• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کس بات کی خوشی؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حیات عبداللہ کا خصوصی کالم "ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔۔۔؟"

کیا آپ کالم نگار کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں ؟؟؟

‪#‎UrduArtical‬

2015 کا سال کچھ لوگوں کی زندگیوں میں رعنائی اور زیبائی تو کسی کی زیست میں تلخ اور جاں سوز سانحات گھول کر رخصت ہو گیا ۔ کتنے ہی لوگ جو ہماری زندگیوں کا ایسا خاصہ اور دلوں کا ایسا جھومر تھے کہ جن کے بغیر خوشیوں کے تمام رنگ مدھم اور پھیکے محسوس ہوتے تھے ہمیں سسکتا تڑپتا چھوڑ کر یوں رخصت ہو گئے کہ ہم انہیں ساری زندگی بھی کھوجتے اور تلاشتے رہیں تب بھی ایک جھلک تک دکھائی نہ دے سکے گی۔

8 جنوری کی ٹھٹھرتی یخ بستہ رات کے اڑھائی بجے تھے کہ برادرم خالد وقار نے دروازے پر دستک دی کہ ساجدہ بھابھی فوت ہو گئی ہیں تو جسم و جاں لرز گئے کہ اچانک آنے والی افتاد انسان کو یک دم ہی نڈھال اور ادھ مؤا کر ڈالتی ہے۔ ابھی اس سانحہ ارتحال کے دکھ ماند نہیں پڑے تھے کہ 12 مئی کا وہ المناک دن بھی آیا جب برادرم خالد وقار کو دل کا دورہ پڑا ، سسکیوں اور ہچکیوں کی وہ باز گشت مجھے کبھی بھول ہی نہ پائے گی جس سے کارڈیالوجی سنٹر بہاولپور کے درودیوار گونج رہے تھے۔ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ جو سورج کی رو پہلی کرنوں جیسے تابناک چہروں کو چھوڑتی ہے نہ چودھویں کے چاند سا حسن و جمال رکھنے والوں کو معاف کرتی ہے۔

لیکن ذرا ٹھہر ئیے! چند ثانیوں کے لئے سوچ اور فکر کے اس پہلو پر بھی غور کیجئے کہ بہت جلد ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے جب ہماری اپنی سانسیں بھی اکھڑ جائیں گی۔ ہماری نبضیں بھی ڈوبنے لگیں گی۔ ہماری آنکھیں بھی پتھرا جائیں گی اور موت کا فرشتہ ہماری سانسوں کو بھی کھینچ لے گا۔ اور ہمارا دل بھی آخری بار دھڑک کر ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا۔ پھر انہی مساجد میں ہماری نماز جنازہ کا اعلان کیا جائے گا۔ ہمیں بھی لکڑی کے تختے پر لٹا کر غسل دیا جائے گا۔ہمیں بھی کفن پہنایا جائے گا۔ہمیں بھی کندھوں پر اٹھا کر قبرستان لے جاکر دفن کر دیا جائے گا۔ زندگی کی ان گنت ساعتیں ہمارے ساتھ گزارنے والے ہمارے اپنے لاڈلے اور چہیتے لوگ ہم پر منوں مٹی ڈال کر ہمیشہ کے لئے دفن کر دیں گے۔ پھر اندھیری قبر ہوگی اور اللہ کا فرشتہ ہوگا اور ہم ہوں گے۔ سوچیے! پھر کیا بنے گا؟ کون ہمارے کام آئے گا کون ہمارے خوف اور دہشت کو کم کرے گا؟ وہ بھی تو ہمارے ساتھ نہ ہوں گے جو دنیا میں ہمیں جان سے بڑھ کر پیارے تھے۔ بس ہم اکیلے ہوں گے۔

دنیا کی اس عارضی اور مختصر زندگی میں ہم محبتوں کی پرتوں کو کھوجتے کھولتے اور کھنگالتے معلوم نہیں کن کن انجان پگڈنڈیوں پر بھٹک اور پھر لڑھک جاتے ہیں۔ ہم خواہشوں کے اسیر ٹھہرے۔ ہم مادیت پسندی کے خوگر جو ہیں، سوہم اپنی گراں مایہ محبتوں کی ضیا پاشیوں کے حق داران لوگوں کو ٹھہرا لیتے ہیں کہ جنہیں بوئے وفا چھو کر بھی نہیں گزری ۔۔۔ ہم ایسے لوگوں پر سب کچھ وار دیتے ہیں کہ احسان فراموشی جن کی سرشت اور خو میں رچی بسی ہوتی ہے۔ غوطہ زن محبت ظاہری حسن و جمال سے مرعوب ہو کر ایسے لوگوں پر اپنی متاع زیست تک نچھاور کر ڈالتے ہیں کہ جن کی رگوں میں بے بسی اور شریانوں میں بے مروتی دوڑتی پھرتی ہے۔ خارزار حیات میں کتنی بار یوں ہوتا ہے کہ آپ کسی کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں۔ آپ اسے راہوں کے نشیب و فراز اور راستوں کے سنگریزوں سے بچنے کا ہنر اور سلیقہ سمجھاتے ہیں اور پھر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہی شخص آپ کو لنگڑا سمجھنے لگتا ہے۔ جی ہاں! کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کسی کو حروف ، پھر الفاظ۔ پھر جملے اور پھر فصاحت و بلاغت کے اصول و قوانین سے روشناس کراتے ہیں اور وہی آپ کو گونگا کہنے لگ جاتا ہے۔ آپ اُس شخص کی بے مروتی پر کس قدر کڑھ اور کٹ کر رہ جاتے ہوں گے؟ ممکن ہے آپ نے بھی کسی کی محبت کو وقار، اعتبار اور نکھار دیا ہواور پھر؟ اسی نے آپ کی چاہت کی پیٹھ پر تحقیر کے کوڑے برسا دیے ہوں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کے اسباب اور وجوہ کیا ہیں۔۔۔ بات بڑی ہی واشگاف ہے کہ ہم نے محبتوں کے حقیقی حق دار اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ثانوی حیثیت دے دی ہے( معاذ اللہ ) وہ خالق ارض و سما کہ جس نے محبتوں کے آبگینے انسان کے دل میں سجا دیے ۔ وہ اللہ رب العزت جس نے چاہت اور خلوص کے موتی سینوں میں پر ودیے۔ وہ مالک الملک جس نے انسان کے لئے بے پایاں نعمتیں پیدا کیں وہ اللہ عزوجل جس نے انسان کو بڑا ہی خوبصورت پیدا کیا ۔

سنو اے دنیا کے لوگو! سنو اے محبت کے داعیو! اے انسانوں سے وفاؤں کا صلہ مانگنے والو! اے محبت کے عوض محبت کے طلب گارو! تم کسی کی محبت میں اس قدر اندھے کیوں ہو جاتے ہو کہ اپنے اللہ اور جان سے پیارے رسول ﷺ کو بھول جاتے ہو ۔ سنو اے لوگو! محبت کا صلہ اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں دے سکتا،خود اللہ فرماتے ہیں کہ جتنا میں خوش کسی بندے پر اس کے فرض ادا کرنے سے ہوتا ہوں اتنا خوش کسی چیز پر نہیں ہوتا اور بندہ مسلسل نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے۔ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔ اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ چھوتا ہے اور پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔ جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے میں دوڑ کر آتا ہوں۔ و ہ مجھے لوگوں میں یاد کرتا ہے، میں اس سے بہتر لوگوں میں بندے کو یاد کرتا ہوں، اور اس کی دعا قبول کرتا ہوں(بخاری)

سنو اے مومنو! کیا محبت کا بدلہ اس سے بھی بڑھ کر کچھ اور ہو سکتا ہے؟ اور یاد رکھو کہ اللہ وہ واحد ہستی ہے جو ہماری ماں سے بھی ستر گنا زیادہ ہم سے محبت کرتی ہے۔ دنیا میں کوئی اور اتنی محبت کرنے والا ہے تو پیش کرو اور اللہ کی قسم! اللہ کی یہ محبت اس وقت تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی جب تک اس کے نبی حضرت محمد ﷺ کو جان سے بڑھ کر پیار نہ کیا جائے۔ محمد عربی ﷺ کا فرمان ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھے اپنی اولاد، اپنے والدین تمام لوگوں حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبت نہ کرے اور اس محبت کا صلہ بروز قیامت کتنا شاندار ہو گا کہ نبی مکرم ﷺ حوض کوثر پر اپنے ہاتھوں سے جام بھر بھر کر پلائیں گے سوچیے ! کہ اس سے بڑا سعید بخت کون ہوگا؟

اے محبت کے ا مینو! زندگی کے وہ ان گنت لمحات جو تم نے کسی سراب کے پیچھے لٹا دیے۔ آنکھوں سے گرنے والے وہ ارمغان محبت جو تم نے کسی بے مہر اور بے مروت شخص کے لیے بہا دیے ۔آؤ رات کے کسی پہر اس رب کریم کی یاد میں ایک موہوم سی سسکی ، ایک لطیف سی آہ اور خفیف سے آنسو بہا کر تو دیکھو ، دیکھنا سرور اور سکون کے گراں مایہ جذبات رگ وپے میں کس طرح سرایت کرتے ہیں۔اگر ایسا نہ کر سکو تو کبھی خلوت نشیں ہو کر ان ایمان مآب لمحات کے متعلق ضرور سوچنا کہ جب ہم بیت اللہ کو پہلی بار اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو پھر ہماری حالت کیا ہوگی؟ ہم اپنے آنسو کیسے روک پائیں گے ؟ ہماری کس قدر ہچکیاں بند ھ جائیں گی؟ ہم کس قدر روئیں گے ، ہم کس قدر گڑ گڑائیں گے۔ ہم اشکوں کی جھڑی اور آنسوؤں کی دھند میں اس خالق حقیقی سے کیا کچھ مانگتے چلے جائیں گے۔ اس دن تو ہمارے دل میں یہ احساس ٹھاٹھیں مارے گا کہ ہم آج تک محبت کے سرابوں اور خوابوں کا تعاقب کرتے رہے۔ ہم چاہتوں کے راستوں میں کسی مسافر کی طرح بھٹکتے رہے، آنسو بہتے چلے جائیں گے، دل احساس ندامت سے چُور سوچتا چلا جائے گا کہ اصل محبت تو اب ملی ہے ۔ درست منزل تو اب دکھائی دی ہے، اگر ایسا کچھ بھی ہم نے نہ سوچا تو پھر 2015 کی طرح2016 بھی بیت جائے گا۔ بہت جلد یہ زندگی بھی تمام ہو جائے گی اور اگر ہم اللہ کے حضور ایسا دل لے کر حاضر ہوئے کہ جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے ۔ سنو اے وفا کا دم بھرنے والو! لوگوں سے محبت ضرور کرو مگرخدارا اس محبت کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت پر مقدم تو نہ جانو!
 
Top