نظریہ ارتقاء پر اعتراضات
1۔ زندگی کی ابتدا ء کیسے ہوگئی ؟
پہلااعتراض یہ ہےکہ زندگی کی ابتدا ء کیسے ہوگئی ؟ معلول تو موجود ہے (یعنی نتیجہ ،وہ شےجس کا کوئی سبب ہو)لیکن عِلت (سبب ،وجہ) کی کڑی نہیں ملتی گویا اس نظریہ کی بنیاد ہی غیر سائنسی یا اَن سائینٹفک ہے۔اس سلسلہ میں پرویز صاحب اپنی کتاب” انسان نے کیا سوچا “کے صفحہ 55پر لکھتے ہیں کہ :
’’یہ تو ڈارون نے کہا تھا لیکن خود ہمارے زمانے کا ماہر ارتقاء (Simpson)زندگی کی ابتداء اور سلسلہ ٴ علت و معلول کی اولیں کڑی کے متعلق لکھتا ہےکہ زندگی کی ابتداء کیسے ہو گئی ؟ نہایت دیانتداری سے اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اس کا کچھ علم نہیں ۔۔۔۔ یہ معمہ سائنس کے انکشافات کی دسترس سے باہر ہے اور شاید انسان کے حیطہ ٴ ادراک سے بھی باہر ۔۔۔ اور میرا خیا ل ہے کہ ذہن انسانی اس راز کو کبھی پا نہیں سکے گا۔ہم اگر چاہیں تو اپنے طریق پر اس علت اولیٰ( اللہ تعالیٰ )کے حضور اپنے سرجھکا سکتے ہیں لیکن اسے اپنے ادراک کے دائرے میں کبھی نہیں لا سکتے “
2۔ کوئی مخلوق اِرتقاء یافتہ نہیں
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ارتقاء کا کوئی ایک چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بھی آج تک انسان کے مشاہدہ میں نہیں آیا۔ یعنی کوئی چڑیا ارتقاء کر کے مرغا بن گئی ہویا گدھا ارتقاء کرکے گھوڑا بن گیا ہو یا لوگوں نے کسی چمپینزی یا گوریلا یا بندریا بن مانس کو انسان بنتے دیکھا ہو ۔نہ ہی یہ معلو م ہو سکا ہےکہ فلا ں دور میں ارتقاء ہوا تھا بلکہ جس طرح حیوانات ابتدائے آفرینش سے تخلیق کیے گئے ہیں آج تک اسی طرح چلے آتے ہیں اور جو اوپر ارتقائی مدت اربوں اور کروڑوں سال کے حساب سے بیان کی گئی ہے وہ محض ظن وتخمین پر مبنی ہے جسے سائینٹفک نہیں کہا جاسکتا۔البتہ بعض ایسی مثالیں ضرور مل جاتی ہیں جو اس نظریہ ٴ ارتقاء کی تردید کر دیتی ہیں مثلاً حشرات الار ض جیسی کمزور مخلوق کو آج تک فنا ہو جانا چاہیے تھا مگر وہ بدستور موجود اور اپنے موسم پر پیدا ہوجاتی ہے۔ریشم کے کیڑے کے داستانِ حیات اس کی پر زور تردید کرتی ہے ۔ اسی طرح بعض کمتر درجے کے بحری جانور جو ابتدائے زمانہ میں پائے جاتے تھے آج بھی اسی شکل میں موجود اور اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں اسی لیے بہت سے منکرین اس نظریہ ارتقاء کے منکر ہیں اور وہ اس نظریہ کے بجائے تخلیق ِ خصوصی (Special Creation)یعنی ہر نوع زندگی کی تخلیق بالکل الگ طور پر ہونا کےقائل ہیں۔
مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کے خیال میں سلسلۂ اِرتقاء کے موجودہ دَور میں نظر نہ آنے کا سبب یہ ہے کہ یہ عمل بہت آہستگی سے لاکھوں کروڑوں سالوں میں وُقوع پذیر ہوتا ہے۔ (یہ دلیل بھی سراسر بے ہودہ ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ) 1965ء میں آئس لینڈ کے قریب زلزلے اور لاوا پھٹنے کے عمل سے ایک نیا جزیرہ سرٹسے (Surtsey) نمودار ہوا اور محض سال بھر کے اندر اندر اُس میں ہزاروں اَقسام کے کیڑے مکوڑے، حشراتُ الارض اور پودے پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ یہ بات اَبھی تک (کسی اِرتقاء پسند کی) سمجھ میں نہیں آسکی کہ وہ سب وہاں کیسے اور کہاں سے آئے۔ ۔ ۔ !
ارتقاء پسند اپنی دانست میں قدیم اور ترقی یافتہ (دونوں) مخلوقات کے درمیان قائم کردہ کڑیوں میں موجود روز اَفزوں پیچیدگیوں کو حل کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ لیکن اِس اِرتقاء کے سلسلے میں اُن کے مفروضے مَن مانے اور محض اُن کے اپنے ہی ذِہنوں کی اِختراع ہیں۔ (اپنے نظریئے کے تحت وہ کبھی بھی کماحقہ‘ یہ بات ثابت نہیں کر سکتے کہ) کمال سے (اُن کی) مُراد کیا ہے؟ مِثال کے طور پر خوشنما رنگوں میں تتلی سب سے بلند مقام رکھتی ہے۔ بجلی کے آلات کے حوالے سے چمگادڑ کا کوئی جواب نہیں جو ایک بہترین ریڈار کی نظر کی حامل ہوتی ہے۔ یاداشت کو محفوظ رکھنے اور دِماغ کے زیادہ وزن کے معاملے میں ڈولفن سب سے ترقی یافتہ مخلوق ہے۔ اور جنگی معاملات کے حوالے سے دِیمک جو ایک چیونٹی سے بھی چھوٹی ہوتی
ہے، تمام مخلوقات سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اُس کا ہتھیار اَیسا زہر ہے جس کا نقطۂ کھولاؤ 100ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو اُس کے ماحول کے ہر جسیمے کو مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چیتا ایک مکمل ہڈیوں اور بافتوں کے نظام کا مالک ہے تاکہ سبک روی سے دوڑ سکے، چیل کے پاس دنیا کا بہترینAerodynamic systemہے، ڈولفن کے پاس خاص طور پر تخلیق کیا گیا جسم اور جلد ہے تاکہ آرام سے پانی میں تیر سکے۔جانوروں میں موجود یہ بے عیب منصوبہ بندی اس بات کی عکاس ہے کہ جانداروں کی ہر قسم اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہے۔لیکن ایک قابلِ غور بات ہے کہ صرف مکمل جسم کا مالک ہونا ہی کافی نہیں، جانور کے لئے یہ علم بھی ضروری ہے کہ اس کامل جسم کو استعمال میں کیسے لایا جائے۔ایک پرندے کے پر صرف اسی وقت کار آمد ہوتے ہیں جب وہ اڑان کے آغاز، بلند پرواز اورزمین پر اترنے کے تمام کام کامیابی سے سرانجام دینے میں معاون ثابت ہوں۔ جب ہم اس دنیا کا مشاھدہ کرتے ہیں تو ہم ایک دلچسپ حقیقت سے روشناس ہوتے ہیں۔ایک جاندار ہمیشہ اپنے ماحول کی مناسبت سے زندگی بسر کرتا ہے، اور اسکے اس رویہ کا آغاز اسکی پیدائش کے لمحے کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے۔بارہ سنگھے کے بچے کو اپنی پیدائش کے محض آدھے گھنٹے کے اندرکھڑا ہونا اور بھاگنا آجاتا ہے۔ کچھوے کے بچے جن کو انکی ماں ریت کے اندر دبا دیتی ہے ، جانتے ہیں کہ ا ن کو انڈے کا خول توڑ کر سطح تک آنا ہے۔وہ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ انڈے کے خول کو توڑتے ہی انہیں فوراً سمندر تک بھی پہنچنا ہے۔یہ سب باتیں تو یہ تاثر دیتی ہیں کے جاندار اس دنیا میں مکمل تربیت لے کر آتے ہیں۔ ایک اور مثال میں ہم دیکھتے ہیں کہ مکڑی اپنا جال اپنے جسم سے نکلے ہوئے تار سے خود تیار کرتی ہے۔ مکڑی کا جال حیرت انگیز طور پر یکساں موٹائی کے اسٹیل کے تار سے پانچ گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے،حتیٰ کہ تیز رفتار بڑی مکھیاں بھی جال میں پھنس کر خود کو آزاد نہیں کرواسکتیں۔بلیک وڈو (Black Widow) مکڑی کے جالے میں چپکنے والے گچھے ہوتے ہیں۔شکار کے لئے اس پھندے میں آکر خود کو آزاد کروانا ناممکن ہے ۔مکڑی کا جالا،غیر معمولی حد تک مضبوط، لچکداراور چپکنے والا ہوتا ہے۔محض ایک پھندہ ہونے سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے کے یہ جال مکڑی کا اپنے ہی جسم کاایک حصہ ہے۔مکڑی جال میں پھنسنے والے شکار کی وجہ سے پیدا ہونے والا ہلکا سا ارتعاش بھی محسوس کر لیتی ہے اور اسے کسی تاخیر کے بغیر قابو کر لیتی ہے۔مکڑی یہ جال اپنے جسم کے پچھلے چوتھائی حصے سے تیار کرتی ہے۔ ایک خاص قسم کے عضو سے تیار کئے گئے اس جال کومکڑی اپنی ٹانگوں سے کھینچتی ہے۔جال کی سطح پر موجود گچھے بوقت ضرورت کھل جاتے ہیں اور جال کھل کر کشادہ ہو جاتا ہے۔بلاشبہ خدا کے عطا کئے ہوے وجدان کی بدولت ہی مکڑی اس قابل ہوتی ہے کہ ایک تعمیری عجوبہ تخلیق کر سکے۔ قدرت نے ایسے اورجانور بھی تخلیق کئے ہیں جو مکڑی کی طرح حیرت انگیز گھر تعمیر کر سکتے ہیں، شہد کی مکھیاں جو شش جہت چھتے تیار کر سکتی ہیں، اود بلاؤ کے تعمیر شدہ بند جو انجینیرنگ کے عمدہ حساب کتاب کے عین مطابق ہوتے ہیں۔دیمک کے اندھے کیڑے جو کئی منزلہ عمارت تیار کر لیتے ہیں،یہ اور اس طرح کی دوسرے کئی جاندارانہی مہارتوں کے ذریعے خدا کے ودیعت کردہ جوہروں سے پردہ اٹھاتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک خدا کے ہی احکام بجا لاتا ہے۔
’’کوئی زمین پر چلنے والا ایسا نہیں جسکی پیشانی اسکے قبضے میں نہ ہو‘‘۔( سورۃ ھود۔ 56)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِن سب کو کس نے اِرتقائی عمل سے گزارا؟ اور اِن کا اِرتقاء کس مخلوق سے عمل میں آیا؟ کیمیائی جنگ کے سلسلے میں تو بوزنہ(Ape) اِس حقیر دِیمک سے بہت پیچھے رَہ جانے والی قدیم مخلوق ہے۔ (پھر یہ زِندہ مخلوقات میں سے اِنسان کے قریب ترین مخلوق کیونکر کہلا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ؟)
3۔ ارتقائی سلسلہ کی درمیانی کڑیاں۔
اس نظریہ پر تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ارتقائی سلسلہ کی درمیانی کڑیاں غائب ہیں۔ مثلاً جوڑوں والے اور بغیر جوڑوں والے جانوروں کی درمیانی کڑی موجود نہیں ۔فقری اور غیر فقری جانوروں کی درمیانی کڑی بھی مفقود ہے۔ مچھلیوں اور ان حیوانات کے درمیان کی کڑی بھی مفقود ہے جو خشکی اور پانی کے جانور کہلاتے ہیں اسی طرح رینگنے والے جانوروں اور پرندوں اور رینگنے والے ممالیہ جانوروں کی درمیانی کڑیاں بھی مفقود ہیں ۔اس نظریہ کی یہ دشواری ہے جو سو سال سے زیر بحث چلی آرہی ہے۔بعض نظریہ ٴ قائلین اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ درمیانی کڑی کاکام جب پورا ہو چکتا ہے تو وہ از خود غائب ہوجاتی ہے اس جواب میں جتنا وزن یا معقولیت ہے اس کا آپ خو د اندازہ کرسکتے ہیں۔
جب زمینی پرتوں اور رکازی ریکارڈ کا مطالعہ کیاجاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ جاندار ایک ساتھ نمودار ہوئے تھے۔ زمین کی وہ قدیم ترین پرت، جس سے جاندار مخلوقات کے رکاز دریافت ہوئے ہیں، وہ ’’کیمبری‘‘ (Cambrian) ہے جس کی عمر 52 سے 53 کروڑ سال ہے۔کیمبری عصر (Cambrain Period) کی پرتوں سے ملنے والے جانداروں کے رکازات پہلے سے کسی بھی جدِ امجد کی غیر موجودگی میں، اچانک ہی متعدد انواع کے ظاہر ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ پیچیدہ مخلوقات سے تشکیل پایا ہوا یہ وسیع و عریض اور خوبصورت منظر نامہ اتنی تیزی سے، اور اتنے معجزانہ انداز میں ابھرتا ہے کہ سائنسی اصطلاح میں ا سے ’’کیمبری دھماکہ‘‘ (Cambrian Explosion) کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس پرت سے دریافت ہونے والے بیشتر جانداروں میں بہت ترقی یافتہ اور پیچیدہ اعضاء مثلاً آنکھیں، گلپھڑے اور نظام دورانِ خون وغیرہ موجود تھے۔ رکازی ریکارڈ میں ایسی کوئی علامت نہیں جو یہ بتا سکے کہ ان جانداروں کے بھی آباؤ اجداد تھے۔ Earth Sciences نامی جریدے کے مدیر رچرڈ مونسٹارسکی، جاندار انواع کے اس طرح اچانک ظاہر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’نصف ارب سال پہلے نمایاں طور پر پیچیدہ ساخت والے جانور، جیسے کہ ہم آج دیکھتے ہیں، اچانک ظاہر ہوگئے۔ یہ موقع یعنی زمین پر کیمبری عصر کا آغاز (تقریباً 55 کروڑ سال پہلے)، ایک ایسے ارتقائی دھماکے کی مانند ہے جس نے زمین کے سمندروں کو اوّلین پیچیدہ جانداروں سے بھر دیا تھا۔ جانداروں کے وسیع فائلم (Phyla) ، جن کا آج ہم مشاہدہ کرتے ہیں، ابتدائی کیمبری عصر میں بھی موجود تھے اور ایک دوسرے سے اتنے ہی جداگانہ اور ممتاز تھے جتنے کہ آج ہیں ‘‘۔ زمین اچانک ہی ہزاروں مختلف جانوروں کی انواع سے کس طرح لبریز ہوگئی تھی؟ جب اس سوال کا جواب نہیں مل سکا تو ارتقائی ماہرین، کیمبری عصر سے قبل 2 کروڑ سال پر محیط ایک تخیلاتی عصر پیش کرنے لگے جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ کس طرح سے زندگی ارتقاء پذیر ہوئی اور یہ کہ ’’کچھ نامعلوم واقعہ ہوگیا‘‘۔ یہ عصر (Period) ’’ارتقائی خلاء‘‘ (Evolutionary Gap) کہلاتا ہے۔ اس دوران میں حقیقتاً کیا ہوا تھا؟ اس بارے میں بھی اب تک کوئی شہادت نہیں مل سکی ہے اور یہ تصور بھی نمایاں طور سے مبہم اور غیر واضح ہے۔ 1984 ء میں جنوب مغربی چین میں چنگ ژیانگ کے مقام پر وسطی ینان کی سطح مرتفع سے متعدد پیچیدہ غیر فقاری جانداروں (Invertebrates) کے رکازات برآمد ہوئے۔ ان میں ٹرائلوبائٹس (Trilobites) بھی تھے، جو اگرچہ آج معدوم ہوچکے ہیں لیکن وہ اپنی ساخت کی پیچیدگی کے معاملے میں کسی بھی طرح سے جدید غیر فقاریوں سے کم نہیں تھے۔ سویڈن کے ارتقائی ماہر معدومیات (Evolutionary Paleontologist) اسٹیفن بنگسٹن نے اس کیفیت کو کچھ یوں بیان کیا ہے: ’’اگر زندگی کی تاریخ میں کوئی واقعہ، انسانی تخلیق کی دیو مالا سے مماثلت رکھتا ہے، تو وہ سمندری حیات کی یہی اچانک تنوع پذیری (diversification) ہے جب کثیر خلوی جاندار؛ ماحولیات (ecology) اور ارتقاء میں مرکزی اداکار کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ ڈاروِن سے اختلاف کرتے ہوئے اس واقعے نے اب تک ہمیں پریشان (اور شرمندہ) کیا ہوا ہے‘‘۔ ان پیچیدہ جانداروں کا اچانک اور آباؤاجداد کے بغیر وجود میں آجانا واقعتاً آج کے ارتقاء پرستوں کے لئے اتنی ہی پریشانی (اور شرمندگی) کا باعث ہے، جتنا ڈیڑھ سو سال پہلے ڈاروِن کے لئے تھا۔ رکازی ریکارڈ کی شہادتوں میں یہ امر بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جاندار اجسام کسی ابتدائی شکل سے ترقی یافتہ حالت میں ارتقاء پذیر نہیں ہوئے بلکہ اچانک ہی ایک مکمل حالت کے ساتھ زمین پر نمودار ہوگئے۔ درمیانی (انتقالی) شکلوں کی عدم موجودگی صرف کیمبری عصر تک ہی محدود نہیں۔ فقاریوں (ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں) کے مبینہ تدریجی ارتقاء کے ثبوت میں بھی آج تک اس طرح کی کوئی درمیانی شکل دریافت نہیں کی جاسکی۔ چاہے وہ مچھلی ہو، جل تھلئے (amphibians) ہوں، ہوّام ہوں، پرندے ہوں یا ممالیہ ہوں۔ رکازی ریکارڈ کے اعتبار سے بھی ہر جاندار نوع کا اچانک اپنی موجودہ، پیچیدہ اور مکمل حالت میں آنا ہی ثابت ہوتا ہے۔ بالفاظِ دیگر جاندار انواع، ارتقاء کے ذریعے وجود میں نہیں آئیں۔۔۔ انہیں تخلیق کیا گیا ہے۔
4۔ بقائے اَصلح کی حقیقت
مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کا ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ تمام مخلوقات ’فطری چناؤ‘ یا ’بقائے اَصلح‘ (Survival of the Fittest) کے قانون کے تابع ہیں۔ اِس سلسلے میں وہ ڈائنوسار (Dinosaur) کی مِثال دیتے ہیں جس کی نسل (ہزاروں سال پہلے کرۂ ارضی سے کلیتاً) معدوم ہو گئی تھی۔ لیکن (اِس تصویر کا دُوسرا رُخ کچھ یوں ہے کہ رُوئے زمین پرموجود) 15لاکھ اَقسام کی زِندہ مخلوقات کے مقابلے میں معدُوم مخلوقات کی تعداد 100سے زیادہ نہیں ہے۔ اِس موقع پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہت سی مخلوقات (اپنے ماحول میں موجود) مشکل ترین حالات کے باوُجود لاکھوں سالوں سے زِندہ ہیں۔ یہاں ہم اِس سلسلے میں تین اہم مِثالیں دینا ضروری سمجھتے ہیں :