• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چند احادیث باب کتاب الجزیہ والموادعہ سے

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
حدیث نمبر: 3181
حدثنا عبدان،‏‏‏‏ أخبرنا أبو حمزة،‏‏‏‏ قال سمعت الأعمش،‏‏‏‏ قال سألت أبا وائل شهدت صفين قال نعم،‏‏‏‏ فسمعت سهل بن حنيف،‏‏‏‏ يقول اتهموا رأيكم،‏‏‏‏ رأيتني يوم أبي جندل ولو أستطيع أن أرد،‏‏‏‏ أمر النبي صلى الله عليه وسلم لرددته،‏‏‏‏ وما وضعنا أسيافنا على عواتقنا لأمر يفظعنا إلا أسهلن بنا إلى أمر،‏‏‏‏ نعرفه غير أمرنا هذا‏.‏

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوحمزہ نے خبر دی، کہا کہ میں نے اعمش سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابووائل سے پوچھا، کیا آپ صفین کی جنگ میں موجود تھے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہاں (میں تھا) اور میں نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا تھا کہ تم لوگ خود اپنی رائے کو غلط سمجھو، جو آپس میں لڑتے مرتے ہو۔ میں نے اپنے تئیں دیکھا جس دن ابوجندل آیا (یعنی حدیبیہ کے دن) اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پھیر دیتا اور ہم نے جب کسی مصیبت میں ڈر کر تلواریں اپنے کندھوں پر رکھیں تو وہ مصیبت آسان ہو گئی۔ ہم کو اس کا انجام معلوم ہو گیا۔ مگر یہی ایک لڑائی ہے (جو سخت مشکل ہے اس کا انجام بہتر نہیں معلوم ہوتا)۔


حدیث نمبر: 3182
حدثنا عبد الله بن محمد،‏‏‏‏ حدثنا يحيى بن آدم،‏‏‏‏ حدثنا يزيد بن عبد العزيز،‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ حدثنا حبيب بن أبي ثابت،‏‏‏‏ قال حدثني أبو وائل،‏‏‏‏ قال كنا بصفين فقام سهل بن حنيف فقال أيها الناس اتهموا أنفسكم فإنا كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الحديبية،‏‏‏‏ ولو نرى قتالا لقاتلنا،‏‏‏‏ فجاء عمر بن الخطاب فقال يا رسول الله،‏‏‏‏ ألسنا على الحق وهم على الباطل فقال ‏"‏ بلى ‏"‏‏.‏ فقال أليس قتلانا في الجنة وقتلاهم في النار قال ‏"‏ بلى ‏"‏‏.‏ قال فعلى ما نعطي الدنية في ديننا أنرجع ولما يحكم الله بيننا وبينهم فقال ‏"‏ ابن الخطاب،‏‏‏‏ إني رسول الله،‏‏‏‏ ولن يضيعني الله أبدا ‏"‏‏.‏ فانطلق عمر إلى أبي بكر فقال له مثل ما قال للنبي صلى الله عليه وسلم فقال إنه رسول الله،‏‏‏‏ ولن يضيعه الله أبدا‏.‏ فنزلت سورة الفتح،‏‏‏‏ فقرأها رسول الله صلى الله عليه وسلم على عمر إلى آخرها‏.‏ فقال عمر يا رسول الله،‏‏‏‏ أوفتح هو قال ‏"‏ نعم ‏"‏‏.

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے، ان سے یزید بن عبدالعزیز نے، ان سے ان کے باپ عبدالعزیز بن سیاہ نے، ان سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابووائل نے بیان کیا کہ ہم مقام صفین میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ پھر سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو! تم خود اپنی رائے کو غلط سمجھو۔ ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اگر ہمیں لڑنا ہوتا تو اس وقت ضرور لڑتے۔ عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر آئے (یعنی حدیبیہ میں) اور عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ کیوں نہیں! پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں؟ کیا ہم (مدینہ) واپس چلے جائیں گے، اور ہمارے اور ان کے درمیان اللہ کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی برباد نہیں کرے گا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے وہی سوالات کئے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابھی کر چکے تھے۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ انہیں کبھی برباد نہیں ہونے دے گا۔ پھر سوہ فتح نازل ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اسے آخر تک پڑھ کر سنایا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیا یہی فتح ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! بلا شک یہی فتح ہے۔


حدیث نمبر: 3183
حدثنا قتيبة بن سعيد،‏‏‏‏ حدثنا حاتم،‏‏‏‏ عن هشام بن عروة،‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ عن أسماء ابنة أبي بكر ـ رضى الله عنهما ـ قالت قدمت على أمي وهى مشركة في عهد قريش،‏‏‏‏ إذ عاهدوا رسول الله صلى الله عليه وسلم ومدتهم،‏‏‏‏ مع أبيها،‏‏‏‏ فاستفتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله،‏‏‏‏ إن أمي قدمت على،‏‏‏‏ وهى راغبة،‏‏‏‏ أفأصلها قال ‏"‏ نعم،‏‏‏‏ صليها ‏"‏‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ قریش سے جس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حدیبیہ کی) صلح کی تھی، اسی مدت میں میری والدہ (قتیلہ) اپنے باپ (حارث بن مدرک) کو ساتھ لے کر میرے پاس آئیں، وہ اسلام میں داخل نہیں ہوئی تھیں۔ (عروہ نے بیان کیا کہ) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میری والدہ آئی ہوئی ہیں اور مجھ سے رغبت کے ساتھ ملنا چاہتی ہیں، تو کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! ان کے ساتھ صلہ رحمی کر۔


کتاب الجزیہ والموادعہ صحیح بخاری
 
Top