• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کورونا وائرس.... ایک وباء یا عذاب الہی

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ

شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے-

قرآن کریم میں الله رب العزت کا فرمان عالی مقام ہے -

ظَهَرَ الۡفَسَادُ فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ بِمَا كَسَبَتۡ اَيۡدِى النَّاسِ لِيُذِيۡقَهُمۡ بَعۡضَ الَّذِىۡ عَمِلُوۡا لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ‏ سوره الروم ٤١

خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ الله اُن کو اُن کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے -عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں -

الله یقیناً اپنے بندوں پر بے انتہا رحم کرنے والی ذات ہے - لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب اس کے بندے اس کی بیان کردہ حدوں کو پار کرنے لگتے ہیں تو وہ اپنے عذاب کا کوڑا ان پر برساتا ہے کہ شاید کوئی اس کی جانب پلٹ آے- لیکن ایسا کم ہی ہوا کہ کوئی عذاب کے اثرات دیکھ کر الله کی جانب فوراً پلٹا ہو -

آج ہر شخص کی زبان زد عام پر "کورونا وائرس" ہے- ہر شخص اس کی ہیبت سے خوف زدہ ہے -لیکن بہت کم اہل عقل اس کو الله کا عذاب قرار دے رہے ہیں -زیادہ تر کا موقف یہی ہے کہ یہ صرف ایک موذی مرض ہے جو زمانہ حوادث کی وجہ سے معارض وجود میں آیا -کوئی اس کو بائیو کیمیکل وائرس قرار دے رہا ہے تو کسی کے خیال میں یہ جانوروں سے پیدا کردہ وائرس ہے- اس مادہ پرست دنیا کے مادہ پرست لوگ اس وائرس کی پیدائش پر غور فکر اور اس سے بچنے کے مادی وسائل پر زور دیتے نظر آ رہے ہیں -کہ ایک دوسرے سے مصافحہ مت کرو - ایک دوسرے سے دور رہو- گلے مت ملو- ہاتھ بار بار دھو- باجماعت نماز ترک کرکے انفرادی نماز پڑھو - جب کہ یہ کم عقل لوگ بھول چکے ہیں کہ ان سے پہلے ان سے کہیں زیادہ طاقتور قومیں ان سے کہیں زیادہ مادی وسائل رکھنے کے باوجود الله کے عذاب کا سامنا نہ کرسکیں اور پاش پاش ہوگئیں -

اَوَلَمۡ يَسِيۡرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ فَيَنۡظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ‌ؕ كَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡهُمۡ قُوَّةً وَّاَثَارُوا الۡاَرۡضَ وَعَمَرُوۡهَاۤ اَكۡثَرَ مِمَّا عَمَرُوۡهَا وَجَآءَتۡهُمۡ رُسُلُهُمۡ بِالۡبَيِّنٰتِ‌ ؕ فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظۡلِمَهُمۡ وَلٰـكِنۡ كَانُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ يَظۡلِمُوۡنَ سوره الروم ٩

کیا اُن لوگوں نے ملکوں میں سیر نہیں کی (سیر کرتے) تو دیکھ لیتے کہ جو لوگ اُن سے پہلے تھے ان کا انجام کیسے ہوا۔ وہ اُن سے زورآور اور قوت میں کہیں زیادہ تھے اور اُنہوں نے زمین کو جوتا اور اس کو اس سے زیادہ آباد کیا تھا جو اُنہوں نے آباد کیا۔ اور اُن کے پاس اُن کے پیغمبر نشانیاں لے کر آتے رہے تو الله ایسا نہ تھا کہ اُن پر ظلم کرتا۔ بلکہ وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے-

مادی وسائل کا جائز استمعال انسان کا حق ہے- لیکن ہمارے کم عقل دانشور یہ بھول چکے ہیں کہ امّت محمّدیہ کو اللہ رب العزت نے امّت وسطیٰ قرار دیا ہے - جو اپنے ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کرتی ہے - ہمارے اس دجالی میڈیا نے کمزور عقیدہ مسلمان عوام کو اس وائرس کے خدائی عذاب میں مادی وسائل کے استمال کا جھانسا دیکر الله کے حضور توبہ استغفار اور اپنی روش سے باز آنے جیسے معملات سے روک دیا ہے -میڈیا پر قرآن و احادیث نبوی کی غلط سلط تشریحات سے عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے- کبھی کہا جاتا ہے کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھو کہ الله کے نبی صل الله علیہ و آ له وسلم نے آندھی و طوفان میں مسجد میں نماز کے بجایے گھر میں نماز کا حکم دیا ہے -کبھی کہا جاتا ہے کہ مصافحہ مت کرو- اگرچہ یہ سنّت ہے لیکن موذی مرض لگنے کے ڈر سے اس سنّت کو ترک کردو - کبھی کہا جاتا کہ لوگوں سے ملنا چھوڑ دو - بائیکاٹ کردو -کہ فتنہ کے دنوں میں ایسا کرنا جائز ہے- یہی نہیں حرم میں طواف کعبہ کا حلیہ تک بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے -دوسرے لفظوں میں دین کو ایک کھیل تمشا بنا لیا گیا ہے - اس میں شک نہیں کہ الله کے نبی صل الله علیہ و آ له وسلم نے آندھی و طوفان اور سخت بیماری میں گھروں میں نماز کا حکم دیا ہے - لیکن یہ حکم جب لاگو ہوتا ہے جب یہ چیزیں ظاہر میں موجود ہوں-ہمارا دین مفروضوں پر نہیں چلتا -کیا کبھی کسی نے کہا ہے کہ چوںکہ محکمہ موسمیات نے اگلے دو دنوں میں آندھی و بارش کی پیشنگوئی کی ہے اسلئے اگلے دو دن با جماعت نماز کے بجانے گھر میں نماز پڑھی جائے گی ؟؟- یا کسی کو نزلہ زکام ہے تو مسجد یا حرم میں نہ جائے کہ دوسروں کو بیمار کردے گا- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی امّت کو فرمایا کہ "چھوت لگ جانا، صفر کی نحوست اورالو کی نحوست کوئی چیز نہیں ۔جو کچھ ہے وہ من جانب الله رب العزت ہے" (صحیح بخاری)- ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی چیز تقدیر کو بدل سکتی تو وہ نظر کا لگنا ہوتا- یعنی الله نے جو مقدر کردیا ہے وہ ہو کر رہتا ہے- جب تک کہ انسانوں اور قوموں کی روش نہ بدلے کوئی چیز الله کے عذاب سے انہیں نہیں بچا سکتی- یہ الله کا قانون ہے - کیا یہی وہ وقت نہیں کہ جب زیادہ سے زیادہ الله کی مسجدوں کو آباد کیا جائے اور وہاں پر الله کے حضور سجدے میں توبہ و استغفار کی جائے- کہ شاید ہم سے یہ عذاب ٹل جائے - لیکن اب تو اکثریت کے گھر والے بھی ہمارے دجالی میڈیا کے دھوکے میں آ کر اس بات پر مصر ہیں کہ گھر کے مرد گھر میں بیٹھیں یا گھر میں ہی عبادت کریں -لیکن مسجد نہ جائیں کہ عذاب الہی جو کرونا وائرس کی شکل میں موجود ہے اس کا شکار ہو جائیں گے - حتیٰ کہ ہمارے معاشرے کے نام و نہاد علماء بھی اس دجالی میڈیا کا بھر پور ساتھ دے رہے ہیں تاکہ دینی معملات میں ان کی مہر لگ جائے اور کوئی اسلام کی اصل حقیقت تک نہ پہنچ سکے - الله تو قرآن میں فرماتا ہے کہ تم چاہے مضبوط قلعوں میں اپنے آپ کو بند کرلو لیکن موت وہاں بھی آکر تمہارا کام تمام کردے گی- تو پھر ان چھوٹے چھوٹے گھروں کی کیا حیثیت جو ہمیں اس وباء جو حقیقتاً الله کا عذاب ہے اس سے بچا سکے- یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایک دوسرے سے مصافحہ نہ کریں کہ یہ ہے تو سنّت نبوی- لیکن اس سے بیماری لگنے کا خدشہ ہے - یہ کیسی سنّت نبوی ہے جو لوگوں کو اذیت و عذاب اور بیماری کے خوف میں مبتلا کر رہی ہے - کیا سنّت نبوی اپنانے سے الله رب العزت عذاب دیتا ہے ؟؟ اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے یہاں پر ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ ثَقِيفٍ کے وفد میں ایک جذامی یا کوڑھی آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف قاصد بھیجا اور فرمایا ہم نے بیعت کر لی اب لوٹ جاؤ - یعنی اس سے مصافحہ نہ کیا -(پہلے تو یہ کہ اس روایت میں علتیں ہیں) - تفصیل میں جائے بغیر- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تو وہ ہے کہ جن کے لعب دہن میں الله نے شفاء رکھی تھی تو اگر وہ کسی جذام زدہ شخص کا ہاتھ پکڑ لیتے تو خود اس کوڑھی کو شفاء حاصل ہو جاتی چہ جائیکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آنے والے شخص سے احراز کیا-؟؟ (واللہ اعلم) -

یہی نہیں بلکہ کسی جذام شدہ آدمی کو نبی کریم کی لائی ہوئی شریعت میں باجماعت نماز سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا -تو ایک تندرست انسان جماعت سے کیسے مستثنیٰ ہو سکتا ہے- باجماعت نماز کا جو عمل جہاد کے دوران ساقط نہیں وہ ایک وباء کے خوف سے کیسے ساقط ہو گیا ؟؟

مزید آجکل کے حالات میں یہ بھی روایت پیش کی جاتی ہے کہ جہاں کوئی وباء پھیلی ہو وہاں مت جاؤ کہ کہیں مرض لگنے سے تم بھی اس کا شکار نہ ہو جاؤ- جب کہ حقیت یہ ہے کہ صحیح روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بیماری تعدی نہیں ہوتی - لیکن وبا کیوں کہ عذاب کی شکل ہے اس لئے ایسے مقامات پر جانے سے منع کیا گیا ہے – اس کی توجیح اسطرح بنتی ہے کہ جن علاقوں میں الله رب العزت نے اپنے عذاب نازل کیے ہیں - وہاں جانے سے ان عذاب کے اثرات عام انسان پر بھی پڑ سکتے ہیں- دلیل اس کی یہ ہے کہ غالباً غزوہ تبوک کے موقع پر پیغمبرِ اسلام حضرت نبی کریم کا گزر قومِ ثمود کے کھنڈرات سے ہوا۔ صحابہ نے وہاں پڑاؤ ڈالا۔ کنویں سے پانی بھرا اور آٹا گوندھ کر روٹی پکانے لگے۔ جب آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے حکم دیا کہ ‘‘پانی گرادو، ہانڈیاں اوندھی کردو اور آٹا ضائع کردو’’. اور مزید فرمایا کہ ‘‘یہ “وہ بستی ہے جس پر عذاب نازل ہوا تھا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی اس بلاء میں مبتلا ہوجاؤ-- اب اس جگہ پر کوئی موذی یا متعدی مرض نہیں تھا- الله کا قوم ثمود پرعذاب نازل ہوا تھا – اور اس عذاب کو نازل ہوے بھی اس وقت تین ہزار سال سے زیادہ گزر چکے تھے – لیکن عذاب کے اثرات نبی کریم کے دور میں بھی ویسے ہی تھے اس لئے وہاں روکنے سے منع کیا گیا تھا –اصل اسلامی عقیدہ تو یہ ہے کہ وما هم بضآرين به من أحد إلا بإذن الله- البقرہ- وہ نقصان نہیں دے سکتے تھے جب تک اللہ کا اذن نہ ہو


اس میں کوئی شک نہیں کہ تدابیر کا اختیار کرنا یا اسباب کا جائز استمال انسانی جبلّت میں ہے `اور حکم الہی بھی ہے - لیکن وبائی امراض میں ایسی تدابیر و اسباب جو براہ راست ہماری دینی شریعت سے ٹکراتے ہوں ان کا اختیار کرنا کسی بھی طور صحیح نہیں - یہ سخت ترین جہالت اور عذاب الہی کو اپنے اوپر مسلط کرنے کا سبب ہیں -ایسی تدابیر شفا کا موجب نہیں بلکہ مزید الله کی ناراضگی کا موجب ہیں -سب سے پہلے تو ہم پر لازم ہے کہ وبائی مرض جو اس وقت دنیا میں عذاب کی صورت میں منڈلا رہا ہے اس
کی قرانی توجیہات تلاش کی جائیں -پھر انفرادی بلکہ مساجد میں اجتمائی طور پر سچے دل سے الله کے بارگاہ میں توبہ کی جائے اور پھر اس موذی مرض سے بچنے کی جائز تدابیر اختیار کی جائیں -

قران میں الله رب العزت کا واضح فرمان ہے کہ

اِنَّ الَّذِيۡنَ يُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِيۡعَ الۡفَاحِشَةُ فِى الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌۙ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ‌ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ سوره النور ١٩

اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں فحاشی و بےحیائی پھیلے ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔ اور الله جانتا ہے اور تم نہیں جانتے -

آج وہ ممالک جو فحاشی و بے حیائی پھیلانے میں آگے آگے تھے یعنی چین، اٹلی، فرانس، ایران ، امریکہ وغیرہ - یہی سب سے زیادہ اس وباء کے زیر عتاب ہیں -اور مادی وسائل میں اتنا خود کفیل ہونے کے باوجود اس عذاب الہی کے سامنے گھٹنے ٹیکتے نظر آتے ہیں -افسوس ناک بات یہ کہ ہمارا ملک اور میڈیا بھی اس دوڑ میں آگے آگے نظر آتا ہے اور عذاب سامنے دیکھ کر بھی فحاشی و بے حیائی کو فروغ دینے سے پیچھے نہیں ہٹ رہا - کیا یہ نہیں جانتے کہ جو قومیں اپنی روش نہیں بدلتییں وہ الله کے عذاب سے صحفہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں -

الله ہم سب مسلمانوں کو تیری ذات پاک کے سامنے سچی توبہ کرنے اور اپنے اعمال ٹھیک کرنے کی توفیق دے اور دنیا و آخرت کے تیرے رسوا کن عذاب سے محفوظ رکھ (آمین )
 
Last edited:
Top