• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چہرے کے پردے کا وجوب

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
چہرے کے پردے کا وجوب

ہر مسلمان کو چاہیے کہ غیر محرم مردوں سے عورت کا پردہ کرنا اور منہ ڈھانپنا فرض ہے۔ اس کی فرضیت کے دلائل رب العزت کی کتاب عظیم اور نبی رحمت ﷺ کی سنت مطہرہ میں موجود ہیں۔اس کے علاوہ اجتہاد اور درست فقہی قیاس بھی اسی کے متقاضی ہیں۔
قرآن حکیم سے چند دلائل
پہلی دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَٰرِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَٰتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّٰبِعِينَ غَيْرِ أُو۟لِى ٱلْإِرْبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا۟ عَلَىٰ عَوْرَٰتِ ٱلنِّسَآءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿31﴾
ترجمہ: اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے اوراپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اوراپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے اوراے مسلمانو تم سب الله کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ (سورۃ النور،آیت 31)
یہ آیت مبارکہ چہرے کے پردے کے وجوب پر مندرجہ ذیل طریقوں سے دلالت کرتی ہے:
(1)اللہ عزوجل نے مومن عورتوں کو اپنی عصمت کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور عصمت کی حفاظت کے حکم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تمام وسائل و ذرائع اختیار کیے جائیں جو اس مقصد کے حصول میں مددگار ہو سکتے ہیں اور ہر عقلمند آدمی جانتا ہے کہ چہرے کا پردہ عصمت کی حفاظت کے منجملہ وسائل میں سے ہے کیونکہ چہرہ کھلا رکھنا غیر محرم مردوں کے لیے اس کی طرف دیکھنے کا ذریعہ بنتا ہے اور مردوں کو اس کے خدوخال کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے جس سے بات میل ملاقات بلکہ ناجائز تعلقات تک جا پہنچتی ہے۔حدیث نبوی ہے:
العینان تزنیان وزناھما النظر
"آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا (ناجائز) دیکھا ہے۔"(مسند احمد:2/343)
پھر رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ پاؤں وغیرہ کے زنا کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں فرمایا:
(ترجمہ)شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔(مسند احمد: 2/343)
لہذا جب چہرے کا پردہ حفظ ناموس وعصمت کا ذریعہ ٹھہرا تو وہ بھی اس طرح فرض ہو گا جس طرح کہ حفظ ناموس و عصمت فرض ہے۔اُن وسائل و ذرائع کا بھی وہی حکم ہوتا ہے جو ان مقاصد کے حصول کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔
(2)اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:
وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ
ترجمہ: "اور وہ اپنے گریبانوں پر ڈوپٹے ڈال لیا کریں۔"(سورۃ النور،آیت 31)
خمار (جس کی جمع خمر ہے ) اس کپڑے کو کہتے ہیں جسے عورت اپنا سر ڈھانپنے کے لیے اوڑھتی ہے،مثلا برقعے کا نقاب وغیرہ۔جب عورت کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنے سینے پر دوپٹہ ڈال کر رکھے تو چہرہ ڈھانپنا بھی فرض ہو گا کیونکہ یا تو چہرہ لازما اس حکم میں داخل ہو جاتا ہے یا پھر قیاس صحیح اس کا تقاضا کرتا ہے۔وہ اس طرح کہ جب گردن و سینہ کو ڈھانپنا فرض ہے تو چہرے کے پردے کی فرضیت تو بدرجہ اولیٰ ہونی چاہیے کیونکہ وہی خوبصورتی کا مظہر اور فتنے کا موجب ہے۔اور ظاہری حسن کے متلاشی صرف چہرہ ہی دیکھتے ہیں۔چہرہ خوبصورت ہو تو باقی اعضاء کو زیادہ اہمیت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔جب کہا جاتا ہے یہ ہے کہ فلاں خوبصورت ہے تو اس سے بھی چہرے کا جمال ہی مراد ہوتا ہے ۔اس سے واضح ہوا کہ چہرے کا حسن و جمال ہی پوچھتے اور بتانے والوں کی گفتگو کا محور ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں کیسے ممکن ہے کہ حکمت پر مبنی شریعت سینہ و گردن کے پردے کا تو حکم دے لیکن چہرہ کھلا رکھنے کی رخصت دے۔
(3)اللہ تعالیٰ نے زینت کے اظہار سے بالکل منع کر دیا ہے۔اس حکم سے صرف وہ زینت مستثنی ہے جس کے اظہار سے کوئی چارہ کار ہی نہیں،مثلا بیرونی لباس،اسی لیے قرآن نے (إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ) "سوائے اس زینت کے جو از خود ظاہر ہو جائے"کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے ،یوں نہیں فرمایا: (الا ما اظھرن منھا) "سوائے اس زینت کے جسے عورتیں ظاہر کریں۔"
(4) پھر اسی آیت میں زینت کے اظہار سے دوبارہ منع فرمایا اور بتایا کہ صرف ان افراد کے سامنے زینت ظاہر کی جا سکتی ہے جنہیں مستثنی کیا گیا ہے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے مقام پر مذکورہ زینت پلے مقام پر مذکورہ زینت سے مختلف اور علیحدہ ہے۔پہلے مقام پر اس زینت کا حکم بتایا گیا ہے جو ہر ایک کے لیے ظاہر ہوتی ہے اور اس کا پردہ ممکن نہیں جب کہ دوسرے مقام پر مخفی زیبائش مراد ہے،یعنی جس کے ذریعے سے عورت خود کو مزین کرتی ہے۔اگر اس آرائش و زیبائش کا اظہار بھی ہر ایک کے سامنے جائزہ ہو تو پہلی زینت کے اظہار کی عام اجازت اور دوسری زینت کے اظہار کے حکم سے بعض افراد کے استثنا کا کوئی خاص فائدہ نہیں رہ جاتا۔
طفیلی قسم کے افراد جو صرف کھانا کھانے کے لیے کسی کے گھر میں رہتے ہوں اور ان میں صنفی میلان ختم ہو چکا ہے،مردانہ ااوصاف سے محروم خدام اور وہ نابالغ بچے جوعورتوں کی پوشیدہ باتیں سمجھ نہیں پاتے تو ایسے افراد کے سامنے اللہ تعالیٰ نے مخفی زینت کو کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے۔اس سے دو امور ثابت ہوئے:
مذکورہ بالا دو قسم کے افراد کے سوا مخفی زیبائش کو کسی کے سامنے کھلا رکھنا جائز نہیں ہے۔
بلاشبہ پردےکے حکم کا دارومدار اور اس کے واجب ہونے کی علت عورت کی طرف دیکھ کر (مردوں کا) فتنے میں مبتلا اور وافتگی کا شکار ہو جانے کا اندیشہ ہے،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ چہرہ ہی سب سے زیادہ حسن کا مرکز اور فتنے کا مقام ہوتا ہے ،لہذا اس کا ڈھانپنا ضروری ہو گا تاکہ مرد حضرات بشری تقاضوں کے باعث کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
(5)فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ
ترجمہ: اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے (سورۃ النور:آیت 31)
یعنی عورت اس انداز سے نہ چلے کہ معلوم ہو کہ وہ پازیب وغیرہ پہنے ہوئے ہے جس سے وہ اپنے خاوند کے لیے آراستہ ہوتی ہے۔جب عورت کو زمین پر شدت سے پاؤں مارنے سے منع کر دیا گیا،مبادا غیر محرم مرد اس کے زیور کی جھنکار ہی سے فتنے میں پڑ جائیں تو چہرہ کھلا رکھنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟
غور فرمائیے!فتنے میں پڑنے اور بہک جانے کا امکان کہاں زیادہ ہوتا ہے۔کیا اس صورت میں کہ ایک آدمی کسی عورت کے پاؤں میں پڑی پازیب کی جھنار سنتا ہے اسے معلوم نہیں کہ وہ عورت جوان ہے یا عمر رسیدہ ،حسین و جمیل ہے یا بدصورت یا اس صورت میں کہ ایک مرد کسی دوشیزہ کا کھلا چہرہ دیکھے جو حسن و زیبائی سے بھرپور ہو اور مشاطگی نے اس کے فتنے کو دو چندکہ ہر دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جائے؟ہر با شعور انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ دونوں میں سے کون سی زینت زیادہ فتنے کا باعث اور مستور و مخفی رہنے کی زیادہ حقدار ہے۔
دوسری دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَٱلْقَوَٰعِدُ مِنَ ٱلنِّسَآءِ ٱلَّٰتِى لَا يَرْجُونَ نِكَاحًۭا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَٰتٍۭ بِزِينَةٍۢ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌۭ لَّهُنَّ ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌۭ ﴿60﴾
ترجمہ: اوروہ بڑی بوڑھی عورتیں جو نکاح کی رغبت نہیں رکھتیں ان پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ اپنے کپڑے اتار رکھیں بشرطیکہ زینت کا اظہار نہ کریں اور اس سے بھی بچیں توان کے لیے بہتر ہے اور الله سننے والا جاننے والا ہے (سورۃ النور،آیت 60)
اس آیت کریمہ سے پردے کے واجب ہونے پر وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان بوڑی عورتوں سے گناہ کی نفی کی ہے جو سن رسیدہ ہونے کے سبب نکاح کی اُمید نہیں رکھتیں،اس لیے کہ بوڑھی ہونے کی وجہ سے مردوں کو ان کے ساتھ نکاح میں کوئی رغبت نہیں ہوتی لیکن اس عمر میں بھی چادر اتار رکھنے پر گناہ نہ ہونا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اس سے ان کا مقصد زیب و زینت کی نمائش نہ ہوچادر اتار دینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ کپڑے اتار کر بالکل برہنہ ہو جائیں بلکہ اس سے صرف ہ کپڑے مراد ہیں جو عام لباس کے اوپر اس لیے اوڑھے جاتے ہیں کہ جسم کے وہ حصے جو عام لباس سے عموما باہر رہتے ہیں،جیسے چہرہ اور ہاتھ،چھپ جائیں،لہذا ان بوڑھی عورتوں کو جنہیں کپڑے اتارنے کی رخصت دی گئی ہے اس سے مراد مذکورہ اضافی کپڑے (چادریں،برقعے وغیرہ) ہیں جو پورے جسم کو ڈھانپتے ہیں۔اس حکم کی عمر رسیدہ خواتین کے ساتھ تخصیصی دلیل یہ ہے کہ جو ان نکاح کی عمر والی عورتوں کا حکم ان سے مختلف ہے کیونکہ اگر سب عورتوں کے لیے اضافی کپڑے اتار دینے اور صرف عام لباس پہننے کی اجازت ہوتی تو سن رسیدہ و نکاح کی عمر سے گزری ہوئی عورتوں کا بالخصوص ذکر کرنے کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا۔
مذکورہ آیت کریمہ کے الفاظ (غَيْرَ مُتَبَرِّجَٰتٍۭ بِزِينَةٍۢ ۖ)"بشرطیکہ یہ بوڑھی عورتیں اپنی زینت کا مظاہرہ نہ کرتی پھریں" اس بات کی ایک اور دلیل ہے کہ نکاح کے قابل،جواب عورتوں پر پردہ فرض ہے چونکہ عام طور پر جب وہ اپنا چہرہ کھلا رکھتی ہیں تو اس کا مقصد زینت کی نمائش اور حسن و جمال کی مدح و توصیف کریں اس قماش کی عورتوں میں نیک نیت شاذونادر ہی ہوتی ہیں اور شاذونادر صورتوں کو عام قوانین کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
تیسری دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًۭا رَّحِيمًۭا﴿59﴾
ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے (سورۃ الاحزاب،آیت 59)
ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے اپنے گھروں سے نکلیں تو سر کے اوپر سے اپنی چادریں لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا کریں اور صرف ایک آنکھ کی جگہ کھلی رکھیں۔صحابی کی تفسیر حجت ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول میں مذکور ایک آنکھ کھلی رکھنے کی رخصت بھی راستہ دیکھنے کی ضرورت کے پیش نظر دی گئی ہے،لہذا جہاں راستہ دیکھنے کی ضرورت نہ ہو گی وہاں ایک آنکھ سے بھی پردہ ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں۔
اور "جلباب" اس چادر کو کہتے ہیں جو دوپٹے کے اوپر سے عبا (گاؤن) کی طرح اوڑھی یا پہنی جائے۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انصاری خواتین گھروں سے نکلتے وقت اس سکون و اطمینان سے چلتیں گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور انہوں نے سیاہ رنگ کی چادریں لپیٹ رکھی ہوتیں۔
عبیدۃ السلمانی رحمۃ اللہ علیہ (تلمیذ حضرت علی رضی اللہ عنہ)کا بیان ہے ہے کہ مسلمان عورتیں سروں کے اوپر سے چادریں اس طرح اوڑھا کرتی تھیں کہ آنکھوں کے سوا کچھ ظاہر نہ ہوتا اور وہ بھی اس لیے کہ راستہ دیکھ سکیں۔(تفسیر ابن کثیر،تفسیر سورۃ الاحزاب،آیت :59)

چوتھی دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَّا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِىٓ ءَابَآئِهِنَّ وَلَآ أَبْنَآئِهِنَّ وَلَآ إِخْوَٰنِهِنَّ وَلَآ أَبْنَآءِ إِخْوَٰنِهِنَّ وَلَآ أَبْنَآءِ أَخَوَٰتِهِنَّ وَلَا نِسَآئِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ ۗ وَٱتَّقِينَ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ شَهِيدًا ﴿55﴾
ترجمہ: ان پر اپنے باپوں کے سامنے ہونے میں کوئی گناہ نہیں اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ اپنے بھتیجوں کے اورنہ اپنے بھانجوں کے اور نہ اپنی عورتوں کے اور نہ اپنے غلاموں کے اور الله سے ڈرتی رہو بے شک ہر چیز الله کے سامنے ہے (سورۃ الاحزاب،آیت 55)
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب عورتوں کو غیر محرم مردوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا تو یہ بھی بیان فرمادیا کہ فلاں فلاں قریبی رشتہ داروں سے پردہ واجب نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَٰتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّٰبِعِينَ غَيْرِ أُو۟لِى ٱلْإِرْبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا۟ عَلَىٰ عَوْرَٰتِ ٱلنِّسَآءِ ۖ
ترجمہ: اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے اوراپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اوراپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں (سورۃ النور،آیت 31)
قرآن حکیم میں سے یہ چار دلائل ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر محرم مردوں سے عورت کو پردہ کرنا واجب ہے اور جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے صرف پہلی آیت اس مسئلہ پر پانچ وجوہ سے دلالت کرتی ہے۔

سنت مطہرہ سے دلائل
اب سنت نبوی سے چہرے کا پردہ واجب ہونے کے چند دلائل ذکر کیے جاتے ہیں:
(1)رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
اذا خطب احدکم المراۃ فان استطاع فان ینظر منھا الی ما یدعوہ الی نکاحھا فلیفعل
"جب کوئی آدمی کسی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجے تو اگر اس کے لیے عورت کا داعیہ نکاح (حسن و جمال اور قد کاٹھ وغیرہ) دیکھنا ممکن ہو تو وہ دیکھ لے۔(مسند احمد،3/334)
وجہ استدلال

وجہ استدلال اس حدیث میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خاطب (پیغام نکاح دینے والے) سے گناہ کا مرتفع ہونا اس حالت کے ساتھ مشروط کیا ہے کہ وہ خِطبہ (پیغام نکاح)کے لیے دیکھ رہا ہے۔پس ثابت ہوا کہ اس مقصد کے بغیر دیکھنے والا گناہ گار ہے۔اسی طرح اگر خاطب بھی خِطبہ کے لیے نہیں بلکہ صرف لطف اندوز ہونے کے لیے دیکھ رہا ہے تو وہ بھی گناہ گار ہو گا۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث میں دیکھی جانی والی چیز کی تخصیص نہیں،لہذا،سینہ،چھاتی اور گردن وغیرہ کا دیکھنا بھی مراد ہو سکتا ہے۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ جمال پسند خاطب کا مقصود چہرے کے جمال کا جائزہ لینا ہوتا ہے،باقی اعضاء کا حسن تو اس کے تابع ہے،اس لیے عورت کے انتخاب میں ظاہری حسن وجمال کو ترجیح دینے والا خاطب چہرہ ہی دیکھے گا۔
(2) جب رسول اکرم ﷺ نے عورتوں کے متعلق یہ حکم دیا کہ وہ بھی عیدگاہ کو جائیں تو وہ کہنے لگیں : اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہم میں سے بعض کے پاس چادر نہیں ہوتی۔رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لتلبسها صاحبتها من جلبابها
"جس کے پاس اپنی چادر نہ ہوتو اسے کوئی دوسری بہن چادر دے دے۔"(صحیح بخاری،الصلوۃ،باب وجوب الصلاۃ فی الثیاب،حدیث:351)
یہ حدیث واضح طور پر بتا رہی ہے کہ صحابیات میں چادر کے بغیر باہر نکلنے کا معمول نہیں تھا بلکہ چادر پاس نہ ہونے کی صرت میں باہر نکلنے کو وہ ممکن ہی نہیں سمجھتی تھی۔اسی لیے رسول اکرم ﷺ نے انہیں نماز عید کے لیے عید گاہ جانے کا حکم دیا تو انہوں نے اس امر،یعنی چادر نہ ہونے کا عذر کیا۔اس پر آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ یہ مشکل اس طرح حل ہو سکتی ہے کہ ایسی عورت کو کوئی دوسری مسلمان بہن اپنی چادر مستعار دے دے۔
گویا رسول اکرم ﷺ نے عورتوں کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ چادر اوڑھے بغیر عیدگاہ تک بھی جائیں،حالانکہ وہاں جانے کا حکم مرد و عورت سب کوہے۔جب ایک ایسے کام کے لیے جس کا شریعت نے حکم دیا ہے،رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو چادر اوڑھے بغیر باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی تو ایسے امور کے لیے بغیر چادر اوڑھے گھر سے باہر آنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے جن کا شریعت میں حکم دیا گیا ہے نہ ان ان کی کوئی ضرورت ہے،بالخصوص جب مقصد صرف بازاروں میں گھومنا پھرنا،مردوں کے ساتھ میل جول اور تماش بینی ہو جس میں کوئی فائدہ نہیں۔
علاوہ ازیں چادر اوڑھنے کا حکم بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کا مکمل با پردہ رہنا ضروری ہے۔واللہ اعلم۔
(3)ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كنا نساء المؤمنات، يشهدن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الفجر، متلفعات بمروطهن، ثم ينقلبن إلى بيوتهن حين يقضين الصلاة، لا يعرفهن أحد من الغلس
"مومن عورتیں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے چادروں میں لپٹی ہوئی آتیں۔پھر نماز کے بعد وہ اپنے گھروں کو لوٹتیں تو اندھیرے کے سبب انہیں کوئی پہچان نہ سکتا۔(صحیح البخاری،مواقیت الصلاۃ،باب وقت الفجر ،حدیث :578)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا:
(ترجمہ)"عورتوں کے جو اطوار ہم نے دیکھے ہیں اگر رسول اللہ ﷺ دیکھ لیتے تو انہیں مسجد میں آنے سے اسی طرح منع کر دیتے جس طرح بنی اسرائیل نے اپنی عورتوں کو منع کر دیا تھا۔"(صحیح البخاری،الاذان،باب انتظار الناس قیام الامام العالم،حدیث :869 وصحیح مسلم الصلاۃ،باب خروج النساء الی المساجد،حدیث :445)
تقریبا اسی قسم کے الفاظ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہیں۔

یہ حدیث پردے کے وجوب پر دو طریقوں سے دلالت کرتی ہے:
پردہ کرنا اور اپنے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنا صحابیات رضی اللہ عنھن کے معمول میں سے تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا زمانہ تمام زمانوں سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ منزلت رکھتا ہے۔وہ اخلاق و آداب میں بلند،ایمان میں کامل اور اعمال میں زیادہ صالح تھے۔وہی قابل اتباع نمونہ ہیں کہ خود ان کو ان کی بطریق احسن پیروی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشنودی کی نوید سنائی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَٱلسَّٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَٰجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَٰنٍۢ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّٰتٍۢ تَجْرِى تَحْتَهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًۭا ۚ ذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿100﴾
ترجمہ: اور جو لوگ قدیم میں پہلے ہجرت کرنے والوں اور مدد دینے والو ں میں سے اور وہ لوگ جو نیکی میں ان کی پیروی کرنے والے ہیں الله ان سے راضی ہوئےاوروہ اس سے راضی ہوئےان کے لیے ایسے باغ تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے (سورۃ التوبہ،آیت 100)
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مبارک عہد میں عورتوں کا طریقہ یہ تھا (جو اوپر ذکر کیا گیا) تو ہمارے لیے کس طرح مستحسن ہو سکتا ہے کہ اس طریقے سے ہٹ جائیں جس پر چلنے ہی سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ممکن ہے۔خصوصا جب کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے:
وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِۦ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِۦ جَهَنَّمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرًا ﴿115﴾
ترجمہ: اور جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے کے بعد رسول کی مخالف کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا اور رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے(سورۃ النساء،آیت 115)
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جن کا علم و فہم ،اللہ ے بندوں کی خیر خواہی کا جذبہ اور دینی بصیرت تعارف کی محتاج نہیں،فرماتے ہیں:
"اگر رسول اکرم ﷺ عورتوں کے وہ اعمال و اطوار دیکھ لیتے جو ہم نے دیکھے ہیں تو انہیں مساجد میں آنے سے قطعی طور پر منع کر دیتے۔"
یہ قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہے جس طرح گزتہ صفحات میں اس کی تخریج کر دی گئی ہے۔جہاں تک ابن مسعود رضی اللہ ونہ کے قول کا تعلق ہے تو بایں الفاظ ہمیں نہیں مل سکا،البتہ مصنف ابن ابی شیبہ (2/158) میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بعض اقوال منقول ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عورت کے لیے اپنے گھر میں نماز پڑھنے کو زیادہ بہتر سمجھتے تھے۔(عثمان منیب)
اور یہ اس زمانے میں ہوا جس کی فضیلت احادیث میں وارد ہے ،یعنی عہد نبوی کے مقابلے میں عورتوں کی حالت اس حد تک بدل گئی کہ انہیں مساجد میں آنے سے روک دینے کا تقاضا کر رہی تھی ،تو ہمارے زمانے میں بے پردہ نکلنے کی اجازت کیوں کر دی جا سکتی ہے جبکہ عصر نبوی کو گزرے تیرہ صدیاں گزر چکی ہیں ۔اخلاقی بے راہ روی عام ہو چکی ہے۔شرم و حیا تقریبا رخصت ہو چکے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں دینی حمیت کمزور پڑ چکی ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اور فقیہ امت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فہم بھی اسی نتیجے پر پہنچا جس کی شہادت شریعت کاملہ کی صریح نصوص دے رہی ہیں،یعنی اگر کسی کام کے نتیجہ میں ایسے امور سامنے آئیں جنہیں شریعت حرام قرار دیتی ہے تو وہ کام بھی شرعا حرام ہو گا،خواہ بظاہر جائز ہی نظر آتا ہو۔
رسول اکرم ﷺ نے جب ازار بند کے ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی حرمت بیان کی تو اس پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا: تو عورتیں اپنی چادریں کس حد تک لٹکائیں۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
"ترخی شبرا قالت ام سلمۃ: اذا ینکشف عنھا قال :فذراع لا تذید علیہ"(سنن ابی داود ،اللباس باب فی قدر الذیل،حدیث :4117)
"ایک بالشت بھر لٹکائیں۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اس طرح تو ان کے پاؤں نظر آئیں گے۔نبی ﷺ نے فرمایا: "تو ایک ہاتھ کے برابر کاٹ لیں اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔"
مندرجہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت پر پاؤں ڈھانپنا فرض ہے۔اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ یہ حکم تمام صحابیات رضی اللہ عنھن کو معلوم تھا اور بلاشبہ پاؤں میں،ہاتھوں اور چہرے کی نسبت کم کشش پائی جاتی ہے۔کم تر کشش والے مقام کے حکم کی تصریح خودبخود تنبیہ کر رہی ہے کہ اس سے زیادہ پر کشش اور اس حکم کے زیادہ حقدار مقامات کا کیا حکم ہونا چاہیے۔یہ بات شرع متن کی حکمت کے منافی ہے کہ کم تر کشش اور قلیل تر فتنے کے باعث اعضاء کو ڈھانپنا فرض ہو لیکن زیادہ فتنے کے باعث اور پُر کشش اعضاء کو کھلا رکھنے کی اجازت دے دی جائے۔اللہ تعالیٰ کی حکمت و شریعت میں اس قسم کا تضاد پایا جانا ناممکن ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"اذا کان لاحداکن مکاتب فکان عندہ ما یودی فلتحتجب منہ"(سنن ابی داود،العنق،باب فی المکاتب یودی بعض کتابہ،حدیث :3928 وضعفہ البانی)
"اگر کسی عورت کے مکاتب غلام کے پاس اس قدر مال ہو جس سے وہ معاہدے میں طے شدہ رقم ادا کر سکتا ہو تو اس عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے اس غلام سے پردہ کرے۔"
مذکورہ حدیث سے پردے کا واجب ہونا اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ مالکہ کے لیے اپنے غلام کے سامنے اس وقت تک چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے جب ک وہ اس کی ملکیت میں ہو اور جب غلام پر اس کی ملکیت ختم ہو جائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس سے پردہ کرے کیونکہ اب وہ غیرمحرم ہو گیا ہے۔ثابت ہوا کہ عورت کا غیر محرم مردوں سے پردہ کرنا واجب ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں :
"کان الرکبان یمرون بنا و نحن مع رسول اللہ ﷺ محرمات فاذا حاذوا بنا سدلت احدانا جلبابھا من راسھا علی وجھھا فاذا جاوزونا کشفناہ"(سنن ابی داود،الناسک ،باب المحرمۃ تغطی وجھھا ،حدیث :1833 وسنن ابن ماجہ المناسک ،باب المحرمۃ تسدل الثوب علی وجھھا،حدیث :2935 وحسن اسنادہ الالبانی فی الجلباب المراۃ ،ص :107)
"جب ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں احرام باندھے ہوئے ہوتیں تو اونٹ سوار قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے۔وہ جس وقت سامنے ہوتے تو ہم اپنے سروں کے اوپر سے چادر چہرے پر لٹکا لیتیں ۔جب وہ آگے گزر جاتے تو ہم پھر سے چادر کو چہرہ پر سے ہٹا لیتیں۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمانا کہ "جب وہ (سوار) ہمارے سامنے ہوتے تو ہم اپنے چہروں پر چادریں ڈال لیتیں" واضح دلیل ہے کہ عورت پر چہرہ ڈھانپنا واجب ہے۔اس لیے کہ حالت احرام میں چہرہ کھلا رکھنے کا حکم ہے،لہذا اگر اس واجبی حکم کی بجا آوری میں کوئی زور دار شرعی رکاوٹ موجود نہ ہوتی تو چہرہ کھلا رکھنا ضروری تھا،خواہ لوگ پاس سے گزرتے رہیں۔
اس استدلال کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ اکثر اہل علم کے نزدیک حالت احرام میں عورتوں پر چہرہ کھلا رکھنا واجب ہے۔اور ایک واجب کو اس سے قوی تر واجب ادا کرنے کی خاطر ہی ترک کیا جا سکتا ہے۔اس لیے اگر غیر محرم عورتوں سے پردہ کرنا اور چہرہ ڈھانپنا واجب نہ ہوتا تو احرام کی حالت میں اس کے کھلا رکھنے کا حکم جو واجب ہے ترک کرنا جائز نہ ہوتا جب کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ میں حدیث ہے (جس کا مفہوم) کہ حالت احرام میں عورت کے لیے نقاب ڈالنا اور دستانے پہننا جائز نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منجملہ دلائل میں سے ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں حالت احرام کے سوا خواتین میں (چہرے کے پردے کے لیے) نقاب اور (ہاتھوں کے پردے کے لیے)دستانوں کا رواج عام تھا۔اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کا پردہ کرنا واجب ہے۔
سنت مطہرہ میں سے یہ چھ دلائل ہیں کہ عورت پر پردہ کرنا اور غیر محرم مردوں کی نظر سے چہرہ ڈھانپنا فرض ہے۔
قرآن میں سے مذکور چار دلائل بھی ان میں جمع کر لیں تو کتاب و سنت سے کل دس دلیلیں ہوئیں۔تلک عشرۃ کاملۃ۔وباللہ التوفیق۔

قیاس صحیح کی روسے چہرے کے پردے کا وجوب
اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان کو شرعی کاموں میں اجتہاد اور درست فقہی قیامس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔یعنی مصالح اور ان کے حصول کے ذرائع کو برقرار رکھنے کی ترغیب اور مفاسد اور ان کے وسائل کی مذمت اور ان سے اجتناب کرنے کی تلقین جیسے سنہری اصول پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
چنانچہ ہر وہ کام جس میں خالصتا مصلحت ہو یا اس کے نقصانات کی نسبت مصلحت کا پہلو روشن ہو تو اس کا حکم علی الترتیب پہلی صورت میں واجب اور دوسری صورت میں کم ازکم مستحب ہو گا اور وہ کام جس میں صرف نقصان ہو یا نقصان ہو یا نقصان اس کی مصلحت سے زیادہ ہو تو اس کام کا حکم علی الترتیب حرام یا مکروہ ہو گا۔
اس قاعدے کی روشنی میں جب ہم غیر محرم مردوں کے سامنے عورت کا چہرہ بے پردہ رکھنے پر غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ بے حجابی بے شمار مفاسد لیے ہوئے ہے۔اگر بالفرض کوئی مصلحت ہے بھی تو اس سے پیدا ہونے والے شدید نقصانات کے بالمقابل یہ انتہائی بےمعنی مصلحت ہے۔

پردہ از شیخ محمد بن صالح العثیمین
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
چہرے کے پردے کا وجوب

ہر مسلمان کو چاہیے کہ غیر محرم مردوں سے عورت کا پردہ کرنا اور منہ ڈھانپنا فرض ہے۔ اس کی فرضیت کے دلائل رب العزت کی کتاب عظیم اور نبی رحمت ﷺ کی سنت مطہرہ میں موجود ہیں۔اس کے علاوہ اجتہاد اور درست فقہی قیاس بھی اسی کے متقاضی ہیں۔
قرآن حکیم سے چند دلائل
پہلی دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَٰرِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَٰتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّٰبِعِينَ غَيْرِ أُو۟لِى ٱلْإِرْبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا۟ عَلَىٰ عَوْرَٰتِ ٱلنِّسَآءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿31﴾


یہ آیت مبارکہ چہرے کے پردے کے وجوب پر مندرجہ ذیل طریقوں سے دلالت کرتی ہے:
(1)اللہ عزوجل نے مومن عورتوں کو اپنی عصمت کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور عصمت کی حفاظت کے حکم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تمام وسائل و ذرائع اختیار کیے جائیں جو اس مقصد کے حصول میں مددگار ہو سکتے ہیں اور ہر عقلمند آدمی جانتا ہے کہ چہرے کا پردہ عصمت کی حفاظت کے منجملہ وسائل میں سے ہے کیونکہ چہرہ کھلا رکھنا غیر محرم مردوں کے لیے اس کی طرف دیکھنے کا ذریعہ بنتا ہے اور مردوں کو اس کے خدوخال کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے جس سے بات میل ملاقات بلکہ ناجائز تعلقات تک جا پہنچتی ہے۔حدیث نبوی ہے:
العینان تزنیان وزناھما النظر

پھر رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ پاؤں وغیرہ کے زنا کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں فرمایا:

لہذا جب چہرے کا پردہ حفظ ناموس وعصمت کا ذریعہ ٹھہرا تو وہ بھی اس طرح فرض ہو گا جس طرح کہ حفظ ناموس و عصمت فرض ہے۔اُن وسائل و ذرائع کا بھی وہی حکم ہوتا ہے جو ان مقاصد کے حصول کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔
(2)اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:
وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ

خمار (جس کی جمع خمر ہے ) اس کپڑے کو کہتے ہیں جسے عورت اپنا سر ڈھانپنے کے لیے اوڑھتی ہے،مثلا برقعے کا نقاب وغیرہ۔جب عورت کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنے سینے پر دوپٹہ ڈال کر رکھے تو چہرہ ڈھانپنا بھی فرض ہو گا کیونکہ یا تو چہرہ لازما اس حکم میں داخل ہو جاتا ہے یا پھر قیاس صحیح اس کا تقاضا کرتا ہے۔وہ اس طرح کہ جب گردن و سینہ کو ڈھانپنا فرض ہے تو چہرے کے پردے کی فرضیت تو بدرجہ اولیٰ ہونی چاہیے کیونکہ وہی خوبصورتی کا مظہر اور فتنے کا موجب ہے۔اور ظاہری حسن کے متلاشی صرف چہرہ ہی دیکھتے ہیں۔چہرہ خوبصورت ہو تو باقی اعضاء کو زیادہ اہمیت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔جب کہا جاتا ہے یہ ہے کہ فلاں خوبصورت ہے تو اس سے بھی چہرے کا جمال ہی مراد ہوتا ہے ۔اس سے واضح ہوا کہ چہرے کا حسن و جمال ہی پوچھتے اور بتانے والوں کی گفتگو کا محور ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں کیسے ممکن ہے کہ حکمت پر مبنی شریعت سینہ و گردن کے پردے کا تو حکم دے لیکن چہرہ کھلا رکھنے کی رخصت دے۔
(3)اللہ تعالیٰ نے زینت کے اظہار سے بالکل منع کر دیا ہے۔اس حکم سے صرف وہ زینت مستثنی ہے جس کے اظہار سے کوئی چارہ کار ہی نہیں،مثلا بیرونی لباس،اسی لیے قرآن نے (إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ) "سوائے اس زینت کے جو از خود ظاہر ہو جائے"کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے ،یوں نہیں فرمایا: (الا ما اظھرن منھا) "سوائے اس زینت کے جسے عورتیں ظاہر کریں۔"
(4) پھر اسی آیت میں زینت کے اظہار سے دوبارہ منع فرمایا اور بتایا کہ صرف ان افراد کے سامنے زینت ظاہر کی جا سکتی ہے جنہیں مستثنی کیا گیا ہے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے مقام پر مذکورہ زینت پلے مقام پر مذکورہ زینت سے مختلف اور علیحدہ ہے۔پہلے مقام پر اس زینت کا حکم بتایا گیا ہے جو ہر ایک کے لیے ظاہر ہوتی ہے اور اس کا پردہ ممکن نہیں جب کہ دوسرے مقام پر مخفی زیبائش مراد ہے،یعنی جس کے ذریعے سے عورت خود کو مزین کرتی ہے۔اگر اس آرائش و زیبائش کا اظہار بھی ہر ایک کے سامنے جائزہ ہو تو پہلی زینت کے اظہار کی عام اجازت اور دوسری زینت کے اظہار کے حکم سے بعض افراد کے استثنا کا کوئی خاص فائدہ نہیں رہ جاتا۔
طفیلی قسم کے افراد جو صرف کھانا کھانے کے لیے کسی کے گھر میں رہتے ہوں اور ان میں صنفی میلان ختم ہو چکا ہے،مردانہ ااوصاف سے محروم خدام اور وہ نابالغ بچے جوعورتوں کی پوشیدہ باتیں سمجھ نہیں پاتے تو ایسے افراد کے سامنے اللہ تعالیٰ نے مخفی زینت کو کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے۔اس سے دو امور ثابت ہوئے:
مذکورہ بالا دو قسم کے افراد کے سوا مخفی زیبائش کو کسی کے سامنے کھلا رکھنا جائز نہیں ہے۔
بلاشبہ پردےکے حکم کا دارومدار اور اس کے واجب ہونے کی علت عورت کی طرف دیکھ کر (مردوں کا) فتنے میں مبتلا اور وافتگی کا شکار ہو جانے کا اندیشہ ہے،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ چہرہ ہی سب سے زیادہ حسن کا مرکز اور فتنے کا مقام ہوتا ہے ،لہذا اس کا ڈھانپنا ضروری ہو گا تاکہ مرد حضرات بشری تقاضوں کے باعث کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
(5)فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ

یعنی عورت اس انداز سے نہ چلے کہ معلوم ہو کہ وہ پازیب وغیرہ پہنے ہوئے ہے جس سے وہ اپنے خاوند کے لیے آراستہ ہوتی ہے۔جب عورت کو زمین پر شدت سے پاؤں مارنے سے منع کر دیا گیا،مبادا غیر محرم مرد اس کے زیور کی جھنکار ہی سے فتنے میں پڑ جائیں تو چہرہ کھلا رکھنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟
غور فرمائیے!فتنے میں پڑنے اور بہک جانے کا امکان کہاں زیادہ ہوتا ہے۔کیا اس صورت میں کہ ایک آدمی کسی عورت کے پاؤں میں پڑی پازیب کی جھنار سنتا ہے اسے معلوم نہیں کہ وہ عورت جوان ہے یا عمر رسیدہ ،حسین و جمیل ہے یا بدصورت یا اس صورت میں کہ ایک مرد کسی دوشیزہ کا کھلا چہرہ دیکھے جو حسن و زیبائی سے بھرپور ہو اور مشاطگی نے اس کے فتنے کو دو چندکہ ہر دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جائے؟ہر با شعور انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ دونوں میں سے کون سی زینت زیادہ فتنے کا باعث اور مستور و مخفی رہنے کی زیادہ حقدار ہے۔
دوسری دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَٱلْقَوَٰعِدُ مِنَ ٱلنِّسَآءِ ٱلَّٰتِى لَا يَرْجُونَ نِكَاحًۭا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَٰتٍۭ بِزِينَةٍۢ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌۭ لَّهُنَّ ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌۭ ﴿60﴾

اس آیت کریمہ سے پردے کے واجب ہونے پر وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان بوڑی عورتوں سے گناہ کی نفی کی ہے جو سن رسیدہ ہونے کے سبب نکاح کی اُمید نہیں رکھتیں،اس لیے کہ بوڑھی ہونے کی وجہ سے مردوں کو ان کے ساتھ نکاح میں کوئی رغبت نہیں ہوتی لیکن اس عمر میں بھی چادر اتار رکھنے پر گناہ نہ ہونا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اس سے ان کا مقصد زیب و زینت کی نمائش نہ ہوچادر اتار دینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ کپڑے اتار کر بالکل برہنہ ہو جائیں بلکہ اس سے صرف ہ کپڑے مراد ہیں جو عام لباس کے اوپر اس لیے اوڑھے جاتے ہیں کہ جسم کے وہ حصے جو عام لباس سے عموما باہر رہتے ہیں،جیسے چہرہ اور ہاتھ،چھپ جائیں،لہذا ان بوڑھی عورتوں کو جنہیں کپڑے اتارنے کی رخصت دی گئی ہے اس سے مراد مذکورہ اضافی کپڑے (چادریں،برقعے وغیرہ) ہیں جو پورے جسم کو ڈھانپتے ہیں۔اس حکم کی عمر رسیدہ خواتین کے ساتھ تخصیصی دلیل یہ ہے کہ جو ان نکاح کی عمر والی عورتوں کا حکم ان سے مختلف ہے کیونکہ اگر سب عورتوں کے لیے اضافی کپڑے اتار دینے اور صرف عام لباس پہننے کی اجازت ہوتی تو سن رسیدہ و نکاح کی عمر سے گزری ہوئی عورتوں کا بالخصوص ذکر کرنے کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا۔
مذکورہ آیت کریمہ کے الفاظ (غَيْرَ مُتَبَرِّجَٰتٍۭ بِزِينَةٍۢ ۖ)"بشرطیکہ یہ بوڑھی عورتیں اپنی زینت کا مظاہرہ نہ کرتی پھریں" اس بات کی ایک اور دلیل ہے کہ نکاح کے قابل،جواب عورتوں پر پردہ فرض ہے چونکہ عام طور پر جب وہ اپنا چہرہ کھلا رکھتی ہیں تو اس کا مقصد زینت کی نمائش اور حسن و جمال کی مدح و توصیف کریں اس قماش کی عورتوں میں نیک نیت شاذونادر ہی ہوتی ہیں اور شاذونادر صورتوں کو عام قوانین کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
تیسری دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًۭا رَّحِيمًۭا﴿59﴾

ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے اپنے گھروں سے نکلیں تو سر کے اوپر سے اپنی چادریں لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا کریں اور صرف ایک آنکھ کی جگہ کھلی رکھیں۔صحابی کی تفسیر حجت ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول میں مذکور ایک آنکھ کھلی رکھنے کی رخصت بھی راستہ دیکھنے کی ضرورت کے پیش نظر دی گئی ہے،لہذا جہاں راستہ دیکھنے کی ضرورت نہ ہو گی وہاں ایک آنکھ سے بھی پردہ ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں۔
اور "جلباب" اس چادر کو کہتے ہیں جو دوپٹے کے اوپر سے عبا (گاؤن) کی طرح اوڑھی یا پہنی جائے۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انصاری خواتین گھروں سے نکلتے وقت اس سکون و اطمینان سے چلتیں گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور انہوں نے سیاہ رنگ کی چادریں لپیٹ رکھی ہوتیں۔
عبیدۃ السلمانی رحمۃ اللہ علیہ (تلمیذ حضرت علی رضی اللہ عنہ)کا بیان ہے ہے کہ مسلمان عورتیں سروں کے اوپر سے چادریں اس طرح اوڑھا کرتی تھیں کہ آنکھوں کے سوا کچھ ظاہر نہ ہوتا اور وہ بھی اس لیے کہ راستہ دیکھ سکیں۔(تفسیر ابن کثیر،تفسیر سورۃ الاحزاب،آیت :59)

چوتھی دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَّا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِىٓ ءَابَآئِهِنَّ وَلَآ أَبْنَآئِهِنَّ وَلَآ إِخْوَٰنِهِنَّ وَلَآ أَبْنَآءِ إِخْوَٰنِهِنَّ وَلَآ أَبْنَآءِ أَخَوَٰتِهِنَّ وَلَا نِسَآئِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ ۗ وَٱتَّقِينَ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ شَهِيدًا ﴿55﴾

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب عورتوں کو غیر محرم مردوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا تو یہ بھی بیان فرمادیا کہ فلاں فلاں قریبی رشتہ داروں سے پردہ واجب نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَٰتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّٰبِعِينَ غَيْرِ أُو۟لِى ٱلْإِرْبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا۟ عَلَىٰ عَوْرَٰتِ ٱلنِّسَآءِ ۖ

قرآن حکیم میں سے یہ چار دلائل ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر محرم مردوں سے عورت کو پردہ کرنا واجب ہے اور جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے صرف پہلی آیت اس مسئلہ پر پانچ وجوہ سے دلالت کرتی ہے۔

سنت مطہرہ سے دلائل
اب سنت نبوی سے چہرے کا پردہ واجب ہونے کے چند دلائل ذکر کیے جاتے ہیں:
(1)رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
اذا خطب احدکم المراۃ فان استطاع فان ینظر منھا الی ما یدعوہ الی نکاحھا فلیفعل


وجہ استدلال

وجہ استدلال اس حدیث میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خاطب (پیغام نکاح دینے والے) سے گناہ کا مرتفع ہونا اس حالت کے ساتھ مشروط کیا ہے کہ وہ خِطبہ (پیغام نکاح)کے لیے دیکھ رہا ہے۔پس ثابت ہوا کہ اس مقصد کے بغیر دیکھنے والا گناہ گار ہے۔اسی طرح اگر خاطب بھی خِطبہ کے لیے نہیں بلکہ صرف لطف اندوز ہونے کے لیے دیکھ رہا ہے تو وہ بھی گناہ گار ہو گا۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث میں دیکھی جانی والی چیز کی تخصیص نہیں،لہذا،سینہ،چھاتی اور گردن وغیرہ کا دیکھنا بھی مراد ہو سکتا ہے۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ جمال پسند خاطب کا مقصود چہرے کے جمال کا جائزہ لینا ہوتا ہے،باقی اعضاء کا حسن تو اس کے تابع ہے،اس لیے عورت کے انتخاب میں ظاہری حسن وجمال کو ترجیح دینے والا خاطب چہرہ ہی دیکھے گا۔
(2) جب رسول اکرم ﷺ نے عورتوں کے متعلق یہ حکم دیا کہ وہ بھی عیدگاہ کو جائیں تو وہ کہنے لگیں : اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہم میں سے بعض کے پاس چادر نہیں ہوتی۔رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لتلبسها صاحبتها من جلبابها

یہ حدیث واضح طور پر بتا رہی ہے کہ صحابیات میں چادر کے بغیر باہر نکلنے کا معمول نہیں تھا بلکہ چادر پاس نہ ہونے کی صرت میں باہر نکلنے کو وہ ممکن ہی نہیں سمجھتی تھی۔اسی لیے رسول اکرم ﷺ نے انہیں نماز عید کے لیے عید گاہ جانے کا حکم دیا تو انہوں نے اس امر،یعنی چادر نہ ہونے کا عذر کیا۔اس پر آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ یہ مشکل اس طرح حل ہو سکتی ہے کہ ایسی عورت کو کوئی دوسری مسلمان بہن اپنی چادر مستعار دے دے۔
گویا رسول اکرم ﷺ نے عورتوں کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ چادر اوڑھے بغیر عیدگاہ تک بھی جائیں،حالانکہ وہاں جانے کا حکم مرد و عورت سب کوہے۔جب ایک ایسے کام کے لیے جس کا شریعت نے حکم دیا ہے،رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو چادر اوڑھے بغیر باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی تو ایسے امور کے لیے بغیر چادر اوڑھے گھر سے باہر آنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے جن کا شریعت میں حکم دیا گیا ہے نہ ان ان کی کوئی ضرورت ہے،بالخصوص جب مقصد صرف بازاروں میں گھومنا پھرنا،مردوں کے ساتھ میل جول اور تماش بینی ہو جس میں کوئی فائدہ نہیں۔
علاوہ ازیں چادر اوڑھنے کا حکم بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کا مکمل با پردہ رہنا ضروری ہے۔واللہ اعلم۔
(3)ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كنا نساء المؤمنات، يشهدن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الفجر، متلفعات بمروطهن، ثم ينقلبن إلى بيوتهن حين يقضين الصلاة، لا يعرفهن أحد من الغلس

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا:
(ترجمہ)"عورتوں کے جو اطوار ہم نے دیکھے ہیں اگر رسول اللہ ﷺ دیکھ لیتے تو انہیں مسجد میں آنے سے اسی طرح منع کر دیتے جس طرح بنی اسرائیل نے اپنی عورتوں کو منع کر دیا تھا۔"(صحیح البخاری،الاذان،باب انتظار الناس قیام الامام العالم،حدیث :869 وصحیح مسلم الصلاۃ،باب خروج النساء الی المساجد،حدیث :445)
تقریبا اسی قسم کے الفاظ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہیں۔

یہ حدیث پردے کے وجوب پر دو طریقوں سے دلالت کرتی ہے:
پردہ کرنا اور اپنے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنا صحابیات رضی اللہ عنھن کے معمول میں سے تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا زمانہ تمام زمانوں سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ منزلت رکھتا ہے۔وہ اخلاق و آداب میں بلند،ایمان میں کامل اور اعمال میں زیادہ صالح تھے۔وہی قابل اتباع نمونہ ہیں کہ خود ان کو ان کی بطریق احسن پیروی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشنودی کی نوید سنائی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَٱلسَّٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَٰجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَٰنٍۢ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّٰتٍۢ تَجْرِى تَحْتَهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًۭا ۚ ذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿100﴾

جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مبارک عہد میں عورتوں کا طریقہ یہ تھا (جو اوپر ذکر کیا گیا) تو ہمارے لیے کس طرح مستحسن ہو سکتا ہے کہ اس طریقے سے ہٹ جائیں جس پر چلنے ہی سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ممکن ہے۔خصوصا جب کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے:
وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِۦ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِۦ جَهَنَّمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرًا ﴿115﴾

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جن کا علم و فہم ،اللہ ے بندوں کی خیر خواہی کا جذبہ اور دینی بصیرت تعارف کی محتاج نہیں،فرماتے ہیں:
"اگر رسول اکرم ﷺ عورتوں کے وہ اعمال و اطوار دیکھ لیتے جو ہم نے دیکھے ہیں تو انہیں مساجد میں آنے سے قطعی طور پر منع کر دیتے۔"

اور یہ اس زمانے میں ہوا جس کی فضیلت احادیث میں وارد ہے ،یعنی عہد نبوی کے مقابلے میں عورتوں کی حالت اس حد تک بدل گئی کہ انہیں مساجد میں آنے سے روک دینے کا تقاضا کر رہی تھی ،تو ہمارے زمانے میں بے پردہ نکلنے کی اجازت کیوں کر دی جا سکتی ہے جبکہ عصر نبوی کو گزرے تیرہ صدیاں گزر چکی ہیں ۔اخلاقی بے راہ روی عام ہو چکی ہے۔شرم و حیا تقریبا رخصت ہو چکے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں دینی حمیت کمزور پڑ چکی ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اور فقیہ امت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فہم بھی اسی نتیجے پر پہنچا جس کی شہادت شریعت کاملہ کی صریح نصوص دے رہی ہیں،یعنی اگر کسی کام کے نتیجہ میں ایسے امور سامنے آئیں جنہیں شریعت حرام قرار دیتی ہے تو وہ کام بھی شرعا حرام ہو گا،خواہ بظاہر جائز ہی نظر آتا ہو۔
رسول اکرم ﷺ نے جب ازار بند کے ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی حرمت بیان کی تو اس پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا: تو عورتیں اپنی چادریں کس حد تک لٹکائیں۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
"ترخی شبرا قالت ام سلمۃ: اذا ینکشف عنھا قال :فذراع لا تذید علیہ"(سنن ابی داود ،اللباس باب فی قدر الذیل،حدیث :4117)

مندرجہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت پر پاؤں ڈھانپنا فرض ہے۔اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ یہ حکم تمام صحابیات رضی اللہ عنھن کو معلوم تھا اور بلاشبہ پاؤں میں،ہاتھوں اور چہرے کی نسبت کم کشش پائی جاتی ہے۔کم تر کشش والے مقام کے حکم کی تصریح خودبخود تنبیہ کر رہی ہے کہ اس سے زیادہ پر کشش اور اس حکم کے زیادہ حقدار مقامات کا کیا حکم ہونا چاہیے۔یہ بات شرع متن کی حکمت کے منافی ہے کہ کم تر کشش اور قلیل تر فتنے کے باعث اعضاء کو ڈھانپنا فرض ہو لیکن زیادہ فتنے کے باعث اور پُر کشش اعضاء کو کھلا رکھنے کی اجازت دے دی جائے۔اللہ تعالیٰ کی حکمت و شریعت میں اس قسم کا تضاد پایا جانا ناممکن ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"اذا کان لاحداکن مکاتب فکان عندہ ما یودی فلتحتجب منہ"(سنن ابی داود،العنق،باب فی المکاتب یودی بعض کتابہ،حدیث :3928 وضعفہ البانی)

مذکورہ حدیث سے پردے کا واجب ہونا اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ مالکہ کے لیے اپنے غلام کے سامنے اس وقت تک چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے جب ک وہ اس کی ملکیت میں ہو اور جب غلام پر اس کی ملکیت ختم ہو جائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس سے پردہ کرے کیونکہ اب وہ غیرمحرم ہو گیا ہے۔ثابت ہوا کہ عورت کا غیر محرم مردوں سے پردہ کرنا واجب ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں :
"کان الرکبان یمرون بنا و نحن مع رسول اللہ ﷺ محرمات فاذا حاذوا بنا سدلت احدانا جلبابھا من راسھا علی وجھھا فاذا جاوزونا کشفناہ"(سنن ابی داود،الناسک ،باب المحرمۃ تغطی وجھھا ،حدیث :1833 وسنن ابن ماجہ المناسک ،باب المحرمۃ تسدل الثوب علی وجھھا،حدیث :2935 وحسن اسنادہ الالبانی فی الجلباب المراۃ ،ص :107)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمانا کہ "جب وہ (سوار) ہمارے سامنے ہوتے تو ہم اپنے چہروں پر چادریں ڈال لیتیں" واضح دلیل ہے کہ عورت پر چہرہ ڈھانپنا واجب ہے۔اس لیے کہ حالت احرام میں چہرہ کھلا رکھنے کا حکم ہے،لہذا اگر اس واجبی حکم کی بجا آوری میں کوئی زور دار شرعی رکاوٹ موجود نہ ہوتی تو چہرہ کھلا رکھنا ضروری تھا،خواہ لوگ پاس سے گزرتے رہیں۔
اس استدلال کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ اکثر اہل علم کے نزدیک حالت احرام میں عورتوں پر چہرہ کھلا رکھنا واجب ہے۔اور ایک واجب کو اس سے قوی تر واجب ادا کرنے کی خاطر ہی ترک کیا جا سکتا ہے۔اس لیے اگر غیر محرم عورتوں سے پردہ کرنا اور چہرہ ڈھانپنا واجب نہ ہوتا تو احرام کی حالت میں اس کے کھلا رکھنے کا حکم جو واجب ہے ترک کرنا جائز نہ ہوتا جب کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ میں حدیث ہے (جس کا مفہوم) کہ حالت احرام میں عورت کے لیے نقاب ڈالنا اور دستانے پہننا جائز نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منجملہ دلائل میں سے ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں حالت احرام کے سوا خواتین میں (چہرے کے پردے کے لیے) نقاب اور (ہاتھوں کے پردے کے لیے)دستانوں کا رواج عام تھا۔اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کا پردہ کرنا واجب ہے۔
سنت مطہرہ میں سے یہ چھ دلائل ہیں کہ عورت پر پردہ کرنا اور غیر محرم مردوں کی نظر سے چہرہ ڈھانپنا فرض ہے۔
قرآن میں سے مذکور چار دلائل بھی ان میں جمع کر لیں تو کتاب و سنت سے کل دس دلیلیں ہوئیں۔تلک عشرۃ کاملۃ۔وباللہ التوفیق۔

قیاس صحیح کی روسے چہرے کے پردے کا وجوب
اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان کو شرعی کاموں میں اجتہاد اور درست فقہی قیامس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔یعنی مصالح اور ان کے حصول کے ذرائع کو برقرار رکھنے کی ترغیب اور مفاسد اور ان کے وسائل کی مذمت اور ان سے اجتناب کرنے کی تلقین جیسے سنہری اصول پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
چنانچہ ہر وہ کام جس میں خالصتا مصلحت ہو یا اس کے نقصانات کی نسبت مصلحت کا پہلو روشن ہو تو اس کا حکم علی الترتیب پہلی صورت میں واجب اور دوسری صورت میں کم ازکم مستحب ہو گا اور وہ کام جس میں صرف نقصان ہو یا نقصان ہو یا نقصان اس کی مصلحت سے زیادہ ہو تو اس کام کا حکم علی الترتیب حرام یا مکروہ ہو گا۔
اس قاعدے کی روشنی میں جب ہم غیر محرم مردوں کے سامنے عورت کا چہرہ بے پردہ رکھنے پر غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ بے حجابی بے شمار مفاسد لیے ہوئے ہے۔اگر بالفرض کوئی مصلحت ہے بھی تو اس سے پیدا ہونے والے شدید نقصانات کے بالمقابل یہ انتہائی بےمعنی مصلحت ہے۔

پردہ از شیخ محمد بن صالح العثیمین



سورۃ الاحزاب آیت ٥٩ کا درست ترجمہ یہ ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلاَبِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلاَ يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا(الاحزاب 59)

"اے نبی کہہ دے اپنی ازواج اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں کے لئے کہ وہ اپنے اوپر چوغوں (گاؤن) سے بنیاد بنالیں۔ یہ بنیاد ہے کہ وہ پہچان لی جائیں، پس وہ ستائی نہ جائیں۔ اور اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔"

"جلابیب کا مطلب چوغہ (انگلش میں گاؤن) ہوتا ہے۔ "

"چہروں پر چادر لٹکا کر گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ ( یہ ترجمہ بالکل غلط ہے۔ آیت میں نہ تو چہرے کا زکر ہے اور نہ ہی گھونگھٹ کا۔ حیرت ہے آپ لوگ آیت میں لکھی ہوئی عربی کیوں نہیں دیکھتے)




چہرا کھلا ہونے کا جواز درج زیل آیات سے بھی ملتا ہے۔


"فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا ﴿٢٧﴾

" پس وہ (مریم) اس کو اٹھائے اس کے ساتھ اپنی قوم کے پاس آئی۔ انہوں نے کہا اے مریم تحقیق تو گڑھی ہوئی شے کے ساتھ آئی"

(مریم علیہ سلام کو قوم نے پہچان لیا اگر ان کا چہرہ چھپا ہوتا یا صرف ایک آنکھ نظر آرہی ہوتی تو قوم ہرگز پہچان نہیں سکتی تھی)


وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ﴿٣﴾

اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے (3)


(بغیر چہرہ دیکھے عورت نکاح کے لیے کس طرح پسند آسکتی ہے؟)

لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا ﴿٥٢﴾

اس کے بعد تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں، اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ خواہ اُن کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہو، البتہ لونڈیوں کی تمہیں اجازت ہے اللہ ہر چیز پر نگران ہے (52)


(بغیر چہرہ دیکھے نبی کو عورتوں کا حسن کیسے پسند آئے گا؟)

اللہ اپنی آیات میں حق بیان کرتا ہے اور شرماتا نہیں ہے خواہ کسی کو برا لگے۔


اب دیکھیں موازنے کے لئے "یہودیوں اور عیسائیوں کے عقیدے بائبل کے مطابق"


"جو عورت بے سر ڈھکے دعاء یا نبوت کرتی ہے وہ اپنے سر کو بے حرمت کرتی ہے۔ کیونکہ وہ سرمنڈی کے برابر ہے۔"
" پس فرشتوں کے سبب سے عورت کو چاہیئے کہ اپنے سر پر محکوم ہونے کی علامت رکھے" (١-کرنتھیوں١١-- ٥،١٠)

"اگر عورت اوڑھنی نہ اوڑھے تو بال بھی کٹائے۔ اگر عورت کا بال کٹانا یا سر منڈانا شرم کی بات ہے تو اوڑھنی اوڑھے۔"
" اور اگر عورت کے لمبے بال ہوں تو اس کی زینت ہے۔ کیونکہ بال اسے پردے کے لئے دیئے گئے ہیں۔" (١-کرنتھیوں١١-- ٦،١٥)


"اب جس کا دل چاہے یہودیوں اور عیسایئوں کے عقیدے بائبل کے مطابق عمل کرے یا اللہ کی کتاب کے مطابق عمل کرے۔"
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
سورۃ الاحزاب آیت ٥٩ کا درست ترجمہ یہ ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلاَبِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلاَ يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا(الاحزاب 59)

"اے نبی کہہ دے اپنی ازواج اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں کے لئے کہ وہ اپنے اوپر چوغوں (گاؤن) سے بنیاد بنالیں۔ یہ بنیاد ہے کہ وہ پہچان لی جائیں، پس وہ ستائی نہ جائیں۔ اور اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔"

"جلابیب کا مطلب چوغہ (انگلش میں گاؤن) ہوتا ہے۔ "

"چہروں پر چادر لٹکا کر گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ ( یہ ترجمہ بالکل غلط ہے۔ آیت میں نہ تو چہرے کا زکر ہے اور نہ ہی گھونگھٹ کا۔ حیرت ہے آپ لوگ آیت میں لکھی ہوئی عربی کیوں نہیں دیکھتے)




چہرا کھلا ہونے کا جواز درج زیل آیات سے بھی ملتا ہے۔


"فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ۖ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا ﴿٢٧﴾

" پس وہ (مریم) اس کو اٹھائے اس کے ساتھ اپنی قوم کے پاس آئی۔ انہوں نے کہا اے مریم تحقیق تو گڑھی ہوئی شے کے ساتھ آئی"

(مریم علیہ سلام کو قوم نے پہچان لیا اگر ان کا چہرہ چھپا ہوتا یا صرف ایک آنکھ نظر آرہی ہوتی تو قوم ہرگز پہچان نہیں سکتی تھی)


وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ﴿٣﴾

اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے (3)


(بغیر چہرہ دیکھے عورت نکاح کے لیے کس طرح پسند آسکتی ہے؟)

لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا ﴿٥٢﴾

اس کے بعد تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں، اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ خواہ اُن کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہو، البتہ لونڈیوں کی تمہیں اجازت ہے اللہ ہر چیز پر نگران ہے (52)


(بغیر چہرہ دیکھے نبی کو عورتوں کا حسن کیسے پسند آئے گا؟)

اللہ اپنی آیات میں حق بیان کرتا ہے اور شرماتا نہیں ہے خواہ کسی کو برا لگے۔


اب دیکھیں موازنے کے لئے "یہودیوں اور عیسائیوں کے عقیدے بائبل کے مطابق"


"جو عورت بے سر ڈھکے دعاء یا نبوت کرتی ہے وہ اپنے سر کو بے حرمت کرتی ہے۔ کیونکہ وہ سرمنڈی کے برابر ہے۔"
" پس فرشتوں کے سبب سے عورت کو چاہیئے کہ اپنے سر پر محکوم ہونے کی علامت رکھے" (١-کرنتھیوں١١-- ٥،١٠)

"اگر عورت اوڑھنی نہ اوڑھے تو بال بھی کٹائے۔ اگر عورت کا بال کٹانا یا سر منڈانا شرم کی بات ہے تو اوڑھنی اوڑھے۔"
" اور اگر عورت کے لمبے بال ہوں تو اس کی زینت ہے۔ کیونکہ بال اسے پردے کے لئے دیئے گئے ہیں۔" (١-کرنتھیوں١١-- ٦،١٥)


"اب جس کا دل چاہے یہودیوں اور عیسایئوں کے عقیدے بائبل کے مطابق عمل کرے یا اللہ کی کتاب کے مطابق عمل کرے۔"
منکرین حدیث سے چار سوالات
 
Top