• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کافر حکمران کے خلاف خروج

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
حکمران یا تو کافر ہوتا ہے یا مسلمان ۔فسق ظاہرکی صورت میں یہ مسلم حکمران عدل سے نکل جاتاہے۔ حکمران اسلام سے خارج ہوجائے اس کا کیا حکم ہے اس خروج کی کوئی بھی صورت ہو چاہے بغیر ماانزل اللہ فیصلہ کرکے ہویا شریعت کو تبدیل کرنے سے یا اللہ کا حکم کے متضادقانون بنانے سے ۔ایسے حکمران مسلمان نہیں لہٰذا ان کی اطاعت واجب نہیں ہے بلکہ طاقت ہو تو ان کامقابلہ کرنا چاہیے اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ قابل اطاعت اولی الامر سے مراد علماء وفقہاء ہیں وہ لوگ نہیں جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال ۔معروف کو منکر اورمنکر کو معروف بناتے ہیں ان کا حکم کرتے ہیں اور لوگوں کو زبردستی کفر پر مجبور کرتے ہیں ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہماکہتے ہیں:
اولی الامر سے مراد فقہاء ہیں ۔
عبیداللہ بن احمد کہتے ہیں:
وہ لوگ کہ جو لوگوں کو اللہ کا دین سمجھاتے ہیں اور امر بالمعروف نہی عن المنکر کرتے ہیں ۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہماکہتے ہیں :
فقہاء وعلماء مراد ہیں ۔
عطاءرحمہ اللہ کہتے ہیں:
فقہاء وعلماء مراد ہیں ۔رسول کی اطاعت سے کتاب وسنت کی پیروی مراد ہے ۔
۔میمون بن مہران رحمہ اللہ کہتے ہیں:
جب تک رسول ﷺزندہ تھے تو ان کی اور اب سنت کی اطاعت ہے ۔
مجاہدرحمہ اللہ کہتے ہیں :
اہل علم وفقہ مراد ہیں ۔اختلاف میں اولی الامر کے بجائے کتاب وسنت کی طرف رجوع کیا جائے گا ۔
۔قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہمااورمجاہدرحمہ اللہ کہتے ہیں :
اولی الامر سے مراد اہل القرآن والعلم ہیں۔مالک اور ضحاک نے بھی یہی کہا ہے ۔
مقاتل کلبی اورمیمون کہتے ہیں:
مراد ہے فوج کے سپہ سالار ۔
سہل بن عبداللہ کہتے ہیں :
لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک بادشاہ اور علماء کی تعظیم کریں گے جب ایسا کریں گے تو ان کا دین ودنیا دونوں صحیح رہیں گی ورنہ بگڑ جائیں گی(قرطبی:۵/۳۶۲)۔
ابوبکر جصاص کہتے ہیں:
اولی الامر کی تفسیر میں اختلاف ہے ۔جابر بن عبداللہ،ابن عباس رضی اللہ عنہم،حسن ،عطاء اور مجاہد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ :مراد فقہاء وعلماء ہیں ۔
ابن عباس ۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہماکہتے ہیں :
مراد فوجوں کے سپہ سالارہیں ۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ سب مراد ہوں اس لیے کہ فوج کے سپہ سالار دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں ۔
علماء شریعت کی حفاظت کرتے ہیں اسی لیے اللہ نے فرمایاہے:
کہ علماء سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں اولی الامر سے مراد حکمران ہیں اس لیے کہ پہلے عدل کرنے کا ذکر ہوا ہے اور یہ وہی کرسکتا ہے جس کے پاس طاقت واختیار ہو ۔لہٰذا اس سے مراد قاضی وحکمران ہیں ۔اللہ ورسول کی اطاعت کے ساتھ ان کی اطاعت کاحکم دینے کا مطلب ہے کہ جب تک یہ حکمران عادل ہوں۔اولی الامر سے مراد حکمران ،فوجی سربراہ اور قاضی وعلماء سب ہوسکتے ہیں عدل کے حکم سے لازم نہیں آتا کہ صرف حکمران ہوں ۔اللہ ورسول ﷺکی طرف تنازعات لیجانے کے حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ اولی الامر سے مراد علماء ہیں ورنہ جس کو کتاب وسنت کا علم نہ ہو وہ کیسے ان سے رجوع کرے گا ؟(احکام القرآن :۳/۱۷۷-۱۷۸)
ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا ہے :
ابن عباس ر ضی اللہ عنہما کہتے ہیں:اس سے مراد فقہاء ہیں ۔مجاہد ۔عطاء۔حسن۔ابوالعالیہ رحمہم اللہ نے بھی علماء مراد لیا ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ سب مراد ہیں ۔(ابن کثیر:۱/۷۸۴)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
علماء کی رائے ہے کہ یہاں اولی الامر سے مراد علماء ہیں جمہور سلف وخلف مفسرین فقہاء وغیرہ کا بھی یہی قول ہے کسی نے کہا ہے علماء وامراء مراد ہیں ۔(شرح مسلم :۱۲/۴۶۴/۴۶۵۔ابن کثیر)
امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ائمہ ،سلاطین اور قاضی اور ہر وہ شخص مراد ہے جس کے پاس شرعی عہدہ ہو طاغوتی نہ ہو۔(فتح القدیر:۱/۴۸۱)
ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :طیبی نے کہا ہے کہ اللہ ورسول کی اطاعت مستقلاً ہے جبکہ امراء میں کچھ واجب الاطاعت ہوں گے کچھ نہیں ہوں گے اگر وہ حق پر عمل نہ کرتے ہوں تو ان کی اطاعت مت کرو اور اختلافی اموراللہ ورسول کے حکم کے پاس لیجاؤ۔(فتح الباری:۱۳/۱۱۲)

سید قطب شہید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اولی الامر سے مراد وہ مومن ہیں جن میں ایمان واسلام کی شرائط پائی جاتی ہوں آیت میں اللہ ورسول کی اطاعت سے مراد ہے اللہ کو حاکمیت میں اکیلا ماننا اور ابتداءً لوگوں کے لیے تشریع کا حق اور اس سے اخذ کرنا جس کے بارے میں نص ہواو رجب آراء و عقول میں اختلاف ہوجائے تو منصوص علیہ کی طرف رجوع کرنا نص نے اللہ ورسول eکی اطاعت کو بنیاد اور اصل قرار دیا ہے اور اولی الامر کی اطاعت کو ان کاتابع کیا ہے یہ بتانے کے لیے اولی الامر کی اطاعت اللہ ورسول کی اطاعت کے ضمن میں ہوگی اور اس شرط کے ساتھ کہ وہ مومن مسلمان ہوں ۔(الظلال:۲/۶۹۰-۶۹۱)
یہ دراصل نہی نہیں ہے کہ کافروں کو مسلمانوں پر راہ مت دو ۔اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ مسلمان کافر کا غلام نہیں بن سکتا کسی بھی طرح ۔(قرطبی:۵/۴۱۸۔ابن کثیر)

یہ تب مراد ہوگا جب آیت دنیا وآخرت دونوں کے لیے بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ صرف آخرت کے لیے ہے۔ علماء کا اتفاق ہے کہ کافر مسلمانوں پر حکمران نہیں بن سکتا نہ کسی مسلمان عورت سے شادی کرسکتا ہے اسی لیے ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں :علماء کا اجماع ہے کافر کسی بھی حال میں مسلمان کا والی وحکمران نہیں بن سکتا ۔(احکام الذمہ لابن القیم :۲/۴۱۴)

آیت مذکورہ سے جو سب سے اہم بات ثابت ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ کافر مسلمان کے حکمران نہیں بن سکتے کہ وہی امر ونہی کرتے ہیں اور مخالفت پر سزائیں دیں۔جب شریعت نے مسلمان مرد وکافر عورت کی شادی ممنوع قرار دی ہے حالانکہ یہ ایک مسلمان عورت کی بات ہے تو تمام مسلمانوں کی یا ایک مسلم ملک کی حکومت کیسے کافر کے حوالے کی جاسکتی ہے ؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی ﷺسے امیر کی اطاعت کی بیعت لی تھی مگر اس وقت کہ جب امیر واضح کفر کا مرتکب نہ ہو اگر ایسا ہوا تو ان کے خلاف خروج کرنا چاہیے ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے ۔اس پر علماء کااجماع ثابت ہے جنادہ بن امیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :ہم عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے ان کے ہاں گئے انہوں نے کہا کہ نبی eنے ہم سے بیعت لی کہ مشکل وآسان تنگی وخوشحالی ہر حال میں امیر کی بات سننی اور اطاعت کرنی ہے جب تک امیر واضح کفر کا مرتکب نہ ہو۔(متفق علیہ)

نووی رحمہ اللہ اس حدیث کے ضمن میں قاضی عیاض aکے حوالے سے لکھتے ہیں :کہ علماء نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ کافر کو امام نہیں بنایاجاسکتا ۔اور اگر امام بننے کے بعد کسی نے کفر کیا تو اسے بھی معزول کیا جائے گا اسی طرح نماز اور اس کے لیے اذان کو ترک کرلیا پھر بھی معزول ہوگا قاضی عیاض aمزید فرماتے ہیںاگر امام نے کفر کیا ، شریعت کو تبدیل کیا یا بدعت کامرتکب ہوا تو وہ امام نہ رہا اس کی اطاعت نہیں ہوگی مسلمانوں پر اس کے خلاف خروج واجب ہوگا اس کی جگہ عادل امام کا تقررکرنا ہوگا اگر سب کے بجائے ایک گروہ ایسا کرسکتا ہوتو اس پر بھی واجب ہے(مسلم:۱۲/۲۲۹) ۔

ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
فقہاء نے مسلط شدہ حکمران کی اطاعت اور اس کی معیت میں جہاد کے وجوب پر اجماع کیا ہے اوربغاوت کے بجائے اطاعت کولازم قرار دیا ہے الَّا یہ کہ حکمران سے صریح کفر سرزد ہو تب اس کی اطاعت نہیں بلکہ اس کے خلاف جدوجہد کی جائے۔(فتح الباری:۱۳/۵۔نیل الاوطار:۷/۱۹۸)
ابن حجر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :
کفر کی بناپر حکمران کو معزول کرنے پر اجماع ہے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس کے خلاف کروج کرے اس میں ثواب ہوگااگر سستی کرے گا توگناہگار ہوگا جو عاجز ہو اس پر ہجرت ہے ۔(مجموع الفتاویٰ:۳/۴۲۲)
یہ تمام آیات ،احادیث اور علماء کے اقوال اس حکمران کے بارے میں شرعی حکم کی وضاحت کرتے ہیں جو اللہ کے دین سے نکل گیا ہو اس کی اطاعت نہیں کرنی بلکہ اس کے خلاف خروج واجب ہے اگر وہ خود عہدہ نہ چھوڑے تو اسے معزول کرنا چاہیے ۔اب ہم اس شخص سے متعلق علماء کے اقوال پیش کریں گے جو اللہ کی شریعت کے بجائے لوگوں کے لیےخود قوانین بناتا ہویا لوگوں میں اللہ کے حکم کے نفاذ میں رکاوٹ بنتا ہو۔ایسا شخص جو اس طرح کے احکام بناتا ہو جو اللہ کے دین میں نہیں ہیں اس کے بارے میں ابن حزم aکہتے ہیں :اس عمل کی چار صورتوں میں سے ایک صورت ہوگی :
1 لازمی فرض کو ساقط کرنا مثلاً نمازروزے یا حج یا زکاۃ میں سے کچھ ساقط کرنا یا قذف یا زنا میں سے کسی حد کو یا ان سب کو ساقط کرنا۔
2 یاان میں سے کسی ایک ، چند یا سب میں اضافہ یاایجاد کرنا ۔
3 یا کسی حرام مثلاً خنزیر ،شراب ،مردار کو حلال قرار دینا۔
4 یا حلال کو مثلاً دنبے وغیرہ کاگوشت حرام قرار دینا ان میں سے کوئی بھی کام کرنے والا کافرمشرک یہود ونصاری کے حکم میں ہے ۔ایسا کرنے والے سے توبہ کرائے بغیر قتال کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اگر توبہ کربھی لے تو قبول نہیں کرنا چاہیے اس کا مال بیت المال میں جمع کرانا چاہیے اس لیے کہ یہ دین تبدیل کرتا ہے اور نبی ﷺکا فرمان ہے جو اپنا دین بدل دے اسے قتل کرو۔(الاحکام :۶/۱۱۰۔۲/۹۔۶/۷۷۔۱۰۹-۱۱۷۔بخاری مسلم)

ابن حزم رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :
اگر یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ نبی ﷺکی رحلت کے بعد کسی اور کو حلال حرام قرار دینے کا حق ہے جو نبی ﷺکی زندگی میں نہیں تھا ۔یاکسی حد کولازمی قرار دے جو نبی ﷺکے زمانے میں نہیں تھی یا ایسا شرعی قانون بناتا ہے جو نبی ﷺکی زندگی میں نہیں تھا تو وہ شخص کافر مشرک ہے اس کی جان ومال اس کا حکم مرتد کا ہے۔(مجموع الفتاوی:۲۸/۵۲۴)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اللہ نے آیت اَفَحُکْمُ الجَاہِلِیَۃِ یَبْغُونَ میں ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو اللہ کے دین سے نکل جاتے ہیں اور دیگر آراء ،خواہشات اور اصطلاحات کو اپناتے ہیں جو انسانوں کے وضع کردہ ہوتے ہیں جن کی شریعت میں کوئی سند نہیں ہوتی جس طرح اہل جاہلیت اپنے گمراہ کن نظریات اور اپنی آراء پرمبنی قوانین پر عمل کرتے تھے اور جس طرح تاتاری اپنی حکومت میں مختلف یہودی ونصرانی وغیرہ نظریات سے ماخوذ چنگیز خان کی مرتب کردہ مجموعہ قوانین الیاسق کو نافذ کرتے تھے وہ ان کے نزدیک شریعت اسلامی پر مقدم تھی جو بھی ایسا کرتا ہے وہ کافر ہے اس کے ساتھ قتال واجب ہے جب تک اللہ ورسول ﷺکے حکم کی طرف نہ آجائے اور ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں اسی کے مطابق فیصلے نہ کرے ۔(ابن کثیر:۲/۱۰۷)
شیخ حمد بن عتیق رحمہ اللہ کہتے ہیں :
(نواقض اسلام میں سے )چوتھا ناقض ہے کتاب وسنت کو چھوڑ کر کسی اورطرف فیصلہ لیجانا ۔ابن کثیر رحمہ اللہ کا اَفَحُکْمُ الجَاہِلِیَۃِسے متعلق قول ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں اس کی مثال ہے اکثر لوگوں کا اپنے قبائلی رسوم ورواج کے مطابق فیصلے کرنا جنہیں یہ لوگ کتاب وسنت پرمقدم کرتے ہیں ایسا جس نے بھی کیا وہ کافر ہے اس کے ساتھ قتال واجب ہے جب تک اللہ ورسول ﷺکے حکم کی طرف نہ آجائے ۔(مجموعۃ التوحید:۲۱۴)
ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے تاتاریوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ :
یہ لوگ ایک ایک مسلمان ممالک پر حملے کررہے ہیں خود کو بظاہر مسلمان کہتے ہیں مگر اسلام کے اکثر احکام پر عمل نہیں کرتے ان کا کیا حکم ہے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جواب دیا ان لوگوںمیں سے ہو یاکوئی اور ہو جو شرعی احکام متواترہ کا التزام نہیں کرتے وہ کافر ہیں ان سے قتال واجب ہے جب تک اسلامی شرائع کو نہ تھام لیں ۔اگرچہ یہ لوگ زبان سے شہادتین کا اقرارکرتے ہوں اورکچھ شرعی احکام کو اپناتے ہوں جیساکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مانعین زکاۃ سے قتال کیا تھا ۔اسی وجہ سے فقہاء نے ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما کے مناظرہ کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کے اتفاق کی بناپر حقوق اسلام کے قتال پر اتفاق کیا ہے کتاب وسنت پر عمل کرتے ہوئے ۔خوارج کے بارے میں احادیث میں آتا ہے کہ وہ بدترین مخلوق ہوں گے اور تمہاری نمازیں اور روزے ان کے روزوں اور نمازوں کے سامنے تمہیں حقیر لگتے ہوں گے ۔(بخاری ۔مسلم)اس سے معلوم ہوا کہ شرائع کے التزام کے بغیر صرف اسلام کو اپنانا قتال کو ساقط نہیں کرتا ۔جب تک دین ایک اللہ کے لیے نہ ہوجائے قتال واجب ہے جب غیر اللہ کا دین ہو قتال واجب ہوگا۔جو بھی گروہ نماز،روزہ،حج یا مال وجان کی حرمت یا زنا وشراب کی حرمت یا ذی محرم سے نکاح کی حرمت یا کفار سے جہاد کے التزام یا اہل کتاب پر جزیہ مقرر کرنے جیسے امور سے منع کرتا ہووہ کافر منکر ہے ۔ان سے روکنے والے گروہ سے قتال کیا جائے گا اگرچہ وہ ان کا اقرار کرتا ہواس بات میں علماء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔(مجموع الفتاوی ۸۲/۵۰۲-۵۰۳)
ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزیدفرماتے ہیں :
جو گروہ اسلام کے متواتر ظاہری شرائع سے نکل گیا ان سے قتال پر علماء کا اتفاق ہے اگرچہ یہ گروہ کلمہ کا اقرار کرتا ہو۔اگر یہ کلمہ کا اقرار کریں اور نمازوں سے منع کریں یا زکاۃ سے یا روزوں یاحج سے تو جب تک یہ اپنی روش کوترک نہ کردیں ان سے قتال ہوگایا یہ زناجوا شراب وغیرہ کو حلال قرار دیں پھر ایسا ہوگا۔اسی طرح مال وجان اورعزتوں کے بارے میں کتاب وسنت کے مطابق فیصلے کرنے سے منع کریں یا امربالمعروف ونہی عن المنکر سے منع کریں جہاد سے روکیں یا بدعت کا ارتکاب سرعام کریں جو کتاب وسنت اور سلف کے خلاف ہو تو اللہ کے فرمان کے وَقَاتَلُوْھُم…پرعمل کرتے ہوئے ان سے اس وقت تک قتال ہوگا جب تک یہ ان تمام باتوں کو تسلیم نہ کرلیں اور ان کو منع کرنے سے رک نہ جائیں ۔(مجموع الفتاوی ۲۸/۵۱۰-۵۱۱)
ان تمام گذشتہ نصوص ودلائل سے ثابت ہوا کہ کافر حکمران کی اطاعت سے نکلنا اور اس کے خلاف قتال کرنا جمہورمسلمانوں کا فریضہ ہے ۔اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو طاقت حاصل کرنے اورتیاری کی کوشش ان پرلازم ہے یہ کسی بھی طرح ساقط نہیں ہوگا اللہ کافرمان ہے :
وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اﷲِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ ٰاخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ لاَ تَعْلَمُوْنَہُمُ اَﷲُ یَعْلَمُہُمْ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ(الانفال:۶۰)
ان کے خلاف تیاری کرو طاقت اور گھوڑوں سے اس طرح تم اپنے اور اللہ کے دشمن کو ڈراؤگے اور ان کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے اور جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کروگے اسکا تمہیں پورا اجر دے گا تم پر ظلم نہیں ہوگا۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
حکمران یا تو کافر ہوتا ہے یا مسلمان ۔فسق ظاہرکی صورت میں یہ مسلم حکمران عدل سے نکل جاتاہے۔ حکمران اسلام سے خارج ہوجائے اس کا کیا حکم ہے اس خروج کی کوئی بھی صورت ہو چاہے بغیر ماانزل اللہ فیصلہ کرکے ہویا شریعت کو تبدیل کرنے سے یا اللہ کا حکم کے متضادقانون بنانے سے ۔ایسے حکمران مسلمان نہیں لہٰذا ان کی اطاعت واجب نہیں ہے بلکہ طاقت ہو تو ان کامقابلہ کرنا چاہیے اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ قابل اطاعت اولی الامر سے مراد علماء وفقہاء ہیں وہ لوگ نہیں جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال ۔معروف کو منکر اورمنکر کو معروف بناتے ہیں ان کا حکم کرتے ہیں اور لوگوں کو زبردستی کفر پر مجبور کرتے ہیں ۔
میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔۔۔ مسلمان حکمران کے دور حکومت میں اگر فحاشی، شراب کا کاروبار، جوئے کے اڈے، حکومتی سرپرستی میں چل رہے ہوں یا ایسے افراد کی سرپرستی میں جو خود حکومت کا حصہ ہوں اس بارے میں خروج کیا جانا چاہئے یا نہیں؟؟؟۔۔۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہر مسلم پر واجب ہے۔ہر مسلم کافرض ہے کہ وہ معروف کا حکم دے اور منکرات سے روکے۔یقیناً ان حکمرانوں کو ایک لمبے عرصے سے یہ نصیحت کی جارہی ہے کہ اس سر زمین پر اللہ کا دین نافذ کردو اور منکرات سے باز رہو۔ لیکن ان حکمرانوں اور ان کے سرپرستوں نے بجائے اس کے کہ اس نصیحت پر عمل کرتے ۔ انہوں نے اہل حق سے جنگ کرنی شروع کردی ۔ علماء کو قتل کیا مسلم عورتوں کو اس پاداش میں جلا تک ڈالا۔مسلم جوانوں سے اس ملک کے قید خانے بھردیے گئے۔اس ملک میں اللہ کا دین تو نافذ تو نہ ہوسکا لیکن شراب خانے اور سودخانے اور بے حیائی کے مراکز کھلتے چلے گئے۔یقیناً اب اہل حق کو چاہیے کہ وہ اس سرزمین پر اللہ کا دین نافذ کرنے کے لئے ان ظالم اور فاسق حکمرانوں کے خلاف نکل کھڑے ہوں۔
ہم نے ابھی ابھی دیکھا کہ ایک تنظیم نے صرف آدھے گھنٹے میں پورے صوبے کو بند کرکے رکھ دیا۔کیا اہل حق اللہ کے دین کے نفاذ کے لئے اس طرح اٹھ کھڑے نہیں ہوسکتے؟؟؟؟
ہم بجلی کے بل کے لئے ، سیوریج لائن کی صفائی وغیرہ کے لئے روڈوں کو بلاک کرسکتے ہیں ۔لیکن اللہ کے دین کے نفاذ کے لئے ہم بڑے ہی مجبور و بے کس ہیں؟؟ جبکہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ جب ہمیں پاکستان ملے گا تو ہم اس میں تیرا دین نافذ کریں گے۔ ہم نے کافر ملک ہندوستان سے ہجرت اسی لئے کی تھی کہ ہمیں اسلامی پاکستان چاہیے۔ لیکن کیا ہوا سب نے دیکھا۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی توانائیاں اللہ کے دین کے نفاذ کی خاطر لگا دیں۔
میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔۔۔ مسلمان حکمران کے دور حکومت میں اگر فحاشی، شراب کا کاروبار، جوئے کے اڈے، حکومتی سرپرستی میں چل رہے ہوں یا ایسے افراد کی سرپرستی میں جو خود حکومت کا حصہ ہوں اس بارے میں خروج کیا جانا چاہئے یا نہیں؟؟؟۔۔۔
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
ظالم' بے نماز اور مرتد حکمران کے خلاف خروج کی شرائط

خروج کی تمام اقسام میں چونکہ مسلمانوں کے مابین قتل و غارت ' فتنہ و فسادہے لہٰذا اس کی کئی ایک شرائط علماء نے مقرر کی ہیں۔

پہلی شرط
ٍ(١) خروج میں مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر قتل و غارت' فتنہ و فساد اور امن و أمان کی تباہی نہ ہو۔ اگر ایسا ہو تو ظالم' بے نماز اور مرتد حکمران کے خلاف یہ خروج جائز نہیں ہو گا۔ شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
'' مھما کان الأمر الخروج علی الحاکم ولو کان کفرہ صریحا مثل الشمس لہ شروط فمن الشروط أن لایترتب علی ذلک ضرر أکبر بأن یکون مع الذین خرجوا علیہ قدرة علی ازالتہ بدون سفک دماء أما ذا کان لا یمکن بدون سفک دماء فلا یجوز لأن ھذا الحاکم الذی یحکم بما یقتضی کفرہ لہ أنصار و أعوان لن یدعوہ ...لو فرض أنہ کافر مثل الشمس فی رابعة النھار فلا یجوز الخروج علیہ اذا کان یستلزم اراقة الدماء واستحلال الأموال.''
[http://www.echoroukonline.com/ara/do.../islamic_group
/35213.html]
'' جیسا بھی معاملہ کیوں نہ ہو اور اگر حکمران کا کفر سورج کی طرح روشن ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس کے خلاف خروج کی کچھ شرائط ہیں۔ پس ان شروط میں ایک شرط یہ ہے کہ اس خروج کے نتیجے میں کوئی بڑا ضرر مرتب نہ رہا ہو یعنی جو لوگ حکمران کے خلاف خروج کر رہے ہیں' ان کے پاس بغیر مسلمانوں کی خون ریزی کیے حکمران کو ہٹانے کی قوت و طاقت موجود ہو۔ پس اگر حکمران کو بغیرمسلمانوں کی خونریزی کے ہٹانا ممکن نہ ہو تو یہ خروج جائز نہ ہوگا کیونکہ وہ حکمران جو ایسے فیصلے کرتا ہے جو اس کے کفر کے متقاضی ہیں' کے بھی اعوان و انصار ہوتے ہیں...پس اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ وہ حکمران دن چڑھے سورج کی طرح کافر ہو گیا ہے تو پھر بھی اس کے خلاف خروج اس صورت میں جائز نہیں ہو گا کہ جو صورت مسلمانوں کا خون بہانے اور ان کے مال کو حلال کرنے کو مستلزم ہو۔''



شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
''فاذا کانت ھذہ الطائفة التی ترید ازالة ھذا السلطان الذی فعل کفرا بواحا ویکون عندھا قدرة علی أن تزیلہ وتضع اماما طیبا دون أن یترتب علی ذلک فساد کبیر علی المسلمین وشر أعظم من شر ھذا السلطان فلا بأس' أما اذا کان الخروج یترتب علیہ فساد کبیر واختلال الأمن وظلم الناس واغتیال من لا یستحق الاغتیال الی غیر ھذا من الفساد العظیم ھذا لا یجوز بل یجب الصبر والسمع والطاعة فی المعروف ومناصحة ولاة الأمور والدعوة لھم بالخبر والاجتھاد فی تخفیف الشر وتقلیلہ وتکثیر الخبر وھذا ھو الطریق السوی الذی یجب أن یسلک لأن فی ذلک مصالح المسلمین عامة ولأن فی ذلک حفظ الأمن وسلامة المسلمین من شر أکثر.''
[http://www.echoroukonline.com/ara/do...islamic_group/
35213.html]
''پس اگر وہ گروہ جو کہ کفر بواح کے مرتکب حکمران کو معزول کرنا چاہتا ہے اور اس گروہ کے پاس اس حکمران کو معزول کرنے اور اس کی جگہ صالح حکمران کی تقرری کی قدرت و صلاحیت ہو بشرطیکہ اس عمل میں مسلمان کسی بڑے فساد کا شکار نہ ہوں اور اس عمل کے نتیجے میں کوئی ایسا شر پیدا نہ ہو جو حکمران کے شر سے بڑھ کر ہو تو پھر اس خروج میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن اگر اس خروج کے نتیجے میں کوئی بڑا فساد پیدا ہو رہا ہو اور امن و امان تباہ ہو جائے اور لوگوں پر ظلم اور بے گناہوں کا اندھا دھند قتل عام بڑھ جائے اور اس سے کوئی بڑا فساد بر پا ہو جائے تو پھر ایسا خروج جائز نہیں ہے بلکہ اس صورت میں صبر کرنا اور حکمران کی معروف میں اطاعت کرنااور اس حکمرانوں کو نصیحت کرنا اور ان کو خیر و بھلائی کی دعوت دینا اور ان کے شر کو کم کرنے کی کوشش کرنا اور ان کے خیر کو بڑھانے میں محنت کرناواجب ہے۔یہی وہ سیدھا رستہ ہے کہ جس پر چلنا ہمارے لیے واجب ہے کیونکہ اسی رستے پر چلنے میں مسلمانوں کی مصلحت عامہ ہے اور اسی طریقے کو اختیار کرنے میں امن و امان کی بقاء اوربڑے شر سے مسلمانوں کی سلامتی ہے۔''



اسی رائے کا اظہار شیخ صالح الفوزان نے بھی کیا ہے۔
[http://www.echoroukonline.com/ara/do...islamic_group/
35213.html]

علماء نے عدم خروج کی حکمت کے طور پر اسی وجہ کوبیان کیا ہے۔ لہذا ہر ایسا خروج کہ جس میں فتنہ و فساد اور مسلمانوں میں باہمی قتل و غارت ہو' علماء اس کے مخالف ہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خروج کی حرمت کا سبب ہی یہی ہے کہ اس سے مسلمانوں میں باہمی قتل و غارت کا رستہ ہموار ہوتاہے۔ وہ فرماتے ہیں:
'' قال العلماء وسبب عدم انعزالہ وتحریم الخروج علیہ ما یترتب علی ذلک من الفتن و اراقة الدماء وفساد ذات البین فتکون المفسدة فی عزلہ أکثر منھا فی بقائہ.''(شرح النووی : جلد۱۲، ص۲۲۹' دار احیاء التراث العربی' بیروت' الطبعة الثانیة' ١٣٩٢' کتاب الامارة' باب وجوب طاعة الأمراء فی غیر معصیة )
''علماء نے کہا ہے کہ (ظالم و فاسق )حکمران کے معزول نہ ہونے کا سبب اور اس کے خلاف خروج کی حرمت کی علت یہ ہے کہ اس قسم کے خروج سے فتنے جنم لیں گے اور مسلمانوں کا خون بہایا جائے گا اور مسلمانوں میں باہمی فساد پیدا ہو جائے گا۔ پس حکمران کو معزول کرنے میں جو فساد ہے وہ اس کے باقی رہنے سے بڑھ کر ہے۔''



ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ایسے خروج سے صبر بہتر ہے کہ جس سے مسلمانوںمیں فتنہ و فساد ہو۔ وہ لکھتے ہیں:
'' وأما لزوم طاعتھم و ان جاروا فلأنہ یترتب علی الخروج عن طاعتھم من المفاسد أضعاف ما یحصل من جورھم.'' (شرح العقیدة الطحاویة لابن أبی العز الحنفی : ص٣٧٣۔٣٧٤' الرئاسة العامة لدارات البحوث العلمیة و الفتاء و الدعوة و الرشاد' الریاض' ١٤١٣ھ)
''اگرچہ وہ حکمران ظلم کریں' پھر بھی ان کی اطاعت لازم ہے' یہ اس وجہ سے ہے کہ ان کی اطاعت سے نکل جانے میں جو فساد و بگاڑ ہے وہ اس فساد سے کئی گناہ زیادہ ہے جو ان کے ظلم کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔''



ابن بطال نے بھی عدم خروج کی یہی حکمت بیان فرمائی ہے:
''وأن طاعتہ خیر من الخروج علیہ لما فی ذلک من حقن الدماء وتسکین الدھماء.(فتح الباری : جلد۱۳، ص۷' دار المعرفة بیروت' ١٣٧٩ھ' کتاب الفتن ' باب قول النبیۖ سترون بعدی أمورا تنکرونھا)
'' اوراس (یعنی ظالم حکمران) کی اطاعت اس کے خلاف خروج سے بہت بہتر ہے کیونکہ اس اطاعت کے ذریعے بہت ساخون گرنے سے بچایا اور باہمی اختلاف کرنے والی جماعتوں کو سکون میں لایا جا سکتا ہے۔''



امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کسی شر کو ختم کرنے کے لیے امت مسلمہ میں جتنے بھی خروج ہوئے ہیں ان سے شر بڑھا ہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
'' وقل من خرج علی امام ذی سلطان لا کان ما تولد علی فعلہ من الشر أعظم مما تولد من الخیر.''(منھاج السنة النبویة : جلد۴، ص ٣١٣۔٣١٤' مؤسسة قرطبة)
''اور جس نے بھی کسی صاحب اختیار حکمران کے خلاف خروج کیا تو اس کے اس خروج سے پیدا ہونے والاشر' اس سے پیدا ہونے والے خیر سے بہت بڑھ کر تھا۔''



ایک اور جگہ امام صاحب فرماتے ہیں:
'' لأن الفساد فی القتال والفتنة أعظم من الفساد الحاصل بظلمھم بدون قتال ولا فتنة فلایدفع أعظم الفسادین بالتزام أدناھما ولعلہ لا یکاد یعرف طائفة خرجت علی ذی سلطان لا وکان فی خروجھا من الفساد أکثر من الذی فی ازالتہ.''(منھاج السنة النبویة : جلد۳، ص۲۳۰'مؤسسة قرطبة)
''کیونکہ حکمرانوں سے قتال اور اس سے پیدا ہونے والے فتنے کے حالات میں جوفساد حاصل ہوتا ہے وہ بغیر قتال و فتنے کے حالات میں حکمرانوں کے ظلم و ستم حاصل ہونے والے فساد سے بڑھ کر ہے۔ پس دو فسادوں میں سے أدنی فساد کو اختیار کرتے ہوئے بڑے فساد کو دور کیا جائے گا۔ اور یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ( تاریخ اسلامی میں) جس گروہ نے بھی کسی حکمران کے خلاف خروج کیا ہے تو اس کے خروج سے اس سے بڑھ کر فساد پیدا ہوا ہے جو کہ اس حکمران کی موجودگی میں تھا۔''



امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کا کسی ظالم حکمران کے ساتھ ساٹھ سال گزارنا' بغیر امام کے ایک رات گزارنے سے بہتر ہے۔ امام صاحب اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ظالم حکمران کے خلاف خروج کی صورت میں اُمت مسلمہ باہمی جنگ و جدال کا شکار ہو جائے اور کسی امام یا اجتماعیت ہی سے محرو م ہوجائے تو یہ فتنہ اس سے بہت بڑا ہے کہ وہ امت کسی ظالم امام کی قیادت میں مجتمع ہو۔ وہ فرماتے ہیں:
''ولھذا روی: أن السلطان ظل اللہ فی الأرض ویقال: ستون سنة من امام جائر أصلح من لیلة واحدة بلا سلطان والتجربة تبین ذلک. ولھذا کان السلف کالفضیل بن عیاض وأحمد بن حنبل وغیرھما یقولون: لو کان لنا دعوة مجابة لدعونا بھا السلطان.''(مجموع الفتاوی : جلد۲۸، ص۳۹۰)
''اسی وجہ سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ حکمران زمین میں اللہ کا سایہ ہوتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے: ظالم حکمران کے ساتھ ساٹھ سال گزارنا بغیر حکمران کے ایک رات گزارنے سے بہتر ہے اور تجربہ بھی اس کی گواہی دیتا ہے۔ اسی وجہ سے سلف صالحین فضیل بن عیاض اور امام أحمد بن حنبل وغیرہ کہا کرتے تھے: اگر ہماری کسی دعا کوبارگاہ الہی میں شرف قبولیت کا پروانہ عطا ہوتا (یعنی ہمیں یہ کہا جاتا کہ تم مانگو تمہاری ایک دعا تو کم از کم لازماًقبول کی جائے گی) تو ہم ضرور حکمران کی اصلاح کی دعا کرتے۔''



ان أئمہ سلف کے ان اقوال پر غور کریں اور اس کے بالمقابل جہادی تحریکوں سے وابستہ ان جذباتی نوجوانوں کی عقل کا ماتم کریں جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستان میں پاک آرمی کا کنٹرول ہو یا انڈیا کی آرمی کاہو یا امریکہ کا' تینوں طاغوت ہیں لہذا ہمارے لیے برابر ہے۔ پس پاکستانی حکومت کو کمزور کرو' چاہے اس کے نتیجے میں یہاں امریکہ یا انڈیا قابض ہو جائے تو پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ پہلے بھی طاغوت کی حکومت ہے اور امریکہ و انڈیا کے قبضے کے بعد بھی طاغوت ہی کی حکومت ہو گی۔ زیادہ سے زیادہ یہ فرق ہو گا کہ ایک طاغوت کی جگہ دوسرا طاغوت لے لے گا۔ کئی ایک تکفیر کرنے والے نوجوانوں کو ہم جانتے ہیں کہ جن کے افکارو نظریات بالکل ایسے ہی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ راء اور سی ۔آئی۔ اے کے آلہ کاروں نے جہادی تحریکوں میں گھس کر مسلمان نوجوان کی ایسی برین واشنگ کر دی ہے کہ وہ جہاد کے نام پر امریکہ اور انڈیا کے پاکستان پر قبضے کو شرعی سند جواز عطا کر رہا ہے۔ انا للہ ونا لیہ رجعون۔

اس کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ خدانخواستہ! انڈیا و امریکہ کی افواج کے پاکستان کے قبضے کے بعد جب یہاں بھی عراق و کشمیر کی طرح مسلمانوں کی ماؤں' بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں تار تار کی جائیں گی تو شاید اس وقت ان جذباتی نوجوانوں کو احساس ہو گا کہ پاکستان پر پاک آرمی اور انڈین یا امریکہ آرمی کے قبضے میں کیا فرق ہے؟

دوسری شرط
ٍ(٢) اگر کفر صریح کی وجہ سے خروج ہو رہا ہے تو اس کفر صریح کا فیصلہ علماء کی ایک جماعت کرے گی نہ کہ کوئی ایک عالم دین یا نوخیز مفتی و جذباتی نوجوان' کیونکہ حکمران کی تکفیر ایک عام انسان کی تکفیر کی مانند نہیں ہے۔ شیخ صالح الفوازان لکھتے ہیں:
''فاذا بلغ لی الکفر البواح الکفر الأکبر فنہ حینئذ لا بیعة لہ ولکن من الذی یحکم بکفرہ؟ لایحکم بکفرہ لا الراسخون فی العلم الذین یصدرون عن کتاب اللہ و سنة رسول اللہۖ ولا یصدرون عن الأھواء.''
''پس اگر حکمران کا کفر ' کفر بواح یا کفر أکبر تک پہنچ جائے تو اس وقت اس کی بیعت جائز نہیں ہے۔لیکن کون اس حکمران کے کفر کا فیصلہ کرے گا؟ اس حکمران کے کفر کا فیصلہ صرف وہ راسخون فی العلم کریں گے جو کتاب اللہ اور سنت رسولۖ سے فتوی جاری کرتے ہیں نہ کہ اپنی خواہشات سے۔''


[]الخروج على الولاة للشيخ صالح الفوزان حفظه الله [الأرشيف] - شبكة الأثري

تیسری شرط
ٍ(٣) اگر حکمران کے کفر صریح یا ظلم یا نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے میں کوئی شبہ ہو تو اس کے خلاف خروج جائز نہیں ہو گا۔ شیخ صالح العثیمین فرماتے ہیں:
'' یعنی أنہ لو قدرنا أنھم فعلوا شیئا نری أنہ کفر لکن فیہ احتمال أنہ لیس بکفر فنہ لا یجوز أن ننازعھم أن نخرج علیھم.''
'' مراد یہ ہے کہ اگر ہم یہ سمجھیں کہ حکمرانوں نے جو کام کیا ہے وہ کفر ہے لیکن اس فعل کے کفر یہ نہ ہونے کا بھی احتمال موجود ہو تو پھر ہمارے لیے جائز نہیں ہے کہ ہم ان سے امارت چھیننے کی کوشش کریں یا ان کے خلاف خروج کریں۔''


[http://www.echoroukonline.com/ara/dossiers/islamic
_group/35213.html]

چوتھی شرط
ٍ(٤) اگر کفر کی وجہ سے حکمران کے خلاف خروج ہو رہا ہو تو وہ کفر ایسا ہو علماء کے ہاں متفق علیہ ہو۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ بعض علماء تو حکمران کے کفر کے فتوے جاری کر رہے ہوں اور بعض اس کی تکفیر کے قائل نہ ہوں۔ مولانا أشرف علی تھانوی نے 'امداد الفتاوی' میں لکھا ہے کہ 'الا أن تروا کفرا بواحا' میں 'رأی' کا ایک مفعول لایا گیا ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ یہ کفر ایسا صریح ہو کہ ہر کسی کو نظر آئے اور علما ء کا اس کفر کے کفر ہونے پر اتفاق ہو یعنی علماء کے ہاں وہ کفر متفق علیہ ہو۔ مولانا تقی عثمانی صاحب نے بھی شرح مسلم میں مولاناکے اس قول کا خلاصہ نقل کیا ہے۔ (تکملة فتح الملھم : جلد۳، ص ٣٢٨۔٣٢٩ ، مکتبة دار العلوم ' کراچی)

پانچویں شرط
ٍ(٥) اگر کفر بواح کی بنیاد پر حکمران کے خلاف خروج کیا جا رہا ہے تو یہ دیکھا جائے گا کہ حکمران کے جن افعال پر کفر بواح کا فتوی لگایا جا رہا ہے' وہ ان میں متاول تو نہیں ہے۔ اگر تو حکمران کے پاس خروج کرنے والوں کے الزامات کی کوئی مناسب عقلی ونقلی تردید موجود ہو تو اس حکمران کے خلاف خروج حرام ہو گا۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی لکھتے ہیں:
'' فان کان الخروج عن طاعة الحکم بالسیف أی بالقوة المادیة العسکریة من فئة لھا قوة وشوکة ...فان کان لھم شبھة فی خروجھم وھو ما یعبر عنہ الفقھاء بأن لھم تاویلا سائغا أی لہ وجہ ما کأن یعترضوا علی بعض المظالم الواقعة أو علی التقصیر فی تطبیق بعض جوانب الشریعة أو التھاون مع أعداء الدین والأمة بالتمکین لقواتھم أو جنودھم من أرض الاسلام أو غیر ذلک مما لہ وجہ وان کان الرد علیہ ممکنا ومیسورا فھؤلاء (بغاة) کما سماھم الفقھاء فی المذاھب المختلفة وقتال البغاة مشروع لقول اللہ تعالی (فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء لی أمر اللہ) وللحدیث من أتاکم وأمرکم جمیع علی رجل واحد یرید أن یشق عصاکم ویفرق جماعتکم فاقتلوہ.''
'' پس اگر حکمران کی اطاعت سے خروج تلوار یعنی مادی و عسکری قوت کے ساتھ کسی ایسے گروہ کی طرف سے ہو جس کے پاس قوت و شان و شوکت ہو...پس اگر تو حکمرانوں کو اس گروہ کے خروج میں کوئی شبہ ہو یعنی فقہاء کی زبان میں ہم یہ کہیں گے کہ حکمرانوں کے پاس اس گروہ کے اعتراضات کی کوئی آسان تاویل موجودہو' چاہے یہ اعتراضات کسی بھی نوعیت کے ہوں مثلاًخروج کرنے والے حکمرانوں پر یہ اعتراض کریں کہ انہوں نے کچھ ظلم کیے ہیں یا وہ یہ الزام عائد کریں کہ حکمرانوں نے بعض گوشوں میں شریعت اسلامیہ کی تطبیق میں کوتاہی کی ہے یا وہ یہ اعتراض کریں کہ حکمرانوں نے امت مسلمہ اور دین اسلام کے دشمنوں' ان کی افواج اور لشکروں کے مسلمان ممالک پر قبضے میں کے بارے میں سستی کا مظاہرہ کیا ہے یا اس کے علاوہ وہ کوئی اور اعتراض وارد کریں۔ پس اگر اس اعتراض کا رد ممکن اور آسان ہو تو پھر یہ خروج کرنے والے باغی کہلائیں گے جیسا کہ مختلف فقہی مذاہب میں فقہاء نے ان کو یہ نام دیا ہے۔ ایسے باغیوں سے قتال اللہ تعالی کے اس قول کے مطابق مشروع ہے: پس تم قتال کرو ان لوگوں سے جو بغاوت کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں۔ اور اس حدیث کی وجہ سے بھی ایسے باغیوں سے قتال ہو گا کہ جس میں ہے: جب تمہارے پاس کوئی شخص اس حالت میں حالت میں آئے کہ تم سب ایک شخص کی قیادت میں مجتمع ہو اور وہ شخص تمہارے اقتدار کو ختم اور اجتماعیت کو توڑناچاہے تو اس کو قتل کر دو۔''


[http://www.islamonline.net/servlet/S...pagename=Islam
Online-Arabic-Ask_Scholar/FatwaA/FatwaA&cid=1122528611784]

ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے اس قول کی بنیاد امام ابن الہمام الحنفی(متوفی ٨٦١ھ) کا یہ قول ہے۔ امام صاحب لکھتے ہیں:
''والثالث قوم لھم منعة وحمیة خرجوا علیہ بتأویل یرون أنہ علی باطل کفر أو معصیة یوجب قتالہ بتاویلھم وھؤلاء یسمون بالخوارج یستحلون دماء المسلمین وأموالھم...وحکمھم عند جمہور الفقھاء وجمھور أھل الحدیث حکم البغاة. وعند مالک یستتابون فن تابوا ولا قتلوا دفعاً لفسادھم لا لکفرھم.(فتح القدیر' کتاب السیر' باب البغاة)
''تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پاس طاقت بھی ہے اور دین کی حفاظت کا داعیہ و جوش بھی ہے ۔پس یہ لوگ حکمران کے خلاف خروج کریں اس وجہ سے کہ وہ اپنی تاویل(باطل) کے مطابق حکمران کوباطل' کفر یا اللہ کی معصیت کا مرتکب سمجھتے ہوں۔ پس یہ لوگ اپنی اس تاویل(باطل) کی وجہ سے حکمران سے قتال کوواجب سمجھتے ہوں۔ انہی لوگوں کو خوارج کا نام دیا گیا ہے جو مسلمانوں کے خون اور مال کو حلال سمجھتے ہیں...جمہور فقہاء اور جمہور اہل الحدیث کے ہاں ان کا حکم باغیوں کا حکم ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ان سے توبہ کروائی جائے گی۔اگر تو توبہ کر لیں تو درست ہے ورنہ ان کو قتل کر دیا جائے اور ان کا یہ قتل ان کے فسادسے بچنے کے لیے ہوگا نہ ان کے کفر کی وجہ سے۔''


چھٹی شرط
ٍ(٦) حکمران کے خلاف خروج اس وقت جائز ہے جبکہ خروج کرنے والوں کے پاس اس خروج کی اہلیت و استطاعت ہو یعنی اس بات کا غالب امکان ہو کہ اس خروج کے نتیجے میں ظالم' بے نماز اور کفر بواح کا مرتکب حکمران معزول اور عادل حکمران کی تقرری ہوجائے گی۔ ابن تین ' داؤدی رحمہما اللہ سے نقل کرتے ہیں:
'' الذی علیہ العلماء فی أمراء الجور أنہ ن قدر علی خلعہ بغیر فتنة ولا ظلم وجب والا فالواجب الصبر.''(فتح الباری : جلد۱۳، ص۷۸ ' دار المعرفة بیروت' ١٣٧٩ھ' کتاب الفتن ' باب قول النبیۖ سترون بعدی أمورا تنکرونھا)
'' ظالم حکمرانوں کے بارے میں علماء کو جو موقف ہے وہ یہ ہے اگر اس ظالم حکمران کی معزولی بغیر فتنے اور ظلم کے ممکن ہو تو پھر ایسا کرنا واجب ہو گا ورنہ صبر کرنا واجب ہے۔''



پس ان شرائط کی موجودگی میں خروج جائز ہے اور اگر ان شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو گی تو خروج جائز نہیں ہو گا' چاہے ظالم و فاسق مسلمان حکمران ہو یا مرتد یا کافر ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں حق بات سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
کفر بواح کے مرتکب حکمران کے خلاف خروج
اگر کوئی مسلمان حکمران' کفر بواح کا مرتکب ہو تو اہل سنت کے نزدیک اس حکمران کے خلاف خروج جائز ہے۔ اس خروج کے جواز میں یہ روایت بیان کی جاتی ہے:
'' دعانا رسول اللہۖ فبایعناہ فکان فیما أخذ علینا أن بایعنا علی السمع والطاعة فی منشطنا ومکرھنا وعسرنا ویسرنا وأثرة علینا وأن لا ننازع الأمر أھلہ قال الا أن تروا کفراً بواحاً عندکم من اللہ فیہ برھان.''(صحیح مسلم' کتاب الامارة' باب وجوب طاعة الأمراء فی غیر معصیة ؛ صحیح بخاری' کتاب الفتن' باب قول النبیۖ سترون بعدی أمورا تنکرونھا)
'' ہمیں اللہ کے رسول ۖ نے پکارا۔ پس ہم نے آپ سے بیعت کی۔ پس جن معاملات میں آپ نے ہم سے وعدہ لیا اور ہم نے آپ سے بیعت کی وہ یہ تھے کہ ہم ہر حال میں سمع و طاعت کریں گے چاہے ہمارے دل آمادہ ہوں یا نہ ہوں' چاہے ہم تنگی میں ہوں یا آسانی میں' اور چاہے ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے۔ اور ہم نے اس معاملے میں آپ سے بیعت کی کہ ہم اپنے أمراء سے ان کی امارت میں جھگڑا نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا: ہاں! سوائے اس کے تم کفر صریح دیکھو کہ جس کفر صریح کے بارے میں تمہارے پاس اللہ کے ہاں کوئی روشن دلیل ہو۔''


مرتد و ظالم حکمران کے خلاف خروج کے جواز میں اس روایت سے استدلال کرنا' ایک کمزور استدلال ہے کیونکہ اس روایت کے معنی و مفہوم میں علمائے سلف کے ہاں اختلاف ہے۔ اس روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اگر تمہارے پاس 'برہان' انتہائی روشن دلیل ہو تو تم کفر بواح کے مرتکب حکمران کے خلاف خروج کر سکتے ہو حالانکہ یہ روایت ایسے خروج کے ثبوت میں 'برہان' نہیں ہے' اگرچہ ایک استدلال ضرور ہے۔

امام نووی کا کہنا یہ ہے کہ یہ روایت خروج کے مسئلے میں نہیں ہے۔ اس روایت کے الفاظ میں خروج کا تذکرہ ہی نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ بات سمع و طاعت کی ہے۔ اس روایت کا مفہوم امام نووی کے نزدیک یہ ہے اگر حکمران کفر بواح کا مرتکب ہو تو اس کی سمع و طاعت جائز نہیں ہے اور کفر سے مراد امام نووی کے نزدیک ہر قسم کی معصیت ہے۔ امام نووی لکھتے ہیں:
'' والمراد بالکفر ھنا المعاصی...ومعنی الحدیث لا تنازعوا ولاة الأمور فی ولایتھم ولا تعترضوا علیھم لا أن تروا منھم منکراً محققاً تعلمونہ من قواعد السلام فاذا رأیتم ذلک فأنکروہ علیھم وقولوا بالحق حیث ما کنتم.''(شرح النووی : جلد۱۲، ص ۲۲۹' دار احیاء التراث العربی' بیروت' الطبعة الثانیة' ١٣٩٢' کتاب الامارة' باب وجوب طاعة الأمراء فی غیر معصیة )
''یہاں کفر سے مراد معصیت ہے...اور حدیث کا معنی یہ ہے کہ تم اپنے حکمرانوں سے ان کی حکمرانی کے بارے میں جھگڑا نہ کرو اور ان پر اعتراضات نہ کرو سوائے اس کے کہ تم ان میں کوئی ثابت شدہ منکر دیکھو کہ جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہو۔ پس جب تم حکمران میں کوئی ایسا منکر دیکھو تو اس منکر کا انکار کرو اور جہاں بھی ہو حق بات کہو۔''



جبکہ اس روایت کا ایک دوسرا مفہوم ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس روایت میں کفر بواح کے مرتکب حکمران کے خلاف خروج کے جواز کا حکم ہے۔ اس رائے کا جواز بھی یوں نکلتا ہے کہ 'ننازع' باب مفاعلہ سے ہے اور 'ننازع الأمرأہلہ' کا معنی حکومت و امارت کو اس کے اہل سے کھینچنا بھی بن سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس حدیث کے الفاظ امام نووی رحمہ اللہ کی رائے کی تائید کرتے ہیں کہ یہ روایت خروج کے مسئلے کو بیان ہی نہیں کر رہی ہے۔ امام نووی کی اس رائے کی تائید اس بات سے بھی ہو رہی ہے کہ اس حدیث کے الفاظ بتلا رہے ہیں کہ آپ نے صحابہ سے یہ بیعت ان ماتحت امراء کے بارے میں لی تھی کہ جن کو آپ وقتاً فوقتاً مختلف غزوات میں امیر مقرر کرتے رہتے تھے۔ اور آپ کے زمانے میں آپ کے ان ماتحت امراء کے خلاف خروج کا کوئی مسئلہ زیر بحث ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی لیے امام نووی نے اس روایت پر 'باب وجوب طاعة الأمراء فی غیر معصیة' کے نام سے باب باندھا ہے۔ بہر حال دونوں معانی کی گنجائش اگرچہ روایت کے الفاظ میں موجود ہے۔

یہ بات بھی درست ہے کہ کفر بواح کے مرتکب حکمران کے خلاف خروج علماء کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے۔ لیکن اس میں ان کا اختلاف ہے کہ اس خروج کے جواز کے دلائل کیا ہے۔ بعض علماء نے اس خروج کے جواز کے لیے 'کفر بواح' والی مذکورہ بالا روایت کودلیل بنایا ہے جبکہ بعض علماء نے حکمران کے نماز نہ پڑھنے والی روایات سے اس خروج کے جواز پر استدلال کیا ہے۔

اس مسئلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی مسلمان حکمران کے مرتد ہونے کی دو صورتیں ہیں :
(١) ایک صورت تویہ ہے کہ وہ خود اس بات کا اعلان کرے کہ اس نے دین اسلام کو چھوڑ دیا ہے ۔ یہ تو اس کے مرتد ہونے کی قطعی صورت ہے۔ اس صورت میں اس اعلان کے ساتھ ہی وہ مسلمانوں کی امامت سے معزول ہو جائے گا اور اہلیت و استطاعت کی صورت میں اس کے خلاف جہاد واجب ہو گا۔
(٢) دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی مسلمان حکمران نواقض اسلام میں سے کسی ناقض اسلام فعل کا مرتکب یا عقیدے کا حامل ہو اور وہ اپنے مسلمان ہونے کا مدعی ہو تو علماء کے کلام کی روشنی میں اس صور ت میں اس کی تکفیر میں اگرتین شرائط پائی جائیں تو اس کے خلاف خروج جائز ہو گا:
پہلی شرط تو یہ ہے کہ اس کی تکفیر میں کوئی مانع مثلاً جہالت وغیرہ نہ ہو۔
دوسری شرط یہ ہے کہ وہ متأول نہ ہو' اگر وہ کسی نص کی تاویل کر رہا ہے تو اس کا علمی جواب دیا جائے گا۔
تیسری شرط یہ ہے کہ جن بنیادوں پر اس کی تکفیر کی جائے' وہ اتنی واضح ہوں کہ علماء کے مابین اس کی تکفیر میں اختلاف نہ ہو۔


ان تین شرائط کے پائے جانے کے بعد اس حکمران کو علماء کی طرف سے اپنے اس عقیدے یا کفریہ فعل سے رجوع کی دعوت دی جائے گی اور وہ اس کے باوجوداس عقیدے یا کفریہ فعل پر مصر رہے تو اس کے خلاف خروج جائز ہوگا۔ اس تکفیر اور خروج کا فیصلہ بھی جمیع مکاتب فکر کے علماء اور فقہاء کریں گے۔
 
Top