• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کعبہ میں تہجد کی اذان

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
السلام علیکم

میری اس فورم میں یہ پہلی پوسٹ ہے میرا ایک دوست جو عمرہ کر کے آیا ہے اس نے بتایا ہے کہ کعبہ شریف میں تہجد کی اذان ہوتی ہے۔ میں اس کی تحقیق چاہتا ہوں کہ یہ اذان کیا سنت سے ثابت ہے اور اگر ایسا ہے تو باقی ممالک میں ایسا کیوں نہیں ہوتا ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
السلام علیکم

ابھی تک جواب نہیں آیا۔ کیا اس کا یہ مطلب لے سکتا ہوں کہ
کعبہ شریف میں ایک بدعت رائج ہوگئی ہے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا تہجد کی اذان ثابت ہے...؟

شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 18 July 2012 01:53 PM
آیا حضورﷺسے تہجد کی اذان ثابت ہے اگر ثابت ہے تو اس کی دلیل دیں جو آپﷺ کے وقت میں ایک حضرت بلال ﷜ اور دوسری حضرت ابن ام مکتوم ﷜ کی اذانوں کا ذکر ملتا ہے ان میں جو حضرت بلال ﷜ نے اذان دی ہے آیا وہ تہجد کی اذان ہے یا سحری کھانے کی ہے اگر وہ تہجد کی اذان نہیں تو جو اذان میں حی علی الصلوۃ کے لفظ ہیں ان کا کیا مطلب ہے اگر اس کی تفسیر فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا سے کریں وہ رمضان المبارک کے لیے خاص ہے یا رمضان کے علاوہ بھی دے سکتا ہے۔
اگر پہلی اذ ان کو تہجد کی اذان تسلیم کر لیں پھر وہ بدعت ہو گی یا عین شریعت کے مطابق صحیح اور درست ہو گی ۔ لہٰذا وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ اپنے مکتوب گرامی میں سوال کرتے ہوئے لکھتے ہیں آیا حضورﷺ سے تہجد کی اذان ثابت ہے ؟ اگر ثابت ہے تو اس کی دلیل الخ
صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن مسعود اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ﷢ نیز صحیح مسلم میں حضرت سمرہ بن جندب چار صحابہ ﷢ کی احادیث مرفوعہ صحیحہ کے ساتھ صبح صادق فجر سے پہلے اذان رسول اللہ ﷺ کے قول اور آپ کی تقریر سے ثابت ہے۔(صحیح بخاری جلد اول ۔ باب الاذان قبل الفجر ص ۸۷ صحیح مسلم جلد اول ص ۳۵۰) ان احادیث سے صرف ایک نیچے درج کی جا رہی ہے باقی آپ خود اصل کتابوں سے ملاحظہ فرما لیں اس مضمون کی احادیث سنن نسائی ، سنن ابی داود ، سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ اور دیگر کتب حدیث میں بھی موجود ہیں ۔
«قَالَ الْبُخَارِيُّ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْلَمَۃَ عَنْ مَالِکٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ رَسُوْلُ اﷲِ r قَالَ : اِنَّ بِلاَلاً یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُنَادِیَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ ۔ قَالَ : وَکَانَ رَجُلاً اَعْمٰی لاَ یُنَادِیْ حَتّٰی یُقَالَ لَہٗ : اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ»صحیح البخاری ۔ المجلد الاول ۔ باب اذان الاعمی اذا کان لہ من یخبرہ ۔ ص ۸۶

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہﷺ نے فرمایا : کہ بے شک رات کو بلال اذان دیتے ہیں کہ پس تم کھائو اور پیو یہاں تک کہ عبداللہ بن ام مکتوم ﷜ اذان دیں وہ فرماتے ہیں کہ وہ اتنی دیر تک اذان نہ کہتے تھے جب تک کہ یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ تو نے صبح کی ہے تو نے صبح کی ہے‘‘

نبی کریم ﷺ کا یہ قول مبارک اس بات میں نص صریح ہے کہ حضرت بلال ﷜ صبح صادق سے قبل رات کو اذان کہا کرتے تھے اس اذان بلال کے بعد ابن ام مکتوم ﷜ کی اذان تک کھانا پینا درست۔ پھر اس حدیث مبارک سے ان دونوں اذانوں کے درمیان وقفہ کا بھی ثبوت ملا جو ایک کے اترنے اور دوسرے کے چڑھنے میں ہی محدود نہیں تھا ورنہ لوگوں کے حضرت ابن ام مکتوم ﷜ کو ’’اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ‘‘ کہنے کا کوئی معنی نہیں بنتا کیونکہ حضرت ابن ام مکتوم ﷜ نابینے تھے بہرے تو نہیں تھے انہی روایات میں چڑھنے اترنے کا تذکرہ ہے ان میں وقفہ کی قلت کو بیان کرنا مقصود ہے تحدید وتعیین مراد نہیں ورنہ اذانوں کا تعدد بے فائدہ ہو کر رہ جاتا ہے تاہم جو اہل علم ازروئے تحقیق وتدقیق دیانۃً یہی سمجھتے ہوں کہ واقعی اترنے چڑھنے سے زیادہ وقفہ نہیں تھا وہ اسی پر عمل کر لیں اس سے کوئی پہلی اذان کی نفی تو نہیں ہوتی بلکہ اس سے تو اس کے ثبوت کی تصدیق وتائید ہی ہوتی ہے البتہ ایسے لوگوں کو یہ بات ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ یہ لوگ اذان فجر اور جماعت فجر کا درمیانی وقفہ اتنا ہی رکھتے ہیں جتنا رسول کریمﷺ کے وقت میں تھا ؟ اگر یہ وقفہ زیادہ کر لیا گیا ہے تو پھر اذان فجر اور اذان قبل از فجر کے درمیانی وقفہ میں چند منٹ کے اضافہ پر اعتراض کیوں ؟ مقصد یہ نہیں کہ اذان فجر اور جماعت فجر میں وقفہ زیادہ رکھنا کوئی سنت ہے غرض صرف یہ ہے ایسے وقفوں میں چند منٹوں کی کمی بیشی میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
رہا پہلی اذان کا نام ’’اذانِ تہجد‘‘ تو وہ کسی حدیث میں وارد نہیں ہوا یہ نام لوگوں نے از خود تجویز کر لیا ہے جیسا کہ لفظ ’’صلاۃ تراویح‘‘ از خود بنا لیا گیا ہے کتاب وسنت سے یہ نام ثابت نہیں البتہ یہ کام (قیام رمضان ، صلاۃ رمضان ، قیام اللیل ، صلاۃ اللیل اور صلاۃ الوتر) فجر سے پہلے والی اذان کی طرح رسول اللہﷺ سے احادیث کثیرہ کے ساتھ ثابت ہے باقی اس اذان کے ایک جملہ ’’حی علی الصلاۃ‘‘ میں لفظ صلاۃ سے اس کے اذان تہجد ہونے پر استدلال درست نہیں کیونکہ یہ لفظ صلاۃ کوئی نماز تہجد ہی کے ساتھ مخصوص نہیں اس میں تو نماز فجر بھی شامل ہے یا صرف نمازِ فجر ہی مراد ہے یا تمام نمازیں مراد ہیں ۔
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ اذان صرف رمضان کے ساتھ خاص ہے مگر ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ’’فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا‘‘ اور ’’ لاَ یَمْْنَعَنَّ اَحَدَکُمْ اَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سُحُوْرِہٖ‘‘ کو اس کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ سحری اور اکل وشرب رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی ہوتے ہیں نبی کریم ﷺ اور صحابہ﷢ غیر رمضان میں بھی روزے کثرت سے رکھا کرتے تھے پھر تعجب ہے کہ اس نظریہ کے حامل بعض حضرات رمضان میں بھی اس اذان سے کڑتے ہیں۔


وباللہ التوفیق

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1617/19/
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
کیا تہجد کی اذان ثابت ہے...؟

شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 18 July 2012 01:53 PM
آیا حضورﷺسے تہجد کی اذان ثابت ہے اگر ثابت ہے تو اس کی دلیل دیں جو آپﷺ کے وقت میں ایک حضرت بلال ﷜ اور دوسری حضرت ابن ام مکتوم ﷜ کی اذانوں کا ذکر ملتا ہے ان میں جو حضرت بلال ﷜ نے اذان دی ہے آیا وہ تہجد کی اذان ہے یا سحری کھانے کی ہے اگر وہ تہجد کی اذان نہیں تو جو اذان میں حی علی الصلوۃ کے لفظ ہیں ان کا کیا مطلب ہے اگر اس کی تفسیر فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا سے کریں وہ رمضان المبارک کے لیے خاص ہے یا رمضان کے علاوہ بھی دے سکتا ہے۔
اگر پہلی اذ ان کو تہجد کی اذان تسلیم کر لیں پھر وہ بدعت ہو گی یا عین شریعت کے مطابق صحیح اور درست ہو گی ۔ لہٰذا وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ اپنے مکتوب گرامی میں سوال کرتے ہوئے لکھتے ہیں آیا حضورﷺ سے تہجد کی اذان ثابت ہے ؟ اگر ثابت ہے تو اس کی دلیل الخ
صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن مسعود اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ﷢ نیز صحیح مسلم میں حضرت سمرہ بن جندب چار صحابہ ﷢ کی احادیث مرفوعہ صحیحہ کے ساتھ صبح صادق فجر سے پہلے اذان رسول اللہ ﷺ کے قول اور آپ کی تقریر سے ثابت ہے۔(صحیح بخاری جلد اول ۔ باب الاذان قبل الفجر ص ۸۷ صحیح مسلم جلد اول ص ۳۵۰) ان احادیث سے صرف ایک نیچے درج کی جا رہی ہے باقی آپ خود اصل کتابوں سے ملاحظہ فرما لیں اس مضمون کی احادیث سنن نسائی ، سنن ابی داود ، سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ اور دیگر کتب حدیث میں بھی موجود ہیں ۔
«قَالَ الْبُخَارِيُّ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْلَمَۃَ عَنْ مَالِکٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ رَسُوْلُ اﷲِ r قَالَ : اِنَّ بِلاَلاً یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُنَادِیَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ ۔ قَالَ : وَکَانَ رَجُلاً اَعْمٰی لاَ یُنَادِیْ حَتّٰی یُقَالَ لَہٗ : اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ»صحیح البخاری ۔ المجلد الاول ۔ باب اذان الاعمی اذا کان لہ من یخبرہ ۔ ص ۸۶

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہﷺ نے فرمایا : کہ بے شک رات کو بلال اذان دیتے ہیں کہ پس تم کھائو اور پیو یہاں تک کہ عبداللہ بن ام مکتوم ﷜ اذان دیں وہ فرماتے ہیں کہ وہ اتنی دیر تک اذان نہ کہتے تھے جب تک کہ یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ تو نے صبح کی ہے تو نے صبح کی ہے‘‘

نبی کریم ﷺ کا یہ قول مبارک اس بات میں نص صریح ہے کہ حضرت بلال ﷜ صبح صادق سے قبل رات کو اذان کہا کرتے تھے اس اذان بلال کے بعد ابن ام مکتوم ﷜ کی اذان تک کھانا پینا درست۔ پھر اس حدیث مبارک سے ان دونوں اذانوں کے درمیان وقفہ کا بھی ثبوت ملا جو ایک کے اترنے اور دوسرے کے چڑھنے میں ہی محدود نہیں تھا ورنہ لوگوں کے حضرت ابن ام مکتوم ﷜ کو ’’اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ‘‘ کہنے کا کوئی معنی نہیں بنتا کیونکہ حضرت ابن ام مکتوم ﷜ نابینے تھے بہرے تو نہیں تھے انہی روایات میں چڑھنے اترنے کا تذکرہ ہے ان میں وقفہ کی قلت کو بیان کرنا مقصود ہے تحدید وتعیین مراد نہیں ورنہ اذانوں کا تعدد بے فائدہ ہو کر رہ جاتا ہے تاہم جو اہل علم ازروئے تحقیق وتدقیق دیانۃً یہی سمجھتے ہوں کہ واقعی اترنے چڑھنے سے زیادہ وقفہ نہیں تھا وہ اسی پر عمل کر لیں اس سے کوئی پہلی اذان کی نفی تو نہیں ہوتی بلکہ اس سے تو اس کے ثبوت کی تصدیق وتائید ہی ہوتی ہے البتہ ایسے لوگوں کو یہ بات ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ یہ لوگ اذان فجر اور جماعت فجر کا درمیانی وقفہ اتنا ہی رکھتے ہیں جتنا رسول کریمﷺ کے وقت میں تھا ؟ اگر یہ وقفہ زیادہ کر لیا گیا ہے تو پھر اذان فجر اور اذان قبل از فجر کے درمیانی وقفہ میں چند منٹ کے اضافہ پر اعتراض کیوں ؟ مقصد یہ نہیں کہ اذان فجر اور جماعت فجر میں وقفہ زیادہ رکھنا کوئی سنت ہے غرض صرف یہ ہے ایسے وقفوں میں چند منٹوں کی کمی بیشی میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
رہا پہلی اذان کا نام ’’اذانِ تہجد‘‘ تو وہ کسی حدیث میں وارد نہیں ہوا یہ نام لوگوں نے از خود تجویز کر لیا ہے جیسا کہ لفظ ’’صلاۃ تراویح‘‘ از خود بنا لیا گیا ہے کتاب وسنت سے یہ نام ثابت نہیں البتہ یہ کام (قیام رمضان ، صلاۃ رمضان ، قیام اللیل ، صلاۃ اللیل اور صلاۃ الوتر) فجر سے پہلے والی اذان کی طرح رسول اللہﷺ سے احادیث کثیرہ کے ساتھ ثابت ہے باقی اس اذان کے ایک جملہ ’’حی علی الصلاۃ‘‘ میں لفظ صلاۃ سے اس کے اذان تہجد ہونے پر استدلال درست نہیں کیونکہ یہ لفظ صلاۃ کوئی نماز تہجد ہی کے ساتھ مخصوص نہیں اس میں تو نماز فجر بھی شامل ہے یا صرف نمازِ فجر ہی مراد ہے یا تمام نمازیں مراد ہیں ۔
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ اذان صرف رمضان کے ساتھ خاص ہے مگر ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ’’فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا‘‘ اور ’’ لاَ یَمْْنَعَنَّ اَحَدَکُمْ اَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سُحُوْرِہٖ‘‘ کو اس کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ سحری اور اکل وشرب رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی ہوتے ہیں نبی کریم ﷺ اور صحابہ﷢ غیر رمضان میں بھی روزے کثرت سے رکھا کرتے تھے پھر تعجب ہے کہ اس نظریہ کے حامل بعض حضرات رمضان میں بھی اس اذان سے کڑتے ہیں۔


وباللہ التوفیق

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1617/19/
السلام علیکم

آپ کا بہت شکریہ

پھر اس سنت کو تمام ملکوںمیں رائج ہونا چاہیئے ۔ واضح رہے کہ اس اذان کے بعد مکہ اور مدینہ دونوں جگہوں پر جماعت بھی ہوتی دو رکعت کی ہے ۔ اب آپ کے مطابق یہ تہجد کی اذان نہیں ہے تو پھر اس کے بعد باجماعت نماز کون سی؟

پھر بھی میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے سعی کر کے جواب مرحمت فرمایا۔
 
Top