السلام علیکم
میں محترم بھائی عبدہ حفظہ اللہ کی چند باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، اگر غلطی پر ہوں تو بھائی سے گزارش ہے کہ اصلاح فرما دیں۔ جزاک اللہ خیرا
محترم بھائی جو کچھ میں نے سٹڈی کیا ہے اس موضوع پر اور جو علم حاصل کیا ہے ان پر میرا جو فہم ہے وہ میں بیان کر دیتا ہوں، اگر کسی بھائی یا بہن کو اختلاف ہو گا تو وہ میری بات کو کوڈ کر کے اپنا نقطہ نظر بیان کر سکتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ میرے موقف کے مخالف کوئی اور موقف کتاب و سنت کے مطابق سامنے آ جائے، ورنہ اتنا تو ضرور ہو گا کہ میرا حاصل کیا گیا فہم درست ہو گا۔ ان شاءاللہ
جو ہمارے مخلص علماء انکو کلمہ گو مشرک کہتے ہیں تو میرا ان سے یہ سوال ہے کہ
1-کیا وہ کلمہ گو مشرک کو ابدی جہنمی سمجھتے ہیں
جی بھائی بالکل! اگر مشرک شرک اکبر کا مرتکب ہے تو اس کے ابدی جہنمی ہونے میں کوئی شک ہی نہیں، اس مثال کو آسان انداز میں یوں سمجھ لیجئے کہ اگر کوئی کلمہ طیبہ پڑھنے کے باوجود یہ عقیدہ رکھے کہ نعوذباللہ ثم نعوذباللہ نقل کفر کفر نباشد کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور میں سے نور ہیں، یا اللہ اور نبی ایک ہی ہیں، یا فوت شدہ نیک لوگ فوت ہونے کے بعد مافوق الاسباب مشکل کشائی، حاجت روائی پر قادر ہیں تو ایسا شخص شرک اکبر کا مرتکب ہے اور ابدی جہنمی ہے چاہے وہ کلمہ طیبہ کا اقراری بھی ہو۔ (نوٹ: شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے ایسے عقائد رکھنے والے شخص کو کافر کہا ہے ملاحظہ ہو فتاویٰ اسلامیہ)
2-کیا وہ شرک والی تمام آیات کا ان پر اطلاق کرتے ہیں
شرک اکبر کے مرتکب پر قرآن مجید میں موجود شرک کی مذمت کرنے والی تمام آیات کا اطلاق ہو گا۔ واللہ اعلم
3-میرے خیال میں وہ نہیں کرتے جیسا کہ ہمارے امیر محترم نے بھی ایک دفعہ خآنیوال کی تقریر میں کہا تھا کہ یہ آیات ان کلمہ گو کے لئے نہیں بلکہ مشرکین مکہ کے لئے ہیں تو پھر میرا سوال ہے کہ پھر تو یہ مسلمان ہوئے اور انکے پیچھے نماز جائز ہوئی ان سے شادی جائز ہوئی کیا اسکا پھر ہم فتوی دیں گے
پروفیسر محترم حافظ محمد سعید حفظہ اللہ کی اس بات پر کچھ کہنے سے قبل اس بات کے پیچھے ان کا منہج کیا ہے وہ جان لینا ضروری ہے، پروفیسر محترم حافظ محمد سعید اور ان کے جماعت کے جید علماء و رفقاء جیسے شیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ اور امیر حمزہ صاحب کے عقائد و نظریات آج سے چند سال یا ایک دہائی قبل بہت اچھے اور مفاہمتی پالیسی سے بہت حد تک صاف تھے، لیکن چند سال قبل ہی بدلتے حالات کی وجہ سے ان کے عقائد و منہج میں بھی واضح تبدیلی آئی، اس کے کچھ ظاہری اسباب بھی ہمیں معلوم ہیں، بس یہی وجہ ہے کہ آج سے ایک دہائی قبل اس جماعت کے امیر اور ان کے رفقاء کے جو خیالات تھے وہ آج کے خیالات سے یکسر مختلف ہیں، لیکن ہم جب حالات کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ایک دہائی قبل اس جماعت کے امیر اور ان کے رفقاء کا منہج کتاب و سنت پر تھا اور کتاب و سنت کو مدنظر رکھ کر ہی یہ فتاویٰ جات دئیے گئے جو کلمہ گو مشرک کی مذمت میں تھے، لیکن موجودہ نظریات مفاہمتی پالیسی، ملکی بدلتے حالات، مختلف تنظیموں اور افواج و ایجنسیوں سے تعلقات اور ان سے حاصل ہونے والے مفاد، اہل شرک کی مجالس میں اٹھنا بیٹھنا اور ان کے جلوسوں میں شرکت کرنے کے پر ہیں، لہذا اس حوالے سے اگر بغور ان نظریات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی کہ موجودہ نظریات کس قدر کھوکھلے اور بے دلیل ہیں۔
پس یہی وجہ ہے کہ پروفیسر صاحب نے اہل شرک کی مشابہت رکھنے والا یہ قول پیش کیا ہے کہ (
یہ آیات ان کلمہ گو کے لئے نہیں بلکہ مشرکین مکہ کے لئے ہیں) اور اس پر آپ کا یہ سوال (
پھر میرا سوال ہے کہ پھر تو یہ مسلمان ہوئے اور انکے پیچھے نماز جائز ہوئی ان سے شادی جائز ہوئی کیا اسکا پھر ہم فتوی دیں گے) تھا تو اس پر بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بعید نہیں کہ پروفیسر صاحب اور ان کے رفقاء جس مفاہمتی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ان میں شادی بیاح، نکاح، نماز اور دیگر تعلقات کی اجازت فراہم کرنے والے فتاویٰ جات دے دیں، کیونکہ جب انسان ایسی مفاہمتی پالیسی اپناتا ہے جس میں مداہنت کی آمیزش ہو تو اس کے عقائد و نظریات میں واضح فرق نمایاں ہونا شروع ہو جاتا ہے اسی وجہ سے قرآن میں اس چیز کے بارے میں کہا گیا کہ (
وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ ﴿٩﴾۔۔۔سورة القلم) "
وه تو چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں" اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
وہ چاہتے ہیں کہ تو ان کے معبودوں کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرے تو وہ بھی تیرے بارے میں نرم رویہ اختیار کریں باطل پرست اپنی باطل پرستی کو چھوڑنے میں ڈھیلے ہو جائیں گے۔ اس لئے حق میں خوشامد، حکمت، تبلیغ اور کار نبوت کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔
غور کیجئے اس کا مطلب یہی سمجھ آتا ہے کہ چونکہ مداہنت کی پالیسی میں انسان اپنے خیالات و نظریات کو بھی داؤ پر لگا دیتا ہے اسی لئے اہل باطل کا ایک خطرناک ہتھیار اہل حق پر قابو نہ پا سکنے کی صورت میں مداہنت کی پالیسی کو اختیار کرنے کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے،اور قرآن کی سورۃ الکافرون جو نازل ہوئی تو یہ اس موضوع پر بہترین سورت ہے۔ الحمدللہ
قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿٢﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٣﴾ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ﴿٤﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٥﴾ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾۔۔۔سورۃ الکافرون
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو! (1) نہ میں عبادت کرتا ہوں اس کی جس کی تم عبادت کرتے ہو (2) نہ تم عبادت کرنے والے ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں (3) اور نہ میں عبادت کروں گا جس کی تم عبادت کرتے ہو (4) اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کر رہا ہوں (5) تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے (6)
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین