محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
کفریہ بدعات کے حاملین کا حکم
ارشاد ربانی ہے :
﴿وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِہٖ فَيَمُتْ وَھُوَكَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۲۱۷ ﴾ (البقرۃ: ۲۱۷)
'' تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہو جائے پھر (اس حالت میں ) مرے کہ وہ کافر ہی ہو تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو گئے اور یہی لوگ اہل جہنم ہیں وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے''۔
ان سے ایسی دائمی دشمنی اور بغض رکھنا ضروری ہے جس میں محبت و دوستی کا شائبہ نہ ہو ۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل ترین لوگ قرار دیتے ہوئے فرمایا :
﴿اِسْتَحْوَذَ عَلَيْہِمُ الشَّيْطٰنُ فَاَنْسٰـىہُمْ ذِكْرَ اللہِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ الشَّيْطٰنِ۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّيْطٰنِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۱۹ اِنَّ الَّذِيْنَ يُحَاۗدُّوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اُولٰۗىِٕكَ فِي الْاَذَلِّيْنَ۲۰ ﴾ (المجادلۃ:۱۹،۲۰)
''ان پر شیطان نے غلبہ حاصل کرلیا اور انہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے۔ یہ شیطانی لشکر ہیں، کوئی شک نہیں شیطانی لشکر ہی خسارے والا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو لوگ مخالفت کرتے ہیں وہی لوگ سب سے زیادہ ذلیلوں میں سے ہیں۔''
فضیلہ الشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
ایک رائے یہ کہ : باطل اور فاسد عقائد رکھنے والے کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔''امت میں اختلاف کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق فقہی اختلافات کے علاوہ عقائد و نظریات سے ہے ۔ اس پہلو سے بھی ہمیں سنجیدگی سے غور و فکر کر کے دیکھنا ہے کہ فکری و اعتقادی اختلافات کی نوعیت کیا ہے ؟ اور اس کا حکم کیا ہے؟ بلکہ کسی فرقہ یا گروہ کو نشانہ بنانے کی بجائے یہ دیکھنا ہے کہ ان اعتقادی اختلافات میں صحیح پہلو کون سا ہے؟ چنانچہ اس بارے میں تین آراء پائی جاتی ہیں:
دوسری رائے : یہ ہے کہ کسی کو کافر نہیں کہنا چاہیے ،بلکہ سب اہل قبلہ مسلمان ہیں۔ اہل بدعت گناہ گار ہیں جیسے کسی گناہ پر کافر نہیں کہنا چاہیے اسی طرح اہل بدعت کو بھی کافر نہیں کہنا چاہیے۔
تیسری رائے : یہ ہے کہ اہل بدعت اپنے عقائد و افکار میں ایک جیسے نہیں،بعض ایسے ہیں جو کفریہ عقائد کے حامل ہیں۔ مثلا: وہ عقائد جن کا تعلق ضروریات دین سے ہے ، اور ثبوت و دلالت کے اعتبار سے قطعی اور یقینی ہیں، ان کا انکارکرنا،جیسے انبیاء کرام ملائکہ، منزل من اللہ کتابوں اور قیامت کا انکار کرنابلکہ کسی ایک کتاب اور ایک نبی کا انکار بھی کفر ہے۔قرآن مجید کے کلام الٰہی نہ ہونے اور اس کے غیر محفوظ ہونے کا عقیدہ ،نماز روزہ، حج، زکوٰۃ اور اذان کا انکار یا محرمات قطعیہ کو حلال سمجھ کر ان کا ارتکاب کرنا۔یہ وہ چیزیں ہیں جن کی بنیاد پر کسی کو کافر کہا جائیگا۔البتہ وہ محرمات جو یقینی نہیں، یا ان کی حرمت حدِ شہرت کو نہیں پہنچی، ان کا اگر کوئی بے خبری سے ارتکاب کرتا ہے تو وہ کافرنہیں۔البتہ خبردار کرنے اور حجت قائم کرنے کے باوجود بھی کوئی اس کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ بھی کافر ہے۔عموماً اہل سنت کا یہی قول ہے ۔مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مجموع الفتاویٰ :ج۳ص ۳۵۱ ،۳۵۲ ۔ شرح العقیدۃ الطحاویہ ص۳۱۶،۳۱۹۔
یہی رائے قرین انصاف ہے اور نہایت درجہ متوازن ہے۔قرآن پاک کی تعلیمات سے بھی اس کی رہنمائی ملتی ہے کہ عدل و انصاف کا سر رشتہ کسی قیمت پر ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا۰ۘ وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ ﴾(الماۗئدۃ:۲)
'' ایک گروہ نے جو تمہارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تو اس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کردے کہ تم زیادتیاں کرنے لگو۔نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں سب سے تعاون کرو، اور گناہ اور زیادتی کے کام میں کسی سے تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو۔''(مقالات تربیت ص:۱۸۶)