالیت کو غنی تصور کیا جاسکتا ہے؟ شاہ ولی اللہ ؒ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فرماتے ہیں :
پانچ اوقیہ چاندی کو نصابِ زکوٰۃ اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ یہ مقدار ایک گھرانے کی سال بھر کی ضرورت کے لئے کافی ہے بشرطیکہ اکثر علاقوں میں قیمتیں معتدل ہوں اور اگر آپ قیمتوں میں معتدل علاقوں کا جائزہ لیں تو آپ کو اس حقیقت کا اِدراک ہوجائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھی کسی اسلامی ملک میں پچاس یا (اس سے) کم و بیش مصری(کرنسی)اور سعودی ریال یا پاکستانی اور ہندوستانی روپے٭ میں ایک گھرانے کا پورے سال کا گزر ہوسکتا ہے؟ بلکہ کیا ایک ماہ یا ایک ہفتہ کا بھی ہوسکتا ہے؟ بلکہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں جہاں کا معیارِ زندگی کافی بلند ہوچکا ہے، یہ رقم ایک متوسط گھرانے کی ایک دن کی ضرورت کے لئے بھی ناکافی ہے، تو اس رقم کا مالک شریعت کی نظر میں کیوں کر غنی متصور ہوسکتا ہے؟ یہ بہت ہی بعید از قیاس بات ہے! اس لئے مناسب یہی ہے کہ ہم اپنے اس عہد میں نصابِ زکوٰۃ کی پیمائش کے لئے سونے کو اصل قرار دیں۔ اگرچہ چاندی سے نصابِ زکوٰۃ کے تقرر میں فقرا اور مستحقین کا مفاد ہے مگر اس میں مال کے مالکین پر بار بھی پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ زکوٰۃ کے دہندگان صرف بڑے بڑے سرمایہ دار اور اغنیا ہی نہیں ہوتے بلکہ اُمت ِمسلمہ کے عام افراد زکوٰۃ دہندگان ہیں''۔
(فقہ الزکوٰۃ: ج۱؍ ص۳۵۲ تا۳۵۴)
جبکہ دوسری طرف بعض بلکہ اکثر و بیشتر اہل علم کا موقف یہ ہے کہ نصابِ زکوٰۃ کا تعین چاندی کے حساب سے کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں مولانا عبدالرحمن کیلانی ؒ رقم طراز ہیں کہ
''دورِ نبویؐ میں سونا چاندی دونوں زرِمبادلہ کے طور پراستعمال ہوتے تھے اور ان کی قیمتوں میں صرف ایک اور سات کی نسبت٭ تھی۔ یعنی ساڑھے سات تولے سونا ، ساڑھے باون تولے چاندی۔ دوسرے لفظوں میں سونے کا بھاؤ چاندی سے صرف سات گنا ہوتا تھا۔ بعد کے اَدوار میں سونے کی قیمت توچڑھتی گئی اور چاندی کی قیمت گرتی گئی اور اس کی غالباًدو وجوہ ہیں: اوّلاً تو چاندی کی بجائے صرف سونا ہی زرمبادلہ قرار پایا اور ، ثانیاً چاندی کے زیورات آہستہ آہستہ متروک ہوگئے۔ ۱۹۳۰ء کی جنگ ِعظیم سے پہلے چاندی اور سونے کی مالیت میں تقریباً ایک اور بیس کی نسبت ہوچکی تھی اور اب تو یہ نسبت اور بھی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور آئندہ بھی یہ تفاوت بڑھنے کا امکان ہے۔ سونے اور چاندی کا حد نصاب جو شارع علیہ السلام نے مقرر فرما دیا اس میں ردّوبدل کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں خواہ یہ باہمی تفاوت اور بھی زیادہ ہوجائے۔ مگر نقدی کے متعلق ہمیں ضرور کچھ فیصلہ کرنا ہوگا کہ نقدی کا حد نصاب طے کرنے کے لئے چاندی کو بنیاد قرار دیا جائے یا سونے کو؟ اکثر علما کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں نوٹوں کے اجرا سے پہلے چونکہ چاندی کا روپیہ رائج تھا لہٰذا چاندی کو بنیاد قرار دے کر چاندی کی موجودہ قیمت کے حساب سے ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت نکال لی جائے، یہ حد نصاب ہوگا اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ سعودی عرب میں آج کل بھی کاغذی زر (نوٹوں) کو ورقہ کہتے ہیں اور یہی لفظ چاندی کے لئے استعمال ہوتا ہے، نیز چاندی کوہی نقد روپیہ کے لئے نصاب قرار دینا اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ کہیں اللہ کا حق ہمارے ذمہ نہ رہ جائے لہٰذا اس اہم دینی فریضہ میںہرممکن احتیاط لازم ہے۔'' (تجارت اور لین دین کے مسائل: ص۳۱۸،۳۱۹)
مذکورہ بالا دونوں نقطہ ہائے نظر میں سے ثانی الذکرہمیں راجح معلوم ہوتا ہے، اور اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
1. اوّل تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ چاندی کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے، تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے۔
2. دوسرا یہ کہ فقراء و مساکین کا فائدہ بھی اسی میں ہے۔
3. تیسرا یہ کہ سونے اور چاندی کی نسبت میں جو بہت زیادہ تفاوت پیدا ہوچکا تھا وہ بھی رفتہ رفتہ کافی حد تک کم ہوچکا ہے اور اب ان دونوں کی نسبت ایک اور تیس کی بجائے ایک اور بارہ کے قریب ہے۔لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص سونے کو معیار نصاب بناتا ہے تو اس کے اس اجتہاد پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔

http://www.mohaddis.com/dec2003/2131-islam-nazam-zakat-masael.html
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
  1. گویا دونوں نقطہ ہائے نظر اپنی اپنی جگہ ”مستحکم'“ ہیں۔ ہم سونے کو بھی نصاب بنا سکتے ہیں اور چاندی کو بھی ؟؟؟
  2. ”بنک بیلنس“ میں کس ”بیلنس“ پر زکوٰۃ نکالی جائے اور یہ کیسے ”معلوم“ کیا جائے کہ اتنی رقم پر سال بیت چکا ہے
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
3. تیسرا یہ کہ سونے اور چاندی کی نسبت میں جو بہت زیادہ تفاوت پیدا ہوچکا تھا وہ بھی رفتہ رفتہ کافی حد تک کم ہوچکا ہے اور اب ان دونوں کی نسبت ایک اور تیس کی بجائے ایک اور بارہ کے قریب ہے۔لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص سونے کو معیار نصاب بناتا ہے تو اس کے اس اجتہاد پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔
اصل معیار چاندی کو بنایا جائے گا۔چاہے کرنسی ہو یا سونا اگر اس میں ساڑھے باون تولے چاندی خیریدی جاسکتی ہے تو زکوٰۃ فرض ہوجائے گی(سال بھر گزر جانے کے بعد)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
  1. اصل معیار چاندی کو بنایا جائے گا۔چاہے کرنسی ہو
  2. یا سونا اگر اس میں ساڑھے باون تولے چاندی خیریدی جاسکتی ہے تو زکوٰۃ فرض ہوجائے گی(سال بھر گزر جانے کے بعد)
پہلی بات تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن اس کے لئے بھی کوئی ”سند“ تو چاہئے نا۔
دوسری بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اگر سونا بھی ہو تو اس کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کے مساوی سونا ہی ہوگا ۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
اگر کسی کے پاس سونا کم ہے اور اس میں ساڑھے باون تولے چاندی آسکتی ہو تو صاحب نصاب بن جائےگا
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
اگر کسی کے پاس سونا کم ہے اور اس میں ساڑھے باون تولے چاندی آسکتی ہو تو صاحب نصاب بن جائےگا

محترم آپ اپنی بات پر غور کیجئے۔۔
جس چیز کو نصاب شمار کریں گے جب وہ نصاب تک پہنچے گی تب ہی زکوۃ فرض ہوگی۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
کسی نے بھی بات سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور غیر متفق وغیرہ قرار دیدیا
اس بات کو کیوں نظر انداز یا توجہ نہیں دی جارہی ہے کہ اس وقت سونے اور چاندی میں زمین آسمان کا فرق ہے ایک وہ آدمی جس کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی ہے وہ زکوٰۃ ادا کریگا اور جس کے پاس سات تولے یا اس سے کم سونا ہے وہ زکوٰۃ سے بری الذمہ ہے۔جبکہ اگر دیکھا جائے تو بہت کم مقدار سونا ہونے پر بھی چاندی کی مطلوبہ مقدارہورہی ہے۔تو گویا عدم توازن والا معاملہ ہوگا ۔لوگ چاندی نہ خرید کر سات تولہ سونا ہی رکھیں گے اس طرح سے اپنے آپ کو ہوشیار سمجھتے ہوئے چاندی والے کا منہ چڑائیں گے اور خودچاندی لوٹیں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنا مافی الضمیر سمجھانے کچھ کامیاب رہا ہوں گا۔اور غیر متفق ریٹنگ نہیں دیں گے
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
کسی نے بھی بات سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور غیر متفق وغیرہ قرار دیدیا
اس بات کو کیوں نظر انداز یا توجہ نہیں دی جارہی ہے کہ اس وقت سونے اور چاندی میں زمین آسمان کا فرق ہے ایک وہ آدمی جس کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی ہے وہ زکوٰۃ ادا کریگا اور جس کے پاس سات تولے یا اس سے کم سونا ہے وہ زکوٰۃ سے بری الذمہ ہے۔جبکہ اگر دیکھا جائے تو بہت کم مقدار سونا ہونے پر بھی چاندی کی مطلوبہ مقدارہورہی ہے۔تو گویا عدم توازن والا معاملہ ہوگا ۔لوگ چاندی نہ خرید کر سات تولہ سونا ہی رکھیں گے اس طرح سے اپنے آپ کو ہوشیار سمجھتے ہوئے چاندی والے کا منہ چڑائیں گے اور خودچاندی لوٹیں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنا مافی الضمیر سمجھانے کچھ کامیاب رہا ہوں گا۔اور غیر متفق ریٹنگ نہیں دیں گے

السلام علیکم برادر! آپ کا مافی الضمیر ایک الگ شئے ہے اور شریعت اسلامی ایک الگ شئے۔ شریعت قرآن و حدیث پر مبنی ہے، میری یا آپ کی رائے پر مبنی نہیں ہے ۔ آپ بخاری مسلم وغیرہ میں کتاب الزکوٰۃ کا تفصیل سے مطالعہ کیجئے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ہر جنس کی زکوٰۃ الگ الگ بیان کی گئی ہے۔ پہلے وہ تمام احادیث پڑھئے پھر رائے قائم کیجئے۔ کسی مسئلہ سے متعلق قرآن و حدیث کو پڑھے بغیر اپنی رائے رکھنے میں ایسی ہی غلطیاں ہوں گی اور ایسے ہی ”غیر متفق“ کے ریٹس ملیں گے (ابتسامہ)
 
Top