• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کنیئرڈ کالج، جہاں حجاب پر پابندی ہے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حجاب مخالف ’’سیانو‘‘ کتنا جھوٹ بولو گے-


انصار عباسی

گزشتہ ہفتہ کے روز ایک بڑے انگریزی اخبار کے صفحہ اول پر خیبر پختون خوا حکومت کی طرف سے دیا گیا اشتہار پڑھا جس کا پیغام ’’Our Children Must Understand to Practice‘‘ (ترجمہ: ہمارے بچوں کو عمل کے لیے (قرآن) کو ہر حال میں سمجھ کر پڑھنا ہے) تھا۔ اشتہار کا پیغام بہت پرکشش تھا۔ اشتہار میں اس بات کی تشہیر کی گئی کہ خیبر پختون خوا حکومت نے صوبہ کے تمام تعلیمی اداروں میں پہلی سے بارھویں جماعت تک کے طلبہ کے لیے قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ خیبر پختون خوا واحد صوبہ ہے جس نے یہ initiative لیا ہے۔ اشتہار پڑھ کر بہت خوشی ہوئی، دل سے دعائیں نکلی اور امید پیدا ہوئی کہ ان شاء اللہ دوسرے صوبے بھی قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ سمجھ کر پڑھنے کے لیے جلد از جلد ضروری اقدامات اٹھائیں گے۔ اشتہار کے پانچ الفاظ Our Children Must Understand to Practice نے سب کچھ کہہ دیا اور اُس کمی کو پورا کرنے کے لیے تدبیر بتا دی جو ہمیں ایک اچھا انسان اور اچھا مسلمان بنانے کے لیے لازم ہے اور جس سے ہم نے آج تک پہلوتہی کی حالانکہ آئین پاکستان قرآن پاک کو لازم پڑھانے اور قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کا وعدہ کرتا ہے۔

وفاقی حکومت اور پنجاب بھی اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں جبکہ اسی ماہ میری ملاقات سندھ حکومت کے مشیر برائے مذہبی امور اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر قیوم سومرو نے بتایا کہ سندھ حکومت بھی قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھانے کی اسکیم کے نفاذ کے معاملہ پر غور کر رہی ہے۔ بلوچستان سے اس بارے میں ابھی تک کوئی خبر نہیں ملی۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور کور کمانڈر سے درخواست ہے کہ خیبر پختون خوا کی طرح بلوچستان بھر کے مسلمان طلبہ کے لیے قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھانا لازم قرار دیا جائے۔ ذرائع کے مطابق آزاد کشمیر حکومت بھی اس بہترین کام میں دلچسپی لے رہی ہے۔ قرآنی تعلیم کی اس اسکیم کے فوری نفاذ کے لیے بلوچستان، سندھ اور آزاد کشمیر حکومت کے ذمہ دار وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم جناب بلیغ الرحمن سے رابطہ کر سکتے ہیں جنہوں نے دراصل اس اسکیم پر بڑی لگن سے کام کیا، اس کے لیے مختلف مکاتب فکر کے علماء سمیت اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت مکمل کی بلکہ قرآن حکیم کو ترجمہ کے ساتھ پڑھانے کے لیے پورا میکنزم بھی تیار کر لیا گیا ہے۔

اب ذرا حجاب کے موضوع پر بھی بات ہو جائے۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران میڈیا کے نام نہاد سیانوں کو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں طالبات کے لیے پردہ یا حجاب کی مخالفت میں سر گرم دیکھاگیا ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ابھی تک جھوٹ کی بنیاد پر کچھ ٹی وی شو چل رہے ہیں جس کا مقصد حجاب کی مخالفت ہے۔ پہلے دن سے جھوٹ یہ بولا جارہا ہے کہ حجاب کرنے والی طالبات کو پانچ اضافی نمبر دیئے جائیں گے جبکہ ایسی کوئی تجویز کبھی زیر غور تھی ہی نہیں۔ اصل میں تجویز یہ تھی کہ حجاب کرنے پر بچیوں کو کم از کم 65% حاضری نہ ہونے پر پانچ فیصد رعایت ملے گی۔ لیکن میڈیا کو دیکھیں کہ ایک دو دن قبل بھی ایک چینل پر پروگرام کیا گیا جس میں بحث کا نکتہ پانچ اضافی نمبر اور اس سے میرٹ کی پالیسی کو نقصان تھا۔ کوئی چینل یہ بات کیوں نہیں کرتا کہ پردہ تو اللہ کے احکامات میں شامل ہے جس سے انکار ممکن نہیں؟؟ کوئی یہ کیوں نہیں بتاتا کہ امریکی پیو سروے (PEW survey) کے مطابق 98% پاکستانی برقعہ، حجاب، چادر، اسکارف یا کم از کم سر پر دوپٹہ کے حق میں ہیں۔ صرف دو فیصد سر کو ڈھاپنے کے حق میں نہیں۔

میڈیا جو دکھاتا ہے وہ بالکل اس کے برعکس ہے جو ہمارا ماحول ہے یا جسے ہمارے لوگوں کی بہت بڑی اکثریت اپنے لیے پسند کرتی ہے۔ حال ہی میں مجھے ایک خاتون ٹی وی اینکرز نے بتایا کہ وہ حجاب لینا چاہتی ہیں لیکن ان کی مینجمنٹ انہیں ایسا کرنے نہیں دیتی۔ ویسے بھی حجاب لینے والی خواتین کو ٹی وی چینلز میں کم مواقع کیوں دیئے جاتے ہیں؟؟ اسلامی ملک میں اسلامی لباس اور اسلامی شعار کو فروغ دینے کے لیے میڈیا کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
ایک بھائی نے دلیل میں کمنٹس کئے ہیں بلکہ تصدیق کی ہے اسے بھی پڑھ سکتے ہیں۔

Rashid Nazir Ali

میری بھتیجی کی صاحبزادیاں جو کہ نقاب کرتی ہیں کنیرڈ جاتیں ہیں اور انہیں کبھی نقاب کرنے سے نہیں روکا گیا۔ مگر انکے بیکز کی تلاشی لی جاتی ہے اور بعض مواقع پر ان سے اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے نقاب اتارنے کو بھی کہا جاتا ہے۔ اور شناخت کرا چکنے کے بعد انہیں اجازت ہوتی ہے کہ عمارت کے اندر جائیں چاہے اور سیکورٹی کے علاوہ کوئی نقاب اتارنے کی مانگ نہیں کرتا۔

نقاب کرنا ایک عمل ہے اور سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے کسی کی شناخت یقینی بنانا یا اسکے بيگ کی تلاشی لینا ایک دوسرا عمل۔ جہاں تک میں نے اپنی نواسیوں سے پوچھا ہے انکے مطابق کالج میں جو لڑکیاں نقاب نہیں بھی کرتیں انکے بھی بیگ چیک کیے جاتے ہیں سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے۔ اب اگر سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے بیگ چیک کر لیے گۓ اور شناخت یقینی بنانے کے لیے نقاب اتارنے کی مانگ کی گئی تو اس میں یہ کہاں کی بات آ گئی کہ نقاب پر پابندی ہے۔ اگر کنیرڈ میں نقاب پر پابندی ہوتی تو انہیں نقاب اتارے بغیر کالج میں گھسنے نہ دیا جاتا۔ سیکورٹی والوں نے شناخت کے بعد ان محترمہ کو نقاب اتارنے پر اصرار نہیں کیا۔ سیکورٹی کے اس پروٹوکول سے یہ تاثر دینا کہ خدانخواستہ کالج میں نقاب پر پابندی ہے غلط بیانی کی انتہا ہے۔ اگر نقاب پر پابندی ہوتی تو نقاب اتارے بغیر انہیں کالج میں گھسنے نہ دیا جاتا۔ مگر ایک تو غلط بیانی اور اوپر سے اس کو بنیاد بنا کر اسی ویب سائٹ پر مضامین کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ سر اگر اسی کالج میں کوئی دہشت گردی ہو جاۓ اور وجہ یہ نکلے کہ کسی کا بیگ چیک نہیں کیا گیا یہ اسکی شناخت یقینی نہیں بنائی گئی تو سب سے پہلے ہم ہی ہوں گے سیکورٹی پر انگلی اٹھانے والے۔

آپ نے اوپر ذکر کیا کہ جو خواتین نقاب نہیں کرتیں وہ تلاشی سے مبرا ہیں جہاں تک میں نے اپنی نواسیوں سے پوچھا ہے چاہے کوئی نقاب میں ہو یا نہیں سیکورٹی والے انکے بیگز کی تلاشی لیتے ہیں۔ سو تلاشی سے کوئی بھی مبرا نہیں ہے
عامر بھائی

اتنی وضاحت کے بعد اس تھریڈ کا عنوان تبد یل ہونا چاہیے۔
 
Top