• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کتابت ِ مصاحف اور علم الضبط

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابوالاسود رحمہ اللہ نے ابتداء صرف حرکاتِ ثلاثہ اور تنوین کو ہی نقطوں سے ظاہر کیا۔ (المقنع: ص۱۲۵)(باقی علامات بعد کی ایجاد ہیں)کتابت مصاحف میں اِصلاح یا تکمیل رسم عثمانی کے لیے علاماتِ ضبط مقرر کرنے کی یہ پہلی کوشش تھی اور یہ علامات بھی تمام الفاظ کی بنائی حرکات کے لیے نہیں،بلکہ زیادہ تر صرف اِعرابی حرکات کوظاہر کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھیں اور اس لیے ہی اسے نقطۃ الاعراب کہتے تھے۔
(١٠) ابوالاسود رحمہ اللہ کا یہ طریقہ بہت جلد کوفہ کے بعد بصرہ اور پھر مدینہ منورہ تک کے مصاحف میں استعمال ہونے لگا۔ اگرچہ نقطوں کے لیے مختلف شکل اور مختلف جگہ بھی استعمال ہونے لگی، مثلاً کوئی نقطے کو گول رکھتا اور اسے ’النقط المدور‘بھی کہتے تھے۔بعض نقطے کو مربع شکل میں لکھتے اور بعض اسے اندر سے خالی گول دائرہ (O) ہی بنا دیتے۔( الکردی: ص۸۷، الجبوری ص۱۵۳)مکہ مکرمہ میں ضمہ (پیش)کا نقطہ حرف کے بائیں طرف سامنے کی بجائے اوپراورفتح (زبر) کا نقطہ حرف کے اوپر کی بجائے اس سے پہلے دائیں طرف لگانے کا رواج ہوگیا۔ (المنجد، ص۱۲۷)
کتابت مصاحف میں علاماتِ ضبط کا یہ پہلا تنوع تھا، جس کی بنا پر عموماً یہ پتہ چل جاتا تھا کہ کس مصحف کی کتابت کس شہر یا کس علاقے میں ہوئی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١١) ابوالاسودرحمہ اللہ کی اس ’اصلاح‘کے باوجود ابھی تک یکساں صورت رکھنے والے حروف کی باہمی تمیز کے لیے کوئی تحریری علامت نہیں تھی اور ان کی درست قراء ت کا انحصارتلقِّی و سماع پر ہی تھا۔ (صفدی: ص۱۳)عبدالملک اُموی رحمہ اللہ کے زمانے میں جب عربی کو دفتری زبان بنا دیا گیاتونہ صرف قرآن کریم، بلکہ عام عربی تحریر کو بھی اس التباس سے بچانا ضروری معلوم ہوا۔ خلیفہ کی اس خواہش کو عراق کے گورنر حجاج بن یوسف نے یوں پورا کیاکہ اس کے حکم پر بصرہ کے علماء میں سے ابوالاسودرحمہ اللہ ہی کے دو شاگردوں نصر بن عاصم رحمہ اللہ اور یحییٰ بن یَعْمَررحمہ اللہ نے عربی زبان کے اب تک رائج اٹھارہ حرفوں کو ان کی آوازوں کے مطابق اٹھائیس حرفوں میں بدلا اور چھوٹے چھوٹے نقطوں کے ذریعے متشابہ حروف کو باہم متمیز کردیا۔ خیال رہے کہ ان اٹھائیس حروف کے ان کی آوازوں کے لحاظ سے نام پہلے سے الگ الگ موجود تھے۔ صرف ان کی کتابت کی شکلیں اٹھارہ تھیں، مثلاً ’ح‘ کو ہی ج ح خ کہتے تھے۔ حرفوں پر اس قسم کے نقطے لگانے کے عمل کو ’اعجام‘ کہتے ہیں۔ حرکات اور اَصوات کے لیے الدؤلی رحمہ اللہ کے رائج کردہ نقطوں کے برعکس ، اعجام کے نقطے اسی سیاہی سے لگانے تجویز ہوئے، جس سے اصل متن لکھا گیا ہو۔ (قصۃ ص۵۲، الزنجانیص۹۰)کتابت مصاحف میں حروف کی باہم پہچان اور تمیز کے لیے یہ دوسری اِصلاحی کوشش تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٢) ان دونوں قسم کے نقطوں میں فرق کرنے کے لیے الگ الگ اِصطلاحات تھیں۔ پہلے (ابوالاسودرحمہ اللہ والے) طریقے کونقط الحرکات، نقط الاعراب یانقط الشکل کہتے تھے، جبکہ دوسری قسم (نصر رحمہ اللہ اور یحییٰ رحمہ اللہ کے طریقے پر حرفوں کے نقطے لگانے)کو نقط الاعجام کہتے تھے۔
(١٣) اس فن کی کتابوں میں مختلف حرفوں کے لیے مختلف تعداد کے نقطے (ایک ، دو یا تین) اور ان کی جگہیں (اوپر یا نیچے) مقرر کرنے کی دلچسپ وجوہ اور اعجام کی مختلف صورتیں بھی بیان کی گئی ہیں،جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: ابن درستویہ ص۵۴ ببعد، المحکم ص۳۵ ببعد، الکردی ص ۹۵-۹۴، غانم ص۵۵۶ ببعد اور فضائلیص۱۳۷) البتہ ایک اور بات جو خصوصاًقابل ذکر ہے، اگرچہ اس کا تعلق براہ راست علاماتِ ضبط سے نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ نصررحمہ اللہ اور یحییٰ رحمہ اللہ نے حروفِ تہجی کی روایتی أبجد ہوَّز حُطِّی والی عبرانی ترتیب بدل کر ان کو تقریباً یہ ترتیب دی، جو اب تک ہمارے ہاں رائج ہے۔ ترتیب میں یہ تبدیلی دراصل اس مقصد کے لیے عمل میں لائی گئی تھی تاکہ یکساں صورت والے حروف کو یکجا کردیا جائے۔ (الخط العربی ص۱۲، الکلاک ص۵۲ بحوالہ الرافعی، فضائلی ص۱۳۸،غانم ص۵۷۱ بحوالہ البلوی)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٤) ابوالاسودرحمہ اللہ کے نقطوں کی طرح یحییٰ رحمہ اللہ اور نصررحمہ اللہ یا حجاج کے نقاطِ حروف اور ترتیب تہجی بھی حجاز کے راستے مغرب میں بھی قدرے اختلاف یاتنوع کے ساتھ اختیار کرلیے گئے، مثلاً مغرب میں ’ف‘ کے سرے کے نیچے ایک نقطہ اور ’ق‘ کے اوپر ایک نقطہ مثل ’ف‘ اختیار کیا گیا۔ وہاں کسی لفظ کے آخر پر واقع ہونے کی صورت میں ف ق ن اور ی کو کسی قسم کے علامتی نقطوں کے بغیر لکھا جانے لگا۔ اسی طرح اہل مغرب (خیال رہے اسلامی تاریخ میں مغرب سے مراد مصر کے علاوہ تمام افریقی ممالک اور اندلس ہوتے ہیں، آج کل صرف مراکش کو بھی مغرب کہہ لیتے ہیں) کے ہاں عربی کے حروف تہجی کی ترتیب بھی مختلف رائج ہوگئی۔ اہل مشرق (مصر اور تمام ایشیائی ممالک) میں تو یہ ترتیب یوں ہے: ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک ل م ن و ہ (بعض جگہ ہ و ) اور ی۔ اس کے برعکس مغرب میں ’ز‘ ’ر‘ کے بعد سے یہ ترتیب اختیار کی گئی: ط ظ ک ل م ن ص ض ع غ ف ف س ش ہ و ی (المحکم ص۳۶، المصور ص۳۳۵و۳۳۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٥) عباسی دور کے ابتدائی کئی برسوں بلکہ تقریباً ایک صدی تک کتابت مصاحف کا یہی طریقہ رائج رہا،یعنی حرکات بذریعہ رنگدار نقاط اور حرفوں کے نقطے مقابلۃً ان سے ذرا چھوٹے مگر کتابت متن والی سیاہی سے لکھنا، تاہم یہ دو دو قسم کے نقطے لکھنے اور پڑھنے والے ، ہر دو، کے لیے صعوبت اور التباس کا سبب بنتے تھے، اس لیے آہستہ آہستہ اعجام کی نقطے محض قلم کے قط کے برابر ہلکی ترچھی لکیروں کی صورت میں ظاہر کئے جانے لگے۔ (غانم ص ۶۲-۵۶۱)البتہ جب عربی خط میں تحسین و جمال کے پہلو ظاہر ہوئے اور مختلف حسین و جمیل اقلام (اَقسام خط) ایجاد ہوئے تو ’نقط اعجام‘ کے لیے بھی، تحریر کے حسن و جمال اور حروف کے ہندسی تناسب کو ملحوظ رکھتے ہوئے، مناسب قط اور نقاط کی وضع اور شکل کے لیے بھی خوشخطی کے قواعد مقرر کر لیے گئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٦) دریں اثناء، ابوالاسودرحمہ اللہ اور یحییٰ رحمہ اللہ و نصررحمہ اللہ کے تلامذہ اور متبعین نے اس طریقے (نقط الاعراب) کو وسعت دیتے ہوئے کچھ مزید علامات وضع کیں، مثلاً ’سکون‘ کے لیے چھوٹی سی افقی (سرخ) لکیر باریک قلم سے حرف کے اوپر یا نیچے مگر اس سے الگ لگانے لگے۔ (المحکم(مقدمہ محقق) ص۳۹ جہاں رنگدار نمونہ بھی دیا گیاہے)اسی طرح ’تشدید‘ کے لیے حرف کے اوپر قوس کی اُفقی شکل( ) کا نشان اختیار کیاگیا، جس کے دونوں سرے اوپر اٹھے ہوتے تھے۔ حرف منون پر فتحہ (زبر) کی صورت میں سرخ نقطہ اس قوس کے اندر ( ) کسرہ (زیر)کے لیے نیچے ( ) اور ضمہ (پیش) کے لیے یہ نقطہ قوس کے دائیں سرے کے اوپر لگاتے ( )۔ پھر کچھ عرصہ بعد علامات تشدید والی قوس ( ) پر حرف منون کی حرکت کے لیے نقطہ لگانا ترک کردیا گیا اور اس کی بجائے مشدد مفتوح حرف کی صورت میں ’قوس تشدید‘حرف کے اوپر ( ) اور مکسور مشدد کے لیے حرف کے نیچے الٹی قوس( ) اور مشدد (مضموم کے اوپر اوندھی شکل کی قوس ( ) بنانے لگے۔ (الجبوری ص۱۵۳، الکردی ص۸۷-۸۶، الزنجانی ص۸۸ اور عبود ص ۴۰، المقنع ص۱۳۰ اس کا نمونہ دیکھئے آربری پلیٹ نمبر (اوّل))اس کے بعد علامت تشدید کے طور پر صرف دال مقلوبہ ( ) بھی استعمال ہونے لگی۔ (دیکھئے حوالہ نمبر ۳۷ مذکورہ بالا۔ نیز دیکھئے یہی کتاب (المحکم ص۵۰ ببعد اور الطرازورق ۲۸ الف و ب جہاں اس کو تشدید اہل مدینہ کہا گیا ہے۔)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٧) نقاط کی مشابہت سے پیدا ہونے والے التباس کے اِمکان کو کم کرنے کے لیے اور کتابت میں بیک وقت متعدد سیاہیوں کے استعمال کی صعوبت سے بچنے کے لیے ایک اور اصلاح کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ (قصہص۵۲، صفدی ص۱۳، فضائلی ص۱۳۸، الکردی ص۹۱، غانم ص۵۰۵ ببعد)مشہور نحوی اور واضع علم العروض الخلیل بن احمد الفراہیدی رحمہ اللہ (م۱۷۰ھ) نے وقت کی اس ضرورت کو نئی علامات ضبط ایجاد کرکے پورا کیا اور یہی وہ علامات ضبط ہیں جو کم و پیش آج بھی ہرجگہ نہ صرف کتابت مصاحف میں بلکہ کسی بھی مشکول عربی عبارت کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
(١٨) الخلیل رحمہ اللہ نے نقط اعجام کو متن کی سیاہی سے لکھنا، اسی طرح برقرار رکھا بلکہ اس نے حرفوں کے نقطوں کی تعداد اور ان کی جگہ کے تعین کے اَسباب وعلل بھی بیان کئے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: المحکم ۳۶-۳۵ اور غانم ص۵۵۵ ببعد)البتہ اس نے الشکل بالنقاط کی بجائے الشکل بالحرکات کا طریقہ ایجاد کیا، یعنی فتحہ (زبر) کے لیے حرف کے اوپر ایک ترچھی لکھیر(-َ) ، کسرہ (زیر) کے لیے حرف کے نیچے ایک ترچھی لکیر(-ِ) اور ضمہ (پیش) کے لیے حرف کے اوپر ایک مخفف سی واؤ کی شکل (-ُ) لگانا تجویز کیااور تنوین کے لیے ایک کی بجائے دو دو حرکات (-ً -ٍ -ٌ) مقرر کیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ان حرکات ثلاثہ کے علاوہ الخلیل رحمہ اللہ نے پانچ نئی علامات ضبط اِیجاد کیں یا ان کے لیے حرکاتِ ثلاثہ کی طرح ایک نئی صورت وضع کی۔ الخلیل رحمہ اللہ کی علامات دراصل حرکت کی صوتی مناسبت سے کسی باریک سے حرف یا علامت کے نام یا اس کے کسی حصے کی مخفف شکل تھیں۔گویا ہرعلامت ِضبط اپنے مدلول پردلالت کرتی تھی، مثلاً الخلیل رحمہ اللہ نے فتحہ کے لیے ’الف صغیرہ مبطوحہ ‘ (چھوٹا سا ترچھا الف)،کسرہ کے لیے یاء کامخفف سرا (-) اور ضمہ کے لیے واؤ کی مخفف صورت اختیار کی۔ (الطراز ورق ۵؍ب، الکردی ص۹۱) اسی طرح اس نے سکون کے لیے حرف ساکن کے اوپر ’ہ‘ یا ’ح‘ کی علامت وضع کی، جو لفظ ’جزم‘ کے ج یا م کے سرے کا مخفف نشان ہے۔ شدہ یا تشدید کے لیے اس نے حرف مشدد کے اوپر ’ ّ‘ لگانا تجویز کیا، جو ’ش‘ کے سرے سے ماخوذ ہے۔ مدہ یا تمدید کے لیے حرف ممدود کے اوپر ’آ‘ کی علامت اختیارکی جو دراصل لفظ ’مد‘ ہی کی دوسری یا مخفف شکل ہے۔ اسی طرح ’ہمزہ الوصل‘ کے لیے الف کے اوپر’صـ‘ یعنی ’صلہ‘ کے ’ص‘ کی ایک صورت اورہمزہ القطع کے لیے ’أ ‘ کی علامت وضع کی ،جو حرف عین (ع) کے سرے سے ماخوذ ہے۔ کہتے ہیں کہ الخلیل رحمہ اللہ نے ’روم اور اشمام‘ کے لیے بھی علامات وضع کی تھیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٩) الخلیل رحمہ اللہ کی ایجاد کردہ علامات کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں کتابت کے لیے دو سیاہیاں استعمال کرنا لازمی نہ تھابلکہ متن (قرآن) اورعلاماتِ ضبط سب ایک ہی سیاہی سے لکھے جانے لگے۔ اس سے کتابت میں صعوبت اور قراء ت میں التباس کے اِمکانات کم تر ہوگئے۔ اس لیے یہ طریقہ بہت جلد مقبول ہوگیا۔آج کل دنیا بھر میں کتابت مصاحف کے لیے علاماتِ ضبط کایہی طریقہ رائج ہے۔ البتہ ضرورۃ اوربعض جگہ رواجاًاس میں مزیداِصلاحات اور ترمیمات کا عمل جاری رہا ۔ الخلیل رحمہ اللہ کی وضع کردہ علاماتِ ضبط، کتابت مصاحف میں علامات ضبط کی اِصلاح یاتکمیل کی تیسری کوشش تھی جو ایک بڑے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔(دیکھئے حوالہ نمبر ۴۹ مذکورہ بالا)
(٢٠) جب الخلیل بن احمد الفراہیدی رحمہ اللہ نے دوسری صدی ہجری کے اواخر میں علاماتِ ضبط کایہ نیاطریقہ وضع کیا، تو اس وقت تک ابوالاسود رحمہ اللہ کاایجادکردہ طریقہ نقاط (نقط) کتابت مصاحف کے لیے پوری دنیائے اسلام کے مغربی اور مشرقی حصوں میں استعمال ہورہا تھا،بلکہ اس میں مزید اِصلاحات اور نئی نئی علامات کی ایجاد سے یہ طریقہ زیادہ مکمل اور قرآن کریم کی قراء ت اور تجوید کی بہت سی ضرورتوں اور نطقی و صوتی تقاضوں کے لیے کافی ومکتفی بن چکا تھا۔ اس لیے شروع میں کافی عرصہ تک لوگ کتابت ِمصاحف کے لیے الخلیل رحمہ اللہ کے طریقے کی بجائے ابوالاسودرحمہ اللہ والے طریق نقط کا استعمال ہی جائز سمجھتے تھے۔ الخلیل رحمہ اللہ کا طریقہ کافی عرصہ تک صرف کتب ِ شعر اور دیگر غیر قرآنی عربی عبارات میں استعمال ہوتا تھا،بلکہ اسی وجہ سے اورشکل المصحف کے طریقۂ نقط سے ممتاز کرنے کے لیے اسے شکل الشعر (یعنی شعروں میں حرکات لگانے کا طریقہ) بھی کہتے تھے۔ دونوں قسم کے ’شکل‘ کی صوری خصوصیات کی بنا پر ابو الاسودرحمہ اللہ والے طریقے کوالشکل المدور اور مؤخر الذکر کو الشکل المستطیل بھی کہتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ مغرب یعنی سپین اور افریقی ممالک میں تو کتابت ِ مصاحف کے لیے علاماتِ ضبط کے طور پر ابوالاسودرحمہ اللہ کے طریق نقط کو ایک قسم کی تقدیس کا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔ ابوعمرو عثمان بن سعید الدانی رحمہ اللہ (م۴۴۴ھ)، جو رسم عثمانی اور علامات ضبط بذریعہ’النقط المدور‘کے بہت بڑے عالم تھے اور ان فنون میں انہوں نے یادگار تصانیف چھوڑی ہیں، وہ اپنی کتاب ’المحکم فی نقط المصاحف‘ میں الخلیل رحمہ اللہ کے طریقے کے کتابت مصاحف میں استعمال کو ’بدعت‘ اور ابوالاسودرحمہ اللہ والے طریقے کو ’طریق ِ سلف‘ قرار دیتے ہیں اور بڑی دلیل ان کی یہ ہے کہ یہ طریقہ (یعنی نقط) ایک تابعی بزرگ (ابو الاسودرحمہ اللہ) نے شروع کیا تھا اور انہوں نے کتابت ِ علامات کے لیے اپنے منتخب کاتب سے ’فانقط‘ اور ’اجعل نقطۃ‘ یعنی میری ہدایت کے مطابق نقطے لگاؤ، کے الفاظ کہے تھے۔ (المحکم ص۴۳، نیز غانم ص۵۰۱ ببعد)
 
Top