• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کرونا وائرس اور احتیاطی تدابیر

شمولیت
اگست 08، 2019
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
5
کرونا وائرس، اور احتیاطی تدابیر


(عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی)


از قلم: معاذ دانش حمید اللہ


ایک دنیوی مشین کا موجد بہتر جانتا ہے کہ اس مشین کے لیے کیا چیز مفید اور کیا چیز مضر ثابت ہوسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ مشین ایجاد کرنے کے بعد وہ ایک ہدایات تیار کرتا ہے جس میں وہ طریقہائےاستعمال ،احتیاطات وغیرہ درج کردیتا ہے یہ طریقہ دراصل اس نے اپنے خالق حقیقی ہی سے اخذ کیا ہے جس نے اس کائنات ارضی کو پیدا کیا اور اس میں انسانوں کو آباد کرنے کے بعد قانون کی شکل میں ایک کتاب ہدایت نازل کی جو چیزیں انسان کے حق میں مفید تہیں انہیں حلال قرار دیا اور جو چیزیں انسان کے حق میں مضر تہیں انہیں حرام قرار دیا کیونکہ وہ بہتر جانتا ہے کہ اس زمین پر بسنے کے لیے انسان کے حق میں کیا چیز مفید اور کیا چیز مضر ثابت ہوگی تاہم جب انسان اللہ کے بتائے ہوئے ہدایات سے ہٹ کر من مانی چیزوں کو اپنانے اور قبول کرنے لگ جاتا ہے تو اس کے برے نتائج سامنے آنے لگتے ہیں کرونا وائرس انہیں نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے جو تادم تحریر 161ممالک تک سرایت کرچکا ہے


کرونا وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟


کرونا وائرس کے بارے میں گمان یہی ہے کہ یہ جانوروں میں پایا جانے والا ایک وائرس(جراثیم) ہے جو انسانوں میں منتقل ہوا ہے یہ وائرس چین کے شہر ویاہان سے شروع ہوا چونکہ چین ایک گنجان آبادی والا ملک ہے جہاں مختلف قسم کے غلیظ جانور مثلا چمگادڑ سانپ لومڑی چوہا حتی کہ ہر زمین میں گھسنے والے جاندار کو خوراک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے انہیں موذی جانوروں میں سے کسی جانور کے جراثیم انسانوں میں منتقل ہوئے جس کی وجہ سے چند ہی ایام میں انسانی نظام درہم برہم ہوگیا


کورونا وائرس کی وجہ تسمیہ


کورونا (corona) لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تاج یا ہالہ کے ہوتے ہیں۔ چونکہ اس وائرس کی ظاہری شکل سورج کے ہالے یعنی کورونا کے مشابہ ہوتی ہے، اسی وجہ سے اس کا نام "کورونا وائرس" رکھا گیا ہے۔


وائرس(جراثیم)کیا ہیں


وائرس(جراثيم) اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی مخلوق ہیں جو صرف خردبین یا الٹرامائکرو اسکوپ کے ذریعے ہی نظر آتے ہیں یہ فی نفسہ مرض نہیں بلکہ بسا اوقات مرض کا سبب بنتے ہیں حالیہ دنوں میں چین کے شہر ووہان میں ظاہر ہونے والے جراثیم کو (nCoV-19) کا نام دیا گیا ہے


کرونا وائرس کی علامات


ابہی تک جن لوگوں میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی ہے ان افراد کو دیکھتے ہوئے درج ذیل علامات سامنے آئی ہیں


اس وائرس کی ابتدا بظاہر تیز بخار سے شروع ہوتی ہے


پھر بد ہضمی اور سردی کا احساس شروع ہوتا ہے


اس کے بعد خشک کھانسی آتی ہے


ایک ہفتے بعد سانس لینے میں دشواری ہونا شروع ہوتی ہے


کیا کرونا وائرس ایک متعدی مرض ہے


جی ہاں! کرونا وائرس ایک وبائی مرض ہے جو کسی شخص کو لاحق ہونے کے تقریبا چودہ دنوں کے بعد کھل کر سامنے آتا ہے


متعدی مرض کا مفہوم


ہر وہ بیماری جو جرثومے کی منتقلی سے معرض وجود میں آئے اور بڑھتی چلی جائے اسے طبی زبان میں وبائی یا متعدی بیماری سے تعبیر کیا جاتا ہے



کیا اسلام میں متعدی بیماریوں کا تصور ہے؟


اسلام میں متعدی یا وبائی بیماریاں اس معنی میں پائی

جاتی ہیں کہ وہ بذات خود موثر(اثر اندازہونے والی) نہیں ہوتی ہیں بلکہ اللہ کی ذات ہے جو اس میں اثر پیدا کرتی ہے یہ بات درست ہے کہ جرثومے کی منتقلی سے بیماریاں ہوتی ہیں اور بسا اوقات بہت تیزی کے ساتھ آس پاس کے افراد کو اپنی چپیٹ میں لے لیتی ہیں لیکن یہ جرثومے اسی وقت اڑ کر کسی انسان کو لگ سکتے ہیں جب اللہ کی مشیت اور اس کا حکم شامل ہو

اگر اللہ کی مشیت اور اس کا حکم شامل حال رہا تو وہ جرثومے انسان تک پہونچ کر رہیں گے اگر چہ وہ کوسوں دور ہو اور اگر اس کی مشیت اور اس کا حکم شامل حال نہ تو کبہی نہیں پہونچ سکتے اگر چہ وہ مریض کے شانہ بشانہ رہے

چونکہ دور جاہلیت میں لوگوں کا عقیدہ تہا کہ بیماریوں کے پھیلنے میں اللہ کے حکم کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ وہ بذات خود پھیلتی ہیں اس باطل عقیدے کو رد کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :لاعدوی (مسلم:2221)


"کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی"



اس حدیث کے ذریعہ جاہلیت کے عقیدے کو باطل قرار دیا گیا ساتھ ہی یہ بات بہی واضح ہوگئی کہ وبائی بیماریوں کے پھیلنے کا سبب جراثیم کا اڑ کر لگنا ہی ہے لیکن یہ سبب اسی وقت پایا جاتا ہے جب اللہ کی مشیت اور اس کا حکم شامل ہو


کرونا وائرس کو لعن طعن کرنے کا حکم


امراض کو لعن طعن کرنا کسی کے لئے جائز نہیں ہے اور نہ ہی لعنت کرنا ایک مومن کی شان ہے

رسول اللہ ﷺ ام مسیب کے گھر گئے اور فرمایا :

اے ام مسیب تم کانپ کیوں رہی ہو؟ تو وہ کہنے لگیں بخار کی وجہ سے لا بارك الله فيها اللہ اس میں برکت نہ کرے تو آپ نے فرمایا:


بُخار کو بُرا مت کہو ، کیونکہ وہ بنی آدم کے گناہوں کو ایسے دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو دور کر دیتی ہے


(صحیح مسلم:6244)


یہاں بخار کو برا بھلا کہنے سے منع کرنا تمام امراض کو برا بھلا کہنے کو شامل ہے کیونکہ سارے امراض اللہ کی تقدیر کا حصہ ہونے اور خطاؤں کو مٹانے میں مشترک ہیں.

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :کہ کسی مومن کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی ایسی چیز پر لعن طعن کرے جو اس کا اہل نہیں ہے اور امراض اللہ کی تقدیر کا ایک حصہ ہیں امراض کو گالی دینا اللہ کو گالی دینے کے درجے میں ہے لہذا جو شخص اس طرح کا کلمہ اپنی زبان سے نکالے اسے چاہیے کہ اللہ سے توبہ کرے اپنے دین کی طرف رجوع کرے، جان لے کہ مرض اللہ کی تقدیر سے ہوتا ہے اور جو بہی مصیبت انسان کو لاحق ہوتی ہے سب اس کے برے کرتوتوں کا نتیجہ ہے اللہ ظالم نہیں ہے بلکہ انسان خود ظالم ہے.


کرونا وائرس سے قبل تاریخ کے چند وبائی امراض


طاعون عمواس


طاعون عمواس خلافت فاروقی میں شام کے قریہ عمواس میں پھیلنے والی ایک وبا ہے جس میں ہزاروں صحابہ وفات پاگئے جب یہ وبا کثرت کے ساتھ پھیلنے لگی اور رومی ودیگر اطباء اس کے روک تھام سے عاجز آگئے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عمر بن عاص کے پاس خط بھیج کر مطالبہ کیا کہ وہ اس وبا سے نکلنے کی کوئی تدبیر نکالیں تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"فتأملت فيه (الطاعون)فوجدته ينتشر عندما يجتمع الناس فامرتهم ان يتفرقوا في الارياف او الجبال فانتهى الطاعون في ثلثة ايام "کہ میں نے طاعون کے سلسلے میں غور کیا تو پتہ چلا کہ لوگوں کے جمع ہونے پر یہ پھیل رہا ہے تو میں نے انہیں دیہات یا پہاڑوں میں منتشر ہونے کی ہدایت کی ، لہذا طاعون تین دن میں ختم ہوگیا۔


سیاہ موت(بلیک ڈیتھ)


یہ ایک تباہ کن وبائی مرض تھا جو 1347ءتا 1350ء تک رہا ایک اندازے کے مطابق یورپ میں بیس کروڑ افراد اس وبا سے ہلاک ہوئے

سیاہ موت میں تباہی اس قدر بھیانک تھی کہ پورے شہر میں مُردوں کو دفنانے والا کوئی نہیں بچا تہا اس وبا کے اثرات کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار دنیا کی مجموعی آبادی کم ہو گئی اور دوبارہ آبادی کی اس سطح تک پہنچنے کے لیے دنیا کو دو سو سال لگ گئے۔


ہسپانوی فلو


1918ءتا 1920ءکے دوران اس وبا نے محض اپنے ابتدائی 25 ہفتوں میں 25 ملین افراد کو موت گھاٹ اتار دیا یہ وبا امریکا، یورپ، ایشیا اور افریقا تک پھیل گئی تھی۔


سال رحمت


یہ وبا1919ء میں جزیرہ عرب میں پھیلی تین مہینے تک رہنے والی اس وبا میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے مردوں کی اس قدر کثرت تہی کہ ایک ایک دن میں سو سو جنازے کی نماز پڑھی جاتی مساجد بند ہوگئیں رہائش گاہوں سے مکانات خالی ہوگئے مویشیاں جنگلات میں ماری ماری پھرنے لگیں کوئی چرانے اور پانی پلانے والا نہیں ملتا کثرت سے لاشوں کو دیکھ کر لوگوں میں ہمدردی اور رحم کا مادہ پیدا ہوا جس کی وجہ سے لوگوں نے اسے سنة الرحمة یعنی "سال رحمت" کا نام دے دیا


مذکورہ بالا وبائی امراض کو مد نظر رکھتے ہوئے دو بنیادی باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں



:1

-وبائی امراض سے بچنے کے لئے آپسی اختلاط سے بچنا از حد ضروری ہے یہی نسخہ طاعون عمواس میں عمرو بن عاص نے اختیار کیا اور یہی نسخہ آج کے اطباء نے بہی اختیار کیا ہے شاعر کہتا ہے ع

عجیب درد ہے جس کہ دوا ہے تنہائی

2:

آپسی اختلاط سے بچتے ہوئے اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط کرنا کیونکہ اسی کے ہاتھ میں شفا ہے واذا مرضت فهو يشفين جب میں بیمار پڑوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے تاریخ کے تمام وبائی امراض کے انتشار کے دوران اسی پر ہمارے اسلاف کا عمل رہا ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں


کرونا وائرس کے تئیں چند احتیاطی تدابیر


اللہ رب العالمین نے کوئی ایسا مرض نازل نہیں کیا جس کی دوا نازل نہ کی ہو عموما انسان مرض کا علاج تلاش کرلیتا ہے تاہم بسا اوقات ایسا بہی ہوتا ہے کہ انسان علاج تک رسائی حاصل کرنے پر قادر نہیں ہوتا کورونا وائرس بہی انہیں امراض میں سے ایک ہے جس کے علاج تک اطباء ابہی تک نہیں پہونچ سکے ہیں تاہم گزشتہ مریضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اطباء کی جانب سے چند احتیاطی تدابیر بتائے گئے ہیں جن کو اختیار کیا جانا ازحد ضروری ہے


گندے ہاتھوں سے ناک، آنکھ اور منھ کو چھونے سے گریز کریں


سانس کی بیماری، جیسے کھانسی یا چھینک کی علامات ظاہر کرنے والے کسی بھی شخص کے براه راست رابطے سے گریز کریں


-صابون یا پانی سے درج ذیل مواقع پرہاتھ دھوئیں


کھانا پکانے سے پہلے، دوران میں اور بعد میں


کھانے سے پہلے۔ کھانسنے یا چھینکنے کے بعد


کسی بیمار فرد کی دیکھ بھال کرنے سے پہلے یا بعد میں


باتھ روم استعمال کرنے کے بعد


بچے کے ڈائپر تبدیل کرنے کے بعد


جانوروں کو چھونے کے بعد


کوڑا کرکٹ چھونے کے بعد


انفیکشن کو کم کرنے کے لیے چھینکنے کے آداب


چھینکنے یا کھانسنے کے لیے ڻشو پیپر یا رومال کا استعمال کریں۔


اپنے ہاتھوں کو گرم صابن والے پانی سے 40 سیکنڈ تک دھوئیں۔


جتنی جلد ممکن ہو اس سے نجات حاصل کریں۔


یا اپنے بازو کو موڑ کر کہنی کااستعمال کریں۔


ماسک کا استعمال کب کریں


ماسک کا استعمال درج ذیل مواقع پر کریں


سانس کی علامات میں مبتلا ہوں، جیسے کہ (چھینک اور کھانسی)


سانس کی علامات والے کسی شخص کی دیکھ بھال کر رہے ہوں


گزشتہ دنوں آپ ان ممالک میں سے کسی ایک میں تھے جن میں کورونا

وائرس کے معاملے درج کیے گئے ہیں؟


کھانسی یا چھینک آنے پردرج ذیل طریقہ کار اپنائیں


وائپس کا استعمال کریںاور انھیں کوڑے دان میں پھینک

دیں

یا اپنے منہ کو کہنی سے ڈھکیں


گفتگو کے دوران اپنے درمیان میں کم از کم ایک میڻر کا فاصلہ رکھیں۔


گھر سے نکلنے یا دوسروں کے ساتھ مخلوط ہونے پر ماسک پہنیں


پھر اپنے ہاتھوں کو صابن، پانی یا جراثیم کش الکحل سے

دھوئیں


اسلامی تعليمات جو متعدد امراض سے بچانے میں معاون ہیں


کرونا وائرس جو بتدریج دنیا میں پھیلتا جارہا ہے اس تناظر میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ مذکورہ بالا اطباء کی جانب سے دئیے گئے احتیاطات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مسلم ہونے کے ناطے اسلامی تعلیمات پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائیں کیونکہ اسلام کے اندر وہ ساری چیزیں ابتداء موجود ہیں جو بعد میں اطباء کی جانب سے ہمیں بتائی جاتی ہیں آئیے ہم چند سطور میں صفائی ستھرائی کے تعلق سے اسلامی تعلیمات کا تذکرہ کرتے ہیں اگر ہم انہیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں نافذ کرلیں تو بہت سارے امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں


ہمارے لئے ضروری ہے کہ:


ہم حسی اور معنوی دونوں گندگیوں سے اپنے آپ کو پاک کریں


ظاہری گندگی سے پاکی کا سبب پانی اور اس کا متبادل مٹی ہے

معنوی گندگی سےپاکی کا سبب توبہ ہے


اللہ کا فرمان ہے:

إِنَّ ٱللَّهَ یُحِبُّ ٱلتَّوَّ ٰ⁠بِینَ وَیُحِبُّ ٱلۡمُتَطَهِّرِینَ


اللہ تعالی توبہ کرنے والوں اور پاکی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے


یعنی جو لوگ ظاہری گندگیوں کی صفائی کرتے ہیں اور باطنی گندگیوں سے توبہ کرتے ہیں ایسے لوگوں سے اللہ رب العالمین محبت کرتا ہے


حسی (ظاہری) گندگی سے مراد


حسی گندگی سے مراد بدن کی گندگی ہے یعنی انسان اپنے بدن کی صاف صفائی رکھے اگر کوئی شخص مکمل طور پر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائے تو خود بخود وہ ظاہری ومعنوی دونوں گندگیوں سے پاک صاف ہوجائے اور بہت ساری بیماریوں سے بچ جائے کیونکہ اسلام ہمیں متعدد مواقع پر صاف صفائی کا حکم دیتا ہے حتی کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جو اسلامی فطرت کا حصہ ہیں ختنہ کرنا، زير ناف بال مونڈنا، مونچھيں چھوٹی کرنا، ناخن تراشنا اور بغل کے بال اکھیڑنا یا مونڈنا انہیں چالیس دنوں سے زیادہ نہیں چھوڑا جاسکتا اسی طریقے بہت سارے مواقع پر غسل کو مشروع کیا گیا مثلاجمعہ کا غسل ،عیدین کا غسل ،کسوف کا غسل، میت کو نہلانے کے بعد غسل ، پاگل کے افاقہ کے وقت غسل، خروج منی کا غسل، جماع کے بعد غسل، استحاضہ عورت کے لیے ہر نماز کے لیے غسل، حج وعمرہ میں بعض مقامات پر غسل، اسی طرح منہ کی صاف صفائی کے لئے جہاں متعدد مواقع پر مسواک کو مشروع قرار دیا وہیں دن بھر کی پانچ نمازوں کے لیے وضو ،جس میں ظاہری صفائی کے ساتھ ساتھ ناک میں پانی ڈال کر اندر تک کھینچنا اور تیزی کے ساتھ اسے جھاڑنا بہی شامل ہے اسی طرح قرآن کی تلاوت کے لیے وضو ،دو مرتبہ جماع کرنے کے درمیان وضو

، بیوی سے ملاعبت کے وقت نکلنے والے مذی کے لئے وضو، اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو ،سونے سے قبل وضو ،سوکر اٹھنے کے بعد کسی برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل ہاتھ دھلنا ناک جھاڑنا ،حتی کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تہا کہ آپ ہمیشہ باوضو رہتے لہذا یہی ہر مومن کی شان ہونی چاہیے اگر انسان اس پر پابندی کے ساتھ عمل پیرا ہوجائے تو بہت ساری بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے


معنوی (باطنی) گندگی سے مراد


معنوی گندگی سے مراد عمل کی گندگی یعنی شرک وبدعات کفر ومعاصی کی گندگیوں سے اپنے آپ کو پاک کرے، اللہ کی طرف رجوع کرے،توبہ واستغفار کرے،جن مواقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دعائیں ثابت ہیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں انہیں نافذ کرے،تہجد کا اہتمام کرے،مومن اس مصیبت پرصبر کرتے ہوئے اللہ سے اجروثواب کی امید رکھے، نفس کا محاسبہ کرے



ہر ایک شخص کے عمل کا محاسبہ دوسرے شخص سے مختلف ہوسکتا ہے



کافر اپنے تمام معبودان باطلہ کی عبادت ترک کرے اورایک اللہ کی عبادت پر قائم ہوکر توحید پر ہمیشہ قائم رہنے کا عہد کرے، بدعتی اپنی ایجاد کردہ بدعات کو ترک کرکے اپنے نبی مکرم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو اپنا اسوہ بنائے، ظالم اپنے باغیانہ روش سے باز آئے، زانی زنا ترک کرے، چغل خور اوربندوں کے آپسی تعلقات میں رخنہ ڈالنے والا اپنا رویہ تبدیل کرے، غرضیکہ جو شخص جس برائی میں ملوث ہے اس سے توبہ کرے ،اس برائی کو بالکلیہ ترک کرے ،مستقبل میں کبہی نہ کرنے کا پختہ عہد کرے، اس طریقے سے جب بندہ باطنی گندگیوں سے اپنے آپ کو پاک کرلے گا تو اس کے نتیجے میں اللہ سبحانہ وتعالی سے اس کا رشتہ مضبوط ہوجائے گا اور اللہ رب العالمین اپنی رحمت سے بہت سارے امراض کو ٹال دے گا

اللہ رب العالمین ہم تمام مسلمانوں کو ان امراض سے محفوظ رکھے آمین
[/HL]
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
ما شاء اللہ جزاک اللہ خیرا

Sent from my vivo 1816 using Tapatalk
 
Top