• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کتابت ِ مصاحف اور علم الضبط

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭اہل مشرق نے اس کے برعکس یہ طریقہ اختیار کیا کہ جو حرف زائد نطق میں نہیں آتا، اسے ہر قسم کی علامت ضبط سے معری رکھا۔ اس طرح حرف الف کی چند معدود صورتیں ایسی رہ جاتی ہیں کہ ان میں التباس واقع ہوسکتا ہے، مثلاً الف ما قبل مفتوح جبکہ اس کے بعد کوئی حرف ساکن یا مشدد بھی نہ آرہا ہو۔ یہ کوئی بیس کے قریب مقامات بنتے ہیں لہٰذا صرف ان پر علامت زیادہ (دائرہ یاعلامت تنسیخ) لگا دیتے ہیں۔ اس طریقے پر نہ أولئک کی واو پر نشان لگانے کی ضرورت ہے، نہ تلقاء کی ’ی‘ پر اور صرف الف الاطلاق پر ہی یہ علامت نہ ڈالنے کے باعث مجموعی طور پر شاید کاتب کے کئی دن نہیں تو کئی گھنٹے یقیناً بچ جاتے ہیں۔
بعض لفظوں کے بارے میں یہ اختلاف بھی ہوتا ہے کہ اس میں زائدالف ہے یا ’ی‘ ،مثلاً ’أفائن‘ اور ’ملائہ‘ میں (المحکم ص۱۹۴۔ الطرازورق ۱۰۵؍الف)اس لیے ان کی علامت زیادۃ کے موقع ضبط کی تعیین میں بھی اختلاف موجود ہے۔ اس فرق کو اچھی طرح اور عملاً سمجھنے کے لیے کلمہ ’أفائن‘یا’أفائن‘ (آل عمران:۱۴۴ اور الانبیاء ۳۴) کاضبط کسی مصری یا سعودی مصحف میں اور پھر برصغیر کے کسی مصحف میں دیکھئے۔ آپ دیکھیں گے تلفظ دونوں ضبط کے ساتھ ایک ہی بنتا ہے، یعنی’أفَئِن‘ جو لین کی طرح ہے اور اگرلئن پر قیاس کریں،جو متفق علیہ ضبط ہے، تو پھر ’ی‘ کی بجائے الف کو زائد ماننے والوں کاموقف زیادہ قرین صواب ہے۔ واللہ اعلم
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣٧) علم الضبط کے مسائل میں سے ایک مسئلہ نقص فی الھجاء والے کلمات کا ضبط بھی ہے، یعنی ایسے حروف جو لکھے نہیں جاتے مگر پڑھے ضرور جانے چاہئیں، مثلاً الرَّحْمٰن اور العٰلَمِیْنَ کا الف ، دَاوٗد اورتَلْوٗنَ کی دوسری واو اور أمِّیِّــن اور نَبِیّــنَ کی دوسری یاء یہ محذوف حرف عموماً الف ’و‘ ی ہی ہوتا ہے اور وہ بھی ’مدہ‘اگرچہ ایک دو جگہ ’ن‘ بھی محذوف ہوا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے: غانم ص۵۹۷ ببعد، الطرازورق ۷۱؍الف ببعد) دورِ طباعت سے پہلے قلمی مصاحف میں ان محذوفات کا ’اثبات‘ باریک قلم اور سرخ سیاہی سے کیا جاتا تھا، یعنی سرخی سے حسب موقع ’ا‘ یا’و‘ یا ’ے‘‘یا’ن‘‘لکھ دیتے تھے۔ دور طباعت میں یہ حروف متن کی سیاہی کے ساتھ مگر باریک قلم سے لکھے جانے لگے ہیں، مگر اس میں بھی اہل مشرق حرف محذوف کااِضافہ کرنے کی بجائے الف مدہ محذوفہ کے لیے (ٰ)، واو مدہ محذوفہ کے لیے ( ۔ٗ ) اور یائے مدہ محذوفہ کے لیے ( ۔ٖ ) کی علامت استعمال کرتے ہیں، البتہ ’ن‘ کو وہ بھی باریک قلم سے ہی لکھتے ہیں،مثلاً ’ ‘
حرف محذوف ’الف‘ ، ’و‘ یا ’ی‘‘عرب ممالک کے طریقے کے مطابق تو الرَّحمٰن، صلحٰت، داوود، تلوون، أمِّیِّــــن اورنَبِیِّــن لکھیں گے، مگر برصغیر کے ضبط کے مطابق یہی کلمات علی الترتیب یوں لکھے جائیں گے: الرحمٰن،صٰلحٰت،داوٗد،تلوٗن، أمیٖـن اور نبیٖــن۔
نوٹ کیجئے کہ تمام کلمات کااصل عثمانی رسم، ضبط کی دونوں صورتوں میں برقرار رہا ہے۔ صرف علاماتِ ضبط کا فرق ہے۔ (حروف محذوفہ کی نوعیت اور مزید مختلف مثالوں سے آگاہی کے لیے دیکھئے: کتاب حق التلاوۃ ص۱۴۹ تا۱۵۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣٨) علامات ضبط کاایک اور اہم مسئلہ ہمزۃ الوصل کا ضبط ہے۔اس کے لیے الف الوصل کے اوپر ایک مخصوص علامت ڈالی جاتی ہے جسے ’صلہ‘ یا ’علامۃ الصلۃ‘ کہتے ہیں۔ الخلیل رحمہ اللہ سے پہلے یہ علامت عموماً ایک ہلکی سرخ لکیر (جرہ لطیفہ) ہوتی تھی۔ (نمونے کے لئے دیکھئے: المحکم(مقدمہ محقق) ص۳۹)) بعد میں بعض علاقوں میں اس کے لیے گول سبز نقطہ لگایا جانے لگا اور بعض علاقوں میں سرخ نقطہ ہی لگا دیتے تھے۔ (دیکھئے یہی کتاب: المحکم، ص۸۷ جہاں مؤلف نے ایسے دو مصاحف کا خصوصاً ذکر کیاہے۔)
٭ الخلیل رحمہ اللہ نے اس کے لیے ’’ ‘‘ کی علامت وضع کی، جو حرف صاد (ص) کے سرے سے ماخوذ ہے اور جو ہمیشہ الف الوصل کے اوپر ہی لکھی جاتی تھی اور بیشتر عرب ممالک میں اب بھی لکھی جاتی ہے۔ چوتھی صدی ہجری سے ہی ہمزۃ الوصل کی علامت مطلقاً ترک کردینے کا رجحان پیدا ہوگیا تھا۔ (غانم ص ۵۹۳، جہاں ترتیب زمانی کے ساتھ بعض نمونوں کا ذکرموجود ہے۔) شاید اس لیے بھی کہ علامۃ الصلۃ لکھنے سے ضبط کے کئی نئے مسائل بھی پیداہوجاتے ہیں،جیساکہ ابھی بیان ہوگا۔ بیشتر مشرقی ممالک مثلاً برصغیر، چین ، ایران (اور ترکی میں بھی) ہمزۃ الوصل کے لیے کسی علامت ضبط کااستعمال کافی عرصے سے متروک ہوچکا ہے۔ (ترکی کے حافظ عثمان کے مکتوبہ مصحف میں علامۃ الصلۃ موجود ہے، مگر مصطفی نظیف اور حامد ایتاج نے اسے استعمال نہیں کیا ہے۔)اور ممکن ہے برصغیر میں تو اس کا استعمال شاید متعارف ہی کبھی نہ ہوا ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭جن ملکوں میں علامۃ الصلۃ استعمال ہوتی ہے اس کی دو صورتیں ہیں:اکثر عرب ملکوں میں تو الخلیل رحمہ اللہ والی علامت ( صـ یا ص) استعمال ہوتی ہے، اندلس اور مغرب میں مدت تک اس کے لیے عموماً سبز رنگ کے گول نقطہ کا رواج رہا۔ بعض افریقی ممالک میں علامۃ الصلۃ کے طورپر سبز نقطے کا رواج اب بھی موجود ہے۔ نائیجیریا کے بعض رنگدار مصاحف میں اس کی بہترین مثالیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ آج کل عام طور پر افریقی ممالک میں علامۃ الصلۃکے طور پر الف الوصل کے اوپر عموماً ایک باریک سیاہ نقطہ ڈالاجاتاہے۔
٭افریقی ممالک میں الف الوصل کے ماقبل کی حرکت کے لیے بھی ایک نشان اس (الف) پر ڈالا جاتا ہے۔ اس نشان کو ’صلۃالوصل ‘ یا ’خبش الف الوصل‘بھی کہتے ہیں۔ یہ عموماً ماقبل کی فتحہ کے لیے الف کے اوپر دائیں طرف ایک ہلکی سی اُفقی لکیر ہوتی ہے، جوکسرہ کے لیے الف کے نیچے اور ضمہ کے لیے الف کے وسط میں لگائی جاتی ہے، مثلاً ’’ ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭اگر ہمزۃ الوصل سے ابتداء ہورہی ہو، مثلاً اس سے قبل مثل وقف لازم قوی وقف ہو، تو اس صورت میں اس کی ممکن حرکت کے لیے عرب ممالک میں کوئی علامت نہیں ڈالی جاتی، بلکہ قاری غالباً اپنی عربی دانی کے زور پر خود ہی نطق کے لیے حرکت متعین کرلیتا ہے۔ صرف سوڈانی اور لیبی مصاحف میں اس کے لیے بھی خاص علامات مقرر کی گئی ہیں، اگرچہ دونوں ملکوں کی علامات میں معمولی تفاوت ہے تاہم فتحہ کے لیے یہ علامت (جو گول باریک نقطہ یا باریک سا دائرہ ہوتاہے) الف کے اوپر، کسرہ کے لیے ٹھیک نیچے اور ضمہ کے لیے الف کے آگے (بائیں طرف) وسط میں لکھی جاتی ہے، جیسے ’’ ا‘‘، ’ ’ ا‘‘ ،’ ’ ا‘‘
٭اہل مشرق نے الف الوصل کی علامت صلہ کا استعمال ہی ترک کردیاہے۔ اگر الف الوصل والا لفظ ماقبل سے ملایا جارہا ہو تو الف الوصل پر کسی قسم کی علامت نہیں ڈالی جاتی اور اگر اس سے ابتداء ہورہی ہو تو اس الف پر علامت قطع (ء ) ڈالے بغیر منطوق حرکت دے دی جاتی ہے۔ علامت قطع نہ ہونے سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ ہمزۃ الوصل ہے اور حرکت سے اس کے صحیح تلفظ کی طرف بھی اشارہ ہوجاتا ہے،مثلاً عرب ممالک میں ’اﷲ الصمد‘ لکھتے ہیں ،مگر برصغیر میں’اﷲ الصمد‘ لکھتے ہیں۔ پہلے طریقے پر قاری کو اللہ کے الف کی حرکت کاکچھ پتہ نہیں چلتا، دوسرے طریقے میں یہ چیز الف کی فتحہ نے واضح کردی ہے۔ مشرق کا کوئی عام ناظرہ خواں کسی عرب ملک کے مصحف سے سورۃ الاخلاص تک درست نہیں پڑھ سکتا، البتہ اہل مشرق میں عموماً ہمزۃ القطع بھی بغیر علامت قطع (ئ) کے لکھنے کا رواج ہوگیا ہے، مثلاً’بأس‘ کو ’باس‘ لکھ دیتے ہیں جو علمی لحاظ سے غلط ہے یاپھر علامت ہمزہ کی ایجاد سے پہلے کی یادگار ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ہمزۃ الوصل اور حرف زائد کے لیے علامت کے استعمال یاعدم استعمال سے اہل مشرق اوراہل مغرب کے طریقۂ کتابت یعنی ضبط میں بڑا فرق پڑتا ہے اور اس فرق کی وجہ سے ایک علاقے کے آدمی کو دوسرے علاقے کے مصحف میں سے تلاوت کرنے میں سخت صعوبت پیش آتی ہے۔ مثال کے طور پر لفظ ’أولوالعزم‘ کو لیجئے ،اس کو ضبط کرتے وقت اہل مشرق تو دونوں او اور ’لو‘ کے بعد آنے والے دونوں الف بھی ہر قسم کی علامت سے خالی رکھتے ہیں، مگر عرب اور افریقی ممالک میں ’أولو‘کی پہلی واو پر ’علامت حرف زائد‘ اور ’لو‘ کے بعد آنے والے دو الفوں میں سے پہلے پر ’علامت زیادہ‘ اور دوسرے پر ’علامت صلہ‘ ڈالیں گے۔ اس طرح اس لفظ کو پہلی صورت میں ’اولوالعزم‘اور دوسری صورت میں ’أولوالعزم‘ لکھیں گے۔ اسی طرح اہل مشرق ’اوتوا الکتب‘ مگر عرب ’أوتوا الکتب‘لکھیں گے۔ جس آدمی کو علامت صلہ اور ’علامت زیادۃ‘ کاعلم نہیں،وہ دوسری صورت والی کتابت کو کبھی درست نہیں پڑھ سکتا۔ (المحکم ص ۲۴ پرالدانی نے ابن مجاہد کا یہ قول نقل کیاہے کہ علم النقط یعنی علم الضبط جانے بغیر کسی مصحف سے قراء ت ناممکن سی بات ہے۔ یہی بات آج بھی سو فیصد درست ہے اور اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ حرمین شریفین میں سب لوگوں کو دیارِ عرب ہی کے مطبوعہ مصاحف سے تلاوت پرمجبور کرنا ناظرہ خوانوں پرکتنا بڑا ظلم ہے۔ اہل علم کے لیے تو خیر کوئی دشواری نہیں ہوگی۔وقلیل ما ھم)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣٩) ہمزۃ القطع کو ہمزۃ الوصل سے ممتاز کرنے کے لیے شروع کے نظام نقط میں اس کے لیے زرد رنگ اور بعض علاقوں میں سرخ رنگ کا گول نقطہ ڈالا جاتاتھا۔ (المحکم: ص۸۷) الخلیل رحمہ اللہ کے طریقے میں اس کے لیے ’ئ‘کی علامت تجویزکی گئی تھی اور یہ علامت اب تک مستعمل ہے، البتہ بعض افریقی ممالک میں اس’ع‘ یا ’ ّ‘کی شکل میں اور چین میں عموماً ’ ‘ یا’ ‘ کی شکل میں لکھا جاتا ہے۔ بعض افریقی ملکوں ،مثلاً نائیجیریا میں یا سوڈان کے قلمی مصاحف میں اس کے لیے زرد گول نقطہ اب تک زیر استعمال ہے۔
٭ ہمزہ کے طریق ِنطق کے اختلافات اور مختلف قراء ات میں اس کے طریق ِادا کے تنوع کی وجہ سے ہمزۃ قطع کی مختلف صورتوں کے لیے کچھ مختلف علامات بھی مقرر کی گئیں اور اس کاموقع ضبط تو کتب علم الضبط کی سب سے طویل بحث ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ی کلمہ کی ابتداء میں آنے کی صورت میں ہمزہ کی اس علامت قطع (ئ) کا استعمال اہل مشرق کے ہاں متروک ہوگیا ہے۔ اس صورت میں وہ صرف الف پر ( اور ابتداء میں ہمزہ ہمیشہ بصورت الف ہی لکھا جاتاہے) متعلقہ حرکت دے دیتے ہیں، مثلاً’ أَ،إِ،أُ‘ کی بجائے ’ اَ،اِ،اُ ‘ ہی لکھتے ہیں اور ابتداء کی صورت میں وہ ہمزۃ الوصل پربھی اسی طرح حرکات لکھتے ہیں۔اس فرق کو ذیل کی مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) ہمزۃ القطع کی صورت میں:
عرب ممالک میں أَنذر، أُنذر اور إِنذار لکھیں گے، مگر اہل مشرق اسے اَنذر، اُنذر اور اِنذار لکھیں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) ہمزۃ الوصل کی صورت میں:
عرب ممالک میں اﷲ، ادع اور اھدنا لکھا جاتاہے، مگر اہل مشرق اسے اﷲ، اُدع اوراِھدنا لکھتے ہیں، البتہ سوڈان میں اسے اﷲ، ادع اور اھدنا لکھتے ہیں اور لیبیا میں اسے اﷲ، ادع اور اھدنا لکھتے ہیں۔
نوٹ کیجئے کہ عرب اور عام افریقی ممالک کی علامۃ الصلۃ (ص) آپ کو الف الوصل کی ملفوظ حرکت کے تعین میں قطعاً کوئی مدد نہیں دیتی، یہ صرف شفوی تعلیم سے معلوم ہوگی۔ ہم نے اوپر الف الوصل کی حرکاتِ ثلاثہ والی مثالیں دی ہیں۔ لیبیا اور سوڈان کاطریقہ ہمارے برصغیر کے طریقے سے مختلف ہے، مگر دوسرے عرب اور افریقی ممالک کے طریق ضبط کی نسبت زیادہ معقول ہے۔
٭ ہمزہ ہی کے ضمن میں علماء ضبط نے اس مسئلے پر بھی بحث کی ہے کہ’لا‘ میں کون سا سرا لام اورکون سا الف یا ہمزہ ہے اور ہر ایک نظریہ کے حق میں دلائل دیئے گئے ہیں اور یہ بحث خاصی دلچسپ بھی ہے۔ (الطراز ورق۱۲۰؍الف ببعد، المحکم ص۱۹۷ ببعد اور غانم ص۵۸۱)تاہم اب اس بحث کاکوئی فائدہ نہیں ہے ،کیونکہ اس وقت عملاً صورت حال یہ ہے کہ تمام افریقی ممالک ماسوائے مصر تو ’لا‘ میں پہلے سرے کو ہی الف یا ہمزہ اور دوسرے سرے کو لام سمجھتے ہیں، جبکہ مصر اور تمام مشرقی ممالک میں اس کے برعکس عمل ہے۔ اس کافرق ذیل کی مثالوں سے واضح ہوگا:
افریقی ممالک میں والارض فی الاخرۃ اور الایۃ لکھیں گے، جبکہ مشرقی ملکوں میں والاَرض، فی الآخرۃ اور الآیۃ لکھیں گے۔
 
Top