• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے نماز کی تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین نہیں کیا !

شمولیت
اکتوبر 28، 2015
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
58
محترم خان صاحب۔آپ بار بار غلطیاں کرکے ا پنی تصیح کررہے ہیں۔لگتا ہے آ پ ہوش میں نہیں بلکہ جوش میں لکھ رہے ہیں؟؟؟صبر سے دوسروں کا موقف بھی پڑھیں اور اپنا موقف بھی سکون سے پیش کریں۔شکریہ
ویسے پیرجی! ایک بات پوچھنی ہے، آپ کبھی میرے پوسٹ کو پسند ریٹ کرتے ہیں اور کبھی معلوماتی اور کبھی مجھ پر ناراض ہوجاتے ہیں۔ یہ کیا ماجرا ہے؟ آپ سوچھ سمجھ کر ایسا کرتے ہیں یا کہیں غلطی سے ہو جاتا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
کیا غیظ و غضب ہے ،،، دیدنی ہے ویسے! ہم پر تو غصہ کی پابندی لگ گئی ہے، آپ پر بھی لگنی چاہئے۔ ؛-)
یہ جوابی کاروائی ہے ، آپ پیار محبت سے بات کریں ، ان شاءاللہ بات کرکے خوشی محسوس کریں گے ۔
کہاں پر موجود ہے؟ آپ متعین طور پر بتادیں۔ ہم دیکھ کر ہی کچھ عرض کر سکتے ہیں۔ مخطوط کا کچھ تعارف وغیرہ ہے؟ کہاں سے نقل لی گئی ہے، کتنا پرانا ہے، کتب خانہ وغیرہ؟۔۔۔۔
آپ شاید انٹرنیٹ کی دنیا میں نئے ہیں ، ورنہ میں اوپر لنک دے چکا ہوں ، متعلقہ گفتگو یہاں نقل کردیتا ہوں ، ملاحظہ فرمائیں :
مسند ابی عوانہ میں تحریف

مسند ابی عوانہ میں ''واؤ'' اُڑا کر رفع الیدین کی روایات کو ترک رفع الیدین کی دلیل بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں پہلے مسند ابی عوانہ کا عکس ملاحظہ فرمائیں:
15310 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

امام ابوعوانہ رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے: ''افتتاح نماز میں رفع الیدین کا بیان اور رکوع کے وقت اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت (رفع الیدین) اور آپ سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہ کرتے تھے''۔
اب ظاہر ہے کہ ان تین مقامات پر رفع الیدین کو ثابت کرنے کے لئے امام ابوعوانہ نے احادیث کو ذکر فرمایا ہے۔ اسی طرح سجدوں کے درمیان آپ رفع الیدین نہ فرماتے تھے۔ امام ابوعوانہ نے اس روایت میں جو اختلافات ہیں ان کو بھی بیان کر دیا ہے جیسے:
رأیت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلاۃ رفع یدیہ حتی یحاذی بھما و قال بعضھم حذو منکبیہ
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے دونوں ہاتھوں کو اُٹھاتے یہاں تک کہ انہیں ان (کندھوں) کے برابر تک اُٹھاتے اور بعض نے کہا کہ کندھوں کے برابر تک اٹھاتے ۔
اور پھر سجدوں کے رفع یدین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لا یرفعھما اور (سجدوں کے درمیان) دونوں ہاتھوں کو نہ اٹھاتے۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں انہی الفاظ کو ذکر کیا گیا ہے۔
یہاں ''لا'' سے پہلے ''واؤ'' موجود ہے جو ہندوستانی ناشرین نے حذف کر دی ہے اور پھر ''لا'' کا تعلق پچھلے جملے کے ساتھ جوڑ دیا اور مطلب یہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کو جاتے وقت اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت رفع الیدین نہ کرتے تھے۔ اور یہ اس حدیث میں کھلی تحریف ہے۔ دراصل امام ابوعوانہ فرماتے ہیں:
ولا یرفعھما اور آپ دونوں ہاتھوں کو (سجدوں کے درمیان) نہ اٹھاتے۔
اور بعض نے کہا کہ آپ دونوں سجدوں کے درمیان ہاتھوں کو نہ اُٹھاتے۔ اور دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔ امام مسلم نے ولا یرفعھما کے الفاظ ذکر کئے ہیں اور امام احمد بن حنبل اور امام ابوداؤد نے ولا یرفع بین السجدتین کے الفاظ ذکر کئے ہیں۔ امام موصوف نے دونوں طرح کے الفاظ کو ذکر کر دیا اور پھر ارشاد فرمایا: والمعنی واحد۔ یعنی دونوں عبارتوں کا معنی ایک ہی ہے۔
امام احمد بن حنبل نے بھی جب اس حدیث کا ذکر کیا تو کہا:
و قال سفیان مرۃ واذا رفع رأسہ و اکثر ما کان یقول و بعد ما یرفع رأسہ من الرکوع
اور امام سفیان نے ایک مرتبہ کہا:
و اذا رفع رأسہ (اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے) سر اُٹھاتے''۔
اور وہ اکثر کہا کرتے تھے:
و بعد ما یرفع رأسہ من الرکوع اور آپ رکوع سے سر اٹھانے کے بعد (رفع یدین کرتے)۔ سنن ابی داؤد باب رفع الیدین فی الصلاۃ (۷۲۱) مسند احمد مع الموسوعۃ ج۸ ص۱۴۰ (۴۵۴۰)
یعنی محدثین کی ایمانداری ملاحظہ فرمائیں کہ وہ حدیث کے اختلافی تمام طرح کے الفاظ بیان کر دیا کرتے تھے اور کسی بات کو وہ پوشیدہ نہ رکھتے لیکن جب اُچکے اور رہزن قسم کے لوگ محدثین کے روپ میں آئے تو انہوں نے اپنے مسلک کی خاطر احادیث میں ہیرا پھیری شروع کر دی اور احادیث کے کلمات کو بدلنے اور اُلٹنے میں مشغول ہو گئے۔یحرفون الکلم عن مواضعہ......۔
لا یرفعھما سے پہلے ''واؤ'' کا ثبوت

مخطوطہ مسند ابی عوانہ مصورۃ الجامعۃ الاسلامیۃ فی المدینۃ المنورۃ میں ''واؤ'' کا لفظ موجود ہے ملاحظہ فرمائیں:
1- پہلی شہادت
15311 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
2-دوسری شہادت​
کتب خانہ پیر جھنڈا کے مخطوطہ میں بھی ''واؤ'' کا لفظ موجود ہے:
15312 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

(عکس مسند ابی عوانہ کتب خانہ پیر جھنڈا)۔
مولوی انوار خورشید کی کتاب ''حدیث اور اہلحدیث'' (ص۹۱۲) کے آخری صفحہ پر بھی یہ فوٹو کاپی دیا گیا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بھائی! میں پہلے مخطوطات کی بات کرچکا تھا، شاملہ کی بات بعد میں اس لئے کی کہ اس کی تصدیق ہر شخص کیلئے آسان ہے۔ باقی شاملہ کا نسخہ بھی تو کسی قلمی یا مطبوعہ نسخے پر مبنی ہوتاہے جس کا تعارف وہاں پر دیا ہوتا ہے۔
جب بات مطبوعات سے بھی آگے بڑھ کر مخطوطات تک پہنج جائے تو پھر شاملہ کا حوالہ مناسب نہیں ہوتا۔
تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے!! ہاں اگر مکتبہ شاملہ کے بارے میں بھی وہم ہے کہ ان کی "محرفین" سے ملی بھگت ہے تو پھر اس کا علاج نہیں۔
شاملہ والے اگر محرفین کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تو ان کے لیے یہ بڑی بات نہیں تھی ۔ لیکن شاملہ میں موجود بنیادی کتابیں ان لوگوں کی زیر نگرانی ٹائپ ہوتی ہیں جنہیں ’’ کتاب ‘‘ اور ’’ مصنف ‘‘ کی حرمت کا پاس ہوتا ہے ، البتہ یہ کام ایسا ہے کہ اس میں غلطی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ، لہذا محل نزاع میں شاملہ کا حوالہ درست نہیں ۔
اگر تحریف حدیث رسول میں کی گئی ہے جو کوئی مسلمان کافر بن کر ہی کرسکتا ہے تو پھر اس کیلئے ترجمۃ الباب میں کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اگر آپ کہے کہ وہ عقل و بصیرت سے عاری تھا تو سبحان اللہ، اتنی دقیق تحریف کہ سمجھائے بغیر سمجھ نہ آسکے اور توجہ دلائے بغیر کوئی اس کی طرف صدیوں تک متوجہ نہ ہوسکے اور ایک ایسی تحریف جو آپ کےبقول کسی موٹی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ " اگر عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے تو ساتھ بیٹھے کسی عام آدمی سے پوچھ لیں کہ : امام صاحب نے باب باندھا ہے رفع الیدین کے اثبات کا ، اس کے تحت وہ رفع الیدین کے اثبات کی دلیل لائیں گے یا ترک کی ؟"، اس سے وہ محرف صاحب کیسے صاف چوک گیا!! اس کا جواب آپ کے ذمہ ہوگیا۔
ایسے ویسے کیسے ، ان سب سوالوں کے جواب کا میں پابند نہیں ہوں ، جن پر یہ الزام ہے ، ان سے ان سوالوں کے جواب لیں ۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ کلام کی طوالت کی بجائے مفید ہونے پر توجہ دیا کریں ۔
اگر تحریف ترجمۃ الباب میں کی گئی ہے تو یہ زیادہ قرین قیاس ہے بہ نسبت حدیث نبوی کے۔ کیونکہ مستخرج احادیث کی زائد سندوں کا استخراج کرتا ہے اور صحیح سند کےمتن میں اضطراب ہوسکتا ہے۔ اور حضرت ابن عمر کی احادیث میں اضطراب، دوسروی کتابوں سے بھی ثابت ہے۔ خیر ترجمۃ الباب میں تحریف آپ پسند کرتے ہیں یا حدیث میں؟
متن حدیث مین تحریف کے الزام کی دلیل تو مخطوط ہے ، لیکن اس باب والی تحریف کے الزام کی بنیاد کیا ہے ؟ ایک دفعہ پھر گزارش بات جو بھی کریں دلیل کے ساتھ ۔خود ساختہ احتمالات سے تحقیقی موضوع پراگندہ نہ کریں ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ایک سوال اور ہے:کیا مسند حمیدی بھی آپ کے خیال میں محرف ہے۔ اس میں یہ روایت ابو عوانہ سے قدرے مختلف ہے اور اس میں وہ والی منطق بھی نہیں چل سکتی کیونکہ یہاں پر نہ باب ہے اورنہ صرف حرف واو کا مسئلہ ہے، بلکہ واو لگانے کے بعد: ولا يرفع ولا بين السجدتين۔ کا مسئلہ بھی کھڑا ہوتا ہے۔ خیر یہ روایت ملاحظہ فرما رکر اپنی رائے سے نوازیں:
حدثنا الحميدي قال ثنا الزهري قال أخبرني سالم بن عبد الله عن أبيه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة رفع يديه حذو منكبيه وإذا أراد أن يركع وبعد ما يرفع رأسه من الركوع فلا يرفع ولا بين السجدتين۔
شکریہ۔
جی اس میں بھی تحریف کی گئی ہے ، وضاحت ملاحظہ کرلیں :
رفع الدین کے خلاف پہلی کاوش۔ مسند حمیدی میں تحریف

مسند حمیدی جو مولانا حبیب الرحمن الاعظمی کی تصحیح کیساتھ چھپی ہے اس میں رفع الدین کی ایک روایت کو جو دیوبندی مخطوطہ میں تحریف کا شکار ہو گئی تھی جوں کا توں نقل کر دیا گیا ہے اور اس کی تصحیح کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ حالانکہ مخطوطہ ظاہریہ میں یہ روایت دوسری روایات ہی کی طرح نقل ہوئی ہے۔ چنانچہ الاعظمی صاحب کی کتاب کا عکس اور ان کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں:
15296 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
15297 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
مولانا اعظمی کی تحقیق اور مولانا محمد طاسین صاحب کا ردّ

الاعظمی صاحب اس محرف روایت کے تحت لکھتے ہیں:
''امام بخاری رحمہ اللہ نے اصل روایت نقل کی ہے جو یونس عن الزہری کی سند کے ساتھ ہے اور سفیان کی روایت بھی امام زہری سے ہے اسے امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں اور امام ابوداو'د نے امام احمد کی سند سے اپنی سنن میں روایت کیا ہے لیکن مصنف نے امام احمد عن سفیان کی روایت کی مخالفت کی ہے۔ پس مسند امام احمد میں یہ الفاظ ہیں:
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع فرماتے تو دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں کاندھوں کے برابر کر لیتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے''۔ اور سفیان نے ایک مرتبہ کہا: ''اور جب رکوع سے سر اُٹھاتے اور وہ اکثر کہتے ''اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد'' (بھی رفع یدین کرتے) اور سجدوں کے درمیان رفع یدین نہ کرتے (ج:۲ ص:۸)
یہ روایت جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اثبات رفع یدین کی دلیل ہے اور دونوں سجدوں کے درمیان رفع یدین کی نفی ہے۔ اور امام حمیدی کی روایت میں رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اُٹھاتے وقت رفع یدین کی نفی ہے اور دونوں سجدوں کے درمیان سب کے نزیک نفی ہے اور محدثین میں سے کسی نے بھی امام حمیدی کی اس روایت پر اعتراض نہیں کیا۔ (حاشیہ مسند حمیدی ص:۲۷۷،۲۷۸جلد۲)۔
الاعظمی صاحب نے تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کتنی معصومیت کے ساتھ امام حمیدی کی روایت کو رفع الیدین کی نفی کی دلیل بنا دیا ہے اور پھر فرما رہے ہیں کہ کسی محدث نے اس روایت پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اسے کہتے ہیں: ماروں گھٹنا پوٹے آنکھ''۔ جب یہ روایت محدثین کے دور میں موجود ہی نہ تھی تو اعتراض کس بات پر کیا جاتا۔ الاعظمی صاحب کے اس کھلے جھوٹ کا جواب دیتے ہوئے مولانا محمد طاسین صاحب (جو مولانا محمد یوسف بنوری صاحب کے داماد اور ادارہ مجلس علمی کے رئیس تھے) اسی روایت پر تنبیہ کا عنوان قائم کر کے اپنے قلم سے لکھتے ہیں (جس کا عکس آپ نے مسند حمیدی کے حاشیہ پر ملاحظہ کیا ہے)
15298 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
مولانا طاسین دیوبندی کی اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ اعظمی صاحب نے اس مقام پر تجاہل عارفانہ سے کام لیا ہے اور دھوکا دینے کی زبردست کوشش کی ہے اور اس اعتراف کے باوجود کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی اصل روایت نقل کی ہے جب بات یہ ہے تو اس کے مطلب اس کا سوا کیا ہو سکتا ہے کہ یہ نقلی روایت ہے کیونکہ اصل کا الٹ نقل ہی ہوتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حدیث دشمنی میں دیوبندی علماء ایک ہی طرح کا دُھن رکھتے ہیں۔ تشابھت قلوبھم۔
حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کی تحقیق

حافظ صاحب اس روایت کی تحقیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مسند الحمیدی اور حدیث رفع الیدین
مسند الحمیدی کو اس کے معلق حبیب الرحمن اعظمی دیوبندی ہندوستانی نے نسخہ دیوبندیہ (ہندوستانیہ) سے شائع کیا ہے۔ اس کی تائید میں نسخہ سعیدیہ اور نسخہ عثمانیہ سے مدد لی۔
(مقدمہ مسند الحمیدی ص۲،۳)
نسخہ سعیدیہ کی تاریخ نوشت۱۳۱۱ھ۔ نسخہ دیوبندیہ کی تاریخ نوشت۱۳۲۴ھ۔
نسخہ عثمانیہ کی تاریخ نوشت۱۱۵۹ھ سے پہلے (ایضاً)۔
اعظمی ہندوستانی دیوبندی نے نسخہ دیوبندیہ کو اصل بنایا۔ (ایضاً ص:۳)
مسند الحمیدی کا ایک دوسرا نسخہ بھی ہے جسے نسخہ ظاہریہ کہتے ہیں۔ (مقدمہ ص۴،۲۵) یہ نسخہ شام میں ہے اور اس کی تصاویر مکہ مکرمہ وغیرہ میں ہیں۔ نسخہ ظاہریہ کی تاریخ نوشت ۶۸۹ھ (مقدمہ مسند الحمیدی ص۱۹)۔
نسخہ دیوبندیہ اصلیہ میں بے شمار غلطیاں ہیں، مثلاً ملاحظہ ہو مسند الحمیدی ج۱ ص۱، ۲، ۳، ۴،۵، ۶، ۷،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵۔۔۔۔۔ وغیرہ۔ کئی مقامات پر تحریف بھی ہوئی ہے۔ مثلاً:
ج۱ ص۱۵ حاشیہ ۷ نیز ملاحظہ ہو ۱/۷۱۔ کئی مقامات پر اس نے (یعنی معلق نے) نسخہ ظاہریہ کو ترجیح دے کر نسخہ دیوبندیہ کی تصحیح کی ہے۔ مثلاً۲/۲۷۵،۲۵۸،۲۸۷،۳۰۲۔ وغیرھم۔
بعض مقامات پر خود اعظمی دیوبندی نے اعتراف کیا ہے کہ یہاں اصل میں تحریف ہے دیکھئے مسند الحمیدی بہ تحقیق الاعظمی ج۱ص۱۵ حاشیہ عربی وغیرہ۔
15299 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
نسخہ ظاہریہ میں اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:
رأیت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ حذو منکبیہ و اذا اراد ان یرکع و بعد ما یرفع راسہ من الرکوع ولا یرفع بین السجدتین(۱)
اس عبارت سے صاف معلوم ہوتاہے کہ نسخہ دیوبندیہ میں ''فلا یرفع'' کا اضافہ خود ساختہ ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں مصنف ابن ابی شیبہ کو کراچی میں جب بمبئی کے طبع شدہ نسخہ کا عکس لے کر شائع کیا گیا تو اس میں بھی متعصب دیوبندی ناشر نے وائل بن حجر رضی اللہ عنہم کی روایت کے آخر میں تحت السرۃ کے خود ساختہ الفاظ بڑھا دیئے۔ تشابھت قلوبھم۔
اس روایت کی سند میں جلدی اور عجلت کی وجہ سے حدثنا سفیان کے الفاظ بھی چھوڑ دیئے گئے تھے اور جس کا احساس مولف کو بھی بہت بعد میں ہوا کیونکہ غلطیوں کا جو چارٹ کتاب کے آخر میں ہے اس میں بھی اس غلطی کا ازالہ نہیں کیا گیا ہے۔
اور اسی روایت کے بعد امام الحمیدی کا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کے اس عمل کا ذکر کرنا کہ ''وہ رفع الیدین کے تارک کو اس وقت تک کنکریوں سے مارتے تھے جب تک وہ رفع الیدین نہ کرنے لگتا''۔ اس سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ امام الحمیدی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی اثبات رفع الیدین کی حدیث اور پھر ان کا عمل ذکر کر کے گویا اس مسئلے پر مہر ثبت کرنا چاہتے ہیں اور اسی بنا پر امام الحمیدی خود بھی رفع الیدین پر عمل پیرا تھے۔
اسی حدیث کو امام ابوعوانہ نے سفیان کے دوسرے شاگردوں سے نقل کر کے بعد میں امام حمیدی کی سند سے بھی اس حدیث کے ابتدائی الفاظ نقل کر دیئے اور پھر مثلہ کہہ کر اشارہ کر دیا کہ امام حمیدی کی حدیث کے الفاظ بھی اسی طرح ہیں۔ پس اس سے بھی ثابت ہوا کہ فلا یرفع کے الفاظ خود ساختہ اور خانہ ساز ہیں۔
نسخہ ظاہریہ تمام نسخوں سے زیادہ صحیح اور قابل اعتماد ہے اور ایک دوسرے نسخے میں بھی یہ روایت نسخہ ظاہریہ کی طرح ہے۔ جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی روایت کو امام حمیدی رحمہ اللہ نے ایک اور سند سے بھی بیان کیا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ:
1-مسند حمیدی کے مطبوعہ نسخہ کی متنازعہ عبارت محرف اور مصحف ہے۔
2-دیگر ثقات نے اسے سفیان بن عیینہ سے رفع الیدین عندالرکوع و بعدہ کے اثبات کے ساتھ روایت کیا ہے لہٰذا اگریہ عبارت مسند الحمیدی کے تمام قلمی نسخوں میں بھی موجود ہوتی تو بلاشک و شبہ تصحیف و خطاء فاحش تھی۔
3-چونکہ ابتدائی صدیوںمیں اس خودساختہ روایت کا نام و نشان تک نہیں تھا اس لئے اسے کسی نے بھی پیش نہیں کیا۔
4-جن لوگوں نے زوائد پر کتابیں لکھی ہیں مثلاً المطالب العالیہ فی زوائد المسانید الثمانیہ لابن حجر (وفیھا مسند الحمیدی) اتحاف السادۃ المہرۃ الخیرۃ للبوصیری۔
ان میں سے کسی نے بھی اس روایت کو پیش نہیں کیا اگر ہوتی تو پیش کرتے۔
5-مکتبہ ظاہریہ کے مسند حمیدی کے قدیم مخطوطے میں یہ حدیث علی الصواب (رفع الیدین عند الرکوع و بعدہ کے اثبات کے ساتھ) موجود ہے۔
6-حافظ ابوعوانہ یعقوب بن اسحق الاسفرائنی نے مسند ابی عوانہ (ج۲ ص۹۱) میں اسے امام شافعی اور امام ابوداو'د کی روایت کے مثل قرار دیا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کی روایت عندالرکوع اور بعدہ کے رفع الیدین کے اثبات کے ساتھ ''کتاب الام'' میں موجود ہے۔ (ج۱ ص۱۰۳ طبع بیروت)۔
ابوداو'د (غالباً صحرانی) کی بواسطہ علی (بن عبداللہ المدینی) والی روایت ہمیں نہیں ملی مگر سنن ابی داو'د میں احمد بن حنبل والی روایت اثبات رفع الیدین عندالرکوع و بعدہ کے ساتھ موجود ہے۔ (سنن ابی داو'د جلد۱ صفحہ ۱۱۱)۔
اور علی بن عبداللہ (المدینی) والی روایت اثبات رفع الیدین عندالرکوع و بعدہ کے ساتھ جزء رفع الیدین للبخاری میں موجود ہے۔ (ص۱۷)۔
7-اس حدیث کے مرکزی راوی امام سفیان بن عیینہ سے رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع الیدین باسند صحیح ثابت ہے۔ (دیکھئے: سنن ترمذی جلد۲صفحہ۳۹۔ حدیث۲۵۶۔ بتحقیق احمد شاکر رحمہ اللہ )۔
8-امام حمیدی بھی رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع الیدین کے قائل ہیں۔ (جزء رفع الیدین للبخاری) بلکہ وجوب کے قائل تھے۔ (الاستذکار لابن عبدالبر جلد۲ صفحہ۱۲۶)۔
خلاصہ یہ ہے کہ مسند الحمیدی میں زہری عن سالم عن ابیہ والی روایت رفع الیدین کے اثبات کے ساتھ ہے۔ نفی کے ساتھ نہیں ہے۔ لہٰذا نسخہ دیوبندیہ کی خودساختہ اور خانہ ساز عبارت موضوع و باطل ہے اور اسے پیش کرنا انتہائی ظلم، پرلے درجے کی خیانت اور سینہ زوری ہے۔
 
شمولیت
اکتوبر 28، 2015
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
58
مسند ابی عوانہ میں تحریف
محترم! میں نےاس کا مخطوطہ ملاحظہ کرلیا ہےاور میں اس پر غور کر رہاں ہوں۔
رفع الدین کے خلاف پہلی کاوش۔ مسند حمیدی میں تحریف
لیکن مسند حمیدی کے مخطوطے کا جو عکس آپ نے دیا ہے، اس کو آپ پڑھ سکتے ہیں؟؟

جب بات مطبوعات سے بھی آگے بڑھ کر مخطوطات تک پہنج جائے تو پھر شاملہ کا حوالہ مناسب نہیں ہوتا۔
پھر آپ نے مطبوعات کیوں ذکر کی ہیں کیونکہ آپ کے بقول تو بات مطبوعات سے بہت آگے نکل گئی ہے حالانکہ میں نے آپ سےصرف مخطوطات مانگی تھیں!
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اکتوبر 28، 2015
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
58
شاملہ والے اگر محرفین کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تو ان کے لیے یہ بڑی بات نہیں تھی ۔ لیکن شاملہ میں موجود بنیادی کتابیں ان لوگوں کی زیر نگرانی ٹائپ ہوتی ہیں جنہیں ’’ کتاب ‘‘ اور ’’ مصنف ‘‘ کی حرمت کا پاس ہوتا ہے ، البتہ یہ کام ایسا ہے کہ اس میں غلطی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ، لہذا محل نزاع میں شاملہ کا حوالہ درست نہیں ۔
اگر تو شاملہ پر اتنا ہی لطف و کرم تھا اور میرا گمان ٹھیک بھی تھا کہ شاملہ کے منتظمین آپ کے اپنے لوگ ہیں تو پھر اس پر جملے کسنا درست نہیں۔ اگر ان کو اتنا ہی کتاب اور مصنف کی حرمت کا اتنا ہی پاس تھا تو پھر اپنے شاملے میں آپ کے بقول محرف نسخے کیوں شامل کرتے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ غلطی سے ہو گیا ہے۔ محل نزاع تو تب ہوتا جب آپ کو اس پر اعتماد نہ ہوتا، ایک طرف اس کی توثیق دوسری طرف تشکیک۔

ایسے ویسے کیسے ، ان سب سوالوں کے جواب کا میں پابند نہیں ہوں ، جن پر یہ الزام ہے ، ان سے ان سوالوں کے جواب لیں ۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ کلام کی طوالت کی بجائے مفید ہونے پر توجہ دیا کریں ۔
یوں آپ کی گلوخلاصی نہیں ہوسکتی جب تک آپ ان سوالات کے جوابات نہیں دیں گے، آپ ان کے جوابات کے پابند ل بلکہ مقروض ہیں۔ کیا یہ کوئی مذاق ہے کہ جس کسی پر آپ نے الزام لگا دیا، اس کو بغیر تحقیق قبول کر لیا جائے۔ آپ کے دعوے جب تک علم و تنقید کی کسوٹی پر نہیں پرکھے جائیں گے ایسے کیسے آپ "ایسے ویسے" ہانک کر چھوٹ سکتے ہیں۔ یہ آپ لوگوں کے معیار ہیں کسی بات کو ثابت کرنے کے۔

متن حدیث مین تحریف کے الزام کی دلیل تو مخطوط ہے ، لیکن اس باب والی تحریف کے الزام کی بنیاد کیا ہے ؟ ایک دفعہ پھر گزارش بات جو بھی کریں دلیل کے ساتھ ۔خود ساختہ احتمالات سے تحقیقی موضوع پراگندہ نہ کریں ۔
دلائل کیلئے سمجھ چاہئے، صحیح بات آپ کے سر سے اوپر گزر جاتی ہے۔ میں نے تحریف کا دعوی نہیں کیا خدا کے بندے، میں نے دو باتیں آپ کے سامنے رکھی آپ ہی کی بات کو بنیاد بنا کر کہ تحریف کرنے والے نے غلط باب میں غلط حدیث داخل کردی۔ میں نے کہا، محرف بڑا ہوشیار ہوتا ہے، وہ ترجمۃ الباب میں اول نمبر پر تحریف کرے گا۔ خیر آپ کو یہ باتیں سمجھ نہیں آئيں گی۔ ۔۔
جب تک یہ سارے نسخ دستیاب نہیں، میں فی الحل توقف کرتا ہوں اور ان کی کھوج میں رہتا ہوں کہ کسی وقت مجھے آج دنیا میں دستیاب جتنے پرانے نسخ ہیں، ان کی کاپیوں تک پہنچ سکوں۔ فانتظر۔
ہاں یہ بھی کہتا ہوں، اگر آپ کی بات پھر بھی صحیح ثابت ہوئی تو اس کو قبول کرنے سے نہیں گھبراوں گا۔

یہ جوابی کاروائی ہے ، آپ پیار محبت سے بات کریں ، ان شاءاللہ بات کرکے خوشی محسوس کریں گے ۔
معذرت کے ساتھ:
ہم پیار کریں گے تو تم پیار کرو گے
ہم روٹھ جائیں گے تو تم روٹھ جاؤ گے
کیا ہی کینہ پرور ی ہے میرے یار!
ہم تو سجھے تھے کہ تم روٹھ کر بھی آخر منا لوگے،،،،،،،،،
آپ شاید انٹرنیٹ کی دنیا میں نئے ہیں ، ورنہ میں اوپر لنک دے چکا ہوں
ضروری ہے کہ آپ کے فورم پر کوئی نیا آئے وہ انٹرنیٹ پر بھی نیا ہو۔ میری بات کا سیدھا جواب بس لنک کی طرف اشارہ کرنا تھا۔
 
Last edited by a moderator:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
عظیم محدث اور ثقہ امام اس پر عنوان کیا قائم کرتے ہیں :
بَيَانُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ قَبْلَ التَّكْبِيرِ بِحِذَاءِ مَنْكِبَيْهِ، وَلِلرُّكُوعِ وَلِرَفْعِ رَأْسِهِ مِنَ الرُّكُوعِ، وَأَنَّهُ لَا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ
گویا امام صاحب نے باب قائم کرکے یہ بات ثابت کردی ہے کہ یہ روایت رفع الیدین کی دلیل ہے نہ کہ ترک رفع الیدین کی ۔
امام صاحب نے باب باندھا ہے رفع الیدین کے اثبات کا ، اس کے تحت وہ رفع الیدین کے اثبات کی دلیل لائیں گے یا ترک کی ؟
صحيح بخارى: كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ: باب الأخذ باليدين: وصافح حماد بن زيد بن المبارك بيديه
عن ابن مسعود يقول علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم وكفي بين كفيه التشهد كما يعلمني السورة من القرآن التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله وهو بين ظهرانينا فلما قبض قلنا السلام يعني على النبي صلى الله عليه وسلم
اس حدیث میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ دو ہاتھ سے مصافحہ کا باب باندھا ہے اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث لائے ہیں۔ مگر ”لا مذہب“ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے خلاف ہیں اور جب ان کو اس کا حوالہ دیا جاتا ہے تو کہتے ہی کہ یہ حدیث تو تشہد سکھانے کی ہے مصافحہ کی نہیں۔
اس پر بھی تبصرہ فرمادیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
صحيح بخارى: كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ: باب الأخذ باليدين: وصافح حماد بن زيد بن المبارك بيديه
عن ابن مسعود يقول علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم وكفي بين كفيه التشهد كما يعلمني السورة من القرآن التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله وهو بين ظهرانينا فلما قبض قلنا السلام يعني على النبي صلى الله عليه وسلم
اس حدیث میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ دو ہاتھ سے مصافحہ کا باب باندھا ہے اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث لائے ہیں۔ مگر ”لا مذہب“ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے خلاف ہیں اور جب ان کو اس کا حوالہ دیا جاتا ہے تو کہتے ہی کہ یہ حدیث تو تشہد سکھانے کی ہے مصافحہ کی نہیں۔
اس پر بھی تبصرہ فرمادیں۔
بھٹی صاحب ، تھوڑا سا دماغ پر بھی زور ڈال لیا کریں ، ابو عوانہ نے جو باب باندھا ہے ، اس کے نیچے اثبات رفع الیدن کی حدیث ہونی چاہیے ، کیونکہ انہوں نے باب اثبات کا باندھا ہے ۔
لیکن محرفین حضرات اس سے نیچے حدیث میں تحریف کرکے اس کو ’’ ترک ‘‘ کی دلیل بنا لیتے ہیں ، امام صاحب کا ترجمہ باب پیش کرنا صرف اس ڈھٹائی کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے ۔
لیکن امام بخاری علیہ الرحمہ نے جو باب باندھا ہے ، وہ اس سے بالکل مختلف ہے ، محدث و فقیہ کے فہم سے اختلاف کرنا الگ بات ہے ، لیکن اسی کی ذکر کردہ حدیث کو ’’ تحریف ‘‘ کرکے اس کا تماشا بنادینا یہ الگ ’’ جرم ‘‘ ہے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
بھٹی صاحب ، تھوڑا سا دماغ پر بھی زور ڈال لیا کریں ، ابو عوانہ نے جو باب باندھا ہے ، اس کے نیچے اثبات رفع الیدن کی حدیث ہونی چاہیے ، کیونکہ انہوں نے باب اثبات کا باندھا ہے ۔
محترم! کیا تمام محدثین ہر ایک کے لئے مختلف ابواب باندھتے ہیں یا کہ بعض اوقات ایک عنوان کے تحت مختلف احادیث بھی لے آتے ہیں؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
محترم! کیا تمام محدثین ہر ایک کے لئے مختلف ابواب باندھتے ہیں یا کہ بعض اوقات ایک عنوان کے تحت مختلف احادیث بھی لے آتے ہیں؟
اگر عنوان محتمل ہو ، تو دونوں طرح کی احادیث بھی لے آتے ہین ۔
 
Top