ضدی بھائی کفر شرک میں فرق ہے یہ دونوں الگ الگ ہیں
یہ ساری اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہے
کفر میں انکار کیا جاتا ہے سرے سے ہی اسے کفر کہتے ہیں
شرک اسے کہتے اللہ کے ساتھ صفات میں اللہ کے احکام میں اللہ کی ذات میں کسی لحاظ میں کسی کو اللہ کا حصہ دار بنانا شرک ہے
اس لیے کفر اور شرک کا فتوی تعریف کو دیکھ کر لگے گا
محترم بھائی سلف کا اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو مشکر ہے وہ لازمی کافر ہے اگرچہ کافر کے لئے مشرک ہونا لازمی نہیں یعنی عموم خصوص کی نسبت ہے پس ضدہ بھائی کا اشکال درست ہے کہ جس کو ہم اتنی آسانی سے مشرک کہ دیتے ہیں اسکو کافر کیوں نہیں سمجھتے
اصل میں اشکال کا جواب یہ ہے کہ جو ان مشرکوں کو کافر نہیں سمجھتے وہ لازمی انکو مشرک بھی نہیں سمجھ رہے ہوتے بلکہ مشرک کی جگہ ایک نئی اصطلاح یعنی کلمہ گو مشرک استعمال کرتے ہیں البتہ یہ ان علماء کا اپنا اجتہاد ہے میرا ان سے بالکل اتفاق نہیں بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ اصل میں کسی کو مشرک کہنے میں ہی ہمیں اتنی احتیاط کرنی چاہیے جیسے ہم اسکو کافر کہ رہے ہوں کیونکہ حقیقت یہی ہوتی ہے پس ہمیں مانع تکفیر اچھی طرح دکھ لینے چاہیں
جو ہمارے مخلص علماء انکو کلمہ گو مشرک کہتے ہیں تو میرا ان سے یہ سوال ہے کہ
1-کیا وہ کلمہ گو مشرک کو ابدی جہنمی سمجھتے ہیں
2-کیا وہ شرک والی تمام آیات کا ان پر اطلاق کرتے ہیں
3-میرے خیال میں وہ نہیں کرتے جیسا کہ ہمارے امیر محترم نے بھی ایک دفعہ خآنیوال کی تقریر میں کہا تھا کہ یہ آیات ان کلمہ گو کے لئے نہیں بلکہ مشرکین مکہ کے لئے ہیں تو پھر میرا سوال ہے کہ پھر تو یہ مسلمان ہوئے اور انکے پیچھے نماز جائز ہوئی ان سے شادی جائز ہوئی کیا اسکا پھر ہم فتوی دیں گے
نوٹ:محترم بھائیو: میں محترم حافظ سعید حفظہ اللہ کو اپنا امیر سمجھتا ہوں اور حتی الامکان انکے ہر بات کی اتباع کرتا ہوں اگر اللہ کی معصیت کا معاملہ نہ ہو مگر یہ بھی یاد رکھا جائے یہ ان سے اجتہادی اختلاف کو ممنوع نہیں کرتا جیسے ہماری جماعت کے بہت سے علماء بھی ایسا ہی کرتے ہیں مثلا فطرانہ کو جنس کے بغیر دینے میں بڑے علماء اگرچہ جماعت سے اختلاف رکھتے ہیں مگر یہ اجتہادی اختلاف ہوتا ہے جماعت سے علیحدگی لازمی نہیں ہوتی