کلام کی اقسام:
یہ بات معلوم ہے کہ کتاب وسنت ہی دین کی اصل اور اس کی بنیاد ہے اور یہ بات بھی سب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دونوں (کتاب وسنت) فصیح عربی زبان میں ہیں تو ان دونوں کا علم حاصل کرنا خود عربی کلام اور اس کی متعدد اقسام کے پر موقوف ہے۔
کلام کی اقسام جاننے سے پہلے خود کلام کی تعریف کا جاننا زیادہ مناسب ہے کیونکہ کسی چیز کی معرفت خود اس کی معرفت (پہچان) کی فرع (شاخ )ہے۔
کلام کی تعریف:
کلام اطلاق دوچیزوں کے مجموعے پر ہوتا ہے(یا دوچیزوں کے مجموعے پر کلام کا لفظ بولا جاتا ہے):
۱۔ لفظ ۲۔ معنی
جیسا کہ قرآن مجید، تمام نازل شدہ آسمانی کتابیں اور احادیث قدسیہ، یہ سب اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، الفاظ اور معنی دونوں اعتبار سے۔
یہی اہل حق کا قول ہے۔ اور بدعتیوں کے ایک گروہ نے اس (کلام)کا اطلاق دل میں موجود معنی پر کیا ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کی تصریحات کی بناء پر مردود ہے۔
اگر بسا اوقات دل میں موجود معنی پر کلام کا اطلاق کیا جائے تو اس وقت اس کے ساتھ قید لگانا ضروری ہے جو اس بات پر دلالت کرے (کہ یہاں پر کلام سے مراد دل میں موجودمعنی ہے) جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان ہے:﴿ وَيقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلا يعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ ﴾ [المجادلة:8]
ترجمہ: اور وہ لوگ دل ہی دل میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری باتوں کی وجہ سے ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا؟
تو اگر یہاں ﴿ فِي أَنفُسِهِمْ ﴾ کی قید نہ ہوتی تو اس سے زبان سے کہنا مراد لیا جاتا۔ اور کبھی کبھی لفظ کلام کا اطلاق ہر اس چیز پر کیا جاتا ہے جو مرادی معنی پر دلالت کرے (یا جس سے قائل کی مراد سمجھ میں آجائے) بقول شاعر:
إذا كلمتني بالعيون الفوات رددت عليها بالدموع البوادر
ترجمہ: جب اس (محبوبہ)نے مجھ سے پھٹی پھٹی نگاہوں سے کلام کی تو میں اس کو مسلسل بہتے ہوئے آنسوؤں سے جواب دیا۔
نحویوں کے ہاں کلام کا اطلاق اس مرکب لفط پر ہوتا ہے جس کی ترکیب مفید ہواور (سامع کا)اس پر خاموشی اختیار درست ہو، جیسا کہ ” مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ “ ہے۔