بسمہ اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم کیا چالیس دن تک متواتر تکبیر اولی کے ساتھ نماز پڑھنے کی جو فضیلت اس حدیث میں بیان کی گئی ہے وہ درست ہے؟
کیا یہ حدیث صحیح ہے یا اس حدیث پر عمل کیا جاسکتا ہے؟
حدثنا عقبة بن مکرم ونصر بن علي الجهضمي قالا حدثنا أبو قتيبة سلم بن قتيبة عن طعمة بن عمرو عن حبيب بن أبي ثابت عن أنس بن مالک قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم من صلی لله أربعين يوما في جماعة يدرک التکبيرة الأولی کتبت له براتان براة من النار وبراة من النفاق قال أبو عيسی وقد روي هذا الحديث عن أنس موقوفا ولا أعلم أحدا رفعه إلا ما روی سلم بن قتيبة عن طعمة بن عمرو عن حبيب بن أبي ثابت عن أنس وإنما يروی هذا الحديث عن حبيب بن أبي حبيب البجلي عن أنس بن مالک قوله حدثنا بذلک هناد حدثنا وکيع عن خالد بن طهمان عن حبيب بن أبي حبيب البجلي عن أنس نحوه ولم يرفعه وروی إسمعيل بن عياش هذا الحديث عن عمارة بن غزية عن أنس بن مالک عن عمر بن الخطاب عن النبي صلی الله عليه وسلم نحو هذا وهذا حديث غير محفوظ وهو حديث مرسل وعمارة بن غزية لم يدرک أنس بن مالک قال محمد بن إسمعيل حبيب بن أبي حبيب يکنی أبا الکشوثی ويقال أبو عميرة
جامع ترمذی:جلد اول
عقبہ بن مکرم، نصر بن علی، سلم بن قتیبہ، طعمہ بن عمرو، حبیب بن ابوثابت، انس بن مالک سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس نے چالیس دن تک تکبیر اولی کے ساتھ خالص اللہ کی رضا کے لئے باجماعت نماز پڑھی اس کی دو چیزوں سے نجات لکھ دی جاتی ہے جہنم سے نجات اور نفاق سے نجات امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حضرت انس سے مرفوعا بھی مروی ہے ہم نہیں جانتے کہ اس حدیث کو روایت کیا ہے اسماعیل بن عیاش نے عمارہ بن غزیہ سے انہوں نے انس بن مالک سے انہوں نے عمر بن خطاب سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کی مثل اور یہ حدیث غیر محفوظ اور مرسل ہے کیونکہ عمارہ بن غزیہ نے انس بن مالک کو نہیں پایا۔