• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈنکے کی چوٹ پہ ظالم کوبرا کہتا ہوں(ترمیمی بل 2017)پس پردہ حقائق!(ظفر اقبال ظفر))

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
ڈنکے کی چوٹ پہ ظالم کو برا کہتا ہوں!
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے جو کلمہ طیبہ کی بنیاد و دو قومی نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ۔جس کے آئین میں واضع الفاظ میں موجود ہے کہ پاکستان میں کوئی قانون جو قرآن و سنت کے خلاف ہو نہیں بنایا جا سکتا ۔ آرٹیکل ۔2۔ میں واضع درج ہے کہ اسلام، ریاست کا مذہب ہوگا۔ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا ’اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام کو مملکت کے سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہوگی اور اس کے لئے کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ اس مقصدکے حصول کے لئے، وہ تمام قوانین اسلام کے ڈھانچے میں ڈھالے جائیں گے، جو اسلامی قوانین سے متصادم ہوں گے، تاکہ صحیح معنوں میں اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دیا جا سکے۔ شریعت کورٹ، اسلامی نظریاتی کونسل کو خصوصی طور پر یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ تمام قوانین کا جائزہ لے اور اگر کوئی قانون، ان کی نظر میں اسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اس کی تنسیخ کے لئے سفارش کی جائے، تاکہ پارلیمنٹ اس کی تنسیخ کے لئے، قانون وضع کرے۔پاکستان میں اللہ کی حاکمیت کا تصور محض آئین کی کتاب تک محدود رہ گیا ہے۔
حال ہی میں 28/07/2017 بروز جمعہ کو وزیر اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ نے تا حیا ت نا اہل قرار دے کر ثابت کر دیا کہ ابھی تک اس میں بلا تفریق احتساب کا قانون موجود ہے۔اس دن سے ن لیگ نے اعلان کیا کہ ہم (آئین پاکستان می 62۔63 نمبر شق میں ترمیم کریں گے جس میں لکھا ہے کہ اس ملک کا وزیر صادق و ایمن ہونا چاہیے اس بیچارے کا جرم یہ تھا کہ اس نے اپنے کچھ اثاثے ظاہر نہ کر کہ خیانت اور جھوٹ کا مرتکب ٹھہرا جس کی پداش میں اسے سپریم کورٹ کے منتخب 5 ججوں نے اسے نا اہلی کی سزا سنا کر وزارت عظمیٰ کی کرسی سے ہٹا دیا ۔اس 62۔63 شق میں ترمیم کا عملی مظاہرہ اکتوبر 2017میں سامنے آیا جس میں حلف نامہ کی جگہ اقرا نامہ کا لفظ داخل کیا گیا۔ اس وقت پارلیمنٹ میں احتجاج ہوا عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید نے رینٹ کے علماء جو کرسی کی خاطر پارلیمنٹ کے ہر جائز اور ناجائز اقدامات پر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں ۔انہیں مخاطب کررتے ہوئے فرمایا کہا ہیں مولانا فضل الرحمن اور کہنا ہے عطاہ اللہ شاہ بخاری کے ماننے والے آج ختم نبوت کی شق کو تمہاری موجودگی میں ختم کیا گیا اور تم گونگے شیطان بنے رہے ۔ان کے علاوہ تحریک انصاف کے رہمنا شاہ محمود قریشی نے بھی اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے رد کر دیا ۔ان کے بعد جماعت اسلامی نے بھی اس بل کو مسترد کرتے ہوئے اس انتخابی اصلاحات بل میں ترمیم کو ختم نبوت میں ترمیم خیال کرتے ہوئے مخالفت کی ملک میں تمام مذہبی جماعتوں نے اجتجاجات کی کا دے دی اور 6/10۔17 بروز دجمعہ کو بعد از نماز جمعہ اس بل کےخلاف ملک گیر ریلیاں جلسے و احتجاج منعقد کرنے کا اعلان کیا۔
حال ہی میں ترمیمی بل 2017میں اس حد تک غیرر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا کہ پالیمنٹ میں حاکمیت کا منبع صرف اور صرف ایک طاقتور لیکن نااہل شخص ہے اور انصاف و قانون کے خلاف اعلانِ جنگ کر کے یہ تاثر دیا کہ آپ بے شک جتنے مرضی بڑے چور ہوں، قاتل ہوں، ڈاکو ہوں، قوم کا مال لوٹنے والے ہوں، پیشہ ور مجرم یا فیملی مافیا ہوں ۔ لیکن اگر آپ کے پاس ارلیمنٹ میں اکثریت ہے تو آپ ناصرف قانون کو بدل کر اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں بلکہ جو مرضی جس کے جی میں آئے ذاتی مفادات اور اپنے بچاؤں کے لیے کر گزرے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا ۔
وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا ہے کہ ختم نبوتﷺ ہمارے ایمان کا حصہ ہے ، اس کے خلاف کسی بھی اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتے، الیکشن اصلاحات بل میں ختم نبوت ﷺ کا کالم ہو بہو ہے اور اس کو ختم کرنے کے حوالے سے چلنے والی خبریں بالکل بے بنیاد ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ الیکشن اصلاحات بل کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی گئی،اس دوران سیاسی جماعتوں کی طرف سے600 سے زائد تجاویزسامنے آئیں، الیکشن کمیشن سے متعلق 8قوانین کویکجاکرکے اصلاحات کی گئیں جبکہ انتخابات بل کی شق203 میں ترمیم کے حوالے سے کسی نے اعتراض نہیں کیا، دونوں ایوان اس شق میں ترمیم کے لئے متفق تھے۔ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے شور مچایا جا رہا ہے کہ ایک شخص کو فائدہ پہنچانے کے لئے قانون لایا جا رہا ہے حالانکہ انتخابی اصلاحات بل موجودہ حکومت نے متعارف کرایا، 40سال بعد ہم نے الیکشن کے حوالے سے نیاقانون پاس کیا، یہ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا کام ہے۔ ختم نبوت ﷺ کے حوالے سے بل میں بھی کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں کی گئی ، ختم نبوت ﷺ والا پیرا بالکل ویسا ہی ہے ۔بل منظوری کے وقت سب خاموش رہے اور اب شور مچا رہے ہیں جو کہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
ان کے علاوہ راولپنڈی میں پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) کے ڈائر یکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ الیکشن اصلاحات بل کے موقع پر کہاختم نبوت ﷺ کی شق کے خاتمے کو کوئی بھی پاکستانی قبول نہیں کرسکتا ، حکومت نے یہ ترمیم واپس لے۔ کیوں کہ کوئی بھی پاکستانی اس میں ترمیم برداشت نہیں سکتا۔
سپریم شیعہ علماء بور ڈ کے سرپرست اعلیٰ و تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سربراہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے کہا ہے کہ عقیدہ ختم نبوت ہمارے ہر باضمیر مسلمان کے ایمان کا جزو لا ینفک ہے جسکے مخالفین کے قلع قمع کیلئے ہمارے آباؤ اجدا د نے بے بہا قربانیاں دیں اور نواسہ رسول ؐ حضرت امام حسین ؑ ابن علی ؑ نے سر زمین کربلا پر تحفظ ختم نبوت کیلئے اپنے اور 72جانثاروں کے لہو سے وہ مضبوط حصار قائم کر دیا جسے کوئی گستاخ رسول ؐ توڑ نہیں سکتا، ذوالفقار علی بھٹو نے ختم نبوت کو آئین کا جزو بنا کر نیک کام کیا تھا جس میں کسی قسم کا ردو بدل پیغمبر اسلام پر حملہ ہے، آئینی ترمیم کے قومی اسمبلی اور سینٹ کے پانچ مراحل سے گزرنے کے باوجود حکمرانوں سیاستدانوں اور ارکان پارلیمنٹ کا اندھا بہرہ بنے رہنا تعجب خیز ہے ۔

انتخابی بل 2017 سینیٹ میں پیش اور منظور!
قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ انتخابی اصلاحاتی بل سینیٹ میں پیش کیاگیا، اطلاعات کے مطابق یہ بل سینیٹ کی مجلس قائمہ کے حوالہ کیاگیا جس نے جائزہ لیا اور پھر 22ستمبر2017 کو سینیٹ آف پاکستان نے کثرت رائے سے بل منظور کیا،جس پر ملک میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوا،کیونکہ سینیٹ میں حکومت اقلیت میں ہونے کے باوجود بل منظور کرانے میں کامیاب رہی تھی، جو اپوزیشن کی شکست تھی۔( اس بل کی سینیٹ سے منظوری سب کی ملی بھگت تھی یا نہیں یہ الگ کہانی ہے۔
انتخابی بل 2017 دوبارہ منظوری کے لئے قومی اسمبلی میں!
سینیٹ آف پاکستان سے انتخابی بل2017کی منظوری کے بعد یہ بل ایک بار پھر قومی اسمبلی پہنچا، اس کی وجہ یہ تھی کہ سینیٹ میں بعض ایسی ترامیم تھیں جو پہلے قومی اسمبلی سے منظور نہیں ہوئی تھی۔قومی اسمبلی نے 2اکتوبر 2017 کو بل کی دوبارہ منظوری کثرت رائے سے تھی، اس دوران شدید ہنگامہ آرائی ہوئی ۔
بل کے اغراض وو جوہ میں کہا گیا ہے کہ انتخابات ایکٹ 2017کے نفاذ کے بعد نامزدگی فارم (فارم الف) کے بارے میں قومی اسمبلی میں اور میڈیا میں امیدوار کی جانب سے اقرار نامے کے الفاظ کی نسبت بدگمانی کا اظہار کیا گیا لہٰذا مزید تنازع سے بچنے کیلئے قومی اسمبلی کی تمام سیاسی جماعتوں کا اس پر اتفاق ہے کہ نامزد شخص کی طرف سے اقرار نامہ اور بیان حلفی کے اصل متن جو کہ اصل فارم 1-الف میں شامل ہے کو اصل حالت میں بحال کیا جانا چاہئے۔ اجلاس میں مزید کہا گیا کہ عام انتخابات کے انعقاد کے فرمان2002کی منسوخی کے نتیجے میں آرٹیکلز سات بی اور سات جی کے حذف کی نسبت بھی بدگمانی کا اظہار کیا گیا ہے۔ مزید تنازع سے بچنے کی خاطر تمام سیاسی جماعتوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آرٹیکلز7 ب اور 7 ج کے احکامات کو انتخابات ایکٹ 2017 کی دفعہ241میں ترمیم کے ذریعے ایضاً برقرار رکھا جائے۔
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 05 اکتوبر2017ء)تحریک حرمت رسول اور جماعة الدعوة اسلام آباد کے زیر اہتمام کل بروز جمعة المبارک کو یوم ختم نبوت منایا جا رہا ہے جس میں انتخاب بل 2017میں ختم نبوت کے حوالہ سے ترمیم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ جامع مسجد قباء آئی ایٹ مرکز کے باہر کی جائے گا احتجاجی مظاہرے سے مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین خطاب کریں گے ، جماعة الدعوة کے مسئول شفیق الرحمن نے وفاقی دارالحکومت میں علماء کرام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے جمعہ میں ختم نبوت کو خطبہ کا موضوع بنائیں اور عوام کو گمراہ کرنے والے عناصر کو بے نقاب کریں شفیق الرحمن نے کہا کہ حلف نامہ میں ردوبدل پر کلیریکل غلطی کی باتیں درست نہیں‘ الیکشن کمیشن ان تمام اراکین اسمبلی کی رکنیت معطل کرے جو اس بل کی منظوری کا حصہ بنے۔
حلف نامہ میں اقرار نامہ کا لفظ شامل کرنے سے حکومت کے آئندہ کیلئے بھی مذموم عزائم واضح ہو گئے ۔وزیر قانون فی الفور استعفیٰ دیں۔حکمران قادیانیوں کو مسلم ہونے کا سرٹیفکیٹ دینا چاہتے ہیں۔ حلف کی بجائے اقرار نامہ کا لفظ شامل کر نے والوں کو قوم کٹہرے میں کھڑا دیکھنا چاہتی ہے۔
شفیق الرحمن نے کہا کہ حکمرانوں نے اپنا اقتدار بچانے کیلئے عقیدہ ختم نبوت کو زدپہنچائی ہے۔یہ بہت بڑا جرم ہے‘ اس کیخلاف عدالتوں میں قانونی جنگ بھی لڑنا پڑی تو لڑیں گے۔ وزیر قانون کی وضاحتیں قبول نہیں۔حلف نامہ میں صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کے الفاظ ختم کر کے اقرار نامہ کے لفظ شامل کئے گئے۔ہمیں حکومتی ذمہ داران کی باتوں پر قطعی طور پر اعتبار نہیں ہے۔ سود کے معاملہ میں بھی وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کیخلاف حکومت سپریم کورٹ میں چلی گئی تھی ۔
جب تک حکومت قومی اسمبلی میں معافی نہیں مانگتی ہماری تحریک جاری رہے گی۔ انہوں نے کہاکہ حلف نامہ میں ترمیم کے حوالہ سے بھی جے آئی ٹی بنانی چاہیے جو ان کرداروں کا تعین کرے جنہوں نے حلف کی بجائے اقرار نامہ کے الفاظ شامل کئے۔ اس ناپاک جسارت کے ذریعہ قادیانیوں کو مسلمانوں کی صفوں میں گھسنے کا موقع دیا گیا ہے۔ امریکہ و یورپ کی خوشنودی کیلئے ایسی ترامیم کرنیو الوں کو عوام کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم پورے ملک میں زبردست تحریک چلائیں گے۔
وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے شق ترمیمی بل پیش کیا۔ حلف نامہ میں لکھا گیا ہے حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ میں حضرت محمدؐ کے آخری نبی ہونے پر قطعی طور پر کامل یقین رکھتا ہوں اور یہ کہ میں دنیا میں ایسے شخص کا پیروکار نہیں جو حضرت محمدؐ کے بعد کسی بھی حوالے یا کسی بھی طرح اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ حلف نامہ کی بحالی کی ترمیم کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ اسی طرح غیرمسلم احمدیوں کی نشاندہی سے متعلق 7B اور 7C کو انتخابی قانون 2017ء میں شامل کرنے کی ترامیم کو بھی اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔ بل کی ترامیم کے سلسلے میں دینی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کے ترمیمی مسودے سے استفادہ کیا گیا۔ زاہد حامد نے کہا ہے کہ حکومت نے سینٹ میں انتخابی کاغذات نامزدگی میں عقیدہ ختم نبوتؐ کے حلف نامہ کی بحالی کی ترمیم کی حمایت کی تھی۔
پی پی کے سید نوید قمر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ غلطی جس سے بھی ہوئی اسے ٹھیک کرنے پر پورے ایوان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہ پیغام آیا ہے کہ ہم سب ایک ہیں ناموس رسالتؐ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، اس اسمبلی نے ایک بے وجہ کا تنازعہ حل کرلیا اس پر ایوان اور سپیکر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کسی بھی کمیٹی یا سب کمیٹی میں یہ معاملہ زیرغور نہیں آیا بہرحال معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوگیا ہے۔
پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ المناک غلطی کی وجہ سے ایک مسئلہ کھڑا ہوا پورے ملک میں ہلچل مچی تھی، یہ ایک حساس اور جذبات کو مجروح کرنے والا معاملہ تھا، سمجھ نہیں آرہی اس کو کیوں چھیڑا گیا، اس سے عوام کے جذبات مجروح ہوئے، تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے سرجوڑے اور سپیکر نے اپنا کردار ادا کیا، گزشتہ روز اس کو اصل شکل میں بحال کرنے پر اتفاق ہوا۔ ختم نبوت کے معاملہ پر کوئی مسلمان سمجھوتہ نہیں کر سکتا، یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اسمبلی نے فوری طور پر ترمیم کی۔ سینٹ سے بھی جلد اس ترمیم کی منظوری کی توقع ہے۔ کوئی حکومتی ذمہ دار اس کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں تو یہ کس نے کیا ہے؟
ایم کیو ایم کے رکن شیخ صلاح الدین نے کہا کہ ختم نبوت کے حوالے سے فلور پر جس نے معاملہ اٹھایا اس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، یہ کلریکل غلطی نہیں ہے اس کے ذمہ دار کا تعین کیا جائے، میڈیا نے بھی بروقت یہ معاملہ اٹھایا۔
جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ آج ایک تاریخ ساز دن ہے، اس ایوان نے غلطی کی تصحیح کرکے قوم میں پائی جانے والی بے چینی ختم کی۔ سپیکر کی ذاتی کوششوں سے اتفاق رائے پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زاہد حامد کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔ جس نے یہ کیا اس کی تحقیقات ہونی چاہئے ورنہ ایسی غلطی دوبارہ بھی ہو سکتی ہے۔ میڈیا کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔
میرظفراللہ خان جمالی نے کہا کہ جب سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے خلاف عدالتی فیصلہ آیا تو میں نے مشورہ دیا تھا کہ عدالت میں جانے کی بجائے الیکشن میں جائیں اور جیت کر دوبارہ اسمبلی میں آئیں اور میرا مشورہ مان لیا گیا، یہ صرف سپیکر کے عہدے کو تذلیل سے بچانے کیلئے کیا۔ اداروں کو کسی صورت نہ چھیڑا جائے، اداروں کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے، اداروں کے ساتھ ملکر چلیں وہ کسی کے ذاتی ملازم نہیں وہ ریاست کے ملازم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ختم نبوت سے بل میں غلطی کرنے والوں کو سزا دی جائے، اگر ڈان لیکس پر سزا ملتی ہے تو یہاں کیوں نہیں۔؟
شہباز شریف نے بھی کہہ دیا ہے کہ ختم نبوت کے معاملے میں ذمہ دار کو سزا ملنی چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف نے اس وقت بھی مجھ سے مشورہ کیا تھا جب سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے انہیں طلب کیا تو میں نے میاں صاحب سے کہا تھاکہ پیش ہو جائیں اس کے بعد میںسجاد علی شاہ کے پاس گیا اور ان سے استدعا کہ معاملہ کو ٹھنڈا کریں تو ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو آنا پڑے گا تاکہ اسے پتہ چلے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی زیادہ طاقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ طبیعت خرابی کے باعث شاید آئندہ اسمبلی میں نہ آسکوں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس آج جمعہ صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ دریں اثناء اپوزیشن کی ریکوزیشن پر سینٹ کا اجلاس 10 اکتوبر کو طلب کر لیا گیا جس میں ختم نبوت کے حلف نامے سے متعلق ترمیمی بل منظور کرایا جائے گا۔ اس کے علاوہ اپوزیشن پٹرولیم مصنوعات مہنگی کرنے اور نااہل شخص کو پارٹی صدر بنانے کی ترمیم کے خلاف احتجاج کرے گی۔

حکومت نے اپنی غلطی تسلیم کر لی:
سپیکر سردار ایاز صادق کا کہنا ہے الیکشن بل 2017 کی منظوری کے دوران ارکان اسمبلی کے حلف نامہ میں کلیریکل غلطی ہوئی، حلف نامے میں رد وبدل پر سپیکر قومی اسمبلی نے کلیریکل غلطی کا اعتراف کر لیا۔ حرف بہ حرف پرانا حلف نامہ بحال کرنے کا فیصلہ بھی سنا دیا۔ ارکان اسمبلی کے حلف نامے میں رد و بدل پر بحث چلی تو بات دور نکل گئی۔ معاملے کی سنگینی کا احساس ہونے پر سپیکر ایاز صادق نے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بلا لیا۔ اجلاس میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنما شریک ہوئے۔ دوران اجلاس پیپلز پارٹی کے نوید قمر کا موقف تھا کہ حکومت اپنی غلطی کو درست کرے، تمام پارلیمانی رہنماؤں نے غلطی کی فوری درستگی کا مطالبہ کیا۔ اجلاس کے بعد سپیکر ایاز صادق نے میڈیا کے سامنے غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا جو بھی ٹیکنیکل یا کلیریکل غلطی ہوئی ہے اس کو ٹھیک کیا جائے گا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا حلف نامہ اصل شکل میں واپس لانے پر اتفاق ہوا ہے۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/lahore/2017-10-06/page-1/detail-22
https://www.tehlka.tv/news/96000
 
Last edited:
Top