• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چُوں میگویم مسلمانم بلرزم (جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں ،تو لرز جاتا ہوں )

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
عزیز زبیدی
چُوں میگویم مسلمانم بلرزم

﴿أَحَسِبَ النّاسُ أَن يُترَ‌كوا أَن يَقولوا ءامَنّا وَهُم لا يُفتَنونَ ﴿٢﴾... سورةالعنكبوت

زبانی کلامی کلمہ:

کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ زبان سے اتنا کہنے پر چھوٹ جائیں گے کہ: ہم ایمان لے آئیں اور ان کو آزمایا نہ جائے گا۔ ؎
چوں میگوئم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الٰہ را​

دراصل یہ بات یہودیوں کے باقیات سیئات میں سے ہے کہ زبانی کلامی کلمہ پڑھ لینے کے بعد وہ ایسے 'معصیت پروف' مومن بن جاتے ہیں کہ اب جو چاہیں کریں اور جتنا چاہیں کافرانہ طرزِ حیات اختیار کریں، ان کے ایمان میں کوئی قابلِ ذکر فرق نہیں پڑتا۔

کلمہ پڑھنے اور اس کا اقرار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اب ہم رب کی نافرمانی نہیں کریں گے، لیکن یہودی ذہنیت نے اس کے معنی بالکل الٹے کر ڈالے ہیں، ان کے طرزِ عمل کے اعتبار سے کلمہ پڑھنے کے معنی یہ بن گئے ہیں کہ اب ہم الٹا سیدھا جو کچھ کریںِ سب ہضم ہوتا رہے گا۔ گویا کہ اب کلمہ گناہوں سے بچنے کے لئے ڈھال بننے کے بجائے گناہوں کو جذب اور ہضم کرنے کے لئے ایک چورن بنا لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی ہزار ہا حماقتوں اور سیاہ کاریوں کے باوجود ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اللہ کے چہیتے ہیں۔

﴿وَقالَتِ اليَهودُ وَالنَّصـٰر‌ىٰ نَحنُ أَبنـٰؤُا۟ اللَّـهِ وَأَحِبّـٰؤُهُ...١٨﴾... سورة المائدة

''یہود اور نصاریٰ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔''

﴿فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلفٌ وَرِ‌ثُوا الكِتـٰبَ يَأخُذونَ عَرَ‌ضَ هـٰذَا الأَدنىٰ وَيَقولونَ سَيُغفَرُ‌ لَنا وَإِن يَأتِهِم عَرَ‌ضٌ مِثلُهُ يَأخُذوهُ...١٦٩﴾... سورةالاعراف

''پھر ان کے بعد ایسے ناخلف (ان کے) جانشین ہوئے کہ (وہ بڑوں کی جگہ) کتاب (تورات) کے وارث (تو) بنے (مگر مطلب کی تحریف کے صلے میں ان کے) اس دنیائے دوں کی (کوئی چیز مل جائے تو) لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ (اللہ کرم کرے گا) یہ گناہ تو ہمارا معاف ہو ہی جائے گا اور اگر اسی طرح کی کوئی دنیوی چیز (پھر) مل جائے تو اسے (بھی) لے کر رہیں۔

صحیح یہ ہے کہ: کلمہ کو اپنے نامزد کلمہ خوانوں سے پالا پڑ گیا ہے ؎
قبائے لا الٰہ خونی قبا است
کہ بربالائے نامرداں دراز است​

جیسے ماں باپ کبھی کبھار تادیباً بچے کو سرزنش کرتے اور سزا دیتے ہیں، زیادہ سے زیادہ سزا ہوئی تو بھی لحظہ بھر کے لئے بس اتنی سی سزا ہو جائے گی، جس میں غصہ کے بجائے پیار کا جذبہ ہی پس پردہ کار فرما ہو گا:

﴿وَقالوا لَن تَمَسَّنَا النّارُ‌ إِلّا أَيّامًا مَعدودَةً...٨٠﴾... سورةالبقرة

''اور وہ کہتے ہیں کہ گنتی کے چند روز کے سوا آگ ہم کو چھوئے گی (بھی تو) نہیں۔''

یہی ذہن یہاں بن گیا ہے کہ کلمہ پڑھ لینے کے بعد ''سب خیر'' ہے۔ کچھ کریں، وہ سمجھتے ہیں کہ ایمان میں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا نہ مزید کسی امتحان اور آزمائش کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ نبی سفارش کریں گے، ایک چھوٹی سی پرچی نمودار ہو گی، جس سے ڈوبتا ہوا بیڑا قیامت میں پار ہو جائے گا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کا یہ خام خیال ہے کہ ایمان لے آنے کے بعد ان کے لئے مزید کسی ابتلاء کی ضرورت باقی نہیں رہی، بلکہ ہم تپا تپا کر دیکھیں گے کہ کون کس حد تک ثابت قدم رہتا ہے اور کون اُلٹے پاؤں مڑ جاتا ہے۔

﴿وَما جَعَلنَا القِبلَةَ الَّتى كُنتَ عَلَيها إِلّا لِنَعلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّ‌سولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلىٰ عَقِبَيهِ...١٤٣﴾... سورالبقرة

''(اے رسولِ خدا) جس قبلے پر آپ (پہلے) تھے (یعنی بیت المقدس) ہم نے اس کو اس غرض سے قرار دیا تھا کہ (جب قبلہ بدل جائے تو) جو لوگ رسول کی پیروی کریں ان کو ہم ان لوگوں سے (الگ) معلوم کر لیں جو (سرتابی کر کے) اپنے اُلٹے پاؤں پھر جائیں۔''

کچھ کچھ اور وہ بھی مرضی کا:

﴿أَفَتُؤمِنونَ بِبَعضِ الكِتـٰبِ وَتَكفُر‌ونَ بِبَعضٍ...٨٥﴾... سورةالبقرة

''تو کیا کتاب (الٰہی) کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض کو نہیں مانتے۔''

اور وہ بھی مرضی کی بات ہوتی تو مان لیتے ورنہ سختی سے ٹھکرا دیتے۔

﴿أَفَكُلَّما جاءَكُم رَ‌سولٌ بِما لا تَهوىٰ أَنفُسُكُمُ استَكبَر‌تُم ...﴿٨٧﴾... سورة البقرة

''(تم اس قدر شوخ ہو گئے ہو کہ) جب جب تمہارے پاس کوئی رسول تمہاری اپنی خواہشوں کے خلاف کوئی حکم لے کر آیا (تو) تم اکڑ بیٹھے۔''

اگر بس چلا تو صرف انکار نہیں، داعیانِ حق کا گلا کاٹنے سے بھی دریغ نہ کیا۔

﴿فَفَر‌يقًا كَذَّبتُم وَفَر‌يقًا تَقتُلونَ ﴿٨٧﴾... سورة البقرة

''پھر بعض کو تم نے جھٹلایا اور بعض کو لگے قتل کرنے۔''

سچے اور پکے ایمان کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ: وہاں عبدیت منقسم نہیں ہوتی یعنی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والی بات نہیں ہوتی اور نہ خدا کی اطاعت کی حد تک وہاں کوئی استثناء ہوتا ہے۔ بلکہ وہاں تسلیم و رضا کا راج ہوتا ہے اور 'ادخُلوا فِى السِّلمِ كافَّةً' کا سماں طاری ہوتا ہے۔ لیکن قلب و نگاہ کے روحانی مریض اور ایمان میں خام لوگ خدا کو فریب دیتے ہیں۔ ایمان کو بہلاتے ہیں اور غیر شعوری طور پر باطل سے مفاہمت کی پینگیں بڑھاتے ہیں، اس لئے جب آنکھ کھلے گی تو ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

﴿وَجاءَت كُلُّ نَفسٍ مَعَها سائِقٌ وَشَهيدٌ ﴿٢١﴾ لَقَد كُنتَ فى غَفلَةٍ مِن هـٰذا فَكَشَفنا عَنكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُ‌كَ اليَومَ حَديدٌ ﴿٢٢﴾ وَقالَ قَر‌ينُهُ هـٰذا ما لَدَىَّ عَتيدٌ ﴿٢٣﴾ أَلقِيا فى جَهَنَّمَ كُلَّ كَفّارٍ‌ عَنيدٍ ﴿٢٤﴾... سورة ق

''اور ہر شخص اس طرح آئے گا کہ ایک (فرشتہ) تو اس کے ساتھ ہانکنے والا ہو گا اور ایک (فرشتہ) گواہ ہو گا (ہم اس کو جتا دیں گے) کہ تو اس (دن) سے بے خبر رہا، سو ہم نے تجھ پر سے تیرا پردہ ہٹا دیا، سو آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے اور اس کے ساتھ والا (فرشتہ) کہے گا کہ یہ وہ (روزنامچہ) ہے جو میرے پاس تیار ہے۔''

ارزاں نجات کا خبط:

﴿أَم حَسِبتُم أَن تُترَ‌كوا وَلَمّا يَعلَمِ اللَّـهُ الَّذينَ جـٰهَدوا مِنكُم وَلَم يَتَّخِذوا مِن دونِ اللَّـهِ وَلا رَ‌سولِهِ وَلَا المُؤمِنينَ وَليجَةً ۚ ...﴿١٦﴾... سورةالتوبة

''(مسلمانو!) کیا تم نے ایسا سمجھ رکھا ہے کہ (سستے) چھوٹ جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے ان لوگوں کو (اچھی طرح ٹھوک بجا کر) دیکھا تک نہیں جو تم سے جہاد کرتے اور اللہ اور اس کے رسول اور (سچے) مسلمانوں کو چھوڑ کر کسی کو اپنا دوست نہیں بناتے۔''

عہد جاہلیت میں سستی نجات کا یہی خبط ہی ان کو لے ڈوبا تھا۔ وہ ہمیشہ ایسی شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے تھے کہ بس یونہی سا کوئی بہانہ مل جائے اور بیڑا پار ہو جائے، افسوس! یہ باتیں صرف تاریک دور کی باتیں نہیں رہیں، اس روشن دور کا المیہ بھی یہی ہے۔
 
Top