• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کافرکون...؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم الله الرحمن الرحيم

کافرکون...؟


مصنف/مقرر/مولف : الشیخ محمد رفیق طاہر حفظہ اللہ

مقدمہ

آج کل ایک دوسرے کو کافر کہنے کا رواج عام ہوتا چلا جار ہا ہے ۔ اور کیوں نہ ہو ، اس میں تو لطف ہی بہت آتا ہے ۔کیونکہ ابلیس نے اس کام کو مسلمانوں کے لیے بڑا خوشنما بنا کر پیش کیا ہے ۔ ویسے تو ہر گناہ والا ہر کام ہی پر لطف ہوتا ہے ، گوکہ آخرت میں اسکا انجام بہت برا نکلتا ہے ، لیکن گناہ جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے ویسے ہی اس کی لذت میں اضافہ ہو تا چلا جاتا ہے ۔ اور چونکہ کسی مسلمان کو کافر قرار دے دینا گناہوں میں سے بہت بڑا گناہ ہے اسی لیے اس گُناہ ِ پُرلذت کے مرتکب بہت ہی محظوظ ہوتے ہیں۔

ویسے اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو کسی کلمہ پڑھنے والے اور ارکان اسلام وایمان پر عمل کرنے والے شخص کو کافر قرار دینا بسا اوقات دینی وشرعی ضرورت بن جاتی ہے ۔ اور اسلام نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر کوئی شخص کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جائے ، اسکے ظاہری اعمال مسلمانوں والے ہوں لیکن پھر اسکے بعد وہ کوئی ایسا عمل کرے جو کسی مسلمان کو مرتد بنادیتا ہے تو اہل علم مکمل تحقیق وتفتیش کے بعد اسکے کافر ہونے کا اعلان کردیں اور مسلمان حاکم اس مرتد کو قتل کر دے تاکہ یہ گندی مچھلی سارے تالاب کو گندہ نہ کردے ۔

اور ماضی میں اس شرعی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے اسلام دشمنوں کو کافر قرار دیا گیا ہے جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر کفر کی ترویج شروع کر دی تھی ۔ ماضی قریب میں مرزا غلام احمد قادیانی اس بات کی بہترین مثال ہے ۔ کہ مولانا محمد حسین بٹالوی a نے مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد اسکے کافر ہونے کا فتوى دیا ، پھر انکے بعد برصغیر کے دیگر علماء کرام نے مرزا غلام احمد قادیانی کے کردار کو پرکھ کر اس پر کفر کا فتوى لگایا ۔ اور یہ عین اسلام ضروریات میں ہے ، کہ ایسے ظالم شخص پر کفر کا فتوى لگا کر عوام الناس کے سامنے اسکا کفر واضح کیا جائے ۔

لیکن بہر حال جیسا کہ مثل مشہور ہے "جسکا کام اسی کو ساجے ... اور کرے تو ٹھینگا باجے" یہ کام ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کا نہیں ہے کہ ہر گاما، ما جا ، شِیدا جو چاہے اٹھے اور کفر کفر کی توپ چلانا شروع کر دے ۔ یہ نہایت حساس معاملہ ہے اور صرف یہ نہیں کہ عوام الناس یہ کام نہیں کر سکتے بلکہ یہ تو چھوٹے موٹے مولویوں کا کام بھی نہیں ہے ۔یہ ایسے کبار علماء کافریضہ ہے جو راسخ فی العلم یعنی علم میں پختہ ہوں ، اور علماء بھی عوام الناس میں عالم دین مشہور ہونے کے باوجود ان کی طرف رجوع کرتے ہوں ، ان سے سیکھتے ہوں ، اور مسائل کا حل دریافت کرتے ہوں ، ایسے ہی لوگوں کو عرف عام میں استاذ العلماء (یعنی علماء کا استاد) یا استاذ الاساتذہ (یعنی استادوں کا استاد)کہا جاتا ہے ۔ الغرض یہ فریضہ جتنا بڑا ، اور معاملہ جتنا حساس ہے ، اسے سرانجام دینے کے لیے بھی اتنے بڑے علم وفضل کے حاملین اور حکمت ودانائی کے پیکر درکار ہیں ۔

اور یہ صرف اسی مسئلہ کی بات نہیں ہے بلکہ دنیا کا ہر کام اسی اصول پر ہی چلتا ہے۔ کسی بھی ملک کی عوام اقتدار کسی مجنون اور دیوانے کے سپرد نہیں کرتی ، بلکہ کسی صاحب علم ودانش کو اپنا حاکم بناتی ہے ۔ کیونکہ نظام حکومت کو چلانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ایسے ہی تقریبا ہر معاملہ میں لیڈر اور رہنما صرف اسے ہی تسلیم کیا جاتا ہے جس میں قائدانہ صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہوں ۔ وگرنہ وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے جو اپنی سیادت وقیادت کسی نا اہل شخص کے سپرد کردے ۔ اور ایک عرب شاعر نے تو کیا خوب کہا ہے :

إذا کان الغراب دِلِّیل قوم ؛ سیہدیہم طریق الہالکین

یعنی جب کسی قوم کا راہنما کوا بن جائے ، تو وہ انہیں ہلاکت کی راہوں پر ہی گامزن کرے گا ۔

الغرض "لِکلِّ فنٍ رِجالٌ" یعنی ہر فن کے لیے کوئی نہ کوئی ماہرین ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی مسئلہ تکفیر کے لیے بھی ماہرین ِ فن کی ضرورت ہے ، وگرنہ جیسے قوم کو اگر عطائی حکیموں اور ڈاکٹروں کے پلے ڈال دیا جائے تو پھر قبرستان ہی آباد ہوتےہیں ، ویسے ہی اگر مسئلہ تکفیر کو بھی جاہل وکج فہم فتوى بازوں کے سپرد کر دیا جائے تو وہ ساری قوم کو ہی کافر بنا بیٹھتے ہیں ۔ لہذا یہ مسئلہ انہی لوگوں کے سپرد کرنا ضروری ہے جو اسے اسکے اہل ہیں ۔


شریعت اسلامیہ نے بہت سے کاموں کو کفریہ کام قرار دیا ہوا ہے ، لیکن اسکے باوجود دین اسلام کسی خاص آدمی کی طرف اشارہ کرکے یا اسکا نام لے کر اسے کافر قرار دینے سے منع کرتا ہے ، الا کہ اس میں کچھ شرائط پوری ہو جائیں اور اسکے معاملہ کی مکمل طور پر تحقیق کر لی جائے ۔ اس مختصر سے رسالہ میں ہم ان چند قوانین کا ذکر کریں گے کہ جن پر عمل درآمد کرنا اسلام نے کسی بھی شخص کو کافر کہنے کے لیے ضروری قرار دیا ہے ۔ جو شخص ان اصولوں کو مد نظر رکھے بغیر کافر کافر کی گردان کرتا ہے ، اسے تکفیری کہا جاتا ہے ۔

آج کل بہت سے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ کوئی زنا کرے تو زانی , شراب پیئے تو شرابی , چور ی کرے تو چور , تو پھر جو کفر کرتا ہے وہ کافر اور جو شرک کرتا ہے وہ مشرک کیوں نہیں ؟ کفر کے مرتکب کو کافر اور شرک کے مرتکب کو مشرک کہنے والوں کو کیوں تکفیری کہا جاتا ہے ۔

اسکا جواب سیدھا سا ہے کہ زنا کرنے والے کو زانی کہنے کا بھی اصول ہے کہ اسے واضح زنا کرتے ہوئے کم از کم چار افراد اپنی آنکھوں سے دیکھیں , اور وہ چاروں عادل ہوں , اور محض شک نہ ہو بلکہ مرد کا آلہ تناسل عورت کی شرمگاہ میں ایسے داخل ہوتا دیکھیں جیسے سرمچو سرمہ دانی میں داخل ہوتا ہے ۔ تو تب انکی گواہی کو قبول کرکے زنا کرنے والے کو زانی قرار دیا جائے گا ۔ یا زانی خود اعتراف کر لے کہ میں نے زنا کیا ہے , تو بھی اسے زانی قرار دے کر اسکی سزا دی جائے گی ۔ اور اگر ان شرطوں میں سے ایک بھی شرط پوری نہ ہو تو کسی کو زانی کہنے والے کو تہمت کی سزا کے طور پر 80 کوڑے مارے جائیں گے ۔ اسی طرح کسی کو چور قرار دینے کا بھی ضابطہ اور اصول ہے کہ اس پر بھی گواہ موجود ہوں , یا اعتراف ہو ۔ اور اسی طرح باقی تمام تر شرعی احکامات میں اصول وضوابط مقرر شدہ ہیں ۔

بالکل اسی طرح جب کوئی شخص کفر یا شرک کا ا رتکاب کرتا ہے تو اسے بھی کافر یا مشرک قرار دینے کا شریعت نے ایک ضابطہ مقرر کیا ہے ۔ اور جو اسکا لحاظ کیے بغیر کسی کو کافر یا مشرک کہے گا تو اسے بھی "تکفیری" ہی کہا جائے گا !

اور وہ ضابطہ ہم نے اس رسالہ میں بیان کر دیا ہے ۔ اسے ضوابط تکفیر یا موانع تکفیر یا شروط تکفیر کہا جاتا ہے ۔ ان قوانین کا لحاظ رکھ کر اگر کسی کی تکفیر کی جاتی ہے تو امت نے کبھی اسے رد نہیں کیا , اور نہ ہی ایسا کرنے والے کو کسی نے آج تک تکفیری قررا دیا ہے ۔

یاد رہے کہ اس رسالہ سے یہ ہر گز مقصود نہیں ہے کہ اسے پڑھ کر ہر شخص لوگوں کو کافر بنانے کی مشق شروع کر دے ، بلکہ مقصود صرف اور صرف اس معاملہ کے بارہ میں وضاحت کرنا ہے کہ یہ کام کن کن مراحل سے گزرنے کے بعد سر انجام دیا جاتا ہے ۔ تاکہ ذی شعور لوگ اسے پڑھتے ہی فورا سمجھ جائیں کہ یہ کام انکی دسترس سے بالا تر ہے ۔ اور اسے ان لوگوں کے ہی سپرد کریں جو یہ کام سر انجام دے سکتے ہیں ۔

محمد رفیق طاہر


۲۴ شعبان ۱۴۳۴ھ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
تکفیر کی اقسام :

کسی کو کافر قرار دینے کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک تو یہ کہ کسی گروہ یا شخص کا نام لے کر اسے کافر قرار دینا ، اسے تکفیر مُعَیَّنکہا جاتا ہے ۔ اور دوسرا یہ ہے کہ کسی کام کو کفریہ قرار دینا ، یعنی یوں کہنا کہ جس نے بھی فلاں کام کیا وہ کافر ہے ، اسے تکفیر مُطلَق کہا جاتا ہے ۔ یعنی تکفیر مطلق کسی خاص کفریہ فعل کی بناء پر ہوتی ہے ۔ لیکن اس خاص فعل کا مرتکب خاص شخص اس وقت تک کافر قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک اس میں تکفیر کی شرطیں پوری نہ ہو جائیں اور موانع ختم نہ ہو جائیں ۔ لہذا تکفیر مطلق اور تکفیر معین کا فرق سمجھنا ضروری ہے ۔

تکفیر مطلق :


کسی بھی فعل کو کتاب وسنت میں کفر قرار ديا گیا ہو تو اس کے بارہ میں کہنا جس نے بھی یہ کام کیا وہ کافر ہے ۔ تکفیر مطلق کہلاتا ہے ۔ مثلا : اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے ۔اسی طرح اللہ تعالی یا نبی آخر الزماں ﷺ ، یا ارکان اسلام وایمان کا انکار کرنے سے بندہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔ لہذا ہم کہیں گے کہ جس نے بھی شرک کیا اسکا اسلام ختم ہوگیا اور جس نے بھی اللہ کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا ۔ اور اسے تکفیر مطلق کا نام دیا جاتا ہے ۔ اور ایسی تکفیر کی صورت میں جن افراد پر یہ تکفیر صادق آتی ہے ان سے کفار والا معاملہ نہیں کیا جاتا نہ ہی انہیں مرتد قرار دیا جاتا ہے ۔ بلکہ انہیں مرتد قراردینے کے لیے انکی مُعَیَّن تکفیر کی جاتی ہے۔

تکفیر مُعَیَّن (nominate takfeer ) :


تکفیر معین یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی ایسے کا م کے مرتکب شخص کو نام لے کر کافر قرار دینا جس کام کا کفر یا شرک ہونا کتاب وسنت سے ثابت ہے ۔مثلا : زید نے اللہ تعالی کی آیات کا مذاق اڑایا تو یہ کہنا کہ زید کافر ہے اسے تکفیر معین کہا جاتا ہے ۔


تکفیر معین کے اصول :


مطلق تکفیر تو قرآن وحدیث کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص کرتا ہے مگر تکفیر معین ایک حساس معاملہ ہے ۔ لیکن بہر حال اسلام میں کسی بھی شخص کی معین تکفیر کی جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے اللہ تعالی نے کچھ اصول مقرر فرمائے ہیں جوکہ درج ذیل ہیں :

١۔ علم


اگر کسی آدمی کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ جو کام میں کر رہا ہوں وہ کام کرنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے تو اس آدمی کو کفریہ کام کا ارتکاب کرلینے کے باوجود کافر نہیں کہا جائے گا ۔ مثلا زید نے اللہ تعالی کی آیات کا مذاق اڑایا ہے اور اسے معلوم ہی نہیں کہ ایسے کرنے سے انسان مرتد ہو جاتا ہے تو اسے مرتد یا کافر قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

"إن اللہ تجاوز عن أمتي الخطأ والنسیان" میری امت سے خطا اور نسیان کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے درگزر کیا ہے، معاف کردیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق باب طلاق المکرہ والناسی ح2043)


جہالت کی بنا پر، بھول کر، بندہ کام کرلیتا ہے۔ جاہل ہے، اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردیں گے ۔ہم دنیا میں اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا سکتے۔ جب تک اس کی جہالت رفع نہ ہو۔ بلکہ جہالت کی وجہ سے کفریہ کام سر انجام دینے والے کو تو اللہ تعالی نے معاف فرما دیا تھا ، ملاحظہ فرمائیں :

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " کَانَ رَجُلٌ یُسْرِفُ عَلَی نَفْسِہِ فَلَمَّا حَضَرَہُ المَوْتُ قَالَ لِبَنِیہِ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِی، ثُمَّ اطْحَنُونِی، ثُمَّ ذَرُّونِی فِی الرِّیحِ، فَوَاللہِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَیَّ رَبِّی لَیُعَذِّبَنِّی عَذَابًا مَا عَذَّبَہُ أَحَدًا، فَلَمَّا مَاتَ فُعِلَ بِہِ ذَلِکَ، فَأَمَرَ اللہُ الأَرْضَ فَقَالَ: اجْمَعِی مَا فِیکِ مِنْہُ، فَفَعَلَتْ، فَإِذَا ہُوَ قَائِمٌ، فَقَالَ: مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: یَا رَبِّ خَشْیَتُکَ، فَغَفَرَ لَہُ "


سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک آدمی بہت گناہ گارتھا۔ تو جب اسکی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو کہا جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر رکھ بنا دینا اور پھر مجھے ہوا میں اڑا دینا ، اللہ کی قسم! اگر اللہ نے مجھے جمع کر لیا تو مجھے ایسا عذاب دے گا کہ جیسا اس نے کبھی کسی کو نہ دیا ہوگا۔ تو جب وہ فوت ہو گیا تو اسکے ساتھ ایسا ہی کیا گیا ۔ اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا کہ جوکچھ تیرے اندر ہے اسے جمع کر تو زمین نے اسکی خاک کو جمع کردیا اور وہ اللہ کے حضور پیش ہوا تو اللہ تعالی نے پوچھا: تجھے یہ کام کرنے پر کس نے ابھارا تھا ۔ تو وہ کہنے لگا: اے رب! تیرے ڈر نے ہی مجھے اس کام پر مجبور کیا تھا ۔تو اللہ تعالی نے اسے معاف فرما دیا ۔


(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حدیث الغار :3481)


یعنی اس بیچارے نے اپنی جہالت کی وجہ سے یہ سمجھا کہ شاید اللہ کے پاس اتنی قدرت نہیں ہے کہ وہ ذروں کو جمع کر کے مجھے دوبارہ کھڑا کر سکے ۔البتہ وہ شخص مؤمن تھا اسے یقین تھا کہ مرنے کے بعد حساب دینا پڑے گا ۔ اللہ تعالی پر اسے یقین تھا ۔ لیکن اپنی نادانی اور جہالت کی وجہ سے اللہ تعالی کی صفات کا انکار کر بیٹھا کہ اگر میں راکھ ہو جاؤں گا اور میرے ذرات بکھر جائیں گے تو شاید اللہ تعالی کی گرفت سے بچ جاؤں گا ۔ اور اس نے یہ کام صرف اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرتے ہوئے کیا تھا ۔ تو اللہ رب العزت نے اسے معاف فرما دیا کہ اس شخص میں جہالت کا عذر تھا ۔

٢۔ قصد وعمد :


یعنی کوئی بھی شخص جو کفریہ کام کا مرتکب ہوا ہے ، وہ اگر جان بوجھ کر کفر کرے گا توہم اس کا نام لے کر اسے کافر کہیں گے اور اس پر مرتد ہونے کا فتوی لگے گا ۔ اور اگر وہ کفریہ کام اس سے کسی غلطی کی وجہ سے سرزد ہوا ہے تو اسے کافر یا دائرہ اسلام سے خارج نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

"إن اللہ تجاوز عن أمتي الخطأ والنسیان"میری امت سے خطا اور نسیان کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے درگزر کیا ہے، معاف کردیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق باب طلاق المکرہ والناسی ح2043)


اسی طرح وہ شخص کہ صحراء میں جس کا اونٹ گم ہو گیا اور وہ موت کا انتظار کرتے کرتے سوگیا ، لیکن جونہی آنکھ کھلی تو اس اونٹ سازو سامان سمیت اسکے سامنے کھڑا تھا ، تو انتہائی خوشی کے عالم میں بے ساختہ اسکی زبان سے یہ جملہ نکلا " یا اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں " (صحیح مسلم : ۲۷۴۷) ۔ ظاہراً تو یہ کلمہ کفریہ تھا ، لیکن چونکہ اس نے یہ جملہ جان بوجھ کر نہیں کہا بلکہ بلا اختیار اسکے منہ سے یہ الفاظ نکلے ، لہذا ایسے شخص کی تکفیر کرنا قطعا جائز نہ ہوگا ۔

٣۔ اختیار :


تیسری شرط یہ ہے کہ وہ آدمی مختار ہو، یعنی اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے کرے، اگر کوئی آدمی اس کو کہتا ہے کہ تو کفریہ کلمہ کہہ، نہیں تو تجھے ابھی قتل کرتا ہوں ۔ تو وہ اس کے جبر ، تشدد وظلم کے ڈر سے کوئی کفریہ کلمہ کہہ دیتا ہے یاکفریہ کام سر انجام دے بیٹھتا ہے تو ایسے آدمی کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے :

مَنْ کَفَرَ بِاللہِ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِہِ إِلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیمَانِ وَلَکِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِنَ اللہِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ (النحل : ١٠٦)


جو آدمی اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کرے( اللہ کو ہرگز یہ گوارا نہیں ہے)۔ہاں وہ بندہ جس کو مجبور کردیا گیا(تو اس آدمی پر کوئی وعید نہیں ہے) لیکن جس نے شرح صدر کے ساتھ ، دل کی خوشی کے ساتھ کفر کیااس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے،اوران کےلئے بہت بڑا عذاب ہے۔

یعنی اگر جان بوجھ کر ، اپنے اختیا ر کے ساتھ، جبرواکراہ کے بغیر، وہ ایسا کفریہ کلمہ کہتا ہے، یا کفریہ کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ قابل مؤاخذہ ہے۔ لیکن اگر کسی کے ڈرسے وہ کفریہ کام سرانجام دیتا ہے تو وہ قابل مؤاخذہ نہیں ہے۔

ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا :

"لا تشرک باللہ شیئا وإن قطعت وحرقت " تجھے جلا دیا جائے ، تیرے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں، اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرنا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب الصبر علی البلاء ح4034)


عزیمت پر محمول ہے ، یعنی موت کے خوف سے ، جان بچانے کی غرض سے کفریہ یا شرکیہ کام کرنا پڑتا ہے، کفریہ یا شرکیہ کلمہ کہنا پڑتا ہے تو آدمی کو رخصت ہے کہ کفریہ یا شرکیہ کلمہ کہہ سکتا ہے، شرکیہ یا کفریہ کام کرسکتا ہے، لیکن عزیمت یہی ہے کہ بندہ اس وقت بھی کفریہ کلمہ نہ کہے ۔ اور اگر وہ رخصت کو اپنالیتا ہے تو بھی شریعت نے اسکی اجازت دی ہے ۔ اور یہ کوئی مداہنت یا معیوب بات نہیں۔

٤۔ تأویل (misconception) :


چوتھی شرط یہ ہے کہ جو شخص کفر کا ارتکاب کر رہا ہے وہ مؤول نہ ہو ۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ وہ کسی شرعی دلیل کا سہارا لے کر اس کام کو جائز سمجھتا ہو ۔قرآن وحدیث کی غلط تفسیر وتاویل کرکے کسی بھی کفریہ کام کو اپنے لیے جائز سمجھنے والے کی اس وقت تک تکفیر نہیں کی جاسکتی جب تک اس پر حجت قائم نہ ہو جائے ۔ مثلا آج کل بہت سے لوگ غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں ۔ تو ہم کہتے ہیں کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا شرک ہے اور جو بھی غیر اللہ سے مدد مانگتا ہے وہ مشرک وکافر ہو جاتا ہے ۔ لیکن اگر زید نامی شخص غیر اللہ سے مدد مانگتا ہے تو ہم اسے اسوقت تک کافر قرار نہیں دیں گے جب تک اس پر حجت قائم نہ کر لیں، اس کی تحقیق نہ کر لیں ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے غلط تاویل وتوجیہہ کرنے والوں کے ایسے کاموں سے درگزر فرمایا ہے نبی کریمﷺکا فرمان ہے :

إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَہُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَہُ أَجْرٌ


( صحیح مسلم : 1716)

جب فیصلہ کرنے والا فیصلہ کرتا ہے ، اگر تو اسکا فیصلہ درست ہو تو اسے دو اجر ملتے ہیں اور اگر اسکا اجتہاد اسے غلطی پر پہنچا دے توبھی اسے ایک اجر ملتا ہے ۔

اور ہمارے یہاں پائے جانے والے بہت سے ایسے افراد جو کفریہ وشرکیہ کام کرتے ہیں وہ اجتہادی خطأ کا شکار ہوتے ہیں اور کتاب وسنت کی نصوص کی غلط تاویل وتفسیر کرکے اسے ہی حق سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔

الغرض کسی بھی شخص کی معین تکفیر یعنی اسکا نام لے کر اسے کافر قرار دینا یا کسی جماعت کی معین تکفیر اس وقت تک نہیں کی جاسکتی جب تک اللہ رب العزۃ کے مقرر کردہ اصول وقوانین کو اپلائی نہ کیا جائے ۔

۵۔ کفر ہونے کا اثبات :


ایسے ہی جس کام کی بناء پر کسی شخص کو کافر قرار دیا جا رہا ہے اس کام کا کفر ہونا بھی شریعت اسلامیہ کے واضح دلائل وبراہین سے ثابت ہو ۔ یہ نہ ہو کہ جس کام کی بناء پر کفر کا فتوى لگایا جار ہا ہے شریعت اسے کفر ہی نہ سمجھتی ہو ۔ اور ہمارے معاشرہ میں اکثر وبیشتر ایسا ہی ہوتا ہے کہ عمل کا کفریہ ہونا ہی ثابت نہیں ہوتا ، مگر اسکی بناء پر لوگوں کو کافر قرار دیا جار ہا ہوتا ہے ۔ ایسا ہی کام نبی کریم ﷺ، قرآن مجید فرقان حمید اور اللہ تعالى کی گستاخی کے نام پر بھی کیا جاتا ہے ، کہ بہت سے ایسے افعال واقوال جو کہ شریعت کے میزان میں گستاخی نہیں بنتے ، انکی بناء پر بھی ارض پاک میں جابجا ظلم وبربریت کے بازار گرم کیے جاتے ہیں ، جوشیلے ہمنواؤں کے جلو میں فقیہانِ کج فہم کسی مسلمان پر چڑھ دوڑتے ہیں اور اسےکافر اور گستاخ کہہ کر موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے ۔ لہذا کسی بھی شخص کی تکفیر کے لیے ضروری ہے کہ جس عمل کی بناء پر اسے کافر کہا جار ہا ہے وہ عمل واقعتاً کفر ہو ۔

تکفیر مسلم کے بھیانک نتائج :


اگر کوئی شخص کسی مسلمان آدمی کو جان بوجھ کر کافر کہہ دے ، تو کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے ۔


(صحیح بخاری ، کتاب الادب ، باب من کفر أخاہ بغیر تأویل فہو کما قال : ۶۱۰۳)


کیونکہ یہ معاملہ نہایت ہی سنگین ہے ، کسی بھی شخص کو کافر قرار دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسکی جان ومال وآبرو کچھ بھی محفوظ نہیں رہی یعنی مسلمانوں کے لیے اسے قتل کرنا اور اسکا مال لوٹنا جائز ہو گیا ہے ۔اسی بناء پر آپ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ پاکستانی حکام ، عدلیہ ، افواج اور پولیس وغیرہ کو کافر کہتے ہیں ، وہ انہیں قتل کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ اور انکا مال لوٹنے کے لیے اغواء برائے تاوان تو انکا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے ۔آئے روز ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ فلاں جگہ بم دھماکہ ہوگیا ، فلاں جگہ خود کش حملہ ہوگیا ، فلاں شخص کوتحریک طالبان نے اغواء کرکے نامعلوم مقام پر پہنچا دیا اور اسکی رہائی کے عوض اتنی رقم کا مطالبہ رکھ دیا ہے ۔ یعنی تکفیر کا فتنہ ایسا خطرناک فتنہ ہے جو موجودہ دور کے تمام تر فتنوں سے زیادہ سنگین اور خطرناک ہے ۔

خاتمہ :


کسی خاص شخص کو کافر قرار دینے سے متعلق یہ کچھ اہم بنیادی معلومات تھی جو ہم نے آپ کے سامنے رکھی ہے ۔ کہ کسی بھی کفریہ کام کے مرتکب شخص کو اس وقت تک کافر نہیں کہا جاسکتا جب تک مندرجہ بالا شرائط اس میں پوری نہ ہو جائیں ۔ اور یہ کام صرف اور صرف راسخ فی العلم علماء اور قضاۃ کا ہے ، نہ کہ جو چاہے ان شرائط کو خود سے پورا کرلے اور کافر کافر کی گردان کرتا پھرے اور کہے کہ میں نے تو حجت قائم کردی ہے لہذا میرے نزدیک اب یہ شخص کافر ہے ۔ اور جو لوگ ان اصولوں اور قاعدوں کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں انہیں تکفیری کہا جاتا ہے ۔

اللہ سے دعاء ہے کہ وہ اس مختصر رسالہ کو اہل اسلام کے لیے نفع بخش بنادے ۔ آمین یا رب العالمین

 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
کافر وہ شخص ہے جو خالص اللہ کی عبادت کا انکارکرے بلکہ اسکے ساتھ دوسرون کی بھی عبادت کرے ۔کفار مکہ کو کافر بھی کہاجاتاہے اور مشرک بھی۔ کافر اسلئیے کہ وہ خالص اللہ کی عبادت کا انکار کرتے تھے اور مشرک اسلئیے کہ وہ غیر کی بھی عبادت کرتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب
 
Top