محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّيُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّھُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۱۸۸ وَلِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۱۸۹ۧ اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ۱۹۰ۚۙ
بعض کے نزدیک یہ منافقین کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔ جیسے حضرت ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد محرفین یہود ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ دنیا کا ہربدباطن اوربرا آدمی قدرتی طورپر چاہتا ہے کہ میرے ایمان کی تعریف کی جائے۔ قرآن نے درحقیقت اسی نفسیت ستائش طلب کی توضیح کی ہے اوربتایا ہے کہ اہل حق وصداقت سے ان لوگوں کی اس قسم کی توقعات ناجائز ہیں۔ وہ ان کے نفاق ، تحریف اورمداہنت کی تعریف نہیں کرسکتے۔
۲؎ مقصد یہ ہے کہ خدا کی قدرتیں نہایت وسیع ہیں۔ یہ لو گ دھوکے میں نہ رہیں۔ وہ ان کے حالات کو خوب جانتا ہے اور اس میں یہ طاقت ہے کہ ایک لمحہ میں زمین وآسمان کو الٹ دے اور ان کو پیس کررکھ دے۔
۳؎ یعنی جس طرح نظام کواکب میں ہرآن تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور وقت وزمانہ صبح ومسا کے تغیرات سے محفوظ نہیں، اسی طرح کفر وایمان میں باہمی آویزش ہے اورضرور ہے کہ کفر کی تاریکی کے بعد ایمان کی روشنی کا زمانہ آئے اورپھرجس طرح رات اوردن میں اختلاف ہے ،اسی طرح حق وباطل میں بین اور واضح امتیاز ہے اورجس طرح رات کے بعد سپیدہ سحر نمودار ہوتا ہے ، اسی طرح مایوسیوں کے بعد امیدوں کا آفتاب طلوع ہوتا ہے اور جس طرح یہ درست ہے کہ تاریکیاں اجالے سے بدل جاتی ہیں، اسی طرح موت کے اندھیرے حیاتِ مابعد کی صورت اختیار کریں گے اورجس طرح یہ حقیقت ہے کہ آفتاب صبح کے طلوع ہونے کے بعد آسمان پر کوئی ستارہ نہیں چمکتا اسی طرح حضورﷺ کے بعد جو خاور نبوت ہیں آسمان ہدایت پر کوئی اورستارہ طلوع نہیں ہوگا۔اسی طرح کے کئی دلائل وشواہد ہیں جو روز مرہ کے اختلاف لیل ونہار میں مخفی ہیں۔ ضرورت اس کی ہے کہ اہل عقل ودانش اس جانب متوجہ ہوں۔یہ قرآن حکیم کا اعجاز بیان ہے کہ وہ ایک جملہ میں معارف ونکات کا دریا بہادیتا ہے۔
۱؎ آیت کے نزول میں اختلاف ہے ۔وہ جو اپنے کئے پرخوش ہوتے اور جو نہیں کیا اس پر اپنی تعریف۱؎ چاہتے ہیں۔ ان کو عذاب سے چھوٹا ہوا نہ جان اور ان کو دکھ دینے والا عذاب ہے۔۲؎ (۱۸۸)اور آسمانوں اور زمین کی سلطنت خدا ہی کی ہے اور اللہ ہرشے پر قادر ہے ۔(۱۸۹) بے شک آسمان کی پیدائش اور رات دن کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لیے نشان ہیں۔۳؎(۱۹۰)
بعض کے نزدیک یہ منافقین کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔ جیسے حضرت ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد محرفین یہود ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ دنیا کا ہربدباطن اوربرا آدمی قدرتی طورپر چاہتا ہے کہ میرے ایمان کی تعریف کی جائے۔ قرآن نے درحقیقت اسی نفسیت ستائش طلب کی توضیح کی ہے اوربتایا ہے کہ اہل حق وصداقت سے ان لوگوں کی اس قسم کی توقعات ناجائز ہیں۔ وہ ان کے نفاق ، تحریف اورمداہنت کی تعریف نہیں کرسکتے۔
۲؎ مقصد یہ ہے کہ خدا کی قدرتیں نہایت وسیع ہیں۔ یہ لو گ دھوکے میں نہ رہیں۔ وہ ان کے حالات کو خوب جانتا ہے اور اس میں یہ طاقت ہے کہ ایک لمحہ میں زمین وآسمان کو الٹ دے اور ان کو پیس کررکھ دے۔
کفر کی تاریکی کے بعد ایمان کی روشنی کا زمانہ
۳؎ یعنی جس طرح نظام کواکب میں ہرآن تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور وقت وزمانہ صبح ومسا کے تغیرات سے محفوظ نہیں، اسی طرح کفر وایمان میں باہمی آویزش ہے اورضرور ہے کہ کفر کی تاریکی کے بعد ایمان کی روشنی کا زمانہ آئے اورپھرجس طرح رات اوردن میں اختلاف ہے ،اسی طرح حق وباطل میں بین اور واضح امتیاز ہے اورجس طرح رات کے بعد سپیدہ سحر نمودار ہوتا ہے ، اسی طرح مایوسیوں کے بعد امیدوں کا آفتاب طلوع ہوتا ہے اور جس طرح یہ درست ہے کہ تاریکیاں اجالے سے بدل جاتی ہیں، اسی طرح موت کے اندھیرے حیاتِ مابعد کی صورت اختیار کریں گے اورجس طرح یہ حقیقت ہے کہ آفتاب صبح کے طلوع ہونے کے بعد آسمان پر کوئی ستارہ نہیں چمکتا اسی طرح حضورﷺ کے بعد جو خاور نبوت ہیں آسمان ہدایت پر کوئی اورستارہ طلوع نہیں ہوگا۔اسی طرح کے کئی دلائل وشواہد ہیں جو روز مرہ کے اختلاف لیل ونہار میں مخفی ہیں۔ ضرورت اس کی ہے کہ اہل عقل ودانش اس جانب متوجہ ہوں۔یہ قرآن حکیم کا اعجاز بیان ہے کہ وہ ایک جملہ میں معارف ونکات کا دریا بہادیتا ہے۔