• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کدھر سے آیا کدھر گیا وہ! حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ پر ایک تاثراتی تحریر

شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
تحریر: جناب رانا شفیق خاں پسروری

گئے دنوں کا سراغ لے کر‘ کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب دل والا رہبر تھا‘ مجھے تو حیراں کر گیا وہ
بس اِک موتی سی چھب دکھا کر‘ بس اک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارہ شام بن کے آیا‘ برنگ خواب سحر گیا وہ
خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم‘ نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہ جاں‘ میرے تو دل میں اتر گیا وہ
وہ میکدے کو جگانے والا‘ وہ رات کی نیند اڑانے والا
یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ

جب میرے یہاں گلشن تھا‘ بہار نہ تھی‘ وہ شخص بہار بن کر آیا‘ جب دلوں کی قطاریں تھیں مگر کوئی دلدار نہ تھا‘ وہ دلدار بن کے آیا۔ جب راہوں کی گتھیاں الجھی تھیں‘ راہی تھے پریشان سارے‘ وہ رہنما بن کے آیا‘ اژدھام تھا سروں کا‘ بے پروا‘ بے بہرہ تو وہ قائد شاہین نگاہ بن کے آیا … دیوار تھی اک اونچی مگر سایہ نہ تھا وہ سایہ بن کے آیا‘ اندھیرا چہار جانب تھا‘ جگنو خود اندھے ہو گئے تھے کہ وہ دیا بن کے آیا‘ اپنی کرنوں کو لہرایا اور سورج مقام ہو گیا۔

وہ ہمہ صفت آدمی اور ہر صفت میں کامل آدمی‘ برنگ ظاہر سب سا‘ مگر بہت ہی افضل آدمی‘ تحریر میں یکتا‘ تقریر میں اعلیٰ‘ لیاقت میں منفرد‘ ذہانت میں اولیٰ‘ سیاست میں برتر‘ قیادت میں عظیم‘ شریف النفس‘ تجارت میں کریم … باس عظمت والا‘ باپ کرامت والا‘ علم وفضل میں رفعت والا‘ تعلیم وتجزیہ میں شوکت والا … راہ جس کی ہدایت‘ قدم جس کا بصیرت‘ درایت وبداعیت جس کی سرشت‘ ذہانت وفطانت جس کی جبلت‘ جرأت وشجاعت جس کی فطرت‘ امامت وعدالت جس کی سیاست‘ صداقت وحقیقت جس کی قیادت‘ امانت ودیانت جس کی سیادت اور افضلیت واشرفیت جس کی عزت تھی۔

ریت ہی ریت بکھری تھی جس میں پھول کھلائے اس نے‘ تاریک شب تھی ہمارے گھر میں‘ چراغ جلائے اس نے‘ بزدلوں کو جینے کا طور سکھایا‘ مردہ دلوں کو زندگی سے آشنا کیا‘ سر نیہورائے لوگوں کے سینے تان دیئے‘ پست ہمت اٹھے اک نئی شان لیے‘ وہ جیا تو سر اٹھا کے جیا‘ سینہ تان کر جیا‘ باطل کو للکارتا ہوا جیا‘ غیر حق پر گرجتا ہوا جیا‘ آمریت پر برستا ہوا جیا کہ نظر نورانی اس کی ہمرکاب تھی اور فکر برھانی اس کا زاد راہ۔

وہ آئینہ صفت تھا‘ اک صاف آئینہ‘ خامیوں سے قدرے پاک آئینہ‘ مصفا آئینہ‘ جو بطلیت پرستوں کے چہرے کے داغ انہیں دکھاتا تھا۔ ظالموں کے چہرے کی بدنمائی واضح کرتا تھا‘ جابروں کے رخ پر لگے دھبے ان کے سامنے کرتا تھا … ان باطل پرستوں‘ ظالموں‘ جابروں اور آمروں نے اپنے چہرے کے داغ دور نہ کیے‘ اسی آئینے کو توڑنے کی سازش کی اور اسے توڑ دیا … مگر وہ تو آئینہ تھا‘ چہروں کی بدنمائی دکھانا اس کا کام تھا‘ پہلے اک وجود تھا اک بدنما چہرہ نظر آتا تھا‘ اب آئینہ ٹوٹ گیا اور اس کی کئی کرچیاں ہو گئیں۔ پہلے اک چہرہ نظر آتا تھا اب ہر کرچی سے بدنما چہرہ نظر آئے گا‘ پہلے اک قائد شاہین نگاہ تھا اب اس کے ہمراہی‘ اس کے مقیود ہیں‘ جو گلی وکوچہ میں اس کا کام کریں گے‘ ہر سمت اس کی للکار کی بازگشت ہو گی‘ اس کی یلغار کی دہشت ہو گی۔ (ان شاء اللہ)

وہ اک چقماق تھا‘ چراغ سے چراغ جلاتا گیا‘ تاریکیوں کو ضیاء دیتا گیا‘ ہر دور کے ہاتھوں کو حنا دیتا گیا‘ ہر دور کے جابروں کو للکارتا رہا‘ ساکت دلوں کو دھڑکن‘ بے زبانوں کو نوا دیتا گیا‘ کجلاھوں کی رعونت کا مذاق اڑاتا رہا‘ حکمرانوں کے گریبانوں سے کھیلنے کی ادا دیتا رہا۔ اس نے حالات کے ہاتھوں کبھی شکست قبول نہ کی‘ وہ حالات کو خود بدلتا رہا‘ خود حالات کے مطابق نہ بدلا‘ سلطانئ جمہور کا نقیب تھا‘ انسانی حقوق کا منادی تھا‘ حکمرانوں کو ٹوکنے کا خوگر‘ برائی سے روکنے کا عادی تھا‘ وقت کی نزاکت نہ دیکھتا تھا‘ کلمۃ اللہ بلند کر کے رہتا‘ نباض وقت تھا‘ موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا‘ کام سوئے چند کر کے رہتا‘ مصلحت کوش نہ تھا کہ حق کو چھپائے‘ ضمیر فروش نہ تھا‘ تبھی انگنت دشمن بنائے۔ سلطان جائر کے مقابل کلمۃ حق کہنا اس کا شیوہ تھا‘ جھوٹی قصیدہ گوئی سے متنفر تھا‘ مصداق تھا شاعر کے اس کلام کا کہ


مکمل مضمون
http://www.ahlehadith.org/kidhar-sy-aya-kidhar-gia-wo
 
Top