• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کتاب زکوۃ کے مسائل کا بیان

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب اگر باپ نا وافقی سے اپنے بیٹے کو خیرات دے دے کہ اس کو معلو نہ ہو؟

(۲۶) ہم سے محمد ابن یوسف نیبیان کیا کہا کہ ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابو جویریہ (حطان بن خفاف ) نے بیان کیا کہ معن بن یزیدؓ نے ان سے بیان کیا انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے والد اور دادا (اخفش بن حبیب) نے رسول اللہﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی آپﷺ نے میری منگنی بھی کرائی اور آپﷺ نے نکاح بھی پڑھایا تھا اور میں آپ کی خدمت میں ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوا تھا وہ یہ کہ میرے والد یزید نے کچھ دینار خیرات کی نیت سے نکالے اور ان کو انہوں نے مسجد میں اکی شخص کے پاس رکھ دیا میں گیا اور میں ان ان کو اس سے لے لیا پھر جب میں انہیں لے کر والد صاحب کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا کہ قسم اللہ کی میرا ارادہ تجھے دینے کا نہیں تھا یہی مقدمہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور آپﷺ نے یہ فیصلہ دیا کہ دیکھو یزید جو تم نے نیت کی تھی اس کا ثواب تمہیں مل کیا اور معن جو تو نے لے لے وہ اب تیرا ہوگیا۔
تشریح
امام اعظم اور امام محمد کا یہی قول ہے کہ اگر نا واقفی میں باپ بیٹے کو فرض زکوۃ بھی دے دے تو زکوۃ ادا ہو جاتی ہے بلکہ عزیز اور قرب لوگوں کو جو محتاج ہوں زکوۃ دینا اور زیادہ ثواب ہے سید علامہ (نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم) نے کہا کہ متعدد دلائل اس پر قائم ہیں کہ عزیزوں کو خیرات دینا زیادہ افضل ہے خیرات فرض ہو یا نفل اور عزیزوں میں خاوند اولاد کی صراحت ابو سعید کی حدیث میں موجود ہے (مولانا وحید الزمان(
مضمون حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ نبی کریمﷺ کس قدر شفیق اور مہربان تھے اور کس وسعت قلبی کے ساتھ آپ نے دین کا تصور پیش فرمایا تھا باپ اور بیٹے ہر دو کو ایسے طور پر سمجھا دیا کہ ہر دو کا مقصد حاصل ہوگیا اور کوئی جھگڑا باقی نہ رہا آپﷺ کا ارشاد اس بنیادی اصول پر مبنی تھا جو حدیث
انما الاعمال بالنیات
میں بتلایا گیا ہے کہ عملوں کا اعتبار نیتوں پر ہے۔
آج بھی ضرورت ہے کہ علماء و فقہاء ایسی وسیع الظرف سے کام لے کر امت کے لئے بجائے مشکلات پیدا کرنے کے شرعی حدود میں آسانیاں بہم پہنچائیں اور دین فطرت کا زیاد سے زیادہ فرخ قلبی کے ساتھ مطالعہ فرمائیں کہ حالات حاضرہ میں اس کی شدید ضرورت ہے فقہاء کا وہ دور گزر چکا جب وہ ایک ایک جزئی پر میدان مناظرہ قائم کر دیا کرتے تھے جن سے تنگ آکر حضرت شیخ سعدی کو کہنا پڑا ؎
فقیہاں طریق جدل سا ختند
لم لا نسلم در اند اختند
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب خیرات داہنے ہاتھ سے دینی بہتر ہے۔

)۲۷( ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید فطان نے بیان کیا عبیدا للہ عمری سے انہوں نے کہا کہ مجھ سے خبیب بن عبدالرحمن نے حفص بن عاصم سے بیان کیا ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ نے فرمایا سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالی اپنے (عرش کے) سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا انصاف کرنا والا حاکم۔ وہ نوجوان جو اللہ تعالی کی عبادت میں جوان ہوا ہو ۔ وہ شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہے ۔ دو ایسے شخص جو اللہ کے لئے محبت رکھتے ہیں اسی پر وہ جمع ہوتے اور اسی پر جدا ہوئے ۔ ایسا شخص جسے کسی خوبصورت اور عزت دار عورت نے بلایا لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ وہ انسان جو صدقہ کرے اور اسے اس درجہ چھپائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا ۔ اور وہ شخص جو اللہ کی تنہائی میں یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بہنے لگ جائیں۔
تشریح
قیامت کے دن عرش عظیم کا سایہ پانے والے یہ سات خوش قسمت انسان مردہوں یا عورت ان پر عضر نہیں ہے بعض احادیث میں اور بھی ایسے نیک اعمال کا ذکر آیا ہے جن کی وجہ سے سایہ عرش عظیم مل سکے گا ۔ بعض علماء نے اس موضوع پر مستقل رسالے تحریر فرمائے ہیں اور ان جملہ اعمال کو اعمال صاحلہ کا ذکر لکھا ہے جو قیامت کے دن عرش الہی کے نیچے سایہ ملنے کا ذریعہ بن سکیں گے بعض نے اس فہرست کو چالیس تک پہنچا دیا ہے۔
یہاں باب اور حدیث میں مطابقت اس متصدق سے ہے جو راہ اللہ اس قدر پوشیدہ خرچ کرتا ہے کہ دائیں ہاتھ سے خرچ کرتا ہے اور بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہو پاتی ۔ اس سے غایت خلوص مراد ہے۔
انصاف کرنے والا حاکم چودہری پنچ اللہ کی عبادت میں مشعول رہنے والا جوان اور مسجد سے دل لگانے والا نمازی اور دو باہمی للہی محبت رکھنے والے مسلمان اور حاحب عصمت اور عفت مرد یا عورت مسلمان اور اللہ کے خوف سے آنسو بہانے والی آنکھیں یہ جملہ اعمال حسنہ ایسے ہیں کہ ان پر کار بند ہونے والوں کو عرش الہی کا سایہ ملنا ہی چاہیے اس حدیث سے اللہ کے عرش اور اس کے سایہ کا بھی اثبات ہوا جو بلا کیف و کم و تاویل تسلیم کرنا ضروری ہے قران پک کی بہت سی آیات میں عرش عظیم کا ذکر آیا ہے بلاشک و شبہ اللہ پاک صاحب عرش عظیم ہے اس کے لئے عرش کا استواء اور جہت فوق ثابت اور بر حق ہے جس کی تاویل نہیں کی جا سکتی اور نہ اس کی کیفیت معلوم کرنے کے ہم مکلف ہیں۔
(۲۸) ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی کہا کہ مجھے معبد بن خالد نے خبر دی کہا کہ میں نے حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپﷺ نے فرمایا کہ صدقہ کیاکرو پس عنقریب ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب آدمی اپنا صدقہ لے کر نکلے گا (کہ کوئی اسے قبول کرلے مگر جب وہ کسی کو دے گا تو وہ ) آدمی کہے گا کہ اگر اسے تم کل لائے ہوتے تو میں لے لیتا لیکن آج مجھے اس کی حاجت نہیں رہی (ثابت ہوا کہ مرد مخلص کا اگر صدقہ زکوۃ اعلانیہ کے کر تقسیم کے لئے نکلے بشرطیکہ خلوص وللہیت مد نظر ہو تو یہ بھی مذموم نہیں ہے یوں بہتر ہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے ریا نمود سے بچنے کے لئے پوشیدہ طور پر صدقہ زکوۃ خیرات دی جائے)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب اس کے بارے میں کہ جس نے اپنے خدمت گار کو صدقہ دینے کا حکم دیا اور خود اپنے ہاتھ سے نہیں دیا اور ابو موسی رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ سے یوں بیان کیا کہ خادم بھی صدقہ دینے والوں میں سمجھا جائے گا

)۲۹( ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا ان سے منصور نے ان سے شقیق نے ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہؓ نے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اگر عورت اپنے شوہر کے مال سے کچھ خرچ کرے اور اس کی نیت شوہر کی پونجی بربادکرنے کی نہ ہو تو اسے خرچ کرنے کا ثواب ملے گا اور شوہر کو بھی اس کا ثواب ملے گا کہ اسی نے کمایا ہے ارو خزانچی کا بھی یہی حکم ہے ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کرتا۔
تشریح
مطلب ظاہر ہے کہ مالک کے مال کی حفاظت کرنے والے اور اس کے حکم کے مطابق اسی میں سے صدقہ و خیرات نکالنے والے ملازم خادم خزانچی سب ہی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ثواب کے مستحق ہوں گے حتی کہ بیوی بھی جو شوہر کی اجازت سے اس کے مال میں سے صدقہ خیرات کرے وہ بھی ثواب کی مستحق ہوگی اس میں ایک طرح سے خرچ کرنے کی ترغیب ہے اور دیانت و امانت کی تعلیم و تلقین ہے آیت شریفہ تنالو البر الایۃ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
[FONT=&quot]باب صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد بھی آدمی مالدار ہی رہ جائے (بالکل خالی ہاتھ نہ ہو بیٹھے) اور جو شخص خیرات کرے کہ خود محتاج ہو جائے یا اس کے بال بچے محتاج ہوں (تو ایسی خیرات درست نہیں) اسی طرح اگر قرض دار ہو تو صدقہ اور آزادی اور ہبہ پر قرض ادا کرنا مقدم ہوگا اور اس کا صدقہ اس پر پھیر دیا جائے گا اور اس کو یہ درست نہیں کہ (قرض نہ ادا کرے اور خیرات دے کر) لوگوں( قر خواہوں) کی رقم تباہ کرے اور آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں کا مال (بکور قرض) تلف کرنے (یعنی نہ دینے ) کی نیت سے لے تو اللہ اس کو برباد کردے گا البتہ اگر صبر اور تکلیف اٹھانے میں مشہور ہو تو اپنی خاص حاجت پر (فقیر کی حاجت کو) مقدم رکھ سکتا ہے حیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال خیرات میں دے دیا اور اسی طرح انصار نے اپنی ضرورت پر مہاجرین کی ضروریات کو مقدم کیا اور آنحضرتﷺ نے ملا کو تباہ کرنے سے منع فرمایا ہے تو جب اپنا مال تباہ کرنا منع ہوا تو پرائے لوگوں کا مال تباہ کرنا کسی طرح جائز نہ ہوگ اور کعب بن مالک نے (جو جنگ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے) عرض کیا یارسو ل اللہﷺ ! میں اپنی توبہ کو اس طرح پورا کرتا ہوں کہ اپنا سارا مال اللہ اور رسول پر تصدق کردون آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں کچھ تھوڑا مال رہنے بھی دے وہ تیرے حق میں بہتر ہے کعبؓ نے کہا خوب میں اپنا خیبر کا حصہ رہنے دیتا ہوں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں احادیث نبوی اور آثار صحابہ کی روشنی میں بہت سے اہم امور متعلق صدقہ خیرات پر روشن ڈالی ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اسنا کے لئے صدقہ خیرات کرنا اسی وقت بہتر ہے جبکہ وہ شرعی حدود کو مد نظر رکھے اگر ایک شخص کے اہل و عیال خود ہی محتاج ہیں یا وہ خود دوسروں کا مقروض ہے پھر ان حالات میں بھی وہ صدقہ کرے اور نہ اہل و عیال کا خیال رکھے نہ دوسروں کا قرض ادا کرے تو وہ خیرات اس کے لئے باعت اجر نہ ہوگی بلکہ وہ ایک طرح سے دوسروں کی حق تلقی کرنا اور جن کو دینا ضروری تھا ان کی رقم کو تلف کرنا ہوگا ارشاد نبوی [/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]من اخذ اموال الناس یرید اتلافہا[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot] کا یہی منشا ہے ہاں صبر اور ایثار الگ چیز ہے اگر کوئی حضرت ابو بکر صدیقؓ[/FONT][FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot]جیسا صابر وشاکر مسلمان ہو اور انصار جیسا ایثار پیشہ ہو تو اس کے لئے زیادہ سے زیادہ ایثا [/FONT][FONT=&quot]ر[/FONT][FONT=&quot]پیش کرنا جائز ہوگا مگر آجکل ایسی مثالیں تلاش کرنا بے کار ہے جبکہ آج کل ایسے اشخاص ناپیدہوچکے ہیں۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]حضرت کعب بن مالکؓ وہ بزرگ ترین جلیل القدر صحابی ہیں جو جنگ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے بعد میں ان کو جب اپنی غلطی کا احساس ہو ا تو انہوں نے اپنی توبہ کی قبولیت کے لئے اپنا سار مال فی سبیل اللہ دے دینے کا خیال ظاہر کیا آنحضرتﷺ نے سارے مال کو فی سبیل اللہ دینے سے منع فرمایا تو انہوں نے اپنی جائدا د خیبر کو بچا لیا باقی خیرات کر دیا اس سے بھی اندازہ لگانا چاہیے کہ قرآن وحدیث کی یہ غرض ہرگز نہیں کہ کوئی دنیا سے جائے ایسا ہرگز نہ ہونا چاہیے کہ یہ وارثین کی حق تلفی ہوگی امیرا لمومنین فی الحدیث سیدنا حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کایہی منشاء باب ہے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]([/FONT][FONT=&quot]۳۰[/FONT][FONT=&quot])[/FONT][FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot]ہم سے عبدان نے بیان کیا کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی انہیں یونس نے انہیں زہری نے انہوں نے کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی انہوں نے ابو ہریرہؓ سے سنا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا بہترین خیرات وہ ہے جس کے دینے کے بعد آدمی مالدار رہے پھر صدقہ پہلے انہیں دو جو تمہاری زیر پرورش ہیں ۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot](اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ اپنے عزیز و اقرباء و جملہ متعلقین اگر ہ مستحق ہیں تو صدقہ خیرات زکوۃ میں سب سے پہلے ان ہی کا حق ہے ۔ اس لئے ایسے صدقہ کرنے والوں کو دو گنے ثواب کی بشارت دی گئی ہے)[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]([/FONT][FONT=&quot]۳۱[/FONT][FONT=&quot])[/FONT][FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot]ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے بیان کیا ان سے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے انہیں دو جو تمہارے بال بچے اور عزیز ہیں اور بہتری صدقہ وہ ہے جسے دے کر آدمی مالدار رہے اور جو کوئی سوال سے بچتارہے گا اسے اللہ تعالی بھی محفوظ رکھتا ہے اور جو دوسروں (کے مال) سے بے نیاز رہتا ہے اسے اللہ تعالی بے نیاز ہی بنا دیتا ہے اور وہیب نے بیان کا کہا کہ ہم سے ہشام نے اپنے والد سے بیان کیا ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریمﷺ نے ایسا ہی بیان فرمایا ۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]([/FONT][FONT=&quot]۳۲[/FONT][FONT=&quot])[/FONT][FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot]ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ان سے ایوب نے ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمرؓ نے کہ میں نے نبی کریمﷺ سے سنا (دوسری سند) اور ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ان سے مالک نے ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبکہ آپ منبر پر تشریف رکھتے تھے آپ نے صدقہ اور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے کا اور دوسروں سے مانگنے کا ذکرفرمایا اور فرمایا کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے کا ہاتھ مانگنے کا۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]تشریح[/FONT][FONT=&quot] [/FONT][FONT=&quot][/FONT] [FONT=&quot]حضرت امام بخاری نے باب منعقدہ کے تحت ان احادیث کو لا کر یہ ثابت فرمایا کہ ہر مرد مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ صاحب دولت بن کر اور دولت میں سے اسللہ کا حق زکوۃ ادا کرکے ایسارہنے کی کوشش کرے کہ اس کا ہاتھ ہمیشہ اوپر کا ہاتھ رہے اور تازیست نیچے والا نہ بنے یعنی دینے والا بن کر رہے نہ کہ لینے والا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا حدیث میں اس کی بھی ترغیب ہے کہ احتیاج کے باوجود بھی لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا چاہیے بلکہ صبرو استقلال سے کام لے کر اپنے توکل علی اللہ اور خود اداری کو قائم رکھتے ہوئے اپنی قوت بازو کی محنت پرگزارہ کرنا چاہیے۔[/FONT][FONT=&quot][/FONT]
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دلانا اور اس کے لئے کرنے کی سفارش

(۳۴) ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عدی بن ثابت نے بیان کیا ان سے سعید بن جبیر نے ان سے ابن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ عید کے دن نکلے پس آپﷺ نے (عیدگاہ میں) دو رکعت نماز پڑھائی نہ آپ نے اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اورن ہ اس کے بعد پھرآپﷺ عورتوں کی طرف آئے ۔ بلال رضی اللہ عنہ آپﷺ کے ساتھ تھے۔ انہیں آپﷺ نے وعظ و نصیحت کی اور ان کو صدقہ کے لئے حکم فرمایا ۔ چنانچہ عورتیں کنگن اور بالیاں (بلالؓ کے کپڑے میں) ڈالنے لگیں۔ (باب کی مطابقت ظاہر ہے کیونکہ آنحضرتﷺ نے عورتوں کو خیرات کرنے کے لئے رغبت دلائی اس سے صدقہ اور خیرات کی اہمیت پر بھی اشارہ ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ صدقہ اللہ پاک کے غضب ارو غصہ کو بجھا دیتا ہے ۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ انفاق فی سبیل للہ کے لئے ترغیبات موجود ہیں فی سبیل اللہ کا مفہوم بہت عام ہے۔
(۳۵) ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابو بردہ بن عبداللہ بن ابی بردہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابو بردہ بن ابی موسی نے بیان کیا اور ان سے ان کے باپ موسی نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ کے پاس اگر کوئی مانگنے والا آتا یا آپﷺ کے سامنے کوئی حاجت پیش کی جاتی تو آپﷺ صحابہ کرامؓ سے فرماتے کہ تم سفارش کرو کہ اس کا ثواب پاؤ گے ۔ اور اللہ پاک اپنے نبی کی زبان سے جو فیصلہ چاہے گا وہ دے گا (معلوم ہوا کہ حاجتمندوں کی حاجت اور غرض پور ی کر دینا یا ان کے لئے سعی کر دینا بڑا ثواب ہے اسی لئے آنحضرت ﷺ کو سفارش کرنے کی رغبت دٖلاتے ہوئے فرماتے کہ اگرچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ تمہاری سفارش ضرور قابل قبول ہو جائے ۔ ہوگا وہی جو اللہ کو منظور ہے مگر تم کو سفارش کا ثواب ضرور مل جائے گا)
(۳۶) ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا کہا کہ ہمیں عبدہ نے ہشام سے خبر دی انہیں ان کی بیوی فاطمہ بنت منذر نے اور ان سے اسماء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ خیرات کو مت روک ورنہ تیرا رزق بھی روک دیا جائے گا۔
(۳۷) ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیا کیا اور ان سے عبدہ نے یہ حدیث روایت کی کہ گننے نہ لگ جانا ورنہ پھر اللہ بھی تجھے گن گن کر ہی دے گا (مقصد صدقہ کیلئے رغبت دلانا اور بخل سے نفرت دلانا ہے یہ مقصد بھی نہیں ہے کہ سارا گھر لٹا کر کنگال بن جاؤ ۔ یہاں تک فرمایا کہ تم اپنے ورثاء کو غنی چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاٹھ نہ پھیلاتے پھریں ۔ لیکن بعض اشخاص کے لئے کچھ استثناء بھی ہوتا ہے جیسے سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا تمام ہی اثاثہ فی سبیل اللہ پیش کر دیا تھا ارو کہا تھا کہ گھر میں صرف اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں ۔ باقی سب کچھ لے آیا ۔ یہ صدیق اکبرؓ جیسے متوکل اعظم ہی کی شان ہو سکتی ہے ہر کسی کا یہ مقام نہیں ۔ بہر حال اپنی طاقت کے اندر اندر صدقہ خیرات کرنا بہت ہی موجب برکات ہے دوسرا باب اس مضمون کی وضاحت کر رہا ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب جہاں تک ہو سکے خیرات کرنا۔
(۳۸)ہم سے ابو عاصم (ضحاک) نے بیان کیا ۔ اور ان سے ابن جریج نے ۔ (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ان سے حجاج بن محمد نے اور ان سے ابن جریج نے بیان کیا کہ مجھے ابن ابی ملیکہ نے خبر دی انہیں عباد بن عبداللہ بن زبیر نے اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما سے خبر دی کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ہاں آئیں ۔ آپ نے فرمایا کہ (ما ل کو) تھیلی میں بند کرکے نہ رکھنا ورنہ اللہ پاک بھی تمہارے لئے اپنے خزانے میں بندش لگا دے گا۔ جہاں تک ہو سکے لوگوں میں خیر خیرات تقسیم کرتی رہ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب صدقہ خیرات سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں

(۳۹) ہم سے قتیبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے جریر نے اعمش سے بیان کیا ان سے ابو وائل نے ۔ انہوں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی حدیث آپ لوگو ں میں کس کو یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا میں اسی طرح یاد رکھتا ہوں جس طرح آنحضورﷺ نے اس کو بیان فرمایا تھا اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تمہیں اس کے بیان کی جرات ہے اچھا تو آنحضرتﷺ نے فتنوں کے بارے میں کیا فرمایا تھا ۔میں نے کہا کہ (آپﷺ نے فرمایا تھا) اسنان کی آزمائش (فتنہ) اس کے خاندان اولاد اور پڑوسیوں میں ہوتی ہے اور نماز صدقہ اور اچھی باتوں کے لئے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے منع کرنا اس فتنے کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ اعمش نے کہا کہ ابو وائل کبھی یوں کہتے تھے ۔ نماز اور صدقہ اور اچھی باتوں کا حکم دینا بری بات سے روکنا یہ اس فتنے کو مٹا دینے والے نیک کام ہیں پھر اس فتنے کے متعلق عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میری مراد اس فتنہ سے نہیں ہے میں اس فتنے کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا پھیلے گا حذیفہؓ نے بیان کیا میں نے کہا کہ امیر المومنین ! آپ اس فتنے کی فکر نہ کیجئے آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا (صرف) کھولا جائے گا انہو ں نے بتلایا کہ میں نے کہا نہیں بلکہ وہ دروزاہ توڑ دیا جائے گا اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا تو پھر کبھی بھی بند نہ ہو سکے گا ۔ ابو وائل نے کہا ہاں پھر ہم رعت کی وجہ سے حذیفہؓ سے یہ نہ پوچھ سکے کہ وہ دروازہ کون ہے؟ اس لئے ہم سے مسردق سے کہا تم پوچھو ۔ انہوں نے کہا کہ مسردق رحمتہ علیہ نے پوچھا تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دروازہ سے مراد خود حضرت عمرؓ ہی تھے۔ ہم نے پھر پوچھا تو کیا عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ آپ کی مراد کن سے تھی ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں جیسے دن کے بعد رات کے آنے کو جانتے ہیں ۔ اور یہ اس لئے کہ میں جو حدیث بیان کی وہ غلط نہیں تھی۔
تشریح
حضرت عمرؓ نے حضرت حذیفہؓ کے بیان کی تعریف کی کیونکہ وہ اکثر آنحضرت ﷺ سے فتنوں اور فسادوں کے بارے میں جو آپﷺ کے بعد ہونے والے تھے پوچھتے رہا کرتے تھے جبکہ دوسرے لوگوں کو اتنی جرات نہ ہوتی تھی ۔ اسی لئے حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ بے شک تو دل کھول کر ان کو بیان کرے گا کیونکہ تو ان کو خوب جانتا ہے ۔ اس حدیث کو حضرت امام بخاری یہاں یہ ثابت کرنے کے لئے لائے کہ صدقہ گناہوں کا کفار ہ ہو جاتا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب اس بارے میں کہ جس نے شرک کی حالت میں صدقہ دیا اور پھر اسلام لے آیا

(۴۰) ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا کہا کہ ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی انہیں عروہ نے اور ان سے حکمی بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ ! ان نیک کاموں سے متعلق آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں جنہیں میں جاہلیت کے زمانہ میں صدقہ غلام آزاد کرنے اور صلہ رحمی کی صورت میں کیا کرتا تھا ۔ کیا ان کا مجھے ثواب ملے گا؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تم اپنی ان تمام نیکیوں کے ساتھ اسلام لائے ہو جو پہلے گزر چکی ہیں۔
تشریح
امام بخاری نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر کافر مسلمان ہو جائے تو کفر کے زمانہ کی نیکیوں کا بھی ثواب ملے گا یہ اللہ پاک کی عنایت ہے اس میں کسی کا کیا اجارہ ہے بادشاہ حقیقی کے پیغمبر ﷺ نے جو کچھ فرمادیا وہی قانون ہے اس سے زیادہ صراحت دار قطنی کی روایت میں ہے کہ جب کافر اسلام لاتا ہے اور اچھی طرح مسلمان ہو جاتا ہے تو اس کی ہر نیکی جو اس نے اسلام سے پہلے کی تھی لکھ لی جاتی ہے اور ہر برائی جو اسلام سے پہلے کی تھی ما دی جاتی ہے اس کے بعد ہر نیک کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک ملتا رہتا ہے اور ہر برائی کے بدلے ایک برائی لکھی جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ اللہ پاس اسے بھی معاف کردے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب خادم نوکر کا ثواب جب وہ مالک کے حکم کے مطابق خیرات دے اور کوئی بگاڑ کی نیت نہ ہو

(۴۲) ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہا کہ ہم سے جریر نے اعمش سے بیان کیا ان سے اوب وائل ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب بیوی اپنے خاوند کے کھانے میں سے کچھ صدقہ کرے اور اس کی نیت اسے برباد کرنے کی نہیں ہوتی تو اسے بھی اس کا ثواب ملتا ہے اور اس کے خاوند کو کمانے کا ثواب ملتا ہے اسی طرح خزانچی کو بھی اس کا ثواب ملتا ہے۔
تشریح
یعنی بیوی کی خاوندے کے مال کو بیکار تباہ کرنے کی نیت نہ ہو تو اس کو بھی ثواب ملے گا خادم کے لئے بھی یہی حکم ہے مگر بیوی اور خدمتگ ار میں فرق ہے بیوی بغیر خاوند کی اجازت کے اس کے مال میں خیرات کر سکتی ہے لیکن خدمت گار ایسا نہیں کر سکتا اکثر علماء کے نزدیک بیوی کو بھی ا س وقت تک خاوند کے مال میں سے خیرات درست نہیں جب تک اجما لایا تفصیلا اس نے احازت نہ دی ہو اور امام بخاری کے نزدیک بھی یہ محتار ہے بعضوں نے کہا کہ یہ عرف اور دستور پر موقوف ہے یعنی بیوی پکار ہوا کھانا وغیرہ تھوڑی چیزیں جن کے دینے سے کوئی ناراض نہیں ہوتا خیرات کر سکتی ہے گو خاوند کی اجازت نہ ملے۔
(۴۳) ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا ان سے برید بن عبداللہ نے ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابو موسی رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا خازن مسلمان امانتدار جو کچھ بھی خرچ کرتا ہے اور بعض دفعہ فرمایا وہ چیز پور طرح دیتا ہے جس کا اسے سرمایہ کے مالک کی طرف سے حکم دیا گیا اور اس کا دل بھی اس سے خوش ہے اور اسی کو دیتا ہے جسے دینے کے لئے مالک نے کہا تھا تو وہ دینے والا بھی صدقہ دینے والوں میں سے ایک ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
باب عورت کا ثواب جب وہ اپنے شوہر کی چیز میں سے صدقہ دے یا کسی کو کھلائے اورارادہ گھر بگاڑنے کا نہ ہو

(۴۴) ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی کہا کہ ہم سے منصور بن معمر اور اعمش دونوں نے بیان کیا ان سے ابو وائل نے ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کے حوالہ سے کہ جب کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر (کے مال) سے صدقہ کرے (دوسری سند) امام بخاری نے کہا اور مجھ سے عمر بن حفص نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے میرے باپ حفص بن عیاث نے بیان کیا کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ان سے ابو وائل شقیق نے ان سے مسروق اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب بیوی اپنے شوہر کے مال میں سے کسی کو کھلائے اور اس کا ارادہ گھر بگاڑنے کا نہ ہو تو اسے اس کا ثواب ملتا ہے ۔ اور شوہر کو بھی ویسا ہی ثواب ملتا ہے اور خزانچی کو بھی ویسا ہی ثواب ملتا ہے شوہر کو کمانے کی وجہ سے ثواب ملتا ہے اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے۔
تشریح
حضرت امام بخاری نے اس حدیث کو تین طریقوں سے بیان کیا اور یہ تکرار نہیں ہے کیونکہ ہر ایک باب کے الفاظ جدا ہیں کسی میں اذال تصدقت المراۃ ہے کسی میں اذال اطعمت المراۃ ہے کسی میں من بیت زوجہا ہے کسی میں من کعام بیتۃا ہے اور ظاہر حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ نیتوں کو برابر برابر ثواب ملے گا ۔ دوسری روایت میں ہے ہ عورت کو مرد کا آدھا ثواب ملے گا۔ قسطلانی نے کہا کہ داروغہ کو بھی ثواب ملے گا مگر مالک کی طرح اس کو دوگنا ثواب نہ ہوگا ۔ (وحیدی)
(۴۵) ہم سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے منصور سے بیان کیا ان سے ابو وائل شقیق نے ان سے مسروق نے اور ان سے حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا جب عورت اپنے گھر کے کھانے کی چیز سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور اس کا ارادہ گھر بگاڑنے کا نہ ہو تو اسے اس کا ثواب ملے گا ارو شوہر کو کمانے کا ثواب ملے گا ۔ اسی طرح خزانچی کو بھی ایسا ہی ثواب ملے گا۔
تشریح
عورت کا خرچ کرنا اس شرط کے ساتھ ہے کہ اس کی نیت گھر برباد کرنے کی نہ ہو ۔ بعض دفعہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خاوند کی اجازت حاصل کرے مگر معمولی کھانے پینے کی چیزوں میں ہر وقت اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں خازن یا خادم کے لئے بغیر اجازت کوئی پیسہ اس طرح خرچ کر دینا جائز نہیں ہے جب بیوی اور خادم بایں طور خرچ کریں گے تو اصل مالک یعنی خاوند کے ساتھ وہ بھی ثواب میں شریک ہوں گے اگرچہ ان کے ثواب کی حیثیت الگ الگ ہوگی ۔ حدیث کا مقصد بھی سب کے ثواب کو برابر قرار دینا نہیں ہے۔
باب (سورہ والیل میں) اللہ تعالی نے فرمایا کہ جس نے (اللہ کے راستے میں) دیا اور اس کا خوف اختیار کیا اور اچھائیوں کی (یعنی اسلام کی) تصدیق کی تو ہم اس کے لئے آسانی کی جگہ یعنی جنت آسان کر دیں گے لیکن جس نے بخل کیا اور بے پروائی برتی اور اچھائیوں (یعنی اسلام کو) کو جھٹلایا تو اسے ہم دشواریوں میں (یعنی دوزخ میں) پھنسا دیں گے ارو فرشتوں کی اس دعا کیا بیان کہ اے اللہ! مال خرچ کرنے والے کو اس کا اچھا بدلہ عطا فرما۔
(۴۶) ہم سے اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے مبرے بھائی ابو بکر بن ابی اویس نے بیان کیا ان سے سلیمان بن ہلال نے ان سے معاویہ بن ابی مزر د نے ان سے ابو الحباب سعید بن یسار نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! ممسک اور بخیل کے مال کو تلف کردے۔
(ابن ابی حاتم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے۔ تب اللہ پاک نے یہ آیت اتاری فاما من اعطی و اتقی آخر تک اور اس روایت سے باب میں اس آیت کے ذکرکرنے کی وجہ معلو م ہوگئی)
 
Top