• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کائنات کی پیدائش چھ ایام یا آٹھ ایام ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کائنات کی پیدائش چھ ایام یا آٹھ ایام ؟

تحریر : محمّد سلیم

سورہ الاعراف 7۔ آیت 54

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِىۡ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰى عَلَى الۡعَرۡشِ يُغۡشِى الَّيۡلَ النَّهَارَ يَطۡلُبُهٗ حَثِيۡثًا ۙ وَّالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ وَالنُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمۡرِهٖ ؕ اَلَا لَـهُ الۡخَـلۡقُ وَالۡاَمۡرُ‌ ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿۵۴﴾

کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے۔ اور اسی نے سورج اور چاند ستاروں کو پیدا کیا سب اس کے حکم کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی (اسی کا ہے) ۔ یہ خدا رب العالمین بڑی برکت والا ہے ﴿۵۴﴾

سورہ یونس 10۔آیت 3

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ فِىۡ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰى عَلَى الۡعَرۡشِ‌ يُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ‌ؕ مَا مِنۡ شَفِيۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِهٖ‌ ؕ ذٰ لِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمۡ فَاعۡبُدُوۡهُ‌ ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿۳﴾

تمہارا پروردگار تو خدا ہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش (تخت شاہی) پر قائم ہوا وہی ہر ایک کا انتظام کرتا ہے۔ کوئی (اس کے پاس) اس کا اذن حاصل کیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا، یہی خدا تمہارا پروردگار ہے تو اسی کی عبادت کرو۔ بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے ﴿۳﴾

سورہ ہود 11۔ آیت 7

وَ هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ فِىۡ سِتَّةِ اَ يَّامٍ وَّكَانَ عَرۡشُهٗ عَلَى الۡمَآءِ لِيَبۡلُوَكُمۡ اَيُّكُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَلَٮِٕنۡ قُلۡتَ اِنَّكُمۡ مَّبۡعُوۡثُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡمَوۡتِ لَيَـقُوۡلَنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿۷﴾

اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا اور (اس وقت) اس کا عرش پانی پر تھا۔ (تمہارے پیدا کرنے سے) مقصود یہ ہے کہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور اگر تم کہو کہ تم لوگ مرنے کے بعد (زندہ کرکے) اٹھائے جاؤ گے تو کافر کہہ دیں گے کہ یہ تو کھلا جادو ہے ﴿۷﴾

سورہ الفرقان 25۔ آیت 59

اۨلَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا فِىۡ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰى عَلَى الۡعَرۡشِ ‌ۛۚ اَلرَّحۡمٰنُ فَسۡـَٔـــلۡ بِهٖ خَبِيۡرًا‏ ﴿۵۹﴾

جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا وہ (جس کا نام) رحمٰن (یعنی بڑا مہربان ہے) تو اس کا حال کسی باخبر سے دریافت کرلو ﴿۵۹﴾

سورہ السجدہ 32۔ آیت 4

اَللّٰهُ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا فِىۡ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰى عَلَى الۡعَرۡشِ‌ؕ مَا لَكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا شَفِيۡعٍ‌ؕ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوۡنَ‏ ﴿۴﴾

خدا ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو چیزیں ان دونوں میں ہیں سب کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ اس کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ سفارش کرنے والا۔ کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے؟ ﴿۴﴾

قرآن ۔ سورہ ق 50۔ آیت 38

وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا فِىۡ سِتَّةِ اَيَّامٍ‌ۖ وَّمَا مَسَّنَا مِنۡ لُّغُوۡبٍ‏ ﴿۳۸﴾

اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو ان میں ہے سب کو چھ دن میں بنا دیا۔ اور ہم کو ذرا تکان نہیں ہوئی ﴿۳۸﴾

سورہ الحدید 57۔ آیت 4

هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ فِىۡ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰى عَلَى الۡعَرۡشِ‌ؕ يَعۡلَمُ مَا يَلِجُ فِى الۡاَرۡضِ وَمَا يَخۡرُجُ مِنۡهَا وَمَا يَنۡزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا يَعۡرُجُ فِيۡهَاؕ وَهُوَ مَعَكُمۡ اَيۡنَ مَا كُنۡتُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ‏ ﴿۴﴾

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ہوتی اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے سب اس کو معلوم ہے۔ اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے ﴿۴﴾

سورہ فصِلت 41 ۔ آیت نمبر 9 تا 12

قُلۡ اَٮِٕنَّكُمۡ لَتَكۡفُرُوۡنَ بِالَّذِىۡ خَلَقَ الۡاَرۡضَ فِىۡ يَوۡمَيۡنِ وَتَجۡعَلُوۡنَ لَهٗۤ اَنۡدَادًا‌ؕ ذٰلِكَ رَبُّ الۡعٰلَمِيۡنَ‌ۚ‏ ﴿۹﴾ وَجَعَلَ فِيۡهَا رَوَاسِىَ مِنۡ فَوۡقِهَا وَبٰرَكَ فِيۡهَا وَقَدَّرَ فِيۡهَاۤ اَقۡوَاتَهَا فِىۡۤ اَرۡبَعَةِ اَيَّامٍؕ سَوَآءً لِّلسَّآٮِٕلِيۡنَ‏ ﴿۱۰﴾ ثُمَّ اسۡتَـوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلۡاَرۡضِ ائۡتِيَا طَوۡعًا اَوۡ كَرۡهًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَيۡنَا طَآٮِٕعِيۡنَ‏ ﴿۱۱﴾ فَقَضٰٮهُنَّ سَبۡعَ سَمٰوَاتٍ فِىۡ يَوۡمَيۡنِ وَاَوۡحٰى فِىۡ كُلِّ سَمَآءٍ اَمۡرَهَا‌ ؕ وَزَ يَّـنَّـا السَّمَآءَ الدُّنۡيَا بِمَصَابِيۡحَ ‌ۖ وَحِفۡظًا ‌ؕ ذٰ لِكَ تَقۡدِيۡرُ الۡعَزِيۡزِ الۡعَلِيۡمِ‏ ﴿۱۲﴾

کہو کیا تم اس سے انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ اور اس کا مدمقابل بناتے ہو۔ وہی تو سارے جہان کا مالک ہے ﴿۹﴾ اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت رکھی اور اس میں سب سامان معیشت مقرر کیا چار دن میں۔ (اور تمام) طلبگاروں کے لئے یکساں ﴿۱۰﴾ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں آؤ خوشی سے خواہ ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں ﴿۱۱﴾ پھر دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اس کا حکم بھیجا اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے مزین کیا اور محفوظ رکھا۔ یہ زبردست (اور) خبردار کے (مقرر کئے ہوئے) اندازے ہیں ﴿۱۲﴾

قارئین ! قرآن کریم کی جتنی بھی آیات میں زمین و آسمان کو تخلیق کرنے کی کل مدت ﷲ تعالیٰ نے بیان کی ہے وہ چھ دن ہی ہے ۔ جس کی مثالیں میں نے اوپر پیش کیں ۔ مگر سورہ فصلت میں ﷲ نے زمین و آسمان کی پیدائش کے دو ایام اور ان میں موجود باقی تمام چیزوں کی پیدائش کے چار ایام کو الگ الگ بیان کیا جس پر ملحدین کا اعتراض یہ ہے کہ اگر ان کو ٹوٹل کیا جائے تو آٹھ دن بنتے ہیں ۔ حالانکہ یہ محض ایک غلط فہمی ہے جو کچھ چیزوں کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ۔

سورہ یاسین 36 ۔ آیت 82

اِنَّمَاۤ اَمۡرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔـا اَنۡ يَّقُوۡلَ لَهٗ كُنۡ فَيَكُوۡنُ‏ ﴿۸۲﴾

اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے ﴿۸۲﴾

اور یہی بات ﷲ نے سورہ فصلت کی آیت 11 میں بیان فرمائی کہ

ثُمَّ اسۡتَـوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلۡاَرۡضِ ائۡتِيَا طَوۡعًا اَوۡ كَرۡهًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَيۡنَا طَآٮِٕعِيۡنَ‏ ﴿۱۱﴾

پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں آؤ خوشی سے خواہ ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں ﴿۱۱﴾

اب یہاں واضح طور پہ آسمان کے ساتھ ہی زمین کو وجود میں لانے کا بھی ذکر ہو رہا ہے ۔ یعنی جو دو دن سورہ فصلت کی آیت نمبر 9 میں بیان کئے گئے آیت نمبر 11 میں انہی کا اعادہ کیا گیا ۔ یعنی دو دن زمین اور آسمان کی تخلیق کے اور چار دن ان کی تزین و آرائش کے ۔

قصور ملحدین کا نہیں ہے ۔ ان آیات سے بعض مسلمان مفسرین نے بھی دھوکا کھایا ہے ۔ کسی نے ان آیات کی تفسیر میں چار دن میں زمین اور اس کی باقی آرائش کو اور دو دن میں سات آسمان کی تخلیق کو بیان کیا ہے ۔ اور بعض نے دو دن میں زمین و آسمان اور چار دن میں تزین و آرائش کو بیان کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ مسلمان مفسرین نے صرف ترتیب میں دھوکہ کھایا ہے تعداد میں نہیں ۔

بنیادی بات یہ ہے کہ زمین و آسمان کی چھ دن میں تخلیق کا بیان اتنے زیادہ تواتر سے قران میں آیا ہے کہ اس کے بعد سورہ فصلت کی ان آیات سے یہ بات اخذ کی ہی نہیں جا سکتی کہ یہاں چھ دن آٹھ دنوں میں بدل گئے ہوں گے جبکہ یہاں صرف دنوں میں بنانے والی چیزوں کا ذکر ہو رہا ہے نا کہ کل تعداد بتائی جا رہی ہے کہ زمین و آسمان آٹھ دن میں بنے ۔

اس تضاد کو صرف ایک ہی صورت میں تضاد سمجھا جا سکتا تھا کہ ایک آیت میں قرآن زمین و آسمان کی تخلیق کے لئے چھ دن کی مدت بتاتا اور کسی اور آیت میں آٹھ بتا دیتا ۔

مگر یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ یہاں زمین و آسمان کی تخلیق کے لئے چھ دن کی مدت تو سات مختلف جگہوں پہ قرآن خود بتا رہا ہے مگر سورہ فصلت سے آٹھ دن کی مدت قران نہیں بتا رہا بلکہ ملحد خود یہ حساب کتاب لگا رہے ہیں ۔ یہ جانے بغیر کہ قرآن پہلے دن سے ہی سینوں میں محفوظ ہوتا چلا گیا اور آج تک دنیا میں جتنے اس کتاب کے حفاظ ہیں اتنے کسی اور کتاب کے نہیں ۔ پھر اگر یہ غلطی ہوتی تو فوراً عیاں ہو جاتی کہ پہلے چھ فرماتے رہے اب تعداد گن رہے ہیں تو آٹھ آرہی ہے ۔ جی نہیں ۔ اس کو کسی بھی دور میں غلطی سمجھا ہی نہیں گیا ۔ نہ ہی یہ غلطی ہے ۔ یہ غلطی صرف اس ملحد کی ہے جس نے حساب کرتے وقت قران کی گزشتہ سات آیات کو قطعاً نظر انداز کر دیا اور زمین کے دو دن الگ گنے اور آسمان کے دو دن الگ ۔ جبکہ حقیقت میں زمین اور آسمان کی پیدائش کے لئے دو دن کا ذکر کیا گیا ہے ۔

یعنی صورت حال یوں ہے کہ سات مختلف مقامات پہ قران زمین و آسمان کی پیدائش کی مدت چھ دن بتاتا ہے اور سورہ فصلت میں تین باتیں سامنے آتی ہیں ۔

١ ۔ زمین دو دنوں کی مدت میں تخلیق ہوئی ۔
٢ ۔ زمین میں موجود چیزیں چار دن کی مدت میں تخلیق ہوئیں ۔
٣ ۔ زمین و آسمان دو دن کی مدت میں تخلیق ہوئے ۔

اب یہاں سے یہ منطقی مغالطہ جنم لیتا ہے کہ جن دو دنوں کی مدت میں زمین تخلیق ہوئی ان میں کچھ اور تخلیق نہ ہوا ہو گا جبکہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ﷲ کی تخلیق کے عمل سے مراد بس ایک لفظ "کن" ہے ۔ ﷲ صرف ارادہ کرتا ہے مشقت نہیں کرتا ۔ اور جب اسی کی اگلی آیات میں یہ بات واضح ہو چکی کہ زمین و آسمان ایک ساتھ تخلیق ہوئے تو سمجھنے والے کو کم از کم اتنی سمجھداری کا ثبوت ضرور دینا چاہئے کہ یہ دو دن پچھلی آیات میں زمین کے لئے بیان کردہ دو دنوں سے الگ کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ آپ کے پاس چھ دن میں زمین و آسمان کی تخلیق کی سات مختلف آیات بھی موجود ہوں ؟

اس منطقی مغالطے کی ایک وجہ یہاں استعمال ہونے والا لفظ "ثم" بھی ہے جو عربی میں زیادہ تر "پھر" کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی "اس کے بعد" ۔ مگر یہاں اعتراض کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ نہ صرف عربی کا لفظ "ثم" بلکہ اردو کا لفظ "پھر" یہ دونوں لفظ مزید یا انگریزی کے لفظ "further" کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتے ہیں ۔

مثلاً
"میں صبح نو بجے آفس جاتا ہوں اور شام چھ بجے واپس آتا ہوں پھر میں بیچ میں دو وقفے بھی لے لیتا ہوں پھر جو لنچ کا وقفہ ہے سو وہ الگ ۔"

اس جملے میں لفظ "پھر" اگر آپ ترتیبی معنوں میں یا "اس کے بعد"کے معنوں میں استعمال کریں گے تو الجھ جائیں گے ۔ لہٰذا یہاں اس کا ترجمہ "مزید" کے معنوں میں کیا جائے گا ۔

بنیادی بات یہ ہے کہ قرآن عقل والوں کے لئے نازل کیا گیا ہے ۔ تو جو لوگ عقل رکھتے ہیں وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ کی ان آیات سے کیا مراد ہے ۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سمجھانے سے سمجھ جاتے ہیں ۔ اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو سمجھنے کے باوجود بھولے بن جاتے ہیں اور اپنے آپ کو خبط العقل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

ﷲ سب کو عقل و ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین

 
Top