کسی چیز کا حکم نہ صرف اسی چیز کا حکم ہے بلکہ جس پر وہ چیز موقوف ہو ،
اس کا بھی ہے:
جب مطلق واجب کا وجود کسی دوسری چیز پر موقوف ہو تو اس واجب کا حکم اس دوسری چیز کو بھی شامل ہوتا ہے جس پر اس واجب کا وجودموقوف ہو، جیسے: وضو، دراصل نماز کا حکم وضو کے حکم کو بھی اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے اور یہی اصولیوں کے اس قول کا مطلب ہے کہ : ”کسی چیز کا حکم نہ صرف اسی چیز کا حکم ہوتا ہے بلکہ اس چیز کا بھی حکم ہوتا ہے جس کے بغیر یہ چیز پوری نہیں ہوسکتی“ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسری چیز کا ذکر چونکہ ضمنی طورپر اس میں آچکا ہے لہٰذا بغیر کسی مستقل دلیل کے وہ چیز واجب ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ اس دوسری چیز کےلیے بھی الگ سے دلائل موجود ہوتے ہیں، باوجود اس کے کہ واجب کےلیے جو خاص حکم ہے وہ اس کے بھی وجوب کا تقاضا کرتا ہے، جس پر یہ واجب موقوف ہے۔
یہ ساری بحث واجب مطلق (وہ امر جو ہر قسم کی قید سے خالی ہو) کے بارے میں ہے۔اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ نماز کا واجب ہونا ہر قسم کی قید سے ہٹ کر ہے لیکن اس کا حکم درحقیقت اس چیز کے بھی واجب ہونے کاتقاضا کرتا ہے جس کے بغیر یہ حکم پورا نہیں کیا جاسکتا، اور وہ دوسری چیز وضو ہے۔
باقی رہا مقید واجب تو وہ اس طرح نہیں ہے۔ مثال کے طور پر زکاۃ کا واجب ہونا نصاب کا مالک بننے سے مقید ہے ، لیکن یہاں پر زکاۃ ادا کرنے کا حکم نصاب کے حصول کا تقاضا نہیں کرتا کہ بندہ مال حاصل کرکے اس میں سے زکاۃ نکالے، کیونکہ یہ تمام کام وجوب کو پورا کرنے کےلیے ہے نہ کہ واجب کو ۔ اسی لیے اصولی کہتےہیں کہ جس چیز کے بغیر واجب مکمل نہ ہو ، وہ چیز بھی واجب ہوتی ہے اور جس چیز کے بغیر وجوب مکمل نہ ہو ، وہ چیز واجب نہیں ہوتی۔ تو جو نماز ہے اس کا وجوب تو باقی رہتا ہے لیکن زکاۃ اس وقت تک واجب نہیں ہوتی جب تک نصاب حاصل نہ ہوجائے۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر