محمدسمیرخان
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2013
- پیغامات
- 453
- ری ایکشن اسکور
- 924
- پوائنٹ
- 26
حکمران یا تو کافر ہوتا ہے یا مسلمان ۔فسق ظاہرکی صورت میں یہ مسلم حکمران عدل سے نکل جاتاہے۔ حکمران اسلام سے خارج ہوجائے اس کا کیا حکم ہے اس خروج کی کوئی بھی صورت ہو چاہے بغیر ماانزل اللہ فیصلہ کرکے ہویا شریعت کو تبدیل کرنے سے یا اللہ کا حکم کے متضادقانون بنانے سے ۔ایسے حکمران مسلمان نہیں لہٰذا ان کی اطاعت واجب نہیں ہے بلکہ طاقت ہو تو ان کامقابلہ کرنا چاہیے اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ قابل اطاعت اولی الامر سے مراد علماء وفقہاء ہیں وہ لوگ نہیں جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال ۔معروف کو منکر اورمنکر کو معروف بناتے ہیں ان کا حکم کرتے ہیں اور لوگوں کو زبردستی کفر پر مجبور کرتے ہیں ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہماکہتے ہیں:
سید قطب شہید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
یہ تب مراد ہوگا جب آیت دنیا وآخرت دونوں کے لیے بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ صرف آخرت کے لیے ہے۔ علماء کا اتفاق ہے کہ کافر مسلمانوں پر حکمران نہیں بن سکتا نہ کسی مسلمان عورت سے شادی کرسکتا ہے اسی لیے ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں :علماء کا اجماع ہے کافر کسی بھی حال میں مسلمان کا والی وحکمران نہیں بن سکتا ۔(احکام الذمہ لابن القیم :۲/۴۱۴)
آیت مذکورہ سے جو سب سے اہم بات ثابت ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ کافر مسلمان کے حکمران نہیں بن سکتے کہ وہی امر ونہی کرتے ہیں اور مخالفت پر سزائیں دیں۔جب شریعت نے مسلمان مرد وکافر عورت کی شادی ممنوع قرار دی ہے حالانکہ یہ ایک مسلمان عورت کی بات ہے تو تمام مسلمانوں کی یا ایک مسلم ملک کی حکومت کیسے کافر کے حوالے کی جاسکتی ہے ؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی ﷺسے امیر کی اطاعت کی بیعت لی تھی مگر اس وقت کہ جب امیر واضح کفر کا مرتکب نہ ہو اگر ایسا ہوا تو ان کے خلاف خروج کرنا چاہیے ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے ۔اس پر علماء کااجماع ثابت ہے جنادہ بن امیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :ہم عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے ان کے ہاں گئے انہوں نے کہا کہ نبی eنے ہم سے بیعت لی کہ مشکل وآسان تنگی وخوشحالی ہر حال میں امیر کی بات سننی اور اطاعت کرنی ہے جب تک امیر واضح کفر کا مرتکب نہ ہو۔(متفق علیہ)
نووی رحمہ اللہ اس حدیث کے ضمن میں قاضی عیاض aکے حوالے سے لکھتے ہیں :کہ علماء نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ کافر کو امام نہیں بنایاجاسکتا ۔اور اگر امام بننے کے بعد کسی نے کفر کیا تو اسے بھی معزول کیا جائے گا اسی طرح نماز اور اس کے لیے اذان کو ترک کرلیا پھر بھی معزول ہوگا قاضی عیاض aمزید فرماتے ہیںاگر امام نے کفر کیا ، شریعت کو تبدیل کیا یا بدعت کامرتکب ہوا تو وہ امام نہ رہا اس کی اطاعت نہیں ہوگی مسلمانوں پر اس کے خلاف خروج واجب ہوگا اس کی جگہ عادل امام کا تقررکرنا ہوگا اگر سب کے بجائے ایک گروہ ایسا کرسکتا ہوتو اس پر بھی واجب ہے(مسلم:۱۲/۲۲۹) ۔
ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
1 لازمی فرض کو ساقط کرنا مثلاً نمازروزے یا حج یا زکاۃ میں سے کچھ ساقط کرنا یا قذف یا زنا میں سے کسی حد کو یا ان سب کو ساقط کرنا۔
2 یاان میں سے کسی ایک ، چند یا سب میں اضافہ یاایجاد کرنا ۔
3 یا کسی حرام مثلاً خنزیر ،شراب ،مردار کو حلال قرار دینا۔
4 یا حلال کو مثلاً دنبے وغیرہ کاگوشت حرام قرار دینا ان میں سے کوئی بھی کام کرنے والا کافرمشرک یہود ونصاری کے حکم میں ہے ۔ایسا کرنے والے سے توبہ کرائے بغیر قتال کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اگر توبہ کربھی لے تو قبول نہیں کرنا چاہیے اس کا مال بیت المال میں جمع کرانا چاہیے اس لیے کہ یہ دین تبدیل کرتا ہے اور نبی ﷺکا فرمان ہے جو اپنا دین بدل دے اسے قتل کرو۔(الاحکام :۶/۱۱۰۔۲/۹۔۶/۷۷۔۱۰۹-۱۱۷۔بخاری مسلم)
ابن حزم رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :
ابن عباس رضی اللہ عنہماکہتے ہیں:
عبیداللہ بن احمد کہتے ہیں:اولی الامر سے مراد فقہاء ہیں ۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہماکہتے ہیں :وہ لوگ کہ جو لوگوں کو اللہ کا دین سمجھاتے ہیں اور امر بالمعروف نہی عن المنکر کرتے ہیں ۔
عطاءرحمہ اللہ کہتے ہیں:فقہاء وعلماء مراد ہیں ۔
۔میمون بن مہران رحمہ اللہ کہتے ہیں:فقہاء وعلماء مراد ہیں ۔رسول کی اطاعت سے کتاب وسنت کی پیروی مراد ہے ۔
مجاہدرحمہ اللہ کہتے ہیں :جب تک رسول ﷺزندہ تھے تو ان کی اور اب سنت کی اطاعت ہے ۔
۔قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہمااورمجاہدرحمہ اللہ کہتے ہیں :اہل علم وفقہ مراد ہیں ۔اختلاف میں اولی الامر کے بجائے کتاب وسنت کی طرف رجوع کیا جائے گا ۔
مقاتل کلبی اورمیمون کہتے ہیں:اولی الامر سے مراد اہل القرآن والعلم ہیں۔مالک اور ضحاک نے بھی یہی کہا ہے ۔
سہل بن عبداللہ کہتے ہیں :مراد ہے فوج کے سپہ سالار ۔
ابوبکر جصاص کہتے ہیں:لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک بادشاہ اور علماء کی تعظیم کریں گے جب ایسا کریں گے تو ان کا دین ودنیا دونوں صحیح رہیں گی ورنہ بگڑ جائیں گی(قرطبی:۵/۳۶۲)۔
ابن عباس ۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہماکہتے ہیں :اولی الامر کی تفسیر میں اختلاف ہے ۔جابر بن عبداللہ،ابن عباس رضی اللہ عنہم،حسن ،عطاء اور مجاہد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ :مراد فقہاء وعلماء ہیں ۔
علماء شریعت کی حفاظت کرتے ہیں اسی لیے اللہ نے فرمایاہے:مراد فوجوں کے سپہ سالارہیں ۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ سب مراد ہوں اس لیے کہ فوج کے سپہ سالار دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں ۔
ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا ہے :کہ علماء سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں اولی الامر سے مراد حکمران ہیں اس لیے کہ پہلے عدل کرنے کا ذکر ہوا ہے اور یہ وہی کرسکتا ہے جس کے پاس طاقت واختیار ہو ۔لہٰذا اس سے مراد قاضی وحکمران ہیں ۔اللہ ورسول کی اطاعت کے ساتھ ان کی اطاعت کاحکم دینے کا مطلب ہے کہ جب تک یہ حکمران عادل ہوں۔اولی الامر سے مراد حکمران ،فوجی سربراہ اور قاضی وعلماء سب ہوسکتے ہیں عدل کے حکم سے لازم نہیں آتا کہ صرف حکمران ہوں ۔اللہ ورسول ﷺکی طرف تنازعات لیجانے کے حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ اولی الامر سے مراد علماء ہیں ورنہ جس کو کتاب وسنت کا علم نہ ہو وہ کیسے ان سے رجوع کرے گا ؟(احکام القرآن :۳/۱۷۷-۱۷۸)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں :ابن عباس ر ضی اللہ عنہما کہتے ہیں:اس سے مراد فقہاء ہیں ۔مجاہد ۔عطاء۔حسن۔ابوالعالیہ رحمہم اللہ نے بھی علماء مراد لیا ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ سب مراد ہیں ۔(ابن کثیر:۱/۷۸۴)
امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:علماء کی رائے ہے کہ یہاں اولی الامر سے مراد علماء ہیں جمہور سلف وخلف مفسرین فقہاء وغیرہ کا بھی یہی قول ہے کسی نے کہا ہے علماء وامراء مراد ہیں ۔(شرح مسلم :۱۲/۴۶۴/۴۶۵۔ابن کثیر)
ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :طیبی نے کہا ہے کہ اللہ ورسول کی اطاعت مستقلاً ہے جبکہ امراء میں کچھ واجب الاطاعت ہوں گے کچھ نہیں ہوں گے اگر وہ حق پر عمل نہ کرتے ہوں تو ان کی اطاعت مت کرو اور اختلافی اموراللہ ورسول کے حکم کے پاس لیجاؤ۔(فتح الباری:۱۳/۱۱۲)ائمہ ،سلاطین اور قاضی اور ہر وہ شخص مراد ہے جس کے پاس شرعی عہدہ ہو طاغوتی نہ ہو۔(فتح القدیر:۱/۴۸۱)
سید قطب شہید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
یہ دراصل نہی نہیں ہے کہ کافروں کو مسلمانوں پر راہ مت دو ۔اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ مسلمان کافر کا غلام نہیں بن سکتا کسی بھی طرح ۔(قرطبی:۵/۴۱۸۔ابن کثیر)اولی الامر سے مراد وہ مومن ہیں جن میں ایمان واسلام کی شرائط پائی جاتی ہوں آیت میں اللہ ورسول کی اطاعت سے مراد ہے اللہ کو حاکمیت میں اکیلا ماننا اور ابتداءً لوگوں کے لیے تشریع کا حق اور اس سے اخذ کرنا جس کے بارے میں نص ہواو رجب آراء و عقول میں اختلاف ہوجائے تو منصوص علیہ کی طرف رجوع کرنا نص نے اللہ ورسول eکی اطاعت کو بنیاد اور اصل قرار دیا ہے اور اولی الامر کی اطاعت کو ان کاتابع کیا ہے یہ بتانے کے لیے اولی الامر کی اطاعت اللہ ورسول کی اطاعت کے ضمن میں ہوگی اور اس شرط کے ساتھ کہ وہ مومن مسلمان ہوں ۔(الظلال:۲/۶۹۰-۶۹۱)
یہ تب مراد ہوگا جب آیت دنیا وآخرت دونوں کے لیے بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ صرف آخرت کے لیے ہے۔ علماء کا اتفاق ہے کہ کافر مسلمانوں پر حکمران نہیں بن سکتا نہ کسی مسلمان عورت سے شادی کرسکتا ہے اسی لیے ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں :علماء کا اجماع ہے کافر کسی بھی حال میں مسلمان کا والی وحکمران نہیں بن سکتا ۔(احکام الذمہ لابن القیم :۲/۴۱۴)
آیت مذکورہ سے جو سب سے اہم بات ثابت ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ کافر مسلمان کے حکمران نہیں بن سکتے کہ وہی امر ونہی کرتے ہیں اور مخالفت پر سزائیں دیں۔جب شریعت نے مسلمان مرد وکافر عورت کی شادی ممنوع قرار دی ہے حالانکہ یہ ایک مسلمان عورت کی بات ہے تو تمام مسلمانوں کی یا ایک مسلم ملک کی حکومت کیسے کافر کے حوالے کی جاسکتی ہے ؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی ﷺسے امیر کی اطاعت کی بیعت لی تھی مگر اس وقت کہ جب امیر واضح کفر کا مرتکب نہ ہو اگر ایسا ہوا تو ان کے خلاف خروج کرنا چاہیے ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے ۔اس پر علماء کااجماع ثابت ہے جنادہ بن امیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :ہم عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے ان کے ہاں گئے انہوں نے کہا کہ نبی eنے ہم سے بیعت لی کہ مشکل وآسان تنگی وخوشحالی ہر حال میں امیر کی بات سننی اور اطاعت کرنی ہے جب تک امیر واضح کفر کا مرتکب نہ ہو۔(متفق علیہ)
نووی رحمہ اللہ اس حدیث کے ضمن میں قاضی عیاض aکے حوالے سے لکھتے ہیں :کہ علماء نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ کافر کو امام نہیں بنایاجاسکتا ۔اور اگر امام بننے کے بعد کسی نے کفر کیا تو اسے بھی معزول کیا جائے گا اسی طرح نماز اور اس کے لیے اذان کو ترک کرلیا پھر بھی معزول ہوگا قاضی عیاض aمزید فرماتے ہیںاگر امام نے کفر کیا ، شریعت کو تبدیل کیا یا بدعت کامرتکب ہوا تو وہ امام نہ رہا اس کی اطاعت نہیں ہوگی مسلمانوں پر اس کے خلاف خروج واجب ہوگا اس کی جگہ عادل امام کا تقررکرنا ہوگا اگر سب کے بجائے ایک گروہ ایسا کرسکتا ہوتو اس پر بھی واجب ہے(مسلم:۱۲/۲۲۹) ۔
ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ابن حجر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :فقہاء نے مسلط شدہ حکمران کی اطاعت اور اس کی معیت میں جہاد کے وجوب پر اجماع کیا ہے اوربغاوت کے بجائے اطاعت کولازم قرار دیا ہے الَّا یہ کہ حکمران سے صریح کفر سرزد ہو تب اس کی اطاعت نہیں بلکہ اس کے خلاف جدوجہد کی جائے۔(فتح الباری:۱۳/۵۔نیل الاوطار:۷/۱۹۸)
یہ تمام آیات ،احادیث اور علماء کے اقوال اس حکمران کے بارے میں شرعی حکم کی وضاحت کرتے ہیں جو اللہ کے دین سے نکل گیا ہو اس کی اطاعت نہیں کرنی بلکہ اس کے خلاف خروج واجب ہے اگر وہ خود عہدہ نہ چھوڑے تو اسے معزول کرنا چاہیے ۔اب ہم اس شخص سے متعلق علماء کے اقوال پیش کریں گے جو اللہ کی شریعت کے بجائے لوگوں کے لیےخود قوانین بناتا ہویا لوگوں میں اللہ کے حکم کے نفاذ میں رکاوٹ بنتا ہو۔ایسا شخص جو اس طرح کے احکام بناتا ہو جو اللہ کے دین میں نہیں ہیں اس کے بارے میں ابن حزم aکہتے ہیں :اس عمل کی چار صورتوں میں سے ایک صورت ہوگی :کفر کی بناپر حکمران کو معزول کرنے پر اجماع ہے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس کے خلاف کروج کرے اس میں ثواب ہوگااگر سستی کرے گا توگناہگار ہوگا جو عاجز ہو اس پر ہجرت ہے ۔(مجموع الفتاویٰ:۳/۴۲۲)
1 لازمی فرض کو ساقط کرنا مثلاً نمازروزے یا حج یا زکاۃ میں سے کچھ ساقط کرنا یا قذف یا زنا میں سے کسی حد کو یا ان سب کو ساقط کرنا۔
2 یاان میں سے کسی ایک ، چند یا سب میں اضافہ یاایجاد کرنا ۔
3 یا کسی حرام مثلاً خنزیر ،شراب ،مردار کو حلال قرار دینا۔
4 یا حلال کو مثلاً دنبے وغیرہ کاگوشت حرام قرار دینا ان میں سے کوئی بھی کام کرنے والا کافرمشرک یہود ونصاری کے حکم میں ہے ۔ایسا کرنے والے سے توبہ کرائے بغیر قتال کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اگر توبہ کربھی لے تو قبول نہیں کرنا چاہیے اس کا مال بیت المال میں جمع کرانا چاہیے اس لیے کہ یہ دین تبدیل کرتا ہے اور نبی ﷺکا فرمان ہے جو اپنا دین بدل دے اسے قتل کرو۔(الاحکام :۶/۱۱۰۔۲/۹۔۶/۷۷۔۱۰۹-۱۱۷۔بخاری مسلم)
ابن حزم رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :
اگر یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ نبی ﷺکی رحلت کے بعد کسی اور کو حلال حرام قرار دینے کا حق ہے جو نبی ﷺکی زندگی میں نہیں تھا ۔یاکسی حد کولازمی قرار دے جو نبی ﷺکے زمانے میں نہیں تھی یا ایسا شرعی قانون بناتا ہے جو نبی ﷺکی زندگی میں نہیں تھا تو وہ شخص کافر مشرک ہے اس کی جان ومال اس کا حکم مرتد کا ہے۔(مجموع الفتاوی:۲۸/۵۲۴)