• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کسی شخص پر جھوٹا الزام لگانا درست ہے؟

شمولیت
اکتوبر 03، 2014
پیغامات
298
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
96
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سوال : کیا لڑائی جھگڑے سے قتل ہونے یا قتل کرنے سے بچنے کے لیے کسی شخص پر جھوٹا الزام لگانا درست ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سوال : کیا لڑائی جھگڑے سے قتل ہونے یا قتل کرنے سے بچنے کے لیے کسی شخص پر جھوٹا الزام لگانا درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جوابــــــــــ٭٭
پہلے یہ سمجھ لیں کہ :
الزام سے مراد اگر "بہتان " ہے ،تو بہتان بہت خطرناک اور عظیم یعنی کبیرہ گناہ ہے ،
عربی میں بہتان دراصل کسی کے ذمہ ایسی برائی لگانا جو اس میں نہیں ، یعنی جھوٹا الزام لگانا ،
سب سے عظیم معلم اخلاق پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
قال صلى الله عليه وسلم (أَتَدْرُونَ مَا الْغِيبَةُ؟) قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: (ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ) قِيلَ: أَرَأَيْتَ إنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ؟ قَالَ: (إنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدْ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدْ بَهَتَّهُ) أخرجه مسلم (2589) .
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کیا جانتے ہو غیبت کسے کہتے ہیں؟) صحابہ نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اپنے بھائی کا ایسے انداز میں تذکرہ کرو جو اسے پسند نہیں ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا گیا: اگر جو بات میں کہہ رہا ہوں وہ میرے بھائی میں موجود ہے، تب بھی غیبت ہوگی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر آپ کی کہی ہوئی بات اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی ہے اور اگر اس میں وہ چیز موجود ہی نہیں ہے تو یہ تم نے بہتان بازی کی ہے) مسلم: (2589)
اور دوسری حدیث میں فرمایا :
وأخرج مالك في الموطأ (3/150) أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا الْغِيبَةُ؟ فَقَالَ: (أَنْ تَذْكُرَ مِنْ الْمَرْءِ مَا يَكْرَهُ أَنْ يَسْمَعَ) فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَإِنْ كَانَ حَقًّا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: (إذَا قُلْتَ بَاطِلًا فَذَلِكَ الْبُهْتَانُ) ، وصححه الشيخ الألباني في السلسلة الصحيحة (1992)
امام مالک رحمہ اللہ موطا میں بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: غیبت کسے کہتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کسی شخص کی ایسی بات ذکر کرو جسے وہ سننا پسند نہیں کرتا) تو اس نے کہا: اللہ کے رسول! چاہے وہ سچ ہی کیوں نہ ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر تم جھوٹ بولتے ہو تو یہ بہتان بازی ہے)
اس حدیث کو البانی نے سلسلہ صحیحہ (1992) میں صحیح قرار دیا ہے ؛
ــــــــــــــــــــــــــــــ
بہتان دراصل ایسے جھوٹ کو کہا جاتا ہے جس سننے والا حیران و ششدرہ رہ جائے ،
علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ:
قال الله عزّ وجل: فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ[البقرة/ 258] ، أي: دهش وتحيّر،
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ایک کافر کے متعلق بتایا کہ وہ ایک عظیم حقیقت کا جواب نہ پا کروہ حیرت اور دہشت زدہ بت بن کر رہ گیا ؛
وقد بَهَتَهُ.یعنی اسی سے کسی پر جھوٹے الزام کو بہتان لگانا بھی کہتے ہیں ،جیسا کہ سورۃ النور میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ پر جھوٹے الزام کو بہتان عظیم کہا گیا ،
قال عزّ وجل: هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ[النور/ 16] أي: كذب يبهت سامعه لفظاعته.
اے مومنو ! تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منھ سے نکالنی بھی لائق نہیں۔ اللہ پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے۔( سورۃ النور 16)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حدیث نبوی میں بہتان طرازی کو کبائر میں شمار کیا ہے :
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم خمس ليس لهن كفارة الشرك بالله وقتل النفس بغير حق وبهت مؤمن والفرار من الزحف ويمين صابرة يقتطع بها مالا بغير حق ))
ترجمہ :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : پانچ اعمال ایسے جن کا (توبہ کے علاوہ )کفارہ نہیں ، (1) اللہ کے ساتھ شرک کرنا (2) ناحق کسی کو قتل کرنا (3) کسی مومن پر بہتان لگانا (4) دوران جہاد پیٹھ پھیر کر فرار ہونا (5) جھوٹی قسم سے کسی کا مال ہڑپ کرنا ۔
(صحيح الترغيب والترهيب )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ صحیح ہے کہ بعض معاملات کی اصلاح کیلئے کئی مقامات واقعی ایسے ہیں جہاں ( بات بنانی پڑتی ہے ) اس کے بغیر اصلاح احوال اور معاشرت مشکل ہوجاتی ہے
اور حدیث رسول ﷺ میں اس کی اجازت منقول ہے ، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :
عن أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ رضي الله عنها ، أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ : ( لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ وَيَقُولُ خَيْرًا وَيَنْمِي خَيْرًا ) . قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : وَلَمْ أَسْمَعْ يُرَخَّصُ فِي شَيْءٍ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ كَذِبٌ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ : الْحَرْبُ ، وَالْإِصْلَاحُ بَيْنَ النَّاسِ ، وَحَدِيثُ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ وَحَدِيثُ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا
(وروى مسلم (2065)
سیدہ ام كلثوم بنت عقبہ بن ابى معيط رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" جو شخص لوگوں كے مابين صلح كرانے كے ليے خير كى بات كہے اور اچھى بات نقل كرے وہ جھوٹا نہيں ہے "
(امام مالک اور دیگر بے شمار ائمہ اسلام کے استاد ) امام ابن شھاب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اہل اسلام کو تین مقامات کے علاوہ جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں : (۱) جنگ ميں، اور(۲) لوگوں كے مابين صلح كرانے كے ليے،
اور (۳)آدمى كا اپنى بيوى اور بيوى كا اپنے خاوند سے بات چيت كرنے ميں "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2065 ).

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ رضي الله عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( لَا يَحِلُّ الْكَذِبُ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ : يُحَدِّثُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ لِيُرْضِيَهَا ، وَالْكَذِبُ فِي الْحَرْبِ ، وَالْكَذِبُ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ ) .
رواه الترمذي (1939) وأبو داود (4921) والحديث صححه الألباني في صحيح الترمذي .
اسماء بنت يزيد رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تين جگہوں كے علاوہ كہيں جھوٹ بولنا حلال نہيں: خاوند اپنى بيوى كو راضى كرنے كے ليے بات كرے، اور جنگ ميں جھوٹ، اور لوگوں ميں صلح كرانے كے ليے جھوٹ بولنا "
لیکن ملحوظ رہے :
جھوٹ کی اجازت عمومی نہیں ، یعنی ہر وقت ، ہر حالت ایسا کرنا جائز و روا نہیں بلکہ جیسا کہ :
پہلی روایت میں امام ابن شہاب کاقول (وَحَدِيثُ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ وَحَدِيثُ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا ) یعنی خاوند ، بیوی کے درمیان ایسا کلام جو ان کے تعلق پر اثر انداز ہو ،خواہ وہ بات انکی ذاتی صفات کے متعلق ہو ( یعنی ایک دوسرے کی خوبصورتی ، عقلمندی ، معاملہ فہمی بتانا ) یا انکے ان مباح اعمال کے متعلق ہو ، جن کے متعلق واضح سچ مہنگا پڑ سکتا ہے ، تو وہاں ( بات بنانی پڑے گی ) جو گناہ نہیں ،۔۔۔۔۔۔۔
جیسے فریقین کے درمیان صلح کیلئے اپنی طرف سے ایک فریق کو یہ کہنا دوسرا فریق تمہارے متعلق اچھے خیالات اور صلح کی خواہش رکھتا ہے ، یا وہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہے ، وہ جھگڑے کو بڑھانے کی خواہش نہیں رکھتا ،

لیکن یہ اجازت ان صورتوں میں نہیں ؛
جہاں
(۱) ایک دوسرے کے حق کا معاملہ ہے ،
(2) کسی پر ناحق بہتان لگایا جائے ،کسی کی شخصیت مجروح کی جائے ،
ــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:
Top