• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈاکٹر حمزہ ملیباری کی چند کتب کا تعارف

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
’مالابار ‘ جنوبی ہند کی ریاست ’ کیرلا‘ کے شمالی علاقہ کا نام ہے ، بعض دفعہ پوری ریاست کیرلا کو بھی ’ مالابار ‘ کہہ دیا جاتا ہے ۔ ویکی پیڈیا پر یہ ’ ملابار‘ بھی لکھا گیا ہے ، عربی میں اسے ’ ملیبار ‘ اور اس سے تعلق رکھنے والے کو ’ ملیباری ‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ علاقہ اور اس سے تعلق رکھنے والے لوگ ترقی پسند اور پڑھے لکھے تصور کیے جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر حمزہ اسی علاقے کی نسبت سے ’ ملیباری ‘ مشہور ہیں ۔ ان کی سیرہ ذاتیہ ( سی وی ) کے مطابق تاریخ پیدائش 1952 ء ہے ، دینی تعلیم جنوبی ہند تامل ناڈو ، ویلور کے ایک قدیم اور مشہور مدرسہ ’ باقیات صالحات ‘ میں حاصل کی ، بعد میں جامعہ ازہر چلے گئے ، عالمیہ یعنی ایم فل وغیرہ کا مقالہ وہیں پر لکھا ، پی ایچ ڈی کی سند ام القری مکہ مکرمہ سے حاصل کی ۔ دونوں جگہ پر تخصص اور موضوعِ تحقیق فن حدیث سے ہی متعلق تھا۔
ام القری سے فراغت کے بعد شیخ ملیباری نے جزائر ، اردن وغیرہ عرب ممالک میں تدریسی و تحقیقی فرائض سر انجام دیے ، اب ایک عرصہ سے دبی میں مقیم ہیں ، اور اپنی علمی مصروفیات جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
منہج محدثین میں تفریقی سوچ کو عام کرنے والے یہی ڈاکٹر حمزہ ملیباری ہیں ۔ ان کی وجہ شہرت عالم عرب کے ایک معروف محقق اور سلفی محدث ( جن کی پہچان اور بھی کچھ چیزیں ہیں ) شیخ ربیع بن ہادی مدخلی کے ساتھ بحث و مباحثہ ہے ، یہ تقریبا 1986ء کی بات ہے ، جب ڈاکٹر حمزہ ام القری میں طالبعلم تھے ، اور شیخ ربیع ان دنوں جامعہ اسلامیہ میں حدیث کے مایہ ناز استاد تھے ۔ تقریبا دس سال پہلے شیخ ربیع پی ایچ ڈی کا مقالہ ’ بین الامامین ‘ لکھ چکے تھے ، حمزہ ملیباری صاحب غایۃ المقصد کےمتعلق اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ کی تیاری کے دوران ’ بین الامامین ‘ تک پہنچ گئے ، ایک حدیث کی تحقیق میں دونوں کےدرمیان اختلاف ہوا ، مراسلت شروع ہوئی ، رد و قدح کا سلسلہ چلا ، ( جو اب دونوں طرف سے ضخیم کتابوں کی شکل میں مطبوع ہے ) ، نتیجہ اس کا یہ نکلا ، کہ حمزہ ملیباری نام کے ایک گمنام طالبعلم ، اپنے ذوق تحقیق ، تحمل و بردباری اور شیخ صاحب کے ’ رد حاد ‘ کے سبب لوگوں میں متعارف ہونا شروع ہوئے ۔ اور چند ہی سال بعد ’ الموازنۃ بین المتقدمین و المتاخرین ‘ ، نظرات جدیدۃ فی علوم الحدیث ‘ جیسی کتابیں منظر عا م پر آنا شروع ہوگئیں ۔ اس تفریقی سوچ کا پرچا رکرنے اور اس کی نشر و اشاعت میں ان کا اتنا کردار ہے کہ کچھ لوگ اسے ’ ملیباری بدعت ‘ یا ’ فتنہ ملیباریہ ‘ بھی کہتے نظر آتے ہیں ۔
میں نے اس منہج ، فکر اور سوچ کو ان کی زبانی سمجھنے کے لیے ان کی کتاب نظرات جدیدۃ ، الموازنۃ ، کیف ندرس علم التخریج وغیرہ کا مطالعہ کیا ہے ، ذیل میں انہیں کتابوں کا تعارف پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
الموازنۃ بین المتقدمین و المتأخرین
اس کتاب کا مکمل نام اس طرح ہے : الموازنة بين المتقدمين و المتأخرين في تصحيح الاحاديث و تعليلها ۔
میرے پیش نظر اس کا دوسرا ایڈیشن ہے جو 2004ء میں طبع ہوا ۔
کتاب دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے، پہلے حصے میں منہجی فرق واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، جبکہ دوسرے حصے میں عملی مثالیں پیش کی ہیں ، کہ جن میں متقدمین و متاخرین کا احکام میں اختلاف ہے ۔ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے صرف ’ تفرد ‘ ، زیادۃ الثقہ ‘ اور ’تقویۃ الحدیث بالشواہد و المتابعات ‘ یعنی ’ حسن لغیرہ ‘ تین مباحث کو موازنہ کے لیے اختیار کیا ہے ۔

وجہ تالیف :
مصنف کا سرسری دعوی یہ ہے کہ متقدمین قرائن کی رعایت کرتے تھے ، جبکہ متاخرین نے اس فن کو ریاضی کی طرح کے قواعد سمجھ لیا ہے ۔ کہتے ہیں ضیاء المقدسی کی ’ المختارۃ‘ ، سیوطی کی تخریجات ، احمد شاکر کی تحقیقات ، شیخ البانی کی تصنیفات ، اور جامعات میں علم حدیث سے متعلق پیش کیے گئے ، مقالہ جات دیکھیں ،سب میں یہی رویہ نظر آتا ہے ۔ لہذا وہ اپنی تالیفات کے ذریعے لوگوں کو صحیح منہجِ تحقیق سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں ۔
متقدمین و متاخرین میں تفریق نیا دعوی ہے ؟
مقدمہ میں ہی انہوں نے اس بات کا جواب دیا ہے کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے ، حافظ ذہبی ، ابن حجر اور دیگر ائمہ ، حتی کہ معاصرین بھی ان دونوں اصطلاحات کو استعمال کرتے ہیں ، پھر کئی ایک حفاظ کے اقوال نقل کیے ہیں ، جنہوں نے علم حدیث میں متقدمین پر اعتماد کی تلقین کی ہے ۔! مصنف کو یہ بھی اعتراف ہے کہ سب متاخرین ایک جیسے نہیں ، لیکن اس کے باوجود وہ موازنے کا عنوان ’ بین النقاد و المعاصرین ‘ یا ’ بین المحدثین و الفقہاء ‘ رکھنے کی بجائے ’ بین المتقدمین و المتاخرین ‘ ہی رکھنا بہتر سمجھتے ہیں ۔
کتاب کے پہلےحصے میں موجود چار مباحث میں سے پہلی مبحث متقدمین و متاخرین کے مناہج میں تفریق کے اثبات اور اس کے اسباب بیان کرنے کے لیے خاص کی گئی ہے ۔ اس مبحث کا قیمتی حصہ متاخرین مصطلح کے وہ درجنوں اقتباسات ہیں ، جو متقدمین و متاخرین کے درمیان فرق پر صراحت سے دلالت کرتے ہیں ۔ مثلا حافظ ابن حجر کا کہنا : انبأنا اور اخبرنا متقدمین کے ہاں ایک ہی معنی میں ہیں۔ سخاوی کا کہنا کہ یہ الفاظ متقدمین کے ہاں نہیں ملتے ، اس کا استعمال متاخرین کے ہاں عام ہوا ہے ۔ وغیرہ ۔ اس بحث کے آخر میں انہوں نے جو نتائج اخذ کیے ہیں ، ان میں سے کچھ یہاں نقل کردیتا ہوں :
1۔ بعض علما کے نزدیک متقدمین و متاخرین میں حد فاصل 500 ھ ہے ۔
2۔ متقدمین و متاخرین کے منہج میں جوہری فرق تمام علما تسلیم کرتے تھے ۔
3۔ متقدمین علماء میں بطور مثال درج ذیل نام ذکر کیے جاسکتے ہیں : شعبہ ، یحیی القطان ، ابن مہدی ، احمد بن حنبل ، ابن المدینی ، ابن معین ، ابن راہویہ ، ، بخاری ، مسلم ، ابو داود ، ترمذی ، نسائی ، دارقطنی ، خلیلی ، اور خاتمہ المتقدمین بیہقی ۔
4۔ متاخرین کی فہرست میں درج ذیل نام آتے ہیں : ابن مرابط ، قاضی عیاض ، ابن تیمیہ ، ابن کثیر ، عبد الغنی صاحب الکمال ، ذہبی ، ابن حجر ، ابن صلاح ، ابن حاجب ، نووی ، ابن عبد الہادی ، ابن القطان ، ضیاء المقدسی ، زکی المنذری ، شرف الدمیاطی ، تقی السبکی ، ابن دقیق العید اور امام مزی ۔

منہجی تفریق کے اسباب :
مصنف نے متقدمین و متاخرین کے منہج میں تفریق کے اسباب بیان کرنے کے لیے ایک اور تقسیم کرتے ہوئے ، حفاظت سنت کے لیے کی جانے والی کوششوں کو عصر الروایۃ اور ما بعد الروایۃ کے دو مرحلوں میں تقسیم کیا ہے ۔ پہلے مرحلے میں حفاظتِ سنت میں اصل اعتماد ’ رواۃ ‘ پر تھا ، جبکہ دوسرے مرحلے میں اصل اعتماد’ کتب‘ پر تھا ۔ دونوں مرحلوں میں حد فاصل تقریبا پانچویں صدی ہے ۔ اسانید گو دونوں مرحلوں میں موجود ہیں ، لیکن پہلے مرحلے میں راویوں کی کڑی جانچ پڑتال کی گئی ، کیونکہ اعتماد انہیں پر تھا ، جبکہ دوسرے مرحلے میں کتب احادیث ، اور دواوین سنت کی روایت اور حفاظت پر توجہ دی گئی ، اس مرحلے میں اسانید کو اس قدر کھنگالنے اور کڑی شرائط کی ضرورت نہیں تھی ، البتہ کتابوں اور نُسخ میں کمی بیشی کے ذرائع کو مسدود کرنے کی مکمل کوشش کی گئی ۔
اس مضمون کو مصنف نے اپنی کتابوں میں بہت دہرایا ہے ، لیکن مجھے سوائے اس کہ اور کچھ سمجھ نہیں آسکا کہ گویا امتدادِ زمانہ ، تغیرِ منہج کا سبب ہے ۔ اور چونکہ احادیث کی راویوں کے ذریعے تحمل و ادا کا اصل مرحلہ متقدمین کا مرحلہ ہے ، لہذا تحقیق احادیث کے اصول و قواعد بھی وہی درست ہوں گے ، جو اس مرحلے کے اہل علم طے کریں گے ۔
اس کے بعد دوسری مبحث ’ التفرد ‘ سے متعلق ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ متاخرین تفرد ثقہ کو مطلقا قبول اور تفرد ضعیف کو مطلقا رد کرتے ہیں ، حالانکہ متقدمین کے ہاں ہر راوی ، ہر روایت کا حکم الگ تھا ، ان کے ہاں ثقہ کا تفرد مطلقا قبول نہیں ، اور ضعیف کا تفرد مطلقا رد نہیں ۔
تیسری مبحث ’ زیادۃالثقہ ‘ ہے ، مصنف کے نزدیک یہاں بھی متقدمین و متاخرین کا منہج جدا ہے ، متقدمین کا منہج دقت نظری اور تتبع قرائن پر مبنی ہے ، جبکہ متاخرین نے اسے بھی ظاہر پسندی سے دیکھا ہے ، خرابی کی ابتدا ان کے نزدیک کفایۃ الخطیب سے شروع ہوتی ہے ، اور مقدمۃ ابن الصلاح سے ہوتی ہوئی ، باقی کتب مصطلح میں پھیل جاتی ہے ۔ خرابی کی ایک وجہ ان کے نزدیک یہ بھی ہے کہ ائمہ مصطلح اس مسئلہ کو اس کے سیاق و سباق اور متعلقات سمیت پیش نہیں کرپائے ۔ انہوں نے اس تناقض کو بھی بہ تکرار واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایک طرف کچھ لوگ ’ زیادۃ الثقہ مقبولہ ‘ کا اصول ذکر کرتے ہیں ، دوسری طرف شاذ کی تعریف میں ثقہ کے ’ اضافے ‘ کو رد بھی کرتے ہیں ۔ انہوں نے ان سطحی ردود کا بھی شکوہ کیا ہے ، جو اس باب میں متقدمین کے احکام پر کیے جاتے ہیں ، مثلا ابو حاتم کسی راوی کی روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں ، لیکن ان پر یہ تعقب کیا جاتا ہے کہ ’نہیں ، بلکہ زیادۃ ثقہ قبول ہے‘ ، یا ’فلاں نے متابعت کی ہے‘وغیرہ ۔ کہتے ہیں ہمیں اس طرح کی بات کرتے ہوئے ، یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم ایک متقدم عالم کا تعقب کر رہے ہیں ، کسی مبتدی کو اصول حدیث نہیں پڑھا رہے ۔
چوتھی مبحث ’ تقویۃ الحدیث الضعیف ‘ یعنی ’ حسن لغیرہ ‘ میں انہوں نے حسب عادت ایک بار پھر منہج متقدمین کی طرف لوٹنے کی ضرورت اہمیت کو بیان کیا ہے ، اور ابن الصلاح اور امام ترمذی کی حسن کی تعریف پر تفصیلی گفتگو کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ متاخرین کی تعریفات میں نقص اور اہمال ہے ، جس کی بنا پر کچھ لوگوں نے تعددِ طرق کی بنا پر معلول احادیث کی تحسین کرنا شروع کردی ہے ، جبکہ انتفاء شذوذ و علل اور راویوں کی خطا اور وہم کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں جاتی ۔

علمی موازنہ اور اس کی تطبیقی مثالیں :
کتاب کے اس حصے کومصنف نے دو قسموں میں تقسیم کیا ہے ، وہ احادیث جنہیں متقدمین نے ضعیف کہا ، لیکن متاخرین نے ان کی تصحیح و تحسین کی ، وہ احادیث جنہیں متقدمین نے صحیح کہا ، لیکن متاخرین نے اس کی تضعیف کی ہے ۔ پہلی قسم میں چھ احادیث ، جبکہ دوسری قسم میں ایک حدیث ذکر کی ہے ، ذیل میں ساتوں احادیث اور ان کی تصحیح و تضعیف میں اختلاف اور علما کے نام ذکر کردینا ، ان کے اس موازنے کی نوعیت کو سمجھنے میں مفید ہوگا ۔
پہلی مثال : حدیث ابی ہریرہ ’ إذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير و ليضع يديه قبل ركبتيه‘ ہے ۔
یہاں مضعفین میں امام بخاری ، ترمذی ، دارقطنی وغیرہ کا ذکر ہے ، جبکہ تصحیح کرنے والوں میں ابن الترکمانی ، شوکانی ، عبد الرحمن مبارکپوری ، شیخ احمد شاکر ، اور شیخ البانی کا ذکر کیا گیا ہے ۔
محل اختلاف : تضعیف کرنے والے نقاد نے محمد بن عبد اللہ بن الحسن کے ابی الزناد سے تفرد کو علتِ ضعف قرار دیا ہے ، جبکہ متاخرین نے اس کی ثقاہت کو دلیل بناکر وجہ تضعیف کو رد کیا ہے ۔

دوسری مثال: معاذ بن جبل سے مروی جمع تقدیم و تاخیر کی حدیث ہے ۔
اسے امام بخاری ، ابو حاتم رازی ، ابوداود وغیرہ نقاد نے ’ تفرد بہ قتیبۃ عن اللیث و أخطأ فیہ و خالف غیرہ ‘ کی بنیاد پر ضعیف قرار دیا ہے ۔ اس کے علاوہ نسائی ، حاکم ، بیہقی اور متاخرین میں سے ابن حجر ، ذہبی ،معلمی وغیرہ محققین نے بھی اس کی تضعیف کی ہے ۔
جبکہ امام ابن القیم ، علامہ احمد شاکر ،شیخ البانی اور شیخ مقبل بن ہادی نے قتیبۃ بن سعید کی ثقاہت و امامت کی بنیاد پر اس تفرد کو مخالفت کی بجائے زیادۃ الثقہ کے طور پر قبول کیا ہے ۔ ان علما نے اس حدیث کے مزید کچھ شواہد بھی بیان کیے ہیں ۔

تیسری مثال: ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیثِ طلاق ہے ۔
اس میں محل نزاع ’ فردها علي ‘ کے ساتھ ’و لم يرها شيئا‘ کے الفاظ ہیں ، کیونکہ یہ صرف ابو الزبیر کی روایت میں ہیں ، باقی نافع ، سعید بن جبیر اور کبار اصحاب ابن عمر میں سے کسی نے یہ الفاظ ذکر نہیں کیے ۔
یہاں مضعفین میں انہوں نے ابو داود ، ابن عبد البر ، خطابی ، ابن رجب کا ذکر کیا ہے ، اور امام بخاری و مسلم کو بھی اسی طرف ذکر کیا ہے ، کیونکہ انہوں نے نافع کی روایت ذکر کی ہے ،اور ابو الزبیر کی روایت نہیں لائے ۔
جبکہ امام ابن القیم ، علامہ احمد شاکر ، اور شیخ البانی نے روایت ابی الزبیر کی تصحیح کی ہے ۔ انہوں نے روایۃ ابی الزبیر کو مخالفت کی بجائے ، ’زیادۃ بیان ‘کے قبیل سے لیا ہے ، بلکہ شیخ البانی نے اس کی متابعت بھی ذکرکی ہے ۔

چوتھی مثال : ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث ’لم يرفع يديه إلا في أول مرة‘ ہے۔
اس حدیث کو ابن مبارک ، ابو داود ، احمد ، ابوحاتم ، بخاری ، دارقطنی ، ابن عبد البر ، ابن حبان وغیرہ ائمہ نےضعیف قرار دیا ہے ۔
جبکہ اس تضعیف کو رد کرنے والوں میں ابن دقیق العید ، منذری ، زیلعی ، اور نصب الرایۃ کے محشی کے اقوال ذکر کیے گئے ہیں ۔
وجہ اختلاف : عاصم بن کلیب کی حالت ، سفیان ثوری یا وکیع کی خطأ ، دیگر احادیث کی مخالفت وغیرہ۔

پانچویں مثال : ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث رفع الیدین ہے ۔
اسے عبد اللہ بن عون الخزاز نے ’ يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ثم لا يعود‘ کے الفاظ سے ذکر کیا ہے ، جبکہ امام مالک کے باقی تمام شاگردوں ، امام زہری کے شاگردوں ، اور امام نافع کے شاگردوں نے معروف رفع الیدین کی احادیث کی طرح روایت کیا ہے ۔
امام حاکم ، بیہقی ، ابن حجر ، ابن قیم نے خزاز کی روایت کو موضوع اور خطا قرار دیا ہے ۔
جبکہ حافظ مغلطای ، شیخ عابد سندھی وغیرہ نے اس تضعیف کو رد کرنے کی کوشش کی ہے ۔
یہیں پر مصنف نے شیخ البانی اور شیخ عبد الفتاح ابو غدۃ کے مابین ہونے والے اس طویل مناقشے کو بھی ذکر کیا ہے ، جو اس حدیث کی تحقیق کے متعلق دونوں کےدرمیان ہوا ۔
وجہ اختلاف : خزاز کا تفرد اور مخالفت ہے ۔

چھٹی مثال : نماز کے اختتام میں تسلیمتین کے متعلق حدیث میں وارد ’ السلام علیکم و رحمۃ اللہ ‘ کے ساتھ ’ و برکاتہ‘ کے الفاظ ہیں ۔
اس حدیث کے بعض طرق میں ’ وبرکاتہ ‘ کے الفاظ ہیں ، اکثر میں نہیں ، عبد الحق صاحب الاحکام ، حافظ ابن حجر ، صنعانی ، صاحب عون المعبود اور شیخ البانی وغیرہ نے اس اضافے والی روایت کو بھی درست قرار دیاہے ۔
مصنف نے تفصیل سے بحث کی کہ یہ اضافہ درست نہیں ، لیکن اس رائے کےقائلین میں متقدمین و متاخرین میں سے کوئی نام ذکر کرنے کا التزام نہیں کیا۔

ساتویں مثال: صحیح مسلم کی معروف حدیث ’الطهور شطر الإيمان‘ ہے۔
مصنف نے اس کی تضعیف علائی ، نووی ، ابن رجب ، ابن القطان الفاسی ، اور معاصرین میں سے مقبل بن ہادی اور ربیع بن ہادی کے ذمے لگائی ہے ۔
وجہ اختلاف : سند کے ایک راوی ابو سلام کا سماع وغیرہ ۔
جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ، ساتویں مثال کا تعلق دوسری قسم سے ہے ، یعنی وہ احادیث جو متقدمین کے ہاں صحیح ہیں ، لیکن متاخرین یا معاصرین نے ان کی تضعیف کی ہے ، اسی ضمن میں انہوں نے معاصرین کا بعض راویوں کی تدلیس کی بنا پر احادیث کی تضعیف کرنا بھی ذکر کیا ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
نظرات جدیدۃ فی علوم الحدیث
اس کتاب کا بھی دوسرا ایڈیشن ہی پیش نظر ہے ، مکمل نام اس طرح ہے : ’نظرات جديدة في علوم الحديث ، دراسۃ نقدیۃ و مقارنۃ بین الجانب التطبیقی لدى المتقدمين و الجانب النظري عند المتأخرين‘ ۔
اس کتاب میں ’ علوم الحدیث ‘ کو مصنف نے جن ’ نئی نظروں ‘ سے دیکھا ، اس کا کسی حد تک اندازہ سابقہ کتاب کے تعارف سے ہوجاتا ہے، لہذا یہاں کوشش کرتا ہوں ، وہی ذکر کروں ، جو پہلی کتاب میں رہ گیا ہے ۔

وجہ تالیف : مصنف کا کہنا ہے ، ہمارے زمانے میں ’ علوم حدیث ‘ سطحیت کا شکار ہیں ، بہت سارے لوگ چند محدثین ، فقہاء اور اصولیوں کے نتیجہ فکر کو پڑھنا پڑھانا اصول حدیث کا علم سمجھ لیتے ہیں ، جس کی وجہ سے ان کے ذہنوں میں اس علم کے متعلق وہ غلط تصور پیدا ہوچکا ہے ، جو ناقدین حدیث کے عملی اور تطبیقی کام سے میل نہیں کھاتا ، لہذا ضرورت ہے کہ ’ علوم حدیث ‘ پر نظرثانی کی جائے ، اور انہیں اس انداز سے مرتب کیا جائے کہ نظریاتی تاصیلات اور متقدمین کی عملی تطبیقات میں موافقت پیدا ہو ۔
مضامین کتاب دو حصوں میں منقسم ہیں ، پہلی قسم ’ الحقائق العلمیۃ ‘ ہے ، جبکہ دوسری قسم کو ’ محتوی علوم الحدیث عند المتقدمین ‘ کاعنوان دیا گیا ہے ۔
پہلی قسم کے ابتدائی عناوین میں یہ کوشش کی ہے کہ متقدمین و متاخرین میں فرق واضح کرسکیں ، اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ متقدمین سے مراد ’ عصر الروایۃ ‘ کے حفاظ ہیں ، جبکہ متاخرین سے مراد بعد کے مرحلے کے لوگ ہیں ۔ یہ بھی وضاحت کی ہے کہ خیر القرون ، یا تیسری صدی کو حد فاصل قرار دینا درست نہیں ، یہ بھی فرمایا کہ پانچویں اور چھٹی صدی ہجری انتقالِ منہج اور تبدیلی کا زمانہ ہے ۔گویا ’ خالص متقدمین ‘ کا زمانہ چوتھی صدی تک ختم ہوجاتا ہے ، جبکہ ’ محض متاخرین ‘ کا زمانہ ساتویں صدی سے شروع ہوتا ہے ۔

علوم حدیث میں تصنیف کا طریقہ :
فرماتے ہیں ، عصر روایت میں تصنیف کی گئی کتابیں مثلا امام مسلم کی تمییز ، معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ، اور خطیب کی الکفایۃ ! کا منہج درست ہے کہ اس میں قواعد ،احکام و مسائل کو عصر روایت کے مطابق ذکر کیا گیا ہے ، لیکن ابن الصلاح نے آکر ایک جدید اسلوب اپنایا ہے ، جس میں اصطلاحات اور تعریفات میں منطقی مجبوریوں سے متاثر ہوئے ہیں ، گو اس کا مقصد طلاب کے لیے تیسیر اور آسانی تھی ، لیکن اس انداز کی وجہ سے فہمِ قواعد اور تحریرِ مسائل میں کئی ایک کج فہمیاں پیدا ہوئیں اور غلط نتائج برآمد ہوئےہیں ۔
مؤلف کا موقف ہے کہ اس فن کا ’ مصطلح الحدیث‘ کے عنوان سے رائج ہونا بھی اسی سطحی اور منطقی اصطلاح بندی کا نتیجہ ہے ، ورنہ اس سے پہلے یہ ’ علوم الحدیث ‘ وغیرہ ناموں سے معروف تھا۔

چند اصطلاحات کا جائزہ :
مصنف کے نزدیک جو اصطلاحات متاخرین کے طریقہ تصنیف کے باعث متاثر ہوئی ہیں ، ان میں بطور مثال ’ صحیح ، حسن ، منکر ، شاذ ، علت ، زیادۃ الثقۃ ، تفرد ، مخالفت ، الاعتبار‘ وغیرہ ذکر کی جاسکتی ہیں ۔
پھر تفصیلی گفتگو کے لیے تین اصطلاحات کو اختیار کیا ہے ۔

حسن : اس میں ترمذی ، خطابی ، ابن الجوزی ، ابن الصلاح وغیرہ علما کی تعاریف ذکر کی ہیں ، اور استدراک میں متقدمین کی بجائے ، ابن حجر اور عراقی وغیرہ متاخرین کے اقوال پیش کیے ہیں! ۔ موصوف کا موقف ہے کہ ’ حسن ‘ کی کوئی لگی بندھی تعریف نہیں ، امام ترمذی نے بھی جو تعریف کی ہے ، ایک تو وہ ان کی کتاب کے ساتھ خاص ہے ، دوسرا اس کا معنی وہ نہیں ، جو حد بندیاں متاخرین نے لگائی ہیں ، اور پھر بعد میں ’ حسن صحیح ‘ کے درمیان تطبیق دینے میں الجھتے رہے ہیں ، کیونکہ تعریف سے دونوں کو الگ کرچکے تھے۔ حالانکہ متقدمین کے ہاں صحیح اور حسن دونوں میں ایسا کوئی فرق ہے ہی نہیں ۔ بلکہ یہاں تک فرماتے ہیں ، متقدمین ’ صحیح ‘ کا اطلاق بھی صرف ثقہ کی روایت پر نہیں کرتے تھے ۔
منکر و شاذ : منکر کے متعلق فرماتے ہیں متاخرین کے ہاں اس کی تعریف ہے ’ مارواہ الضعیف مخالفا للثقۃ ‘ ، حالانکہ متقدمین کے ہاں منکر ہر وہ حدیث ہے ، جس کا مصدر غیر معروف ہو ، چاہے راوی ثقہ ہو یا ضعیف ، مخالفت ہو کہ نہ ہو ۔
شاذ متاخرین کے ہاں ’ مارواہ الثقۃ مخالفا لمن ہو أوثق ‘ ہے ، جبکہ متقدمین میں اس سلسلے میں اختلاف ہے ، لیکن اکثر متقدمین کی رائے میں اس سے مراد راوی کاتفرد ہے ، چاہے ثقہ ہو یا ضعیف ۔

متقدمین کے ہاں علوم حدیث :
اس حصے کی ابتدا اس بات سے کی گئی ہے ، کہ متقدمین نرے محدث نہیں تھے ، بلکہ حدیث کی فقہی مباحث میں بھی مہارت رکھتے تھے ، مسستشرقین اور ان پر ایمان لانے والوں کا محدثین کو یہ الزام دینا کہ انہوں نے صرف اسانید کو دیکھا ہے ، تحقیق متون پر توجہ نہیں دی ، یہ سوائے الزام کچھ نہیں ، محدثین کا اپنی کتب کو فقہی ابواب پر مرتب کرنا ، احادیث پر دقیق عناوین قائم کرنا اور نقد روایت میں ان کے اقوال اس بات کا بین ثبوت ہیں ۔ علی بن مدینی ، یحی بن معین ، امام احمد اور دیگر کئی ایک ناقدین سے انہوں نے کئی ایک اقوال اور مثالیں ذکر کی ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ متقدمین محدثین نے روایات کے تحقیقی و فقہی دونوں پہلؤوں پر خصوصی توجہ دی ہے ،۔البتہ متاخرین کے ہاں یہ معاملہ ذرا مختلف ہے ، عصر روایت کے بعد نہ صرف یہ کہ محدثین میں ’ تفقہ ‘ مفقود ہونے لگا ، بلکہ ان کے ہاں ’ نقد روایت ‘ کا منہج بھی تبدیل ہوگیا۔یوں بعد میں مستشرقین کو احادیث پر تابڑ توڑ حملے کرنے کا موقعہ ملا ، اور ان سے متاثرین نے تحقیقِ حدیث کے لیے اپنے تئیں قرآن ، عقل ، اورتاریخی واقعات کا نام لینا شروع کیا۔
محدثین پر احادیث گھڑنے کے الزام کی تردید کے تسلسل میں ہی انہوں نے ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے ، جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ محدثین جھوٹی احادیث رائج کرنے والے نہیں ، بلکہ ان کا پردہ چاک کرنے والے ہیں ، موضوع اور من گھڑت احادیث ، اور ایسی روایتیں گھڑنے والے اور انہیں بیان کرنے والے لوگوں کے خلاف محدثین و ناقدین کی خدمات روز روشن کی طرح واضح ہیں ، جن کا انکار کوئی اندھا ہی کرسکتا ہے ۔ یہاں ایک بہت خوبصورت نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ’ داخلی و خارجی نقد ‘ کا جو اسلوب محدثین کا ہے ، عین درست ہے ، جبکہ جو فضول تصور مستشرقین وغیرہ کا ہے ، یہ ان لوگوں کے لیے ہے ،جن کے پاس ’ اسانید‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، اور انہوں نے مجبور ہو کر ٹامک ٹوئیوں کی کوئی حد مقرر کرنے کے لیے صحرا میں لکیریں کھینچنے کی کوشش کی ہے ۔

متقدمین کا منہجِ تصحیح و تعلیل :
اس عنوان کےتحت مصنف نے اس منہج کو واضح کرنےکی کوشش کی ہے ، جس پر متقدمین عمل پیرا تھے۔ لیکن چونکہ انہیں اصطلاح بندی اور تاصیل سے چڑ ہے ، اس لیے کوئی مفہوم و متعین بات نہیں کرسکے۔ کوشش کرکے اس بحث کے اہم نکات ذکر کرتا ہوں :
1۔ متقدمین ہر اس حدیث کی تصحیح کرتے ہیں ، جس کے راویوں کے صدق اور سند کے متصل ہونے کی شکل میں درست ہونے کا انہیں یقین ہوجائے ، چاہے وہ راوی عمومی درجے کے اعتبار سے ثقہ ہو یا ضعیف ۔
2۔ اور ہر وہ حدیث جس میں کسی راوی کی غلطی یا وہم کا انہیں قوی احساس ہو ، اس کی روایت کو رد کردیتے ہیں ، راوی عمومی درجے میں چاہے ثقہ ہو یا ضعیف ۔
3۔ راوی کے صدق ، ضبط اور اتقان کا فیصلہ بھی وہ اس کی روایات کی روشنی میں کرتے ہیں ، اگر اس کی عموما روایات دوسرے رواۃ کے مطابق ہوئیں تو یہ اس کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے ، اور جس کی روایات میں دوسروں سے بہ کثرت اختلاف ہو ،تو اس کی غلطیوں اور اوہام کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے ، اس کا مرتبہ طے کیا جاتا ہے ۔
4۔ سابقہ نکتے سے واضح ہوتا ہے کہ متقدمین کے ہاں تحقیقِ روایت کی ابتدا متاخرین کی طرح راوی کے بارے میں کہے گئے کلمات ’ ثقہ ، ضعیف ، متروک ‘ وغیرہ سے نہیں ہوتی تھی ، بلکہ راویوں کے یہ مراتب ان کی مرویات دیکھنے کے بعد طے ہوتے تھے۔
5۔ روایات کا مقارنہ کرتے ہوئے ناقدین ، قرآن ، سنت ، عملی واقع ، عرف ، زمان و مکان ، حالات و واقعات کو بھی دیکھتے تھے ، لہذا جس روایت میں بظاہر ان چیزوں سے تعارض پایا جاتا تھا ، اس کی خوب خوب تحقیق کی جاتی تھی ۔ ا س عرق ریزی کے باعث ناقدین میں یہ ملکہ اور مہارت پیدا ہوگئی تھی کہ ثقات کی روایات میں غلطیاں فورا پہچان لیتے تھے ، اور ضعفا کی روایتوں میں درست باتیں نکھرکر ان کے سامنے آجاتی تھیں ۔
مصنف نے مقدمے میں ذکر کیا ہے کہ اس کتاب کی اصل ان کا ایک مقالہ ہے ، جو انہوں نے صحیح بخاری میں منہجِ نقد کے بیان کی وضاحت کے لیے کسی کانفرنس میں پڑھا تھا ، بعد میں کچھ حک و اضافہ کرکے اسے ایک مستقل کتاب کی شکل دے دی ۔ لیکن ابھی بھی محسوس ہوتاہے کہ بعض مباحث میں صحیح بخاری و صحیح مسلم اور مستشرقین کا ذکر بے ربط آجاتا ہے ، اور بعض جگہ میں باوجود تفصیلی بحث کی ضرورت کے صرف امام بخاری کے ذکر یا عقل پرستوں کے متعلقہ اعتراضات کے رد پر اکتفا کرلیا گیا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
الحدیث المعلول ، قواعد و ضوابط
مصنف کی تیسری کتاب ، مذکورہ عنوان سے ہے ، جو نظرات جدیدۃ کے دوسرے ایڈیشن میں بطور ملحق شامل ہے ، دوسرا ملحق ’ الاستخراج ‘ سے متعلق ہے ، ’نظرات‘ اصل کتاب سو صفحات پر مشتمل ہے، جبکہ اس کے دونوں ملحق تقریبا ایک سو ستر صفحات پر مشتمل ہیں ۔
وجہ تالیف :
جیسا کہ پہلے گزر چکا ، مصنف کے نزدیک کتب مصطلح میں ایک خلل یہ بھی ہے کہ اس میں مسائل کی ترتیب درست نہیں ہے ، ملتی جلتی مباحث یا ایک ہی بحث کو متفرق مقامات پر ذکر کیا گیا ہے ، جس سے ایک ہی اصطلاح کے مختلف ناموں کو مستقل اصطلاحات سمجھ لیا جاتا ہے ، یا ان میں موجود ربط ذہن سے محو ہوجاتا ہے ۔ حدیث معلول پر ان کی یہ تصنیف اسی خامی کے ازالے کے لیے پیش کی جارہی ہے ۔
علت کیا ہے ؟
مصنف کے نزدیک علت راوی کی غلطی اور خطا کا نام ہے ، چاہے ضعیف ہو یا ثقہ ، اور جب علت سے مراد ہے ہی خطا اور غلطی ، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ صرف قادح ہی ہوتی ہے ،۔گویا یہ تصور درست نہیں کہ علت قادح اور غیر قادح ہوتی ہے ، یا علت کا تعلق صرف ثقات کی روایات کے ساتھ ہے ، کیونکہ کتب علل میں نہ صرف یہ کہ ضعیف اور ثقہ ہر قسم کے راویوں کی روایات میں موجود علل بیان کی گئی ہیں ، بلکہ یہ سب احکام اور اقوال اکٹھے ہی موجود ہیں ۔
ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ ثقات کی روایات میں علت کی تلاش مشکل کام ہے ، جبکہ ضعیف روایات میں یہ قدرے آسان ہے ۔ یہ درست کہ سببِ علت ہونے کے لیے ’ غموض ‘ اور ’ ظاہری سلامتی ‘ کی شرط ہے ، لیکن یہ راوی کے ضعف جیسے ظاہری سبب سے متعارض نہیں، کیونکہ راویوں کے احوال بھی ان کی روایات ، اور ان میں غلطیوں اور اوہام کے وجود یاعدم سے طے ہوتے ہیں۔ گویا راوی چاہے ضعیف ہی ہو ، اس کی روایت میں علت تلاش کرنا دقت نظری کا متقاضی ہے ۔!
یہاں انہوں نے متاخرین کا ایک تناقض یہ بھی ذکر کیا ہےکہ پہلے تو علت کی تعریف میں ’ تقدح فی الصحۃ ‘ ذکر کرتے ہیں ، پھر اسی علت کو ’ قادح و غیر قادح ‘ میں تقسیم بھی کرتے ہیں ۔
اسی طرح علت جب راوی کی غلطی کا نام ہے ، تو اس غلطی کے ادراک اور دریافت کے لیے ’ مخالفت ‘ اور ’ تفرد ‘ کی بحثیں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں، ’ الباب إذا لم تجمع طرقہ لم یتبین خطأہ ‘ جیسے اقوال کا یہی معنی و مفہوم ہے ۔
علت کی وضاحت کےلیے کچھ مثالیں بیان کرنے کے بعد ’ الدلائل علی العلۃ ‘ کا عنوان قائم کرتے ہوئے ، اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ناقد کے ہاں تعلیل حدیث کی بنیاد ہوائے نفس نہیں ہوتی ، بلکہ اس کے احساس و شعور میں اس پر دلالت کرنے والے قرائن اور ترجیحات موجود ہوتی ہیں ، وہ اقوال جن میں علم علل کو ’ الہام ‘ وغیرہ کہا گیا ہے ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض دفعہ اس تعلیل کی تفہیم عام شخص کو کروانے کے لیے الفاظ نہیں مل پاتے ۔ یہ مطلب نہیں کہ ہر ناقد اپنی مرضی اور من مانی کرتا ہے ، اگر معاملہ اس طرح ہوتا ، تو ایک ہی بات پر ائمہ علل اور ناقدین کا ایک دوسرے سے اتفاق نہ ہوتا ۔ اس سلسلے میں انہوں نے بعض واقعات اور حکایات ذکر کی ہیں ، جو علم حدیث کے طالب کے ہاں معروف ہیں۔

حدیث ِمعلول کی اقسام:
’ مخالفت ‘ ،اور ’ تفرد‘ کو علت کی بحث کے بنیادی نقاط قرار دیکر ، ان سے متفرع ہونے والی حدیث معلول کی مختلف اقسام ذکر کی ہیں ، مخالفت کی صورتوں میں تعارض الوصل والارسال ، تعارض الرفع و الوقف ، تعارض الاتصال و الانقطاع ، المزید فی متصل الاسانید ، تعارض فی اسم الراوی ، تعارض الاطلاق و التقیید وغیرہ گنوائی ہیں ، اس کے علاوہ ’ شاذ‘ ، منکر ، مقلوب ، مدرج ، مصحف اور مضطرب وغیرہ اقسام الگ سے ذکر کی ہیں ۔
’زیادۃ الثقۃ ‘ کا مسئلہ چونکہ مخالفت اور تفرد دونوں سے متعلق ہے ، اس میں متقدمین ، متاخرین ، اصولیوں ، فقہا وغیرہ سب کی آراء تفصیل سے ذکر کی ہیں ۔ ساتھ یہ بھی تنبیہ کی ہے کہ بعض لوگ زیادۃ الثقہ اور مخالفت میں فرق نہیں سمجھ پاتے ، یوں حکم میں غلطی کرتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب میں گو بہت مفید بحثیں بھی آگئی ہیں لیکن ان کی ترتیب میں ایک قسم کا تکرار ، اور الجھاؤ پایا جاتا ہے ، مصنف متاخرین کا نقص دور کرتے کرتے ، خود ایک اور نقص میں مبتلا ہوگئے ہیں ، جس طالبعلم نے عام کتب مصطلح نہیں پڑھیں ، وہ مباحث کے ان تشتت اور بے ترتیبی اور غیر ضروری تکرار سے گھبرا کر شاید اس علم سے ہی بد ظن ہوجائے گا ۔

استخراج اور كتب مصطلح :
کتاب کا دوسرا ملحق مذکورہ عنوان سے ہے ، یہاں بھی یہی دعوی ہے کہ کتب مصطلح میں استخراج کوصحیحین وغیرہ چند کتب کےساتھ خاص کردیا گیا ہے ،حالانکہ یہ ایک وسیع مفہوم ہے ،جس میں ہر لاحق ، سابق سے کم سے کم واسطوں سے ملنے کی کوشش کرتا ہے ، گویا یہ ’ علو اسناد ‘ کے حصول کی ایک کوشش ہے ، جس کی محدثین کے ہاں بہت زیادہ اہمیت تھی ، ہم دیکھتے ہیں مشہور مصنفینِ کتب نے اپنے معاصرین ، حتی کہ بعض مشایخ سے بھی روایات ذکر نہیں کیں ، کیونکہ کتاب سے متعلقہ روایات ان کے پاس دیگر راویوں کی عالی اسانید سے موجود تھیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
کیف ندرس علم تخریج الحدیث
اس کتاب کا مکمل نام اس طرح ہے : ’كيف ندرس علم تخريج الحديث ،منهج مقترح لتطوير دراسته و توظيف برمجة الحاسب الآلي في الأحاديث النبوية لتحقيق الهدف من التخريج‘ ، یہ کتاب مصنف نے جامعہ اردن میں تدریس کے دوران تالیف کی تھی ، ساتھ جامعہ کے ایک اور پروفیسر بھی شریک ہیں۔
دعوی یہاں بھی پرانا ہی ہے ، کہ موضوع سے متعلق جتنی کتابیں تصنیف کی گئی ہیں ، سب میں رسمی اور تقلیدی باتیں زیادہ ہیں ، جبکہ عملی ، تطبیقی اور طالب علم میں اس فن کی فقاہت و مہارت پیدا کرنے میں ان کتب کا قابل اطمینان کردار نہیں ہے ۔
کہتے ہیں کہ ہم نے شیخ معلمی ، شیخ اکرم ضیاء العمری ، ڈاکٹر محمود طحان ، شیخ بکر ابو زید وغیرہ کی تصنیفات سے استفادہ تو کیا ہے ، لیکن اسلوب کو بہتر بناکر ، حسب عادت کچھ نیا اور مفید پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔
فنِ تخریج کی کما حقہ تعلیم و تفہیم کے لیے مصنف کے نزدیک تین سمسڑز کا عرصہ درکار ہے ، صرف ایک مستوی میں طالب علم اس فن کی حقیقت سے آشنا نہیں ہوسکتا۔
جیسا کہ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے ، مصنف تخریج حدیث میں جدید وسائل کو بھی بھرپور استعمال کرنے کے حامی ہیں ، چاہتے ہیں کہ طلبہ کو ان چیزوں کا ایسا استعمال سکھایا جائے ، کہ وہ ان کی خوبیوں کو حاصل کریں ، اور خامیوں سے بچ سکیں ۔
فنِ تخریج کوسیکھنے کے انہوں نے درج ذیل تین مراحل ذکرکیے ہیں :

پہلا مرحلہ :
پہلے مرحلے میں ، طالبعلم کو حدیث تلاش کرنے کا طریقہ بتایا جائے ، وہ چاہے عام فہارس کی مدد سے ہو ، یا کمپیوٹر کے ذریعے ۔ ہاں طریقہ ایسا ہو کہ طالبعلم اس مرحلے کو مکمل کرلینے سے حدیث کی تلاش میں مکمل مہارت حاصل کرلے ۔
اس مرحلے میں انہوں نے تخریج کا لغوی و اصطلاحی معنی اور اس کے مختلف اطلاقات سمجھانے کی کوشش کی ہے ، تخریج کی مختلف اقسام کا تعارف کروایا ہے ، اور اس کے اہداف و مقاصد سے آگاہ کیا ہے۔ معاصرین کی تخریج کی تعریف ( حدیث تلاش کرنا ، اور اس پر صحت و ضعف کا حکم لگانا) ان کے نزدیک درست نہیں ، کیونکہ اس سے متقدمین کے طریقہ تحقیق کی طرف اشارہ نہیں ، لہذا ان کے نزدیک تخریج کی تعریف یوں ہونی چاہیے : حدیث کو اس کے مصادر اصیلہ سے تلاش کرنا ، اور روایت کی تین حالتوں : موافقت ، مخالفت ، اور تفرد ‘ میں سے کسی ایک کا تعین کرنا ۔
اس کے بعد تخریج حدیث میں ممدو معاون ثابت ہونے والی کتبِ فہارس وغیرہ کو چار حصوں کے اندر تقسیم کیا ہے ، کلمات پر مرتب ، موضوعِ حدیث ،اوائل احادیث اور مسانید کے اعتبار سے ترتیب شدہ فہارس ۔ پھر ہر قسم سے متعلق ایک ایک کتاب کا تعارف ، اور اس کے ذریعے سے حدیث تلاش کرنے کا طریقہ سمجھایا گیا ہے ۔ مثلا پہلی قسم کی کتاب المعجم المفہرس ، دوسری قسم کے لیے مفتاح کنوز السنۃ ، تیسری کے لیے موسوعۃ أطراف الحدیث اور چوتھی قسم کے لیے کتب المسانید ، اسی قسم کے آخر میں مزی کی تحفۃ الاشراف وغیرہ کتب اطراف کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے ۔

دوسرا مرحلہ :
اس مرحلے میں پہلے مرحلے سے حاصل شدہ مواد کی ترتیب و تنظیم ، روایات و احادیث کا آپس میں مقارنہ ، ناقدین کے کلام کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا سکھایا جائے گا۔ راویوں میں اختلاف و اتفاق ، تفرد و مخالفت وغیرہ سمجھنے کے لیے شجرہ بنانا ، مدار کا تعین کرنا وغیرہ اس مرحلے کا ایک اہم جزء ہے ۔ یہاں کچھ تمارین بھی دی گئی ہیں ، تاکہ طالبعلم کو ایک عملی و تطبیقی نمونہ مل سکے ۔
تیسرا مرحلہ :
رجال کے تراجم پر مشتمل ہے ۔ مصنف کا کہنا ہے ، جنہیں کوئی کام نہیں ملتا ، وہ راویوں کے ترجمے نقل کرکے صفحات بھرنے کی کوشش کرتے ہیں ، حالانکہ رجال کا ترجمہ بقدر ضرورت و حاجت ہونا چاہیے۔
ہر ہر راوی کا ترجمہ کرتے جانا ، یا راوی کے ترجمے میں موجود ہر ہر بات کو نقل کرتے جانا ، درست منہج نہیں ، کس راوی کا ترجمہ کرنا ؟ اور اس کے متعلق کیا ذکر کرنا ہے ؟ یہ سب کچھ تحقیقِ حدیث کی ضرورت و حاجت کو مدنظر رکھتے ہوئے طے کیا جائے گا۔
اسی مرحلہ میں کتب تراجم کا تعارف کروایا گیا ہے ، اور ان سے استفادہ کا طریقہ سمجھایا گیا ہے ۔
اور حسب سابق یہاں بھی عبد الکریم بن ابی المخارق ، عبد اللہ بن لہیعۃ وغیرہ مشہور رواۃ کا مفصل دراسہ پیش کیا گیا ہے ، تاکہ طالب علم اس کے ذریعے مشق اور تمرین کرسکے ۔
عنوان کتاب میں تخریج حدیث میں کمپیوٹر سے مدد لینے کی جو بات موجود ہے ، اس حوالے سے کتاب میں سوائے ایک دو جگہ اشاروں کے عملی طریقہ کارآخر تک کہیں موجود نہیں ۔
یہ کتاب مکمل ایک عملی کتاب ہے ، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے ، کہ مصنف نے اگر ایک بلند بانگ دعوی کیا ہے ، تو خالی باتوں کی بجائے ، بہت محنت کرتے بھی ہیں ، اور طالبعلموں کو بھی اسی انداز سے محنت کروانا چاہتے ہیں ، اختلاف و اتفاق ایک الگ بات ہے ، لیکن بہر صورت اختلاف کا یہ طریقہ بھرپور علمی و تحقیقی ہے ۔
مصنف کی کچھ اور کتب بھی ہیں ، لیکن ان کا منہج ، اسلوب اور طریقہ کار سمجھنے کے لیے شاید یہ کتابیں کافی ہی نہیں ، بلکہ بہت زیادہ ہیں ۔
آئندہ سطور میں ، اپنی سوچ سمجھ اورمطالعہ کی روشنی میں تبصرہ پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
تبصرہ

ڈاکٹر حمزہ ملیباری صاحب کی سابقہ کتابوں کے مطالعہ کے بعد ان میں موجود مثبت یا مفید پہلو ، یا مصنف کی خوبیاں درج ذیل انداز میں بیان کی جاسکتی ہیں :
1. مصنف نے تصنیف و تالیف میں جدید انداز بحث اختیار کیا ہے ، کسی بھی موضوع سے متعلق انشائی کلام کرنے کی بجائے ، ایک تو کتابیں مباحث اور اقسام پر مرتب ہیں ، دوسرا صلب بحث میں بھی منظم و مرتب جملے کہنے کی کوشش کرتے ہیں ، ایک ہی عنوان کے تحت صفحات کے صفحات لکھنے کی بجائے ، دو تین صفحات کے بعد گفتگو نئی سرخی اور عنوان سے آگے بڑھاتے ہیں ، اس کا فائدہ یہ ہے کہ قاری پڑھتے ہوئے اکتاہٹ و ملل محسوس نہیں کرتا ۔اکثر اوقات نکات کی شکل میں ہر مبحث کا خلاصہ بیان کرنے کا التزام کرتے ہیں ، اگرچہ بعض دفعہ خلاصے میں ماقبل بحث کا تصور واضح نہیں ہوپاتا ۔
2.
بعض لوگوں کے ہاں یہ بھی ایک خوبی ہے ، کتابوں کا اسلوب مناظرانہ نہیں ، اور تحریروں میں کسی خاص جماعت ، مذہب ، مسلک وغیرہ سے تعصب ظاہر نہیں ہوتا۔
3.
ان کی کتابیں پڑھنا اس لیے مفید ہے کہ اس میں مسائل کو ایک نئے انداز سے پیش کیا گیا ہے ، اگر کسی کو عام روایتی انداز سے کوئی بات سمجھ نہ آئی ہو ، ممکن ہے اس طرح اس کے لیے کوئی نئی جہت سامنےآجائے ۔ کسی بھی چیز کے جوڑ توڑ سے اس کے مزید پہلو واضح ہوتے ہیں ۔
4.
دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے ، کہ کتاب کےعنوان میں دعوی بہت بڑا ہوتا ہے ، خالی دعوی سن کر یا کتاب کا ٹائٹل پڑھ کر محسوس ہوتا ہے ، پتہ نہیں اس کے اندر متقدمین و متاخرین میں کیا مارا ماری ہورہی ہوگئی ، لیکن مکمل کتاب پڑھنےسے یہ سب خدشات دور ہوجاتے ہیں ، بلکہ متاخرین کا احترام مزید بڑھ جاتا ہے۔
5.
ڈاکٹر ملیباری صاحب کی کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات بالکل نمایاں ہے کہ ایک بہترین باحث ، نکتہ رس مصنف ، ناقد اور محقق کی صفات سے متصف ہیں ،اپنی علمی و تحقیقی کاوشوں کو ’ منہجی تفریق ‘ کے داغ سے محفوظ رکھتے ، تو بلاشبہ ان میں کئی نفیس بحثیں اور تحریرات موجود ہیں ، جو ایک طالبِ حدیث کے دل میں اس علم کی محبت و عظمت اجاگر کرتی ہیں ۔
اشکالات و اعتراضات:
ڈاکٹر ملیباری صاحب نے اپنی کتابوں میں ’ متقدمین اور متاخرین کے درمیان موازنہ اور مقارنہ کرکے دونوں میں منہجی تفریق کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ، ان کے اس دعوے اور اس کے لیے طرز استدلال یا طریقہ بحث میں مجھے جو اشکالات نظر آئے ، انہیں درج ذیل نکات میں عرض کرتا ہوں :
1.
مصنف نے منہجی تفریق کا مقدمہ قائم کرنے ،اور متاخرین کے منہج میں خلل کے اثبات کے لیے متاخرین کے متاخرین کی مذمت میں اقوال نقل کیے ہیں ، جن میں مسئلہ یہ ہے کہ متاخرین نے اس دور کے سست اور نکمےلوگ مراد لیے ہیں ، جس طرح کے ہرزمانے میں کچھ اچھے اور کچھ دوسرے ، کچھ محنتی اور کچھ سست لوگ ہوتے ہیں ، ملیباری صاحب قول محنتی لوگ کا سست لوگوں کے بارے میں نقل کرتے ہیں ، جبکہ اس کا انطباق انہیں محنتی اور مشہور علماء پر کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ملیباری صاحب نے اپنے معاصرین وغیرہ کو جس طرح سخت سست کہا ہے ، آئندہ آنے والا کوئی محقق انہیں اقوال کو بنیاد بنا کر انہیں پر نقد کرنا شروع کردے ۔
2.
متاخرین پر نقد کرتے ہوئے ، اصول حدیث کی کتابوں سے ان کے اقوال نقل کرنے پر تھوڑی بہت توجہ دی گئی ہے ، جبکہ ان کی تطبیقات اور تخریجات کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کوشش کرکے اپنی طرف سے ایک موقف بناکر اپنی طرف سے اس کا رد کرنے کا شوق پورا کیا گیا ہے ۔ حالانکہ قواعد اور اصول بیان کرنے میں جامعیت اور اختصار کو مد نظر رکھا جاتا ہے ، لیکن تطبیق اور عملی کام میں محدث کے اصل تصور اور منہج کا پتہ چل جاتا ہے ۔ ملیباری صاحب متاخرین کے نظریات اور تطبیقات دونوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نقد کرتے ، تو انہیں کے بقول یہ ایک ’ منہجی و علمی تحقیق ‘ ہوتی ۔
3.
متقدمین کے کام میں اکثر عملی تطبیقات ہی ہیں ، تنظیر و تاصیل کم ہے ، جبکہ متاخرین کے ہاں متقدمین کے کام کو مد نظر رکھتے ہوئے تدوینِ قواعد و ضوابط پر بھرپور توجہ دی گئی ہے ، اورا س میں کہیں بھی کوئی عجب بات نہیں ، ہر کسی نے اپنے وقت کی ضرورت کو پیش نظر رکھتےہوئے خدمت حدیث کا فریضہ سر انجام دیاہے ، یہ بات بھی بالکل بدیہی ہے کہ تطبیقات میں جزئیات کی تفصیل ہوتی ہے ، جبکہ اصول بیان کرتے ہوئے اغلب کا خیال رکھا جاتا ہے ، متقدمین و متاخرین کے ہاں اسی وجہ سے کچھ فرق نظر آتا ہے ، لیکن جو فرق ہمیں متاخرین کی تاصیلات میں نظرآتا ہے ، تطبیقات میں اور احادیث کی تخریج وغیرہ میں سب باتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں ۔ کتنی احادیث ہیں جن میں متقدمین سے متاخرین نے اختلاف کیا ہے ؟ نہ ہونے کے برابر ، اور پھر اختلاف کی جو نوعیت ہے ،ایسا اختلاف متقدم کا متقدم سے او ر متاخر کا متاخر سے موجود ہے ۔
4.
اصطلاحات پر نقد کرتے ہوئے ، چند ایک متاخرین بلکہ بعض دفعہ صرف ابن الصلاح وغیرہ ایک مصنف کی عبارت کو بنیاد بنالیتے ہیں ، اور متقدمین کی علمی تطبیقات سے اس پر استدراک کرنا شروع کردیتے ہیں ، حد تو یہ ہے کہ کئی دفعہ عراقی اور ابن حجر کے ’ نکات ‘ اور ’ استدراکات‘ بھی ذکر کر رہے ہوتے ہیں ۔
5.
مصنف کی کتابوں میں مباحث اور اقوال کا تکرار کافی ہے ، وجہ یہی ہے کہ انہیں متاخرین کا اختصار والا طریقہ پسند نہیں ، لہذا ہر مبحث کو اپنے انداز سے چھیڑتے ہیں ، اور پھر ہر جگہ پر ایک ہی بات دہرانا پڑتی ہے ۔بار بار کے اس تکرار سے انہیں اس بات کا ضرور احساس ہونا چاہیے تھا کہ آخر مصنفین ِمصطلح نے یہ تکرار ِممل والا طریقہ کیوں چھوڑا ہے ؟ اگر یہ نقطہ سمجھ آجاتا تو وہ علوم حدیث پر ’ نئی نظر ‘ ڈالنے کے تکلف سے باز آجاتے ۔بالکل اسی طرح جیسے یہ بعض معاصرین کو الزام دیتے ہیں کہ اگر انہیں متقدمین کے قول کی کنہ کا ادراک ہوتا تو شاید ان پر تعقب نہ کرتے ۔
6.
مصنف نقد حدیث ، اور جرح و تعدیل کی بحثوں کو جس انداز سے زیر بحث لائے ہیں ، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اصول حدیث ایک منضبط فن نہیں ، بلکہ قرائن و ترجیحات کا مجموعہ ہے ۔ شاید مصنف کو ’ اصطلاح بندی‘ کا تصور سمجھنے میں غلطی لگی ہے ، کیونکہ اگر وہ تقعید و تأصیل کے حقیقی تصور سے مقتنع ہوتے ، تو جس طرح دیگر ائمہ و محدثین نے کتب مصطلح کو تسلیم کرنے کے باوجود عملی تطبیقات میں ناقدین کے منہج کو نہیں چھوڑا ، مصنف بھی اسی رستے کو اختیار کرتے ، یہ درست ہے کہ جن لوگوں نے کتب مصطلح کو ائمہ ناقدین پر حاکم بنایا ، ان کی غلطی کی اصلاح کی جائے ، لیکن خود اصطلاحات کے ہی خلاف ہوجانا ،اس بات کی دلیل ہے کہ غلطی کا رد ایک اور غلطی کرکے کیا جارہا ہے ۔
7.
کتاب میں بہ تکرار یہ کہتے نظر آتےہیں کہ علم حدیث بہت عظیم فن ہے، اس کےمسائل میں بہت گہرائی ہے ، اسے سمجھنا بچوں کا کھیل نہیں ، ہر کوئی اس میں آنے کی اہلیت نہیں رکھتا ، تصحیح و تضعیف کے معاملہ میں بڑی محنت درکار ہے ، بعض لوگوں نے اس پر توجہ نہیں کی ، جلد بازی کرتے ہیں ، وغیرہ ۔ یہ سب باتیں اور نصیحتیں فی نفسہ درست ہیں ۔ لیکن متاخرین و متقدمین کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے اس سب کچھ سے پتہ نہیں ان کی کیا مراد ہے ؟ مطلب ذہبی ، ابن حجر جیسےلوگ اس فن کی باریکیوں سے واقف نہیں تھے ، اور وقت کے امام شیخ البانی نے کھیل کھیل میں ہزاروں احادیث کی تحقیق و تفتیش کا عظیم کام کر دکھایا ہے ؟
8.
اگر ان کی مراد یہی لوگ ہیں ، تو پھر کہنے کے لیے پیچھے کیا رہ جاتا ہے ! لیکن حسن ظن رکھ لیتے ہیں کہ ان کی مراد کوئی اور لوگ ہیں ؟ لیکن وہ کون ہیں ؟ اگر ان کے پاس پڑھنے والے طالبعلم ہیں ، یا ہمارے جیسے طفل ِمکتب ہیں ، تو اس کو بنیاد بناکر ’ تفریقی سوچ ‘ کا وسیع و عریض دعوی کیا معنی رکھتا ہے ؟!
9.
فاضل مصنف اپنی تحریروں میں عموما یہ شکوہ کرتے ہیں کہ بعض متاخرین یا معاصرین متقدمین پر سطحی تعقب کرتے ہیں ، چھوٹی چھوٹی باتیں جو بچوں کو بھی یاد ہوتی ہیں ،وہ متقدمین کو سمجھا رہے ہوتے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس عیب سے وہ خود بھی نہیں بچ سکے ، اتنے دقیق مباحث شروع کرکے ، بڑے بڑے ائمہ کرام ، علم و فضل کے جبال کو لائن حاضر کرکے بچوں والی نصیحتیں شروع کردیتے ہیں ۔
10.
’نظرات جدیدہ‘ اور اس سے ملحق بحثوں میں یہ بات بعض مقامات پر شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ مصنف کے دماغ پر مستشرقین کا رد حاوی ہے ، ظاہر ہے بہت سارے متاخرین استشراق جیسے فتنہ سے پہلے کے ہیں ، مصنف اور ائمہ مصطلح کے مابین حالات و زمانے کی یہ تبدیلی ، مصنف کے ان سے اختلاف کا واضح سبب نظر آتاہے ۔ نظرات کی بعض بحثوں میں ڈاکٹر مصطفی اعظمی صاحب کے طرز اسلوب کا رنگ بھی نظر آتا ہے ۔
11.
مصنف کا اسلوب ہے ، تنقیدکرتے ہوئے عموما صراحت سے کسی کا نام نہیں لیتے، لیکن طنز و تعریض کرتے ہیں ، بلکہ بعض جگہ منہجی خلل کے نمونے بیان کرتے ہوئے کچھ عبارتیں اقتباس کی علامات کےساتھ ذکر کی ہیں ، میں نے ان عبارات کو تلاش کیا ہے ، وہ اکثر عبارات ، شیخ البانی ، شیخ ربیع وغیرہما کی ہیں ، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ان منہجی بحثوں کا ایک خصوصی محرک ان کی شیخ ربیع سے چپقلش ، اور شیخ البانی سے بیزاری بھی ہوسکتا ہے۔
وللہ فی خلقہ شؤون ۔ وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد و آلہ و صحبہ أجمعین ۔
و کتبہ : حافظ خضرحیات ، عزیزیہ ، مدینہ منورہ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ
بہت مفید معلومات ہیں
 
Top