• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجویز کاپی رائیٹس اور مصنفین سے اجازت مصنفین سے اجازت لے کر کتابین اپلوڈ کرین

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
پی ڈی ایف (pdf) کتابوں کی شرعی حیثیت

حافظ محمد زبیر
کتاب وسنت ویب سائیٹ اردو زبان میں مذہبی کتب کا سب سے بڑا آن لائن ڈیٹا بیس ہے۔ میں نے بھی اس میں کچھ عرصہ بطور ایڈیٹر کام کیا ہے۔ اس ویب سائیٹ پر ہزاروں کتب PDF فارمیٹ میں ڈاؤن لوڈنگ کے لیے مفت دستیاب ہیں اور قارئین تک اس برقی کتاب (E-Book) کو مفت پہنچانے کے لیے ادارے کے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں مثلا اس کتاب کا نسخہ خریدنا، پھر اس کی اسکیننگ کا خرچہ، پھر سائیٹ پر رکھنے کا مستقل خرچہ وغیرہ۔ تو ایک پوری ٹیم کی تنخواہیں ادارہ ادا کر رہا ہوتا ہے۔ پس آپ کو ای۔بُک فری میں ملتی ہے لیکن اس پر کافی خرچہ ہوا ہوتا ہے۔ کتاب وسنت ویب سائیٹ پر ان الیکٹرانک کتب کو اپ لوڈ کرنے پر پبلشرز کی ایک جماعت عرصہ دراز سے ادارے سے نالاں تھی اور بعض تو اسے حقوق کی خلاف ورزی بھی کہہ رہے تھے۔ حافظ خضر حیات صاحب نے ایک واٹس ایپ گروپ میں اس موضوع پر ہونے والی علمی بحث کا خلاصہ اپنی وال پر پیش کیا ہے کہ جس میں پبلشر حضرات کی رائے بھی براہ راست سامنے آ گئی ہے۔

مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ اس بات کی شرعی دلیل کیا ہے کہ پی۔ڈی۔ایف شیئر کرنا جائز نہیں ہے؟ میں نے ایک کتاب خریدی یعنی ہارڈ کاپی۔ اب یہ ہارڈ کاپی میری ملکیت ہے، اس ہارڈ کاپی کے حق ملکیت یا حق استعمال پر کوئی ایسی قدغن نہیں لگائی جا سکتی کہ جس سے اس کے حق ملکیت یا حق استعمال ہی پر سوال کھڑا ہو جائے۔ میں اس کی پچاس فوٹو کاپیاں کروا کے اسے لوگوں میں بانٹ دوں۔ میں اس کی ای۔بُک بنا کر کسی کو دے دوں۔ ہاں، اگر کوئی پابندی عائد کی جا سکتی ہے تو وہ یہ کہ میں اس نسخے کی تالیف وتصنیف کی نسبت اس کے اصل مولف ومصنف ہی کی طرف کروں کہ یہ اصلا اسی کی محنت اور اسی کا کام ہے۔

باقی یہ دلیل تو میری نظر میں کوئی دلیل نہیں ہے کہ کسی کتاب کی پی۔ڈی۔ایف شیئر کر دینے سے اس کی سیل متاثر ہوتی ہے اور پبلشر کو نقصان ہوتا ہے۔ ہر معروف اخبار تقریبا صبح چھ بجے آن لائن ہو جاتا ہے لیکن انہیں تو کوئی پروا نہیں اور نہ ہی ان کی سیل متاثر ہوتی ہے بلکہ اس سے انہیں فائدہ ہوتا ہے کہ ان کا آن لائن ریڈر بڑھتا ہے، اور وہ اپنی سائیٹ پر آن لائن ایڈورٹزمنٹ کے ذریعے مزید کمائی کر لیتے ہیں۔ تو ان لوگوں نے تو الیکڑانک اخبار کو اپنی مزید کمائی کا ذریعہ بنا لیا اور ہم اپنے نکمے پن اور غیر تخلیقی ذہن ہونے کی وجہ سے اس پر اعتراض ہی کرتے رہ گئے۔

بلاشبہ ہمارے مذہبی پبلشرز کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے کہ مارکیٹنگ کسے کہتے ہیں لہذا ان سے کتاب فروخت ہوتی ہی نہیں ہے۔ میں نے مکتبہ اسلامیہ سے اپنی کتاب "صالح اور مصلح" 1100 کی تعداد میں پبلش کروائی اور ایک سال میں اس کے 850 نسخے خود سے فروخت کیے، الحمد للہ، اور مکتبہ نے سال بھر میں صرف 150 بھی نہ نکالے تھے۔ اور میرا نہ کوئی چھاپہ خانہ، نہ میں پبلشر، نہ میرا اردو بازار میں کتب خانہ، نہ میری آؤٹ لیٹس، نہ میرا ان کے جیسا کوئی تعارف۔ اور اس کتاب کی پی۔ڈی۔ایف میں نے پبلش کرنے سے پہلے ہی شیئر کر دی تھی۔

بلاشبہ مذہبی پبلشرز میں مارکیٹنگ کرنا صرف دار السلام جانتا ہے لیکن اب اس کی کتاب نہ بکنے کی وجہ اس کے موضوعات ہیں۔ عمدہ کاغذ، خوبصورت پرننٹنگ، دیدہ زیب ٹائٹلز، نت نئے عناوین لیکن اندر کچھ نہیں ہے، وہی پرانی شراب نئے گلاسوں میں بیچیں گے تو کیسے بکے گی! بھئ، ریڈر سے صرف شکوہ نہ رکھیں کہ وہ آپ کی کتاب نہیں خرید رہا، آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ اسے دے کیا رہے ہیں۔ آپ کے پاس کلاسیکل لٹریچر کی چند روایتی کتب کے ترجموں کو چھوڑ کر اسے دینے کو کچھ نہیں ہے۔ آپ سوسائٹی کے زندہ مسائل پر کچھ پبلش کر ہی نہیں سکتے اور اگر کر بھی دیں تو اس میں کچھ ایسا ہوتا نہیں ہے کہ جس سے سوسائٹی یہ سمجھے کہ اس کے مسائل کو ایڈریس کیا گیا ہے۔ تو لوگوں نے ایسی پی۔ڈی۔ایف پڑھنے کے بعد کیا خریدنی ہے! وہ تو شکر کریں گے کہ ان کا پیسہ بچ گیا۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
پی ڈی ایف کی بحث اور حافظ محمد زبیر صاحب کا مؤقف

پی ڈی ایف سے متعلق موجودہ ابحاث کے سلسلے میں اس متعلق حافظ محمد زبیر صاحب کی تحریر پڑھنے کو ملی۔ غالباً یہ پہلی دفعہ ہوا ہوگا کہ حافظ صاحب کی کسی تحریر سے اس قدر شدید اختلاف ہوا۔ اور یہ اختلاف پی ڈی ایف کی حلّت و حرمت سے متعلق نہیں بلکہ حافظ محمد زبیر صاحب کے طرز استدلال سے واقع ہوا ہے۔ حافظ صاحب ہمارے پسندیدہ اہل علم میں سے آتے ہیں اور بلا مبالغہ ہمارے لئے وہ ان چند اصحابِ علم میں سے جن سے ہم اکثر و بیشتر نہ صرف استفادہ کرتے ہیں بلکہ اکثر مسائل میں ان کی تحقیقات کی طرف مراجعت بھی کرتے ہیں۔ پی ڈی ایف کی جو بھی بحث چل رہی ہے، اس میں ہم نے زیادہ دلچسپی دکھائی ہی نہیں۔ لیکن چونکہ حافظ محمد زبیر صاحب کی تحاریر کو شوق سے پڑھتے ہیں تو جب آج ان کی وال کا چکر لگایا اور وہاں پی ڈی ایف سے متعلق تحریر دیکھی تو پڑھ ڈالی۔ جیسے جیسے تحریر پڑھتے جاتے، حیران ہوتے جاتے کیونکہ تحریر کا طرز استدلال حافظ محمد زبیر صاحب کے عمومی طرز استدلال سے بالکل لگا نہیں کھا رہا تھا۔ خیر حافظ صاحب کی اس تحریر سے جو اختلاف ہوا، اسکو ہم فی الحال موضوعِ بحث بنانے کے بجائے پی ڈی ایف سے متعلق ہم نے جو تھوڑا بہت سمجھا، بیان کئے دیتے ہیں۔
دیکھئے سب سے پہلے تو یہ فیصل کرلیں کہ کتابیں، تحقیقات اور تحریرات یہ سب چیزیں "مال" کی تعریف میں آتی ہیں یا نہیں۔اگر تو یہ مال کی تعریف میں نہیں آتیں تو پھر حافظ محمد زبیر صاحب کا پیش کردہ بیانیہ درست ہوسکتا ہے لیکن اگر ان چیزوں کو علماء و فقہاء نے مال مانا ہے تو پھر حافظ صاحب کا پورا بیانیہ سبوتاژ ہوجاتا ہے۔ قدیم فقہاء کے ہاں "حق" سے مراد وہ استحقاق ہے جس کی بنیاد کسی محسوس جائداد یا مال (Tangible Assets) پر ہو۔ ایسے استحقاق یا ٹائٹل کو حق کہا جائیگا۔ اس نظرئیے کے تحت وہ حق جو لین دین کی بنیاد بن سکتا ہے اس کا تعلق صرف مالِ محسوس اور موجود جائداد سے ہی ہوگا۔ اب اس نظرئیے سے دیکھیں تو ایک کتاب جو پبلشر چھاپتا ہے اور جو مصنف چھپواتا ہے، وہ کتاب ان کا مال ہوتا ہے اور کسی کے مال میں بغیر اس کی مرضی کے تصرف کرنا اسلامی تعلیمات کی رو سے حرام قرار پاتا ہے ۔ اس سلسلے میں یہ کہنا کہ پی ڈی ایف بنوانے میں بہت محنت اور لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں تو یہ انتہائی بودا استدلال ہے ۔چور ی کرنے میں ایک چور کو بہت محنت اور اپنی جان کی بازی تک لگانی پڑجاتی ہے تو کیا اسکا مطلب ہوگا کہ اس کو چوری کی اجازت ہونی چاہیئے کہ وہ اس میں محنت اور وقت لگارہا ہے۔ یہی کچھ حال پی ڈی ایف کا بھی ہے۔ پی ڈی ایف سے متعلق یہ بحث تو اس وقت ہے جب ہم کتابی صورت میں موجود حسی مواد کو مالِ محسوس مانیں۔ فقہاء کی بیان کردہ تعریف کے تحت ایک کتاب مال کے زمرے میں ہی آتی ہے کیونکہ فقہاء نے مال کی جو تعریف کی ہے اس سے مراد وہ چیز ہے جس میں تین خصوصیات پائی جاتی ہوں۔ سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ انسان کا دل و طبیعیت اس کی طرف مائل ہو، دوسری خصوصیت اس کو حاصل کرکے محفوظ کیا جاسکے یعنی وہ اسٹورایبل ہو کہ اسکو قبضہ میں لیا جاسکے، تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس سے کوئی ایسا فائدہ حاصل کیا جاسکے جس سے انسان مانوس ہو اور ان کو اس فائدہ کی ضرورت ہو۔ یہ فائدہ کسی بھی قسم کا ہوسکتا ہے۔ یہ تین بنیادی اوصاف ہیں جو مال میں پائے جانے چاہیئے اور یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ایک کتاب میں یہ تینوں اوصاف پائے جاتے ہیں۔ سو کتاب کا مال ہونا تو ثابت ہے اور مالِ غیر میں بلا اجازت تصرف کرکے اس کی پی ڈی ایف بنانا حرام قرار پاتا ہے۔ اس کے لئے باقی کسی فقہی موشگافی کی ضرورت نہیں۔
اب اگر ہم اسی مسئلہ کو ایک دوسری طرح سے دیکھیں تو بھی وہ پی ڈی ایف بنانے کے غیر درست ہونے پر ہی دلالت کرے گا۔ موجودہ دور کے فقہاء کی غالب اکثریت اس بات پر اجماع کرچکی ہے کہ حقوقِ مجردہ (Abstract Rights) مال ہیں اور ان کو مال ماننا چاہیئے، اسی وجہ سے قدیم فقہاء کا یہ ماننا کہ "حق" سے مراد وہ استحقاق ہے جس کی بنیاد کسی محسوس جائداد یا مال پر ہو، سے مابعد کے فقہاء نے اضافہ کرتے ہوئے غیر محسوس مال و جائداد کو بھی اس میں شامل کرلیا ہے۔ اسی میں حقِ تصنیف بھی شامل ہے۔ بیسویں صدی سے قبل فقہاء حقِ تصنیف کے قائل نہ تھے اور اس نظرئیے کے حامل تھے کہ حقِ تصنیف یعنی کاپی رائٹس محفوظ کرانے یا اس پر کسی قسم کی رائلٹی لینے کا مصنف ،محقق یا ناشر کو کوئی حق نہیں کیونکہ اگر آپ کے پاس کوئی علم ہے تو یہ آپ کا دینی فریضہ ہے کہ آپ اسکو بلاقیمت عام کریں، اس سلسلے میں آپ کو زیادہ سے زیادہ اپنے وقت کی قیمت لینے کا حق ہوسکتا ہے لیکن اس کے بعد اگر آپ کا علم جو کتابی شکل میں ہو یا لیکچرز کی صورت میں، آپ سے مستفید ہونے والے طلباء آگے بڑھاتے ہیں تو آپ ان کو نہیں روک سکتے۔
تاہم جب عصری علوم میں ترقی ہوتیں گئی اور نئی نئی دریافتیں ہونے لگیں تو پھر فقہاء کے مابین یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا یہ تحقیقات بلا معاوضہ لوگوں کو دی جاسکتی ہیں یا پھر محقق کو حق ہوگا کہ وہ اپنی محنت کی قیمت وصول کرے۔ اگر محقق کہتا ہے کہ میں تو مفت میں لوگوں کو اپنی تحقیق سے فائدہ اٹھانے نہ دونگا تو کیا اسکو مجبور کیا جائیگا ؟ کیا اس سے پوچھےبغیر کوئی اور شخص اس کی تحقیق کو بلا اجازت بھلے اس کے ہی نام سے عام کردیتا ہے جس سے اس انسان کو کوئی مالی منفعت نہیں ہوتی تو کیا یہ جائز ہوگا وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کے کئی سوالات و اشکالات نے اس سوال کو اہم بنادیا کہ حقوقِ مجردہ مال ہیں یا نہیں۔ فقہاء کے درمیان اس کو لیکر تقریباً ایک صدی تک مباحثہ چلتا رہا اور بالآخر بیسویں صدی کے اختتام سے پہلے ہی جمیع فقہاء کے درمیان یہ بات طے پاگئی کہ حقوقِ مجردہ بھی مال ہیں جن کی خریدوفروخت جائز ہے اور جن میں مالک کی مرضی کے بغیر غیر کا تصرف غیر درست قرار دیا جائیگا۔ سو جب حقِ تصنیف یعنی کاپی رائٹس مال قرار دیدئیے گئے تو اب اس میں مالک کی مرضی کے بغیر غیر کا تصرف چاہے وہ بلا اجازت کتاب کی نشرو اشاعت ہو یا پھر پی ڈی ایف کی صورت میں ای بک، دونوں ہی باتیں غیر صائب قرار پاتی ہیں۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ فقہاء کے نزدیک کتاب صرف مال نہیں بلکہ مال متقوم کی تعریف میں آتی ہے۔
سو اس سلسلے میں پہلے توحافظ محمد زبیر صاحب یہ طے کریں کہ کیا وہ کتاب کو "مال" مانتے ہیں، پھر ساتھ ہی یہ بھی طے کریں کہ کیا ان کے نزدیک حقِ تصنیف یعنی کاپی رائٹس کی کوئی قانونی حیثیت ہے؟ ساتھ ہی یہ بھی طے کریں کہ ان کی نظروں میں حقوقِ مجردہ مال کی تعریف میں داخل ہیں یا نہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان سوالات کے جوابات ان کو اپنے نظرئیے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کرینگے۔
تحریر: محمد فھد حارث
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
کاپی رائٹس کی شرعی اور فقہی حیثیت

حافظ محمد زبیر
متقدمین فقہاء کے زمانے میں کاپی رائٹس کا مسئلہ نہیں تھا لہذا اس بارے ہمیں ان کا کوئی کلام نہیں ملتا ہے اور یہ کہنا درست ہے کہ یہ مسئلہ بیسویں صدی کی بدعات میں سے ہے کہ مغربی دنیا میں بھی بیسویں صدی سے پہلے کاپی رائٹس کا کوئی تصور موجود نہیں ہے جبکہ کتابیں لکھنے لکھانے کا عمل پوری دنیا میں ہزاروں سال سے جاری ہے۔ جہاں تک معاصر فقہاء اور علماء کی بات ہے تو کاپی رائٹس کے بارے ان کے تین موقف ہیں؛ علماء کی ایک جماعت کاپی رائٹس کی قائل ہے، دوسری اس کو ناجائز کہتی ہے اور تیسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ خود مصنف کے لیے تو کاپی رائٹس رکھنا جائز ہے لیکن اس کے لیے انہیں کسی پبلشر کو آگے بیچ دینا جائز نہیں ہے۔

فقہاء کا اصل اختلاف مال کی تعریف میں ہے کہ مال کسے کہتے ہیں اور کیا ذہنی اور علمی کدوکاوش مال کہلائی جا سکتی ہے؟ اگر ہم فنی اور ٹیکنیکل تعریفات سے بچتے ہوئے سادہ الفاظ میں وضاحت کریں تو حنفیہ کے نزدیک مال سے مراد وہ شیء ہے کہ جسے محفوظ (preserve) کیا جا سکے تو ظاہری بات ہے کہ یہ مادی شیء ہو گی لہذا علم، مال میں شامل نہیں ہے۔ مالکیہ کے ہاں مال سے مراد وہ شیء ہے کہ جس کی ملکیت (ownership) حاصل ہو سکے۔ اور حنابلہ اور شوافع کے نزدیک مال سے مراد وہ شیء ہے کہ جس میں کسی قسم کی منفعت (benefit) ہو۔

ہماری رائے میں مال کی جو بھی تعریف کر لی جائے، علم اور مال دو مختلف چیزیں ہیں، یہ کبھی بھی ایک نہیں ہو سکتیں۔ قرآن مجید میں ہے کہ جب حضرت طالوت علیہ السلام کو بنی اسرائیل کا خلیفہ اور بادشاہ بنایا گیا تو بنی اسرائیل نے اعتراض کیا کہ ان کے پاس تو مال نہیں ہے تو اللہ عزوجل نے جواب دیا کہ مال نہیں ہے تو کیا ہوا، ان کے پاس علم تو ہے ناں۔ وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّـهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہے کہ قیامت کے دن کسی قسم کا بھی مال انسان کے کچھ کام نہ آئے گا۔ يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ۔ لیکن علم تو کام آئے گا جیسا کہ حدیث میں ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہے: الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ۔ ترجمہ: جس نے مال جمع کیا اور اسے شمار کیا۔ تو اس سے محسوس ہوا کہ مال مادی چیز ہے کہ جس کا جمع کرنا اور شمار کرنا ممکن ہو لہذا یہ علم نہیں ہو سکتا۔

تو جب علم، مال نہیں ہے لہذا اس کا بیچنا بھی درست نہیں ہے البتہ اس کا حق خدمت وصول کیا جا سکتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ بہترین اجرت جو تم حاصل کرو، وہ قرآن مجید کی اجرت ہے تو یہ علم پر حق خدمت ہے، اس کا معاوضہ نہیں ہے۔ تو بہت واضح ہے کہ علم کی خرید وفروخت نہیں ہو سکتی، یہ ہمارا بنیادی بیانیہ ہے۔ اہل مغرب نے تو علم کی خرید وفروخت کو قانونی جواز بخش کر اسے تجارت بنا دیا ہے تو کیا ہم مسلمان بھی اتنے گئے گزرے ہو چکے ہیں کہ علم اور تجارت کا فرق ہی مٹا دیں؟ دوسرا صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ علم حاصل کرنا ہر ایک پر فرض ہے تو اس میں دینی علوم تو شامل ہیں ہی اور علماء کی ایک جماعت اس میں دنیاوی علوم کو بھی شامل کرتی ہے۔ جب علم کا حصول فرض ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ہم ایک مسلمان کو اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ اپنا فرض اسی وقت ادا کر سکتا ہے جبکہ اس کے پاس اس فرض کی ادائیگی کے پیسے ہوں۔

پس ہر ایسی قانون سازی کہ جس کے ذریعے دینی یا دنیاوی علم کو محدود کیا جائے، درست نہیں ہو گی کہ یہ کتمان علم یعنی علم چھپانے کی ایک صورت ہے کہ جس سے منع کیا گیا ہے۔ کاپی رائٹس کی صورت میں آپ غرباء سے علم چھپا لیتے ہیں اور انہیں ان کے فرض یعنی علم کے حصول کی ادائیگی سے محروم کر دیتے ہیں۔ اور اہم بات یہ بھی ہے کہ علم پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے جیسا کہ گھاس، پانی اور آگ کے بارے حدیث میں ہے کہ اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے اور سب اس میں برابر طور شریک ہیں۔ آج اگر کسی نے صحیح بخاری کا ترجمہ شائع کیا ہے اور وہ اس کے ملکیتی حقوق کا دعویدار ہے تو سوال یہ ہے کہ خود صحیح بخاری کے ملکیتی حقوق اس کو کس نے دیے؟ اگر صحیح بخاری ایک تصنیف ہے اور مال ہے تو اس کی وراثت جاری نہیں ہونی چاہیے تھی ان کی اولاد میں جو کہ آج بھی موجود ہے۔

اسی طرح ایک شخص نے اگر کوئی سافٹ ویئر ڈیزائن کیا ہے تو اس میں میتھس استعمال ہوا ہے تو جو میتھس اور لاگرتھم اس شخص نے اس سافٹ ویئر کو ڈیزائن کرنے کے لیے استعمال کیا ہے، اس کے حقوق اسے کس نے دیے ہیں؟ کیا زیرو اور ون کے بغیر ونڈو یا کمپیوٹر کے کسی پروگرام کا کوئی تصور بھی ممکن ہے؟ اگر نہیں تو جس شخص نے زیرو اور ون ایجاد کیا ہے، کیا اس کا ونڈو کی سیل میں کوئی حق نہیں ہے؟ اگر وہ شخص نہیں ہے تو اس کی اولاد میں اس کی وراثت جاری نہیں ہو گی۔ مطلب یہ عجیب تماشا ہے کہ ان بے وقوفوں نے بیٹھ کر یہ طے کر لیا ہے کہ 1923ء سے پہلے کوئی کاپی رائٹ نہیں ہے، سب علم وایجاد پبلک پراپرٹی ہے۔ اور پھر یہ بھی طے کر لیا ہے کہ یہ یعنی انٹیلکچوئل پراپرٹی ایک ایسی پراپرٹی ہے کہ جس پر آپ کا حق آپ کی وفات کے پچاس یا ستر سال بعد ختم ہو جاتا ہے فیا للعجب۔

بھئی وہ تو بے وقوف ہیں، آپ کو اللہ نے ایمان کی دولت سے نوازا ہے تو کوئی معقول بات تو کریں۔ اگر علم، علمی ایجاد اور علمی تصنیف کا کاپی رائٹ ہے تو ہے، پھر ہزاروں سال پیچھے سے کہانی شروع کریں۔ بیسویں صدی سے پہلے اسے پبلک پراپرٹی نہ بنائیں بلکہ اس وقت بھی اسے فرد ہی کی ملکیت قرار دیں۔ کہ ہماری حیثیت شرعی حکم کے خالق کی نہیں ہے کہ بیسیوں صدی میں کوئی نیا حکم شرعی پیدا کردیں بلکہ اس کے تلاش کرنے والے کی ہے کہ حکم شرعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے موجود ہے، بس ہم نے آج اسے ڈھونڈ نکالا ہے اور اجتہاد حکم شرعی کی تلاش کا نام ہے نہ کہ شرعی حکم کی تخلیق کا۔ پس قرآن مجید کے ہر نسخے کی اشاعت میں مصنف یعنی اللہ عزوجل کا حق بیت اللہ کی نذر کیا کریں اور حدیث کی ہر کتاب کی اشاعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد سیدوں کا ایک حصہ جاری کیا کریں وعلی ہذا القیاس۔ اگر ایسا فتوی جاری نہیں کریں گے تو آپ شرعی حکم کا انشاء کر رہے ہیں نہ کہ اظہار۔

معاصر علماء کی اکثریت کاپی رائٹس کے جواز کی قائل ہے جیسا کہ شیخ نظام الدین مفتی دار العلوم دیوبند، شیخ بکر ابو زید، مفتی تقی عثمانی، شیخ مصطفی الزرقاء، شیخ وھبہ الزحیلی، شیخ یوسف القرضاوی اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی وغیرہ۔ جن علماء نے کاپی رائٹس کو ناجائز کہا ہے، ان میں مفتی شفیع صاحب، شیخ احمد الحجی الکردی، تقی الدین نبھانی اور محمد الحامد وغیرہ ہیں۔ علاوہ ازیں جامعہ بنوریہ کا ایک آن لائن فتوی بھی نظر سے گزرا کہ جس میں انہوں نے اسے ناجائز ہی کہا ہے اور ہندوستان میں بریلوی علماء کی شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف کے ساتویں فقہی سیمینار میں بھی اسے ناجائز ہی کہا گیا ہے۔ اور اور تیسرے قول کے قائلین میں شیخ عبد اللہ بن بیہ اور شیخ عبد اللطیف الفرفور وغیرہ ہیں۔ [جاری ہے]
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
کاپی رائٹس کی فقہی و شرعی حیثیت اور حافظ محمد زبیر صاحب سے ہمارا اختلاف

آج صبح حافظ محمد زبیر صاحب نے کاپی رائٹس کی فقہی و شرعی حیثیت سے متعلق ایک تحریر نشر کی ۔ تحریر پڑھ کر پہلا تاثر یہی قائم ہوا کہ حافظ صاحب نے اپنے دل و دماغ میں ایک مؤقف قائم کرلیا ہے، جس کے اثبات کے لئے ہر طرح کی متعلق غیر متعلق دلیل لانے سے نہیں چوک رہے۔ حافظ صاحب کا یہ رویہ ہم نے پہلی دفعہ دیکھا اس لئے تھوڑا سا حیران و پرپریشان ہیں۔ خیر حافظ صاحب کی تحریر کی طرف آتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے توجہ دلانے پر حافظ صاحب نے یہ تو مانا کہ فقہاء نے کاپی رائٹس کے قوانین کو بیسویں صدی میں قبولیت کا شرف بخش دیا تھا لیکن یہاں بھی حافظ صاحب نے عجب کام کیا کہ اس کو "بدعات" کے لفظ سے تعبیر کرکے اس میں منفی اثر پیدا کرنا چاہا جیسا کہ ان کی تحریر کے اگلے مندرجات سے ثابت ہوتا ہے۔ اب حافظ صاحب سے پوچھنا یہ ہے کہ زمانے کے چلتے تقاضوں کے ساتھ اگر فقہاء کسی اجتہادی مسئلہ میں ایک مؤقف کو چھوڑ کر دوسرے پر جمع ہوجائیں تو کیا اس کو بدعت قرار دیا جائے گا۔ آپ کی یہ تعبیر اور استدلال تو سخت مایوس کن ہے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ کیمرے کی ایجاد کے بھی کتنے عرصے بعد آپ کے جمیع فقہاء کیمرے کی تصویر کی حرمت کے قائل رہے لیکن ڈیجیٹل تصویروں کے عام ہوجانے کے بعد علت بدلنے سے جمہور کیمرے کی تصویر کی حلت کے قائل ہوگئے جس میں آپ بھی شامل ہیں۔ اب آپ کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بشمول آپ کے بعد کے فقہاء نے ایک حرام کردہ چیز کو حلال کردیا اور بقول آپ کے الفاظ میں "ہماری حیثیت شرعی حکم کے خالق کی نہیں ہے کہ بیسویں صدی میں کوئی نیا حکم شرعی پیدا کردیں بلکہ اس کے تلاش کرنے والی کی ہے کہ حکم شرعی رسول اللہﷺ کے زمانے سے موجود ہے، بس ہم نے اس آج اسے ڈھونڈ نکالا ہے اور اجتہاد حکم شرعی کی تلاش کا نام ہے نہ کہ حکم شرعی کی تخلیق کا۔" اب آپ بتائیے کہ تصویر حرام تھی، آپ نے اس کو کیمرے اور عکس کا جواز دیکر حلال کرڈالا۔ اسی طرح متقدمین احناف امورِ دینیہ یعنی اذان، صلوٰۃ، امامت، حج اور تعلیمِ قرآن و حدیث پر اجرت لینے کو حرام مانتے تھے (الھدایہ) ۔ اسی طرح سے کئی احادیث میں صراحت موجود ہے جس میں آپﷺ نے تعلیمِ قرآن پر اجرت لینے کو آگ جمع کرنے کے مترادف قرار دیا (بروایت عبادہ بن الصامتؓ: ابوداؤد)۔ لیکن جب زمانے کے تقاضے بدلے اور حکومتوں نے مدارسِ دینیہ اور علم کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو فقہاء نے اجتہاد کرکے چلتے زمانے کے تقاضوں کے تحت اس میں اباحت کا پہلو نکالا۔ تو اب کیا یہ سارے حضرات آپ کے نزدیک نئی نئی بدعات لیکر وارد ہوئے ہیں اور حکمِ شرعی تخلیق کررہے ہیں۔

یہی معاملہ کاپی رائٹس کا بھی ہے جیسا کہ میں نے کل بیان کیا تھا کہ جب عصری تحقیقات وغیرہ کی کثرت ہوگئی تو پھر اس طرح کے قوانین بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی اور بنائے گئے۔ ان کو بدعت باور کرواکر منفی تاثر دینا اور حکمِ شرعی تخلیق کرنے سے تعبیر کرنا سخت گمراہ کن مغالطہ ہے۔

پھر آپ نے یہ تو مانا کہ قدیم فقہاء کے ہاں کاپی رائٹس سے متعلق کچھ نہیں ملتا لیکن مال کی تعریف ان ہی قدیم فقہاء کی پیش کردہ بیان کردی جبکہ اپنی پچھلی تحریر میں ہم آپ کی خدمت میں عرض کرچکے تھے کہ فی زمانہ فقہاء نے حقوقِ مجردہ کو بھی مال ہی قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے اپنے محاضرات فقہ میں صاف تصریح کی ہے کہ فقہائے کرام کے ایک گروہ کی شروع سے یہ رائے رہی ہے کہ حقوقِ مجردہ کو مال قرار دیا جاسکتا ہے اور وہ خریدوفروخت اور دوسرے دیوانی معاہدوں اور لین دین کا موضوع اور بنیاد بن سکتے ہیں اور اس کی سب سے بین مثال حق شفعہ ہے جس کی بیع کے کئی متقدمین فقہاء قائل رہے ہیں۔ اسی طرح گڈ وِل اور ساکھ ہے جس کی تجارت اب روز کا معمول ہے اور سارے مسلم فقہاء اس کے مباح ہونے کے قائل ہیں، آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسلام آباد ہوٹل کو ہالیڈے اِن اسلام آباد کا نام خرید کر جو دیا گیا ہے تو یہ بیع فاسد یا باطل ہے۔ جب نام، ساکھ بک سکتے ہیں اور مال ہوسکتے ہیں تو پھر تحقیق مال کیوں نہیں ہوسکتی۔

پھر آپ نے سورۃ البقرۃ آیت ۲۴۷ سے مال اور علم کو جو الگ الگ ثابت کرنا چاہا تو آپ کا یہ استدلال بھی غیر درست ہے اور سیاق و سباق سے مناسبت نہیں رکھتا۔ وہاں تو بس اس بات کا تذکرہ ہے کہ کیا ہوا کہ طالوت کے پاس مال نہیں، اس کے پاس علم اور تن و توش تو ہے نا۔ اس سے علم کے مال ہونے کی نفی کیوں کر آتی ہے۔ علم "بھی" مال ہے، صرف علم "ہی" مال نہیں۔ پھر ازروئے قرآن و حدیث عورت کا مہر صرف اور صرف مال ہی ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بخاری کی روایت کے تحت نبی ﷺ نے ایک مفلوک الحال شخص کے علمِ قرآن کو مہر قرار دیکر عورت کو اس کے نکاح میں دیدیا۔ اس روایت سے تو پتہ چلتا ہے کہ علم بلکہ قرآن کا علم مال ہے تب ہی اس کو مہر مقرر کیا گیا۔

پھر آپ کا یہ فرمانا کہ نبی ﷺ نے علم دین کے حصول کو فرض قرار دیا سو ہم کاپی رائٹس کے نام پر پی ڈی ایف پر قدغن لگا کر ایک غریب کو علم سے محروم نہیں کرسکتے کہ اس کے پاس اگر کتاب خریدنے کے پیسے نہیں ہیں تو وہ مفت کے پی ڈی ایف بھی نہیں پڑھ سکتا۔ یہاں بھی آپ نے عجیب استدلال کیا ہے۔ گویا جس شخص کے پاس کتاب خریدنے کےلئے ہزار بارہ سو روپے نہیں ہیں، اس کے پاس بیس پچیس ہزار کا موبائل یا چالیس پچاس ہزار کا کمپیوٹر یا پھر لاکھ ڈیڑھ لاکھ کا لیپ ٹاپ ہے جس میں وہ غریب بیٹھ کر "مفت" کا پی ڈی ایف پڑھ سکتا ہے۔ فیا للعجب۔

پھر آپ کا یہ کہنا کہ جس نے صحیح بخاری کا ترجمہ کرکے شائع کیا، اس کو صحیح بخاری کے ملکیتی حقوق کس نے دئیے کہ اس نے اسکا ترجمہ چھاپ دیا۔ جس نے زیرو اور ون ایجاد کیا کیا اس کی ونڈو کی سیل میں کوئی حق ہے۔ آپ کے یہ سب استدلال کم از کم میرے جیسے بندے کے لئے تو نہایت حیران کن ہے جو کہ آپ کا مستقل قاری رہ چکا ہو اور آپ کی مضبوط گرفت اور استدلال کا قائل رہا ہو۔ جب کاپی رائٹس کی بات ہوتی ہے تو اس کا اطلاق بنفسہ علم پر تو نہیں ہوتا بلکہ علم کے اس مخصوص اظہار اور پیشکش پر ہوتا ہے جو ایک خاص شخص یعنی مصنف سے جڑا ہوا ہے۔ یوں علم بذات خود تو کاپی رائٹ کا موضوع نہیں ہے اور کوئی بھی دوسرا شخص اس آئیڈیا کو لے کر اپنے انداز میں اس کا اظہار کر سکتا ہے اور یہ کسی بھی طور پر کاپی رائٹ کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ کتب تراث کے ناشرین متن کے کاپی رائٹ کے حامل نہیں ہوتے بلکہ اپنے مخصوص انداز ِنشر کے حقوق کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ کسی صاحب نے تاریخ کی کوئی کتاب چھاپی، اب کوئی بھی شخص چاہے تو اس کتاب کی تحقیق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تحریر یا تقریر میں اس کتاب کا حوالہ یا اس کا کوئی اقتباس دے سکتا ہے، اس تحقیق سے اپنے انداز سے فائدہ بھی اٹھاسکتا ہے۔ کیا ہم سب اپنی تحاریر میں احادیث سے استدلال نہیں کرتے۔ کیا ان احادیث سے استدلال کرنا کسی طور سے بھی کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کے زمرے میں آئے گا۔ آپ دوسرے کے علم سے مستفید ہوں لیکن اس کے پیش کرنے کے طریقے کو پی ڈی ایف بنا کر ضرر نہ پہنچائیں۔ یہ ہیں کاپی رائٹس کی پابندی اور علم کی ترویج۔ اس سے نہ کتمان ہورہا ہے کہ کسی "غریب" کو نقصان پہنچے اور نہ کاپی رائٹس کی خلاف ورزی ہورہی ہے کہ کسی "امیر اور قارون" ناشر و مصنف کے حقوق کی پامالی ہو۔

آپ کی پوسٹ پر ہی ایک صاحب کامران رفیع نے کافی مناسب تبصرہ کیا ہے کہ علم بیچنا اور کتاب بیچنا دو مختلف چیزیں ہیں ۔ علم نہیں بیچا جا سکتا کتاب بیچی جاسکتی ہے ۔ لہذا اس کے حقوق بھی اسکے مالک کے ہیں ۔ جس طرح علم اللہ کی عطا ہے اسی طرح جسم بھی اللہ کی عطا ہے ۔ جسمانی کاوش پر بدل لینا جائز ہے علمی کاوش پر بدل لینا کب اللہ نے حرام ٹہرایا۔ اور یہ بھی غلط فہمی ہے کہ کاپی رائیٹس بیسوی صدی کی پیداوار ہے ۔ اور ہمارے بزرگ تو کتابوں پر حاشیے لکھتے تھے اور پہلے کی کاوش کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ حاشیہ جو خود کتاب بن سکتا تھا کو پہلے لکھنے والے سے ہی منسوب رکھتے تھے۔
بیسویں صدی میں برِصغیر کے کتنے ہی اہل علم نے جو کتب اپنی تحقیقی کاوش سے طبع کروائیں ان کے حقوق طبع کا اعلان کیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پرانے اہلحدیث علماء میں بھی کاپی رائٹس کا تصور پایا جاتا تھا۔ مطبع انصاری نے عون المعبود طبع کروائی تو اس کے آخری صفحہ پر حقوق طبع صراحت سے نشر کئے۔ اسی طرح سے الارشاد الی سبیل الرشاد ۱۳۱۹ ہجری میں طبع ہوئی تو اس کے حقوق بھی مصنف کے نام محفوظ تھے۔ایسی مثالیں کثرت سے موجود ہیں جہاں ہمارے قدیم علماء نے اپنی کتب کے حقوق کو محفوظ رکھا۔

المختصر کاپی رائٹس اور حقوق مجردہ کا قانون ہی یہی ہے کہ خریدنے والا صرف اس ایک نسخہ کا مالک ہوتا ہے،اس تحقیق کا نہیں۔ نہ وہ اسے عام کرنے کا اختیار رکھتا ہے جبکہ اسکی ممانعت بھی موجود ہو صاحب تحقیق کی طرف سے۔ساتھ ہی کتاب پر موجود کاپی رائٹس کے اندراج کا مطلب ہے کہ صاحب تالیف یا ناشر نے بیع کرتے ہوئے خریدنے والے سے معاہدہ کیا ہے کہ وہ اس کتاب کے کاپی رائٹس کی مخالفت نہیں کریگا۔ ناشر یا صاحب تالیف اجازت دے تو کوئی حرج نہیں پھر وگرنہ یہ چیز معاہدے کی خلاف ورزی میں آئے گی ۔
تحریر: محمد فھد حارث
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
میں ایک قاری ہونے کے ناطے یہ کہنا چاہوں گا کہ جب سے پی ڈی ایف پر کتابیں ملنا شروع ہوئی ہیں، میں نے کتابیں خریدنا بہت کم کر دی ہیں۔ میری ناقص رائے میں تو ہارڈ کاپی کی فروخت میں کمی کی ایک وجہ اسی کتاب کا بالکل مفت انٹرنیٹ پر دستیاب ہونا بھی ہے، اگرچہ بعض ناشرین کی کتابیں مہنگی بھی بہت ہیں ۔ اس کا کوئی درمیانی حل ڈھونڈنا چاہیے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ غیر مذہبی کتابیں ناول وغیرہ بھی اب انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں فری جس سے ہارڈ کاپی کی فروخت کو نقصان پہنچا ہے۔
ابھی پچھلے دنوں اخبار فروش یونین کی درخواست پر تمام اخباروں کی ویب سائٹس پر اخبار 11 بجے کے بعد اپ لوڈ ہوتا ہے ، حالانکہ ایک وقت تھا کہ بعض اخبار 4 بجے اپ لوڈ ہو جاتے تھے انٹرنیٹ پر۔ میں بذات خود بھی اور باقی کئی لوگ بھی انٹرنیٹ پر اخبار کی دستیابی کی وجہ سے اخبار خریدنا چھوڑ چکے ہیں۔
ایک مخصوص اخبار اتوار کے روز کا زیادہ بکتا ہے وہ بھی صرف اس کے اشتہاروں کی وجہ سے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
پی ڈی ایف کتب اور "نالائق ناشرین "

ابوبکر قدوسی
ہفتہ دس دن ہوے ہوں گے کہ ایک وٹس ایپ گروپ میں کچھ احباب کی بحث ہوئی کہ کتابوں کی برقی نقل یعنی "پی ڈی ایف " بنانا جائز ہے یا نہیں - اس پر میں نے ہفتہ پہلے ہی ایک مضمون لکھا جس کا لنک آپ کمنٹ پا سکتے ہیں -
کل برادر رضوان اسد خان نے ایک مضمون پر منشن کیا ، جس کا موضوع پی ڈی ایف بھی کتب تھا - مضمون نگار کے نزدیک کسی بھی کتاب کی بنا اجازت پی ڈی ایف بنانا جائز ہی نہیں بلکہ خدمت دین ہے -
تمہید میں صاحب مضمون نے لکھا ہے کہ
........
قارئین تک اس برقی کتاب (E-Book) کو مفت پہنچانے کے لیے ادارے کے
لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں مثلا اس کتاب کا نسخہ خریدنا، پھر اس کی اسکیننگ کا خرچہ، پھر سائیٹ پر رکھنے کا مستقل خرچہ وغیرہ۔ تو ایک پوری ٹیم کی تنخواہیں ادارہ ادا کر رہا ہوتا ہے۔ پس آپ کو ای۔بُک فری میں ملتی ہے لیکن اس پر کافی خرچہ ہوا ہوتا ہے
........
بنا اجازت کسی کی برسوں کی محنت اور لاکھوں کے صرفے کو کوئی علم کی خدمت کے نام پر لے اڑے اور اس پر جواز یہ تلاشے کہ اس سرقے پر اس کے بھی تو پیسے لگے ہیں محنت ہوئی ہے - اس پر ہم یہی تبصرہ کر سکتے ہیں کہ پھر تو ہر چور کو محترم جاننا چاہیے کہ وہ بھی خاصی محنت کرتا ہے -
اس سوچ میں خرابی ہی یہی ہے کہ اس عمل کو ہمارے بعض دوست چوری سمجھتے ہی نہیں - ان کے نزدیک یہ علم ہے اور علم کی چوری نہں ہو سکتی -حالانکہ یہ محض علم تب ہوتا جب یہ صرف سینے میں ہوتا ، جب کاغذ پر اتر آیا تب صرف علم نہ رہا اس کی مادی حیثیت بھی مقرر ہو گئی - جی ہاں مواد کی نہ کہ کاغذ اور سیاہی کی -
بعد از تمہید مضمون میں محترم نے تین نکات بیان کیے ہیں پہلا یہ کہ :
..................
مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ اس بات کی شرعی دلیل کیا ہے کہ پی۔ڈی۔ایف شیئر کرنا جائز نہیں ہے؟ میں نے ایک کتاب خریدی یعنی ہارڈ کاپی۔ اب یہ ہارڈ کاپی میری ملکیت ہے، اس ہارڈ کاپی کے حق ملکیت یا حق استعمال پر کوئی ایسی قدغن نہیں لگائی جا سکتی کہ جس سے اس کے حق ملکیت یا حق استعمال ہی پر سوال کھڑا ہو جائے۔ میں اس کی پچاس فوٹو کاپیاں کروا کے اسے لوگوں میں بانٹ دوں۔ میں اس کی ای۔بُک بنا کر کسی کو دے دوں۔ ہاں، اگر کوئی پابندی عائد کی جا سکتی ہے تو وہ یہ کہ میں اس نسخے کی تالیف وتصنیف کی نسبت اس کے اصل مولف ومصنف ہی کی طرف کروں کہ یہ اصلا اسی کی محنت اور اسی کا کام ہے۔
................
لیجئے صاحب مضمون کی عبارت تمام ہوئی :
درج ذیل حدیث ممانعت کی دلیل کے اس مطالبے کو پورا کرتی ہے :
"عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :
" لا ضرر ولا ضرار "
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
"نہ نقصان اٹھانا جائز ہے اور نہ نقصان پہنچانا درست ہے "
– (مستدرک علی الصحیحین ، کتاب البیوع ،حدیث نمبر :2305)
جب کسی کے منہ پر آپ مکہ دے ماریں تو اس کے تڑپنے سے چوٹ کا اندازہ تو ہو ہی جاتا ہے ، لیکن چوٹ کتنی لگی ہے کچھ وہی جانتا ہے کہ جسے لگی ہو - سو نقصان کا فیصلہ بھی وہی کر سکتے ہیں کہ جن کا نقصان ہوا ہے نہ کہ ان کا مال بنا اجازت اپنے تصرف میں لانے والے اب کے نقصان کا فیصلہ بھی کریں گے -
میں نے اسی موضوع پر اپنے پچھلے مضمون میں تفصیل سے لکھا تھا کہ کس طرح زرکثیر ان کتب کی تیاری میں صرف ہوتا ہے - مصنف کا تو محض دماغ خرچ ہوتا ہے جس کے تحفظ کا ہمارے دوست کو فکر ہے کیونکہ آپ خود بھی مصنف ہیں - لیکن اس حدیث نبوی کے بارے میں کیا فرمائیں گے ؟ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے :
لاَ يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ عَنْ طِيبِ نَفْسٍ
کِسی مُسلمان کا مال (لینا)حلال نہیں جب تک کہ وہ اپنی رضا مندی سے نہ دے -
سُنن الدار قطنی، مسند احمد -
اب اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ کتاب کی سافٹ کاپی مال کی ہی شکل ہوتی ہے - ممکن ہے کوئی دوست کہے کہ سافٹ کاپی مال نہیں ہوتا تو اس پر ہم اگلے حصے میں الگ سے بات کریں گے -
یہ کہنا کہ کتاب خریدی سو ملکیت ہو گئی ، اب جو جی چاہے کیجئے بھلے اس کی پچاس کاپیایاں کروا کے تقسیم کرو ...لیکن صاحب یہاں یہ نکتہ نظر انداز کر گئے کہ اس عمل کو آپ کا اور دنیا بھر کا قانون چوری سمجھتا ہے ..سمجھنے کی بات ہے کہ اگر ایک صاحب فوٹو کاپی سے آگے بڑھ کے اس کی پلیٹیں بنا کے ایک ہزار نسخہ شائع کرتے ہیں اور بانٹنے لگتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب کے دیے گئے حلال کے پیمانے کی رو سے یہ غلط نہیں ہو گا - لیکن "اتفاق" سے دنیا بھر میں اسے ایک جرم سمجھا جاتا ہے اور سزا اس " مجاہد " کا مقدر ہو گی - اس لیے یہ مثال بہت کمزور رہی ہے -
محترم آگے فرماتے ہیں کہ :
.................
بلاشبہ ہمارے مذہبی پبلشرز کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے کہ مارکیٹنگ کسے کہتے ہیں لہذا ان سے کتاب فروخت ہوتی ہی نہیں ہے۔ میں نے مکتبہ اسلامیہ سے اپنی کتاب "صالح اور مصلح" 1100 کی تعداد میں پبلش کروائی اور ایک سال میں اس کے 850 نسخے خود سے فروخت کیے، الحمد للہ، اور مکتبہ نے سال بھر میں صرف 150 بھی نہ نکالے تھے۔ اور میرا نہ کوئی چھاپہ خانہ، نہ میں پبلشر، نہ میرا اردو بازار میں کتب خانہ، نہ میری آؤٹ لیٹس، نہ میرا ان کے جیسا کوئی تعارف۔ اور اس کتاب کی پی۔ڈی۔ایف میں نے پبلش کرنے سے پہلے ہی شیئر کر دی تھی۔
...............
آپ نے اپنی کتاب کا حوالہ دے کر مالکان مکتبہ کی نالائقی بیان تو کر دی لیکن تصویر کا دوسرا رخ ہم آپ کو دکھلاتے ہیں - آپ کا یہ کہنا کہ آپ نے آٹھ سو پچاس کتب بیچ دی لیکن مکتبہ والے ڈیڑھ سو سے آگے نہ بڑھ سکے - آپ نے جو اتنی کتب بیچ لیں اس کا سبب یہ رہتا ہے کہ مصنف کے پاس ایک یا دو کتابوں کے سوا کیا ہوتا ہے ، سو وہ اس ایک کتاب کو بغل میں دابے کسی محروم تماشائی کی طرح گاہک ڈھونڈتا ہے یا گاہے مشاعرے سے نکلے کسی شاعر کی مانند ہر نکڑ پر غزل سرا ہونے کو تیار - پھر کبھی گاہک اسے شاگردوں کی شکل میں ملتے ہیں کبھی دوستو کی صورت - جب ان سے کتاب خریدنے کی فرمائش کی جاتی ہے تو کبھی "اخلاقا " اور کبھی جبرا خریدنا تو پڑتی ہے - لیکن یہ موج میلہ اس وقت ختم ہو جاتا ہے کہ جب حلقہ دوستاں ختم ہو جاتا ہے -
جب کہ اردو بازار میں جب کتاب بکتی ہے تو خریدار گھر سے کتاب لینے آتا ہے اور جب پیسا خرچ کرتا ہے تو پڑھتا بھی ہے ..اس لیے ایسے ڈیڑھ سو افراد شائد فرمائشی ہزار گاہکوں سے بہتر رہتے ہیں - خیر ہمارے محترم کا یہ مثال بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ کتاب کی فروخت میں کمی ناشرین کی " نالائقی " کے سبب ہے - لیکن عجیب بات ہے کہ یہی ناشران بہت سی کتب بہت جلد بیچ بھی لیتے ہیں - خود میں نے ایک پانچ سو صفحات کی کتاب لکھی ، صرف دو سال کیں اس کے تین اڈیشن شائع کیے جو معمول کی تعداد گیارہ سو سے زیادہ بھی تھے ، اب یہ کتاب انڈیا میں بھی شائع ہونے جا رہی ہے - سو نہ بکنے والی کتاب کے حوالے سے یہ بھی تو کہا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے کتاب میں لوگوں کو ایسی کشش ہی محسوس نہ ہوئی ہو یا معیار تحریر و تحقیق سے مطمئن نہ ہوے ہوں اور مکتبہ باوجود محنت کے ناکام ہو گیا -
دارالسلام کا ذکر بھی آ گیا ، آپ نے لکھا کہ دارالسلام کی کتب بھی اپنے تمام تر ظاہری معیار کے باوجود اب پرانی شراب کی نئی پیکنگ والی بات ہے - میرا خیال ہے کہ دار السلام کی کتب بارے ایسا کہنا کچھ عجیب ہی ہے - اس پر کیا تبصرہ کیا جائے -
ڈاکٹر صاحب کا ناشران پر اس تنقید کا بنیادی مقصد اپنا مقدمہ مضبوط کرنا تھا کہ پی ڈی ایف کی موجودگی کتب کے کاروبار کی کمی کا سبب نہیں بلکہ ناشران خود ہی نالائق ہیں - لیکن موصوف اس پر کیا کہیں گے کہ یہ معاملہ صرف اسلامی کتب کے ساتھ خاص نہیں بلکہ دنیا بھر میں کتابوں کو اس زوال کا سامنا ہے - بیروت کے بڑے بڑے مکتبے اس کساد بازاری کے سبب بند ہو رہے ہیں - یورپ میں بھی بہت سے ادارے ختم ہونے کو ہیں - کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر کے ناشران کتب ایک دم ہی بے صلاحیت ہو گئے ہیں - کتابوں کے تاجران دنیا بھر میں اس موئی پی ڈی ایف کو مورد الزام ٹہرا رہے ہیں - حتی کہ ہندستان میں تو دنیا کی سب سے بڑی ای کتب کی ویب سائٹ کو عدالتی حکم کے تحت بند کر دیا گیا ہے -
ایک پہلو جس کی طرف میں پہلے بھی توجہ دلا چکا وہ یہ ہے کہ پی ڈی ایف علم کی اشاعت کا سبب نہیں بلکہ تحقیق کے دروازے بند کرنے کی راہ ہے - اس کی وضاحت کیے دیتا ہوں - اسلامی کتب ہوں یا معاشرتی کتب ، تحقیق دنیا ہو یا مذھب کی دنیا - کتب کے طبع ہونے کا بنیادی سبب ناشران کتب کا کاروباری مفاد ہی ہے - گو وہ پیسے کے لیے یہ سب کرتے ہیں لیکن فائدہ علم اور اہل علم کا ہوتا ہے - اب جب ان کو یقین ہو گا کہ ان کی کتاب بکے گی ہی نہیں تو ان کو کیا ضرورت ہے کہ اپنا پیسا برباد کریں - اور بربادی بھی ایسی کہ جو لوٹ کے لے جا رہا ہے وہ مجاہد اعظم - جی ہاں یہ ایسی چوری ہے کہ چور چوری کر کے سجدہ شکر بھی بجا لا سکتا ہے - لیکن اس کی اس چوری کے سبب ہو گا یہ کہ اگلی چوری سے محروم ہی رہے گا - وہ ایسے کہ نہ ناشر اگلی کتاب شائع کرے گا نہ "معصوم چور " چوری کر کے علم کی یہ " خدمت " کر سکے گا -
بات طویل تر ہو رہی ہے ، ہم اس کو اگلے حصے میں لے جاتے ہیں ، جس میں ہم بیان کریں گے کہ کہ "علم " کے بھی جملہ حقوق ہوتے ہیں ؟
اور کیا ناشران مصنفین سے ہمیشہ زیادتی ہی کرتے ہیں ؟
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
دینی تعلیم کو چھوڑ کر اگر دنیاوی تعلیم جیسا کہ کمپیوٹر سائنس کو ہی لے لیا جائے تو طالب علم کی خواہش ہوتی ہے کہ 3000 روپے کی ایک انٹرنیشنل پبلشر کی کتاب خریدنے کی بجائے اس کی نیٹ سے پی۔ڈی-ایف مل جائے تو پیسے بچ جائیں گے، اگر وہ کمپیوٹر یا موبائل پر پڑھنا نہیں پسند کرتا تو وہ اس کی پائیریٹڈ ورژن خریدتا ہے جو شاید اس کو 300 میں مل جائے، کتابیں دینی ہوں یا دنیاوی، انٹرنیٹ نے ہارڈ کاپی کو نقصان دیا ہے۔۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
کتابیں دینی ہوں یا دنیاوی، انٹرنیٹ نے ہارڈ کاپی کو نقصان دیا ہے
آپ فرض کریں، اب جس وقت ہر چیز موبائل اور کمپیوٹر کی سکرین پر دستیاب ہے، اگر کوئی بھی کتاب پی ڈی ایف میں نہ ہو، تو لوگ موبائل پھینک کے مکتبوں اور لائبریریوں میں جا بیٹھیں گے؟
میں سمجھتا ہوں کہ پی ڈی ایف وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ورنہ اب تک لوگ کہہ چکے ہوتے کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی مولوی پی ڈی ایف کتاب مہیا نہیں کرسکا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
کاپی رائٹس کی شرعی اور فقہی حیثیت

حافظ محمد زبیر
قسط دوم
کاپی رائٹس میں رائٹس کا معنی حقوق کا ہے۔ یہ بندے کا حق ہے یا نہیں ہے؟ تو یہ وحی سے ثابت ہو گا۔ وحی کی صریح دلیل کے بغیر کسی چیز کو کسی کا شرعی حق قرار دینا مناسب امر نہیں ہے۔ تو حق، وحی سے ثابت ہو گا، کتاب وسنت سے ثابت ہو گا، دلیل سے ثابت ہو گا نہ کہ قانون سے، اس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اگر رائج قانون سے کوئی حق ثابت ہوتا تو ٹیکس کے تمام قوانین، شرعی حق کہلاتے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹیکس نافذ کرنے والے حکمران پر لعنت بھیجی ہے۔ قانون میں یتیم پوتے کا اپنے دادا کی وراثت میں حق ہے اور علماء اس حق کو حق ماننے پر تیار نہیں ہیں کہ یہ حق، وحی نے نہیں بیان کیا ہے۔ تو اب سوال یہ ہے کہ کاپی رائٹس ایک شرعی حق ہے، ہمارے پاس اس کی دلیل کیا ہے؟
تو کاپی رائٹس سے متعلق، حق دو قسم کا ہے؛ ادبی اور مالی۔ ادبی حق کو سب تسلیم کرتے ہیں اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ جو بھی تحریر، تصنیف، ایجاد اور اختراع ہے تو اس کی نسبت اصل مصنف اور موجد کی طرف ہی ہونی چاہیے اور غیر کا اس کی نسبت اپنی طرف کرنا جھوٹ اور کذب ہے جو کسی صورت جائز نہیں ہے کہ علم کی نسبت عالم کی طرف نہ جاہل کی طرف اور قیام کی نسبت قائم کی طرف ہو گی نہ کہ قاعد کی طرف، یہ فطری بات ہے اور یونیورسل ہے۔ جہاں تک مالی حق کا تعلق ہے تو اس میں اختلاف ہے کہ وہ ثابت ہوتا ہے یا نہیں اور اس بارے علماء کی تین آراء کا ذکر ہماری پچھلی پوسٹ میں گزر چکا۔ ہم نے یہ کہا تھا کہ علم، مال نہیں ہے لہذا اس کا حکم بھی مال کا نہیں ہے کیونکہ مال ایک مادی (tangible) چیز ہے جبکہ علم، خیر اور شر، اچھے اور برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت کا نام ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ۔ تو علم ایک وصف ہے جو حدیث کے بیان کے مطابق علماء کو نبیوں سے وراثت میں ملا ہے اور اس کی وراثت درہم ودینار جیسی نہیں ہے کہ ہم اس پر درہم ودینار کا حکم لگانا شروع کر دیں۔
ٹھیک ہے ہم بھی مجازاعلم کی چوری کو چوری اور سرقہ (plagirism) کہہ دیتے ہیں تو استعارتا ایسا کہنے میں حرج نہیں ہے لیکن جو لوگ علم، کو مال سمجھتے ہیں تو انہیں پھر ادبی چور پر ہاتھ کاٹنے کی حد جاری کرنے کا بھی فتوی دینا چاہیے۔ جب آپ نے ایک رائے پوری شرح صدر سے اختیار کی ہے تو اس کے تمام نتائج کو بھی تسلیم کریں گے تو وہ علمی رائے کہلائے گی۔ پس خلاصہ کلام یہ کہ مصنف کا ادبی حق ثابت ہے اور جہاں تک مالی حق کا تعلق ہے تو اس میں تفصیل ہے یعنی اس طرح ثابت نہیں ہے جس طرح کہ کاپی رائٹس کے عرفی اور قانونی تصور کے مطابق ثابت کیا جاتا ہے۔ تو مصنف کے لیے کاپی رائٹس یعنی اس کے مالی حقوق کی دلیل کیا ہے؟ تو دلیل کے طور یہ حدیث بیان کی جاتی ہے: (أحق ما أخذتُم عليه أجرًا كتابُ الله)۔ ترجمہ: بہترین اجرت جو تم حاصل کرو، وہ قرآن مجید پر اجرت ہے۔
تو بھئی آپ اپنی جھاڑ پھونک یا قرآن مجید کی تعلیم یا اپنی تصنیف یا ایجاد پر اجرت حاصل کریں، کس نے منع کیا ہے؟ اصل محل اختلاف (point of difference) یہ نہیں ہے۔ قرآن مجید پڑھ کرجھاڑ پھونک کرنا، آپ کی خدمت (service) ہے اور آپ اس خدمت کے عوض مال وصول کر سکتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے۔ لیکن آپ کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ آپ یہ کہیں کہ ان مخصوص آیات اور احادیث پر مشتمل دم چونکہ میری دریافت ہے لہذا اس پر میرے کاپی رائٹس ہیں یا میں اسے اپنے نام رجسٹر کروا لیتا ہوں تا کہ کوئی اور عامل اس دم کو استعمال نہ کرے۔ تو اس اجارہ داری کی دلیل کیا ہے؟ جبکہ نہ قرآن آپ کا کلام ہے اور نہ حدیث آپ کی تصنیف ہے۔ اور یہی حال ہر تقریبا تصنیف اور ایجاد کا بھی ہے کہ وہ پچھلوں کے علم کی بنیاد پر وجود میں آئی ہوتی ہے۔ تو حقیقی معنی میں کوئی تصنیف یا ایجاد، تخلیق ہوتی بھی نہیں ہے۔
مثال کے طور پر کتاب کو لے لیں کہ یہ یا تو ترجمہ ہو گی یا تصنیف۔ اگر تو ترجمہ ہے تو بھئی جس کی کتاب کا ترجمہ ہے، اسے آپ نے کاپی رائٹس دیے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن مجید کا ترجمہ ہے یا حدیث کی کتاب کا ترجمہ ہے یا ائمہ دین یا سلف صالحین کی کسی کتاب کا ترجمہ ہے تو تمہارے ہی بیان کے مطابق کلام کے اصل خالق تو وہ ہوئے اور ان کے کوئی کاپی رائٹس نہیں ہیں کیونکہ اس پر انہوں نے اجماع کر لیا ہے کہ 1923ء سے پہلے کی تصنیف اور ایجاد پر انہوں نے کسی کو کاپی رائٹس نہیں دینے تو یہ اجماع تو خود ایک باطل چیز پر اجماع ہے کہ کاپی رائٹس اگر شرعی حق ہیں تو اجماع سے کسی کا شرعی حق باطل نہیں قرار دیا جا سکتا لہذا سلف صالحین کی کتابوں کے کاپی رائٹس ان کی اولاد میں بطور وراثت جاری ہونے چاہییں اور جس مصنف کے کاپی رائٹس کے مال کا کوئی وارث موجود نہ ہو تو اس کا مال بیت المال میں جانا چاہیے۔
جس دلیل سے کاپی رائٹس آج کے زمانے میں ثابت ہوئے ہیں، اسی دلیل سے چودہ صدیوں سے ثابت ہوتے چلے آ رہے ہیں لہذا کسی مکتبے کو کیا حق پہنچتا ہے کہ بخاوی ومسلم، ابو حنیفہ وابن تیمیہ کی کتابوں پر کاروبار کرے؟ کیا اس نے ان سے کاپی رائٹس حاصل کیے ہیں؟ اسی طرح اگر کسی کی تصنیف ہے تو اس تصنیف کا تجزیہ کر لیں کہ وہ کیا ہے؟ یہاں تو ریسرچ آرٹیکل ستر حوالوں کے بغیر آرٹیکل نہیں کہلاتا تو ایک اچھی تصنیف دوسروں کے اقتباسات کے بغیر کیسے مکمل ہو سکتی ہے۔ ایک مذہبی تصنیف کیا ہے؛ قرآن مجید کی آیات ہیں، ان کا ترجمہ ہے۔ پھر ان آیات کی تفسیر ہے اور وہ بھی مصنف کی نہیں ہے بلکہ طبری نے یہ کہا، قرطبی کی یہ رائے ہے، ابن کثیر یہ کہتے ہیں۔ پھر کہیں اپنی بات کے استدلال میں حدیث ہے، اور اس کا ترجمہ ہے۔ تو قرآن کی طرح حدیث بھی اپنی تخلیق نہیں ہے۔ پھر اس حدیث کی شرح ہے، وہ بھی اپنی نہیں ہے کہ ابن حجر نے یہ کہا اور نووی یہ فرماتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
تو تصنیف جسے آپ اپنی تخلیق کہہ رہے ہیں، اس میں آپ کا اپنا ہے کیا؟ قرآن اور حدیث کے علاوہ کچھ واقعات ہیں تو وہ بھی خبر ہے، آپ کی تخلیق نہیں۔ آپ کی تخلیق وہ چند ایک جملے ہوتے ہیں جو ہر دوسرا مذہبی مصنف اپنی کتاب میں دہرا رہا ہوتا ہے جیسے کہ قرآن مجید کی آیات بیان کرنے سے پہلے کا جملہ "اللہ عزوجل فرماتے ہیں" اور حدیث بیان کرنے سے پہلے یہ جملہ کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے" اور صحابہ وتابعین یا سلف صالحین کے اقوال بیان کرنے سے پہلے یہ جملہ "امام/علامہ/شیخ صاحب کا کہنا ہے"۔ تو یہ اور اس طرح کے چند جملے آپ کا ذاتی نالج اور آپ کی کل تخلیق ہے کہ جس کی رائیلیٹی کے آپ دعویدار ہیں کہ آپ کے علاوہ کسی کو نہیں جانی چاہیے۔ کمال ہے بھائی۔ یہ معاملہ صرف مذہبی مصنفین کا نہیں ہے، فلسفے کی کتاب اٹھا لیں تو ارسطو سے رسل تک فلاں یہ فرماتے ہیں تو فلاں یہ اور یہی حال سائنس کی کتابوں کا بھی ہے۔
کاپی رائٹس کے حق میں یا پھر یہ دلیل بیان کی جاتی ہے کہ حدیث میں ہے: لاضرر ولا ضرار یعنی کسی کو نقصان نہ پہنچاؤ۔ تو بھئی کسی علاقے میں اگر کوئی سپر مال کھل جائے تو ایک کلومیٹر کے ریڈیئس میں تمام چھوٹے دوکانداوں کا کاروبار مندے میں پڑ جاتا ہے بلکہ بعض کا بیٹھ بھی جاتا ہے تو اب سپر مال کھولنا ناجائز ہو گیا؟ احادیث کی ایسی تشریحات نہ کریں۔ ایک کام میرے لیے مباح ہے تو وہ مباح ہے، بھلے میرے کرنے سے کسی کو نقصان ہو یا فائدہ۔ تو پہلے اس کام کی شرعی حیثیت کا تعین کریں، پھر فائدے نقصان کی دلیل کا کوئی فائدہ ہو گا۔ پھر کوئی صاحب کہتے ہیں کہ عرف (custom) دلیل ہے کہ کاپی رائٹس ہونے چاہیے۔ تو بھئی عرف کی دو قسمیں ہیں؛ عرف صحیح اور عرف فاسد۔ اور عرف فاسد دلیل نہیں ہوتا۔ عرف تو میلاد بنانے کا بھی ہے اور بسنت کا بھی۔ کیا آپ اسے مانتے ہیں؟ وہاں تو آپ یہی کہتے ہیں کہ فلاں رواج چونکہ فلاں صدی کی ایجاد ہے لہذا ہم نہیں مانتے۔ تو کیا کاپی رائٹس اکیسویں صدی کی ایجاد نہیں ہے؟
پھر آپ سوال کرتے ہیں کہ اسے بدعت کیوں کہہ رہے ہیں؟ بھئی جب آپ ایک حق بیسویں صدی میں مان رہے ہیں، اس سے پہلے نہیں اور اسے شرعی حق بھی کہہ رہے ہیں تو یہ بدعت نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر ایک شرعی حق پہلی مرتبہ بیسیویں صدی میں ثابت ہو گا تو اس شرعی حق کے شارع تو آپ ہوئے نہ کہ کتاب وسنت۔ اگر تو وہ حق کتاب وسنت سے ثابت تھا تو چودہ صدیوں میں اس حق کو مانیں اور سلف صالحین کی تصانیف ان کی اجازت کے بغیر نہ تو شائع کریں اور نہ ہی ان کا ترجمہ کریں اور نہ ہی ان کی کتابوں سے اقتباسات نقل کریں۔ کچھ معقول بات تو کریں ناں۔ بھئی اگر تیرہ صدیوں میں لاکھوں دینی ودنیاوی کتب بغیر کاپی رائٹس کے شائع ہو چکیں اور ایک امت نے آپ کو مفت علم منتقل کیا اور آپ ان کے علم کی وجہ سے دو حرف کہنے کے قابل ہوئے تو اب آپ کو کیا مصیبت پڑ گئی ہے کہ آپ نے اگلی نسلوں کو وہ دو حرف پیسوں سے ہی بیچنے ہے۔ ذرا اسی پر غور کر لیں کہ اگر یہ کاپی رائٹس کا قانون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے جاری ہو جاتا تو اب تک آپ تک کتنا علم دین پہنچ پاتا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ یہ کاپی رائٹس کے قوانین، کیپٹلزم کی گلوبل چھتری کے نیچے وجود میں آئے ہیں لہذا یہ سرمایہ دار کے حقوق کا تو تحفظ کریں تو کریں، مذہب اور دین کا کچھ خیال نہیں کریں گے۔ ان کی یہ نحوست کیا کم ہے کہ آج علماء کے ایک طبقے نے علم کو مال کے گھٹیا مقام پر اتار دیا، طالب علم کسٹمر بن گیا، استاذ سیلز مین ہے اور علم پراڈکٹ ہے کہ جس کی قیمت لگتی ہے کہ فلاں مکتبے نے اتنی رائیلٹی دینے کا کہا ہے اور فلاں پبلشر اتنے میں کتاب خرید رہا ہے۔ اور علم کے بارے ہمارے بڑوں کا نقطہ نظر کیا تھا؟ حضرت علی فرماتے ہیں: رضينا قسمة الجبار فينا, لَنا عِلْمٌ ولِلْجُهَّالِ مَالُ. فإنَّ المَالَ يَفْنَى عَنْ قَرِيْبٍ, وإنَّ العلم باقٍ لا يزالُ۔ ہم اللہ عزوجل کی قسمت پر راضی ہیں کہ ہمیں علم دیا اور جاہلوں کو مال۔ مال توعنقریب فنا ہو جائے گا اور علم باقی رہے گا، اس کو زوال نہیں ہے۔ [جاری ہے]
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
زاہد صدیق مغل صاحب کی تحریر

کاپی رائٹس کی بحث خالصتا جدید مارکیٹ اکانومی کی معاشیات کی بحث ہے، جس کی بنیاد تفصیلا کچھ یوں ہے:
الف) فرد کے فیصلوں کی واحد معقول بنیاد مادی مفادات ہوتے ہیں۔
ب) اس معاشیات کا عمومی دعوی ہے کہ زیادہ مسابقت کم مسابقت و اجارہ داری سے بہتر ہوتی ہے کہ اس سے ایفیشنسی (یعنی زیادہ پیداوار و ترقی) آتی ہے۔
ج) اس دعوے کی رو سے "کاپی رائٹس" وغیرہ ناجائز ہونے چاھئیں کیونکہ کاپی رائٹ کا مطلب ایک شخص کی کسی تصور پر اجارہ داری قائم کردینا ہے۔
د) لیکن سرمائے میں مسلسل اضافے کے لئے لازم ہے کہ نئی نئی اشیاء کی پیداوار کا عمل جاری و ساری رہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ نت نئی ایجادات و خیالات سامنے آتے رہیں۔
ھ) اس عمل کو جاری رکھنے کے لئے محنت و سرمایہ درکار ہوتا ہے اور اگر اس محنت کے اضافی مادی عوض کو محفوظ نہ رکھا جائے تو کوئی بھی فرم اس کے لئے محنت نہ کرے گی (کہ مثلا میں نے محنت کرکے کتاب لکھی، ایک پبلشر نے اس پر انوسٹمنٹ کی، لیکن پھر کسی دوسرے شخص نے اس کی کاپیاں بنا کر اس پر پیسے کما لئے اور اول الذکر دونوں کو کم حصہ ملا)
ذ) لہذا اس عمل کو برقرار رکھنے کے لئے لازم ہے کہ کاپی رائٹس رکھے جائیں۔ اگرچہ یہ "زیادہ مسابقت" کے اصول کی خلاف ورزی ہے لیکن اصل مقصد (سرمائے میں زیادہ اضافے) کا باعث ہے کیونکہ مسابقت ذریعہ ہے نہ کہ اصل مقصد
یہ ہے وہ دلیل جس کی اسلام کاری کی جاتی ہے
اس ضمن میں ایک سوال یہ بھی ذھن میں آتا ہے کہ کاپی رائٹس کے تحت کسی شے کی فوٹو کاپی وغیرہ منع کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس میں لکھے ہوئے مواد کو زبانی بیان کرنے کی بھی ممانعت نہیں ہونی چاہئے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ کیا ایک استاد ایک کتاب میں لکھے یوئے خیالات کو پڑھ کر کلاس لیکچر میں اسے استعمال کرسکتا ہے، بغیر مصنف کی اجازت؟ اگر ہاں تو کیوں اور اگر نہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ ایک استاد یا شخص ایسا کرتے ہوئے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔
اگر کاپی رائٹس و پیٹنٹس وغیرہ "ملکیت" ہیں تو پھر اس سے دو نتائج نکلتے ہیں:
- انکی چوری پر حد کا اطلاق بھی ہونا چاہئے اور یا پھر اس فعل کو چوری کے سواء کسی دوسرے جرم کے تحت لانا ہوگا۔ اس کی کیا بنیاد ہے؟
- مروجہ قانون کے مطابق کاپی رائٹس ہوں یا پیٹنٹس، ایک مخصوص وقت کے لئے دئیے جاتے ہیں (مثلا مصنف کی زندگی جمع کچھ سال وغیرہ) جس کے بعد یہ خود بخود معطل ہوجاتے ہیں۔ کیا شریعت میں ایسی کسی شے کی ملکیت کی بنیاد و مثال موجود ہے جو ایک وقت کے بعد خود بخود ختم ہوجاتی ہے؟
 
Top