• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک سے خوف کیوں؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ڈاکٹر ذاکر نائیک سے خوف کیوں؟


علی عمران شاہین کا خصوصی کالم ڈاکٹر ذاکر نائیک سے خوف کیوں؟


’’میرے بھائی! کیا آپ اس بات پر دل سے یقین رکھتے ہیں کہ اللہ ایک ہے؟ جی ہاں، کیا آپ دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ محمد رسولﷺ آخری نبی اور اللہ کے بندے ہیں؟ جی، کیا آپ اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں؟ جی ہاں، اس کے لئے آپ پر کوئی دباؤ تو نہیں ڈال رہا؟ جی نہیں۔۔۔ پھر آپ میرے ساتھ ساتھ الفاظ دہراتے جائیں۔۔۔ اشھدان لاالہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ۔۔۔‘‘ اس کے ساتھ ہی کلمہ طیبہ پڑھنے والے نو مسلم کے آس پاس موجود لوگ اسے گلے لگاتے ہیں۔ نو مسلموں اوریہ منظر دیکھنے والے بے شمار شرکاء کے خوشی کے آنسو چھلکنے لگتے ہیں۔ اس انداز میں اسلام قبول کرنے والے صرف مرد ہی نہیں، بے شمار خواتین بھی ہوتی ہیں جنہیں اسلام کے سایہ رحمت میں پناہ لینے پر ایسے ہی خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

کرہ ارضی کے بے شمار نفوس گواہ ہیں کہ یوں اسلام کے پیام رشد و ہدایت کی طرف بلانے والی سب سے بڑی شخصیت جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک کی ہے۔ دور حاضر میں ان کے ہاتھ پر جتنے غیر مسلم اسلام قبول کر چکے ہیں، اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ کون جانتا تھا ، بھارت ایسے بدترین مشرکوں کے دیس میں اولاد ابراہیم سے ایک ایسا فرزند پیدا ہو گا جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک عالم کو اسلام کی روشن راہوں کی جانب یوں کھینچ لے گا کہ دوست دشمن سبھی حیران رہ جائیں گے۔

18 اکتوبر 1965ء کو بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر بمبئی میں پیدا ہونے والے ذاکر نائیک پیشے کے لحاظ سے تو ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں لیکن انہیں دعوت دین کا شوق تبلیغ اسلام کی طرف لے آیا۔ انہوں نے 1991ء میں بمبئی میں ہی اسلام ریسرچ فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھ دی۔ اللہ کی شان دیکھئے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی زبان میں لکنت بھی ہے اور وہ اکثر دعائے موسوی ،رب اشرح لی صدریَ َََِِ.....’’اے میرے رب! میرا سینہ کھول دے اور میرا کام آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے (کہ لوگ) میری بات کو سمجھ لیں‘‘ پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی لکنت زدہ زبان میں ایسی تاثیر ڈالی کہ اس نے سارے عالم میں اسلام کی مٹھاس پھیلا دی۔ دنیا کے سارے براعظموں میں وہ جا چکے، 20سال کے عرصہ میں انہوں نے بیسیوں ملکوں میں زائد بڑے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا،کتنے ہی لوگوں کا بائیبل، توریت اور ہندوؤں کی گیتا و مہا بھارت سے تقابل کر کے دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ دعوت دین کے مشن کے لئے وہ عظیم اسلامی مبلغ و محقق احمد دیدات سے متاثر ہوئے تھے جن کے ساتھ ان کی پہلی ملاقات 1987 میں ہوئی۔ 2006ء میں انہوں نے بتایا کہ میں دیدات نے انہیں ’’دیدات پلس‘‘ کا لقب دیا تھا۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک کی زندگی میں بے شمار اتاروچڑھاؤ آئے۔ یکم اپریل 2000 کو امریکہ میں ان کا عیسائیوں کے نامی گرامی عالم ولیم کیمبل کے ساتھ کئی گھنٹے طویل مناظرہ ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا تھا۔ اس مناظرہ کا عنوان ’’قرآن اور بائیبل، سائنس کی روشنی میں‘‘ تھا۔ یہ مناظرہ ایک امریکی ٹی وی چینل پر براہ راست دکھایا گیا تھاجس کے بعد کم از کم 34 ہزار لوگوں نے فوراً اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس مناظرے کے بعد ہر جگہ انہیں ’’تقابل ادیان‘‘ کا سب سے بڑا ماہر سمجھا جانے لگا اور ہر جگہ انہیں دعوت دین کے لئے بلایا جانے لگا۔یوں بھارت کے رہنے والے انتہا پسند ہندوؤں کو فکر لاحق ہوئی کہ ان کے لوگ بھی گاہے گاہے اسلام کی طرف جارہے تھے۔ یوں 21جنوری 2006ء کو بھارت میں ہندوؤں کے سب سے بڑے عالم روی روی شنکر کے ساتھ ان کا ’’اسلام میں تصور خدا اور ہندو مذہب‘‘ کے موضوع پر مناظرہ ہوا تو انہوں نے شنکر کو تھوڑی ہی دیر میں بے بس کر دیا ۔یہ منظر دیکھ کر کتنے ہی ہندو مسلمان ہو گئے۔ اگلے سال یعنی 2007ء میں انہوں نے بمبئی میں سالانہ 10روزہ ’’امن کانفرنس‘‘ کا انعقاد شروع کیا جس میں دنیا بھر سے مبلغین اسلام جو ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ساتھی تھے، آنا شروع ہوئے۔ وہ مذاہب عالم کا اسلام کے ساتھ تقابل پیش کرتے اور بے شمار لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کر دیتے۔ یہ سلسلہ 2012ء تک جاری رہا، جب اس کانفرنس میں ریکارڈ 10لاکھ لوگ شریک ہوئے تو بھارتی انتہا پسند ہندو سماج ہل کر رہ گیا۔ ان دنوں بھارت میں نریندر مودی کو وزیراعظم بنائے جانے کی مہم عروج پر پہنچنے لگی تو انتہا پسند ہندو تنظیمیں متحرک ہو چکی تھیں۔ انہوں نے یہ کہہ کر کہ ڈاکٹر ذاکراسلام کے ساتھ ہندو مت کا تقابل کر کے ان کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں، سالانہ کانفرنس کے خلاف تحریک شروع کر کے اسے رکوا دیا۔ اس پرڈاکٹر ذاکر نائیک نے کانفرنس چنائی میں منعقد کرنے کا اعلان کیا تو وہاں بھی ایسی ہی صورتحال پیدا کر دی گئی۔

ان حالات کی وجہ سے عرصہ چار سال سے یہ کانفرنس منعقد نہ ہو سکی لیکن ’’جس کا حامی ہو خدا، اسے مٹا سکتا ہے کون‘‘ کے مصداق ڈاکٹر ذاکر کی دعوت کا سلسلہ ان کے پیس ٹی وی، ویڈیو ریکارڈنگز، تحریروں، انٹرنیٹ اور غیر ملکی دوروں کے ذریعے جاری رہا۔ پیس ٹی وی نے ایسی مقبولیت حاصل کی کہ اس کے ناظرین کی تعداد 10کروڑ سے تجاوز کرنے لگی۔انہوں نے 2006میں پیس ٹی وی انگلش کا آغاز کیا توجلد ہی یہ مسلم دنیا کا سب سے بڑا چینل بن گیا جو دنیا کے 200سے زائد ملکوں میں دیکھا جا رہا ہے ، اس کے اب بھی 25فیصد ناظرین غیر مسلم ہیں۔انہوں نے 2011ء میں بنگلہ جبکہ 2015ء میں چینی زبان میں چینل کی نشریات کا آغاز کیا۔ڈاکٹر ذاکر کے لئے اس سے پہلے مشکل مرحلہ اس وقت آیا جب جون2010ء میں انہوں نے کینیڈا اور برطانیہ کے دورے کی تیاری کی تویہاں موجود قادیانی لابی نے حکومتوں سے شکایت کی کہ یہ مبلغ قادیانیوں اور مقامی حکومتوں کے لئے خطرہ ہیں، یوں انہیں داخلے سے روک دیا گیا۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ قادیانی فتنے کی بنیاد جس انگریز نے رکھی، وہی اب تک اس کی خوب آبیاری کر رہے اور دنیا بھر میں ہر طرح کی مدد و تعاون سے پال پوس رہے ہیں۔2010میں ہی بھارتی نشریاتی ادارے ’’انڈین ایکسپریس‘‘نے انہیں ملک کی 90ویں بااثر شخصیت قرار دیا تو 2011ء میں ان کا درجہ 89واں تھا۔قبل ازیں 2009ء میں انہیں بھارت کے مختلف مذاہب کے10بڑے مذہبی مبلغین میں تیسرے درجے پر رکھا گیا تھا۔2011سے 2014 تک امریکہ کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی نے انہیں دنیا کی 500بااثر ترین شخصیات میں مسلسل برقرار رکھا۔ ان کی انہی خدمات کے اعزاز میں29 جولائی 2013ء کو انہیں متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کی جانب سے 2013ء کی بہترین مسلم شخصیت قرار دے کر ’’بین الاقوامی قرآن ایوارڈ‘‘ دیا گیا جس کے ساتھ انہیں ساڑھے سات لاکھ درہم انعامی رقم ملی جو انہوں نے پیس ٹی وی کے لئے وقف کی۔

اسی سال انہیں ملائشیا کے بادشاہ نے ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ عطا کیا۔ 16جنوری 2014ء کو شارجہ کے حکمران شیخ ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی نے اسلام کیلئے خدمات پر شارجہ ایوارڈ سے نوازا۔ 25اکتوبر2014ء میں انہیں گیمبیا کے یوم آزادی کا واحد مہمان خصوصی بنا کر مدعو کیا گیا تھا جہاں انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ یکم مارچ 2015ء کو سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خود مسلم دنیا کا سب سے بڑا تمغہ ’’شاہ فیصل ایوارڈ‘‘عطا کیا جس کے ساتھ ملنے والی ساڑھے سات لاکھ ریال کی انعامی رقم انہوں نے ’’اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن‘‘ کو عطیہ کر دی۔اس وقت فیس بک پر ان کا پیج مسلم دنیا کی تمام شخصیات میں سب سے مقبول اور سب سے زیادہ تیزی سے پسندیدگی حاصل کرنے والا کا اعزاز رکھتا ہے جو ڈیڑھ کروڑ سے زائد (لائکس) لے چکا ہے۔

یکم جولائی 2016ء کو ڈھاکہ میں دہشت گردانہ حملے کے بعد اسلام دشمن بنگالی اور بھارتی میڈیا نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف اب تک طوفان بدتمیزی بپا کر رکھا ہے کہ ایک حملہ آور نے ان کا فیس بک پیج لائیک کر رکھا تھا اور اس نے ان کے خطابات انٹرنیٹ پر شیئر کئے تھے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے پہلے ان کے چینل اور پھر تنظیم پر پابندی عائد کر دی تووہی کچھ اب بھارت میں ہو رہا ہے ۔ ان کی آواز کو پابند سلاسل کرنے کے لئے بھارت کے چوٹی کے دماغ اور ساری مشینری دن رات سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ ان کے خلاف نئی قانون سازی کی جارہی ہیں تو راستے بند کرنے کے لئے دماغ لڑائے جا رہے ہیں۔ یہی سطور تحریر کرتے جرمنی سے آنے والی خبریں بھی نگاہوں کے سامنے ہیں کہ وہاں شام سے آنے والے مسلم مہاجرین کو امداد و تعاون کے ساتھ تیزی سے اسلام سے برگشتہ اور عیسائیت میں داخل کیا جا رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کتنے ہی شامی مہاجرین اب تک یوں عیسائی بنائے جا چکے ہیں۔ عالم اسلام کے خلاف سارے عالم میں پھیلی کشت و خون کی جنگ اب ان کی بے ضرر و پرامن تبلیغ کے خلاف بھی ویسے ہی منظم ہو چکی ہے۔ اسلام کی بڑھتی روشنی کو روکنے کی کوشش کرنے والے کیا کیا حربے اختیار کر رہے ہیں لیکن کیا مسلمان بھی ایک دوسرے کے گریبان چھوڑ کر کبھی اس طرف کوئی معمولی نگاہ ڈالنا پسند کریں گے،یا’ ہنوز دلی دور است ‘میں مست رہیں گے؟

https://www.facebook.com/jarrarofficial/posts/535281660003392:0
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
جس کے بعد کم از کم 34 ہزار لوگوں نے فوراً اسلام قبول کر لیا تھا۔
اس کا کوئی ثبوت نہیں ،یہ محض فرضی اور جھوٹا دعویٰ ہے۔
یہ منظر دیکھ کر کتنے ہی ہندو مسلمان ہو گئے۔
جب یہ مناظرہ ہواتھا،تب میں اسی شہر میں تھا، دوران مناظرہ یامناظرہ کے بعد کوئی ہندومسلم نہیں ہوا۔
بے شمار لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کر دیتے۔
اوربے شمار کی جو بلاغت ہے، اس پردوبارہ سے غورکرنے کی ضرورت ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اس کا کوئی ثبوت نہیں ،یہ محض فرضی اور جھوٹا دعویٰ ہے۔

جب یہ مناظرہ ہواتھا،تب میں اسی شہر میں تھا، دوران مناظرہ یامناظرہ کے بعد کوئی ہندومسلم نہیں ہوا۔

اوربے شمار کی جو بلاغت ہے، اس پردوبارہ سے غورکرنے کی ضرورت ہے۔
آپ کی پوسٹ دیکھ کر سمجھ آیا کہ اس تھریڈ کا عنوان
ڈاکٹر ذاکر نائیک سے خوف کیوں؟
کیوں ہے،
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
شکر ہے کہ طویل مضمون پڑھ کر جو سمجھ میں نہیں آیا،وہ میرے تحریر کردہ دو تین سطر پڑھ کر سمجھ میں آگیا، لیکن اس کے باوجود دعویٰ بلادلیل ہے؟
آپ جیسے حضرات کو دیکھ دیکھ کر عبرت ہوتی ہے کہ دوسروں سے ہربات پر دلیل طلب کرنے والے اپنے ممدوح کے بارے میں کتنے لاچار ہوجاتے ہیں کہ اس طرح کے جملوں سے انہیں کام چلاناپڑتاہے،لگے رہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ڈاکٹر ذاکر نائیک: اندھیرے کا چراغ

عبد العزیز

جب بھی دنیا میں کوئی دعوتِ حق لے کر اٹھے گا اسے مزاحمتوں اور عداوتوں کا سامنا کرنا پڑے گا مگر جو دعوت کا کام کرتے ہیں وہ مولانا محمد علی جوہر کی طرح ببانگ دہل کہتے ہیں ؂

  • توحید تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حشر میں کہہ دے ۔۔۔ یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لئے ہے
  • کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف ۔۔۔ کافی ہے اگر ایک اللہ تعالیٰ میرے لئے ہے

حقیقت میں داعی حق اندھیرے کا چراغ ہوتا ہے ۔وہ اندھیرے میں چراغ جلاتے جلاتے دنیا سے رخصت ہوتا ہے وہ جانتا کہ حق کبھی ناکام نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ داعی حق یہی سمجھتا اور یہی کہتا ہے کہ :

’’حق کا ہونا اس شرط سے مشروط نہیں ہے کہ دنیا اس کو مان لے۔ دنیا کا ماننا یا نہ ماننا سرے سے حق و باطل کے فیصلے کا معیار ہی نہیں ہے۔ اگر دنیا حق کو نہیں مانتی تو حق ناکام نہیں ہے بلکہ ناکام وہ دنیا ہے جس نے اسے نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا۔ مصائب حق پر نہیں اہل حق پر آتے ہیں لیکن جو لوگ سوچ سمجھ کر کامل قلبی اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ انھیں بہر حال حق پر ہی قائم رہنا اور اسی کا بول بالا کرنے کیلئے اپنا سارا سرمایۂ حیات لگا دینا ہے وہ مصائب تو ضرور مبتلا ہوسکتے ہیں لیکن ناکام کبھی نہیں ہوسکتے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض انبیائے کرامؑ ایسے گزرے ہیں جنھوں نے ساری عمر دین حق کی طرف دعوت حق دینے میں ساری عمر کھپا دی اور ایک آدمی بھی ان پر ایمان نہ لایا۔ کیا ہم انھیں ناکام کہہ سکتے ہیں؟ نہیں؛ ناکام وہ قوم ہوئی جس نے انھیں رد کر دیا اور باطل پرستوں کو اپنا رہنما بنایا۔

اس میں شک نہیں کہ دنیا میں وہی بات چلتی ہے جسے لوگ بالعموم قبول کرلیں اور وہ بات نہیں چلتی جسے لوگ بالعموم رد کردیں لیکن لوگوں کا رد و قبول ہر گز حق و باطل کا معیار نہیں ہے۔ لوگوں کی اکثریت اندھیروں میں بھٹکنا اور ٹھوکریں کھانا چاہتی ہے تو خوشی سے بھٹکے اور ٹھوکریں کھاتی رہے۔ ہمارا کام بہر حال اندھیروں میں چراغ جلانا ہی ہے اور ہم مرتے دم تک یہی کام کرتے رہیں گے۔ ہم اس سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ بھٹکنے یا بھٹکانے والوں میں شامل ہوجائیں، خدا کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں اندھیروں میں چراغ جلانے کی توفیق بخشی، اس احسان کا شکر یہی ہے کہ ہم چراغ ہی جلاتے جلاتے مر جائیں‘‘۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ پکے موحد ہیں۔ ہر طرح کے جلی اور خفی شرک کے خلاف ہیں۔ انھوں نے شرک کے معاملے میں کبھی کسی سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ ظاہر ہے شرک سے جن کا بھی تھوڑا بہت لگاؤ ہے وہ کسی بھی توحید پرست یا حق پرست کو برداشت نہیں کریں گے خواہ کچھ بھی ہوجائے۔

دوسرا سب سے بڑا قصور ہے کہ ان کی باتوں اور تقریروں میں غیر مسلموں کیلئے زبردست کشش ہے جس کی وجہ سے غیر مسلم ان کے قریب آتے ہیں اور حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ چیز غیروں کو کسی حال میں قابل برداشت ہو ممکن نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس سے منسلک تمام تنظیمیں اور آر ایس ایس سے متاثر تمام نیوز چینلز اور اخبارات ڈاکٹر ذاکر نائیک کی صدائے حق کو بند کر دینا چاہتے ہیں۔

مسلکی اختلاف:

دعوت کی یہ بھی خاصیت ہے کہ سب سے پہلے اپنے لوگ مخالف ہوتے ہیں۔ خاص طور سے وہ لوگ جن کے دنیوی مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ چار بڑے مسلک ہیں ، ان میں بھی اختلاف ہے۔ ایک زمانہ سے کم علم داں جن کا علم ناقص ہوتا ہے، وہ زیادہ بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور لڑتے جھگڑتے ہیں لیکن انھیں شاید معلوم نہیں ہے کہ ائمہ اربعہ اور ان کے شاگردوں میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں تھا۔ وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ آج چھوٹے بڑے علماء میں جو چیز مفقود ہوگئی ہے وہ داعیانہ جذبہ اور داعیانہ کردار ہے۔ جب کوئی داعی کا کام کرتا ہے تو اس کی دنیا وسیع ہوجاتی ہے۔ اس کے اندر کشادہ دلی اور توسیع پسندی آجاتی ہے وہ فروعی اور جزوی معاملات کو بنیادی اصولوں پر ترجیح نہیں دیتا ہے اس کو منزل اور مقصد کا شعور ہوتا ہے۔ ہمارے اندر کے لوگ جو مخالفت کر رہے ہیں وہ محض فروعی اور جزوی معاملات کی وجہ سے مگر وہ بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کا سر قلم کر دینا چاہتے ہیں۔ وہ بھی ان کی آوازۂ حق کو بند کر دینا چاہتے ہیں۔ ان کو اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں آرہی ہے کہ جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں وہ آخر کیوں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو خاموش کر دینا چاہتے ہیں۔

علامہ اقبالؒ نے اس حقیقت سے بہت پہلے امت مسلمہ کو آگاہ کیا تھا ؂

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز ۔۔۔ چراغ مصطفویؐ سے شرار بولہبی

حضرت نعیم صدیقیؒ نے بابری مسجد کی شہادت پر کہا تھا ع دشمن کے سامنے بھی ہیں ہم جدا جدا

یہ جدائی شاید اس لئے ہے کہ ہم بھی شرک و کفر کے رنگ میں رنگ گئے ہیں اور آہستہ آہستہ ہم میں دشمن اور دوست کی تمیز بھی باقی نہیں رہی۔

اسلام دہشت گردی کا سب سے مخالف ہے:

جو شخص بھی دنیا کو اسلام کی دعوت دے گا وہ اسلام کا سب سے بڑا پیرو اور مبلغ ہوگا ، جس طرح اسلام دہشت گردی کا سب سے بڑا مخالف ہوگا وہ بھی دہشت گردی کا سب سے بڑا مخالف ہوگا۔ ذاکر نائیک حق کے جتنے بڑے حامی ہیں ، بدامنی کے اتنے ہی بڑے مخالف ہیں۔ وہ امن عالم کے حامی ہیں اسی لئے ان کے چینل کا نام ’’پیس ٹی وی‘‘ ہے۔ Peace TV محض نام کی پیس ٹی وی نہیں بلکہ اسم بامسمّٰی ہے۔ ان کے لیکچر، ان کے انٹرویو سے کوئی ایک جملہ، ایک عبارت ایسی نکال کر نہیں دکھایا جا سکتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے حق میں ہو یا دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کیلئے ہو۔ اگر کسی نے ان کی تقریر کا غلط مطلب نکالا اور وہ غلط کاموں میں ملوث ہوگیا تو آخر مقرر یا مبلغ پر اس کی ذمہ داری کیسے آسکتی ہے؟ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا وہ انتہائی ناقابل برداشت ہے اور انتہائی قابل مذمت ہے بلکہ اس کی مذمت جس قدر کی جائے کم ہوگی۔ ان دہشت گردوں میں سے کسی بدنصیب نے اگر ذاکر نائیک کی تقریر سن کر انسانی قتل کو اپنا مقصد بنالیا تو وہ بڑا ظالم اور بڑا بدنصیب ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے قرآن کی یہ بات ایک بار نہیں ہزاروں بار مجمع عام میں کہی ہے اور اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ

’’جس نے نا حق کسی شخص کو قتل کیا اس نے ساری انسانیت کو قتل کر دیا جس نے کسی کو ناحق قتل ہونے سے بچالیا، اس نے ساری انسانیت کو قتل ہونے سے بچالیا ‘‘۔

اس قرآنی بات کو ساری دنیا کے مسلمان مانتے ہیں۔ اگر کوئی بدنصیب اس کے خلاف عمل کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں حیوان ہے بلکہ حیوان سے بھی بدتر ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کمزور سہی مگر جمہوریت ہے، عدلیہ کمزور سہی مگرعدلیہ ہے۔ جمہوریت میں سب کو اپنی صفائی کا موقع دینا چاہئے۔ عدلیہ میں بات جائے گی تو بغیر کسی Specific Proof کے۔ کسی کو مورد الزام ٹھہرانا عدلیہ اسے قطعاً منظور نہیں کرے گی۔

میرے خیال سے داعی پر اسی طرح کے حالات آتے ہیں مگر اس طرح کے الزامات اور بہتان طوفان کی طرح آتے ہیں اور سیلاب کی جھاگ کی طرح ختم ہوجاتے ہیں کیونکہ جھوٹ اور باطل کی جڑیں کمزور ہوتی ہیں، وہ پائیدار نہیں ہوتیں۔ وہ ایک جھٹکے میں پانی کے بلبلے کی طرح نیست و نابود ہوجاتی ہیں۔ داعی اس طرح کے طوفانوں سے گھبراتا نہیں۔ اس کا قادر مطلق پر غیر معمولی یقین ہوتا ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے داعی اسلام کو ہر موڑ پر اور ہر منزل پر تسلی دی ہے کہ دشمن جتنی بڑی چال چلتے ہیں اللہ اس سے کہیں بڑی چال چلتا ہے۔ تم اپنے کام میں سچائی اور خلوص کے ساتھ لگے رہو اور ان کو ہم پر چھوڑ دو۔ ہم ان سے سمجھ لیں گے۔

’’قسم ہے بارش برسانے والے آسمان کی اور (نباتات اگتے وقت) پھٹ جانے والی زمین کی یہ ایک جچی تلی بات ہے۔ ہنسی مذاق نہیں ہے۔ یہ لوگ کچھ چالیں چل رہے ہیں اورمیں بھی ایک چال چل رہا ہوں پس چھوڑ دو۔ اے نبی! ان بے ایمان والوں کو ایک ذرا ان کے حال پر چھوڑ دو‘‘ (الطارق:11-17)۔

یعنی میں یہ تدبیر کر رہا ہوں کہ ان کی کوئی چال کامیاب نہ ہونے پائے اور یہ آخر منہ کی کھاکر رہیں گے اور نور پھیل کر رہے گا جسے یہ بجھانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ انھیں ذرا مہلت دو کہ جو کچھ یہ کرنا چاہیں کر دیکھیں۔ زیادہ مدت نہ گزرے گی نتیجہ ان کے سامنے خود آجائے گا اور انھیں معلوم ہوجائے گا کہ میری تدبیر کے مقابلے میں ان کی چالیں کتنی کارگر ہوئیں ؂

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن ۔۔۔ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

فانوس بن کے جن کی جس کی حفاظت ہوا کرے ۔۔۔ وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

…….پوری تحریر مضامین ڈاٹ کام پر ملاحظہ فرمائیں:

http://mazameen.com/politics/milli-issues/ڈاکٹر-ذاکر-نائیک-اندھیرے-کا-چراغ.html
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ڈاکٹر ذاکر نائیک، دہشت گرد یا مبلغ اسلام ؟ –

اسامہ عبدالحمید

گزشتہ پچیس سال میں عالمی سطح پر اسلام کی پہچان بننے والی شخصیات میں سے نمایاں ترین نام ڈاکٹر ذاکر نائیک کا ہے۔ دنیا بھر کا سفر کرکے اپنے حیرت انگیز حافظے کو استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نائیک نے لاکھوں لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا، اسلام اور قرآن مجید پہ ہونے والے مختلف اعتراضات کا انتہائی مدلل انداز میں جواب دیا۔ اسلام کے مقابلے میں دیگر مذاہب میں در آنے والی خامیوں کی نشاندہی کی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں لوگوں کو اسلام میں لانے کا موثر ذریعہ ثابت ہوئے۔ موجودہ دور میں جبکہ اسلام سے منسلک ہر شخصیت اور ہر ادارے کو متنازع بناکر اس کا دائرہ کار محدود کرنے کی کوششیں اپنے عروج پہ ہیں، ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی ایک مرتبہ پھر الزامات کی زد میں ہیں اور ان الزامات کو لے کر انٹرنیٹ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ان کی کردار کشی جاری ہے۔ تازہ الزامات کے حوالے سے بات کرنے سے قبل ڈاکٹر صاحب کے ماضی پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔

اکتوبر 1965ء میں بھارتی شہر ممبئی میں جنم لینے والے ذاکر عبدالکریم نائیک بنیادی طور پر میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ بھارت ہی کی مختلف یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے میڈیکل پریکٹس شروع کی۔ 1987ء میں ان کی ملاقات اس وقت کے مشہور مبلغ اسلام شیخ احمد دیدات سے ہوئی۔ نوجوان ذاکر نائیک شیخ احمد دیدات سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے بھی اسی راہ پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ 1991ء میں انھوں نے اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامک انٹرنیشنل سکول اور ”یونائیٹڈاسلامک ایڈ“ نامی این جی او بھی قائم کی، جس کا بنیادی مقصد غریب مسلمان نوجوانوں کو وظائف دے کر دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے قابل بنانا تھا۔ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی نگرانی میں ہی بعد ازاں ”پیس ٹی وی چینل“ کا آغاز بھی کیا گیا جو ڈاکٹر ذاکر نائیک کے علاوہ معروف پاکستانی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اورخلیل الرحمٰن چشتی کے دروس اور لیکچرز نشر کرتا ہے۔

ان اقدامات کے ساتھ ذاکر نائیک نے لیکچرز اور مباحثوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ان لیکچرز میں زیادہ تر اسلام اور جدید سائنس،اسلام اور عیسائیت،اسلام اور الحاد اور اسلام اور ہندو مت جیسے موضوعات پہ بات کی جاتی ہے۔ ذاکر نائیک کے بقول ان کے پیش نظر بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی موجودہ نوجوان نسل جو مذہب کے حوالے سے مغربی پروپیگنڈے کا شکار ہوکر دیگر مذاہب کی طرح اسلام کو بھی ایک فرسودہ مذہب سمجھنے لگ گئی ہے، کے ذہنوں کو اپیل کیا جائے اور اس حوالے سے ان کے ذہنوں میں موجود سوالات کا جواب دیا جائے۔ انھوں نے روایتی مذہبی حلیہ اختیار کرنے کی بجائے پینٹ کوٹ اور ٹائی پہننے کو ترجیح دی اور انگریزی کو اپنا ذریعہ ابلاغ بنایا۔ چنانچہ اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم اور غیر مسلم تیزی سے ان کی جانب متوجہ ہوئے اور ان کے پروگرامات میں شرکاء کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک کی جو خوبی انھیں دیگر اہل علم سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کا حیرت انگیز حافظہ ہے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ بائبل اور ہندومذہب کی مقدس کتب کی عبارات انھیں حوالوں سمیت اس حد تک یاد ہیں کہ وہ دوران گفتگو بغیر کسی معاون کے،ان عبارات کا باب نمبر اور صفحہ نمبر تک بتا دیتے ہیں۔ وہ اسلام کے حوالے سے شرکاء کے سوالات کے اتنے اطمینان بخش جواب دیتے ہیں کہ ان کے ایک ایک پروگرام میں بیسیوں افرادکلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اب تک بلامبالغہ ہزاروں افراد کو مسلمان کرچکے ہیں۔2000 میں شکاگو میں ایک عیسائی مناظر سے ان کے مناظرےکے بعد کئی ہزار افراد نے ان کے ہاتھ پہ اسلام قبول کیا۔

2006 میں ذاکر نائیک کی ملاقات شیخ احمد دیدات سے ہوئی تو شیخ احمد دیدات ان کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ اسی مجلس میں شیخ دیدات نے انھیں “دیدات پلس” کے خطاب سے نوازا۔ ان کی اہلیہ فرحت نائیک اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے ویمن سیکشن کی انچارج ہیں۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک کی شخصیت بعض حوالوں سے تنقید کی زد میں رہتی ہے مثلاً واقعہ کربلا کے تناظر میں ان کا ایک خاص موقف ہے جسے برصغیر کے مذہبی ماحول میں قبول کرنا خاصا مشکل ہے۔ تاہم اسلام کے ابلاغ کے حوالے سے خدمات ان کی متنازعات پہ غالب ہیں۔

نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی ایک ایسا سلگتا موضوع ہے کہ اس بارے میں مین سٹریم سے ہٹ کر کوئی موقف رکھنا دریا کے بہاؤ کے الٹ بہنے کے مترادف ہے۔ عالمی میڈیا ٹوہ میں رہتا ہے کہ مسلم سکالرز کی کوئی دکھتی رگ ہاتھ میں آئے جس کو بنیاد بناکر ان پہ کیچڑ اچھالا جاسکے۔ بالخصوص اسامہ بن لادن کی شخصیت اور اس کے کردار پہ آپ کی وہی بات قبول کی جاسکتی ہے جو امریکہ اور غیر مسلم طاقتوں کے موقف سے ہم آہنگ ہو۔ چند سال قبل ایک انٹرویو میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے اسامہ بن لادن کے بارے میں ان کا موقف دریافت کیا گیا تو انھوں نے اسامہ کو دہشت گرد ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ اسامہ بن لادن سے اس کی زندگی میں کبھی ملے ہی نہیں اور نہ ان کے پاس اس پہ لگائے گئے الزامات کا کوئی ثبوت ہے تو وہ اسے دہشت گرد کیسے مان سکتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ نائن الیون میں اسامہ کے کردار سے انکار کر رہے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ نائن الیون صرف ایک اندرونی ڈرامہ تھا جو جارج بش اور اس کے حواریوں نے مسلمان ممالک پہ حملے کے لیے رچایا تھا۔ اس میں بیرونی عناصر کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔

ایک اور انٹرویو میں ذاکر نائیک سے سوال کیا گیا کہ آیا قرآن میں مسلمانوں کو دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہر مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہیے۔ انھوں نے اس بات کو ایک مثال کے ذریعے واضح کیا کہ جس طرح ایک ڈاکو کے لیے پولیس والے کی دہشت ہوتی ہے اور وہ اس سے مرعوب ہوتا ہے اس طرح ایک مسلمان کی دہشت اتنی ہونی چاہیے کہ سماج مخالف عناصر اس سے خوف زدہ رہیں۔ان معنوں میں انھوں نے ہر مسلمان کو دہشت گرد قرار دیا۔ تاہم انھوں نے اسی گفتگو میں یہ بھی واضح کیا کہ اسلام معصوم افراد کے بہیمانہ قتل کی کسی طور اجازت نہیں دیتا اوراسی وجہ سے وہ خود بھی اس کے مخالف ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے اس بیان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر ملکی و بین الاقوامی میڈیا میں جگہ دی گئی ۔ ایسے ہی بیانات کی بنیاد پہ کینیڈا اور برطانیہ میں ذاکر نائیک کا داخلہ ممنوع قرار پایا اوربھارت نے بھی 2012 میں پیس ٹی وی کی نشریات کو انتہائی قابل اعتراض قرار دے کر ان پہ ملک بھر میں پابندی عائد کر دی۔

حالیہ دنوں میں ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک مرتبہ پھر شہ سرخیوں میں آئے جب رمضان المبارک میں وہ عمرے کے لیے سعودی عرب میں موجود تھے۔ اسی دوران بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ کے ایک کیفے پہ حملے میں کئی غیر ملکی ہلاک ہوگئے۔ چند گرفتاریوں اور تفتیش کے بعد بنگالی حکومت نے دعویٰ کیا کہ ڈھاکہ حملے میں ملوث دہشت گرد ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پیروکار تھے اور وہ ان کے اس بیان سے متاثر تھے کہ مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہیے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے پیس ٹی وی چینل کی نشریات پہ فوری پابندی عائد کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے سفارش کی کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو گرفتار کر کے ان سے تفتیش کرے۔ چونکہ ان دنوں ڈھاکہ اور نئی دہلی میں ویسے ہی گاڑھی چھنتی ہے لہٰذا بھارتی وزارت داخلہ نے فوری طور پہ ایک کمیٹی قائم کرکے اس قضیے کی تحقیقات اس کے ذمے لگائیں۔اس کے ساتھ ساتھ بھارتی سیکرٹری اطلاعات نے اعلان کیا کہ جو کیبل آپریٹرز ابوطبی سے آن ایئر ہونے والی پیس ٹی وی کی نشریات بھارت میں چلائیں گے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اسی دوران ممبئی میں واقع اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے ہیڈ آفس کا محاصرہ کرلیا گیا جو کئی گھنٹے جاری رہا۔ تاہم اس کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں قرار دیا ہے کہ ڈھاکہ کیفے حملے میں ذاکر نائیک کا براہ راست کوئی کردار نہیں ہے۔ وزرات داخلہ اب اس بات کی تحقیق کر رہی ہے کہ کیا فاؤنڈیشن اور پیس ٹی وی کو واقعی بیرونی ممالک بالخصوص سعودی عرب سے امداد ملتی ہے۔

ذاکر نائیک نے مکۃ المکرمہ سے جاری ایک ویڈیو بیان میں ان الزامات پر افسوس کا اظہار کیا اور الزام لگایا کہ انھیں اور ان کے ادارے کو منصوبہ بندی کے تحت پھنسا کر اس کا کردار محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے واضح موقف رکھتے ہیں اور انھوں نے کبھی معصوم شہریوں کے قتل حوصلہ افزائی نہیں کی۔

طرفہ تماشا یہ ہے ایک جانب عالمی میڈیا نے ذاکر نائیک کی پریس کانفرنس کی کوریج کرنے سے معذرت کرکے ان کا موقف دنیا تک پہنچانے سے انکار کیا ہے تو دوسری جانب چند نادان مسلمان فرقہ وارانہ منافرت کو بنیاد بنا کر ذاکر نائیک کے خلاف عالمی پروپیگنڈے کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو ممبئی کی ایک بڑی جامع مسجد کے علماء نے نماز جمعہ کے بعد ایک مظاہرے کا اہتمام کیا۔ ا س مظاہرے کے دوران ڈاکٹر ذاکر نائیک کی قد آدم تصاویر پہ گوبر اور جوتے اچھال کر ان سے نفرت کا اظہار کیا گیا۔ اسی طرح بھارت کی ایک تنظیم حسینی ٹائیگرز نے ذاکر نائیک کے سر کی قیمت پندرہ لاکھ روپے مقرر کر دی ہے۔ان واقعات کی آڑ میں فرقہ پرستوں کو ذاکر نائیک کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع تو مل گیا ہے تاہم انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ

؎چراغ سبھی کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں

http://daleel.pk/2016/07/14/1351
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام مخالفین کیلئے کھل نائیک :

ظہیر تاج

ڈاکٹر ذاکر نائیک اس وقت عالم اسلام کی چند مشہور ترین شخصیات میں سے ہیں. وہ اپنی اعلٰی خدمات کے حوالے سے کئی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں, بہت سے عالمی فورمز پر وہ لیکچرز دے چکے ہیں جن میں ڈاکٹر ولیم کے ساتھ مکالمہ, ڈاکٹر لکشمی کے ساتھ ویجیٹیرین اور نان ویجیٹیرین فوڈ پر مکالمہ, قرآن اور سائنس پر لیکچر, مختلف مذاہب کی آسمانی کتابوں میں رسول اللہ کے آنے کی بشارت, polygamy, خدا کا وجود قرآن سے ثابت کرنا, اپنے لیکچرز میں سوال و جواب میں خاص طور پر غیر مسلموں کے سوالوں کو جواب دینا اور آکسفورڈ یونین جیسے فورم پر خطاب کرنا شامل ہیں. ان کے لیکچرز اور خدمات کی فہرست بہت طویل ہے لیکن یہ صرف تمہید ہے اور اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ برادر ثاقب سے یہ سوال کہ علم, فہم اور حکمت کا معیار کیا ہے کیونکہ ان کی تحریر میں ڈاکٹر ذاکر نائیک ان تینوں صفّات سے عاری شخص ہیں. میرے خیال میں یہ ایک sweeping statement ہے. میں یہ کہوں گا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک علم,فہم اور حکمت کا مجسم ہیں,آگے چل کر میں اپنی تحریر میں اس کے حق میں دلائل دوں گا. سب سے پہلے علم پر بات کرتے ہیں. ڈاکٹر صاحب ایک وقت میں قرآن, حدیث, انجیل, ہندو مت اور دوسرے مذاہب کی کتابوں پر عبور رکھتے ہیں, وہ اپنے لیکچرز میں amrbriology, astronomy , میڈیکل سائنس, Statistics کا حوالے دیتے ہیں اور ان سب علوم کا ماخذ قرآن ہے. علم کا اور معیاّر کیا ہے ؟

اب ان کی حکمت کی طرف آتے ہیں یہ ان کی حکمت ہے کہ ایک ہندو انتہا پسند معاشرے میں انہی کے مذہب کو چیلنج کر رہے اور کامیابی سے دعوت اسلام کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں. ان کا مکالمہ ہندو سکالرز سے ہوتا ہے جس میں وہ ان کے مذہب کے اوپر سوالیہ نشان کھڑا کر دیتے ہیں. یہ حکمت نہیں تو اور حکمت کس بلا کا نام ہے؟ وہ ایک لیکچر میں دہشتگردی کے اسباب پر بات کرتے ہیں اور ان کے عدل و انصاف کے نظام پر کڑی تنقید کرتے ہیں. کیا یہ بھی حکمت نہیں؟

برادر ثاقب نے ڈاکٹر صاحب کے تقابل ادیان یا comparative religions پہ بات کرنے کو فضول قرار دے دیا. لیکن میرے خیال میں یہ ان کا بہت ہی اہم کام ہے. سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا مخاطب (audience) کون ہے. ان کا مخاطب ہے ہندو, یورپ میں بسنے والے عیسائی اور یہودی. خاص طور پر ایک ہندو معاشرے میں اسلام کو قابل قبول بنانے کے لئیے بہت ضروری ہے. ان کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلام بھی دوسرے آسمانی مذاہب کی طرح ایک مذہب ہے. اگرچہ یہ بات موضوع سے ہٹ کر ہے کہ انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد ہی تقابل ہے کہ انسان اپنے نقلی خداؤں کا اصل خالق سے تقابل کرے اور اس تک پہنچ جائے. تو ڈاکٹر صاحب یہی کام کر رہے اور اس سلسے میں رہنما ہیں.

ایک اور اعتراض یا آبزرویشن ثاقب بھائی ان کو ڈاکٹر صاحب کے نظریات, کلام یا دعوت میں اللہ کی الفت نظر نہیں آتی میرے خیال ڈاکٹر صاحب منطق اور دلیل سے بات کرنے والے شخص ہیں اس منطق کا مقصد ہی خدا کا وجود ثابت کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا ہے . تو جناب آپ تھوڑا حسن ظن رکھیں کہ وہ یقیناً اللہ سے محبت رکھتے ہوں گے. ویسے بھی میرا یہ خیال ہے کہ کسے کے بارے میں اس حوالے سے Judgemental نہیں ہونا چاہیے.

ایک اعتراض اسامہ بن لادن کے حوالے سے ہے کہ وہ شاید اسامہ کی حمایت کرتے ہیں. 9/11 کے حوالے سے بہت سی سازشی تھیوریاں مختلف لوگوں نے دی ہیں ڈاکٹر صاحب ان تھیوریز کا حوالہ دیتے ہیں اور کوئی حتمی رائے نہیں دی,ہاں آپ کی اور میری رائے مختلف ہو سکتی ہے.

کچھ بات ڈاکٹر صاحب کی ذاتی خوبیوں کی ہو جائے :

سب سے غیر معمولی ان کی یاداشت ہے, ان کی بہترین کمیونیکشن سکل اور حاضر جوابی. بہت اعلٰی بات یہ ہے کہ یہ سب صلاحیتیں انہوں نے آگے منتقل کی ہیں اور کمیونیکشن سکلز کو باقاعدہ سائنس کا درجہ دیا ہے. آپ کے کسی مولوی حضرت یا سکالرز نے یہ کام نہیں کیا بلکہ ان کا سارا علم اور صلاحیتیں ان کی اپنی ذات سے شروع کہ انہی پہ ختم ہو جاتی ہیں. ڈاکٹر صاحب ایک بہترین منتظم بھی ہیں انہوں نہ ایک ادارہ اسلامک ریسرچ فائنڈیشن بنایا ہے اور اسی کے ساتھ peace tv شروع کیا یعنی وہ دور حاضر کی ٹیکنالوجی کو بہترین انداز میں استعمال کر رہے ہیں.ڈاکٹر صاحب کے لیکچرز میں ایک خاص نظم نظر آتا ہے, ٹائم مینجمینٹ, سوال و جواب کا سلسلہ جبکہ ہمارے ہاں اکثر علماء کے ہاتھ میں جب مائک آتا ہے تو پھر گھنٹوں ان کو بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا چاہے سامنے والے اونگھ رہے ہوں. مجھے یاد ہے کہ ہم بچپن میں مٹھائی کھانے کے چکر میں ساری رات مولوی صاحب کا بیان سنتے رہتے تھے. ڈاکٹر صاحب کا لیکچر وقت پر شروع ہوتا ہے, وقت پر سوال و جواب کا سیشن اور ٹائم پہ چھٹی. اس کے علاوہ ماحول اور ساؤنڈ سسٹم بھی بہت اعلٰی معیار کا ہوتا ہے. ڈاکٹر صاحب اپنے لیکچرز میں مسلمانوں کو تلقین کرتے ہیں کہ ان کو اپنی شناخت پہ فخر کرنا چاہیے اور معذرت خوانہ روّیہ نہیں اختیار نہیں کرنا چاہیے. مجھے تو عصر حاضرکے سکالرز میں کوئی اور شخصیت نظر نہیں آتی جس کے کریڈٹ پر اتنی achievements ہوں.

http://archereye.com/ڈاکٹر-ذاکر-نائیک-اسلام-مخالفین-کیلئے-ک/
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
هر شخص آزاد هے ، اپنی نا صرف یہ کہ رائے رکهتا هے بلکہ اس رائے کو لوگوں کے سامنے پیش بهی کرتا هے۔ ہم اشخاص کو انکے کلام ، انکی تحاریر اور سب سے بڑهکر ان کے اسلوب سے پہچانتے ہیں ۔
 
Top