• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چند میلادی شبہات کا ازالہ

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
چند میلادی شبہات کا ازالہ

ابوعبدالرحمن محمد رفیق طاہر​
پہلا شبہہ :
ابو لہب نے میلاد منایا :
قَالَ عُرْوَةُ وثُوَيْبَةُ مَوْلَاةٌ لِأَبِي لَهَبٍ كَانَ أَبُو لَهَبٍ أَعْتَقَهَا فَأَرْضَعَتْ النَّبِيَّ ﷺ فَلَمَّا مَاتَ أَبُو لَهَبٍ أُرِيَهُ بَعْضُ أَهْلِهِ بِشَرِّ حِيبَةٍ قَالَ لَهُ مَاذَا لَقِيتَ قَالَ أَبُو لَهَبٍ لَمْ أَلْقَ بَعْدَكُمْ غَيْرَ أَنِّي سُقِيتُ فِي هَذِهِ بِعَتَاقَتِي ثُوَيْبَةَ (صحيح البخاري كتاب النكاح باب وأمهاتكم الآتي أرضعنكم .... (5101)
عروہ نے کہا کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی اور ابو لہب نے اسے آزاد کردیا تھا ۔ تو اس نے نبی ﷺ کو دودھ پلایا ۔ جب ابو لہب مر گیا تو اسکے خاندان میں سے کسی نے خواب میں اسے بری حالت میں دیکھا تو اس نے کہا تو نے کیا پایا ؟ ابو لہب نے کہا تمہارے بعد میں نے سکون نہیں پایا سوائے اس بات کے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے ذرا سا پانی اس میں سے پلا دیا جاتا ہوں ۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جب کوئی کافر بھی نبی کریم ﷺ وسلم کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کرے تو اسکے عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے تو ایک مؤمن اور مسلمان کی تو کیا ہی بات ہے ۔
ازالہ :
اولا :
یہ قرآن مجید فرقان حمید کی نص صریح کے خلاف ہے ۔ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ۔ مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ۔ سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ۔ (سورة اللهب)
''ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ خود بھی ہلاک ہوگیا ، اسے اس کے مال اور اعمال نے کچھ فائدہ نہ دیا ۔''
نیز فرمایا :
وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا (الفرقان:23)
اور انہوں نے جو عمل کیے ہم انکی طرف متوجہ ہوکر انہیں بکھرے ہوئے ذروں کی طرح کر دیں گے ۔
ثانیا :
یہ روایت باسند صحیح ثابت نہیں کیونکہ یہ عروہ کی مرسل روایت ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی عبارت سے واضح ہے ۔ اور عروہ نےیہ واضح نہیں کیا کہ اسے کس نے یہ خواب سنایا ہے ؟! یعنی یہ روایت مرسل ہونے کے وجہ سے ضعیف ہے ۔
ثالثا :
اگر یہ بسند صحیح ثابت بھی ہو جائے تو حجت نہیں کیونکہ یہ خواب ہے ۔ اورغیر انبیاء کے خواب دین میں حجت نہیں ہوتے ۔
اگر اہل میلاد خوابوں کو حجت مانتے ہیں تو اس خواب کے بارہ میں انکی کیا رائے ہے ؟ جسے أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) نے اپنی کتاب تاريخ بغداد 13/403 (ط: الأولى، 1417 هـ , دار الكتب العلمية – بيروت) میں بسند صحیح نقل کیا ہے :
محمد بن حماد﷬ فرماتے ہیں
" رَأَيْتُ النَّبِيّ ﷺ فِي المنام، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا تَقُولُ فِي النظر في كلام أبي حنيفة وأصحابه، وأنظر فيها وأعمل عليها؟ قال: لا، لا، لا، ثلاث مرات. قلت: فما تقول في النظر في حديثك وحديث أصحابك، أنظر فيها وأعمل عليها؟ قال: نعم، نعم، نعم ثلاث مرات. ثم قلت: يَا رَسُولَ الله ، عَلّـِمْــنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ، فعـلمني دعاء وقاله لي ثلاث مرات، فلما استيقظت نسيته."
میں نے خواب میں نبی ﷺ کو دیکھا تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ابو حنیفہ اور اسکے ساتھیوں کی (کلام) فقہ کو حاصل کرنے کے بارہ میں کیا فرماتے ہیں ؟ کیا میں اسے سیکھوں اور اس پر عمل کروں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا " نہیں , نہیں , نہیں" تین مرتبہ کہا ۔ پھر میں نے پوچھا تو آپ ﷺ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی حدیث کا علم حاصل کرنے کے بارہ میں کیا فرماتے ہیں ؟ کیا میں اسے سیکھوں اور اس پر عمل کروں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا " ہاں , ہاں , ہاں " تین مرتبہ فرمایا ۔پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ مجھے کوئی دعاء سکھائیں تاکہ میں وہ دعاء مانگا کروں ۔ تو آپ ﷺ نے مجھے دعاء سکھلائی اور اسے تین مرتبہ دہرایا جب میں بیدار ہوا تو وہ دعاء بھول گیا ۔
کیا بریلوی ذریت اس خواب کو حجت جان کر ابو حنیفہ کی تقلید سے توبہ کرنے کو تیار ہے ؟!
رابعا :
اگر بالفرض مان لیا جائے کہ ابو لہب نے میلاد منایا لیکن اس بات کو کیسے بھولا جاسکتا ہے کہ میلاد منانے والے نے نبی ﷺ کی بات کبھی نہیں مانی !
صدحیف کہ آج بھی میلاد منانے والے نبی ﷺ کا میلاد تو مناتے ہیں لیکن نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ الٹا اسکی مخالفت کرتے ہیں ۔کہ نبی ﷺ نے تو اپنی ولادت کے روز یعنی ہر سموار کو روزہ رکھا ہے لیکن یہ سال بعد عید مناتے ہیں ۔ نبی ﷺ کے روزے والے دن عید! کہیں یہ سنت بولہبی تونہیں !!!
دوسرا شبہہ :
میلاد ماننے کا حکم اللہ نے دیا ہے !
اللہ تعالى نے فرمایا ہے:
"قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ" (يونس:58)
کہہ دیجئے کہ اللہ تعالى کے فضل ورحمت کے ساتھ, پس اسکے ساتھ وہ خوش ہوجائیں , وہ اس سے بہتر ہے جسے یہ جمع کرتے ہیں ۔
اس آیت میں اللہ تعالى اپنی رحمت پر خوشی منانے کا حکم دے رہے ہیں ۔ اور نبی کریم ﷺ تو رحمۃ للعالمین ہیں , لہذا انکی آمد پر سب سے زیادہ خوشی منانی چاہیے ۔
ازالہ:
اولا:
اس آیت میں آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے ۔ہاں اس سے پچھلی آیت میں نزول قرآن اور نزول ہدایت کا ذکر ضرور ہے ۔
ثانیا:
لغت عرب میں فرحت ,خوشی محسوس کرنے کو کہتے ہیں ,خوشی یا جشن منانے کو نہیں ! ۔خوش ہونا اور چیز ہے اور خوشی منانا یا جشن منانا اور چیز ہے ۔ ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ مثلا : اللہ تعالى نے سورہ توبہ میں غزوہء تبوک سے پیچھے رہ جانے والے منافقین کے بارہ میں فرمایا ہے :
فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللهِ (التوبة :81)
رسول اللہ ﷺ (کے ساتھ غزوہ تبوک پر جانے کی بجائے آپ ﷺ) سے پیچھے رہنے والے خوش ہوئے ۔
تو کیا منافقین نے جشن منایا اور ریلیاں نکالی تھیں یا دلی خوشی محسوس کی تھی ؟؟؟
ثالثا :
اگر یہ آیت واقعتا جشن منانے کی دلیل ہے تو پھر رسول اللہ ﷺ , صحابہ کرام ] , تابعین و تبع تابعین وائمہ دین s نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا ؟!
تیسرا شبہہ :
نعمت پر عید منانا انبیاء کا شیوہ ہے
اللہ تعالى نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے :
" قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِنْكَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ" (المائدة : 114)
عیسى بن مریم نے کہااے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرما جوہمارے اول و آخر سب کے لیے عید ہو جائے اور تیری طرف سے نشانی ہو ۔ اور ہمیں رزق دے اور تو ہی سب رزق دینے والوں میں سے بہترین رزق دینے والا ہے ۔
اس آیت میں عیسى بن مریم i مائدہ کے نازل ہونے کے دن کو عید کا دن قرار دے رہے ہیں ۔ تو ہم آمد رسول ﷺ کے دن کو عید کا دن کیوں نہیں قرار دے سکتے ؟
ازالہ:
اس آیت کو عید میلاد النبیﷺ پر دلیل بنانا فہم کا سہو ہے ۔ کیونکہ :
اولا :
عیسى بن مریم ؑ مائدہ کو عید قرار دے رہے ہیں نہ کہ مائدہ نازل ہونے کے دن کو ! , کیونکہ " تَكُونُ لَنَا عِيدًا" میں کلمہ "تکون" واحد مؤنث کا صیغہ ہے جس کا مرجع مائدہ ہے۔اور مائدہ کا نزول باعث خوشی ہے نہ کہ باعث جشن !۔
ثانیا :
اگر یہاں سے عید مراد لے بھی لی جائے تو پھر ہر مائدہ کے نزول پر عید منانا لازم آتا ہے اورنزول مائدہ والا یہ کام توروزانہ بلا ناغہ صبح وشام ہوتا تھا !۔ اور پھر عید منانے اور جشن منانے میں بڑا فرق ہے ۔ مسلمانوں کی عید ین یعنی عید الفطر اور عید الاضحى کے دن بھی رسول اللہ ﷺ سے جشن منانا یا ریلیاں اور جلوس نکالنا ثابت نہیں,
فتدبر
 
Top