• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چار دن قربانی کا ثبوت قرآن مجید کی روشنی میں

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

یہ دلائل شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کی کتاب چار دن قربانی کی مشروعیت سے لئے گئے ہیں

امام ابن حبان رحہ سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ

قال رسول الله ﷺ: «كل عرفات موقف، وارفعوا عن عرنة، وكل مزدلفة موقف، وارفعوا عن محسر، فكل فجاج من منحر، وفي كل أيام التشريق ذبح۔ (صحیح ابن حبان: 9؍ 166، رقم 3854 )


'' اللّٰہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے اور عرنہ سے ہٹ کر وقوف کرو اور پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے اور وادئ محسر سے ہٹ کر وقوف کرو اور منیٰ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے اور تشریق کے تمام دن ذبح کرنے کے دن ہیں۔''

اس حدیث کے راوی عبد الرحمن بن ابی حسین پر بعض لوگ ابن بزار رحہ کی جرح نقل کرتے ہیں ان شاء اللہ اس کا بھی جواب دیا جائے گا پہلے توثیق دیکھ لیتے ہیں

عبد الرحمن بن ابی حسین کو امام ابن حبان رحہ نے ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا

عبد الرحمن بن ابی حسین والد عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی حسین یروی عن جبیر بن مطعم روی عنه سليمان بن موسى

کہ عبدالرحمن بن ابی حسین یہ عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی حسین کے والد ہیں یہ جبیر بن مطعم سے روایت کرتے ہیں ان سے سلیمان بن موسی نے روایت کیا ہے

( الثقات ج ۵ ص ۱۰۹)

امام ابن حبان رحہ کے ساتھ ساتھ حافظ ابن حجر رحہ نے بھی اس راوی کو ثقہ کہا ہے فرماتے ہیں

حجة الجمهور حديث جبير بن مطعم رفعه فجاج منى منحر وفى كل أيام التشريق ذبح أخرجه احمد لكن فى سنده انقطاع ووصله الدارقطني ورجاله ثقات

کہ جمہور ( یعنی چار دن قربانی کے قائلین) کی دلیل جبیر بن مطعم رضہ کی مرفوع حدیث ہے کہ منیٰ کا ہر راستہ قربان گاہ ہے اور تشریق کے ہر دن ذبح کے دن ہیں اور اسے احمد نے روایت کیا ہے لیکن اسکی سند انقطاع ہے لیکن دارقطنی نے اسے موصول بیان کیا ہے اور اسکے رجال ثقہ ہیں

( فتح الباری ج ۱۰ ص ۸)

اور دوسرا اعتراض یہ کہ امام بزار رحہ نے عبدالرحمن بن ابی حسین اور جبیر بن مطعم رضہ کے مابین انقطاع کا دعوہ کیا ہے تو عرض ہے کہ امام بزار رحہ کے اس دعوے کی کوئ حیثیت نہیں کیوں کہ امام ابن حبان رحہ نے صحیح ابن حبان میں اس سند کو صحیح کہا ہے جو اس بات کو مستلزم ہے کہ امام ابن حبان رحہ کے نزدیق یہ سند متصل ہے جیسا کہ ابن حبان نے صحیح ابن حبان کے مقدمہ میں صراحت کر دی ہے

یہ عام فہم بات ہے کہ جس طرح ناقد محدث کسی سند کو صحیح کہے تو اسکی تصحیح میں سند کے رجال کی توثیق ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح اسکی تصحیح میں سند کے اتصال اور عدم انقطاع کا بھی حکم ہوتا ہے

حافظ ابن حجر رحہ ایک مقام پر فرماتے ہیں

وقال:(يعنى الدارقطنى) هذه كلها مراسيل،ابن بريدة لم يسمع من عائشة.قلت: صحح له الترمذي حديثه عن عائشة فى القول ليلة القدر، من رواية: جعفر بن سليمان،بهذا الإسناد،ومقتضى ذلک أن يكون سمع منها،ولم أقف على قول أحد وصفه بالتدليس

کہ دارقطنی نے کہا یہ سب مرسل ہے ابن بریدہ نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں سنا۔ میں (ابن حجر) کہتا ہوں کہ امام ترمذی نے دعائے لیلتہ القدر کی بابت اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ابن بریدہ کی بیان کردہ حدیث کو صحیح کہا ہے یہ روایت اسی سند سے جعفر بن سلیمان سے مروی ہے اور اسکا تقاضہ ہے کہ ابن بریدہ نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے اور میں کسی کا قول نہیں جانتا جس نے ابن بریدہ کو مدلس کہا ہو

(اتحاف المھرة ج ۱۷ ص ۵)

عرض ہے کہ امام ترمذی رحہ کی تصحیح سماع کے ثبوت پر دال ہے تو امام ابن حبان رحہ کی تصحیح بدرجہ اولی سماع پر دلالت کرے گی

یاد رہے امام ابن حبان رحہ جرح و تعدیل کے زبردست امام ہیں، صرف اور صرف مجاہیل کی توثیق سے متعلق انہیں متساہل کہا گیا ہے لیکن اتصال و انقطاع کے فیصلے میں وہ قطعاً متساہل نہیں بلکہ ایسے معاملات
میں وہ متشدد ہیں اسکے برخلاف امام ابن بزار رحہ اس پائے کے امام نہیں ہیں بلکہ کئ ایک محدث نے ان پر جرح کر رکھی ہے

عرض ہے کہ جب یہ صورت حال ہے کہ امام بزار متکلم فیہ کا موقف ابن حبان زبر دست ثقہ امام کے موقف سے ٹکرا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں امام ابن حبان رحہ کے موقف کو ترجیح دی جائے گی

اسکے علاوہ جبیر بن مطعم رضہ کی حدیث کے کئ طرق ہیں اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ اسکے سارے طرق ضعیف ہیں تو بھی یہ سارے طرق ایک دوسرے سے تقویت پا کر حسن لغیرہ ہر حال میں بن جائیں گے بلکہ شواہد کے پیش نظر صحیح قرار پائیں گے

ذیل میں ہم حدیث جبیر بن مطعم رضہ کے دیگر طرق پیش کرتے ہیں

طریق نافع بن جبیر

امام دارقطنی رحہ نے کہا

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَاعِدٍ , نا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ سَيَّارٍ , نا مُحَمَّدُ بْنُ بُكَيْرٍ الْحَضْرَمِيُّ , نا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ التَّنُوخِيِّ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى , عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: «أَيَّامُ التَّشْرِيقِ كُلُّهَا ذَبْحٌ

( سنن الدارقطنی ج ۴ ص ۲۸۴ )

طریق عمرو بن دینار

امام دارقطنی رحہ نے کہا

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ , نا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى الْخَشَّابُ , نا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ , نا أَبُو مُعَيْدٍ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى , أَنَّ عَمْرَو بْنَ دِينَارٍ حَدَّثَهُ , عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: «كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ»

( سنن دارقطنی ج ۴ ص ۲۸۴)

طریق سلیمان بن موسی

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، وَقَالَ: " كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ

(مسند احمد ض ۴ ص ۸۲ )

عبد الرحمن بن ابی حسین کے طریق سمیت حدیث جبیر بن مطعم رضہ کے یہ کل چار طرق ہیں ہم نے حدیث جبیر بن مطعم رضہ کے دیکر تین طرق کو اختصار کے ساتھ محض پیش کرنے پر اکتفاء کیا ہے اس کی سندوں پر تفصیلی بحس کے لئے شائقین محدث کبیر محمد رئیس ندوی رحہ کی دو کتابیں غایتہ التحقیق فی تضحیہ ایام التشریق اور قصہ ایام قربانی کا دیکھیں

ان متشدد طرق کی بنیاد پر بہت سارے اہل علم نے جبیر بن مطعم رضہ کی حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے

امام ابن قیم رحہ نے تعداد طرق کی بنا پر اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے

( زاد المعاد ج ۲ ص ۲۹۱)

حافظ ابن حجر رحہ نے فتح الباری میں اسکے دو طریق کو نقل کیا ہے اور دوسرے طریق کے رجال کو ثقہ کہا ہے کما مضیٰ یاد رہے حافظ ابن حجر فتح الباری میں کوئ روایت نقل کر کے اسکی تضعیف نہ کریں تو وہ روایت انکی نظر میں صحیح یا کم از کم حسن ضرور ہوتی ہے

علامہ البانی رحہ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے

( تعلیقات الحسان علی صحیح ابن حبان ج ۶ ص ۶۱ و الصحیحہ ج ۵ ص ۶۲۱)

اسی طرح شعیب ارناؤط اور انکے رفقاء نے بھی تعداد طرق کی بنا پر اس حدیث کو صحیح کہا ہے

( مسند احمد ط الرسالہ ج ۲۷ ص ۳۱۶ )

شیخ احمد الغماری نے بھی تعداد طرق کے پیش نظر صحیح کہا ہے

( الہدایہ فی تخریج احادیث البدایہ جلد ۵ ص ۴۰۳ اور ۴۰۴ )

اسی طرح علامہ عبیداللہ رحہ نے بھی تعداد طرق سے اسے صحیح کہا ہے

( مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج ۵ ص ۱۰۸ )

اسی طرح معاصرین میں بہت سارے اہل علم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے

اللہ ہم سب کو حق سمجھنے کی توفیق دے آ مین


 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
چار دن قربانی کا ثبوت قرآن مجید کی روشنی میں


اس تحریر کو رومن انگلش میں پڑھنے اور اسکین پیجیس کے لئے یہاں کلک کریں

https://ahlehadithhaq.wordpress.com/2016/09/14/char-din-qurbani-ka-suboot-quran-majeed-ki-roshni-me/

سورہ بقرہ میں اللہ تعالی عرفات و مزدلفہ سے حجاج کرام کی واپسی کے بعد دوران قیام منٰی میں انہیں خصوصیت کے ساتھ اپنے ذکر کا حکم دیتے ہوئے ایک جگہ فرماتا ہے:
"وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ لِمَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ"
یعنی تم گنتی کے چند دنوں میں اللہ تعالی کو یاد کرو،پس جو کوئی دو دن گزار کر (منی سے) جلدی روانہ ہونا چاہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے.اور جو دیر میں نکلنا چاہے (یعنی تین دن گزار کر) تو اس پر بھی جو پرہیزگاری کرے کوئی گناہ نہیں ہے. (سورہ بقرہ آیت ۲۰۳)

اس آیت کریمہ میں باتفاق مفسرین "أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ" سے ایام تشریق یعنی ذی الحجہ ۱۱،۱۲،۱۳ تاریخ مراد ہے. چنانچہ علامہ قرطبی رح اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
"أَمَرَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عِبَادَهُ بِذِكْرِهِ فِي الْأَيَّامِ الْمَعْدُودَاتِ، وَهِيَ الثَّلَاثَةُ الَّتِي بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ، وَلَيْسَ يَوْمُ النَّحْرِ مِنْهَا، لِإِجْمَاعِ النَّاسِ أَنَّهُ لَا يَنْفِرُ أَحَدٌ يَوْمَ النَّفْرِ وَهُوَ ثَانِي يَوْمِ النَّحْرِ، وَلَوْ كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ فِي الْمَعْدُودَاتِ لَسَاغَ أَنْ يَنْفِرَ مَنْ شَاءَ مُتَعَجِّلًا يَوْمَ النَّفْرِ، لِأَنَّهُ قَدْ أَخَذَ يَوْمَيْنِ مِنَ الْمَعْدُودَاتِ"
کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو گنتی کے چند دنوں میں اپنے ذکر کا حکم دیا ہے اور یہ (گنتی کے دن) یوم النحر (یعنی قربانی کا دن ۱۰ ذی الحجہ) کے بعد تین روز ہیں جن میں یوم النحر داخل نہیں ہے کیونکہ اس بات پر لوگوں کا اجماع ہے کہ قربانی کے دوسرے دن (یعنی گیارہ کو) کوئی حاجی منی سے کوچ نہیں کر سکتا. اور اگر یوم النحر أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ میں داخل ہوتا تو پھر (بموجب حکم قرآنی) عجلت باز کے لئے گیارہ کو منی سے کوچ کرنا درست ہوتا،کیونہ وہ گنتی کے (تین دنوں میں سے) دو روز گزار چکا ہے. (اور اللہ تعالی نے دو روز گزار چکنے کے بعد منی سے کوچ کرنے کی اجازت دی ہے). (تفسیر القرطبی ج ۳ ص ۳۶۳)

أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ جمعرات کو کنکری مارنے کے ایام ہیں جیسا کہ مفسرین کے اقوال سے واضح ہے چنانچہ امام ابن جریر الطبری رح لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:

"الأيام المعدودات أيام التشريق، وهي ثلاثة أيام بعد النحر."
کہ یہ گنتی کے ایام "ایام التشریق" ہیں جو قربانی کے دن کے بعد تین روز ہیں. (تفسیر الطبری ج ۳ ص ۵۵۰)

مزید لکھتے ہیں کہ امام مالک رح سے بھی یہی منقول ہے:

"الأيام المعدودات"، ثلاثة أيام بعد يوم النحر"
(تفسیر الطبری ج ۳ ص ۵۵۲،۵۵۳)

امام الضحاک اور دیگر اہل علم سے بھی یہی منقول ہیں. (تفسیر الطبری ج ۳ ص۵۴۹ تا ۵۵۳)

امام ابن العربی رح فرماتے ہیں:

"وَصَارَتْ أَيَّامُ مِنًى ثَلَاثَةً سِوَى يَوْمِ النَّحْرِ؛ لِأَنَّهُ أَقَلُّ الْجَمْعِ فِي الْأَظْهَرِ عِنْدً الْإِطْلَاقِ حَسْبَمَا بَيَّنَّاهُ فِي كُتُبِ الْأُصُولِ، وَبَيَّنَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ذَلِكَ بِالْعَمَلِ الَّذِي يَرْفَعُ الْإِشْكَالَ"
کہ أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ سے مراد ایام منی ہے جو یوم النحر کے علاوہ تین دن ہیں کیونکہ یہ اقل جمع ہے.نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اسے بیان کر کے ہر طرح کے اشکال کو ختم کر دیا. (تفسیر ابن العربی ج ۱ ص ۱۹۸)

امام ابن کثیر رح اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

"ويتعلق بقوله : ( واذكروا الله في أيام معدودات ( ذكر الله على الأضاحي ، وقد تقدم ، وأن الراجح في ذلك مذهب الشافعي ، رحمه الله ، وهو أن وقت الأضحية من يوم النحر إلى آخر أيام التشريق"
کہ ایام معدودات میں اللہ کا ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت ان پر اللہ کا نام لیا جائے.اور یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ اس سلسلے میں راجح امام شافعی رح کا مسلک ہے کہ قربانی کا وقت یوم النحر سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن تک (یعنی ۱۳ تک) ہے. (تفسیر ابن کثیر ج ۱ ص ۴۱۸)

امام فخر الدین الرازی رح نے اپنی تفسیر میں واحدی رح کا یہ قول نقل کیا ہے:

"أيام التشريق هي ثلاثة أيام بعد يوم النحر"
کہ ایام تشریق یوم النحر کے بعد کے تین دن ہیں.یوم النحر کے ساتھ یہ تینوں دن بھی قربانی کے ایام ہیں. (تفسیر الرازی ج ۵ ص ۲۰۸)

تفسیر مدارک یہ احناف کی مشہور ترین تفسیر ہے اس کے مصنف ہیں أبو البركات عبد الله بن أحمد بن محمود النسفی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

"{واذكروا الله فِى أَيَّامٍ معدودات} هي أيام التشريق"
کہ اور اللہ کو یاد کرو ایام معدودات میں یعنی ایام تشریق میں. (تفسیر النسفی ج ۱ ص ۱۷۳)

امام فخرالدین الرازی رح فرماتے ہیں:

"وَأَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى أَنَّ هَذَا الْحُكْمَ إِنَّمَا ثَبَتَ فِي أَيَّامِ مِنًى وَهِيَ أَيَّامُ التَّشْرِيقِ، فَعَلِمْنَا أَنَّ الْأَيَّامَ الْمَعْدُودَاتِ هِيَ أَيَّامُ التَّشْرِيقِ"
کہ اور امت نے اس بات پہ اجماع کرلیاہے کہ یہ حکم ایام منی کے لئے ثابت ہے اور وہ ایام تشریق ہے ۔ پس ہم جان گئے کہ ایام معدودات سے ایام تشریق مراد ہے. (تفسیر الرازی ج ۵ ص ۲۰۸)

أبو حيان محمد بن يوسف بن علي بن يوسف بن حيان أثير الدين الأندلسي رح لکھتے ہیں:

"وَقَدْ قَالَ فِي (رَيِّ الظَّمْآنِ) : أَجْمَعَ الْمُفَسِّرُونَ عَلَى أَنَّ الْأَيَّامَ الْمَعْدُودَاتِ أَيَّامُ التَّشْرِيقِ. انْتَهَى."
کہ رئ ظمان فی تفسیر القرآن میں لکھا ہے : مفسروں نے اس بات پہ اجماع کرلیاہے کہ ایام معدودات ایام تشریق ہیں. (تفسیر البحر المحیط ج ۲ ص ۱۱۹)

اور دیگر اہل علم نے بھی "ایام معدودات" کے ایام تشریق ہونے پر اجماع نقل کیا ہے

نصوص بالا سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ آیت کریمہ میں وارد "ایام معدودات" سے مراد باجماع امت ایام تشریق ہیں یعنی ذی الحجہ کی ۱۱،۱۲،۱۳ تو اب یہ پتہ کرنا ہے کہ اللہ تعالی نے ان گنتی کے دنوں میں اپنے ذکر کا جو حکم دیا ہے اس سے اس کی کیا مراد ہے؟ سو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس آیت میں اگر چہ "ذکر" کا لفظ مطلق وارد ہوا ہے لیکن اس سلسلے میں دوسری آیت جو سورہ حج میں وارد ہوئی ہے اس سے ذکر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ اس سے مراد ایام تشریق میں قربانیوں کے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ہے.

اس سلسلے میں ایک دوسری آیت وارد ہوئی ہے سورہ حج میں جس میں اللہ تعالی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حج کی منادی کا حکم دیتے ہوئے،نیز حج کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

"{وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجالًا وَعَلى كُلِّ ضامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (27) لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ عَلى ما رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعامِ فَكُلُوا مِنْها وَأَطْعِمُوا الْبائِسَ الْفَقِي"
یعنی اے ابراہیم! تو لوگوں میں حج کی منادی کر دے،وہ پیادہ اور دبلی بتلی اونٹنیوں پر سوار دور دراز راستوں سے تیرے پاس آویں گے،تاکہ اپنے نفع کے کاموں کو دیکھیں اور جو چوپائے اللہ نے ان کو دئے ہیں خاص دنوں میں ان پر اللہ کا نام ذکر کریں.پھر تم اس میں سے خود کھاؤ اور محتاج فقیروں کو بھی کھلاؤ. (سورہ حج آیت ۲۷،۲۸)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے "ایام المعلومات" میں جانوروں پر اللہ کا نام لینے کا حکم دیا ہے.

ان "ایام معلومات" سے ایام تشریق مراد ہیں،چنانچہ

حافظ ابن حجر رح نے کہا:

"وقد روى بن أبي شيبة من وجه آخر عن بن عباس أن المعلومات يوم النحر وثلاثة أيام بعده ورجح الطحاوي هذا لقوله تعالى ويذكروا اسم الله في أيام معلومات على ما رزقهم من بهيمة الأنعام فإنه مشعر بأن المراد أيام النحر انتهى"
کہ امام ابن ابی شیبہ نے ایک دوسری سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں (اللہ تعالی نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ) کے بعد تین دن (۱۱،۱۲،۱۳ ذی الحجہ کے دن) ہیں. اور اسے امام طحاوی نے اس لئے راجح قرار دیا ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے "اور جو چوپائے اللہ تعالی نے ان کو دئے ہیں معلوم دنوں میں ان پر اللہ کا نام ذکر کریں" اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں قربانی کے دن مراد ہیں. (فتح الباری ج ۲ ص ۴۵۸)

حافظ ابن حجر رح نے فتح الباری میں ابن ابی شیبہ کی کتاب سے مزکورہ بالا روایت نقل کی ہے اور اس کی تضعیف نہیں کی ہے جس سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ حافظ ابن حجر رح کی نظر میں یہ سند صحیح ہے کیونکہ حافظ ابن حجر رح نے فتح الباری کے مقدمہ میں صراحت کر دی ہے کہ وہ اس کتاب میں بطور شرح جو روایت درج کریں گے اور ان پر کلام نہیں کریں گے وہ ان کے نزدیک صحیح یا حسن ہوں گی.

امام ابن کثیر رح (متوفی ۷۷۴ ھ) نے کہا:

"قال الحكم عن مقسم عن ابن عباس: الأيام المعلومات يوم النحر وثلاثة أيام بعده، ويروى هذا عن ابن عمر وإبراهيم النخعي، وإليه ذهب أحمد بن حنبل في رواية عنه."
کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایام معلومات (قربانی کے معلوم دن) یوم النحر اور اس کے بعد تین دن ہیں اور یہی بات عبداللہ بن عمر اور ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق یہی قول امام احمد بن حنبل کا بھی ہے. (تفسیر ابن کثیر ج ۵ ص ۳۶۵،۳۶۶)

امام سیوطی رح (متوفی ۹۱۱ ھ) نے کہا:
"وَأخرج عبد بن حميد وَابْن الْمُنْذر وَابْن أبي حَاتِم عَن ابْن عَبَّاس رَضِي الله عَنْهُمَا قَالَ: الْأَيَّام المعلومات: يَوْم النَّحْر وَثَلَاثَة أَيَّام بعده"
کہ عبد بن حمید،ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (اللہ تعالی نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ) کے بعد تین دن (۱۱،۱۲،۱۳ ذی الحجہ کے دن) ہیں. (الدرر المنثور ج ۱۰ ص ۴۷۴)

لیکن ان تینوں سندوں تک ہماری (شیخ کفایت اللہ کی) رسائی نہیں ہو سکی کیونکہ عبد بن حمید،ابن المنذر اور ابن ابی حاتم کی دستیاب کتب میں یہ روایت موجود ہیں.

تا ہم اس کثرت طرق کی بنیاد پر یہی ظن غالب آتا ہے کہ چار دن قربانی کی کوئی نہ کوئی اصل عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ضرور ہے. اسی لئے اہل علم نے بالجزم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو چار دن قربانی کا قائل بتایا ہے کماسیاتی.

بعض لوگ تنویر المقباس کو عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر مانتے ہیں (جو درست نہیں) اس میں بھی ہے:

"{فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ} معروفات أَيَّام التَّشْرِيق {على مَا رَزَقَهُمْ مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَام} على ذَبِيحَة الْأَنْعَام"
کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (اللہ تعالی نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد ایام تشریق یعنی (۱۱،۱۲،۱۳ ذی الحجہ کے دن) ہیں،ان دنوں اللہ کے عطاء کردہ چوپایوں یعنی قربانی کے جانوروں کو ذبح کرتے وقت ان پر اللہ کا نام لو. (تنویر المقباس ص ۳۵۲)

نیز امام رازی رح اور امام ابن کثیر رح اور دیگر مفسرین و شارحین حدیث نے ایام المعلومات کے سلسلے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد کے تین دن ہیں.

امام الرازی رح ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اسی قول کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

"وَهُوَ اخْتِيَارُ أَبِي مُسْلِمٍ قَالَ لِأَنَّهَا كَانَتْ مَعْرُوفَةً عِنْدَ الْعَرَبِ بَعْدَهَا وَهِيَ أَيَّامُ النَّحْرِ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَهُمَا اللَّه."
کہ ابو مسلم نے بھی اسے اختیار کیا ہے اور یہی ابو یوسف و محمد کی بھی رائے ہے.اور ان دنوں کا "ایام معلومات" کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ دن عربوں کے نزدیک قربانی کے ایام کی حیثیت سے جانے جاتے تھے. (تفسیر الرازی ج ۲۳ ص ۳۰)

نیز امام ابن کثیر رح کے بقول یہ امام احمد رح کا بھی ایک قول ہے (اوپر ملاحظہ کریں).

اور علامہ شوکانی رح نے ابن زید کی طرف بھی اس قول کی نسبت فرمائی ہے لکھتے ہیں:

"وَقَالَ ابْنُ زَيْدٍ: الْأَيَّامُ الْمَعْلُومَاتُ: عَشْرُ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ"
کہ ابن زید نے کہا کہ ایام معلومات عشرہ ذی الحجہ اور ایام تشریق ہیں. (فتح القدیر ج ۱ ص ۳۶۶)

اور امام ابن حجر عسقلانی رح نے حنفیت کے عظیم علم بردار امام طحاوی کی طرف اس قول کی نسبت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"ورجح الطحاوي هذا لقوله تعالى ويذكروا اسم الله في أيام معلومات على ما رزقهم من بهيمة الأنعام فإنه مشعر بأن المراد أيام النحر"
کہ اور اسے امام طحاوی نے اس لئے راجح قرار دیا ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے "اور جو چوپائے اللہ تعالی نے ان کو دئے ہیں معلوم دنوں میں ان پر اللہ کا نام ذکر کریں" اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں قربانی کے دن مراد ہیں. (فتح الباری ج ۲ ص ۴۵۸)

تفسیر الجلالین یہ تفسیر کی کتاب تمام مدارس میں پڑھائی جاتی ہے اس کے پہلے پندرہ پاروں کی تفسیر علامہ جلال الدین سیوطی رح نے کی ہے اور دوسرے پندرہ پاروں کی تفسیر جلال الدین محلی رح نے کی ہے یہ محدث بھی ہیں انہوں نے سورة الحج کی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:

"أَيْ عَشْر ذِي الْحِجَّة أَوْ يَوْم عَرَفَة أَوْ يَوْم النَّحْر إلَى آخِر أَيَّام التَّشْرِيق"
کہ ایام معلومات عشرہ ذی الحجہ یا عرفہ کا دن ہے یا یوم النحر سے آخر ایام التشریق تک. (تفسیر الجلالین ص ۴۳۷)

امام قرطبی رح ایام معلومات میں اللہ کا ذکر کرنے کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"وَالْمُرَادُ بِذِكْرِ اسْمِ اللَّهِ ذِكْرُ التسمية عند الذبح والنحر، مثل قَوْلِكَ: بِاسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ. وَمِثْلُ قَوْلِكَ عِنْدَ الذَّبْحِ" إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي" «1» [الانعام: 162] الْآيَةَ. وَكَانَ الْكُفَّارُ يَذْبَحُونَ عَلَى أَسْمَاءِ أَصْنَامِهِمْ، فَبَيَّنَ الرَّبُّ أَنَّ الْوَاجِبَ الذَّبْحُ عَلَى اسْمِ اللَّهِ"
کہ ان ایام میں اللہ کا ذکر کرنے سے مراد یہ ہے کہ قربانی کو ذبح یا نحر کرتے وقت اللہ تعالی کا نام لیا جائے مثلاً یہ دعا پڑھی جائے "بِاسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ" ساتھ ہی یہ آیت پڑھی جائے ان صلاتی ونسکی.الآ یہ کفار (جانوروں) کو اپنے بتوں کے نام ذبح کرتے تھے تو اللہ تعالی نے یہ بیان فرمایا کہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا ضروری ہے. (تفسیر القرطبی ج ۱۴ ص ۳۶۶)

علامہ شوکانی رح نے بھی اپنی تفسیر میں اللہ تعالی کے اس قول کی تفسیر کچھ اسی انداز پر کی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

"وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُوماتٍ أَيْ: يَذْكُرُوا عِنْدَ ذَبْحِ الْهَدَايَا وَالضَّحَايَا اسْمَ اللَّهِ، وَقِيلَ: إِنَّ هَذَا الذِّكْرَ كِنَايَةٌ عَنِ الذَّبْحِ لِأَنَّهُ لَا يَنْفَكُّ عَنْه. وَالْأَيَّامُ الْمَعْلُومَاتُ هِيَ أَيَّامُ النَّحْرِ كَمَا يُفِيدُ ذَلِكَ قَوْلُهُ: عَلى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعامِ"
کہ مطلب یہ ہے کہ بندے اپنی قربانیوں کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیں. نیز اس سلسلے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ "ذکر" ذبح کرنے سے کنایہ ہے کیونکہ یہ اس سے منفک نہیں ہوتا،اور اللہ تعالی کے قول: : عَلى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعامِ سے پتہ چلتا ہے کہ ایام معلومات ایام نحر ہیں. (تفسیر فتح القدیر ج ۳ ص ۶۱۱)

مولانا انعام اللہ صاحب قاسمی حفظہ اللہ اپنے رسالہ میں اللہ تعالی کے اس قول کی مزید وضاحت کے لئے علامہ رازی و خطابی کے نصوص کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس حکمت کا یہ مفہوم ہوا کہ ایام منی یعنی یوم النحر کے بعد تین دن دور جاہلیت ہی سے قربانی کے دن تھے جن کو شریعت اسلامیہ نے برقرار رکھا اور اور ان کے تعداد میں کوئی کمی بیشی نہیں کی.البتہ صرف اس میں تبدیلی کر دی کہ پہلے لوگ اپنی قربانیاں بتوں کے نام کرتے تھے اور اسلام نے اللہ کے لئے مخصوص کر دیا.
سورہ حج آیت ۲۸ پر نگاہ غائر ڈالنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا امام خطابی کی بیان کردہ حکمت کی وضاحت کے لئے ہی اس آیت کا نزول ہوا تھا...ایام معلومات پہلے سے معلوم دن وہی ہیں جن میں ایام جاہلیت کے لوگ طواغیت کے ناموں پر قربانیاں کیا کرتے تھے اور ان قربانیوں کا گوشت خود نہیں کھاتے تھے.اللہ تعالی نے فرمایا کہ قربانیاں تو تم انھیں دنوں میں کرو جن دنوں میں پہلے کیا کرتے تھے مگر بتوں کے نام کے بجائے اللہ کا نام لے کر کیا کرو.اور ان میں سے کھلاؤ بھی اور کھاؤ بھی.گویا اس آیت کا مقصد نزول،ایام تشریق کو ایام قربانی ثابت کرنا ہے اور بس،اور ایام تشریق باتفاق علماء و باجماع امت یوم النحر کے بعد تین دن گیارہ،بارہ اور تیرہ ذی الحجہ ہے. (رسالہ ایام قربانی ص ۲۳)

سورہ حج آیت ۲۸ کے متعلق امام قرطبی رح لکھتے ہیں:

"ولا خلاف أن المراد به النحر"
کہ اور اس بات میں اہل علم کے مابین کوئی اختلاف نہیں کہ آیت مزکورہ میں قربانی کا ذکر ہے اور ایام معلومات سے مراد ایام قربانی ہے. (تفسیر القرطبی ج ۳ ص ۳۶۴)

اللہ ہم سب کو حق سمجھنے کی توفیق دے آمین
جزاک اللہ خیراً
 
Top