• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کسی خاص آدمی کی طرف مسجد کی نسبت

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
بعض اہل علم نے کسی معین شخص کے نام سے مسجد بنانے یا اس کی طرف مسجد کو منسوب کرنا مکروہ قرار دیا ہے مگر جمہور علماء کے نزدیک مسجد کا انتساب کسی فرد معین کی طرف کرنا جائز ہے بلکہ ایک مسجد کو دوسرے مساجد سے ممیز کرنے کے لئے انبیاء کرام ، علمائے عظام، متقین و صالحین یا قبائل کی طرف منسوب کرنے میں جمہور کے نزدیک وسعت خیالی پائی جاتی ہے اور اس میں صراحۃ علت قادحہ نہیں پائی جاتی ۔

قرآن کریم میں موجود ہے َ

{وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُو مَعَ اللَّهِ أَحَداً}[الجن:18].

ترجمہ : اور یہ مساجد اللہ کے گھر ہیں ، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔

اس لئے واقعتا مساجد اللہ کا گھر اور اللہ کی ملکیت ہیں مگر تعارف کے لئے مسجد کو کسی فرد کی طرف منسوب کرنا یا مسجد بنانے والے کی طرف انتساب کرنا تاکہ لوگ اسے دعا دیں اس میں کوئی حرج نہیں ۔

اور اس کے جواز کے دلائل بھی ملتے ہیں ، چنانچہ مساجد کے متعلق تحقیق کرنے سے مندرجہ ذیل امور سامنے آتے ہیں۔

(1) مسجد بنانے والے کی طرف انتساب : یہ جائز ہے جیساکہ مدینہ طیبہ کی مسجد نبی ﷺ کے نام سے موسوم ہے ۔

(2) قبائل یا جماعت کی طرف انتساب: یہ بھی جائز ہے مثلا مسجد قبا جو مدینے میں ہے ، مسجد بنی زریق جس کا ذکر صحیحین میں ہے اور مسجد السوق جس کا ذکر ترجمۃ البخاری میں ہے ۔

(3) مسجد کا کسی وصف کی طرف انتساب : یہ بھی جائز ہے مثلا المسجد الحرام اور المسجد الاقصی وغیرہ

(4) مسجد کا غیر حقیقی نام کی طرف انتساب: یہ اس زمانے میں بکثرت موجود ہے کیونکہ مساجد کی بتہات ہوگئی ہے ، ایک ہی بستی میں کئی کئی مساجد ہیں ۔ مثلا مسجد ابوبکر، مسجد عمر، مسجد عثمان ارو مسجد علی رضی اللہ عنہم ۔

(5) اللہ کی طرف مسجد کا انتساب: مسجد کو اللہ کی طرف منسوب کرنا بھی آج کل پایا جاتا ہے جیساکہ مسجد القدوس، مسجد السلام، مسجدالرحمن ، حالانکہ مساجد اللہ ہی کے گھر ہیں اسے اختصاص سے ذکر کرنے کا قرون مفضلہ میں ثبوت نہیں ملتا اس لئے اس سے بچنا اولی ہے ۔

(6) کسی بدعتی کی طرف انتساب: یہ قطعی جائز نہیں کہ مسجد کو کسی بدعتی یا فاسق و فاجر کی طرف منسوب کیا جائے کیونکہ اللہ کا گھر ہر عیب سے پاک ہے اور پھر اس میں ان کی تعظیم ظاہر ہوتی ہے اور عوام کو ان کے مسلک و عقیدہ سے دھوکہ ہوسکتا ہے ۔


بعض علماء کے موقف و آرا:
٭ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے :" بَاب هَلْ يُقَال مَسْجِد بَنِي فُلاں" پھر ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بنی زریق ذکر کرتے ہیں۔

٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی روشنی میں مسجد بنانے والے یا نماز پڑھنے والے کی طرف انتساب کو جائز قرار دیا ہے ۔

٭ ابن العربی میں احکام القرآن میں کہا کہ گرچہ مساجد اللہ کا گھر ہیں مگر یہاں غیر کی طرف انتساب تعارف کے لئے ہے یعنی کہا جائے گا مسجد فلاں

٭ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ تعارف کے طور پر مسجد فلاں یا مسجد بنی فلاں کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔

خلاصہ کلام مسجد کو اس کے بنانے والے کی طرف منسوب کرنا جائز ہے ۔


واللہ اعلم
 
Top