• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈاکٹر طاہر القادری کا تصوّرِ بدعت:’بدعتِ حسنہ‘ کے جواز پر دیئے گئے دلائل کاجائزہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ڈاکٹر طاہر القادری کا تصوّرِ بدعت

[’بدعتِ حسنہ‘ کے جواز پر دیئے گئے دلائل کاجائزہ]​
محمدآصف ہارون​
نوٹ:
معزز قارئین ’بدعتِ حسنہ‘ کے جواز پر دیئے گئے دلائل کاجائزہ‘ کےنام سے آرٹیکل ریڈ کرنے سے پہلے ڈاکٹر طاہر القادری کا یہ مضمون ’’ڈاکٹر طاہر القادری کا تصوّرِ بدعت: اَز روئے تحسین و تقبیح تقسیم بدعت کاجائزہ‘‘ ضرور ریڈ فرمالیں۔
’’ از روئے تحسین و تقبیح تقسیم بدعت کا جائزہ‘‘ نامی تھریڈ میں ہم نے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی ’’ از روئے تحسین و تقبیح تقسیم بدعت کا جائزہ‘‘ قارئین کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔ زیرنظر مضمون میں ہم ڈاکٹر صاحب کے ’’بدعت حسنہ‘‘ کے جواز پردیئے گئے چند دلائل کا جائزہ پیش کریں گے۔
پہلی دلیل
ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں:
’’تقسیم بدعت پر استدلال کے لئے حضورﷺ کا درج ذیل فرمان نہایت اہم ہے …
"مَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة فَعَمِلَ بِھَا بَعْدَہُ کُتِبَ لَہُ مِثْلَ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَا یُنْقَصُ مِنْ أُجُوْرِھِمْ شَیْئٌ وَمَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة سَیِّئَة فَعَمِلَ بِھَا بَعْدَہُ کُتِبَ عَلَیْہِ مِثْلَ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَا یُنْقَصُ مِنْ أَوْزَارِھِمْ شَیْئٌ"
’’جس شخص نے مسلمانوں میں کسی نیک طریقہ کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پرعمل کیا گیا تو اس طریقہ پرعمل کرنے والوں کا اجربھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہوگی، اور جس شخص نے مسلمانوں میں کسی برے طریقے کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اَعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘ [اَقسام بدعت: ص۷۱،۷۲]
اَب ہم مذکورہ حدیث کے ضمن میں کی گئی ڈاکٹر صاحب کی تشریح و توضیح میں سے چند اِقتباسات نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں تاکہ حقائق کو سمجھنے میں کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’اس حدیث میں لفظ سَنَّ لغوی معنی کے اعتبار سے ’ابدع‘ کے ہم معنی ہے یعنی جس نے اسلام میں کوئی اچھی (نئی) راہ نکالی تو اس کو اس کا اجر ملے گا یہاں سے ’بدعت حسنہ‘کا تصور اُبھرتا ہے۔‘‘ [میلاد النبی: ص۷۳]
گویا ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ’سنت لغوی‘ اور ’بدعت لغوی‘ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔
چنانچہ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’جس طرح بدعت کی دو قسمیں ہیں بدعت لغوی اور بدعت شرعی، اسی طرح سنت کی بھی دو قسمیں ہیں۔ سنت شرعی اور سنت لغوی، سنت شرعی سے مراد سنت رسولﷺ اور سنت خلفاء راشدین رض ہے اور جو سنت شرعی نہیں صاف ظاہر ہے وہ سنت لغوی ہوگی۔ سنت لغوی سے مراد نیا کام، نیا عمل، کوئی نیا طریقہ اور نیا راستہ ہے۔ اَئمہ اور محدثین نئے کام اور نئے عمل کو بدعت بھی کہتے ہیں اس طرح آپ سنت لغوی کو بدعت لغوی بھی کہہ سکتے ہیں۔‘‘ [اَقسام بدعت: ص۷۴]
پھر ایک اور حدیث " مَنْ سَنَّ سُنَّة خَیْرٍ … وَمَنْ سَنَّ سُنة شَرٍّ…"کے تحت لکھتے ہیں:
’’یہاں سنت سے مراد سنت شرعی نہیں بلکہ سنت لغوی ہے۔ورنہ یہ تقسیم نہ ہوتی، کیونکہ سنت شرعی کبھی ’شر‘ نہیں ہوسکتی وہ خیر ہی خیر ہوتی ہے، لہٰذا یہاں’سنت خیر‘ سے مراد کوئی نیا کام، کوئی اُسوہ اور کوئی اچھا طریقہ مراد ہے پس ثابت ہوا کہ جب سنت شرعی مراد نہ رہی تو نئے کام کی وجہ سے اُسے بدعت کہیں گے ۔ دوسرے لفظوں میں اسے بدعت خیر اور بدعت شر بھی کہہ سکتے ہیں اور آنے والے زمانوں میں سنت خیر یا بدعت خیر کے اِجراء اور پھراس پر عمل کرنے والوں کو حضورﷺ نے اَجر کی نوید سنائی ہے۔‘‘ [اَقسام بدعت: ص۸۳]
ایک اور مقام پر اوّل الذکر حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
’’اب اس حدیث کی رو سے اچھا نیا راستہ نکالنا بدعت ِحسنہ ہوگیا، لہٰذا ثابت ہوا بدعت حسنہ کی اصل سنت حسنہ ہے، کیونکہ ہر بدعت حسنہ اپنی اصل میں سنت ہے۔‘‘ [اَقسام بدعت: ص۷۵]
جائزہ
مذکورہ اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک …
٭ سنت لغوی اور بدعت لغوی میں کوئی فرق نہیں دونوں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔
٭ سنت لغوی اچھی بھی ہوتی ہے اور بُری بھی ہوتی ہے۔
٭ جب سنت شرعی نہ ہوگی تو اسے بدعت کہیں گے۔
٭ بدعت حسنہ کی اصل سنت حسنہ ہے۔
٭ بدعت حسنہ اصلاً سنت ہے۔
اب ہم ان تمام اُمور پر تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہیں:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
1۔کیا سنتِ لغوی اور بدعتِ لغوی میں کوئی فرق نہیں؟
لغت سے تھوڑی سی جان پہچان رکھنے والا سنت ِلغوی اور بدعتِ لغوی میں ضرور فرق کرے گا، کیونکہ سنت اور چیز ہے اور بدعت لغوی اور چیز۔ سنت لغوی کو بدعت لغوی کہہ کر اس کے ساتھ’نئے پن‘ کا اِضافہ کرنے کو ڈاکٹر صاحب کا تجاہل عارفانہ تو کہہ سکتے ہیں مگر علمی کارنامہ ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ چنانچہ لغت کے مشہور و معروف امام ابن منظور لغوی سنت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’والأصل فیہ الطریقة والسیرة‘‘ [لسان العرب:۱۳؍۲۲۵]
’’سنت لغوی کو اصل میں طریقہ اور سیرت کہتے ہیں۔‘‘
٭ امام جرجانی لکھتے ہیں:
’’السنة فی اللغة السیرة مرضیة کانت أو غیر مرضیة‘‘
آگے لکھتے ہیں: ’’السنۃ لغۃ العادۃ‘‘ [التعریفات:ص۱۲۲]
’’لغت میں سنت کو سیرت کہتے ہیں خواہ وہ اچھی ہو یا بُری ہو اور اسے عادت بھی کہتے ہیں۔‘‘
کویت سے ۴۵ ضخیم جلدوں میں شائع ہونے والے فقہی انسائیکلو پیڈیا میں مرقوم ہے:
’’السنة فی اللغة: الطریقة والعادة والسیرة حمیدة کانت أم ذمیمة والجمع سنن وفی الحدیث: من سنّ فی الإسلام سنة حسنة فلہ أجرھا وأجر من عمل بھا بعدہ من غیر أن ینقص من أجورھم شیء ومن سنّ فی الإسلام سنة سیئة فعلیہ وزرھا ووزر من عمل بھا بعدہ من غیر أن ینقص من أوزارھم شئ‘‘ [الموسوعۃ الفقہیۃ:۲۵؍۲۶۳]
’’لغت میں سنت سے مراد طریقہ، عادت اور سیرت ہے جواچھی ہو یا بری اور اس کی جمع سنن ہے۔ حدیث میں موجود ہے جس نے اسلام میںاچھا طریقہ جاری کیا تو اس کو اپنے عمل کا بھی اجر ملے گا اور بعد میں اس پر عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی اجر ملے گا اور ان عاملین کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں برا طریقہ جاری کیا تو اس کو اپنے عمل کا بھی گناہ ملے گا اور بعد میں اس پر عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی گناہ ملے گااور ان عاملین کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘
اردو دائرہ معارف اِسلامیہ میں مرقوم ہے:
’’سنت ؛بمعنی طریقہ، نہج، سیرت، راستہ وغیرہ متعدد معنوں میں مستعمل رہا ہے، لسان العرب میں بذیل مادہ ’سنن‘ طویل تفصیل دی گئی ہے اچھا طریقہ اور بُرا طریقہ مندرجہ ذیل حدیث میں سنت کے دونوں (لغوی) معنی مراد لئے گئے ہیں۔‘‘
من سنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة … وَمَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة سَیِّئَة…
’’جس نے اسلام میں ایک اچھا طریقہ رائج کیا اور اس کے بعد اس پر عمل ہوا تو اس کیلئے ان تمام لوگوں جیسا اجر لکھا جائے گا جنہوں نے اس پر عمل کیا اور ان کے اجر میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی اور جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا اور اس کے بعد اس پر عمل ہوا تو اس پر ان تمام لوگوں جیسا گناہ لکھا جائے گا جنہوں نے اس پر عمل کیا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہوگی۔‘‘[ اردو دائرہ معارف اسلامیہ :۱۱؍۳۹۲]
مذکورہ بالا تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ سنت لغوی سے مراد اچھا یا برا طریقہ، سیرت، راستہ، نہج اورعادت ہے جب کہ ڈاکٹر صاحب کی سنت لغوی کی تعریف یہ ہے’’نیا کام، نیا عمل، کوئی نیا طریقہ اور نیا راستہ‘‘ اَرباب فکرودانش اور اَصحاب علم و فضل اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے سنت لغوی کی تعریف میں اپنی طرف سے لفظ ’نیا‘ لگا کر ’نئے پن‘ کا اضافہ کیا ہے اور اسی اضافہ کی بنیاد پر انہوں نے سنت لغوی کو بدعت لغوی قرا ردے کر ’سنت حسنہ‘ کو ’بدعت حسنہ‘ سے موسوم کیا ہے جبکہ ائمہ لغت وغیرہم نے اس ’نئے پن‘ کا سنت لغوی کے ساتھ اضافہ نہیں کیا۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحب کی سنت لغوی کی تعریف اَئمہ لغت کی سنت لغوی کی تعریف کے مخالف ہونے کی وجہ سے مرجوح ہے۔ اگر ڈاکٹر صاحب کی سنت لغوی کی تعریف کودرست تسلیم کیا جائے تو پھر لازم آتا ہے کہ ائمہ لغت وغیرہم سنت لغوی کی تعریف کچھ یوں کرتے’’الطریقة الجدیدة،السیرة الجدیدة،العادة الجدیدة، الطریق الجدید،اور النہج الجدید‘‘ چونکہ اَئمہ لغت وغیرہم نے ایسا نہیں کیا۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحب کی تعریف غلط ثابت ہوئی جب ڈاکٹر صاحب کی سنت لغوی کی تعریف ہی ائمہ لغت کی سنت لغوی کی تعریف کے مخالف ہے تو پھر ڈاکٹر صاحب کی بدعت لغوی کی تعریف اَئمہ لغت کی سنت لغوی کی تعریف کے کیوں کر مخالف نہ ہوگی؟
بدعت لغوی کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب راقم ہیں:
’’بدعت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’بدع‘ سے مشتق ہے اس کا معنی کسی سابقہ مادہ، اصل، مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ہے دوسرے لفظوں میں کسی شے کو نیست سے ہیست کرنے اور عدم محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ’ابداع‘ کہتے ہیں۔‘‘ [لفظ بدعت کا اطلاق: ص۱۷]
دوسری جگہ رقمطراز ہیں:
’بدعت‘ عربی زبان کالفظ ہے جو بدع سے مشتق ہے اس کا معنی ہے ’’اخترعہ وضعہ لا علی مثال‘‘ نئی چیز اِیجاد کرنا اور اسے نیا بنانا کہ اس کی مثل چیز کا پہلے وجود نہ ہو۔‘‘
موصوف حافظ ابن حجر عسقلانی رح کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بدعت کی لغوی تعریف یہ کی ہے:
’’البدعة أصلھا ما أحدث علی غیر مثال سابق‘‘
’’بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو۔‘‘
امام ابن حجر مکی رح کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:
’’آیت مذکورہ {بَدِیْعُ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ} کاحوالہ دیتے ہوئے امام ابن حجر مکی رح بدعت کا لغوی مفہوم واضح کرتے ہیں: ’’البدعة لغة ما کان مخترعا علی غیر مثال سابق ومنہ ’’بدیع السموات والأرض‘‘ أی موجدھما علی غیر مثال سابق۔‘‘
’’بدعت لغت میں اس نئے کام کو کہتے ہیں جس کی مثال پہلے موجود نہ ہو (جس طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی شان تخلیق کے متعلق فرمایا گیا) ’’آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا‘‘ یعنی زمین و آسمان کو بغیر کسی سابقہ مثال کے (پہلی مرتبہ) پیدا فرمانے والا۔‘‘
چنانچہ آخر میں فیصلہ کن بات لکھتے ہیں:
’’ان آیات مبارکہ سے بدعت کا لغوی معنی خوب واضح ہوگیا ہے جس سے معلوم ہواکہ ہر وہ نئی چیز بدعت کہلاتی ہے جس کی مثل پہلے سے موجود نہ ہو۔‘‘ [میلاد النبی :ص۸۵۔۷۴۔۶۷۳]
ڈاکٹر صاحب کی بدعت لغوی کے بارے میں مذکورہ بالا تصریحات سے ہی یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ سنت لغوی اور بدعت لغوی میں ویسے ہی فرق ہے جیسے دن اور رات میں ہے، زمین اور آسمان میں ہے اور مشرق اور مغرب میں ہے۔
چنانچہ سنت لغوی اور بدعت لغوی میں دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا کہ سنت لغوی کو آپ بدعت لغوی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کی اپنی من مانی تعبیر اور مبنی بر جہالت موقف ہے جس کی اہل لغت اور اہل علم کے ہاں کوئی وقعت نہیں ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2-سنت لغوی اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی۔اس کے ہم قائل ہیں اور سنت لغوی کا اچھا یا برا ہونا حدیث سے ثابت ہے جیسا کہ فرمان نبویﷺہے:
"مَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة… وَمَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنة سَیِّئَة…" [صحیح مسلم:۲۳۵۱] اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث میں’سنت حسنہ‘ اور ’سنت سیئہ‘ سے لغوی سنت مراد ہے جو اچھی بھی ہوتی ہے اور بری بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا سنت لغوی کے حسن و قبح ہونے میں ہمارااور ڈاکٹر صاحب کا موقف ایک ہی ہے۔
3-جب ’سنت ‘ شرعی نہ ہوگی تو اسے بدعت کہیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ موقف بالکل غلط ہے کیونکہ جو سنت شرعی نہ ہوگی اس کو سنت لغوی پر محمول کیا جائے گا۔ جیسا کہ یہ حدیث مبارکہ اس بات پر شاہد ہے: " مَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة… وَمَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة سَیِّئَة…" یہاں ’سنت‘سے سنت شرعی مراد نہیں ہے لیکن ہم اس کو بدعت نہیںکہہ سکتے بلکہ سنت لغوی کہیں گے، کیونکہ بدعت اور سنت لغوی میں زمین آسمان کا سا فرق ہے، جیسا کہ پیچھے ذکر ہوچکاہے۔
ڈاکٹر صاحب نے جس بنیاد پر سنت لغوی کو بدعت لغوی کہا ہے جب وہ بنیا دہی کھوکھلی ہے تو پھر ڈاکٹر صاحب کا اس قدر اصرار کیوں ہے کہ جو سنت شرعی نہ ہوگی وہ بدعت ہوگی۔ وجہ صرف ایک ہے کہ وہ بدعت حسنہ کا سہارا لے کر اپنی تمام مروجہ بدعات (ضلالہ وسیئۃ) کو سند جواز دینا چاہتے ہیں تاکہ ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل ہوسکے۔ حالانکہ ڈاکٹر صاحب خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ مذکورہ حدیث میں ’’سنت حسنہ‘‘ اور ’’سنت سیئہ‘‘ سے مراد سنت لغوی ہے، لکھتے ہیں:
’’اگر کچھ تعمق اور تفکر سے کام لیا جائے تو یہ واضح ہوجائے گا کہ یہاں لفظ ’’سنت‘‘ سے مراد سنت شرعی نہیں بلکہ سنت لغوی ہے گویا لفظ بدعت کی طرح لفظ سنت کا اطلاق دو طرح پر ہے اگر مَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّةسے مراد یہاں پر شرعی معنی میں سنت رسولؐ یا سنت صحابہؓ ہو تو اسے سُنَّة حَسَنَة اور سُنَّة سَیِّئَة میں ہرگز تقسیم نہ کیا جاتا، کیونکہ سنت رسولؐ تو ہمیشہ حسنہ ہی ہوتی ہے اس کے سیئہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ [لفظ بدعت کا اطلاق: ص۱۴۲]
جیسے سنت ِرسول ہمیشہ حسنہ ہوتی ہے اس کے سیئہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بالکل ایسے ہی بدعت بھی ہمیشہ سیئہ ہوتی ہے اس کے حسنہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لئے ’’نعمة البدعة ھذہ‘‘کے قول کو ہم بدعت لغوی پر ہی محمول کریں گے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ سنت لغو ی کو بدعت لغوی یا بدعت حسنہ پر محمول کرنا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔
4-بدعت حسنہ کی اصل سنت حسنہ ہے۔
5-بدعت حسنہ اصلاً سنت ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ سنت حسنہ کسی لحاظ سے بھی بدعت حسنہ کی اصل نہیں بنتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب ڈاکٹر صاحب کے نزدیک بدعت حسنہ کی اصل سنت حسنہ ہے اور بدعت حسنہ کو اصلاً سنت بھی کہہ سکتے ہیں توپھر آپ براہ راست ’’سنہ حسنہ‘‘ کو بدعت حسنہ کہہ کر سنت حسنہ کا ترجمہ بدعت حسنہ میں کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟ اور بدعت حسنہ کو سنت رسول قرار دینے سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟ لہٰذا ڈاکٹر صاحب کوچاہئے تھا کہ مذکورہ حدیث " مَنْ سَنَّ فِیْ الِاسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة… وَمَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة سَیِّئَة "کا ترجمہ اس طرح کرتے: ’’جس نے اسلام میں بدعت حسنہ ایجاد کی اور جس نے اسلام میں بدعت سیئہ ایجاد کی… وغیرہ لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہ ترجمہ کہیں بھی نہیں کیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی تردد و احتمالات کا شکار ہیں۔لہٰذا ڈاکٹر صاحب کو ہچکچاہٹ سے نکل کر اپنی مروجہ بدعات جو کہ ضلالہ و سیئہ ہیں ان کو بدعات حسنہ کہنے کے بجائے سنن رسول کہنا چاہئے اس لئے کہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک بدعت حسنہ اپنی اصل میں سنت ہے، لیکن پھرنہ جانے کون سی چیز ہے جو ڈاکٹر صاحب کو ایسا کرنے سے مانع ہے؟ تیسری بات یہ ہے کہ جب بدعت حسنہ اصلاً سنت ہے پھر آپ اُس کو بدعت حسنہ کیوں کہتے ہیں۔ براہ راست اس کو سنت سے موسوم کیوںنہیںکرتے کیونکہ سنت بہرحال بدعت حسنہ سے اچھا اور جامع لفظ ہے اس کے علاوہ اگر آپ بدعت حسنہ کہیں گے تو عین ممکن ہے کہ بعض لوگ بدعت حسنہ کے جواز کے قائل نہیں ہوں گے لیکن جب آپ بدعت حسنہ کو سنت کہیں گے تو بھلا سنت کا کون انکاری ہوگا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قارئین کرام!
ہماری مذکورہ بالا گذارشات سے یہ بات کافی حد تک واضح ہوگئی ہو گی کہ مذکورہ حدیث " مَنْ سَنَّ فِیْ الِاسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة…" سے کسی لحاظ سے بھی بدعت حسنہ کے جواز پر دلیل و اصل نہیں پکڑی جاسکتی۔اس کی مزید تفصیل حسب ذیل ہے:
1-قرآن حکیم کی کسی آیت یا رسول کریمﷺ کی کسی حدیث کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کے لئے سیاق وسباق کابہت حد تک عمل دخل ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ}کہ نمازیوں کے لئے ہلاکت و بربادی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کا خود حکم دیا ہو پھر خود ہی اس پر ہلاکت و بربادی کی وعید شدید سنائی ہو؟ لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں وہ یہ کہ جب ہم اس آیت کریمہ کے سیاق و سباق پرنظر ڈالتے ہیں تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ وعید شدید ان کیلئے ہے جن میں حسب ذیل خامیاں ہوں گی۔
{اَلَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ اَلَّذِیْنَ ھُمْ یُرَائُ ونَ وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ}[الماعون :۵،۷]
’’(پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لئے) جو اپنی نمازوں سے غفلت برتتے ہیں جو ریا کاری کرتے ہیں اور ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘
لہٰذا جب ہم مذکورہ حدیث کے سیاق و سباق کو دیکھتے ہیں تو یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ اس حدیث میں بدعت حسنہ کا جواز پکڑنے والوں کی تعبیر و تفسیر دُھنی ہوئی روئی کی مانند رہ جاتی ہے متن حدیث پیش خدمت ہے:
’’عن جریر بن عبد اﷲ قال: کُنَّا عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ! فِیْ صَدْرِ النَّہَارِ، قَالَ فَجَائَ ہُ قَوْمٌ حُفَاۃٌ عُرَاۃٌ مُجْتَابِیْ النِّمَارُ أَوِ الْعَبَائُ،مُتَقَلِّدِیْ السُّیُوْفِ،عَامَّتُھُمْ مِنْ مُضَرَ، بَلْ کُلُّھُمْ مِنْ مُضَرَ، فَتَمَعَّرَ وَجْہُ رَسُوْلِ اﷲِ! لِمَا رَأی بِھِمْ مِنَ الْفَاقَة فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ،فَأمَرَ بِلَالًا،فَأذَّنَ وَأَقَامَ فَصَلّٰی،ثُمَّ خَطَبَ،فَقَالَ{یٰاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَة، إلی آخیر الآیۃ إنَّ اﷲَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا} والآیة التی فی الحشر: { اتَّقُوْا اﷲَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوْا اﷲَ} تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِیْنَارِہِ مِنْ دِرْھَمِہِ مِنْ ثَوْبِہِ مِنْ صَاع بُرِّہِ مِنْ صَاعِ تَمْرِہِ۔ حَتّٰی قَالَ۔ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَة قَالَ: فَجَائَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ بِصُرَّۃٍ کَادَتْ کَفُّہُ تَعْجِزُ عَنْھَا بَلْ قَدْ عَجَزَتْ قَالَ:ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ، حَتَّی رَأیْتُ کَوْمَیْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِیَابٍ،حَتّٰی رَأیْتُ وَجْہَ رَسُوْلِ اﷲِ! یَتَھَلَّلُ کَأَنَّہُ مُذْھَبَة فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ! "مَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة فَلَہُ أَجْرَھَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا بَعْدَہُ مِنْ غَیْرِ أنْ یَنْقُصَ مِنْ أجُوْرِھِمْ شَیْئٌ وَمَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة سَیِِّئَة کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أنْ یَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِھِمْ شَیْئٌ" [صحیح مسلم :۱۰۱۷)
’’سیدنا جریر بن عبداللہ﷜ سے مروی ہے کہ ہم شروع دن میں رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ پس کچھ لوگ ننگے پیر، ننگے بدن، گلے میں چمڑے کی عبائیں پہنے اور اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے آئے۔ ان کی اکثریت بلکہ سب قبیلہ مضر سے تھے۔ اُن کے اس فقر وفاقہ کو دیکھ کر رسول اللہﷺ کا چہرہ مبارک (غصے سے) بدل گیا۔ اسی (پریشانی) میں آپ اندر داخل ہوئے پھر باہر نکلے پس بلال﷜ کو اذان کا حکم دیا، بلالؓ نے اذان کہی اور اقامت کہی پس آپﷺ نے نماز پڑھی پھر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا
{یٰاَیُّھَا النَّاسُ……} ’’لوگوں، اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلادیئے، اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو، یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہاہے۔‘‘
اور پھر سورہ الحشر کی یہ آیت پڑھی
{اتَّقُوْا اﷲَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ……} ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا سامان کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو…‘‘
کسی نے دینار دیا، کسی نے درہم دیا ، کسی نے کپڑے دیئے، کسی نے صاع گیہوں کا دیا، کسی نے صاع کھجور کا دیا حتیٰ کہ آپﷺ نے فرمایا اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی خرچ کرو، پھر انصار میں سے ایک آدمی کھجوروں کی ایک بوری لایا، قریب تھا کہ اس کا بازو تھک جاتا بلکہ تھک گیا تھا۔ جریر﷜ فرماتے ہیں پھر دیکھا دیکھی لوگوں نے بھی تار باندھ دیا حتیٰ کہ میں نے کھانوں اور کپڑوں کے دو ڈھیر دیکھے حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کا چہرہ مبارک چمکنے لگا گویا کہ وہ سونے کا تھا پھر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے لئے اپنے عمل کا بھی اجر ہوگا اور اس کے بعد جو اس پر عمل پیرا ہوں گے ان کا اجربھی اس کو ملے گا اور ان کے اجور میں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں بُرا طریقہ جاری کیا تواس کو اس کے عمل کا گناہ بھی ملے گا اور اس کے بعد جو اس بُرے طریقے پر عمل پیرا ہوں گے ان کے گناہ بھی اس کو ملیں گے اور ان کے گناہوں میں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی۔‘‘
اگر مذکورہ حدیث کے سیاق و سباق اور سبب میں تھوڑا سا تعمق اور تفکر کیا جائے تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اس واقعہ میں انصاری صحابی نے صدقہ کو جاری کیا تھا اور صدقہ تو بذات خود مشروع امر ہے کیا اس صحابی کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ اس نے بدعت حسنہ کو ایجادکیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب کو غوروفکر کرنا چاہئے کہ رسول اللہﷺ نے "مَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة "کس موقع پر ارشاد فرمایا ہے اور آپ کے اس فرمان کا سبب اور سیاق و سباق کیا تھا؟
بات واضح ہے کہ نبی کریمﷺ نے پہلے صدقہ پر ترغیب دی پھر اس انصاری صحابی نے کھجوروں کی بوری صدقہ کردی گویا کہ صدقہ جو مشروع امر تھا اس کو اس صحابی نے اپنے عمل وفعل کے ساتھ جاری کیا پھر لوگوں نے اس صحابی کی اتباع کی۔ لہٰذا یہ واقعی ’سنت حسنہ‘ اچھا طریقہ تھا لیکن اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ اس صحابی نے اپنے طر ف سے طریقہ اختراع کیا اور وہ بدعت حسنہ بن گئی بلکہ اس صحابی نے تو ایک مشروع امر کو عملی شکل دے کر جاری کیا تھا۔
امام شاطبی رح فرماتے ہیں:
’’لیس المراد بالحدیث الاستنان بمعنی الاختراع،وإنما المراد بہ العمل بما ثبت بالسنة النبویة وذلک لوجھین: أحدھما: أن السبب الذی جاء لأجلہ الحدیث ھو الصدقة المشروعة … حتی بتلک الصرة فانفتح بسببہ باب الصدقة علی الوجہ الأبلغ فسرّ رسول اﷲ! حتی قال:"مَنْ سَنَّ فِیْ الإِسْلَامِ سُنَّة حَسَنَة " فدل علی أن السنة ھاھنا مثل ما فعل ذلک الصحابی، وھو العمل بما ثبت کونہ سنة فظھر أن السنة الحسنة لیست بمبتدعة والوجہ الثانی،أن قولہ: من سن سنة حسنة… ومن سن سنة سیئة، لایمکن حملہ علی الإختراع من أصل، لأن کونھا حسنة أو سیئة لایعرف إلا من جھة الشرع،لأن التحسین والتقبیح مختص بالشرع لا مدخل للعقل فیہ وھو مذھب جماعة أھل السنة وإنما یقول بہ المبتدعة ، أعنی التحسین والتقبیح بالعقل،فلزم أن تکون ’السنة‘ فی الحدیث: إما حسنة فی الشرع وإما قبیحة بالشرع،فلا یصدق إلا علی مثل الصدقة المذکورۃ وما أشبھھا من السنن المشروعة‘‘ [مأخوذ من البدعۃ وأثرھا السیئ فی الأمۃ: ص۷۰ والإعتصام: ۱؍ ۱۸۲]
مذکورہ حدیث میں استثنان (سنت) اِختراع و اِبتداع (بدعت) کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ایسا عمل ہے جو سنت نبویہ سے ثابت ہو (یعنی مشروع ہو) اور اس کی دو وجوہات ہیں پہلی یہ کہ وہ سبب جس کی وجہ سے یہ حدیث وارد ہوئی ہے وہ مشروع صدقہ تھا۔ حتیٰ کہ انصاری صحابی نے کھجوروں والی بوری کے ساتھ صدقہ کیا پس اس کے سبب سے اعلیٰ صورت میں صدقہ کا دروازہ کھل گیا اور رسول اللہﷺ کو خوشی ہوئی حتیٰ کہ آپؐ نے فرمایا:
’’جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا‘‘
پس یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہاں سنت صحابی کے فعل و عمل کے مثل ہے اور وہ عمل بذاتِ خود سنت سے ثابت ہے۔ پس ظاہر ہوا کہ سنت حسنہ، بدعت نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کا فرمان:" مَنْ سَنَّ سُنَّة حَسَنَة… وَمَنْ سَنَّ سُنَّة سَیِّئَة" کو اصلاً اختراع (بدعت)پر محمول کرنا ناممکن ہے وہ اس لئے کہ کسی طریقے کا اچھا یا برا ہونے کی معرفت صرف شریعت سے ہوتی ہے، کیونکہ تحسین و تقبیح شریعت کے ساتھ خا ص ہے اس میں عقل کا کوئی عمل دخل نہیں اور یہی جماعت اہل السنۃ کا مذہب و موقف ہے۔ جبکہ اہل بدعت کے نزدیک تحسین و تقبیح میں عقل کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ حدیث میں مذکورہ لفظ ’’سنت‘‘ یا تو شرعا حسنہ ہوگا یا شرعا قبیحہ ہوگا ۔ لہٰذا اس کا حسنہ ہونا مذکورہ صدقہ اور اس کے مشابہ مشروع سنن پر صادق آتا ہے۔‘‘
لہٰذا ہماری مذکورہ بالا گذارشات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں ’’سنت حسنہ‘‘ سے مراد کسی مشروع عمل کو جاری کردینا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے اگر کوئی مسلمان عصر حاضر میں نبی کریمﷺ کی کوئی متروکہ سنت کو جاری کرتا ہے یا مہجورہ سنت کو زندہ کرتا ہے تو اس کے اس فعل کو ’سنت حسنہ‘ کہیں گے نہ کہ ’بدعت حسنہ‘ مثال کے طور پر بعض ممالک مثلاً شام اور پاکستان وغیرہ میں کچھ لوگ مساجد میں’نماز عیدین‘ ادا کرتے ہیں اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ یہ سنت رسولﷺ ہے پھر کچھ متبعین سنت ، لواء سنت تھام کر عیدگاہوں، میدانوں، گراؤنڈوں اور پارکوں میں ’عیدین کی نماز ‘ ادا کرتے ہیں اور نبی کریمﷺ کی اس متروکہ و مہجورہ سنت کو جاری و زندہ کرتے ہیں تو ان کے بارے میں یہ کہا جائے گا ’’سنوا في الإسلام سنة حسنة‘‘ کہ انہوں نے اسلام میں سنت حسنہ کو جاری کیا ہے یعنی سنت سے ثابت شدہ عمل کو جاری کیا ہے ان کے اس عمل کو ’بدعت حسنہ‘ موسوم نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ سنت حسنہ وہ ہوتی ہے جس کی اصل نص صحیح سے مشروع ہو اور لوگوں نے اس پر عمل کرنا ترک کردیا ہو پھر کوئی لوگوں کے درمیان اس کی تجدید کرتا ہے اس کی مثال یہ ہے کہ سیدنا عمر﷜ بن خطاب نے جماعت کے ساتھ گیارہ رکعت نماز تراویح کی سنت کو جاری اور زندہ کیا تھا۔
اس کے باوجود ڈاکٹر صاحب اگر اس بات پر مصر ہیں کہ’سنت حسنہ‘ سے ’بدعت حسنہ‘ ہی مراد ہے تو ہم نہایت ہی ادب سے مندرجہ ذیل جوابات دیں گے:
’’من سن فی الإسلام سنة حسنة ‘‘ کا قائل بھی وہی ہے جو ’’کل بدعة ضلالة‘‘ کا قائل ہے۔ لہٰذا صادق و مصدوق نبیﷺسے ایسے قول کا صدور ناممکن ہے جو آپ کے دوسرے قول کی تکذیب کرے اور کلام رسول اللہﷺمیں تناقص ابداً ناممکن ہے۔ لہٰذا ہمارے لئے یہ لائق نہیں کہ ہم نبی کریم1 کی ایک حدیث پرتو عمل پیرا ہوں اور دوسری حدیث سے اعراض کریں۔ اس صورت میں ہم { أفَتُؤمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ } کے مصداق ٹھہریں گے۔
2۔نبی کریمﷺ نے "مَنْ سَنَّ" فرمایا ہے’’من ابتدع‘‘ نہیں فرمایا۔ سن اور ابتداع میں زمین آسمان کا فرق ہے اور پھر آپؐ نے " فِیْ الإِسْلَامِ" فرمایا ہے جبکہ بدعات خواہ حسنہ ہی کیوں نہ ہوں ان کا اسلام سے کیا واسطہ؟ پھر آپﷺ نے حسنۃ فرمایا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں کہیں بدعت حسنہ نہیں ہوتی۔
3- سلف صالحین سے کسی سے منقول نہیں کہ انہوں نے ’سنت حسنہ‘ کی تعبیر و تفسیر ’بدعت حسنہ‘ سے کی ہو جس کو بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایجاد کرلیا ہے ۔لہٰذا ڈاکٹر صاحب کا ’سنت حسنہ‘ سے ’بدعت حسنہ‘ پر استدلال باطل و ناحق ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ڈاکٹر صاحب کی کم علمی
اَرباب فکر و دانش اور اصحاب علم و فضل ڈاکٹر صاحب کی کم علمی کا اندازہ حسب ذیل عبارت سے لگا سکتے ہیں:
’’امام مسلم رح نے اس حدیث مبارکہ کا باب من سَنَّ سُنَّة حَسَنَة أوْ سَیِّئَة قائم کیا ہے… لہٰذا امام مسلم رح نے ’سنت حسنہ‘ اور ’سنت سیئہ‘ کی اصطلاح استعمال کرکے اپنا مذہب واضح کردیا کہ یہاں سنت سے مراد سنت رسولﷺ نہیں بلکہ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ ہے۔‘‘ [اَقسام بدعت، ص۷۲]
علم حدیث سے ذوق و شوق رکھنے والا ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ صحیح مسلم کے تراجم ابواب امام مسلم نے قائم نہیں کئے، بلکہ بعد میں مختلف ائمہ نے قائم کئے ہیں ہمارے ہاں جو نسخہ معروف ہے وہ امام نووی رح کی شرح والا ہے جس کاڈاکٹر صاحب نے حوالہ بھی دیا ہے اور اس نسخہ کے تراجم الابواب امام نووی رح نے قائم کئے ہیں چنانچہ امام نووی رح فرماتے ہیں:
’’ثم إن مسلماً رتب کتابہ علی أبواب فھو مبوب في الحقیقة، ولکنہ لم یذکر تراجم الأبواب فیہ، لئلا یزداد بھا حجم الکتاب أو لغیر ذلک‘‘ [مقدمۃ الإمام النووی:۱؍۱۳۸]
’’بعدازاں امام مسلم رح نے اپنی کتاب صحیح مسلم کو ابواب پرمرتب کیا ہے پس وہ (کتاب) حقیقت میں مبنی بر تبویب تھی۔ لیکن امام مسلم رح نے اس میں تراجم الأبواب ذکر نہیں کئے تاکہ کتاب کا حجم وغیرہ زیادہ نہ ہوجائے۔‘‘
٭امام نووی رح فرماتے ہیں:
’’وقد ترجم جماعة أبوابہ بتراجم بعضھا جید وبعضھا لیس بجید إما لقصور فی عبارة الترجمة وإما لرکاکة لفظھا وإما لغیر ذلک وأنا إن شاء اﷲ أحرص علی التعبیر عنھا بعبارات تلیق بھا فی مواطنھا واﷲ أعلم‘‘[مقدمۃ الإمام النووی:۱؍۱۳۸]
’’تحقیق ائمہ کی ایک جماعت نے امام مسلم کے ابواب پر تراجم الابواب قائم کئے ہیں ان میں سے بعض (تراجم) قابل ستائش ہیں اوربعض عبارت ترجمہ کی کمزوری اور لفظ ترجمہ کی بے ربطگی یا کسی اور وجہ سے ناقابل ستائش ہیں اور میں اِن شاء اللہ ان ابواب کو ایسی عبارات کے ساتھ تعبیر کروں گا جو ان کے مقامات میں ان کے لائق اور مناسب و موزوں ہوں گی۔‘‘
٭ امام سیوطی رح فرماتے ہیں:
’’وما یوجد فی نسخة من الأبواب مترجمة فلیس من المؤلف وانما صنعہ جماعة بعدہ کما قال النووی ومنھا الجید وغیرہ‘‘ [الحطۃ فی ذکرصحاح الستۃ ، ص۲۳۳]
’’اور جو تراجم الابواب کا نسخہ دستیاب ہوا ہے وہ مؤلف (امام مسلم) کے تراجم نہیں ہیں بلکہ ان کو ان کے بعد ایک جماعت نے قائم کیا ہے جیساکہ امام نوویؒ نے کہا ہے کہ ان تراجم میں بعض عمدہ ہیں اور بعض غیر عمدہ ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا تصریحات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ صحیح مسلم کے تراجم الابواب امام مسلم رح نے قائم نہیں کئے، اس کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے اپنی کم علمی کا ثبوت دیتے ہوئے ’’من سن سنة حسنة أوسیئة‘‘ کو امام مسلم رح کی طرف منسوب کردیا ہے جو درحقیقت امام نووی رح نے قائم کیا ہے، پھر اس کو بنیاد بناتے ہوئے امام مسلم رح پر جھوٹ باندھنے کی ناکام جسارت بھی کرڈالی کہ ان کا یہ مذہب ہے کہ یہاں سنت سے مراد سنت رسول نہیں بلکہ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ ہے‘‘ العیاذ باﷲ
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ڈاکٹر صاحب کی کم فہمی
ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں:
’’اگر کوئی اعتراض کرے کہ اس سے تو صرف ’سنت‘ مراد ہے بدعت مراد نہیں لی جاسکتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ (معاذ اللہ) اگر اس سے مراد صرف ’سنت‘ ہی ہوتا تو کیا وہاں ’حسنہ‘ کہنے کی ضرورت تھی؟ کیا کوئی ’سنت ‘ غیر حسنہ بھی ہوسکتی ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ عمل کرنے کے حوالے سے من عملتو کہہ سکتے ہیں مگر من سنکہنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ جب سنت حضور کی ہو تو پھر عام آدمی اس سے کیا ’راہ‘ نکالے گا وہ تو صرف عمل اور اتباع کا پابند ہے پس ثابت ہوا کہ ’سن‘ سے مراد نیا عمل اور بدعت ہے۔‘‘ [اَقسام بدعت ، ص۷۳]
ڈاکٹر صاحب شاید یہ بھول گئے ہیں کہ مذکورہ بحث سنت لغوی کے متعلق ہورہی ہے سنت شرعی کے متعلق نہیں اوریہ حقیقت ہے کہ سنت لغوی حسنہ اور غیر حسنہ و سیئہ بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ حدیث مذکور سے اس کا ثبوت ملتا ہے لیکن یہ ڈاکٹر صاحب کی عادت بن چکی ہے کہ وہ لغوی میدان سے اچانک چھلانگ لگا کر شرعی و اصطلاحی میدان میں پہنچ جاتے ہیں پھر معترضین کے بے تکے جوابات دیتے ہیں۔
جب یہاں سنت لغوی مراد ہے پھر آپ کو من سن پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے گویا آپ حدیث رسول پر معترض ہیں، (معاذ اللہ)۔ یہاں سنت سے مراد حضورﷺ کی سنت نہیں لہٰذا آپ کے بقول ’’عام آدمی اس سے کیا راہ نکالے گا‘‘ غلط تاویل ہے۔ کیونکہ ’سن‘ کا معنی ہے اجراء کرنا یا جاری کرنا۔ اور آپ نے بھی ’سن‘ کا یہی ترجمہ کیا ہے اور یہ اجراء قول و عمل دونوں کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا آپ کا قول ’’کہ سن سے مراد نیا عمل اور بدعت ہے‘‘ مبنی بر جہالت قول ہے جو لغت سے ناواقفیت کا منہ بولتا ثبوت ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ’’سن‘ کو ’ابتداع‘ اور’سنت‘کو ’بدعت‘ سے تعبیر کرنا ایسے ہی ہے جیسے دن کو رات اور رات کو دن کے ساتھ تعبیر کیا جائے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوسری دلیل
ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں:
’’اس حوالے سے ایک بہت اہم دلیل یہ ہے کہ وہ نیا کام جسے اُمت کی اکثریت اچھا سمجھ کرکررہی ہو اور ان کرنے والوں میں صرف اَن پڑھ دیہاتی لوگ اور عوام الناس ہی نہ ہوں بلکہ امت کے اکابر علماء فقہائ، محققین اور مجتہدین بھی شامل ہوں تووہ کام کبھی بُرا یعنی بدعت ضلالۃ نہیں ہوسکتا… اس کی دلیل مسند احمد بن حنبل کی درج ذیل روایت ہے جس میں حضرت عبداللہ بن مسعود﷜ نے فرمایا:
’’إنَّ اﷲَ نَظَرَ فِیْ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبُ مُحَمَّدٍ! خَیْرُ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاہُ لِنَفْسِہِ، فَابْتَعَثَہُ بِرِسَالَتِہِ ثُمَّ نَظَرَ فِیْ قُلُوْبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ! فَوَجَدَ قُلُوْبُ أصْحَابِہِ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَجَعَلَھُمْ وُزَرَائَ نَبِیِّہِ،یُقَاتِلُوْنَ عَلَی دِیْنِہِ،فَمَا رَأی الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَھُوَ عِنْدَ اﷲِ حَسَنٌ وَمَا رَأوْا سَیِّئًا فَھُوَ عِنْدَ اﷲِ سَیْیئٌ۔‘‘ [اَقسام بدعت، ص۸۸،۸۹]
’’اللہ نے بندوں کے دلوں پرنظر ڈالی تو قلب محمدﷺ کو تمام بندوں کے دلوں سے بہتر پایا لہٰذا اسے اپنی ذات کے لئے منتخب فرما لیا۔ پھر رسالت کے ساتھ حضورﷺ کو مبعوث فرمایا۔حضورﷺ کے دل کے بعد پھر لوگوں کے دلوں کی طرف نظر کی تو حضورﷺ کے صحابہ کے دلوں کو تمام بندوں کے دلوں سے بہتر پایا تو انہیں اپنے نبی کا وزیر بنا دیا جو اس نبی کے دین کے لئے مقاتلہ کرتے ہیں پس جس کام کو مسلمان اچھا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جس کام کو یہ بُرا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔‘‘
پھر اس حدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’نفس مضمون سے متعلقہ بات مذکورہ حدیث مبارکہ میں یہ ہے کہ حضورﷺ نے اَعمال حسنہ اور اَعمال قبیحہ کے تعین کے لئے یہ دلیل شرعی دے دی کہ مسلمان بالعموم جس کام کو اچھا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے اور جس کو یہ بُرا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بُرا ہے۔‘‘ (اقسام بدعت: ص۹۰)
آگے لکھتے ہیں:
’’یعنی مسلمانوں کا کسی چیز کو بالعموم اچھا جاننا شرعاً دلیل ہے۔ اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ اگر کوئی خاص عمل جو اپنی ہیئت کذائیہ میں نیا ہے ، کتاب و سنت کی نصوص، عہد رسالت مآب اور عہد صحابہ میں ثابت نہیں مگر اُمت مسلمہ کی اکثریت اس کو اچھا جانتی ہے تو یہ بھی حسنہ ہے اگر کوئی سوال کرے کہ یہ کیسے حسنہ ہوگیا تو اس کی ہیت کذائیہ ثابت نہیں تو مذکورہ دلیل کی بنا پر اس کی اصل اور دلیل ثابت ہے جس کی وجہ سے وہ بدعت سیئہ نہ رہی۔ اب میلاد النبیﷺ کی خوشی منانا، اس میں ذکرو اذکار ، صلوٰۃ وسلام، نعت خوانی ، ان تمام اعمال حسنہ کی اصل مذکورہ روایت ہے۔‘‘ [اَقسام بدعت:ص۹۰، ۹۱]
جائزہ
ڈاکٹر صاحب کو اس روایت کے مفہوم و مطلب کے سمجھنے میں بڑی غلطی لگی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری جاری کردہ بدعات میں چونکہ بہت سے مسلمان شامل ہوجاتے ہیں اور ان کو اچھا سمجھتے ہیں اسی لئے یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہوں گی۔ حالانکہ مذکورہ روایت کا مطلب ہرگز یہ نہیںکہ جسے مسلمان بالعموم اچھا سمجھ لیں وہ اچھی بن کر دین بن جائے۔
حسب ذیل وجوہات کی بنا پر مذکورہ روایت سے ’بدعت حسنہ‘ کے جواز پر استدلال نہیں کیا جاسکتا:
1-مذکورہ روایت’’فما رأی المسلمون حسنا فھو عنداﷲ حسن وما رأوا سیئا فھو عند اﷲ سیئ‘‘ مرفوع ثابت نہیں بلکہ عبداللہ بن مسعودؓ پر موقوف ہے جیسا کہ اس حدیث کے سیاق و سباق سے معلوم ہورہا ہے۔ چنانچہ علامہ ابن قیم الجوزیۃ رح فرماتے ہیں:
’’لیس من کلام رسول اﷲ! وإنما یضیفہ إلی کلامہ من لا علم لہ بالحدیث وإنما ھو ثابت عن ابن مسعود، قولہ، ذکر الإمام أحمد وغیرہ موقوفا علیہ‘‘ [الفروسیۃ، ص۶۱]
’’(مذکورہ روایت) رسول اللہﷺ کی کلام نہیں ہے اور علم حدیث سے ناواقف شخص ہی اس کو رسول اللہﷺ کی کلام کی طرف منسوب کرتا ہے البتہ یہ روایت ابن مسعودﷺ سے ثابت ہے اور امام احمدرح وغیرہ نے اس روایت کو عبداللہ بن مسعود﷜ پر ہی موقوف کیا ہے۔‘‘
٭ امام علائی رح فرماتے ہیں:
’’ولم أجدہ مرفوعاً فی شیئ من کتب الحدیث أصلا ولا بسند ضعیف، بعد طول البحث وکثرة الکشف والسؤال،وإنما ھو من قول عبد اﷲ بن مسعود موقوفاً علیہ‘‘ [الأشباہ والنظائر، ص۸۹]
’’لمبی بحث مکمل جانچ پڑتال اور سوال کی کثرت کے بعد میں نے اس روایت کو کتب حدیث میں اصلاً مرفوع نہیں پایا حتیٰ کہ ضعیف سند کے ساتھ بھی مرفوع نہیں پایا بلکہ یہ تو عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے جو ان پرموقوف ہے۔‘‘
٭ امام العصر امام البانی رح فرماتے ہیں:
’’لا أصل لہ مرفوعاً و إنما ورد موقوفاً علی ابن مسعود‘‘ [سلسلۃ الأحادیث الضعیفہ:۲؍۱۷]
’’اس روایت کو مرفوع ہونے کی کوئی اصل نہیں بلکہ یہ عبداللہ بن مسعودؓ پرموقوف ہے۔‘‘
لہٰذا جب یہ ہدایت مرفوعاً ثابت نہیں ہے تو اس سے ’’کل بدعة ضلالة‘‘ جیسی قطعی اَحادیث کی معارضت میں احتجاج پکڑنا بالکل جائز نہیں ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ڈاکٹر صاحب نے عبداللہ بن مسعود﷜ کے قول سے بدعت حسنہ کا جواز تو پیدا کردیا ہے، لیکن عبداللہ بن عمر﷜ کے اس قول فیصل ’’کل بدعة ضلالة وإن رأھا الناس حسنة‘‘ کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحب کو چاہئے کہ وہ عبداللہ بن عمرؓ کے قول پر عمل پیرا ہوکر بدعات حسنہ سے اجتناب کریں۔
2-مذکورہ روایت اجماع صحابہ کی قبیل سے ہے جو اس روایت کے سیاق و سباق سے پتہ چلتا ہے اور امام حاکم رح نے اپنی ’مستدرک‘ میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں۔
’’وقد رأی الصحابہ جمیعاً أن یستخلفوا أبا بکر ‘‘ [المستدرک للحاکم:۳؍۷۸]
’’تحقیق تمام صحابہ نے جانا کہ وہ ابوبکر صدیقؓ کو خلیفہ منتخب کرلیں۔‘‘
مورخ اسلام حافظ ابن کثیررح نے اپنی تصنیف البدایہ والنہایۃ [۱؍۳۲۸] میں، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح نے اپنی تصنیف منہاج السنۃ[۱؍۱۶۶] میں اور علامہ ابن قیم الجوزیہ رحنے اپنی تصنیف لطیف اعلام الموقعین[۴؍۱۳۸] میں خلافت ابوبکر صدیق﷜ کے لئے اِجماع صحابہ پر استدلال اسی روایت سے کیا ہے۔
٭ مزید برآں حافظ ابن کثیررح فرماتے ہیں:
’’وھذا الأثر فی حکایة اجماع عن الصحابة فی تقدیم الصدیق والأمر کما قالہ ابن مسعود‘‘ [البدایۃ والنہایۃ:۱۰؍۳۲۸]
’’یہ اثر ابوبکر صدیق﷜ کی خلافت کے لئے اجماع صحابہ کے بارے میں ہے اور معاملہ ویسا ہی ہے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود﷜نے فرمایا ہے۔‘‘

بہرحال اس روایت میں واضح دلالت ہے کہ یہاں المسلمون سے مراد صحابہ کرام رض ہیں۔ اس لئے بعض ائمہ نے اس روایت کو ’کتاب الصحابہ‘ میں نقل فرمایا ہے جیسا کہ امام حاکم رح نے اس اثر کو اپنی مشہور زمانہ تصنیف المستدرک میں ’کتاب معرفۃ الصحابہ‘ میں نقل کیا ہے لہٰذا یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام حاکم رح نے المسلمون سے صحابہ کرام رض کی جماعت کو مراد لیا ہے۔
احناف کی مشہور کتاب ’شامی‘ میں مرقوم ہے: ’’لا شک ان فعل الصحابة حجة وما رأہ المسلمون حسنا فھو عنداﷲ حسن‘‘ [جلد :۱؍۲۰۷ بحوالہ بدعت اور اہل بدعت ، ص۱۲۸] گویا صاحب شامی نے بھی المسلمون سے صحابہ کرام کی جماعت مراد لی ہے۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحب کاالمسلمون کو اُمت کی کثرت پر محمول کرنے کو ہم ان کے تجاھل عارفانہ پر محمول کرتے ہیں۔
3۔المسلمون میں الف لام (أ ل) اگر استغراق کے لئے ہے تو اس سے مراد یہ ہوگی کہ جس کو تمام مسلمان اچھا جانیں وہ اچھی ہوگی اور یہ بذات خود اِجماع ہے اور اجماع حجت ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں اور اُصولی طور پر جس کو اِجماع کہتے ہیں وہ ’’اجماع أھل العلم فی عصر‘‘ کسی زمانہ میں اہل علم کا جمع ہونا ہوتا ہے اور ا س میں کوئی شک نہیں کہ مقلدین اہل علم نہیں ہوتے بلکہ مقلد تو جاہل ہوتا ہے۔
٭ چنانچہ امام عزالدین بن عبدالسلام رح فرماتے ہیں:
’’إن صحّ الحدیث، فالمراد بالمسلمین أھل الإجماع، واﷲ اعلم‘‘ [فتاویٰ العز بن عبد السلام، ص۴۲، رقم ۹]
’’اگر مذکورہ (روایت) صحیح ہے پس اس میں المسلمون سے مراد اہل اجماع ہیں … واللہ اعلم‘‘
لہٰذا ہم ڈاکٹر صاحب سے درخواست گزار ہیں کہ اگر دین میں بدعت حسنہ کا تصور ہے تو کیا آپ کوئی ایک ایسی بدعت منظر عام پر لائیں گے کہ جس کی تحسین پر تمام مسلمانوں کااجماع ہو؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بات ناممکنات میں سے ہے کہ کسی بدعت کی تحسین پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہو۔ البتہ قرونِ اولیٰ میں اس بات پر ضرور اجماع تھا کہ وہ ہر قسم کی بدعات کو قبیح و ضلالہ سمجھتے تھے اور پھر ان کی تردید کرتے تھے۔ اور اگرالمسلمون میں الف لام جنس کے لئے ہے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ بعض مسلمان کسی چیز کو اچھا جانیں اور باقی دوسرے مسلمان اس کو بُرا جانیں۔ جس طرح اکثر بدعات میں ہوتا ہے اس لئے کہ عقول و اَذھان اور اہواء و آراء میں تفاوت ہوتا ہے لہٰذا اس بنا پر بھی مذکورہ روایت سے تحسین بدعات پر استدلال واحتجاج ساقط ہوجائے گا۔ پھریہ کہنا کہ اُمت مسلمہ کی اکثریت اس کو اچھا جانتی ہے تو یہ بھی حسنہ ہے‘‘مبنی برجہالت بات ہے۔
حقیقت میں یہاں ’الف لام‘ عہد کے لئے ہے اور المسلمون سے مراد صحابہ کرام رض کی جماعت ہے اور مذکورہ روایت سے مراد صحابہ کا اجماع اور اتفاق ہے جیسا کہ مذکورہ روایت کے سیاق و سباق سے معلوم ہورہا ہے۔
علاوہ ازیں محدثین کی جماعت نے مذکورہ روایت کو باب الإجماع کے تحت نقل کیا ہے۔ جیسا کہ کشف الأستار عن زوائد البزار[۱؍۸۱]‘‘ اور مجمع الزوائد[۱؍۱۷۷] وغیرھما میں ہے۔
اس لئے ابن قیم الجوزیہ رح فرماتے ہیں:
’’فی ھذا الأثر دلیل علی ما أجمع علیہ المسلمون ورأوہ حسنا، فھو عند اﷲ حسن لا ما رأہ بعضھم، فھو حجة علیکم‘‘ [الفروسیۃ، ص۶۰]
’’اس اثر میں اس بات کی دلیل ہے کہ جس چیز پرتمام مسلمانوں کااجماع ہو اور وہ تمام اس چیز کو حسن جانیں تو وہ اللہ کے نزدیک بھی حسن ہوگی ناکہ بعض لوگ اس کو حسن جانیں (جیسا کہ عصر حاضر میں ہوتا ہے) پس یہ تو (اہل بدعت) کے خلاف حجت ہے۔‘‘
٭ ابن قدامہ رح فرماتے ہیں:
’’الخبر دلیل علی أن الإجماع حجة،ولا خلاف فیہ‘‘ [روضۃ الناظر:۸۶]
’’مذکورہ روایت اجماع کی حجیت پر دلیل ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
٭امام شاطبی رح فرماتے ہیں:
’’إن ظاھرہ یدل علی أن ما رأہ المسلمون حسنا فھو عنداﷲ حسن،والأمة لا تجتمع علی باطل،فاجتماعھم علی حسن شئ یدل علی حسنہ شرعاً لأن الإجماع یتضمن دلیلاً شرعیاً،فالحدیث دلیل علیکم لا لکم‘‘ [الاعتصام:۲؍۱۳۰]
’’بلا شبہ مذکورہ روایت کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس کو تمام مسلمان اچھا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور اُمت باطل پر جمع نہیں ہوتی پس تمام مسلمانوں کا کسی چیز کی تحسین پر اجماع ہوجانا اس کے شرعا اچھا ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اجماع دلیل شرعی کو متضمن ہوتا ہے پس مذکورہ روایت (اہل بدعت) کے خلاف دلیل ہے ناکہ ان کے حق میں۔‘‘
مذکورہ بالا تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے مذکورہ روایت سے کسی لحاظ سے بھی بدعت حسنہ پر استدلال نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ مذکورہ روایت عبداللہ بن مسعود﷜ پر موقوف ہے پھر مذکورہ روایت اِجماع صحابہ کے متعلقات میں سے ہے چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے مذکورہ روایت سے جو مفہوم اَخذ کیاہے وہ بالکل غلط ہے۔ مزید برآں عبداللہ بن مسعود﷜ صحابہ میں سب سے بڑھ کر بدعات کے انکار ی تھے اور اہل بدعات سے اِظہار نفرت کرنے والے تھے۔ پھر اس عظیم المرتبت اور جلیل القدر صحابی کی کلام سے بدعات کی تحسین پر کیسے استدلال کیا جاسکتا ہے جبکہ آپ﷜ تمام صحابہ سے بڑھ کر بدعات سے منع کرنے والے اور ڈرانے والے تھے۔ اسی طرح صاحب مجالس الأبرار لکھتے ہیں:
’’اگر کوئی یہ کہے کہ اکثر لوگ ان بدعتوں کے جواز میں جن کے وہ عادی ہیں اس حدیث سے سند لاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جس بات کو مسلمان اچھا سمجھیں… الخ
تو کیا ان کا یہ استدلال صحیح ہے؟ جواب یہ ہے کہ ، ان کا یہ استدلال جیسا کہ بعض فضلاء نے کہا ہے ٹھیک نہیں ہے اور یہ روایت ان کو مفید نہیں بلکہ مضر ہے کیونکہ یہ اس حدیث کا ٹکڑا ہے جو عبداللہ بن مسعود پر موقوف ہے اور اس کو احمد اور بزار، طبرانی، طیالسی، ابونعیم نے اسی طرح روایت کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں کو دیکھا تو حضرت محمدﷺ کو منتخب کیا پھر آپ کو رسول بنا کر مبعوث فرمایا پھر اس نے اپنے بندوں کے دلوں کی طرف دیکھا تو ان میں سے آپ کے لئے اصحاب منتخب کئے اور ان کو دین اسلام کا مددگار اور نبیﷺ کا وزیر بنالیا۔ پس جس چیز کو یہ مؤمنین اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی اور جس کو یہ مؤمنین برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’المسلمون‘‘ میں الف لام مطلق جنس کے لئے نہیں ہے (اگر مطلق جنس کے لئے ہو تو) اس صورت میں یہ حدیث رسولﷺ کے اس ارشاد کے خلاف پڑے گی کہ میری اُمت میں تہتر فرقے ہوں گے جن میں سوائے ایک کے سب دوزخی ہوں گے۔ سواُمت کا ہر فرقہ اپنے ہی مذہب کو اچھا اور سچا سمجھتا ہے تو لازم آئے گا کہ کوئی فرقہ دوزخی نہ ہو (حالانکہ ایسا نہیں ہے) اسی طرح چند مسلمان ایک بات کو اچھا سمجھتے ہیں اور چند مسلمان بُرا تو لازم آتا ہے کہ حسن و قبیح میں کوئی تمیز نہ رہے، یا تو الف لام عہد کے لئے ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ معہود وہی لوگ ہیں جن کا ذکر افتخار صحابہ ؓ میں ہے۔پس المسلمونسے مراد فقط صحابہؓ ہیں یا خصائص جنس کے استغراق کے لئے پس المسلمون سے مراد وہ لوگ ہیں جو مجتہد ہیں اور اسلام کی صفت میں کامل ہیں تو اب معنی یہ ہوگا کہ جس بات کو صحابہ کرام رض یا اہل اجتہاد اچھا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی عمدہ ہے اور جس کو صحابہ کرام رض یا اہل اجتہاد قبیح سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی قبیح ہے اور ممکن ہے کہ لام استغراق حقیقی کے لئے ہو اس صورت میں معنی ہوگا کہ جس بات کو تمام مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی اور جس بات کو تمام مسلمان بُرا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے اور جس بات میں ان کا اختلاف ہوجائے تو اب اس میں قرون ثلاثہ کا اعتبار ہوگا جس کی نسبت خیر کی شہادت ہے۔‘‘ [مجالس الأبرار: مترجم ص۱۷۰، بحوالہ بدعت اور اہل بدعت، ص۱۲۵]

اب ڈاکٹر صاحب کو سوچنا چاہئے کہ مذکورہ روایت سے استدلال کرتے ہوئے آپ جن مروجہ بدعات کو سند تحسین دینا چاہتے ہیں کیا ان پراِجماع صحابہ ہے یا اجماع اُمت ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ کو اس طرح کے باطل استدلالات سے گریز کرنا چاہئے اور اپنی من مانی تعبیر کو علم و تحقیق کے نام سے منسوب کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تیسری دلیل
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری بیان کرتے ہیں:
’’خرجت مع عمر بن الخطاب لیلة فی رمضان إلی المسجد فإذا الناس أوزاع متفرقون یصلی الرجل لنفسہ ویصلی الرجل فیصلی بصلاتہ الرھط فقال:إنی أری لو جمعت ھؤلاء علی قارئ واحد لکان أمثل ثم عزم فجمعھم علی أبی بن کعب ثم خرجت معہ لیلة أخری والناس یصلون بصلوة قارئھم قال عمر: نعم البدعة ھذہ والتی ینامون عنھا أفضل من التی یقومون یرید آخر الیل وکان الناس یقومون أولہ‘‘
’’میں حضرت عمر﷜ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق تھے ایک آدمی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور ایک آدمی گروہ کے ساتھ۔ حضرت عمر﷜ نے فرمایا کہ میرے خیال میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کردیا جائے تو اچھا ہوگا۔ پس آپ نے حضرت ابی بن کعب﷜کے پیچھے سب کو جمع کردیا۔ پھر میں دوسری رات کو ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے قاری کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر﷜ نے فرمایا: یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے اس سے بہتر وہ حصہ ہے جس میں وہ قیام کرتے ہیں مراد رات کا آخری حصہ تھا جبکہ لوگ پہلے حصے میں قیام کرتے تھے۔‘‘
اس روایت میں سیدنا عمر فاروقؓ نے خود ’’نعم البدعة ھذہ‘‘ فرماکر بدعت کی تقسیم فرما دی اور یہ ثابت کردیاکہ ہر بدعت ،بدعت سیئہ نہیں ہوتی بلکہ بے شمار بدعات حسنہ بھی ہوتی ہیں وگرنہ آج تک اُمت مسلمہ کے جو اَفراد رمضان المبارک کی بابرکت راتوں میں مساجد میں نمازِ تراویح کی صورت میں اکٹھے ہوکر قرآن سنتے ہیں یہ بھی ناجائز ہوتا مگر ہمیشہ یہ امر مستحسن رہا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ بدعت حسنہ اور سیئہ کی تقسیم مبنی برحدیث ہے یہ محض قیاسی تقسیم نہیں بلکہ سیدنا عمر فاروق﷜ کے قول پر قائم ہے۔‘‘ [لفظ بدعت کا اطلاق، ص۵۳، میلادالنبیؐ ، ص۷۲۴]
مذکورہ روایت سے حسب ذیل وجوہات کی بنا پر ’’بدعت حسنہ‘‘ کا جواز نہیں پکڑ جاسکتا۔
1۔نماز تراویح حدیث رسولﷺسے ثابت و مشروع ہے جیساکہ جابر بن عبداللہ﷜ فرماتے ہیں:
’’أن النبی! أحیا بالناس لیلة فی رمضان صلی ثمان رکعات وأوتر‘‘ [المعجم الصغیر للطبراني:۱؍۱۹۰]
’’بے شک نبیﷺنے رمضان المبارک کی ایک رات لوگوں کو بیدار کیا، پھر آٹھ رکعات نماز تراویح پڑھائی اور وتر ادا کیا۔‘‘
نماز تراویح کو جماعت سے ادا کرنا بھی مشروع و مسنون ہے،کیونکہ رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کو تین رات نماز تراویح پڑھائی بعدازاں فرض ہونے کے خوف سے آپؐ نے اس کو ترک کردیا جب کہ سیدہ عائشہ رض کی حدیث میں مرقوم ہے۔
"… وَلٰکِنِّیْ خَشِیْتُ أنْ تَفْرُضَ عَلَیْکُمْ، فَتَعْجِزُوْا عَنْھَا"[صحیح البخاري:۲۰۱۲]
’’لیکن میں ڈرتا ہوں کہ (نماز تراویح جماعت کے ساتھ ادا کرنا) تم پر فرض نہ ہوجائے اور تم اس کو ادا کرنے سے عاجز آجاؤ۔‘‘
لہٰذا جب رسول اللہﷺ فوت ہوگئے اور وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو نماز تراویح کا جماعت کے ساتھ فرضیت کا عارضہ اور مانع ختم ہوگیا پس اس کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا سنت رسولﷺ ٹھہرا۔ پھر عمر بن خطاب﷜ کا زمانہ آیا تو آپ﷜ نے سنت کے مطابق گیارہ رکعت نماز تراویح ادا کرنے کا حکم دیا اور اس سنت کو جاری کیا اور زندہ کیا۔
جب یہ بالکل واضح ہے کہ عمر بن خطابؓ کا فعل سنت کے مطابق تھا بدعت نہیں تھا پھر آپ نے جو’’نعم البدعة ھذہ‘‘ کہا اس کا کیامعنی ہوگا، اس کا جواب اَئمہ کرام اور سلف صالحین نے یہ دیا ہے کہ عمر بن خطاب ﷜کے اس قول کو لغوی معنی پر محمول کیا جائے گا اس لئے کہ نماز تراویح باجماعت نہ تو ابوبکر صدیق﷜ کے دور حکومت میں ادا کی گئی اور نہ ہی عمربن خطاب﷜ کے دورِ حکومت کے اوائل میں ادا کی گئی اس لحاظ سے یہ لغوی بدعت ہوگی یعنی جس کی سابقہ مثال نہ تھی لیکن اس کو شرعی بدعت اس لئے نہیں کہیں گے کہ یہ عمل سنت رسولﷺ سے قولاً و فعلاً ثابت ہے۔
 
Top