• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کردار کے غازیوں کی گفتار

یہ تھریڈ جاری رہنا چاہیے؟

  • ہاں

    ووٹ: 4 100.0%
  • نہیں

    ووٹ: 0 0.0%
  • انداز مناسب نہیں

    ووٹ: 0 0.0%

  • Total voters
    4
  • Poll closed .

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225
خضر حیات
بھایئ اس سلسلے کو جاری رکھیں بہت مفید ہے جزاک اللہ
 

ابو حسن

رکن
شمولیت
اپریل 09، 2018
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
90
فتح فلسطین پر عمر رضی اللہ عنہ کا تاریخی جملہ
سن 15 ہجری میں نبی کریم ﷺ کی پیشنگوئی پوری ہوگئی۔ مسلمان فلسطین میں داخل ہوگئے اور وہاں کے لوگوں نے کہا کہ ہم بیت المقدس کی چابیاں خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور کسی کو نہ دینگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صفات بھی ہماری کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔
پھر ایک تاریخی سفر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ سے شام چلے گئے۔ بڑی عزت سے بیت المقدس کی چابیاں وصول کیں۔ اور ایسی تاریخ رقم کی کہ جسے نور کی روشنائی سے لکھنا چاہیے

آپ المکبر پہاڑی پر چڑھے، سارے
بیت المقدس کو دیکھا، اللہ اکبر کی آواز بلند کی اور ساتھ مسلمانوں نے بھی اللہ اکبر اللہ اکبر کی آوازیں بلند کرنا شروع کر دیں۔ پھر آپ نے اپنا وہ مشہور جملہ بولا

نحن قومٌ أعزَّنَا الله بالإسلام، فمهمَا ابتغَيتُم العِزَّةَ بغيرِه أذلَّكُم الله

ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ تعالی نے اسلام کے ذریعے عزت عطا فرمائی ہے،
اسے چھوڑ کر ہم جس چیز میں بھی عزت تلاش کریں گے اللہ ہمیں رسوا ہی کرے گا

اسلام کی عزت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیت المقدس میں داخل ہوئے اور یہ عظیم جملہ بولتے ہوئے اسے فتح کیا

آپ نے
مسجد اقصیٰ میں قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کی، پھر اس پتھر کے متعلق پوچھا جس سے براق کو باندھا گیا تھا۔ وہ پتھر گندگی اور کوڑے کے ڈھیر کے نیچے آ چکا تھا۔ آپ نے اپنی چادر سے گندگی ہٹانا شروع کی اور پھر لوگوں نے بھی مدد کرنا شروع کر دی یہاں تک کہ ساری جگہ بالکل پاک ہو گئی۔

پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اہل علاقہ کے لیے سلامتی اور حفاظت کا معاہدہ لکھا، تمام مذاہب کے لوگوں کے حقوق محفوظ کیے۔ کسی کو اپنی عبادت کرنے سے نہیں روکا، کسی راہب کی عبادت گاہ نہ توڑی یہاں تک کہ دین کے نام پر اگر کوئی دیوار بھی بنی تھی تو اسے بھی نہ چھیڑا۔ نہ کسی رہائشی کو اپنے گھر سے نکالا، نہ کسی کا گھر گرایا، نہ کسی کی عبادت گاہ توڑی اور نہ کسی کی رہائش گاہ کو خراب کیا۔
 
Last edited:

محمد شاہد

سینئر رکن
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
2,510
ری ایکشن اسکور
6,023
پوائنٹ
447
ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﻣﺎﺷﺎﺀ ﺍﻟﻠﻪ۔
ﺧﻀﺮ ﺣﯿﺎﺕ
ﺑﮭﺎﯾﺊ ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﮐﻮ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﻔﯿﺪ ﮨﮯ ﺟﺰﺍﮎ ﺍﻟﻠﮧ خیرا
 

ابو حسن

رکن
شمولیت
اپریل 09، 2018
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
90

معرکۃ بدر کے تاریخی جملے جنکو سن کر سیدالاولین و الاخرین ﷺ سرشار ہوگئے

ادھر کفار مکہ اسلحہ سے لیس اپنے 1000 جنگجو لیے بدر میں آن پہنچے ادھر سیدالاولین و الاخرین ﷺ کے ساتھ وہ جانباز تھے کہ جن پر اللہ تعالی نے سکینت نازل فرمائی اور جنکی مدد کیلئے جبرائیل علیہ السلام1000 فرشتوں کا لشکر لیے پہنچ گئے


جب کفار کے لشکر کی خبر سیدالاولین و الاخرین ﷺ کو ہوئی تو آپ نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے شوریٰ کا اجلاس طلب کیا اور قائدین نے بہت عمدہ الفاظ کہے جن سرفہرست سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور پھر سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور وہ الفاظ کہے کہ ایک حرف مبارک و متبرک تھا ( اللہ تعالی انکو اپنے ہاں سے بہتر بدلہ عطا فرمائے کہ جنکے جملے سن کر سیدالاولین و الاخرین ﷺ سرشار ہوگئے)

وقال المقداد: لا نقول لك كما قال قوم موسى لموسى: فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ، ولكننا نقاتل عن يمينك وعن شمالك، ومن بين يديك ومن خلفك

حضرت مقداد نے عرض کیا:

” ہم موسیٰ کی امت کی طرح نہیں کہیں گے کہ جنہوں نے موسیٰ سے کہا کہ سو تو اور تیرا رب جائے اور تم دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھیں ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں ، آگے پیچھے آپ کے ساتھ لڑیں گے“


آپ ﷺ اس بات سے خوش ہوگئے اور آپ ﷺ نے ان کے حق میں کلمہ خیر ارشاد فرمایا اور دعا دی


وقفہ، وقفہ کے بعد تین چار مرتبہ صحابہ سے فرمایا : اَشِیْرُوْا عَلیٰ ہٰذَا اَیُّہَا النَّاس لوگو مجھے مشورہ دو


آپ ﷺ کا مطمع نظریہ تھا کہ انصار کے نمائندے اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔ جس کی مؤرخین نے یہ توجیہ بیان کی ہے کہ بیعت عقبہ کے موقع پر یہ بات طے پائی تھی کہ آپ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ آئیں اگر کوئی آپ ﷺ پر حملہ آور ہوا تو انصار اس کا دفاع کریں گے۔ اس لیے آپ ﷺ نے مناسب جانا کہ انصار بھی اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ جونہی انصار نے آپ ﷺ کا نقطہ نظر جانا تو وہ تڑپ گئے۔

ان کے نمائندے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ( اللہ تعالی انکو اپنے ہاں سے بہتر بدلہ عطا فرمائے کہ جنکے جملے سن کر سیدالاولین و الاخرین ﷺ سرشار ہوگئے) نے اٹھ کر عرض کی کہ

بخدا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ ﷺ کا رُوئے سخن ہماری طرف ہے۔

آپﷺ نے فرمایا ہاں۔ انہوں نے کہا! "ہم تو آپﷺ پر ایمان لے کر آئے ہیں ، آپ ﷺ کی تصدیق کی ہے اور یہ گواہی دی ہے کہ آپﷺ جو کچھ لے کر آئے ہیں سب حق ہے اور اس پر ہم نے آپﷺ کو اپنی سمع و طاعت کا عہد و میثاق دیا ہے۔

لہذا اے اللہ کے رسولﷺ! آپ ﷺ کا جو ارادہ ہے ا س کے لیے پیش قدمی فرمائیے۔

اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر آپﷺ ہمیں ساتھ لے کر اس سمندر میں کُودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی آپﷺ کے ساتھ کُود پڑیں گے ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا۔

ہمیں قطعا کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ کل آپ ﷺ ہمارے ساتھ دشمن سے ٹکرا جائیں۔ ہم جنگ میں پامرد اور لڑنے میں جوانمرد ہیں اور ممکن ہے اللہ آپﷺ کو ہمارا وہ جوہر دکھلائے جس سے آپﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں۔ پس آپ ﷺ ہمیں ہمراہ لے کر چلیں۔ اللہ برکت دے۔"

ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ غالباً آپﷺ کو اندیشہ ہے کہ انصار اپنا یہ فرض سمجھتے ہیں کہ وہ آپﷺ کی مدد محض اپنے دیار میں کریں اس لیے میں انصار کی طرف سے بول رہا ہوں اور ان کی طرف سے جواب دے رہا ہوں عرض ہے کہ آپﷺ جہاں چاہیں تشریف لے چلیں جس سے چاہیں تعلق استوار کریں اور جس سے چاہیں تعلق کاٹ لیں۔

ہمارے مال میں سے جو چاہیں لے لیں اور جو چاہیں دے دیں۔ اور جو آپﷺ لے لیں گے وہ ہمارے نزدیک اس سے زیادہ پسندیدہ ہو گا جسے آپﷺ چھوڑ دیں گے۔ اور اس معاملے میں آپ ﷺ کا جو بھی فیصلہ ہو گا ہمارا فیصلہ بہرحال اس کے تابع ہو گا۔ خدا کی قسم اگر آپ ﷺ ہمیں لے کر اس سمندر میں کُودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی کُود جائیں گے۔

فأشرق وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم بما سمع، وقال: سيروا وأبْشِروا، فإن الله قد وعدني إحدى الطائفتين، وإني قد رأيت مصارع القوم

حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کر رسول اللہﷺ پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ آپ ﷺ پر نشاط طاری ہو گئی۔ آپﷺ نے فرمایا "چلو اور خوشی خوشی چلو۔ اللہ نے مجھ سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا ہے۔ واللہ اس وقت گویا میں قوم کی قتل گاہیں دیکھ رہا ہوں"

 

ابو حسن

رکن
شمولیت
اپریل 09، 2018
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
90

معرکۃ خیبر کا تاریخی جملہ "میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام "



سیدالاولین و الاخرین ﷺ اپنے جانثاروں کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے تھے اور یہاں حق و باطل کا سامنا تھا خیبر کا سردار مرحب بھی تیاری کا ساتھ نکلا ، لڑائی کا ماہر جسامت میں بھی اچھے خاصے جثہ کا مالک اور اسے اپنی بہادری و لڑائی کا ماہر ہونے پر کافی غرور بھی تھا اور پھر اس نے رجزیہ اشعار اور دعوت مبازرت کہنا شروع کی

وَخَرَجَ مَرْحَبٌ فَقَالَ قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاکِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ

خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ سے مسلح، بہادر تجربہ کار ہوں جب جنگ کی آگ بھڑکنے لگتی ہے

اور پھر سابقون الاولون میں سے وہ نکلے جن کے دو بیٹے جنت کے نوجوانوں کے سردار اور جنکی اہلیہ کو جنت کی عورتوں کی سرداری کا شرف حاصل ہے ، انکے اپنے بہت سے فضائل و مناقب ہیں جنکی یہاں پر تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں بلکہ اتنا ہی کافی ہے اب اس جملے اور انکی لڑائی کی طرف آتا ہوں جو خون مسلم کو گرما دے اور ہمیں خبر رہے کہ ہم " ایروں غیروں " کے نقشہ قدم پر چلنے والے نہیں بلکہ ہم ان اسلاف کی پیروی کرنے والے جو آپس میں رحمدل اور کفار کیلئے شدت اور غیض و غضب والے تھے

اور پھر اس للکار کا جواب دینے والے نے اپنی آواز بلند کی اور کہا

فَقَالَ عَلِيٌّ أَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهْ کَلَيْثِ غَابَاتٍ کَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ أُوفِيهِمُ بِالصَّاعِ کَيْلَ السَّنْدَرَهْ


تو پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی جواب میں کہا کہ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے اس شیر کی طرح جو جنگلوں میں ڈراؤ نی صورت ہوتا ہے۔ میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلہ اس سے بڑا پیمانہ دیتا ہوں

اور پھر ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوا اور ایک دوسرے کو نظروں سے تولا گیا اور پھر وار ہوا

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرحب کے سر پر ایک ضرب لگائی تو وہ قتل ہوگیا پھر خیبر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں پر فتح ہوگیا ، اللہ اکبر

 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جب ہم عزت دار اور غیرت مند تھے تو ہمارے معاہدوں میں کچھ اس قسم کی شرطیں دیکھنے کو ملتی تھیں:
"بسم الله الرحمن الرحيم۔ یہ وہ عہد ہے جو نُعَیم بن مُقرِن (صحابی، سیدنا عمر کے ایک سپہ سالار) نے زینبی بن قولہ (ایک فارسی سپہ سالار) کو دیا۔ نعیم نے اُسے اہلِ رَے اور اُن لوگوں کے بارے میں ادائے جزیہ کی شرط پر امان دی جو اُن کے ساتھ ہیں۔
ہر بالغ مرد ہر سال حسبِ استطاعت جزیہ دے گا۔ یہ لوگ مسلمانوں کی خیر خواہی کریں گے۔ اُنھیں راستہ بتائیں گے۔ یہ خیانت نہیں کریں گے۔ یہ کھلا ہوا حملہ نہیں کریں گے۔ مسلمان کی ایک دن اور ایک رات مہمانی کی جائے گی۔ یہ لوگ مسلمان کا اکرام و احترام کریں گے۔ جس نے کسی مسلمان کو گالی دی یا اُس کی بے عزتی کی اُسے سخت سزا دے کر لاغر کر دیا جائے گا۔ جس نے کسی مسلمان کو زدوکوب کیا اُسے قتل کیا جائے گا۔ اِن میں سے کسی ایک نے اگر بد عہدی کی اور اُسے حوالے نہ کیا گیا تو وہ اِن کے تمام لوگوں کی بد عہدی سمجھی جائے گی۔"
(تاريخ الأمم و الملوك للطبري: 537/2.)
(حافظ قمر حسن)
 
Top