عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 263
- پوائنٹ
- 142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
یہ دلائل شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کی کتاب چار دن قربانی کی مشروعیت سے لئے گئے ہیں
امام ابن حبان رحہ سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
قال رسول الله ﷺ: «كل عرفات موقف، وارفعوا عن عرنة، وكل مزدلفة موقف، وارفعوا عن محسر، فكل فجاج من منحر، وفي كل أيام التشريق ذبح۔ (صحیح ابن حبان: 9؍ 166، رقم 3854 )
'' اللّٰہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے اور عرنہ سے ہٹ کر وقوف کرو اور پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے اور وادئ محسر سے ہٹ کر وقوف کرو اور منیٰ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے اور تشریق کے تمام دن ذبح کرنے کے دن ہیں۔''
اس حدیث کے راوی عبد الرحمن بن ابی حسین پر بعض لوگ ابن بزار رحہ کی جرح نقل کرتے ہیں ان شاء اللہ اس کا بھی جواب دیا جائے گا پہلے توثیق دیکھ لیتے ہیں
عبد الرحمن بن ابی حسین کو امام ابن حبان رحہ نے ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا
عبد الرحمن بن ابی حسین والد عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی حسین یروی عن جبیر بن مطعم روی عنه سليمان بن موسى
کہ عبدالرحمن بن ابی حسین یہ عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی حسین کے والد ہیں یہ جبیر بن مطعم سے روایت کرتے ہیں ان سے سلیمان بن موسی نے روایت کیا ہے
( الثقات ج ۵ ص ۱۰۹)
امام ابن حبان رحہ کے ساتھ ساتھ حافظ ابن حجر رحہ نے بھی اس راوی کو ثقہ کہا ہے فرماتے ہیں
حجة الجمهور حديث جبير بن مطعم رفعه فجاج منى منحر وفى كل أيام التشريق ذبح أخرجه احمد لكن فى سنده انقطاع ووصله الدارقطني ورجاله ثقات
کہ جمہور ( یعنی چار دن قربانی کے قائلین) کی دلیل جبیر بن مطعم رضہ کی مرفوع حدیث ہے کہ منیٰ کا ہر راستہ قربان گاہ ہے اور تشریق کے ہر دن ذبح کے دن ہیں اور اسے احمد نے روایت کیا ہے لیکن اسکی سند انقطاع ہے لیکن دارقطنی نے اسے موصول بیان کیا ہے اور اسکے رجال ثقہ ہیں
( فتح الباری ج ۱۰ ص ۸)
اور دوسرا اعتراض یہ کہ امام بزار رحہ نے عبدالرحمن بن ابی حسین اور جبیر بن مطعم رضہ کے مابین انقطاع کا دعوہ کیا ہے تو عرض ہے کہ امام بزار رحہ کے اس دعوے کی کوئ حیثیت نہیں کیوں کہ امام ابن حبان رحہ نے صحیح ابن حبان میں اس سند کو صحیح کہا ہے جو اس بات کو مستلزم ہے کہ امام ابن حبان رحہ کے نزدیق یہ سند متصل ہے جیسا کہ ابن حبان نے صحیح ابن حبان کے مقدمہ میں صراحت کر دی ہے
یہ عام فہم بات ہے کہ جس طرح ناقد محدث کسی سند کو صحیح کہے تو اسکی تصحیح میں سند کے رجال کی توثیق ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح اسکی تصحیح میں سند کے اتصال اور عدم انقطاع کا بھی حکم ہوتا ہے
حافظ ابن حجر رحہ ایک مقام پر فرماتے ہیں
وقال:(يعنى الدارقطنى) هذه كلها مراسيل،ابن بريدة لم يسمع من عائشة.قلت: صحح له الترمذي حديثه عن عائشة فى القول ليلة القدر، من رواية: جعفر بن سليمان،بهذا الإسناد،ومقتضى ذلک أن يكون سمع منها،ولم أقف على قول أحد وصفه بالتدليس
کہ دارقطنی نے کہا یہ سب مرسل ہے ابن بریدہ نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں سنا۔ میں (ابن حجر) کہتا ہوں کہ امام ترمذی نے دعائے لیلتہ القدر کی بابت اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ابن بریدہ کی بیان کردہ حدیث کو صحیح کہا ہے یہ روایت اسی سند سے جعفر بن سلیمان سے مروی ہے اور اسکا تقاضہ ہے کہ ابن بریدہ نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے اور میں کسی کا قول نہیں جانتا جس نے ابن بریدہ کو مدلس کہا ہو
(اتحاف المھرة ج ۱۷ ص ۵)
عرض ہے کہ امام ترمذی رحہ کی تصحیح سماع کے ثبوت پر دال ہے تو امام ابن حبان رحہ کی تصحیح بدرجہ اولی سماع پر دلالت کرے گی
یاد رہے امام ابن حبان رحہ جرح و تعدیل کے زبردست امام ہیں، صرف اور صرف مجاہیل کی توثیق سے متعلق انہیں متساہل کہا گیا ہے لیکن اتصال و انقطاع کے فیصلے میں وہ قطعاً متساہل نہیں بلکہ ایسے معاملات میں وہ متشدد ہیں اسکے برخلاف امام ابن بزار رحہ اس پائے کے امام نہیں ہیں بلکہ کئ ایک محدث نے ان پر جرح کر رکھی ہے
عرض ہے کہ جب یہ صورت حال ہے کہ امام بزار متکلم فیہ کا موقف ابن حبان زبر دست ثقہ امام کے موقف سے ٹکرا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں امام ابن حبان رحہ کے موقف کو ترجیح دی جائے گی
اسکے علاوہ جبیر بن مطعم رضہ کی حدیث کے کئ طرق ہیں اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ اسکے سارے طرق ضعیف ہیں تو بھی یہ سارے طرق ایک دوسرے سے تقویت پا کر حسن لغیرہ ہر حال میں بن جائیں گے بلکہ شواہد کے پیش نظر صحیح قرار پائیں گے
ذیل میں ہم حدیث جبیر بن مطعم رضہ کے دیگر طرق پیش کرتے ہیں
طریق نافع بن جبیر
امام دارقطنی رحہ نے کہا
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَاعِدٍ , نا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ سَيَّارٍ , نا مُحَمَّدُ بْنُ بُكَيْرٍ الْحَضْرَمِيُّ , نا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ التَّنُوخِيِّ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى , عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: «أَيَّامُ التَّشْرِيقِ كُلُّهَا ذَبْحٌ
( سنن الدارقطنی ج ۴ ص ۲۸۴ )
طریق عمرو بن دینار
امام دارقطنی رحہ نے کہا
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ , نا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى الْخَشَّابُ , نا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ , نا أَبُو مُعَيْدٍ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى , أَنَّ عَمْرَو بْنَ دِينَارٍ حَدَّثَهُ , عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: «كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ»
( سنن دارقطنی ج ۴ ص ۲۸۴)
طریق سلیمان بن موسی
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، وَقَالَ: " كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ
(مسند احمد ض ۴ ص ۸۲ )
عبد الرحمن بن ابی حسین کے طریق سمیت حدیث جبیر بن مطعم رضہ کے یہ کل چار طرق ہیں ہم نے حدیث جبیر بن مطعم رضہ کے دیکر تین طرق کو اختصار کے ساتھ محض پیش کرنے پر اکتفاء کیا ہے اس کی سندوں پر تفصیلی بحس کے لئے شائقین محدث کبیر محمد رئیس ندوی رحہ کی دو کتابیں غایتہ التحقیق فی تضحیہ ایام التشریق اور قصہ ایام قربانی کا دیکھیں
ان متشدد طرق کی بنیاد پر بہت سارے اہل علم نے جبیر بن مطعم رضہ کی حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے
امام ابن قیم رحہ نے تعداد طرق کی بنا پر اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے
( زاد المعاد ج ۲ ص ۲۹۱)
حافظ ابن حجر رحہ نے فتح الباری میں اسکے دو طریق کو نقل کیا ہے اور دوسرے طریق کے رجال کو ثقہ کہا ہے کما مضیٰ یاد رہے حافظ ابن حجر فتح الباری میں کوئ روایت نقل کر کے اسکی تضعیف نہ کریں تو وہ روایت انکی نظر میں صحیح یا کم از کم حسن ضرور ہوتی ہے
علامہ البانی رحہ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے
( تعلیقات الحسان علی صحیح ابن حبان ج ۶ ص ۶۱ و الصحیحہ ج ۵ ص ۶۲۱)
اسی طرح شعیب ارناؤط اور انکے رفقاء نے بھی تعداد طرق کی بنا پر اس حدیث کو صحیح کہا ہے
( مسند احمد ط الرسالہ ج ۲۷ ص ۳۱۶ )
شیخ احمد الغماری نے بھی تعداد طرق کے پیش نظر صحیح کہا ہے
( الہدایہ فی تخریج احادیث البدایہ جلد ۵ ص ۴۰۳ اور ۴۰۴ )
اسی طرح علامہ عبیداللہ رحہ نے بھی تعداد طرق سے اسے صحیح کہا ہے
( مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج ۵ ص ۱۰۸ )
اسی طرح معاصرین میں بہت سارے اہل علم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے
اللہ ہم سب کو حق سمجھنے کی توفیق دے آ مین
یہ دلائل شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کی کتاب چار دن قربانی کی مشروعیت سے لئے گئے ہیں
امام ابن حبان رحہ سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
قال رسول الله ﷺ: «كل عرفات موقف، وارفعوا عن عرنة، وكل مزدلفة موقف، وارفعوا عن محسر، فكل فجاج من منحر، وفي كل أيام التشريق ذبح۔ (صحیح ابن حبان: 9؍ 166، رقم 3854 )
'' اللّٰہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے اور عرنہ سے ہٹ کر وقوف کرو اور پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے اور وادئ محسر سے ہٹ کر وقوف کرو اور منیٰ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے اور تشریق کے تمام دن ذبح کرنے کے دن ہیں۔''
اس حدیث کے راوی عبد الرحمن بن ابی حسین پر بعض لوگ ابن بزار رحہ کی جرح نقل کرتے ہیں ان شاء اللہ اس کا بھی جواب دیا جائے گا پہلے توثیق دیکھ لیتے ہیں
عبد الرحمن بن ابی حسین کو امام ابن حبان رحہ نے ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا
عبد الرحمن بن ابی حسین والد عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی حسین یروی عن جبیر بن مطعم روی عنه سليمان بن موسى
کہ عبدالرحمن بن ابی حسین یہ عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی حسین کے والد ہیں یہ جبیر بن مطعم سے روایت کرتے ہیں ان سے سلیمان بن موسی نے روایت کیا ہے
( الثقات ج ۵ ص ۱۰۹)
امام ابن حبان رحہ کے ساتھ ساتھ حافظ ابن حجر رحہ نے بھی اس راوی کو ثقہ کہا ہے فرماتے ہیں
حجة الجمهور حديث جبير بن مطعم رفعه فجاج منى منحر وفى كل أيام التشريق ذبح أخرجه احمد لكن فى سنده انقطاع ووصله الدارقطني ورجاله ثقات
کہ جمہور ( یعنی چار دن قربانی کے قائلین) کی دلیل جبیر بن مطعم رضہ کی مرفوع حدیث ہے کہ منیٰ کا ہر راستہ قربان گاہ ہے اور تشریق کے ہر دن ذبح کے دن ہیں اور اسے احمد نے روایت کیا ہے لیکن اسکی سند انقطاع ہے لیکن دارقطنی نے اسے موصول بیان کیا ہے اور اسکے رجال ثقہ ہیں
( فتح الباری ج ۱۰ ص ۸)
اور دوسرا اعتراض یہ کہ امام بزار رحہ نے عبدالرحمن بن ابی حسین اور جبیر بن مطعم رضہ کے مابین انقطاع کا دعوہ کیا ہے تو عرض ہے کہ امام بزار رحہ کے اس دعوے کی کوئ حیثیت نہیں کیوں کہ امام ابن حبان رحہ نے صحیح ابن حبان میں اس سند کو صحیح کہا ہے جو اس بات کو مستلزم ہے کہ امام ابن حبان رحہ کے نزدیق یہ سند متصل ہے جیسا کہ ابن حبان نے صحیح ابن حبان کے مقدمہ میں صراحت کر دی ہے
یہ عام فہم بات ہے کہ جس طرح ناقد محدث کسی سند کو صحیح کہے تو اسکی تصحیح میں سند کے رجال کی توثیق ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح اسکی تصحیح میں سند کے اتصال اور عدم انقطاع کا بھی حکم ہوتا ہے
حافظ ابن حجر رحہ ایک مقام پر فرماتے ہیں
وقال:(يعنى الدارقطنى) هذه كلها مراسيل،ابن بريدة لم يسمع من عائشة.قلت: صحح له الترمذي حديثه عن عائشة فى القول ليلة القدر، من رواية: جعفر بن سليمان،بهذا الإسناد،ومقتضى ذلک أن يكون سمع منها،ولم أقف على قول أحد وصفه بالتدليس
کہ دارقطنی نے کہا یہ سب مرسل ہے ابن بریدہ نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں سنا۔ میں (ابن حجر) کہتا ہوں کہ امام ترمذی نے دعائے لیلتہ القدر کی بابت اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ابن بریدہ کی بیان کردہ حدیث کو صحیح کہا ہے یہ روایت اسی سند سے جعفر بن سلیمان سے مروی ہے اور اسکا تقاضہ ہے کہ ابن بریدہ نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے اور میں کسی کا قول نہیں جانتا جس نے ابن بریدہ کو مدلس کہا ہو
(اتحاف المھرة ج ۱۷ ص ۵)
عرض ہے کہ امام ترمذی رحہ کی تصحیح سماع کے ثبوت پر دال ہے تو امام ابن حبان رحہ کی تصحیح بدرجہ اولی سماع پر دلالت کرے گی
یاد رہے امام ابن حبان رحہ جرح و تعدیل کے زبردست امام ہیں، صرف اور صرف مجاہیل کی توثیق سے متعلق انہیں متساہل کہا گیا ہے لیکن اتصال و انقطاع کے فیصلے میں وہ قطعاً متساہل نہیں بلکہ ایسے معاملات میں وہ متشدد ہیں اسکے برخلاف امام ابن بزار رحہ اس پائے کے امام نہیں ہیں بلکہ کئ ایک محدث نے ان پر جرح کر رکھی ہے
عرض ہے کہ جب یہ صورت حال ہے کہ امام بزار متکلم فیہ کا موقف ابن حبان زبر دست ثقہ امام کے موقف سے ٹکرا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں امام ابن حبان رحہ کے موقف کو ترجیح دی جائے گی
اسکے علاوہ جبیر بن مطعم رضہ کی حدیث کے کئ طرق ہیں اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ اسکے سارے طرق ضعیف ہیں تو بھی یہ سارے طرق ایک دوسرے سے تقویت پا کر حسن لغیرہ ہر حال میں بن جائیں گے بلکہ شواہد کے پیش نظر صحیح قرار پائیں گے
ذیل میں ہم حدیث جبیر بن مطعم رضہ کے دیگر طرق پیش کرتے ہیں
طریق نافع بن جبیر
امام دارقطنی رحہ نے کہا
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَاعِدٍ , نا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ سَيَّارٍ , نا مُحَمَّدُ بْنُ بُكَيْرٍ الْحَضْرَمِيُّ , نا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ التَّنُوخِيِّ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى , عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: «أَيَّامُ التَّشْرِيقِ كُلُّهَا ذَبْحٌ
( سنن الدارقطنی ج ۴ ص ۲۸۴ )
طریق عمرو بن دینار
امام دارقطنی رحہ نے کہا
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ , نا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى الْخَشَّابُ , نا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ , نا أَبُو مُعَيْدٍ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى , أَنَّ عَمْرَو بْنَ دِينَارٍ حَدَّثَهُ , عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: «كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ»
( سنن دارقطنی ج ۴ ص ۲۸۴)
طریق سلیمان بن موسی
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، وَقَالَ: " كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ
(مسند احمد ض ۴ ص ۸۲ )
عبد الرحمن بن ابی حسین کے طریق سمیت حدیث جبیر بن مطعم رضہ کے یہ کل چار طرق ہیں ہم نے حدیث جبیر بن مطعم رضہ کے دیکر تین طرق کو اختصار کے ساتھ محض پیش کرنے پر اکتفاء کیا ہے اس کی سندوں پر تفصیلی بحس کے لئے شائقین محدث کبیر محمد رئیس ندوی رحہ کی دو کتابیں غایتہ التحقیق فی تضحیہ ایام التشریق اور قصہ ایام قربانی کا دیکھیں
ان متشدد طرق کی بنیاد پر بہت سارے اہل علم نے جبیر بن مطعم رضہ کی حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے
امام ابن قیم رحہ نے تعداد طرق کی بنا پر اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے
( زاد المعاد ج ۲ ص ۲۹۱)
حافظ ابن حجر رحہ نے فتح الباری میں اسکے دو طریق کو نقل کیا ہے اور دوسرے طریق کے رجال کو ثقہ کہا ہے کما مضیٰ یاد رہے حافظ ابن حجر فتح الباری میں کوئ روایت نقل کر کے اسکی تضعیف نہ کریں تو وہ روایت انکی نظر میں صحیح یا کم از کم حسن ضرور ہوتی ہے
علامہ البانی رحہ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے
( تعلیقات الحسان علی صحیح ابن حبان ج ۶ ص ۶۱ و الصحیحہ ج ۵ ص ۶۲۱)
اسی طرح شعیب ارناؤط اور انکے رفقاء نے بھی تعداد طرق کی بنا پر اس حدیث کو صحیح کہا ہے
( مسند احمد ط الرسالہ ج ۲۷ ص ۳۱۶ )
شیخ احمد الغماری نے بھی تعداد طرق کے پیش نظر صحیح کہا ہے
( الہدایہ فی تخریج احادیث البدایہ جلد ۵ ص ۴۰۳ اور ۴۰۴ )
اسی طرح علامہ عبیداللہ رحہ نے بھی تعداد طرق سے اسے صحیح کہا ہے
( مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج ۵ ص ۱۰۸ )
اسی طرح معاصرین میں بہت سارے اہل علم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے
اللہ ہم سب کو حق سمجھنے کی توفیق دے آ مین