• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چیونٹیوں کے رہنے سہنے کا طریقہ اور اطلاعات کا نظام قرآن اور جدید سائنس کی روشنی میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کیمیائی ابلاغ میں لمس کا کردار
چیونٹیا ں بستی میں نظم وضبط کے لیے ہدایات لینے اور دینے کے لیے ایک دوسرے کو انٹینا سے مس کرتی ہیں۔ اس لیے کہا جاسکتاہے کہ ان کے مابین ایک انٹینا زبان بھی موجودہے۔ لیکن اس زبان کا استعمال محدود ہے۔ اسے کھانا یا میٹنگ وغیرہ شروع ہونے کی اطلاع یا شرکت کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ یہ زبان زیادہ ترایک نوع کی چیونٹیاں اور ان میں سے بھی زیادہ تر کارکن استعمال کرتی ہیں۔
چیونٹیوں کی کچھ انواع دعوت دینے کے اس طریقے سے زیادہ کام لیتی ہیں۔ اس کی مثال (Bypo Ponera) نوع ہے۔ اس نسل کے دو کارکن آمنے سامنے آتے ہیں تو مدعو کرنے والی چیونٹی اپنا سر نوے درجے کے زاویے پر ایک طرف موڑ لیتی ہے اور اپنی دوست کے سر کے بالائی اورزیریں حصے کو اپنے انٹینے سے چھوتی ہے ،جسے دعوت دی جارہی ہے۔ وہ بھی یہی عمل دہراتی ہے۔ لیکن جب ایک گھروندے کی چیونٹیاں اس طرح مس کرتی ہیں تومقصد اطلاع دینا نہیں بلکہ دوسرے کے خارج کردہ ہارمون حاصل کرکے اطلاع لیناہو تا ہے۔ ایک چیونٹی دوسرے کے ہارمون لے لیتی ہے اورآگے بڑھ جاتی ہے۔ اب وہ اس قابل ہے کہ اس کے راستے کو سونگھ کر پہچانتی اوراس پرچلتی ہے۔ا س طرز ابلاغ کی ایک دلچسپ مثال اس وقت سامنے آتی ہے جب مس کیے جانے پر ایک چیونٹی اپنے جسم میں محفوظ شدہ خوراک نکا ل کر مس کرنے والی چیونٹی کو کھلاتی ہے۔
اس موضوع پر ایک دلچسپ تجربے میں ما رمیکا (Myrmica)کو استعمال کیا گیا۔ انسانی بال سے ان کے مختلف حصوں کو چھیڑا گیا تووہ خوراک جسم سے اگلنے پر آمادہ ہوگئیں۔ سب سے جلد ی وہ چیونٹیاں تیارہو تی ہیں جنہوں نے ابھی ابھی کچھ کھایا ہواوروہ اپنے گھروندے میں رہنے والی دوست کی تلاش میں ہوں کہ اسے بھی خوراک میں شامل کیا جائے۔ بعض طفیلی حشرارت الارض اپنی خوراک اسی طریقہ سے حاصل کرتے ہیں۔وہ صرف اتناکرتے ہیں کہ اپنے انٹینا اوراگلی ٹانگوں سے چیونٹی کے جسم پر دستک دیتے ہیں اوروہ اپنے جسم سے خوراک نکال کر اسے پیش کردیتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ابلاغ بذریعہ آواز
چیونٹیاں بذریعہ آواز بھی پیغام رسانی کرتی ہیں۔ان میں دو طرح کی آوازیں دو مختلف طریقوں سے پید اکی جاتی ہیں۔ایک آواز تھپتھپاہٹ نما ہے اوردوسری تیکھی آواز۔ تھپتھپاہٹ نما آواز پید اکرنے کے لیے چیونٹیاں زمین یا کسی اورچیز پر اپنے جسم کے کسی حصے سے دستک دیتی ہیں جبکہ تیز آواز پید اکرنے کے لیے جسم کا کوئی حصہ کسی دوسرے حصے سے رگڑا جاتاہے۔ دستک سے آواز پیدا کرنے کا طریقہ درختوں کے تنوں میں بنی بستیوں میں استعمال ہوتاہے۔
اس کی ایک مثال کارپینٹر چیونٹیاں یابڑھئی چیونٹیاں ہیں۔ جب انہیں یہ پتہ چلتاہے کہ کوئی خطرہ بستی کی طرف بڑھ رہاہے تو ڈھو ل پیٹنا شروع کردیتی ہیں۔خطرے کاادراک زمین کے ارتعاش، ہوا کی لہر یا جسمانی لمس سے کیاجاتاہے۔ پیغام دینے والی چیونٹی اپنے سر اورپیٹ کو زمین سے ٹکرانے لگتی ہے اوراس سے پیدا ہونے والا ارتعاش کئی ڈیسی میٹر دورتک محسوس ہوتاہے۔امریکہ کی کارپینٹر چیونٹیاں یابڑھئی چیونٹیاں اپنا سر یا پیٹ لکڑی کے ”کمروں”کی دیواروں سے ٹکرا کر 20سینٹی میٹر دورتک پیغام بھیج سکتی ہیں۔اگرجسامت کے تناسب سے دیکھا جائے تو چیونٹی کے لیے 20سینٹی میٹرانسانی حساب سے کوئی 60سے 70میٹر تک ہوتاہے۔
ایک اور سائنس دان پروفیسر رابرٹ ہیکلنگ نے بھی چیونٹیوں کے متعلق برسوں تحقیق کے بعد ان کی آوازوں کو ریکار ڈ کیا ہے اور کہا ہے کہ چیونٹیوں کی آواز کی فریکوئنسی ایک چیونٹی سے دوسری چیونٹی تک اور پھر ایک نوع کی چیونٹیوں سے دوسری نوع کی چیونٹیوں کے درمیان بدلتی رہتی ہے ۔ انہوں نے چیونٹیوں کی موقع ومحل کے لحاظ سے مثلا ً نارمل حالات، خطرے کے وقت اور کسی کیڑے پر حملہ کرنے کے دوران بولے جانے والی مختلف آوازوں کو ریکار ڈ کیا ہے (چیونٹیوں کی یہ آوازیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں)اور اپنی اس تحقیق کو 2006 ء میں شائع ہونے والے میگزین (Journal of Sound and Vibration) میں شائع کیا ہے۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چیونٹیاں ایک دوسرے تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے اپنے انٹینا کا استعمال کرتی ہیں ۔ وہ اپنے اس انٹینے کے ذریعے دوسری چیونٹی کے ارسال کردہ پیغام کو ناصرف کسی بھی جدید ریسیور کی طرح کمزور پہنچنے والے سگنلز کو مضبوظ بناتی ہیں بلکہ ان کو اس حد تک فلٹر بھی کرتی ہیں کہ وہ جان سکیں کہ یہ پیغام کس چیونٹی نے ارسال کیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نسل کی بقا
ہوسکتاہے بظاہر سب چیونٹیاں ایک سی نظرآئیں لیکن طرزِزندگی اورجسمانی تنوع کے اعتبار سے انہیں مختلف ذیلی انواع میں تقسیم کیاجاتاہے۔ چیونٹیوں کی تقریباً 12000مختلف انواع ہیں۔ان کی بستی زیادہ تر مادہ چیونٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔نر چیونٹیوں کی زندگی مختصر ہوتی ہے۔ ان کا کام صرف بالغ ہونے پر ملکہ کے ساتھ ملاپ کرناہے۔ تمام کارکن چیونٹیاں مادہ ہوتی ہیں۔
چیونٹی کا جنسی ملاپ اچھی خاصی تقریب ہوتی ہے۔ یہ ملاپ زیادہ تر ہو امیں ہوتاہے۔ نر پہلے پہنچ جاتے ہیں اور نوجوان ملکہ کا انتظارکرتے ہیں۔ملکہ کے بھی اوائل عمری میں پر ہوتے ہیں۔جب ملکہ زمین پر اترتی ہے تو پانچ چھ نر اس کے گرد دوڑنے لگتے ہیں۔ جب ملکہ ضرورت کے مطابق نر تخم اکٹھے کرلیتی ہے توایک خاص ارتعاشی اشارہ دیتی ہے۔ اس اشارے سے نر کو ملکہ کی روانگی کا پتہ چل جاتاہے۔ ملکہ کے رخصت ہونے کے بعد نر چند گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ ایک آدھ دن زندہ رہ سکتے ہیں۔ تاہم یہ عمل بہت دلچسپ ہے۔ عروسی پرواز پر جانے والے ہر نر نے مرنے سے پہلے اپنا تخم ضرور چھوڑاجن میں سے اس کے بچے اس کے مرنے کے لمبا عرصہ بعد نکلتے ہیں۔لیکن یہ تخم اتنا لمبا عرصہ کس طرح رہتے ہیں کہ انڈوں کو بعد ازاں بارور کرسکیں۔کیا چیونٹیوں نے کسی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مدد سے کوئی تخم بینک قائم کرلیاہے۔
جی ہاں! ہر ملکہ چیونٹی کے اندر تخم بینک موجود ہوتاہے، ا س کے جسم کے وسطی حصہ میں ایک کنارے پر ایک تھیلی میں تخم محفوظ رہتے ہیں۔ اس تھیلی کو (Sperma Theca) کانام دیا جاتا ہے۔ ا س میں تخم سالوں تک بے حس وحرکت پڑے اپنی باری کاانتظار کرتے رہتے ہیں۔بالآخر جب ملکہ اس تھیلی میں سے انہیں بہنے کی اجاز ت دیتی ہے تویہ ایک ایک کر کے یا گروہوں میں تناسلی علاقوں میں بیضہ دانوں سے نکل آنے والے انڈوں کو بارور کرنے نکل پڑتے ہیں۔اس کامطلب یہ ہوا کہ انسان نے جو سپرم بینک گزشتہ پچیس سال میں انتہائی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بنائے انہیں چیونٹی لاکھوں سال سے استعمال کررہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کارکن چیونٹیوں کی قربانی
ملکہ چیونٹی انڈے دیتی ہے جن سے نکلنے والے بچوں کو گھروندے میں بنے مخصوص خانوں میں رکھا جاتاہے۔ اگر ان خانوں میں درجہ حرارت اوررطوبت کی صورت حال کسی وجہ سے مناسب نہ رہے تو کارکن چیونٹیاں انہیں اٹھا کر زیادہ مناسب جگہ پرلے جاتی ہیں۔یہی صورت حال انڈوں کے ساتھ ہے۔ کارکن انڈوں کو دن کے وقت گھروندے کی سطح پرلے جاتی ہیں تاکہ انہیں سورج کی گرمی اورروشنی میسر رہے۔ بارش کی صورت میں اوررات ہونے پر یہی انڈے اندر منتقل ہو جاتے ہیں۔انڈوں اور لاروے کی دیکھ بھال پر مامور چیونٹیاں آپس میں مزید تقسیم ِکار کر لیتی ہیں۔ان میں سے کچھ کی ذمہ داری لاروے کی جگہ تبدیل کرناہوتاہے۔کچھ ان کے لیے خوراک تلاش کرتی ہیں جو ان کے نظام ہضم سے مطابقت رکھتی ہے۔ کچھ گھروندے کے اس خاص خانے کا درجہ حرارت مناسب حدود کے اندر رکھنے کابندوبست کرتی ہیں۔انسان نے دیواروں میں غیر موصل لگا کر درجہ حرارت پر قابو رکھنے کا طریقہ بہت دیر میں سیکھا۔ چیونٹیاں اس کا استعمال لاکھوں سال سے کررہی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نتیجہ

ان سارے مشاہدات کا حاصل کیا ہے ؟اس کا جواب سادہ اورایک ہی ہے۔ اگر ان جانوروں کو آگہی نہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں تودراصل ا ن کے سارے افعال ہمیں کسی اورا رفع اوراعلیٰ ذہن سے متعارف کروانے کا ذریعہ ہیں۔جس خالق نے چیونٹی کو تخلیق کیا اوراس سے ایسے کام لیے جو بظاہر اس کی استطاعت سے بہت بڑے ہیں تودراصل وہ ان کے ذریعے اپنا وجود اوراپنی تخلیقی عظمت کا اظہار کر رہا ہے۔ چیونٹی دراصل ازلی القا کے تحت کام کررہی ہے اور اس سے جو کچھ سرزد ہورہا ہے دراصل اس کے خالق کی دانش کاعکاس ہے۔(3)
-------------
حواشی
(1)۔ النمل ، 27
(2)۔ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس ، از ڈاکٹر ذاکر نائیک ،صفحہ 40
(3)۔ چیونٹی ایک معجزہ ۔ ہارون یحیٰی
http://www.harunyahya.com/urdu/books/book_the_ants/preface.html
http://home.olemiss.edu/~hickling
http://www.city-data.com/forum/pets/709489-when-ants-speak.html
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ماشاءاللہ ، کیا بات ہے چیونٹی کی ، یہ تو انسان سے بھی زیادہ سمجھدار لگتی ہے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ماشاءاللہ ، کیا بات ہے چیونٹی کی ، یہ تو انسان سے بھی زیادہ سمجھدار لگتی ہے ۔
چیونٹی کا سچا عقیدہ کہ انبیا علیہم السلام عالم الغیب نہیں ہوتے۔


 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

چیونٹی کو ویسے تو ایک حقیر اور نہایت چھوٹا سا جانور سمجھا جاتا ہے پر قدرت خداوندی نے اس ایسے جاندار جس میں ریڑ کی ہڈی تو نہیں رکھی مگر اس قدر فکری قوتوں سے نوازہ ہے کہ جس کو انسانی سوچ، سوچ کر، اور آنکھ دیکھ کہ دنگ رہ جاتی ہے۔ چیونٹی کو ودیت کی گئی ان خوبیوں میں قوت شامہ بھی شامل ہے ، جس کی بنا پر چیونٹی کی خوراک اس سے کتنے ہی فاصلہ پر دور موجود کیوں نہ ہو وہ اس تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ اب بات صرف یہاں تک تو ختم نہیں ہوتی تبھی تو یہی انسانی نظروں میں خقیر سی مخلوق اپنے جسم ناتواں پر اپنے سے بیس گنا زیادہ وزن اتھا کر چلتی ہے جبکہ اتحاد پر اتنا یقین ہے کہ اگر خود خوراک کو نہ اٹھا سکے تو اپنی ساتھیوں کے ساتھ مل کر اسے اٹھاتی ہے۔ اس عمل کہ لیے ان کا پیغام رسائی کا باقاعدہ نظام بھی موجود ہے جس کہ تحت باقی چیونٹیوں تک خبر پہنچتی ہے کہ وزن کچھ زیادہ ہو گیا ہے بھائی ! لہذا اب سب کو مل کر اسے اٹھانا پڑے گا۔۔۔اور منظم اتنی ہوتی ہیں چیونٹیاں کہ قطار تو قطار ترتیب میں بھی غلطی کی قائل نہیں ۔۔ مثال کہ طور پر اگر ایک چیونٹی اپنی قطار میں سے نکل جائے تو اس بیچ رستہ شامل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی ۔

اسی چیونٹی کا ایمان اپنی حاصل کردہ خوراک پر اس قدر محکم ہوتا ہے کہ چاہے جو ہو جائے جب اس کو حاصل کرنے کی جستجو میں لگ جائے تو پھر پیچھے ہٹ جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔

دیوار پہ چڑھتے ہوئے بھلے سو بار اس کہ منہ سے اسی کا کھانا، دانہ گر جائے یہ اسے اٹھانے کہ لیے دوبارہ اور پھر دوبارہ آتی رہے گی۔ ہمت ایسی جواں ہوتی ہے کہ چاہے سردی ہو یا گرمی دھوپ ہو یا سایہ ہمت کا پیمانہ کسی بھی صورت لبریز نہیں ہوتا۔ یوں تو اگر دیکھا جائے تو ان چیونٹیوں کی کارکردگی سردیوں میں نا ہونے کہ برابر ہوتی ہے، مگر ایسا نہیں کہ یہ سردیوں میں کام نہیں کر سکتی بلکہ گرمیوں کہ تپش میں شاید ہم سب کو یہ ضرور بارآور کروا دیتی ہیں کہ موسم اور حالات کا مقابلہ کرنا ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔

چیونٹیاں اپنے بلوں میں گرمیوں کی محنت مشقت کے بعد اتنا کھانا جمع کر لیتی ہیں کہ اب آنے والے برسات اور سردیوں میں اس پر با خوبی اکتفا ہو سکتا ہے۔ یہاں تک تو میری طرف سے چیونٹیوں کی انتھک محنت اور جواںمردی کو خراج تحسین ہے۔ اب ذرا ان کی عقل اور ذہانت کی بھی تعریف کر لی جائے۔

یہ بنا ہڈی کہ زمین پہ چلنے پھرنے والی چھوٹی سی خدائی ًمخلوق اپنے گھروں کی تعمیر میں اس قدر احتیاط برتتی ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ۔ اپنے بلوں کا راستہ زمین میں اس طرح سے سینچتی ہیں کہ برسات میں ہونی والی بارشوں کا پانی ان کہ گھر میں کسی بھی صورت داخل نہ ہو سکے ۔ خوراک کو ایسے ذخیرہ کرتی ہیں کہ کئی ماہ تک خراب نہ ہو۔ جبکہ اگر اجناسی دانوں سے کونمپلیں اگنے کا خدشہ ہو تو انہیں توڑ کر دو حصوں میں تقسیم کر دیتی ہیں ۔۔

یہ تو بات ہو گئی ایسی خدائی مخلوق کی جو زمین پہ رہتے ہوئے کسی بھی نافرمانی کو برداشت نہیں کر سکتی


بس تبھی تو! مجھے رہ رہ کر چیونٹیوں پر رشک آتا ہے۔
 
شمولیت
اپریل 10، 2018
پیغامات
62
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
43
چیونٹی…. اللہ کی عجیب مخلوق
تحریر:عبدالعظیم راشد

اللہ تعالی کی ایک چھوٹی سی مخلوق ہے، جس کو ہم بڑی بے دردی سے کچل دیتے ہیں، بسا اوقات ہم اپنی نظریں جھکا کر اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ،مگر اس نے سیدنا سلیمان ﷤ کے لشکر کے بارے میں اپنے تاثرات میں کیا خوب کہا ۔میرے ساتھیو: اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ،ایسا نہ ہو کہ یہ لشکر تمھیں بے خیالی میں روند ڈالے:
( وهم لا یشعرون)
حیرت ہوتی ہے کہ چیونٹی اور یہ پاکیزہ شعور !چونٹی ایک بہت ہی چھوٹی مخلوق ہے مگر جسم چھوٹا ہونے کے باوجود مکمل سماجی نظام رکھتی ہے ،اجتماعی طور پر بستیوں کی صورت میں رہتی ہیں۔ان کی ایک ملکہ ہوتی ہے جو سب پر حکومت کرتی ہے ان کے گھر بھی باورچی خانہ، سٹور ،بیٹھک وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ خوراک محفوظ کرنے کا بھی انوکھا طریقہ ہوتا ہے:کہ غلہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھتی ہیں تاکہ اگنے نہ پائے۔ (تدبر قرآن : 5 / 594)
ان کے چلنے کا سلیقہ بھی بڑا حیرت انگیز ہوتا ہے، کہ باقاعدہ قطار کے صورت میں اور پہرے داروں کی نگرانی میں چلتی ہیں ،کسی خطرے کی صورت میں ان کے پہرے دار اپنی قوم کو آگاہ کرتے ہیں :جیسے سیدنا سلیمان علیہ السلام کا واقعہ ہے ۔ایک پہرے دار نے کہا :
يَاأَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ(سورہ النمل:18) چھوٹی سی مخلوق میں اپنی برادری سے خیر خواہی کا اتنا جذبہ! کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنی برادری کو بچا لیا۔
اب حضرت انسان کی طرف آئیے اور انسان کے اعمال و کردار کا جائزہ لیجیے۔ انسان کو انسان کہنے کی ایک وجہ اُنس بھی ہے۔ یعنی ایک دوسرے کی ہمدردی ،خیرخواہی ،نصرت، تعاون اور دفاع وغیرہ یہ سب امور’’اُنس‘‘ کا لازمہ ہے۔
اور مسلمان کی صفات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں وہ بھی یہی ہیں: جیسے:
’’
المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يُسْلِمُهُ‘‘ (صحیح بخاری: 2442) کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا اور نہ ہی اس کی مدد کرنا چھوڑتا ہے۔
المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ، لَا يَخُونُهُ وَلَا يَكْذِبُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ(جامع ترمذی:1927): کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اس سے خیانت نہیں کرتا اس سے جھوٹ نہیں بولتا اور اس کو حالات کے حوالے نہیں کرتا۔
چیونٹی کو عربی زبان میں نملۃ اس لئے کہتے ہیں: کہ یہ بہت زیادہ حرکت میں رہتی ہے ایک جگہ سکون سے نہیں بیٹھتی ہے چیونٹی ان حشرات الارض میں سے ہے جو دنیا کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے (حیاۃ الحیوان : 2 / 336)
ماہرین حشرات بتاتے ہیں کہ ان کی بارہ ہزار(12000) سے زائد اقسام ہیں اور اپنی مخصوص جسمانی ساخت کی بدولت آسانی سے پہچانی جاتی ہیں بعض اقسام کے بل بہت بڑے بڑے ہوتے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں( دائرۃ المعارف الاسلامیہ)
چونٹی کے جسم سے حقیر سی چیز نکلتی ہے جو بڑھ کر انڈے کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس سے چیونٹی جنم لیتی ہے ۔ چیونٹی کے اس انڈے کو عربی میں ’’بیظ‘‘ کہتے ہیں جبکہ دیگر پرندوں کے انڈوں کو ’’بیض‘‘ کہتے ہیں( فتح الملہم : 4 / 404)
چونٹی خوراک کی تلاش میں بہت زیادہ حیلہ کرتی ہے ،جو نہی اسے کوئی کھانے کی چیز ملتی ہے ، اپنی برادری کے لیے بھی لے آتی ہے ، اپنے حریص پن کی وجہ سے سردیوں کی خوراک گرمیوں میں ہی جمع کر لیتی ہیں جب خوراک خراب ہونے کا ڈر ہوتا ہے تو رات کے وقت خوراک کو نکال کر زمین پر پھیلا دیتی ہیں( فتح الباری : 6 / 433)
معاشرتی اتحاد
محققین حشرات کے دیکھنے میں آیا ہے: کہ کسی جنگل ،صحرا یا عام جگہوں پر کوئی جانور کسی درندے سے بچنے کے لیے کسی دوسری جنس سے اتحاد کر لیتا ہے جس سے وقتی طور پر اسے تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔ مگر یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ کسی معاشرے میں ایک دوسرے کو بچانے کے لئے جانیں بھی جاتی ہوں۔ مگر چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کے اتحاد سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے تحفظ کے لئے جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتیں (رپورٹ بی بی سی: 22 فروری 2012)
دشمن کی پہچان
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گروہ کی صورت میں رہنے والی چیونٹیاں اپنے دشمن کو بھی پہچانتی ہیں, جب ایک چیونٹی کسی دوسرے گروہ کی چیونٹی سے لڑائی کرتی ہے تو وہ اس کی بُو سونگھ لیتی ہے پھر اس بُو کو اپنے گروہ میں منتقل کر دیتی ہے، جس سے اجتماعی طور پر مخالف کی پہچان کرتی ہیں اسی طرح سے وہ مخالف گروہ سے محتاط رہتی ہیں۔( رپورٹ بی بی سی: 22 فروری 2012https://www.bbc.com/urdu/mobile/science/2012/02/120222_ants_remember_enemy_tk.shtml)
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب لکھتے ہیں کہ وہ جانور یا حشرات جن کا طرز حیات انسانی معاشروں سے غیرمعمولی مماثلت رکھتا ہے وہ چیونٹیاں ہیں جس کی تصدیق چیو نٹیوں کے بارے میں حالیہ دریافتوں سے بھی ہوتی ہے:
1۔ چیونٹیاں بھی اپنے مُردوں کو انسانی طرز پر دفناتی ہیں۔
2۔ ان میں بھی کارکنان کی تقسیم کا پیچیدہ نظام موجود ہے، جس میں منیجر، سپروائز، فورمین اور مزدور وغیرہ شامل ہیں۔
3۔کبھی کبھار وہ آپس میں ملتی ہیں اور گفتگو( chat) کرتی ہیں۔
4۔ ان میں باہمی تبادلہ خیال (communication)کا ترقی یافتہ نظام موجود ہے۔
5۔ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی کالونیوں میں باقاعدہ مارکیٹیں ہوتی ہیں، جہاں وہ اشیاء کا تبادلہ کرتی ہیں۔( خطبات ڈاکٹر ذاکر نائیک ص: 179)
چیونٹی کا دل
سائنسی تحقیق کے مطابق چیونٹیوں میں دوسرے کیڑے مکوڑوں کی طرح رگوں کا نظام نہیں ہوتا۔ ان کے اندر ایک الگ (open circular system) کھلا مستدیری نظام ہوتا ہے ۔ان کے خون کو(Hemolymphs) ہیمولیمف کہا جاتا ہے، یہ تقریبا بے رنگ ہوتا ہے اس میں صرف دس فیصد خون کے خلیے شامل ہوتے ہیں، اس کا زیادہ تر حجم پلازما ہے۔ ہیمولیمف ہارمونز غذائی اجزاء( Metabolic product ) میٹابولک مصنوعات کی نقل و حرکت کا کام کرتے ہیں، مگر آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی تبدیلی کا کام نہیں کرتے۔
اس ہیمو لیمف کی گردش کے لیے ان کا دل بہت سادہ ہوتا ہے، جو ان کے پیٹ میں ہوتا ہے ان کا دل شریان کی طرح ہوتا ہے ۔جو کہ چھوٹے پٹھوں سے گرا ہوا ہوتا ہے یہ دل ان پٹھوں سے رابطہ قائم کرتا ہے( پیچھے سے دماغ کی طرف جاتے ہوئے) ہیمو لیمف ان کے جسم کے مختلف حصوں میں دب جاتا ہے ،اور چیونٹیوں کے دماغ کو ہدایت جاری کرتا ہے۔

آکسیجن کی فراہمی کے لئے ان کے جسم میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں جن کو(Spiracles) سانس لینے کے سوراخ کہا جاتا ہے جو ان کے جسم کے تمام حصوں میں ہوتے ہیں۔،یہ سوراخ جسم کو براہ راست صاف ہوا فراہم کرتے ہیں، جب آکسیجن جسم میں داخل ہو جاتی ہے تو یہ ہوا کی نالیوں اور چھوٹی نالیوں کے ذریعے جسم کے مختلف حصوں اوراعضاء تک جاتی ہے یہ نظام زیادہ تر غیر فعال ہوا کو تبدیل کرنے کا کام کرتا ہے ۔ان کیڑوں کا حجم ان کے طول و عر ض تک محدود ہوتا ہے

تحفظ کرنا
امریکہ کے فلوریڈا یونیورسٹی کے محققین نے کینیا کے شمالی قصبے کے ایک پارک میں جا کر تحقیق کی ۔اس پارک میں ایک آکاشیانامی درخت کی کثرت تھی اور اسی پارک میں ہاتھی بھی موجود تھے، یہ درخت دھاری دار ہوتا ہے ہاتھیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ دھاری دار درختوں سے کھانے کے بعد خوب نقصان کرتے ہیں جس سے درخت اور درخت پر رہنے والے حیوانات متاثر ہوتے ہیں۔
چیونٹیوں کااس درخت سے خاص تعلق ہے وہ اس طرح کی یہ درخت چونٹیوں کو سایہ اور خوراک مہیا کرتا ہے، جس کے بدلے چیونٹیاں اس درخت کی حفاظت کرتی ہیں۔ جب بھی درخت کے قریب کوئی ہاتھی آتا ہے تو یہ چونٹیاں ہاتھی کی طرف لپکتی ہیں جس کی وجہ سے ہاتھی ان درختوں سے دور رہتے ہیں۔ کیونکہ ہاتھی کو اپنی نازک سونڈ پر چیونٹی کے کاٹنے کا ڈر ہوتا ہے (رپورٹ بی بی سی: 3 ستمبر 2010) https://www.bbc.com/urdu/science/2010/09/100903_acacia_species
کاہل چیونٹیاں
امریکہ کی یونیورسٹی آف ایریزونا (University of Arizona)کے ماہرین نے مغربی کینیڈا اور امریکا میں پائے جانے والی چیونٹیوں کی پانچ کالونیوں کا مشاہدہ کیا 3 ہفتوں تک کیے گئے مطالعہ میں چیونٹیوں کی نقل و حرکت کا خاص جائزہ لیا گیا۔
اس سلسلے میں ہر کالونی کی چند چیونٹیوں پر رنگ ڈال دیے گئے تاکہ ان کی شناخت ہو سکے ماہرین نے مشاہدے کے دوران ہر چار گھنٹے کے بعد جدید کیمروں کے ذریعے 5 ویڈیوز ریکارڈ کیں، اس دوران ان کے کام کو مختلف درجوں میں بانٹ دیا گیا تھا ۔ویڈیو دیکھنے کے بعد ماہرین کو حیرانی ہوئی کہ ایک کالونی میں نصف سے زائد چوٹیاں کام چور ہیں اس بات نے محققین کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ ایسا کیوں؟ ایک مصنف ڈینیل کاربونیو اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں :کہ دراصل یہ چیونٹیاں کام چور نہیں ہوتی بلکہ کارکن چونٹیوں کی ذمہ داری ان کو سونپ دی گئی ہے (نیوز ایکسپریس 29 جولائی 2015)
 
Top