• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

::::: کچھ مخصوص جانوروں کے قتل کے حکم والی حدیث شریفہ پر اعتراض کا علمی جائزہ :::::

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
::::: کچھ مخصوص جانوروں کے قتل کے حکم والی حدیث شریفہ پر اعتراض کا علمی جائزہ (1) :::::

"""صحیح سُنّت شریفہ کے انکاریوں کے اعتراضات کی ٹارگٹ کلنگ """
و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَأَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُسکے لیے ہدایت واضح کر دی گئی ، اور اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
تمام محترم و مؤقر قارئین سے گذارش ہے کہ یہ مضمون کچھ طویل ہو گا ، اوراِن شاء اللہ اِسلامی علوم کے مطابق مقبول یعنی قبول شدہ علمی قوانین و قواعد کے مطابق ہو گا ، اور بحث برائے بحث کے انداز میں نہیں بلکہ اِسلامی علوم کے مطابق مقبول قوانین و قواعد کے مطابق تحقیق کے انداز میں ہو گا ،
لہذا عین ممکن ہے کہ ایک ہی نشست میں پڑھنے سے درست طور پر سمجھا نہ جا سکے ، لہذا جس قاری کو ذہنی تھکاوٹ یا بیزاری محسوس ہو وہ اِس مضمون کو رک رک کر پڑہے ،
تحمل اور تدبر کے اس کا مطالعہ فرمایے ، اور اِسلامی علوم کے وہ قواعد اور قوانین جو ہمیشہ سے پوری اُمت کے اِماموں کےہاں معروف اور مقبول ہیں اس پر اسے پرکھیے ، کہ یہ میری یا کسی شخص کی ذاتی سوچوں اور بے پر اُڑتے ہوئے پراگندہ خیالات پر مبنی نہیں ہو گا ، باذن اللہ ، جس قاری کے دِل یا دِماغ میں کسی معتبر قاعدے اور قانون کے مطابق کوئی اعتراض ، اشکال یا سوال ہو ،تو وہ ضرور سامنے لائے ، لیکن ایک اچھے مسلمان والے اِخلاق و کلام کے مطابق ، اگر کوئی مسلمان نہیں تو بھی ایک اچھے اخلاق والے انسان کے مطابق کسی کے بھی اعتراض ، اشکال یا سوال کو خوش آمدید کہتا ہوں ، بدتمیزی اور بدتہذیبی اور بازاری انداز کلام میں کسی کی بات کا کوئی جواب نہیں دوں گا ، اِن شاء اللہ العزیز القدیر ۔
چند روز پہلے ایک بھائی کے ذریعے فیس بک پر ایک مضمون دیکھنے اور پھر اس کا برقی نسخہ اتار کر پڑھنے کا اتفاق ہوا ، جس کے لکھنے والے صاحب شاید کوئی مسلمان ہیں ، اور انہوں نے فیس بک پر اپنا شناختی نام """ القرانک پاور """ بنا رکھا ہے ، جو لغوی طور پر بالکل غلط ہے ، جس یہ اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ان صاحب کا زبان و بیان کے اصول و قواعد سے بھی کچھ ربط و رشتہ نہیں ،
ان کے اختیار کردہ اس شناختی نام سے اندازہ تو یہی ہوتا ہے کہ وہ مسلمان ہوں گے ، اور اسی حسن ظن کے مطابق ، ایک مسلمان بھائی کا ادب ملحوظ نظر رکھتے ہوئے میں نے اُن سے کچھ بات چیت بھی کی، جس کے جواب میں انہوں نے بالکل غیر اسلامی اندازمیں جوابات دیے ، اور میری طرف سے پوچھے گئے ایک بنیادی سوال کے جواب دینے کو بالکل ہی گول کر گئے ، اور پھر میری طرف سے پوچھے ہوئے دو اور سوالات کے جواب میں بھی بد تہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئیں بائیں شائیں کرتے رہے اور ان سوالات کے جواب میں جو کچھ کہا وہ الحمد للہ ان صاحب کی قران فہمی کی حقیقت مزید واضح کرنے والا ہوا ، و للہ الحمد ،
ان سوال و جواب کی بات تو اِن شاء اللہ بعد میں کرتا ہوں ، فی الحال میں ان صاحب کے لکھے ہوئے اس مضمون کا جائزہ پیش کرتا ہوں ، جس مضمون میں انہوں نے اپنی خود ساختہ قران فہمی کے مطابق ایک صحیح ثابت شدہ حدیث شریف کا انکار کیا ، اور صرف انکار ہی نہیں کیا ، بلکہ بدتمیزی بدکلامی والے انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنے اس انکار کو قران کریم کی ایک آیت شریفہ کی آڑ میں دُرُست دِکھانے کی کوشش کر ڈالی ،
لیکن قربان جایے اپنے اکیلے خالق و مالک اللہ جلّ جلالہُ کی قدرت و حِکمت کے ، کہ اُس نے ان صاحب کی سوچ و فِکر ، اعتراض اور علمیت کی حقیقت ان کے اسی مضمون میں بھی خوب اچھی طرح سے دِکھا دی ، جِس طرح اللہ تعالیٰ نے ان صاحب کی طرح اپنی ذاتی سوچوں کی بنا پر رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مُبارکہ کو رد کرتے ہیں اور اپنے ذاتی افکار کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام کی تلبیس چڑھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی معنوی تحریف کرتے ہیں ، جودو میں سے ایک معاملے کی دلیل ہے کہ تیسرے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ، کہ یہ لوگ یا تو کتاب اللہ سے جاھل ہیں چند ترجمے پڑھ کر اللہ کے کلام کو اپنی گمراہ عقلوں کے مطابق سمجھتے ہیں اور اسی طرح سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ، یا پھر یہ لوگ جان بوجھ کر مسلمانوں کو اللہ کی کتاب کے نام کی آڑ میں کتاب اللہ کو اللہ کی مراد کے عین مطابق سمجھنے کے ذریعے یعنی سُنّت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے دُور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ سُنّت شریفہ کی حدود و قیود سے آزاد ہو کر قران کریم کے نام پر مسلمانوں کو گمراہ کر سکیں اوروہ مسلمان بے چارے یہ ہی سمجھتے رہیں کہ ہم تو قران پر عمل پیرا ہیں ،
اِس وقت اِن لوگوں کے مسلک و مذھب کے بارے میں بات کرنا میرا موضوع نہیں ، چند تعارفی باتیں صِرف اس لیے کی ہیں تا کہ قارئین کرام کے ذہن میں ان لوگوں کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات موجود رہیں کہ یہ لوگ قران کریم کے مطابق نہیں بلکہ مخالف کام کر رہے ہیں ،
آیے ان صاحب کے لکھے ہوئے مضمون کا قران کریم اور صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں ،
اِن صاحب نے اپنے اِس مضمون کا نام رکھا ہے """ بخاری شریف میں جانوروں کی “ٹارگٹ کلنگ”کے وحشیانہ احکامات """، جِس کے جواب میں اپنے اِس مضمون کا ایک عنوان """صحیح سُنّت شریفہ کے انکاریوں کے اعتراضات کی ٹارگٹ کلنگ """ بھی رکھا ہے ،
اعتراض کرنے والے نے صحیح بخاری شریف میں سے چار احادیث شریفہ کو اپنی سوچ و فکر کا تختہ مشق بنایا ہے ، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان مبارک (((((
وَلَا تَقْتُلُواالنَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ:::اورتُم لوگ اُس جان کو قتل مت کرنا جِس جان کو قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہے، سوائے حق کے ساتھ)))))کو بنیادی طور پر اپنے لیے دلیل بنایا ہے اور اپنے اس مضمون میں مختلف آیات شریفہ کو بھی استعمال کیا ہے ، اِن شاء اللہ ، میں ایک ایک کر کے اعتراض کرنے والے کے سب اعتراضات کا اور اس کے اپنائے ہوئے دلائل کا جائزہ پیش کرتا ہوں ،
سب سے پہلے میں آپ صاحبان کے سامنے ایک ایک کر کے اُن احادیث شریفہ کا اصل عربی متن اور ترجمہ پیش کرتا ہوں جن احادیث مُبارکہ پر اعتراض کیا گیا ہے، خیال رہے کہ اعتراض کرنے والے نے کسی بھی حدیث شریف کا اصل عربی متن ذِکر نہیں کیا ، صرف ترجمے لکھے ہیں :::

::::::کتوں کو قتل کیے جانے کے حکم کا مسئلہ تین مراحل میں مکمل ہوتا ہے :::::::
اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطاء کردہ توفیق سے میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ کتوں کو قتل کیے جانے والے اِس حکم کے تین مراحل ہیں ،
::::: (۱) ::::: پہلا مرحلہ جِس میں یہ حکم عام طور پر دِیا گیا ، اور اس پر عمل بھی کروایا گیا ،
::::: (۲) ::::: دوسرا مرحلہ جِس میں عام طور پر سب ہی کتوں کو مارنے کا حکم برقرار رکھتے ہوئے اِس میں سے استثناء فرما دِیا گیا ، چوکیداری ، شکار اور زراعت کے لیے استعمال کیے جانے والے کتوں کو قتل کرنے کے حکم سے مستثنی قرار فرما دِیا ،
::::: (۳) ::::: تیسرا اور آخری مرحلہ جِس میں اِس حکم کو اور عام طور پر سب ہی کتوں کو مارنے سے منع فرما کر صِرف دو قسم کے کتوں کے مارنے کے لیے برقرار رکھا گیا ، ، ایک تو درندگی کرنے والے خونخوار کتے ، اور دوسرے وہ خونخوار کتے جن کےچہرے پر دو کالے نقطے ہوں ،
اِس طرح آخری نتیجہ یہ ہوا کہ ، صِرف دو قِسم کےکتوں کو قتل کرنے کا حکم برقرار رہا ، ایک تو درندگی کرنے والا کوئی سا بھی خونخوار کتا ، اور دوسرے وہ خونخوار کتے جن کےچہرے پر دو کالے نقطے ہوں ،
اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ یہ کیا بات ہوئی کہ پہلے ایک حکم دِیا گیا اور پھر اُسے منسوخ کر دِیا گیا ، یا اُس میں تبدیلی کر دی گئی ، یا اُس میں سے کچھ مستثنی کر دِیا گیا ،یا اُس میں سے کچھ مُقیّد کر دِیا گیا، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان کے مطابق نہیں ہے لہذا یہ تو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نہیں ہو سکتی ،
تو اُسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ احکام کی منسوخی ، یا اُن میں تبدیلی اور اُن میں سے کچھ مستثنی کرنا، کسی مطلق حکم میں سے کچھ مُقیّد کرنا تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مبارکہ میں بھی ہے ، لہذا اگر کسی حکم کی منسوخی ، اُس میں تبدیلی اور اُس میں کچھ مستثنی کرنے کا کوئی نیا حکم ، یا کسی مطلق حکم میں سے کچھ مُقیّد کرنا دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان کے مطابق نہیں ، اور حدیث شریف کے انکار کا سبب ہے تو یہی سبب بدرجہ اُولیٰ اللہ تبارک وتعالیٰ کے کئی فرامین شریفہ کے انکار کا بھی بنایا جا سکتا ، ولا حول ولا قوۃ اِلا باللہ ،

:::::: ایک تنبیہ ، اِس مضمون میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین میں سے منسوخ کیے جانے والے فرامین کے موضوع پر بات نہیں کی جائے گی ، لہذا جوابا ً اس موضوع کو شروع نہ کیا جائے ، اِس موضوع پر درج ذیل مقامات پر کچھ بات چیت موجود ہے ، جو مزید کا خواہاں ہو وہاں تشریف لیے آئے ،
http://bit.ly/Y8tOXc
http://bit.ly/XmcSvq
::::::کتوں کو قتل کیے جانے کے حکم کا مسئلہ صحیح ثابت شدہ احادیث مُبارکہ کی روشنی میں :::::::
اعتراض کرنے والے نے اپنے مضمون میں موضوع کے مطابق ترتیب کا اہتما م کیے بغیر اِس موضوع سے متعلق دو احادیث نقل کی ہیں ، ایک سب سے پہلے اور دوسری سب سے آخر میں ،
قاعدے قانون اور اصول کی بات ہے کہ جب کسی ایک مسئلے کو سمجھا جانا ہو تو اُس کے بارے میں صِرف کسی ایک ہی جگہ میں مذکورہ کسی ایک روایت یا چند ایک روایات کو دیکھ کر اُس پر حکم صادر کر دینا سوائے جہالت اور گمراہی کے کچھ اور نہیں ہوتا ، جیسا کہ اعتراض کرنے والے کی کاروائی ہے ،
لہذا ،اِن شاء اللہ ہم اس قاعدے اور قانون کے مطابق کتوں کو قتل کیے جانے کے حکم والی احادیث شریفہ کا کچھ اور جگہوں سے بھی مطالعہ کرتے ہیں ،
اعتراض کرنے والے کی طرف سے نقل کی جانے والی احادیث شریفہ میں سے سب سے پہلے درج ذیل حدیث شریف ہے جِس میں کتوں کو مارنے کا حکم اجمالی طور پر بیان ہوا ہے:::

::::: (۱)::::: عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں روایت ہے کہ(((((أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلاَبِ:::اُن(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم فرمایا)))))صحیح البخاری/حدیث /3323کتاب بدء الخلق/باب17(آخری باب)،
اور پھر اسی موضوع سے متعلق ایک اور حدیث شریف جو کہ اِیمان والوں کی امی جان عائشہ صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہما و أرضاہُما کی روایت ہے ، پانچویں اور آخری حدیث کے طور پر ذِکر کی ہے ، یہ حدیث درج ذیل ہے ،
(((((
خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِى الْحَرَمِ الْفَأْرَةُ ، وَالْعَقْرَبُ ، وَالْحُدَيَّا ، وَالْغُرَابُ ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ :::پانچ (جانور)فاسق ہیں ، انہیں حرم میں بھی قتل کیا جانا درست ہے ، چوہا ، بچھو ، چیل، کوا ، اور درندگی کرنے والا خونخوار کتا)))))صحیح البخاری/حدیث /3314کتاب بدء الخلق/باب16،
::::::: اِن دو احادیث شریفہ میں بالکل واضح ہے کہ پہلی حدیث شریف میں ایک حکم مجمل طور پر بیان ہوا ہے اور دوسری حدیث شریف میں اس حکم کی شرح ، تفصیل اور سبب بھی بیان ہوا ہے ،
اعتراض کرنے والے نے ان دو احادیث مُبارکہ میں صِرف پہلی حدیث مُبارک کو اپنا تختہء مشق بنایااور دوسری میں موجود شرح ، تفصیل اور سبب کی طرف سے آنکھیں چُرا لِیں !!! ؟؟؟

ïïïکیا یہ اعتراض کرنے والے کی جہالت ہے یا بد دیانتی ، یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے بغض و عناد جو درحقیقت صاحب ء حدیث صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے بغض کا غماز ہے ؟؟؟
مذکورہ بالا دو سوالات کا درست جواب سمجھنے کے لیے آپ صاحبان یہ بھی دیکھیے کہ صحیح بخاری شریف کے جس حصے میں اعتراض کرنے والے نے یہ دو احادیث شریفہ نقل کی ہیں ، وہیں ، اِیمان والوں کی والدہ ماجدہ عائشہ صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہما و أرضاہما کی بیان فرمودہ حدیث شریف کے فوراً بعد خود عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کی ایک اور روایت مذکور ہے جِس میں کچھ مختلف الفاظ میں یہی شرح ،اور تفصیل بیان ہے کہ (((((خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ مَنْ قَتَلَهُنَّ وَهْوَ مُحْرِمٌ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ الْعَقْرَبُ ، وَالْفَأْرَةُ ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ ، وَالْغُرَابُ ، وَالْحِدَأَةُ:::جانوروں میں سے پانچ ایسے ہیں جنہیں اگر کوئی احرام کی حالت میں بھی قتل کر دے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں ، بچھو ،اور چوہا ، اور درندگی کرنے والا خونخوار کتا، اور کوّا ، اور چیل)))))صحیح البخاری/حدیث /3315کتاب بدء الخلق/باب16،
قارئین کرام ، اب غور فرمایے کہ اعتراض کرنے والے کو عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کی یہ روایت دِکھائی نہیں دی ، یا اُس نے جان بوجھ کر اس سے نظر چرائی ہے ؟؟؟؟؟
اِس سوال کا جواب اِن شاء اللہ ، آپ کو اِ س اعتراض کرنے والے اور اس کے جیسے دوسرے حدیث دُشمنوں کے علم اور مقصد کے بارے میں وہ کچھ سمجھانے میں مددگار ہو گا جس کا ذِکر میں نے اپنی بات کے آغاز میں کیا ،
محترم قارئین ، امی جان عائشہ صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہما و أرضاہُما ، اور عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما و أرضاہُما کی روایت کردہ تفصیل والی احادیث شریفہ میں یہ بالکل واضح ہے کہ سب ہی کتوں کو قتل کر دیے جانے کا حکم تبدیل کر کے اسے صِرف ان کتوں تک مُقیّد کر دِیا گیا جو خونخوار ہو چکے ہیں ، لوگوں کو بلا وجہ کاٹنے والے بن چکے ہوں ،
یہ شرح ، تفصیل اور سبب عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما وأرضاہما کی روایت کردہ پہلی حدیث شریف میں بیان اجمالی، مطلق حکم میں سےقید ہے ، اِس کی کچھ مزید تفصیل اِن شاء اللہ آگے بیان کروں گا ،
پس بالکل صاف طور پر بیان کردہ اِس شرح، تفصیل ، سبب اور قید کی موجودگی میں اسی موضوع کے ایک اجمالی حکم والی حدیث شریف پر اعتراض کرنا ، اعتراض کرنے والے کی کس سوچ کا آئینہ دار ہے ؟؟؟ اِس کا اندازہ آپ بھی باخوبی لگا سکتے ہیں ، اِن شاء اللہ،
ابھی تک ہم نے دو صحابہ ، یعنی اِیمان والوں کی امی جان عائشہ صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہما و أرضاہُما ، اور عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما و أرضاہُما کی روایت کردہ احادیث شریفہ کا مطالعہ کیا ، اور اب یہ حدیث شریف پڑہیے ، جو ایک اور تیسرے صحابی عبداللہ ابن المغفل رضی اللہ عنہ ُ کی روایت ہے ، کہتے ہیں کہ (((((
أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْكِلاَبِ ثُمَّ قَالَ« مَا بَالُهُمْ وَبَالُ الْكِلاَبِ »ثُمَّ رَخَّصَ فِى كَلْبِ الصَّيْدِ وَكَلْبِ الْغَنَمِ:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم فرمایا اور(ممانعت کا سبب بیان فرماتے ہوئے )اِرشاد فرمایا """ اِن (لوگوں) کا کوئی معاملہ کتوں کو قتل کرنے کی ضرورت والا نہیں """ پھر شکار( کے لیے رکھے جانے )والے کتے ، اور بکریوں (کی چوکیداری کرنے)والےکتےکےبارےمیں رخصت عطاء فرما دی)))))صحیح مُسلم/حدیث/4104 کتاب المساقاۃ / باب10،
یہاں تک تو بات ہوئی پہلے دو مراحل کی ، اِس کے بعد ہم بڑھتے ہیں تیسرے مرحلے کے دلائل کے مطالعہ کی طرف ،
یہ روایت چوتھے صحابی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی ہے (((((أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْكِلاَبِ حَتَّى إِنَّ الْمَرْأَةَ تَقْدَمُ مِنَ الْبَادِيَةِ بِكَلْبِهَا فَنَقْتُلُهُ ثُمَّ نَهَى النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ قَتْلِهَا وَقَالَ، عَلَيْكُمْ بِالأَسْوَدِ الْبَهِيمِ ذِى النُّقْطَتَيْنِ فَإِنَّهُ شَيْطَانٌ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں حکم دِیا کہ کتوں کو قتل کردِیا جائے ، یہاں تک کہ مضافات کی طرف سے کوئی عورت اپنے کتے کے ساتھ آتی تو ہم اُس کتے کو بھی کر دیتے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنےسے منع فرما دِیا اور اِرشاد فرمایا """تُم لوگ اُس خونخوار کالے کتے کو قتل کرو جِس (کے چہرے )پر دو نقطے ہوتے ہیں، کیونکہ وہ شیطان ہوتا ہے )))))صحیح مُسلم/حدیث/4101/کتاب المساقاۃ / باب10،
یہ مذکورہ بالاحدیث شریف تیسرے اور آخری مرحلے کی خبر دے رہی ہے جس میں عام طور پر سب ہی کتوں کو قتل کرنے کا حکم منسوخ فرما کر صِرف اُس خونخوار درندگی والے کالے کتے کو قتل کرنے کا حکم برقرار رکھا گیا جس کے چہرے پر دو نقطے ہوتے ہیں ، اور اس کا سبب بھی بتایا گیا کہ وہ شیطانوں میں سے ہوتا ہے ،
اب یہاں ایک دفعہ پھر یہ دہراتا چلوں کہ اِس طرح آخری نتیجہ یہ ہوا کہ ، صِرف دو قِسم کےکتوں کو قتل کرنے کا حکم برقرار رہا ، ایک تو درندگی کرنے والا کوئی سا بھی خونخوار کتا ، اور دوسرے وہ خونخوار کتے جن کےچہرے پر دو کالے نقطے ہوں ۔
الحمد للہ جب ہم نے تحقیق کے قاعدے قانون اور اصول کے مطابق ایک زیادہ مصادر میں سے احادیث شریفہ کی روشنی میں اِس مسئلہ کا مطالعہ کیا، تو الحمد للہ یہ واضح ہو گیا کہ کتوں کو قتل کرنے کا حکم تین مراحل سے گذر کر اس حتمی صورت میں پہنچا کہ ، صِرف دو قِسم کےکتوں کو قتل کرنے کا حکم برقرار رہا ، ایک تو درندگی کرنے والا کوئی سا بھی خونخوار کتا ، اور دوسرے وہ خونخوار کتے جن کےچہرے پر دو کالے نقطے ہوں ۔
اِ س کے بعد اِن شاء اللہ ، ہم کتوں کو قتل کیے جانے والے اِس حکم پرصحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل کے بارے میں صحیح ثابت شدہ احادیث مُبارکہ کا مطلاعہ کریں گے ،
اور اِن شاء اللہ اب میں جو صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ اور آثار ذِکر کروں گا اُن میں اعتراض کرنے والے کے اِس سوال کا جواب بھی ہوگا ، جو سوال اُس نے فیس بک پر میرے مراسلات کے جواب میں ظاہر کیا ، کہ """
کیا صحابہ کرامؓ اور خلفا راشدین میں سے کسی نے اپنے اپنے ادوار میں ان احکامات پہ عمل کرتے ہوئے ان جانوروں کا قتلِ عام کیا تھا؟؟ اگر ایسا کچھ ہواتھا تو ثابت کیا جائے۔۔کیونکہ ایسا کچھ ہوا ہوتاتو آج بلادِ عرب میں نہ کتا موجود ہوتا نہ گرگٹ، نہ سانپ نہ چوہا۔نہ کوا نہ چیل """،
اور ایک دفعہ یہ لکھ مارا کہ """
کمال کی بات ہے کہ جس روایت پہ نہ کبھی صحابہ کرام کا عمل ثابت کیا جاسکا، نہ برصغیر کے یہ وہابی خود کبھی عمل کرتے ہیں، اسی روایت کو لے کر ’’سنتِ شریفہ‘‘ کا ڈھنڈورا کیسے پیٹاجاتا ہے۔۔ حیرت ہے۔ بھئی کیا یہ روایت صرف باتوں کی حد تک ہی ہے؟ عمل تو آپ نہ خود کرتے ہو نہ صحابہ کرامؓ کا عمل ثابت کر سکتے ہو اس پہ۔۔۔ یہی دلیل کافی ہے اس روایت کے جھوٹا ہونے کے لیے۔۔ کبھی کسی صحابی نے کوئی کتا نہیں مارا """،
اور ایک دفعہ پھر حدیث شریف کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا کہ """
دوسرا سوال میں نے یہ پوچھا تھا کہ جس سنتِ شریفہ کا بار بار ذکر کر رہے ہو، اس ’’سنتِ شریفہ‘‘ پہ صحابہ کرام میں سے کس کس نے عمل کیا تھا؟؟؟ اثباتِ امر درکار ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کتنے کتے اور گرگٹ مارے تھے؟ حضرت فاروق اعظم، عثمانؓ، علی معاویہ وغیرہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے کتنے جانور اپنے ہاتھوں مار کر مسجد نبوی میں قربانی کی کھالوں کی طرح جمع کروائے تھے؟؟؟؟ کیونکہ ایک روایت آپ کی یہ بھی کہتی ہے کہ ان جانوروں کو پہلی ضرب سے مارنے کا ثواب دوسری ضرب سے مارنے سے زیادہ ہے۔۔ یعنی حکم میں شدت اس قدر زیادہ ہے کہ انہیں زندہ چھوڑدینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔ لیکن حیران کن طور پہ آج بلاد عرب میں کتے بھی موجود ہیں، گرگٹ اور سانپ بھی۔۔ چیل اور کوے بھی۔۔۔ تو یہ ان کی نسلیں کس طرح باقی بچی رہ گئیں؟؟؟؟ سوال کا جواب دیا جائے۔۔ اس سنتِ شریفہ پہ صحابہ کرامؓ کا عمل ثابت کیا جائے۔ """،
اعتراض کرنے والے سے گذارش ہے کہ اپنے لکھی ہوئی بات """ کیونکہ ایک روایت آپ کی یہ بھی کہتی ہے کہ ان جانوروں کو پہلی ضرب سے مارنے کا ثواب دوسری ضرب سے مارنے سے زیادہ ہے۔۔"""، کا کوئی ثبوت سامنے لائے ، اِن شاء اللہ اُس کی حقیقت بھی واضح کر دی جائے گی ،
قارئین کرام ،میں کہہ رہا تھا کہ اِن شاء اللہ اب میں جو صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ اور آثار ذِکر کروں گا اُن میں اعتراض کرنے والے کے اِس سوال کا جواب بھی ہوگا ، جو سوال اُس نے فیس بک پر میرے مراسلات کے جواب میں ظاہر کیا ،
وہ سوالات میں نے ابھی ابھی نقل کیے ہیں ، ذرا ُنہیں ذہن میں رکھتے ہوئے آگے پڑہتے چلیے ،
اِن درج ذیل احادیث شریفہ اور آثار کو بغور پڑہیے ،

:::::: صحابہ رضی اللہ عنہم کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس حکم پر عمل کرنا :::::::
::::::: (1) :::::::
سب سے پہلے اِس حکم کی روایت بیان کرنے والوں میں سے ایک صحابی عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما و أرضاہُما کی ہی بات سنیے ، فرمایا(((((أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْكِلاَبِ فَأَرْسَلَ فِى أَقْطَارِ الْمَدِينَةِ أَنْ تُقْتَلَ ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دِیا اور مدینہ کی بیرونی حدود تک لوگوں کو بھیجا کہ کتوں کو قتل کیا جائے)))))صحیح مُسلم شریف /حدیث/4100کتاب المساقاۃ /باب 10،
اِس حدیث شریف سے یہ پتہ بھی چل گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے لیے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کچھ لوگوں کو مدینہ المنورہ کے بیرونی حدود تک بھی ارسال فرمایا ،
اب دیکھتے ہیں کہ وہ کون تھے ؟؟؟ اور کیا واقعتااُنہوں نے کتوں کو قتل کیا ؟؟؟

::::: (2) ::::: او رانہی عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما و أرضاہُما نے ایک اور مرتبہ میں یہ فرمایا (((((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَأْمُرُ بِقَتْلِ الْكِلاَبِ فَنَنْبَعِثُ فِى الْمَدِينَةِ وَأَطْرَافِهَا فَلاَ نَدَعُ كَلْبًا إِلاَّ قَتَلْنَاهُ حَتَّى إِنَّا لَنَقْتُلُ كَلْبَ الْمُرَيَّةِ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ يَتْبَعُهَا :::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کتوں کو قتل کرنے کا حکم فرماتے ، اور ہم لوگوں کو مدینہ اور اس کے اِرد گِرد روانہ فرماتے ، حتیٰ کہ ہم لوگ ہر ایک کتے کو مار دیتے ، یہاں تک کہ (ایک دفعہ)دیہاتیوں کی ایک عورت کے ساتھ آنے والے کتے کو بھی ہم نے مار ڈالا)))))صحیح مُسلم/حدیث/4101/کتاب المساقاۃ / باب10،
::::: (3) ::::: اِس کے بعد یہ پڑہیے ، یہ روایت دوسرے صحابی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی ہے (((((أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْكِلاَبِ حَتَّى إِنَّ الْمَرْأَةَ تَقْدَمُ مِنَ الْبَادِيَةِ بِكَلْبِهَا فَنَقْتُلُهُ ثُمَّ نَهَى النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ قَتْلِهَا وَقَالَ، عَلَيْكُمْ بِالأَسْوَدِ الْبَهِيمِ ذِى النُّقْطَتَيْنِ فَإِنَّهُ شَيْطَانٌ:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں حکم دِیا کہ کتوں کو قتل کردِیا جائے ، یہاں تک کہ مضافات کی طرف سے کوئی عورت اپنے کتے کے ساتھ آتی تو ہم اُس کتے کو بھی کر دیتے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنےسے منع فرما دِیا اور اِرشاد فرمایا """تُم لوگ اُس خونخوار کالے کتے کو قتل کرو جِس (کے چہرے )پر دو نقطے ہوتے ہیں، کیونکہ وہ شیطان ہوتا ہے )))))صحیح مُسلم/حدیث/4101/کتاب المساقاۃ / باب10،
ان دو مذکورہ بالا حدیثوں میں ، دو مختلف صحابیوں نے کتوں کو قتل کرنے کے حکم پر عمل کرنے کی خبر دی ہے ، اور غور فرمایے کہ دونوں نے جمع کے صیغے میں اس کام کے کیے جانے کی خبر دی ہے ، اور استمرار کے کیفیت کی موجودگی کے ساتھ خبر دی ہے ،
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِس حکم پر عمل صِرف ان دو صحابہ رضی اللہ عنہما نے ہی نہیں کیا تھا ، بلکہ کافی صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا ، اور صِرف ایک دفعہ نہیں کیا ، بلکہ اُس وقت تک کرتے رہے جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کے عام حکم سے منع فرما کر اُسے چند قسم کے کتوں تک محدود و مُقیّد فرما دِیا ۔

یہاں تک کتوں کے بارے میں تو مکمل ہوئی ، اور الحمد للہ معاملہ بالکل واضح ہو گیا کہ اعتراض کرنے والے کا اعتراض اُس کی جہالت کا منہ ُ بولتا ثبوت ہے ، یا پھر اُس کی حدیث شریف سے دُشمنی کا ،
اور اُس کے داغے ہوئے سوال کا جواب بھی میسر ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اس حکم پر عمل کیا اور اس وقت تک کیا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس حکم کو تبدیل نہیں فرمایا ،
اب اِن شاء اللہ حسب عادت اعتراض کرنے والا راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ، وہی پرانا جاھلانہ راگ الاپے گا کہ یہ تو ایرانی حدیث سازوں کی کتابوں کی روایات ہیں ،
چلتے چلتے تھوڑی سی بات اعتراض کرنے والے کے اس ایک جاھلانہ ڈائیلاگ کے بارے میں بھی کرتا چلوں کہ یہ جو أمیر المؤمنین فی الحدیث اِمام محمد بن اِسماعیل البخاری رحمہُ اللہ و رفع درجاتہ ُ کو اور کتب ستہ کے مؤلفین ہمارے اِماموں رحمہم اللہ جمعیاً کو ایرانی کہتا ہے ، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی جہالت کا ایک واشگاف ثبوت ہے جو اللہ تعالیٰ اسی کے الفاظ میں بار بار دِکھا چکا ہے ،
محترم قارئین ، أمیر المؤمنین فی الحدیث اِمام محمد بن اِسماعیل البخاری رحمہُ اللہ و رفع درجاتہ ُ اور کتب ستہ کے مؤلفین ہمارے اِمام رحمہم اللہ جمعیاً میں کوئی بھی ایرانی نہیں تھا، اگر اس بندے میں کچھ تھوڑی سی بھی علم رمق ہے اور اخلاقی جرأت ہے تو اپنے اس بے بنیاد دعوے کا کوئی ثبوت تو سامنے لائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد اِن شاء اللہ ہم اُس آیت شریفہ کا اور اس کی تفسیر کا مطالعہ کریں گے جِس آیت مبارکہ کو اعتراض کرنے والے نے اپنی غلط سوچوں کی دلیل بنانے کی کوشش کی ہے ۔ اور پھر اس کے بعد اُس کے مضمون میں ذِکر کی گئی دیگر احادیث شریفہ میں بیان کردہ مسائل اور موضوعات کا ۔

و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَأَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کے سات حصے ہیں، اِن شاء اللہ ایک دو دِن کے وقفے کے ساتھ سب حصے یہاں ارسال کر دیے جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
آپ نے بہت اچھے موضوع پر قلم اٹھایا ہے ۔
جزاک اللہ خیرا۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
آپ نے بہت اچھے موضوع پر قلم اٹھایا ہے ۔
جزاک اللہ خیرا۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
جزاک اللہ خیراً بھائی کفایت اللہ صاحب، و ما توفیقی الا باللہ۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
::::: کچھ مخصوص جانوروں کے قتل کے حکم والی حدیث شریفہ پر اعتراض کا علمی جائزہ (2) :::::

"""صحیح سُنّت شریفہ کے انکاریوں کے اعتراضات کی ٹارگٹ کلنگ """
و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَأَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُسکے لیے ہدایت واضح کر دی گئی ، اور اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
سب سے پہلے اِس مضمون کے سابقہ ، یعنی پہلے حصے کے آغاز میں کی گئی ایک گذارش دہراتا ہوں کہ یہ مضمون کچھ طویل ہو گا ، اوراِن شاء اللہ اِسلامی علوم کے مطابق مقبول یعنی قبول شدہ علمی قوانین و قواعد کے مطابق ہو گا ، اور بحث برائے بحث کے انداز میں نہیں بلکہ اِسلامی علوم کے مطابق مقبول قوانین و قواعد کے مطابق تحقیق کے انداز میں ہو گا ،
لہذا عین ممکن ہے کہ ایک ہی نشست میں پڑھنے سے درست طور پر سمجھا نہ جا سکے ، لہذا جس قاری کو ذہنی تھکاوٹ یا بیزاری محسوس ہو وہ اِس مضمون کو رک رک کر پڑہے ،
تحمل اور تدبر کے اس کا مطالعہ فرمایے ، اور اِسلامی علوم کے وہ قواعد اور قوانین جو ہمیشہ سے پوری اُمت کے اِماموں کےہاں معروف اور مقبول ہیں اس پر اسے پرکھیے ، کہ یہ میری یا کسی شخص کی ذاتی سوچوں اور بے پر اُڑتے ہوئے پراگندہ خیالات پر مبنی نہیں ہو گا ، باذن اللہ ، جس قاری کے دِل یا دِماغ میں کسی معتبر قاعدے اور قانون کے مطابق کوئی اعتراض ، اشکال یا سوال ہو ،تو وہ ضرور سامنے لائے ، لیکن ایک اچھے مسلمان والے اِخلاق و کلام کے مطابق ، اگر کوئی مسلمان نہیں تو بھی ایک اچھے اخلاق والے انسان کے مطابق کسی کے بھی اعتراض ، اشکال یا سوال کو خوش آمدید کہتا ہوں ، بدتمیزی اور بدتہذیبی اور بازاری انداز کلام میں کسی کی بات کا کوئی جواب نہیں دوں گا ، اِن شاء اللہ العزیز القدیر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ، اِس مضمون کے سابقہ یعنی پہلے حصے میں خلیل اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ میں سے ایک حکم ، یعنی کتوں کو قتل کرنے کے حکم کے خلاف مچائے گئے شور شرابے کا جائزہ صحیح سُنّت مبارکہ کی روشنی میں لیا گیا تھا، اور الحمد للہ یہ واضح کیا گیا تھا کہ یہ حکم تین مراحل میں سے گذر کر حتمی صورت میں قرار دِیا گیا ، اور اُس حتمی صُورت کو صحیح سُنّت شریفہ کے دلائل کے مطابق پیش کر دِیا گیا تھا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے سابقہ حصے میں کہا تھا کہ :::
"""اس کے بعد اِن شاء اللہ ہم اُس آیت شریفہ کا اور اس کی تفسیر کا مطالعہ کریں گے جِس آیت مبارکہ کو اعتراض کرنے والے نے اپنی غلط سوچوں کی دلیل بنانے کی کوشش کی ہے ۔ اور پھر اس کے بعد اُس کے مضمون میں ذِکر کی گئی دیگر احادیث شریفہ میں بیان کردہ مسائل اور موضوعات کا ۔"""۔
لیکن ، اس اِرادے میں تھوڑی سی تبدیلی کرتے ہوئے ، میں پہلے ان احادیث شریفہ کا مطالعہ پیش کروں گا جنہیں اعتراض کرنے والے نے اپنے مضمون میں اپنی سوچوں کا تختہ مشق بنایا ہے ، اور پھر ان کے بعد ان شاء اللہ اُن آیات کریمہ کا مطالعہ کریں گے جنہیں اُس شخص نے اپنے افکار کی درستگی کی دللیل بنانے کی کوشش میں ان کے اپنے مقام سے ہٹانے کی کوشش کی ہے ، جسے دوسرے الفاظ میں معنوی تحریف کہتے ہیں، اِن شاء اللہ ا گلے حصوں میں یہ سب کچھ آپ صاحبان کے سامنے واضح طور پر پیش کر دیاجائے گا ۔

:::::حدیث شریف میں"""گِرگِٹ """کو نہیں بلکہ """چھپکلی """کو قتل کرنے کا حُکم ہے:::::
کتوں کو قتل کیے جانے کے حکم کی تفصیل ، اور اس مسئلے میں آنے والے آخری اور حتمی حکم کے مطالعے کے بعد ، اب اِن شاء اللہ ، ہم اعتراض کرنے والے کی طرف سے لگائی گئی دوسری حدیث شریف کا مطالعہ کرتے ہیں ،
یہ حدیث شریف بھی اُس نے عربی متن کے بغیر کسی ترجمے میں سے دیکھ کر لگا دی ہے ، اور حوالہ بھی غلط دِیا ہے ، اللہ ہی جانے حوالے کی غلطی اُس کی اپنی بد دیانتی پر مبنی ہے ، یا اُس کی جہالت پر ، یا جس ترجمےکو پڑھ کر اُس نے ایک صحیح ثابت شدہ حدیث شریف کا مذاق اُڑانے کی بد تمیزی کی ہے اُس ترجمے کی غلطی ہے ، بہر حال جو کچھ بھی رہا ہو، حتمی بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے نے بالکل غلط بیانی کا مظاہرہ کیا ہے ، جو کسی بھی طور قران کریم میں دی گئی تعلیمات کے موافق نہیں ، پس ،الحمد للہ کہ جس نے اِس اعتراض کرنے والے کی اپنی ہی حرکتوں میں ایک دفعہ پھر یہ دِکھا دِیا کہ اللہ کا یہ بندہ اللہ کی عملی بندگی سے کس قدر دُور ہے ،
قارئین کرام ، آیے اِس دوسری حدیث شریف کا مطالعہ کرتے ہیں ، جسے اعتراض کرنے والے نے اپنے مضمون کے دوسرے صفحے میں دوسری حدیث شریف کے طور پر نقل کیا ہے ، اور یوں لکھا ہے کہ :::

"""ام شریک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گرگٹ کو مارنے کا حکم دِیا۔اس لیے کہ یہ پھونکوں سے اس آگ کو بڑھاتا تھا جس میں ابراہیمؑ کو پھیکا گیا ۔ (بخاری شریف۔جلد دوم۔کتاب بدا الخلق۔حدیث نمبر534)"""
محترم قارئین ،اب اصل حدیث شریف کا مطالعہ فرمایے اور اس اعتراض کرنے والے کی جہالت یا دھوکہ دہی اور بد دیانتی کا اندازہ لگاتے چلیے ، میں اس حدیث شریف کو صحیح البخاری میں سے اس کی مکمل سند کے ساتھ یہاں نقل کر رہا ہوں ، پہلے عربی اور پھر اس کا ترجمہ ،
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى أَوِ ابْنُ سَلاَمٍ عَنْهُ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أُمِّ شَرِيكٍ - رضى الله عنها أَنَّ (((رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - أَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَقَالَ ، كَانَ يَنْفُخُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ )))
ہمیں بتایا عبید اللہ بن موسیٰ نے، یا ابن سلام نے ان کے ذریعے سے بتایا، انہیں خبر کی ابن جریج نے ، عبدلاحمید بن جبیر کے ذریعے ، انہوں نے سعید بن المسیب کے ذریعے ، انہوں نے ام شریک رضی اللہ عنہا کےذریعےکہ((((( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلی کو قتل کرنے کا حکم دِیا ، اور فرمایا ، چھپکلی ابراہیم علیہ السلام پر پھونکیں مارتی تھی))))) صحیح البخاری /حدیث/3359کتاب الانبیاء/باب 8،
مختصر طور یہ حدیث شریف اس صحیح بخاری میں کتاب بدء الخلق ، باب15، میں بھی مروی ہے ، اور اس ایک حدیث کے علاوہ ام شریک رضی اللہ عنہا سے کوئی اور حدیث مُبارک صحیح بخاری شریف میں نہیں ہے۔

:::::::سب تو پہلے تو آپ صاحبان یہ دیکھیے کہ حدیث شریف میں کسی """ گرگٹ """ کا ذِکر نہیں ، بلکہ """چھپکلی """کو مارنے کا حکم فرمایا گیا ہے ، جسے انگریزی میں """Salamanders """ کہا جاتا ہے ، اور عربی میں""" سام أبرص """ بھی کہا جاتا ہے ، جو انگلش میں """Gecko """کہلاتی ہے ، اوراس اعتراض کرنے والے نے اپنے مضمون میں چھپکلی بی کے وکالت کرنے کی بجائے میاں گرگٹ کی وکالت میں اپنا وقت ضائع کر ڈالا،
:::::::دوسرا یہ کہ یہ حدیث شریف """ کتاب بد ء الخلق """ میں نہیں بلکہ""" کتاب الانبیاء""" میں ہے ، اور """ کتاب بد ء الخلق """کی آخری حدیث سے آٹھ ابواب اور 34احادیث کی دُوری پر ہے ، """ کتاب بد ء الخلق """ میں ام شریک رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث مختصر طور پر مروی ہے جس میں صِرف""" چھپکلی """ کو قتل کرنے کا حکم بیان ہوا ہے ، اس کا سبب نہیں ،
اعتراض کرنے والے کی علمیت اور ذہنی ابتری کا اندازہ کرنے کے لیے حوالہ کی اتنی بڑی غلطی ہی کافی ہے ، اور اِن شاء اللہ ، ابھی اور بھی بہت کچھ سامنے آئے گا ،

اعتراض کرنے والے نے اپنی عقل کو دانائی کل جانتے ہوئے صحیح ثابت شدہ حدیث شریف کا انکار کیا، کیونکہ ان کی عقل میں یہ حدیث نہیں آ پاتی لہذا """ یہ کیسے ممکن ہے ؟ """ کی خود ساختہ کسوٹی کی بنا پر صحیح ثابت شدہ حدیث شریف کا انکار کر ڈالا ، لیکن اللہ جلّ و علا نے اُس شخص کو ایسا لا چار کیا کہ اپنی بات کو سچ دکھانے کے لیے اُسی صحیح بخاری کی ایک روایت کا سہارا لینے پر مجبور کیا ، لہذا اعتراض کرنے والا لکھتا ہے """بخاری کی ہی ایک اور روایت آپ کے سامنے رکھتاہوں جو ابو ہریرہ ؓ ہی سے منسوب ہے ۔ کہتے ہیں کہ:
" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک چیونٹی نے کسی نبی (عزیز یا موسیٰ )کو کاٹا تو انہوں نے حکم دِیا کر چیونٹیوں کا سارا جتھہ ہی نذرِ آتس کروا دیا۔ اس پر اللہ نے وحی بھیجی کہ تمہیں ایک چیونٹی نے کاٹا تھا ، لیکن تم نے اتنی مخلوق زندہ جلا ڈالی جو اللہ کی تسبیح کیا کرتی تھی ۔
(بخاری شریف۔جلد دوم۔کتاب الجہاد و السیر۔باب196)
قارئین کرام ! اب وہ
گرگٹ والی روایت سامنے رکھیں اور ٹھنڈے دِل سے سوچیں کہ اس بخاری میں اندرونی تضادات ہیں ۔ایک طرف رسول ﷺکی جانب یہ حدیث منسوب کی گئی ہے کہ کسی نبی نے ایک چیونٹی کے کاٹنے پر جب انکا تمام جتھہ جلوا دیا تو اللہ نے اسی وقت تنبیہہ فرمائی کہ تم نے ایک چیونٹی کے"جرم" پہ سب چیونٹیوں کو کس بات کی سزا دی ؟
اور دوسری ہی جانب معاذ اللہ رسول اللہ ﷺ کی زبانی یہ حکم صادر ہوتا دکھایا جا رہا ہے کہ ابراہیمؑ پہ آگ بھڑکانے والے گرگٹ کے جرم کی پاداش میں
گرگٹوں کی ایک پوری نسل ختم کرنے کا حکم دے رہے ہیں ۔ یہ کیسے ممکن ہے ؟ ذرا سوچیے!"""،
محترم قارئین ، منقولہ بالا اقتباس میں سرخ کیے گئے الفاظ پر خصوصی توجہ رکھیے گا ، سب سے پہلے تو اعتراض کرنے والے کی ایک اور جہالت، یا ، بدحواسی ، یا بددیانتی دیکھیے کہ لکھتا ہے """ جو ابو ہریرہ ؓ ہی سے منسوب ہے """ ، جبکہ اس نے جو چار عدد احادیث شریفہ اپنے گمراہ افکار کا تختہء مشق بنانے کے لیے نقل کی ہیں اُن میں سے کوئی بھی حدیث شریف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ کی روایت نہیں ہے تو پھر چہ معنی دارد!!!
اعتراض کرنے والے نے جس حدیث شریف کو اپنی خود ساختہ کسوٹی """
یہ کیسے ممکن ہے ؟""" کی ، اور اپنے اعتراض کی ، اور اپنی جہالت زدہ سمجھ یا حدیث دشمنی کی بناپر،صحیح بخاری میں تضاد ہونے کی دلیل بنانے کے لیے اسی صحیح بخاری میں سے جو چیونٹیوں کو مارنے والی حدیث شریف نقل کی ہے ، یہ حدیث شریف صحیح البخاری کی اسی کتاب """بدء الخلق""" میں بھی ہے جس میں سے اعتراض کرنے والے نے دوسری احادیث شریفہ نقل کی ہیں ، لیکن قربان جایے اللہ کی حِکمت پر ، کہ اللہ نے اس شخص جو وہ حدیث شریف نقل کرنے پر مجبور کر دِیا جو اس شخص کے خِلاف حجت ہے ،
جی ہاں ، اس حدیث شریف میں اللہ کے طرف سے اپنے کسی نبی کو سرزنش کرنے کا سبب یہ بتایا گیا کہ انہوں نے ایک ایسی مخلوق ، جو کہ اللہ کی تسبیح کرنے والی تھی ، اُس مخلوق کے ایک فرد کی طرف سے تکلیف ملنے پر اس مخلوق کے اس پورے گروہ کو ختم کر دیا جس گروہ کا وہ فرد تھا ،

جبکہ چھپکلی کو مارنے کا سبب اس کا ایسا جرم بیان فرمایا گیا جو اللہ کے ہاں ناقابل معافی رہا ، اور اللہ نے اپہنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے اس مجرم کی ساری ہی جنس کو سزا دیے رکھنے کا حکم کروایا دِیا ، اور ہمیں یہ خبر بھی دی گئی کہ چھپکلی ان جانوروں میں سے ہے جو اللہ کی تابع فرمانی کرنے والے نہیں بلکہ فاسق جانور ہیں،
تو کہاں سے ہوا تضاد !!!؟؟؟
ایک طرف اللہ کی تسبیح کرنے والی مخلوق کا ذکر ہے ، اور دوسری طرف اللہ کی نافرمانی کرنے والی فاسق مخلوق کا ،،،
اور بلا شک و شبہ اللہ کی تسبیح کرنے والی عباد گذار مخلوق اور فاسق مخلوق اللہ کے ہاں ایک جیسی نہیں ہیں ، اور اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اپنی مخلوق پر حاکم ہے ، کوئی اُس کے حکموں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ، وہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ جس طرح چاہے اورجس کے لیے جو چاہے حکم فرماتا ہے ، اور اس کے علاوہ کسی کا حکم اور فیصلہ حتمی نہیں ، اور بلا شک وہی سب سے بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ،
اور اپنے احکام کی خبر اپنے بندوں تک اپنے رسولوں کے ذریعے پہنچا چکا ہے ،اور مکمل طور پر پہنچا چکا ہے کہ لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کوئی بہانہ نہیں رہا ،
اور اس کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے شرعی امور سے متعلق جو کچھ ادا ہوا ، وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحی کے مطابق ہی ہوا ہے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فیصلوں کو ماننا اِیمان کی لازمی شرط قرار دِیا ہے ، پس جو کوئی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام اور فیصلوں کو نہیں مانتا وہ اللہ کے ہاں اِیمان والوں میں نہیں ہے ،

::::: مذکورہ بالا عبارات کے قران کریم میں سے دلائل:::::
اور بلا شک و شبہ اللہ کی تسبیح کرنے والی عباد گذار مخلوق اور فاسق مخلوق اللہ کے ہاں ایک جیسی نہیں ہیں ،
(((((أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوُونَ ::: تو کیا جو اِیمان والا ہے ، وہ فاسق کی طرح ہے ؟ (ہر گز نہیں) ایک جیسے نہیں ہیں)))))سُورت السجدہ (32)/آیت18،
اگر اعتراض کرنے والا ، یا اس کے ہم خیالوں میں سے کوئی یہ سوچے کہ یہ آیت صِرف انسانوں کے لیے تو اسے چاہیے کہ اس آیت مبارکہ کے سیاق و سباق کو دیکھ لے ، اور اعتراض کرنے والا شخص اپنی اس بات کو بھی یاد کر لے کہ"""
یہ آیت مبارکہ میں جو وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي یعنی ‘‘نفس‘‘ کا ذکر ہے۔۔ اس میں آپ نے جانور نکال کر صرف انسان کیسے ٹھونس دیے؟؟؟ کیا جانور نفس یعنی جان نہیں ہوتی؟؟؟ کیسے ثابت کرسکتے ہو کہ لا تقتلوا النفس التی کے حکم میں انسان ہی شامل ہیں ، جانور نہیں۔۔ """ پس جس قاعدے قانون کے مطابق وہ (((((وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ ))))) میں مذکور نفس کو نفسء انسانی ، اور نفسء حیوانی کے لیے برابر سمجھتا ہے اسی قاعدے قانون کے مطابق (((((أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوُونَ))))) میں ایمان والے اور فاسق انسان اور حیوان دونوں ہی داخل ہیں ،
اور اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اپنی مخلوق پر حاکم ہے ، کوئی اُس کے حکموں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ، وہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ جس طرح چاہے اورجس کے لیے جو چاہے حکم فرماتا ہے ، اور اس کے علاوہ کسی کا حکم اور فیصلہ حتمی نہیں ، اور بلا شک وہی سب سے بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ،
(((((وَاللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ:::اور اللہ ہی فیصلہ کرتا ہے اور کوئی اُس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے ، اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے)))))سُورت الرعد(13)/آیت41،
(((((
إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ:::یقیناً اللہ جو چاہتا ہے وہ فیصلہ فرماتا ہے)))))سُورت المائدہ(5)/پہلی آیت،
(((((
إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ:::اور اللہ ہی فیصلہ کرتا ہے اور کوئی اُس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے ، اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے)))))سُورت الرعد(13)/آیت41،
اور اپنے احکام کی خبر اپنے بندوں تک اپنے رسولوں کے ذریعے پہنچا چکا ہے ،اور مکمل طور پر پہنچا چکا ہے کہ لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کوئی بہانہ نہیں رہا ،
(((((رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا::: (ہم نے بھیجے )خوش خبریاں سنانے والے اور خوف زدہ کرنے والے رسول ،تاکہ ان رسولوں کے( آنے اور تبلیغ کر دینے کے )بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کوئی حجت نہ رہے، اور اللہ بہت زبردست ، حِکمت والا ہے)))))سُورت النِساء(4)/آیت165،
اور اس کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے شرعی امور سے متعلق جو کچھ ادا ہوا ، وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحی کے مطابق ہی ہوا ہے ،
(((((وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى O إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى O عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى:::(ہم نے بھیجے ) اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)اپنی خواہش کے مطابق بات نہیں فرماتے O اُن کی بات تو صِرف اُن کی طرف کی گئی وحی ہےOجو وحی انہیں بہت زیادہ قوت والے (فرشتے جبریل)نے سکھائی)))))سُورت النجم (53)/آیات3،4،5،
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فیصلوں کو ماننا اِیمان کی لازمی شرط قرار دِیا ہے ، پس جو کوئی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام اور فیصلوں کو نہیں مانتا وہ اللہ کے ہاں اِیمان والوں میں نہیں ہے ،
(((((فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یؤمِنونَ حَتَّیٰ یحَکِّموکَ فِیمَا شَجَرَ بَینَھم ثمَّ لَا یَجِدونَ فِی اَنفسِھِم حَرَجاً مَمَّا قَضَیتَ وَ یسَلِّموا تَسلِیماً:::اور آپ کے رب کی قسم ، یہ لوگ ہر گِز اُس وقت تک اِیمان والے نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اِختلافات میں آپ کو حاکم نہ بنائیں اور پھر آپ کے فرمائے ہوئے فیصلےاور حکم کے بارے میں اپنے اندر کوئی پریشانی محسوس نہ کریں اور خود کو مکمل طور پر (آپ کے فیصلوں کے ) سُپرد کرنہ دیں)))))سُورت النِساء(4)/آیت65،
[[[ اس موضوع کی کچھ تفصیل ۔
http://bit.ly/14UEiyS۔ پر پڑھنا مت بھولیے گا ]]]
اب کسی کی گمراہ عقل"""یہ کیسے ممکن ہے ؟""" کی کسوٹی پر عمل پیرا رہے تو یہ اس کی عقل میں فتور کی نشانی ہے ، نہ کہ معاذ اللہ ، اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اس کے انبیاء علہیم السلام میں سے کسی کو دی گئی کسی خبر یا کسی حکم کےغلط ہونے کی ،
اپنی ذاتی عقل کو قران کریم اور سنت شریفہ کو سمجھنے اور قبول یا رد کرنے کا معیار بنا کر قران کریم کی آیات مبارکہ کی تاویلات کرنے والے ، اور صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کو رد کرنے والے ، اور ان کی سوچ و فِکر سے متاثر ہونے والوں کو یہ اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ اُن کی عقلیں اللہ اور اس کے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ اور افعال شریفہ کی پرکھ نہیں ہیں ،
گو کہ اعتراض کرنے والے کی طرف سے نقل کی گئی دوسری حدیث کا مسئلہ یہاں تک کی بات چیت میں بھی بالکل واضح ہو جاتا ہے ، لیکن پھر بھی مزید تسلی کے لیے ، اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا ، اور اب ایک دفعہ پھر دہراتا ہوں کہ """ قاعدے قانون اور اصول کی بات ہے کہ جب کسی ایک مسئلے کو سمجھا جانا ہو تو اُس کے بارے میں صِرف کسی ایک ہی جگہ میں مذکورہ کسی ایک روایت یا چند ایک روایات کو دیکھ کر اُس پر حکم صادر کر دینا سوائے جہالت اور گمراہی کے کچھ اور نہیں ہوتا ، جیسا کہ اعتراض کرنے والے کی کاروائی ہے """
اِن شاء اللہ ہم اس قاعدے اور قانون کے مطابق """ چھپکلی """ کو قتل کیے جانے کے حکم والی احادیث شریفہ کا کچھ اور جگہوں سے بھی مطالعہ کرتے ہیں ،

::::::چھپکلی کو قتل کیے جانے کے حکم کا بیان، صحیح ثابت شدہ احادیث مُبارکہ کی روشنی میں :::::::
::::::: (1) ::::::: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کے صاحبزادے عامر رحمہُ اللہ ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ(((((أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَسَمَّاهُ فُوَيْسِقًا::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے چھپکلیوں کو قتل کرنے کا حکم دِیا اور چھپکلی کو فاسق قرار دِیا))))) صحیح مُسلم/حدیث /5981کتاب السلام/باب 38، سنن ابو داؤد /حدیث/5264 کتاب الادب /باب176 فِى قَتْلِ الأَوْزَاغِ ،اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
::::::: (2) ::::::: اِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا نے کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((الْوَزَغُ الْفُوَيْسِقُ:::چھپکلی فاسق ہے)))))سنن النسائی /حدیث2899 /کتاب الحج/باب 85میں بھی ہے ، اور امام الالبانی رحمہُ نے صحیح قرار دِیا ہے ۔
::::::: (3) ::::::: سائبہ رحمہا اللہ ، جو کہ الفاکہ بن المغیرہ رحمہُ اللہ کی باندی تھیں ، کا کہنا ہے کہ وہ ایک دفعہ اِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا وأرضاھا کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو انہوں نے امی جان عائشہ کےگھر میں ایک(نیزہ یا) برچھی رکھی ہوئی دیکھی، تو سائبہ نے عرض کی """ اے اِیمان والوں کی امی جان ، اس کے ساتھ آپ کیا کرتی ہیں ؟ """،
تو امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا نے فرمایا """ہم اس کے ساتھ چھپکلیوں کو قتل کرتے ہیں """(اور مزید فرمایا )،
(((((
فَإِنَّ نَبِىَّ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَخْبَرَنَا أَنَّ إِبْرَاهِيمَ لَمَّا أُلْقِىَ فِى النَّارِ لَمْ تَكُنْ فِى الأَرْضِ دَابَّةٌ إِلاَّ أَطْفَأَتِ النَّارَ غَيْرَ الْوَزَغِ فَإِنَّهَا كَانَتْ تَنْفُخُ عَلَيْهِ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِهِ :::کیونکہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں خبر فرمائی کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا گیا تو (جائے وقوع کے قریب )زمین میں پر چلنے والا (رینگنے والا)کوئی ایسا جانور نہ تھا جس نے آگ بھجائی (کی کوشش)نہ (کی)ہو ، سوائے چھپکلی کے، یہ ابراہیم علیہ السلام پر آگ (کو تیز کرنے کے لیے) پھونکتی رہی، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا حکم فرمایا)))))سنن ابن ماجہ ۔حدیث/3353کتاب الصید/باب12، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
یہ حدیث شریف کچھ اور الفاظ کےاضافے کے ساتھ سنن النسائی /کتاب الحج/باب 85میں بھی ہے ، اور امام الالبانی رحمہُ نے صحیح قرار دِیا ہے ، ان شاء اللہ اِس کا مکمل ذِکر، اعتراض کرنے والے کی نقل کی ہوئی تیسری حدیث شریف کے مطالعے میں کروں گا،

::::::: (4) ::::::: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((مَنْ قَتَلَ وَزَغًا فِى أَوَّلِ ضَرْبَةٍ كُتِبَتْ لَهُ مِائَةُ حَسَنَةٍ وَفِى الثَّانِيَةِ دُونَ ذَلِكَ وَفِى الثَّالِثَةِ دُونَ ذَلِكَ :::جس نے چھپکلی کو پہلی ضرب میں قتل کیا اُس کے لیے سو نیکیاں لکھی دی جاتی ہیں ، اور دوسری ضرب میں قتل کرنے سے اُس سے کم ، اور تیسری ضرب میں قتل کرنے پر اُس سے بھی کم )))))صحیح مُسلم /حدیث/5984کتاب السلام/باب 38،
:::::: مذکورہ بالا ، صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ میں مذکور خبروں اور احکام کا خلاصہ :::::::
:::::::
ابھی تک کے مطالعے سے یہ سامنے آیا کہ تین مختلف صحابہ ، اُم شریک ، سعد بن ابی وقاص ، اور اِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے یہ خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے""" چھپکلیوں """ کو قتل کرنے کا حکم دِیا ،۔۔۔۔۔ اور ، امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا اس حکم مبارک پر عمل پیرا رہتی تھیں ،
::::::: دو صحابہ ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ ، اور اِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا نے یہ خبر دی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے "چھپکلی "کو "فاسق" قرار دِیا ، اور اسے قتل کرنے کا حکم دِیا ،
::::::: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ نے یہ خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے چھپکلی کو پہلے ہی وار میں قتل کرنے کے بدلے میں سو نیکیاں ملنے کی خوشخبری سنائی ،
[[[[[ اعتراض کرنے والے کے کتوں کو قتل کرنے کے حکم پر اعتراض کے جواب میں ، میں نے لکھا تھا کہ :::
""""" اعتراض کرنے والے سے گذارش ہے کہ اپنی لکھی ہوئی بات"""
کیونکہ ایک روایت آپ کی یہ بھی کہتی ہے کہ ان جانوروں کو پہلی ضرب سے مارنے کا ثواب دوسری ضرب سے مارنے سے زیادہ ہے۔۔"""، کا کوئی ثبوت سامنے لائے ، اِن شاء اللہ اُس کی حقیقت بھی واضح کر دی جائے گی ،"""""۔
پہلی دفعہ میرا یہ پیغام 7 فروری2013 کی رات میں نشر کیا گیا ،
جس کے دو دِن بعد ، بتاریخ 9فروری 2013 کی دوپہر میں اعتراض کرنے والے نام نہاد قرانی قوت صاحب کی طرف سے بہانہ کیا گیا کہ ان سے فائل ڈاون لوڈ نہیں ہو پا رہی ،
لہذا نئی جگہ پر فائل چڑھا کر میں نے، اُسی دِن کی شام کی ابتداء میں اس نئی جگہ کا ربط بھی مہیا کر دِیا ،
اور اب یہ تحریر لکھتے وقت تقریبا ً 6 دن گذر چکے ہیں ، اور اس شخص کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں ،اور اِن شاء اللہ اسلامی علوم کے مطابق کوئی جواب آنے والا بھی نہیں ،

آپ صاحبان دیکھ لیجیے کہ، میری طرف سے مذکورہ بالا احادیث شریفہ میں سے چوتھے نمبر پر مذکورہ حدیث شریف وہ حدیث شریف ہے جس میں ایک جانور """ چھپکلی """ کو پہلے وار میں قتل کرنے کا ثواب دوسرے وار میں قتل کرنے سے زیادہ بیان فرمایا گیا ہے ،
اور اعتراض کرنے والے نے اس حدیث شریف کے بارے میں بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اُن سب جانوروں کے بارے میں بتایا جن کے قتل کے حکم والی احادیث مبارکہ پر اس نے اعتراض کیے ، جبکہ اِس مذکورہ بالا حدیث شریف میں ان جانوروں میں سے کہیں کسی کا کوئی ذِکر نہیں ،

لہذا ،،،،، میرا سوال اب بھی باقی ہے
]]]]]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الحمد للہ ، یہاں تک اعتراض کرنے والے کی طرف نقل کردہ پہلی اور چوتھی ، اور پھر دوسری حدیث شریف پر کیے گئے اعتراضات کی ٹارگٹ کِلنگ مکمل ہوئی ، اس کے بعد اِن شاء اللہ ہم اس کی نقل کردہ تیسری حدیث شریف ، اور اس میں دے گئے حکم کا مطالعہ کریں گے ، اور اس پر کیے گئے اعتراض کی ٹارگٹ کِلنگ ،باذن اللہ ۔
و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَأَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
::::: کچھ مخصوص جانوروں کے قتل کے حکم والی حدیث شریفہ پر اعتراض کا علمی جائزہ (3) :::::
"""صحیح سُنّت شریفہ کے انکاریوں کے اعتراضات کی ٹارگٹ کلنگ """
بِسمِ اللَّہ ، و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَأَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُسکے لیے ہدایت واضح کر دی گئی ، اور اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
سب سے پہلے میں سابقہ دو حصوں کے آغاز میں کی گئی گذارش کو ایک دفعہ پھر دہراتاہوں کہ یہ مضمون کچھ طویل ہو گا ، اوراِن شاء اللہ اِسلامی علوم کے مطابق مقبول یعنی قبول شدہ علمی قوانین و قواعد کے مطابق ہو گا ، اور بحث برائے بحث کے انداز میں نہیں بلکہ اِسلامی علوم کے مطابق مقبول قوانین و قواعد کے مطابق تحقیق کے انداز میں ہو گا ،
لہذا عین ممکن ہے کہ ایک ہی نشست میں پڑھنے سے درست طور پر سمجھا نہ جا سکے ، لہذا جس قاری کو ذہنی تھکاوٹ یا بیزاری محسوس ہو وہ اِس مضمون کو رک رک کر پڑہے ،
تحمل اور تدبر کے اس کا مطالعہ فرمایے ، اور اِسلامی علوم کے وہ قواعد اور قوانین جو ہمیشہ سے پوری اُمت کے اِماموں کےہاں معروف اور مقبول ہیں اس پر اسے پرکھیے ، کہ یہ میری یا کسی شخص کی ذاتی سوچوں اور بے پر اُڑتے ہوئے پراگندہ خیالات پر مبنی نہیں ہو گا ، باذن اللہ ، جس قاری کے دِل یا دِماغ میں کسی معتبر قاعدے اور قانون کے مطابق کوئی اعتراض ، اشکال یا سوال ہو ،تو وہ ضرور سامنے لائے ، لیکن ایک اچھے مسلمان والے اِخلاق و کلام کے مطابق ، اگر کوئی مسلمان نہیں تو بھی ایک اچھے اخلاق والے انسان کے مطابق کسی کے بھی اعتراض ، اشکال یا سوال کو خوش آمدید کہتا ہوں ، بدتمیزی اور بدتہذیبی اور بازاری انداز کلام میں کسی کی بات کا کوئی جواب نہیں دوں گا ، اِن شاء اللہ العزیز القدیر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ، اِس مضمون کے پہلے حصے میں خلیل اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ میں سے ایک حکم ، یعنی کتوں کو قتل کرنے کے حکم کے خلاف مچائے گئے شور شرابے کا جائزہ صحیح سُنّت مبارکہ کی روشنی میں لیا گیا تھا، اور الحمد للہ یہ واضح کیا گیا تھا کہ یہ حکم تین مراحل میں سے گذر کر حتمی صورت میں قرار دِیا گیا ، اور اُس حتمی صُورت کو صحیح سُنّت شریفہ کے دلائل کے مطابق پیش کر دِیا گیا تھا ،

اور اس کے بعد دوسرے حصے میں چھپکلیوں کو قتل کرنے کے حکم کا تفصیلی مطالعہ کیا گیا تھا ، اور اب اِس تیسرے حصے میں اِن شاء اللہ ، سانپوں کے قتل کیے جانے کے حکم کا مطالعہ کیا جائے گا ،
اب ہم اُس حدیث شریف کا مطالعہ کریں گے جو اعتراض کرنے والے نے اپنے مضمون کے سرورق کے بعد پہلے صفحے میں تیسرے نمبر پر نقل کی ہے ، اور جس میں سانپوں کو قتل کرنےکا حکم ہے ،
حدیث شریف درج ذیل ہے :::
سالم رحمہُ اللہ ، عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہ ُ سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما و أرضاہُما نے فرمایا کہ ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو منبر پر خطاب فرماتے ہوئے سُنا کہ (((((
اقْتُلُوا الْحَيَّاتِ ، وَاقْتُلُوا ذَا الطُّفْيَتَيْنِ وَالأَبْتَرَ ، فَإِنَّهُمَا يَطْمِسَانِ الْبَصَرَ ، وَيَسْتَسْقِطَانِ الْحَبَلَ:::سانپوں کو قتل کردو ، اور دو دھاری والے اور چھوٹی دُم والے سانپ کو بھی قتل کر دو کیونکہ یہ دونوں بینائی ختم کر دیتے ہیں اور حمل گِرا دیتے ہیں )))))صحیح البُخاری /حدیث/3297کتاب بدء الخلق/باب14،
اعتراض کرنے والے نے حسب معمول اس حدیث شریف کا بھی صِرف ترجمہ ہی لکھا ہے ، اور ترجمے کے آخر میں اپنی جہالت کے اعتراٖف کو دو قوسوں میں نمایاں کرتے ہوئے یوں لکھا ہے (نہ جانے کیسے )،
الحمد للہ ، جِس نے ایک اور دفعہ اُس شخص کی عقل پرستی ، اور پھر اُسی عقل کی جہالت کا اعتراف اُسی شخص کے الفاظ میں کروا کر اُس کی عقل کی کم مائگی کو پھر سے واضح فرمایا ،

محترم قارئین ، اگر یہ اعتراض کرنے والا شخص ، خود سے مطالعہ کرنے والا ہوتا ، یا حق کی تلاش میں ہوتا ،تو صحیح بخاری شریف کے ان ابواب کا مطالعہ کرتا جن کے حوالے دیے ہیں تو اسے اعتراض کرنے کی حاجت نہ رہتی ، ،، یا ،،، پھر وہی بات ،،، کہ یہ شخص یا جن کی یہ پیروی کر رہا ہے ، وہ لوگ جان بوجھ کر، اللہ کے دِین کے دوسرے مصدر ، اللہ کی طرف سے مقرر کردہ مفسر ء قران ، شارح ء قران ، اور قران کا بیان فرمانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنت مبارکہ کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلاتے ہیں ، تا کہ جس طرح چاہیں قران کریم کی معنوی تحریف کرتے چلیں ، اور قران مجید کا نام لے کر مسلمانوں کو راہ ء حق سے دُور لے جائیں اور وہ مسلمان یہ ہی سمجھتا رہے کہ وہ تو اللہ کی کتاب پر عمل کر رہا ہے ،

قارئین کرام ، اسی حدیث کے بعد والی حدیث سارے معاملے کو واضح کر دینے والی ہے ، 1427ہجری یعنی 2006 عیسوئی میں ، میں نے ایک کتاب بعنوان """ وہ ہم میں سے نہیں """ شروع کی تھی ، جو ابھی تک تکمیل کے آخری مراحل میں سے گذرنے کے انتظار میں ہے ، الحمد للہ ، اس کتاب میں ، اس کے عنوان کے مطابق مطالعے کی فہرست میں آنے والی حدیث شریف رقم9 کے ضمن میں وہ تمام معلومات میسر تھیں جو اس شخص کے اعتراض کے جواب میں اِن شاء اللہ کافی و شافی ہوں گی ،
لہذا ، اُسی کتاب میں سے اس موضوع سے متعلق مواد میں یہاں پیش کرتا ہوں ، جو کہ اِن شاء اللہ کافی ، بلکہ اِن شاء اللہ کافی سے بھی زیادہ رہے گا ، ملاحظہ فرمایے ، اور خصوصی گذارش ہے کہ بہت توجہ سے پڑھیے اور بار بار پڑھیے ، یہاں تک کہ ہر ایک بات کی سمجھ آجائے ، اور اگر ، اپنی ذاتی سوچوں اور اپنی عقل پرستی سے ہٹ کر اسلامی علوم میں مقرر شدہ قوانین کی روشنی میں کوئی اشکال ہو تو براہ مہربانی کسی جھجھک کے بغیر سامنے لایے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

::: نواں کام 9 :::

::::سانپوں کو اُن کی طرف سے انتقام لیے جانے کے خوف سے قتل نہ کرنا :::::
عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ إِقتلوا الحیَّات کلَّھُن ، فَمَن خَافَ ثأرَھُنَّ فَلَیس مِنّا ::: سب سانپوں(چھپکلیوں وغیرہ)کوقتل کرو اور جو اُن کے انتقام سے ڈرا(اور اِس ڈر کی وجہ سے اُن کو قتل نہ کیا) تو وہ ہم میں سے نہیں سنن أبو داؤد/حدیث 5238/أبواب السلام/باب33 باب فی قتل الحیات،سُنن النسائی/حدیث 3193/کتاب الجہاد/باب 48،صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ /حدیث 1149/المشکاۃ 4140 ،
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
﴿ مَا سَالَمْنَاهُنَّ مُنْذُ حَارَبْنَاهُنَّ وَمَنْ تَرَكَ شَيْئًا مِنْهُنَّ خِيفَةً فَلَيْسَ مِنَّا:::جب سےہم نےاُن(یعنی سانپوں)کےساتھ لڑائی شروع کی ہے ہم نے اُنہیں سلامتی نہیں دی جِس نے اُن(سانپوں)کو (اُنکے انتقام کے)ڈر کی وجہ سےقتل نہ کیا تو وہ ہم میں سے نہیں
سنن أبی داؤد/حدیث5237/کتاب الادب /أبواب السلام/ باب باب فی قتل الحیات ، اور امام ابو داؤد رحمہ ُ اللہ کی اس روایت کو امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
أبو ھریرہ رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا
﴿ مَا سَالَمْنَاهُنَّ مُنْذُ حَارَبْنَاهُنَّ وَمَنْ تَرَكَ شَيْئًا مِنْهُنَّ خِيفَةً فَلَيْسَ مِنَّا:::جب سےہم نےاُن(یعنی سانپوں)کےساتھ لڑائی شروع کی ہے ہم نے اُنہیں سلامتی نہیں دی جِس نے اُن(سانپوں)کو (اُنکے انتقام کے)ڈر کی وجہ سےقتل نہ کیا تو وہ ہم میں سے نہیں
تعلیقات الحسان علیٰ صحیح ابن حبان/حدیث5615/کتاب الحَظر و الإِباحۃ / باب 4 ، سنن أبی داؤد/حدیث5250/کتاب الادب /أبواب السلام/ باب باب فی قتل الحیات ، ، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے امام ابو دواد رحمہُ اللہ کی روایت کو حسن صحیح قرار دِیا ،
إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نےامام ابن حبان رحمہُ اللہ کی اِس روایت کو حسن اور گواہ کےطورپرصحیح کہا ہے،

فقہ الحدیث ::: حدیث کی تشریح اور أحکام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہر بات اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت کے لیے سبق رکھتی ہے اور خاص طور پر عقیدے کی اِصلاح کے لیے خاص مفہوم رکھتی ہے ، اُوپر بیان کی گئی دونوں أحادیث شریفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک شرکیہ عقیدے کا اِنکار فرمایا ہے ، اور اُس کو رَد فرماتے ہوئے اپنی اُمت کے عقیدے کی درستگی کے لیے یہ اِرشاد فرمایاہے ﴿ فَمَن خَاف ثأرھُنَّ فَلَیس مِنّا ::: اور جو اُن کے انتقام سے ڈرا (اور اِس ڈر کی وجہ سے اُنکو قتل نہ کیا) تو وہ ہم میں سے نہیںاور﴿مَن تَرکَ قَتل شيء مِنھُنَّ خِیفَۃً فَلیس مِنا:::جِس نےاُن(سانپوں)کو(اُنکے انتقام کے)ڈر کی وجہ سےقتل نہ کیا تو وہ ہم میں سے نہیں ،
یہ وضاحتیں اِس لیے بیان فرمائیں کہ اُس وقت کے معاشرے میں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ سانپ کو مارنے سے اُس سانپ کے رشتہ دار مارنے والے سے انتقام لیتے ہیں ، اور اِس عقیدے کی وجہ سے لوگ سانپوں کو مارنے سے ڈرتے تھے ، اور یہ بات آج بھی ہے ، ہمارے معاشرے میں اکثرزبانوں،اور کتابوں میں اِس قِسم کی کہانیاں ملتی ہیں جو اِس عقیدے کی غماز ہوتی ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق جاننے اُسے قبول کرنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اُسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے ،
اوپر بیان کی گئی أحادیث میں ہر قِسم کےسانپوں کو قتل کرنے کا حُکم ملتا ہے ، اور چند دوسری أحادیث میں دو قسم کے سانپوں کے لیے الگ حُکم ملتا ہے ،

::::: ( 1 ) ::::: جِن میں سے ایک قِسم کے سانپ کو مارنےسے منع کیا گیا،لہذا اِس معاملے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہر قِسم کے سانپوں میں سے ایک قِسم کے سانپوں کو نہیں مارا نہیں جائے گا ،
::::: ( 2 ) ::::: اور ایک قِسم کے سانپوں کو مارنے سے پہلے اُن سانپوں کو تنبیہ(warning)کی جائے گی ،
::::: کِس قِسم کے سانپوں کو مارنے کی ممانعت ہے :::::
::::: ( 1 ) :::::
اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (((((أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- نَهَى عَنْ قَتْلِ حَيَّاتِ الْبُيُوتِ إِلاَّ الأَبْتَرَ وَذَا الطُّفْيَتَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَخْطَفَانِ - أَوْ قَالَ يَطْمِسَانِ - الأَبْصَارَ وَيَطْرَحَانِ الْحَمْلَ مِنْ بُطُونِ النِّسَاءِ وَمَنْ تَرَكَهُمَا فَلَيْسَ مِنَّا::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے گھروں میں پائے جانے والے جِنَّان کو قتل کرنے سے منع فرمایا ،سوائے اُس کے جس کی دُم بہت چھوٹی سی ہوتی ہے اور وہ جِس کی کمر پر دو دھاریاں بنی ہوتی ہیں،کیونکہ یہ (دونوں) بینائی کو چھین لیتے ہیں ،یا فرمایا کہ ، مٹا دیتے ہیں اور عورتوں کے پیٹ سے حمل گرا دیتے ہیں اور بینائی ختم کر دیتے ہیں ))))) مُسند أبی یعلی الموصلی/حدیث4341/مُسند عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوسری حدیث ، مُسند أحمد/حدیث24511/حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا کی پہلی حدیث ، اِس حدیث کے بارےمیں إِمام أبوبکر الہیثمی نے کہا"""أحمد کی روایت کے راوی صحیح روایات والے ہیں """، بحوالہ المجمع الزوائد / کتاب الصید و الذبائح / باب النھی عن قتل عوامر البیوت /باب32 ۔
::::: ( 2 ) ::::: سعید ابن المسیب رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ ایک عورت ()اِیمان والوں کی والدہ محترمہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کے پاس حاضر ہوئی تو ان کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا ، اُس نے پوچھا ، اے ایمان والوں کی امی جان ، آپ اِس سے کیا کرتی ہیں ، تو انہوں نے اِرشاد فرمایا""" یہ چھپکلیوں( کو قتل کرنے ) کے لیے ہے """، کیونکہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں بتایا تھا ((((أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ شَىْءٌ إِلاَّ يُطْفِئُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِلاَّ هَذِهِ الدَّابَّةُ، فَأَمَرَنَا بِقَتْلِهَا ، وَنَهَى عَنْ قَتْلِ الْجِنَّانِ إِلاَّ ذَا الطُّفْيَتَيْنِ وَالأَبْتَرَ فَإِنَّهُمَا يُطْمِسَانِ الْبَصَرَ وَيُسْقِطَانِ مَا فِى بُطُونِ النِّسَاءِ::: کہ جب ابراہیم (علیہ السلام)کو آگ میں ڈالا گیا تو (جائے وقوع کے قریب )زمین میں پر چلنے والا (رینگنے والا)کوئی ایسا جانور نہ تھا جس نے آگ بھجائی (کی کوشش)نہ (کی)ہو ، سوائے چھپکلی کے، یہ ابراہیم علیہ السلام پر آگ (کو تیز کرنے کے لیے) پھونکتی رہی، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا حکم فرمایا، اور ہمیں جِنّان کو قتل کرنے سے منع فرمایا ، سوائے دو دھاری والے کے ، اور چھوٹی دُم والے کے کیونکہ یہ دونوں بینائی ختم کر دیتے ہیں اور جو کچھ عورتوں کے پیٹ میں ہوتا ہے وہ گرا دیتے ہیں)))))سُنن النسائی /حدیث/2844کتاب الحج/باب85،امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
::::: ( 3 ) ::::: ابن ابی مُلیکہ رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ ، عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہُما و أرضاہُما سب ہی سانپوں کو قتل کر دِیا کرتے تھے ، پھر انہوں نے ایسا کرنے سے منع کر دِیا اور(منع کرنے کا سبب بتاتے ہوئے )فرمایا (((((إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدَمَ حَائِطًا لَهُ فَوَجَدَ فِيهِ سِلْخَ حَيَّةٍ فَقَالَ انْظُرُوا أَيْنَ هُوَ فَنَظَرُوا فَقَالَ اقْتُلُوهُ :::نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُن کے باغ کی دیوار گرائی تو اُس (دیوار) میں ایک سانپ کی اتاری ہوئی کھال دیکھی ، تو اِرشاد فرمایا ، دیکھو کہ سانپ کہاں ہے ؟ ، صحابہ نے سانپ دیکھ لیا ، تو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے )اِرشاد فرمایا ، اُسے قتل کر دو)))))،
اس لیے میں سانپوں کو قتل کیا کرتا تھا ، پھر (ایک دفعہ)میری ملاقات ابو لبابہ (البدری رضی اللہ عنہ ُ )سے ہوئی تو انہوں نے مجھے خبر دی کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((
لَا تَقْتُلُوا الْجِنَّانَ إِلَّا كُلَّ أَبْتَرَ ذِي طُفْيَتَيْنِ فَإِنَّهُ يُسْقِطُ الْوَلَدَ وَيُذْهِبُ الْبَصَرَ فَاقْتُلُوهُ :::جِنّان کو قتل مت کرو، سوائے اس کے جس کی دُم کٹی ہوتی ہے ، (یا اتنی چھوٹی ہوتی ہے گویا کہ کٹی ہوئی ہو)،اور سوائے اُس کے جِس کی کمر پر دو دھاریاں نبی ہوتی ہیں ، کیونکہ یہ (دونوں قِسم کے سانپ)حمل ضائع کر دیتے ہیں ، اور بینائی ختم کر دیتے ہیں)))))
صحیح البُخاری/حدیث3311/کتاب بدء الخلق/باب 15، صحیح مُسلم/ حدیث 2233/کتاب قتل الحیات وغیرہ/پہلا باب، اُوپرلکھے ہوئے الفاظ صحیح البُخاری کی روایت کے ہیں ،
اور سنن ابی داؤد میں اس کے یہ الفاظ ہیں کہ (((((
نَهَى عَنْ قَتْلِ الْجِنَّانِ الَّتِى تَكُونُ فِى الْبُيُوتِ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ ذَا الطُّفْيَتَيْنِ وَالأَبْتَرَ فَإِنَّهُمَا يَخْطِفَانِ الْبَصَرَ وَيَطْرَحَانِ مَا فِى بُطُونِ النِّسَاءِ::: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)نے جِنّان جو کہ گھروں میں ہوتے ہیں ، انہیں قتل کرنے سے منع فرمایا ، سوائے اس کے کہ وہ جِنّان دو دھاری والوں میں سے ہو ، اور چھوٹی دُم والا ہو ، کیونکہ یہ دونوں (قِسم کے سانپ)بینائی چھین لیتے ہیں ، اور جو کچھ عورتوں کے پیٹ میں ہوتا ہے نکال دیتے ہیں )))))سُنن ابو داؤد /حدیث /5255کتاب الادب /باب175،
اس حدیث شریف سے ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ پہلے ہر قِسم کے سانپوں کو مارنے کا عام حکم فرمایا گیا تھا ، پھر اُس حکم میں تبدیلی فرما کر اسے مُقیّد فرما دِیا گیا،
إِمام ابن حجر العسقلانی رحمہُ اللہ نے فتح الباری شرح صحیح البُخاری میں لکھا :::
""" جِنَّان ::: جان کی جمع ہے ، اور جان چھوٹےسے باریک ہلکے وزن والے سانپ کو کہتے ہیں ، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جان وہ سانپ ہوتا ہے جو باریک اور سفید رنگ کا ہوتا ہے""" ،
إِمام الترمذی رحمہُ اللہ نے ابن المبارک رحمہُ اللہ کا قول نقل کیاہے کہ """جان وہ سانپ ہے جو چاندی کے طرح (چمکدار رنگت والا)ہوتا ہے ،اور اُسکی چال سیدہی ہوتی ہے"""،
عام طور پر""" جِنّان """سے مُراد چھوٹے سانپ ہوتے ہیں ،

أبتر ::: اُس سانپ کو کہا جاتا ہے جِس کی دُم چھوٹی سی ہوتی ہے ، اور عموماً اُس کی رنگت نیلی سی ہوتی ہے،
ذی طفیتین ::: وہ سانپ جِس کی پُشت پر دو سُفید یا سُفیدی مائل دھاریاں ہوتی ہیں،
مذکورہ بالا سب احادیث شریفہ کے مطالعہ سے یہ مسئلہ واضح ہوا کہ گھروں میں دِکھائی دینے والے سانپوں میں سے دودھاری والے ، اور چھوٹی دُم والے سانپوں کو فوراً قتل کر دیا جانا چاہیے کیونکہ یہ سانپ دو خوفناک کام کرتے ہیں ،
::::: (1) :::::: بینائی ختم کر دیتے ہیں ، اور ،
::::: (2) :::::: حاملہ عورتوں کا حمل گِرا دیتے ہیں ،
اس کے بعد گھروں میں دِکھائی دینے والے سانپوں کو قتل کرنے کے حکم میں سے ایک احتیاطی کاروائی ، کے حکم کے بارے میں مطالعہ کریں گے ، وہ احتیاطی کاروائی گھروں میں دِکھائی دینے والے سانپوں کو قتل کرنے سے پہلے انہیں تنبیہ کرنے کی ہے ،

::::: کن سانپوں کو تنبیہ کی جائے گی :::::
یہاں سے آگے چلنے سے پہلے میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ کچھ ایسے لوگوں کے شبہات کا جواب دیا جائے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اور بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ کو اپنی ناقص اور جہالت زدہ عقلوں کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور اس میں علمیت کا رنگ بھرنے کے لیے انہیں جدید سائنسی علوم کی معلومات کے مطابق پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں ،
اور اگر اپنی جہالت کی وجہ سے ایسی کوئی معلومات حاصل نہ کر سکیں تو معاذ اللہ صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ کا تو انکار ہی کر ڈالتے ہیں اور قران کریم کی آیات مبارکہ کی باطل تاویلات کرنے لگتے ہیں ،
جبکہ قران کریم اور صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ سائنسی معلومات کا ذریعہ نہیں ہیں ، اور ان پر """ ایمان بالغیب """ رکھنے کا حکم ہے ، لیکن اس کی توفیق ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی ، خاص طور پر کسی ایسے کو تو نہیں ہوتی جو اپنی عقل ، ذاتی سوچ و فِکر اور مادی علوم کو اللہ اور اس کی خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اقوال اور افعال کی جانچ کی کسوٹی بناتا ہے ،
ایسے ہی جاھلوں میں سے کچھ اِن صحیح ثابت شدہ احادیث پر بھی اعتراض کرتے ہیں ، کیونکہ ان کی عقلوں میں یہ بات نہیں آ پاتی کہ کوئی سانپ کس طرح کسی کی بینائی ضائع کر سکتا ہے؟؟؟ اور کس طرح کسی حاملہ عورت کا حمل گرا سکتا ہے ؟؟؟
میں یہاں کچھ زیادہ تفصیلات ذِکر نہیں کروں گا ، بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جدید علوم میں سے جانوروں کی صِفات اور عادات سے متعلق علم میں یہ چیز معروف ہے کہ سانپوں میں ایسے بھی ہیں جو کافی فاصلے سے اپنا زہر فوارے کی صورت میں پھینکتے ہیں ، اور اگر وہ زہر کسی کی آنکھ میں داخل ہو جائے ، اور مناسب وقت کے اندر اندر اس کا کوئی علاج نہ کیا جائے تو اُس آنکھ کی بینائی ہمیشہ کے لیے جاری رہتی ہے ،
ایسے سانپوں کو عام طور پر """Spitting Snakes,Rinkhals cobra, Ringhals cobra """وغیرہ کہا جا تا ہے ، اور ان کی کئی مختلف اقسام بتائی جاتی ہیں ،
ان معلومات کو انٹر نیٹ پر بھی بڑی آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے ، مثال کے طور پر درج ذیل لنکس :::

http://www.helium.com/items/2272293-snake-facts-rinkhals-cobra
http://www.britannica.com/EBchecked/topic/504089/ringhals
http://www.tigerhomes.org/animal/spitting-cobra.cfm
http://en.wikipedia.org/wiki/Snakebite
http://www.ajtmh.org/content/25/3/525.full.pdf
http://informahealthcare.com/doi/abs/10.3109/15563659309000372
اور عورتوں کا حمل گر جانے کے بارے میں درج ذیل لنکس دیکھیے :::
http://www.supplements.annemergmed.com/PDF/Pregnancy.pdf
عربی سمجھنے والوں کے لیے درج ذیل لنک پر بہت شاندار اور مدلل معلومات میسر ہیں ، جس میں اس قسم کے سانپوں کا حجاز کے علاقوں میں پائے جانے اور ان کے زہر کے ساتھ سائنسی طور پر تجربات کرنے کا ذِکر ہے ۔
http://www.ebnmaryam.com/vb/t122787-2.html
عقل پرستوں کی جہالت اگر اس کا علم نہیں رکھتی تو یہ ان کی بد عقلی ، اور جہالت کی ایک اور کھلی نشانی ہے ، نہ کہ صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ میں کسی کمی کی ،
بلکہ صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ میں ایسی باتوں کا علم عطا فرمانا جن کا علم اس وقت کے انسانی معاشرے میں نہ تھا، اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس علم کے لیے جدید علوم میں سے گواہیوں کا میسر ہونا اس بات کے دلائل میں سے ہے کہ احادیث شریفہ اللہ کی طرف سے وحی کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز بان مبارک پر جاری ہوتی تھیں ، اور یہ ہی وہ وحی ہے ، جسے ہمارے عُلماء""" وحی غیر متلو ، یعنی تلاوت نہ کی جانے والی وحی """کہتے ہیں، اور جِس کی گواہی خود اللہ جلّ و علا نے یہ فرما کر دی کہ (((((
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى O إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى O عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى:::(ہم نے بھیجے ) اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)اپنی خواہش کے مطابق بات نہیں فرماتے O اُن کی بات تو صِرف اُن کی طرف کی گئی وحی ہےOجو وحی انہیں بہت زیادہ قوت والے (فرشتے جبریل)نے سکھائی)))))سُورت النجم (53)/آیات3،4،5،
پس جو اپنی بد دماغی کو حدیث ء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پرکھ کی کسوٹی بناتا ہے وہ عملی طور پر اللہ کے اس فرمان کا انکار کرنے والا ہے ، اور قران کا مخالف ہے ،
اِن احادیث شریفہ کی شرح کرنے والے ہمارے اِماموں رحمہم اللہ نے اِن کے بارے میں بہت صدیوں سے بہت شاندار قِسم کی علمی معلومات مہیا کر رکھی ہیں ، اگر میں اُن سب کا ذِکر یہاں کرنے لگوں تو بات کافی لمبی ہو جائے گی ، صِرف ایک امام ربانی ، اِمام ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ کی پیش کردہ شرح میں سے ایک اقتباس پڑھتے ہیں :::
"""""
وَلَا رَيْبَ أَنّ اللّهَ سُبْحَانَهُ خَلَقَ فِي الْأَجْسَامِ وَالْأَرْوَاحِ قُوًى وَطَبَائِعَ مُخْتَلِفَةً وَجَعَلَ فِي كَثِيرٍ مِنْهَا خَوَاصّ وَكَيْفِيّاتٍ مُؤَثّرَةً وَلَا يُمْكِنُ لِعَاقِلٍ إنْكَارُ تَأْثِيرِ الْأَرْوَاحِ فِي الْأَجْسَامِ فَإِنّهُ أَمْرٌ مُشَاهَدٌ مَحْسُوسٌ وَأَنْتَ تَرَى الْوَجْهَ كَيْفَ يَحْمَرّ حُمْرَةً شَدِيدَةً إذَا نَظَرَ إلَيْهِ مِنْ يَحْتَشِمُهُ وَيَسْتَحِي مِنْهُ وَيَصْفَرّ صُفْرَةً شَدِيدَةً عِنْدَ نَظَرِ مَنْ يَخَافُهُ إلَيْهِ وَقَدْ شَاهَدَ النّاسُ مَنْ يَسْقَمُ مِنْ النّظَرِ وَتَضْعُفُ قُوَاهُ وَهَذَا كُلّهُ بِوَاسِطَةِ تَأْثِيرِ الْأَرْوَاحِ وَلِشِدّةِ ارْتِبَاطِهَا بِالْعَيْنِ يُنْسَبُ الْفِعْلُ إلَيْهَا وَلَيْسَتْ هِيَ الْفَاعِلَةَ وَإِنّمَا التّأْثِيرُ لِلرّوحِ وَالْأَرْوَاحُ مُخْتَلِفَةٌ فِي طَبَائِعِهَا وَقُوَاهَا وَكَيْفِيّاتِهَا وَخَوَاصّهَا فَرُوحُ الْحَاسِدِ مُؤْذِيَةٌ لِلْمَحْسُودِ أَذًى بَيّنًا وَلِهَذَا أَمَرَ اللّهُ - سُبْحَانَهُ - رَسُولَهُ أَنْ يَسْتَعِيذَ بِهِ مِنْ شَرّهِ وَتَأْثِيرُ الْحَاسِدِ فِي أَذَى الْمَحْسُودِ أَمْرٌ لَا يُنْكِرُهُ إلّا مَنْ هُوَ خَارِجٌ عَنْ حَقِيقَةِ الْإِنْسَانِيّةِ وَهُوَ أَصْلُ الْإِصَابَةِ بِالْعَيْنِ فَإِنّ النّفْسَ الْخَبِيثَةَ الْحَاسِدَةَ
تَتَكَيّفُ بِكَيْفِيّةٍ خَبِيثَةٍ وَتُقَابِلُ الْمَحْسُودَ فَتُؤَثّرُ فِيهِ بِتِلْكَ الْخَاصّيّةِ وَأَشْبَهُ الْأَشْيَاءِ بِهَذَا الْأَفْعَى فَإِنّ السّمّ كَامِنٌ فِيهَا بِالْقُوّةِ فَإِذَا قَابَلَتْ عَدُوّهَا انْبَعَثَتْ مِنْهَا قُوّةٌ غَضَبِيّةٌ وَتَكَيّفَتْ بِكَيْفِيّةٍ خَبِيثَةٍ مُؤْذِيَةٍ فَمِنْهَا مَا تَشْتَدّ كَيْفِيّتُهَا وَتَقْوَى حَتّى تُؤَثّرَ فِي إسْقَاطِ الْجَنِينِ وَمِنْهَا مَا تُؤَثّرُ فِي طَمْسِ الْبَصَرِ كَمَا قَالَ النّبِيّ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ فِي الْأَبْتَرِ وَذِي الطّفْيَتَيْنِ مِنْ الْحَيّاتِ إنّهُمَا يَلْتَمِسَانِ الْبَصَرَ وَيُسْقِطَانِ الْحَبَل
وَمِنْهَا مَا تُؤَثّرُ فِي الْإِنْسَانِ كَيْفِيّتُهَا بِمُجَرّدِ الرّؤْيَةِ مِنْ غَيْرِ اتّصَالٍ بِهِ لِشِدّةِ خُبْثِ تِلْكَ النّفْسِ وَكَيْفِيّتِهَا الْخَبِيثَةِ الْمُؤَثّرَةِ وَالتّأْثِيرُ غَيْرُ مَوْقُوفٍ عَلَى الِاتّصَالَاتِ الْجِسْمِيّةِ كَمَا يَظُنّهُ مَنْ قَلّ عِلْمُهُ وَمَعْرِفَتُهُ بِالطّبِيعَةِ وَالشّرِيعَةِ بَلْ التّأْثِيرُ يَكُونُ تَارَةً بِالِاتّصَالِ وَتَارَةً بِالْمُقَابَلَةِ وَتَارَةً بِالرّؤْيَةِ وَتَارَةً بِتَوَجّهِ الرّوحِ نَحْوَ مَنْ يُؤَثّرُ فِيهِ وَتَارَةً بِالْأَدْعِيَةِ وَالرّقَى وَالتّعَوّذَاتِ وَتَارَةً بِالْوَهْمِ وَالتّخَيّلِ ، وَنَفْسُ الْعَائِنِ لَا يَتَوَقّفُ أَعْمَى فَيُوصَفُ لَهُ الشّيْءُ فَتُؤَثّرُ نَفْسُهُ فِيهِ وَإِنْ لَمْ يَرَهُ وَكَثِيرٌ مِنْ الْعَائِنِينَ يُؤَثّرُ فِي الْمَعِينِ بِالْوَصْفِ مِنْ غَيْرِ رُؤْيَةٍ وَقَدْ قَالَ تَعَالَى لِنَبِيّهِ { وَإِنْ يَكَادُ الّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمّا سَمِعُوا الذّكْرَ } [سُورۃ الْقَلَمُ /آیۃ 51 ] .
وَقَالَ { قُلْ أَعُوذُ بِرَبّ الْفَلَقِ مِنْ شَرّ مَا خَلَقَ وَمِنْ شَرّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَمِنْ شَرّ النّفّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ وَمِنْ شَرّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ }،
فَكُلّ عَائِنٍ حَاسِدٌ وَلَيْسَ كُلّ حَاسِدٍ عَائِنًا فَلَمّا كَانَ الْحَاسِدُ أَعَمّ مِنْ الْعَائِنِ كَانَتْ الِاسْتِعَاذَةُ مِنْهُ اسْتِعَاذَةً مِنْ الْعَائِنِ وَهِيَ سِهَامٌ تَخْرُجُ مِنْ نَفْسِ الْحَاسِدِ وَالْعَائِنِ نَحْوَ الْمَحْسُودِ وَالْمَعِينِ تُصِيبُهُ تَارَةً وَتُخْطِئُهُ تَارَةً
:: اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ سبحانہ ُ وتعالی نے(مخلوق کے ) جسموں اور روحوں میں مختلف طبیعتیں اور قوتیں بنائی ہیں ، اور ان میں سے بہت سی (طبیعتیں اور قوتیں عام معمول سے دُور رکھتے ہوئے)خاص اور اثر کرنے والی بنائی ہیں ،کسی (درست )عقل والے کے لیے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ روح کے ( کسی دوسرے )اجسام میں اثر ہونے کا انکار کرے ،کیونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جو مشاھدہ میں ہے اور احساس کی حدود میں ہے ، پس تم دیکھتے ہو کہ جب (کوئی ) کسی ایسے شخص جو دیکھے جِس سے وہ شرم کرتا ہو، جس کی حیاء کرتا ہو تو دیکھنے والا کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے (خاص طور پر مؤنث کے چہرے پر یہ اثر زیادہ نمایاں ہوتا ہے ، بشرطیکہ وہ حیا ء والی ہو ،فطرت کی اس خو بصورت دل نشین صِفت سے خود کو آزاد کرنے والی نہ ہو )اور کہ جب (کوئی ) کسی ایسے شخص جو دیکھے جِس سے وہ ڈرتا ہو ، تو دیکھنے والا کا چہرہ پیلا ہو جاتا ہے ، اور یہ بھی لوگوں کے مشاھدے میں ہے کہ لوگ نظر کی وجہ سے بیمار پڑ جاتے ہیں ، اور کمزور ہو جاتے ہیں ، یہ سب کچھ روح کی تاثیر کے ذریعے ہوتا ہے ،
اور رُوح کا ربط آنکھ کے ساتھ بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے رُوح کی تاثیر کو آنکھ سے منسوب کیا گیا ، جب کہ (درحقیقت ) آنکھ بذات خود اس قسم کی تاثیر کرنے والی چیز نہیں ، بلکہ تاثیر رُوح کی ہوتی ہے ، اور رُوحیں اپنی طبعیتوں ، قوتوں، کیفیات اور خصوصیات میں (ایک دوسرے سے)مختلف ہوتی ہیں ، پس حسد کرنے والی رُوح محسود (جس سے حسد کیا جاتا ہے)کے لیے واضح طور پر نقصان پہنچانے والی ہوتی ہے ، اِسی لیے اللہ سُبحانہ ُ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)کو یہ حکم فرمایا کہ وہ( صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)حسد کرنے والوں سے اللہ کی پناہ طلب فرمایا کریں ،
حسد کرنے والے کی محسود پر نقصان دہ تاثیر ایسا معاملہ ہے جس سے صِرف وہی انکار کر سکتا ہے جو انسانیت کی حقیقت (سمجھنے کی عقل و فراست)سے خارج ہو ،
اور یہی (رُوحوں کی تاثیر) نظر لگنے کی اصلیت ہے ،
برے نفس ، حسد کرنے والے ہوتے ہیں ایسے نفوس بری کیفیات کے ہی حامل ہوتے ہیں ، اور (جب) یہ محسودکے سامنے آتے ہیں تو اس بری کیفیت کا محسود پر اثر ہوتا ہے ، اور ایسے نفوس کے جیسی چیزوں میں سب سے زیادہ قریبی چیز سانپ ہے ، اس کا زہر اس میں قوت کے ساتھ خفیہ رہتا ہے ، اور جب یہ سانپ اپنے دشمن کے سامنے آتا ہے تو اس کے غصے کی طاقت پھٹ پڑتی ہے ، اور یہ بری اور نقصان دینے والی صِفت سے مغلوب ہو جاتا ہے ، پس ان سانپوں میں سے کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جِس کی یہ بری صِفت اس قدر طاقتور ہوجاتی ہے کہ وہ حمل تک گرا دیتے ہیں ، اور ان سانپوں میں سے ایسے بھی ہیں جو بینائی ختم کردیتے ہیں ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے ، اور ان سانپوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کی برائی کی قوت کی وجہ سے انسانوں پر کسی مادی تعلق (ربط ، اتصال) کے بغیر ہی اپنا اثرکر دیتے ہیں ،اور (یاد رکھیے کہ ایسی )اثر پذیری کے لیے جسمانی ربط ضرور ی نہیں ہوتا ، جیسا کہ طبعی اور شرعی علوم سے جاھلوں کا خیال ہے ، بلکہ نفوس کا اثر بعض اوقات جمسانی تعلق ہونے سے ہوتا ہے ، تو بعض اوقات صِرف آپنے سامنے ہو جانے سے ہوتا ہے ، اور بعض اوقات صِرف نظر ملنے سے ہوجاتا ہے ، اور بعض اوقات کسی روح کی دوسرے کی طرف توجہ سے (جس کی طرف توجہ کی جائے )اثر ہو جاتا ہے ، اور بعض اوقات دعاؤں سے، اور بعض اوقات جھاڑ پھونک (دم وغیرہ)کرنے سے، اور بعض اوقات (شر اور شریر سے )پناہ طلب کرنے والے کلمات سے اثر ہوجاتا ہے ، اور (تو اور)بعض اوقات تو صِرف (اپنے خود ساختہ، یا لاشعور کے بنائے ہوئے) وھم اور تخیل سے اثر ہو جاتا ہے،
اور نظر لگانے والا نفس کو اندھا پن (بھی ) نہیں روکتا ، کہ اگر کسی (ایسے نفس والے) اندھے کو بھی کسی چیز کے بارے میں بتایا جائے (جس چیز سے وہ حسد کرے ) تو اُس کا( برا ، نظر لگانے والا ) نفس اُس چیز میں اثر کرتا ، اور وہ اُس چیز کو دیکھ نہیں رہا ہوتا ، اور (یہ معاملہ بھی مشاھدے میں ہے کہ)بہت سے نظر لگانے والے ، کسی کو دیکھے بغیر صِرف اُس کے بارے میں کچھ معلومات پا کر ہی اسے نظر کا شکار کر لیتے ہیں ، اور (اسی لیے ، اور اسی چیز کو سمجھاتے ہوئے )اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے اِرشاد فرمایا (((((
وَإِنْ يَكَادُ الّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمّا سَمِعُوا الذّكْرَ ::: اور بالکل قریب تھا کہ کافر آپ کو اُن کی نظروں کے ساتھ پِھسلا دیں ، جب انہوں نے (یہ)ذِکر(قران کریم) سُنا)))))سُورت القلم /آیت 51،
اور اِرشاد فرمایا ہے (((((
قُلْ أَعُوذُ بِرَبّ الْفَلَقِ O مِنْ شَرّ مَا خَلَقَ O وَمِنْ شَرّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ O وَمِنْ شَرّ النّفّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ O وَمِنْ شَرّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ::: (اے محمد ) کہیے میں صُبح کے رب کی پناہ طلب طلب کرتا ہوں Oاُس شر سے جو اُس نے تخلیق فرمایا O اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے O اور گانٹھوں (گرہوں) پر پڑھ پڑھ کر پھونکنے والیوں کے شر سے O اور حسد کرنے والےکے شر سے جب وہ حسد کرے)))))سُورت الفلق ،
پس (اللہ کے اس کلام کی روشنی میں بھی یہ ثابت ہوا کہ)ہر حاسد نظر لگانے والا ہوتا ہے ، اسی لیے نظر لگانے والا حاسدوں کی گنتی میں ہوتا ہے ، لہذا حاسد سے پناہ طلب کرنا ، نظر لگانے والے سے پناہ طلب کرنے کو شامل کر لیتا ہے ، اور نظر ایسا تِیر ہوتی ہے جو حسد کرنے والے نفس میں سے محسود اور نظر کا شکار ہونے والے کی طرف نکلتا ہے ، جو تِیر کبھی تو نشانے پر لگتا ہے اور کبھی نشانہ چُوک جاتا ہے
"""""، زاد المعاد فی ھدی خیر العباد/ فصل الرّدّ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ الْإِصَابَةَ بِالْعَيْنِ اور فصل الْحَاسِدُ أَعَمّ مِنْ الْعَائِنِ۔
پس واضح ہوا کہ کسی مخلوق کا کسی دوسری مخلوق پر مختلف طور پر اثر انداز ہونا اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین سے ثابت شدہ ہے ، اور ایسی ہی کچھ تاثیر کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اِن مذکورہ بالا احادیث شریفہ میں دی گئی ہے ،
جس کی تائید اللہ تبارک و تعالیٰ نے جدید علوم کے ذریعے بھی مہیا فرمادی ، اب اس کے بعد بھی اگر کوئی اِن صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ کاا نکار کرے ، یا ان پر اعتراض کرے تو میں یہی دُعا کرتاہوں کہ اللہ جلّ و علا اُن لوگوں کو ہدایت دے ، اور اگر اللہ تعالیٰ کی مشیئت میں اُن کے لیے ہدایت نہیں ہے تو اللہ جلّ جلالہُ اپنی ساری ہی مخلوق کو اُن لوگوں کے شر سے محفوظ فرما دے ،

::::: کن سانپوں کو تنبیہ کی جائے گی :::::
::::: ( 1 ) :::::
عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما و أرضاہُما کا کہناہے کہ ایک دفعہ میں ایک سانپ کو قتل کرنے کی کوشش میں تھا کہ أبو لبابہ (رضی اللہ عنہ ُ ) نے مجھے ایسا کرنےسےمنع کیا ، تو میں نے کہا کہ ((((( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سانپوں کو قتل کرنے کا حُکم فرمایاہے)))))،
تو أبو لُبابہ(رضی اللہ عنہ ُ) نے کہا (((((
إِنَّهُ نَهَى بَعْدَ ذَلِكَ عَنْ ذَوَاتِ الْبُيُوتِ ، وَهْىَ الْعَوَامِرُ ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے( تمام سانپوں کو مارنےکے حُکم کے)بعد میں گھروں میں رہنے والے عوامر(یعنی گھروںمیں رہنےوالے جِنَّات جو سانپوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں)کو قتل کرنےسے منع فرما دیا تھا ))))) صحیح البُخاری /حدیث 3298/ کتاب بدء الخلق/باب 14 ،
::::: ایک اضافی فائدہ ::: اس حدیث شریف یہ بھی پتہ چلا کہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ ُ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہر بات کا پتہ نہیں ہوا کرتا تھا، جو کچھ اُس نے خود سے نہ سنا ، اُس کے بارے میں تب ہی جانتا تھا جب اُسے اپنے کسی دوسری صحابی بھائی سے کوئی خبر ملتی ، رضی اللہ عنہم ا جمعین،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے گھروں میں رہنے والے جنّات کو قتل کرنے سے منع کرنے کا سبب بھی بیان فرمایا اور اپنی عادتِ مُبارک کے مُطابق اپنی اُمت پر رحمت و شفقت کرتے ہوئے اُس کی مکمل وضاحت فرمائی ، ملاحظہ فرمایے :::
أبی سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((
إِنَّ بِالْمَدِينَةِ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ قَدْ أَسْلَمُوا فَمَنْ رَأَى شَيْئًا مِنْ هَذِهِ الْعَوَامِرِ فَلْيُؤْذِنْهُ ثَلاَثًا فَإِنْ بَدَا لَهُ بَعْدُ فَلْيَقْتُلْهُ فَإِنَّهُ شَيْطَانٌ::: مدینہ میں کچھ جن مُسلمان ہو چکےہیں ، لہذا جب تم لوگ گھروں میں کوئی سانپ دیکھو تو اُنہیں تین دفعہ تنبیہ کرو ، اگر اِس کے بعد بھی وہ نظر آئے تو اُسے قتل کر دو کیونکہ وہ شیطان ہے ))))) صحیح مُسلم حدیث 2236 ،کتاب السلام/ باب 37 /قتل الحیات و غیرھا کی آخری حدیث ،
اِن أحادیث کی شرح میں لکھا گیا""""" اگر تین دفعہ تنبیہ کرنے اور گھر سے نکل جانے یا ظاہر نہ ہونے اور نُقصان نہ پہنچانے کا کہہ دینے کے بعد بھی وہ سانپ نظر آئے تو اُسے قتل کیا جائے گا ، کیونکہ یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ وہ مسلمان جنوں میں سے نہیں ، لہذا اُس کو قتل کرنا حرام نہیں ، کیونکہ اس کو قتل کرنے کا حق مل گیا ، اِس لیے اللہ تعالیٰ اُس کے رشتہ داروں میں سے کِسی کو بھی ہر گِز یہ موقع نہیں دے گا کہ وہ قتل کرنے والے سے اِنتقام لے ،
اِن أحادیث شریفہ کے مفہوم کے بارے میں علماء کی دو رائے ہیں :::

::::: ( 1 ) ::::: گھروں میں رہنے یا نظر آنے والے سانپوں کو قتل کرنے سے پہلے تنبیہ کرنے کا معاملہ صرف مدینہ کے گھروں کے لیے خاص ہے،
::::: ( 2 ) ::::: أحادیث کے عام اِلفاط کے مطابق یہ حُکم تمام دُنیا کے گھروں کے لیے ہے ، رہا معاملہ گھروں سے باہر والے سانپوں کو تو اُن کو فوراً اور ہر حال میں قتل کرنے کا حُکم واضح ہے اور اُس کی شرح میں سب کا اتفاق ہے """""، شرح إِمام النووی علیٰ صحیح مُسلم ، فتح الباری شرح صحیح البُخاری ، التمھید لأبن عبدالبَر ۔
::::::: یہاں ایک بات کی طرف توجہ دلانا ضروری خیال کرتا ہوں کہ سانپوں کو تنبیہ کرنے کےلیے کوئی خاص اِلفاظ کِسی صحیح حدیث میں نہیں ملتے ، ایک ضعیف یعنی کمزور، نا قابل روایت ہے جِس کے اِلفاظ کو عام طور پر سانپوں کو تنبیہ کرنے کے لیے بطورء سُنّت استعمال کیا جاتا ہے لیکن ایسا کرنا دُرست نہیں کیونکہ یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کے الفاظ کے طور پر ثابت شدہ نہیں ، لہذا ان الفاظ کو سُنّت سمجھنا اور سُنّت سمجھ کر استعمال کرنا دُرُست نہیں ، وہ ضعیف (کمزور، نا قابل حُجت ) درج ذیل ہے،
(((((
إِذا ظھرت الحیۃ فی المسکن فقولوا لھا :: إِنا نسألکِ بعھد نوحٍٍ وبعھدسلیمان بن داؤد أن لا تؤذینا ، فإن عادت فأقتلوھا ::: اگر کِسی گھر میں سانپ نظر آئے تو اُسے کہو""" ہم تمہیں نوح اور سلیمان بن داؤد کے ساتھ کیے ہوئے عہد کے واسطے سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں نقصان مت پہنچانا""" ، اگر یہ کہنے کے بعد بھی وہ واپس نظر آئے تو اُسے قتل کر دو ))))) سُنن الترمذی حدیث 1483 /کتاب الأحکام و الفوائد/ باب 2 ما جاء فی قتل الحیات ، سُنن أبو داؤدحدیث 5249/أبواب السلام/باب 33 فی قتل الحیات ، تفصیلات کے لیے إِمام الالبانی رحمہُ اللہ کی کتاب سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ 1507،ملاحظہ فرمائیے ۔
الحمد للہ ،یہاں تک کی معلومات کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو گیا کہ گھروں میں پائے جانے والے سانپوں کو قتل کرنے کا حکم مُقید ہے ، اور گھروں سے باہر پائے جانے والے سانپوں کو قتل کرنے کا حکم عام ہے ، اور جو دو قِسم کے سانپوں کے بارے میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ بینائی ختم کر دیتے ہیں ، اور حامل عورتوں کا حمل گرا دیتے ہیں ، وہ خبر بالکل حق ہے ، جس کا ثبوت قران کریم میں سے بھی میسر ہوا ، اور جدید علوم کی""" جدید تحقیقات """ سے بھی ، جن پر کچھ مسلمان، عملی طور پر ، اللہ کے قران اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین سے زیادہ اِیمان رکھتے ہیں ۔ولا حول و لا قوۃ اِلا باللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ ، یہاں تک اعتراض کرنے والے کی طرف نقل کردہ پہلی اور چوتھی ، اور پھر دوسری حدیث ، اور پھر تیسری حدیث شریف پر کیے گئے اعتراضات کی ٹارگٹ کِلنگ مکمل ہوئی ،اِن شاء اللہ یہ مذکورہ بالا معلومات ، اعتراض کرنے والے کی طرف سے کیے گئے تمام اعتراضات کی حقیقت واضح کرتے ہوئے انہیں دور کرنے کا سبب ہوں گی ،
و للَّہِ الحمد والمنۃ ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ہم اس اعتراض کرنے والے کے مضمون میں لکھی گئی دیگر جاہلانہ باتوں کی طرف چلیں گے ، لیکن اِن شاء اللہ تقریبا دو ، ڈھائی ہفتے کے بعد ، یعنی بیس یا پچیس ربیع الثانی 1434ہجری بمطابق (10مارچ2013)کے بعد ۔

و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَأَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
50
پوائنٹ
52
بہت بہت شکریہ.
آج فجر بعد مضمون پڑھا. بہت اچھا مضمون ھے. آج کل ایسی تحاریر کی اشد ضرورت ھے.
اللہ آپ کے علم میں ترقی عطا فرماۓ.
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
بہت بہت شکریہ.
آج فجر بعد مضمون پڑھا. بہت اچھا مضمون ھے. آج کل ایسی تحاریر کی اشد ضرورت ھے.
اللہ آپ کے علم میں ترقی عطا فرماۓ.
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا، بھائی سید شاد صاحب ،
اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو علمء نافع عطاء فرماتا رہے،
اگلا حصہ ملاحظہ فرمایے،
والسلام علیکم۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
::::: کچھ مخصوص جانوروں کے قتل کے حکم والی حدیث شریفہ پر اعتراض کا علمی جائزہ (4) :::::
"""صحیح سُنّت شریفہ کے انکاریوں کے اعتراضات کی ٹارگٹ کلنگ """
بِسمِ اللَّہِ ، و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَأَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُسکے لیے ہدایت واضح کر دی گئی ، اور اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
الحمد للہ ، جس نے مجھے سابقہ حصے میں کہی ہوئی میری بات پوری کرنے کی توفیق عطاء فرمائی ، اور میں آج بتاریخ 10 مارچ 2013 کی رات میں دوبارہ اس مختصر کتاب کی تکمیل کے لیے،صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ پر اعتراض کرنے والوں میں سے ایک شخص کے اعتراضات میں سے ایک اور اعتراض کی ٹارگٹ کلنگ کے لیے حاضر ہو سکا ،
اعتراض کرنے والے نے اپنے اعتراضات کو تقویت پہنچانے کی کوشش میں، پہلے مطالعہ کی جا چکی احادیث مبارکہ کے علاوہ ایک اور صحیح ثابت شدہ حدیث شریف پر بھی محض اپنی ناقص اور جہالت زدہ عقل ، یا اللہ کے دِین کے دوسرے مصدر ، یعنی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ سے دُشمنی کی بنا پر اعتراضات وارد کیے ، اور لکھا :::

"""""ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک فاحشہ عورت کا گزر ایک پیاسے کتے کے قریب سے ہوا جو کنویں کےکنارے بیٹھا ہانپ رہا تھا ۔ قریب تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے مرجاتا۔اس عورت نے کیا کیا کہ اپنا موزہ اپنے دوپٹے میں باندھ کر اس کی مدد سے پانی نکالا اور اس کتے کو پلایا ۔اس نیکی کی بدولت اس کے بدکاری کے پیشے کے تما م گناہ معاف کر دئے گئے۔
قارئین سوچنے کی بات ہے کہ یہ واقعہ آخر کسی مقام اور کس زمانے کا ہے ؟ اور رسول اللہ ﷺ کو یہ واقعہ کس نے سنایا ؟ اگر وحی نازل ہوئی تو وہ قران میں کیوں موجود نہیں؟ اور اگر کسی اور ہستی نے سنایا تو اسے کیسے علم ہوا کہ فاحشہ عورت کے سات گناہ معاف کر دئے گئے۔۔۔؟؟؟ یا للعجب !""""'
،
اور اس کے علاوہ بھی اسی قسم کی بد عقلی والی قلا بازیاں لگائی ہیں ، جو اس کے اعتراض نامے میں دیکھی جا سکتی ہیں ،میں اِن شاء اللہ یہاں اُن سب کی حقیقت واضح کرتا ہوں ،

سب سے پہلے تو آپ یہ ہی دیکھیے کہ اعتراض کرنے والے کی جہا لت یا اندھے تعصب کی انتہا ء ہے کہ اُس نے ایک حدیث شریف کے کسی ایسے ترجمے کو استعمال یا ہے ہے جِس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ، اور پھر اِسی ترجمے کو لے کر اُس پر اعتراضات وارد کرتے ہوئے، اور پھر اپنے اعتراضات کو درست دکھانے کی کوشش میں اللہ جل ّو علا کے کلام پاک کو اپنے مذموم مقصد کے لیے بے جا استعمال کرتے ہوئے ، اور پھر ایسے مسلمانوں پر جو کہ بلا شک و شبہ اس اعتراض کرنے والے سے کہیں زیادہ سچے ، پکے ایمان والے ، صالح اورمتقی تھے ، ایسے مسلمانوں پر جھوٹے خود ساختہ الزامات لاگاتے ہوئے اپنے گناہوں میں اضافہ ہی اضافہ ہی کیا ،
صحیح بخاری شریف کی جس حدیث شریف کا اس نے یہ مذکورہ بالا ترجمہ نقل کیا ہے وہ حدیث درج ذیل ہے :::
(((((
غُفِرَلاِمْرَأَةٍمُومِسَةٍمَرَّتْب ِكَلْبٍ عَلَى رَأْسِ رَكِىٍّ يَلْهَثُ،قَالَ كَادَيَقْتُلُهُالْعَطَشُ،فَنَزَعَتْ خُفَّهَا،فَأَوْثَقَتْهُ بِخِمَارِهَا،فَنَزَعَتْ لَهُ مِنَ الْمَاءِ،فَغُفِرَلَهَابِذَلِكَ :::ایک زانیہ عورت کی بخشش کر دی گئی ، (وہ عورت )ایک کتے کے پاس سے گذری جو ایک کنویں کے پاس (پیاس کے مارے )ہانپ رہا تھا ،قریب تھا کہ پیاس اُس کتے کو مار ہی دیتی ،تو اُس عورت نے اپنا (چمڑے کی جُراب نُما )جُوتا اُتار اور اُس جُوتے کو اپنی چادر کے ساتھ باندھا ، اور (اُس جُوتے میں کنویں میں سے )اُس کتے کے لیے پانی نکالا، تو (اِس کام کی وجہ سے) اُس عورت کی بخشش کر دی گئی)))))صحیح بخاری شریف /حدیث/3321کتاب بدء الخلق /آخری باب،
اعتراض کرنے والا اگر واقعتاً کچھ حق جاننے کا طلبگار ہوتا تو کم از کم اسی صحیح بخاری شریف کا تو مطالعہ کرتا ، تو اُس کے لیے منقولہ بالا اعتراضات میں سے کم از کم پہلے اعتراض کی تو کوئی گنجائش نہ رہتی ،
لہذا جِس طرح سابقہ تحقیق میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے ایک دفعہ پھر یہ ثابت ہوا کہ یہ شخص یا تو جاھل ہے اور یا پھر جان بوجھ کر رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ کے خِلاف کام کرتا ہے قارئین کرام ، یہ واقعہ اِسی صحیح بخاری شریف میں، ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے ہی ایک اور جگہ بھی مذکور ہے اور اعتراض کرنے والے منقولہ بالا اعتراضات کا منہ ُ توڑنے والا ہے ، ملاحظہ فرمایے
،
(((((
بَيْنَمَاكَلْبٌ يُطِيفُ بِرَكِيَّةٍ كَادَ يَقْتُلُهُ الْعَطَشُ،إِذْ رَأَتْهُ بَغِىٌّ مِنْ بَغَايَا بَنِى إِسْرَائِيلَ ، فَنَزَعَتْ مُوقَهَا فَسَقَتْهُ ، فَغُفِرَلَهَابِهِ::: ایک دفعہ ایک کتا ایک کنویں کے اِر دگِرد گھوم رہا تھا ، قریب تھا کہ پیاس اُس کتے کو مار ہی دیتی ، کہ اُسے بنی اِسرائیل کی بدکار عورتوں میں سے ایک بدکار عورت نے دیکھا ، تو اپنا (چمڑے کی جُراب نُما )جُوتا اُتار کر اُس کُتے کو پانی پلایا ، تو (اِس کام کی وجہ سے)اُس عورت کی بخشش کر دی گئی)))))صحیح بخاری شریف /حدیث/3467کتاب الأنبیاء/آخری باب،
دیکھ لیجیے قارئین کرام ، یہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ بنی اِسرائیل کا ہے ، لہذا اعتراض کرنے والے کے درج ذیل اعتراضات سوائے دیوانے کی بَڑ کے اور کچھ نہیں کہ:::

"""""قارئین سوچنے کی بات ہے کہ یہ واقعہ آخر کسی مقام اور کس زمانے کا ہے """""،
""""" جغرافیائی اعتبار سے اگر تو یہ واقعہ سر زمین حجاز کا ہے تو یہ تو ٹھہرا پتھریلا علاقہ ۔ اس میں
واقعہ کنوؤں سے سب واقف ہیں ۔ ان میں پانی کی سطح اتنی نیچے ہوتی ہے کہ اگر دوپٹے میں جوتا یا موزہ جراب وغیرہ باندھ کر پانی نکالنے کی کوشش بھی کی جائے تو پانی کی سطح تک اس کا پہنچنا ہی محال ہے ۔ ایسی ہر کو شش ناکام رہتی ہے ۔ اور پھر دوپٹہ بھی ایک فاحشہ عورت کو ہو جو ہوتا ہے برائے نام ہے ۔ آخر ایک فاحشہ عورت لمبا چوڑا دوپٹا پہنے بھی کیوں ؟ وہ بھی شدیدگرمی میں ۔
فرض کیجیے کہ وہ عورت کسی لمبی چادر میں لپٹی ہوئی بھی تھی تو اس کی لمبائی تو زیادہ سے زیادہ آٹھ یا نو فُٹ ہی ہو سکتی ہے۔ تو جس خطہِ زمین کے کنوؤں کا پانی آٹ نو فٹ کے فاصلہ پہ ہو، ایسے علاقہ میں کتوں کا پیاس کی شدت سے موت کے کنارے پہنچ جانا ایرانی راویوں اور محدثین کا جھوٹ ہی ہو سکتا ہے ، حقیقت نہیں ۔ ہر ایرا غیر اایسے جھوٹ بنا بھی نہیں سکتا ۔ """""،

یہ سب منقولہ بالا باتیں اعتراض کرنے والی کی اپنی ذاتی سوچوں پر مبنی ہیں ، جن کی تصدیق کے کے لیے کوئی علمی دلیل میسر نہیں ،بلکہ اِس شخص نے اپنے ارد گرد کے حالات ، واقعات اور معاملات کو ہی صدیوں پہلے کےواقعہ کو سمجھنے کا ذریعہ بنایا ہے ،
گو کہ میری طرف سے نقل کردہ دوسری روایت کے ذریعے ان سب ہی اعتراضات کا دم نکل جاتا ہے ، پھر بھی مزید تاکید کے لیے ، اور اعتراض کرنے والی کی بد عقلی اور گمراہ سمجھ کو مزید نمایاں کرنے کے لیے اس کے اعتراضات کے کچھ عقلی اور منطقی جوابات بھی دیتا ہوں ، اِن شاء اللہ ،
قارئین کرام ،سب سے پہلے تو اس اعتراض کرنے والے کی جہالت یا حق کے خِلاف تعصب تو اس بات سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سر زمین حجاز کو پتھریلا علاقہ قرار دے رہا ہے ، اللہ ہی جانے اعتراض کرنے والا کس بنیاد پر حجاز کو صِرف پتھریلا علاقہ قرار دے رہا ہے ، جب کہ حجاز میں پتھریلے ، ریتلے اور ملے جلے پہاڑ ، ریگستان اورسرسبز و شاداب نخلستان سب ہی پائے جاتے تھے اور پائے جاتے ہیں ، اِن مختلف قِسم کے علاقوں میں سے آبادی صِرف اور صِرف وہیں ہوتی تھی جہاں پانی آسانی سے دستیاب ہوتا رہا ، حجاز کے ایسے علاقوں میں آج بھی ایسے کنوؤں موجود ہیں جن میں پانی کی سطح کافی قریب ہے ،
میں یہ سب معلومات اس لیے مہیا نہیں کر رہا ہوں کہ حدیث شریف میں بیان کردہ یہ واقعہ حجاز کے علاقے کا ہی ہے، جی نہیں ، اس واقعے کے وقوع کا جغرافیائی محل و وقوع ہمارے لیے نا معلوم ہے ، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ یہ واقعہ بنی اِسرائیل کا ہے ،
اورقبل از اسلام حجاز کے آباد علاقوں میں سے بنی اِسرائیل(یعنی یہودیوں )میں سے کچھ مدینہ المنورہ اور خیبر وغیرہ کے علاقوں میں آباد تھے ، اب اگر اس واقعہ کو حجاز سے ہی متعلق مانا جائے تو بھی یہ کسی پتھریلے علاقے کا واقعہ نہیں ہے ، کیونکہ اُس وقت بھی انسان صِرف ایسی ہی جگہوں پر رہائش رکھتے تھے جہاں پانی کے حصول میں زیادہ مشقت نہ کرنی پڑے ،
محترم قارئین ، یہ بات تو تقریباً ہر کوئی جانتا ہے کہ مختلف زمانوں میں بنی اِسرائیل موجودہ شام ، اُردن، فلسطین ،عراق ،مصر ، مدینہ المنورہ، خیبر ، نجران اور یمن اور سعودیہ کے کے کچھ سرحدی علاقوں میں آباد رہے ہیں ،اور اِن علاقوں میں سے اکثر مقامات ، خاص طور پر جہاں انسانوں کی آبادیاں تھیں اور ہیں وہ مقامات ، و علاقے سر سبز و شاداب تھے ، اور ہیں ، ان علاقوں میں پائے جانے والے کنوؤں کا پانی قریب ہی ہوا کرتا تھا ،ا ور اب تک ہے ، اب اس اعتراض کرنے والے کو ان تاریخی اور علمی حقائق کی خبر نہیں یا اس نے جان بوجھ کر جھوٹ پھیلانے کی کوشش کی ہے ، اللہ ہی اس کا حساب لے گا ،
اعتراض کرنے والے کو اپنے تجربے اور علم کے مطابق فاحشہ عورتوں کے دوپٹوں کا سائز اور انداز کو بھی اپنی خرافات کی ایک دلیل بنا یا ہے ،اسے چونکہ یہ پتہ ہی نہیں ، یا اُس نے جان بوجھ کر دوسری حدیث شریف سے نظریں چُرا ئی ہیں ،بہر حال جو بھی سبب رہا ہو ، چونکہ یہ واقع صدیوں پرانا ہے ، اور یہ بات تاریخی طور پر معروف ہے کہ اس وقت فاحشہ یا نیک عورتوں کے لباس میں ایسا کچھ نمایاں فرق نہ ہوتا تھا جیسا کہ اب ہے ،

مجھے اس سے کچھ لینا دینا نہیں کہ اعتراضی کو فاحشہ عورتوں کے دوپٹوں کے سائز اور انداز کی اتنی خبر گیری کیوں ہے ؟؟؟
میں صِرف یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ واقعہ بنی اِسرائیل کا ہے جن کی اکثریت ایسے علاقوں میں آباد تھی جو نہ صرف سر سبز وشاداب تھے ، بلکہ کافی زیادہ ٹھنڈک والے تھے اور ہیں ،

اعتراض کرنے والے نے اِس واقعہ کو حجاز سے متعلق خیال کر کے حدیث شریف سے دُشمنی پر مبنی اپنے باطن کا غبار نکالا ہے ، اور جو کچھ جھوٹ اور الزام لکھ سکا لکھ مارے ،
یا حدیث شریف ، اور محدثین کرام رحمہم اللہ پر الزام تراشی کرنے کے لیے خیانت کرتے ہوئے اس واقعہ کو حجاز سے متعلق بنانے کی کوشش کی ہے ،

اب اگر میں یہ کہوں کہ
یہ واقعہ شام ، فلسطین یا اُردن وغیرہ میں سے کسی ایسے علاقے کا ہے جو سرسبز اور ٹھنڈے موسم والا تھا ، پس اسی لیے اُس فاحشہ عورت نےنود س فُٹ ، تقریبا تین چار گز لمبی چادر لیپٹ رکھی ہو گی ،تو اس بات کو رد کرنے کی بھی اعتراضی کے پاس کو ئی علمی دلیل نہ ہو گی اِن شاء اللہ ،
رہا معاملہ کسی علاقے کے کنوؤں میں پانی کی سطح (لیول)قریب ہونے کی وجہ سے اُس علاقے کے کُتوں (یا اُسی قسم کے دوسرے جانوروں ) کا پیاس کی شدت میں مبتلا ہونے کا تو یہ قطعا غیر عقلی اور غیر حقیقی نہیں کیونکہ کتے یا اسی قسم کے چوپائے کنوؤں میں اتر کر پانی نہیں پی سکتے ،اعتراض کرنے والے کے تخیلاتی دیس میں شاید پی ہو سکتے ہوں ،لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا تھا ،ا ورنہ ہوتا ہے ، ایسے جانوروں کو پانی پلایا جاتا تھا ، اورپلایا جاتا ہے ، یا ایسے جانور صِرف ایسے جگہوں سے پانی پی سکتے ہیں جہاں اُن کے منہ ُ پانی تک پہنچ سکیں ،
پس ، الحمد للہ ، ثابت ہوا کہ اعتراض کرنے والی کی وہ سب باتیں جو اُوپر نقل کی گئی وہ سب ہی باتیں اعتراض کرنے والے کے بنائے ہوئے جھوٹ ہیں ، حقیقت نہیں ، ہر ایرا غیرا ایسے جھوٹ بنا بھی نہیں سکتا ، ایسے جھوٹ وہی بناتے ہیں جن کی عقلیں راہ حق سے بھٹک چکی ہوتی ہیں اور اپنے تخیلات کو ہی حق بنانے کی کوشش میں مشغول کر دی گئی ہوتی ہیں ،

قارئین کرام ، یہ سب کچھ میں نے صِرف اعتراض کرنے والے کی بدعقلی اور اُس کی سمجھ کے گمراہ معیار کو نمایاں کرنے کے لیے لکھی ہیں ، جیسا کہ میں نے ان باتوں کے آغاز میں کہا تھا کہ """گو کہ میری طرف سے نقل کردہ دُوسری روایت کے ذریعے ان سب ہی اعتراضات کا دم نکل جاتا ہے ، پھر بھی مزید تاکید کے لیے ، اور اعتراض کرنے والی کی بد عقلی اور گمراہ سمجھ کو مزید نمایاں کرنے کے لیے اس کے اعتراضات کے کچھ عقلی اور منطقی جوابات بھی دیتا ہوں """۔
اعتراضی نے یہ بھی لکھا مارا کہ :::

"""""اور رسول اللہ ﷺ کو یہ واقعہ کس نے سنایا ؟ اگر وحی نازل ہوئی تو وہ قران میں کیوں موجود نہیں؟ اور اگر کسی اور ہستی نے سنایا تو اسے کیسے علم ہوا کہ فاحشہ عورت کے سات گناہ معاف کر دئے گئے۔۔۔؟؟؟ یا للعجب !""""' اس کی یہ منقولہ باتوں پر واقعتا یا للعجب کہنا چاہیے ، کوئی اس سے پوچھے کہ اللہ کے دین کے بیسیوں معاملات اور احکام ایسے ہیں جن کے بغیر اللہ کی ذات و صِفات ، حلال و حرام ، عبادات کی کیفیات اور طریقے سیکھے نہیں جا سکتے ،اور یہ معاملات اور احکام اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذِکر نہیں فرمائے ، بلکہ اپنے مقرر کردہ مفسر اور شارح قران ، اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان پاک اور عمل شریف کے ذریعے اپنے بندوں تک پہنچائے ہیں ، اور وہ سب کچھ اللہ کی وحی کے مطابق ہی ہے ، وہ وحی جسے قران کریم میں اللہ کے کلام کے طو رپر شامل نہیں فرمایا گیا ،
اعتراض کرنے والے کے ہم مسلکوں کو جب اس قسم کے معاملات اور احکام کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ ان کے بھی منکر ہوجاتے ہیں ، یا ایسی بے ڈھنگی تاویلات کرنے لگتے ہیں جنہیں ایک عام فہم رکھنے والا شخص بھی قبول نہیں کرتا ،
اس کے بعد فاحشہ عورت کی مغفرت والی خبر پر مشتمل صحیح ثابت شدہ حدیث شریف کا انکار کرنے والے کی طرف سے ، اُس کی خود ساختہ سوچوں کی دلیل کے طور پر پیش کی گئی آیات مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں ، اور اِن شاء اللہ دیکھتے اور سمجھتے ہیں کہ اُس شخص نے اِن آیات شریفہ کو بھی اپنے مذموم مقصد کے لیے اُن کی جگہ سے ہٹا کر کہیں اور """فِٹ """کرنے کی کوشش کی ہے ،
پس اس صحیح ثابت شدہ حدیث شریف پر اعتراض رکتے ہوئے ، اللہ کے کلام پاک کو اُس کے مقام سے ہٹا کر اپنی خرافاتی عقل کے کرشموں کی دلیل بنانے کی کوشش میں لکھتا ہے :::

""""" پھر اس روایت میں بیان کردہ بخشش کا فلسفہ قران کریم کے جزا و سزا کے قانون کے یکسر منافی ہے۔قران کریم تو بتلاتا ہے کہ انسان کی نیکیوں اور برائیوں کا الگ الگ وزن کیا جائیگا اور جو ذرہ بھر بھی کوئی عمل کرے گا ، وہ اس کا بدلہ پائے گا ۔
فَأَمَّامَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ (6) فَهُوَفِي عِيشَةٍرَاضِيَةٍ (7) وَأَمَّامَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ (8) فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ(سورہ القارعہ)یعنی جس کی نیکیوں کا پلڑہ بھاری ہوا ، اس کے مزے ہی مزے ، اور جس کی نیکیاں کم پڑ گئیں اور پلڑہ ہلکا ہو گیا ، وہ ذلت کی گہرائیوں میں پھنس گیا ۔یعنی نیکی و بدی کے میزان میںPlus,Minusکے بعد ہی جزا و سزا کا دارومدار ہو گا۔"""""
محترم قارئین ، اعتراض کرنے والے کی مذکورہ بالا خرافات کی حقیقت یہ ہے کہ :::
اعتراضی کی قران فہمی اس قدر گمراہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام قران کریم کو ، معاذ اللہ جزا و سزا کا قانون بنانے والا سمجھتا ہے ، جب کہ مخلوق کی جزا و سزا کے قوانین بنانے والا صِرف اور صِرف اکیلا اور لا شریک خالق اللہ تعالی ہے ، اور قران کریم اللہ کی مخلوقات میں سے بھی نہیں کہ یہ تاویل کی جائے کہ اللہ نے اس مخلوق کو یہ سزا و جزا کے قانون بنانے کی صلاحیت دی ،
اعتراض کرنے والا قران کریم کواللہ کی صفات میں سے ایک صِفت ، یعنی اللہ کا کلام نہیں سمجھتا ، بلکہ کوئی ایسی مخلوق سمجھتا ہے جو خود سے کچھ بتا سکتی ہے ، جبکہ حق یہی ہے کہ قران کریم اللہ کا کلام ہے اور اس میں جو کچھ بتا گیا ہے وہ سب ہی کچھ بتانے والا اللہ جلّ و علا ہے ،
الحمد للہ ، اللہ جلّ و علا کی کرم فرمائی ہے کہ وہ ایک عرصہ سے مجھ جیسے بندے سے ، اللہ کے دِین کے دوسرے بنیادی مصدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی اور عملی سُنّت مبارکہ پر، اللہ کی کتاب قران کریم کو آڑ بنا کر اعتراض کرنے والوں کی""" خِلافء قران ، قران فہمی """کو واضح کروانے کی کوششوں میں حصہ ڈالنے کا کام لے رہا ہے ، کافی عرصے پہلے قران کریم کی آیات مبارکہ کی معنوی تحریف کرتے ہوئے انہیں اپنی"""خِلاف قران ، قران فہمی """کی تائید میں اِستعمال کرنے والوں میں سے ایک اور شخص کی باطل تاویلات کے جواب میں کچھ معلومات ایک ویب سائٹ پر نشر کی تھیں ، وہی معلومات چند ایک الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یہاں اس نام نہاد قرانی قوت کے اعتراض کے جواب میں بھی پیش کرتا ہوں :::،

""""" لوگوں کو اپنی جہالت جسے وہ قران فہمی تصور کرتے ہیں ، کے زعم میں صرف دوسروں پر الزام تراشی کرنا آتا ہے ، اور اس الزام تراشی کی زد میں مخلوق تو کیا خالق بھی آ جائے تو بھی ان کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی ، اور وہ ڈھاک کے تین پات ہی پکارے چلے جاتے ہیں ،
صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ پر اعتراض کرنے والے اور ان کے پیروکار جان رکھیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کسی کا پابند نہیں جس کے لیے جو چاہے کر سکتا ہے اور کرتا ہے ، جی اس انسانوں کے جنت میں داخل ہونے کا ایک عام طریقہ یہی بیان فرمایا ہے کہ قیامت کے دن حساب ہونے کے بعد لوگ اپنے اپنے آخری ٹھکانے میں جا بسیں گے ،
لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نہ تو کسی کا پابند ہے اور نہ ہی کسی کو جواب دہ ، پس وہ جب جو چاہتا ہے کرتا ہے ، جسے چاہے وہ قیامت سے پہلے جنت میں داخل فرما دے اور جسے چاہے جہنم میں ،

ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعے والی حدیث پر جو اعتراض یہاں ذکر کیا گیا ہے بظاہر تو بڑا مضبوط ہے لیکن اس کی حقیقت بھی سنت مبارکہ کے بارے میں شکوک پھیلانے والوں ، سنت مبارکہ کا انکار کرنے والوں ، سنت مبارکہ کا مذاق اڑانے والوں ، سنت مبارکہ کی توھین کرنے والوں ، کی طرف سے وارد ہونے والے تمام تر اعتراضات کی طرح دو میں سے ایک سبب رکھتی ہے ، ان کی جہالت یا دین محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ان کی دشمنی ،
سنت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اپنی ترجموں کی محتاج قران فہمی اور ادھر ادھر سے مختلف زبانوں میں احادیث کے ترجمے اور مترجمین کی خود ساختہ ترتیب دیکھ دیکھ اعتراض کرنے والوں کو شاید پتہ نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے """ سورت یٰس """ میں ایک بستی کا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ نے وہاں یکے بعد دیگرے تین نبی بھیجے ، لوگوں نے ان کا انکار کیا ، مذاق اڑایا ، توہین کی ، لیکن ایک شخص نے اپنی قوم کو نصیحت کی کہ رسولوں کی تابع فرمانی کرو ، اور اپنی قوم کو بتایا کہ میرے پاس کوئی سبب نہیں کہ میں اپنے خالق اور رب کی عبادت نہ کروں جس کی طرف تم سب نے واپس پلٹنا ہے ، اور رسولوں کی تابع فرمانی نہ کروں ، اور اپنے ایمان کا اعلان کیا ، اس کی قوم نے اسے مار ڈالا ، جب وہ اللہ کے سامنے پہنچا تو اللہ کی طرف سے (((((
قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ ::: کہا گیا جنت میں داخل ہو جاؤ ، اس نے کہا کاش میری قوم کے لوگ جان لیتے{26} بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ::: جو میرے رب نے میری بخشش کی ہے اور جو میرے رب نے مجھے عِزت والوں میں سے بنا دیا ہے ))))))
صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ میں اپنی فلسفہ زدہ نام نہاد عقل کے بل بوتے پر دیکھیں اور غور سے دیکھیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس مؤمن کو قیامت سے پہلے ہی جنت میں داخل فرما دیا اور ہمیں اس کی خبر اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے ہم تک پہنچائی ،
پس اللہ جو چاہے جیسے چاہے جب چاہے کرتا ہے (((((
إِنَّ اللہَ یَفعَلُ مَا یُرید ::: بے شک اللہ جو ارادہ فرماتا ہے وہ (پورا) کرتا ہے)))))
اور انتہائی تیزی سے اور مکمل ترین طور پر کرتا ہے (((((
إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ:::بے شک آپ کا رب قوت اور پھرتی سے اپنے ارادے پورے کر کے رہنے والا ہے ))))) سورت هود /آیت 107،
اور یہ اسی کی شان ہے اسی کا حق ہے اور صرف وہی ہے جس سے اس کے کسی کام کے بارے میں پوچھا نہیں جا سکتا کہ تم نے ایسا کیوں کیا یا کہا ،،،،،،،،،،،،،،
(((((
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ::: اللہ جو کچھ کرتا ہے اس کو پوچھا نہیں جائے گا اور(بلکہ ) لوگوں سے (اُن کے کاموں کے بارے میں)پوچھا جائے گا )))))سورت الأنبياء / آیت 23 ،
اللہ سبحانہُ و تعالیٰ سے دُعا ہے کہ سنت مبارکہ کو """ صرف زیر ناف مسائل کا حل """ کہنے والوں کو میرا یہ جواب سمجھنے کی توفیق عطا فرما دے گا ،
اللہ تعالیٰ کی شان رحیمی کی بنا پر امید کرتا ہوں کہ وہ سنت مبارکہ کی توھین کرنے والے اور میری یہ باتیں پڑھنے والے ہر قاری کو توہین کرنے والے کے اس مذکورہ بالا اعتراض کی حقیقت دکھا دے گا ،
اللہ کرے کہ اپنی قران فہمی کے زعم میں مبتلا لوگ اب کہیں اللہ تعالیٰ سے یہ پوچھنے کی کوشش نہیں کرنے لگیں کہ آپ نے ماعز بن مالک کو قیامت سے پہلے جنت میں داخل کیوں کر دیا ، اور اگر کر ہی دیا تھا تو اس کی خبر کیوں کی یہ تو آپ کے اپنے ہی فرامین کی خلاف ورزی ہے ، و لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔
خیال رہے کہ میں نے کسی شخص کا نام نہیں لیا ،،،،، اور سنت مبارکہ کی توہین کرنے والے کے اعتراض کا جواب اللہ کے کلام پاک میں سے پیش کیا ہے ۔
و للہ الحمد المِنۃ۔"""""
قارئین کرام ، آپ سب سے گذارش ہے کہ درج ذیل لنک پر موجود تھریڈ کا بھی ضرور مطالعہ کیجیے ، اللہ کے دِین کی دشمنی میں دانستہ یا نا دانستہ طور پر ملوث لوگوں کی سوچ و فکر اور صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ پر قران کریم کی آڑ میں کیے گئے اعتراضات و انکار کی حقیقت سمجھنے میں اِن شاء اللہ ضرور کافی مدد ملے گی ،
"""شادی شدہ زانی کی سزا سنگساری ہے http://bit.ly/WPmLCR """
اس کے بعد اعتراض کرنے والے اعتراض """""پھر اس روایت میں بیان کردہ بخشش کا فلسفہ قران کریم کے جزا و سزا کے قانون کے یکسر منافی ہے۔قران کریم تو بتلاتا ہے کہ انسان کی نیکیوں اور برائیوں کا الگ الگ وزن کیا جائیگا اور جو ذرہ بھر بھی کوئی عمل کرے گا ، وہ اس کا بدلہ پائے گا ۔
فَأَمَّامَنْثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ (6) فَهُوَفِيعِيشَةٍرَاضِيَةٍ (7) وَأَمَّامَنْخَفَّتْمَوَازِينُهُ (8) فَأُمُّهُهَاوِيَةٌ(سورہ القارعہ)یعنی جس کی نیکیوں کا پلڑہ بھاری ہوا ، اس کے مزے ہی مزے ، اور جس کی نیکیاں کم پڑ گئیں اور پلڑہ ہلکا ہو گیا ، وہ ذلت کی گہرائیوں میں پھنس گیا ۔یعنی نیکی و بدی کے میزان میںPlus,Minusکے بعد ہی جزا و سزا کا دارومدار ہو گا۔"""""
کی حقیقت اللہ جلّ و عزّ کےاِن فرامین مبارکہ کی روشنی میں بھی سمجھتے چلیے کہ(((((مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَ هُمْ لَا يُظْلَمُونَ::: جو کوئی ایک نیک لے کر آئے گا تو اُس کے لیے اُس نیکی کے برابر دس (نیکیوں کے ثواب )ہیں ، اور جو کوئی ایک گناہ لے کر آئے گا تو اُسے صرف اُس ایک گناہ کے مطابق ہی بدلہ دیا جائے گا ، اور اُن (لوگوں )پر ظلم نہ کیا جائے گا ))))))سُورت الانعام(6)/آیت160 ،
اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک نیکی کے بدلے صِرف دس نیکیوں کا بدلہ تک بڑھاوا دینے تک ہی معاملہ قید نہر کرھا بلکہ اُس بڑھاوے کو لا محدود فرماتے ہوئے یہ خوشخبری بھی عطاء فرمائی ہے کہ (((((
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا وَ هُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ::: جو کوئی ایک نیکی لے کر آئے گا تو اُس کے لیے اُس نیکی سے بڑھ کر خیر ہے، اور وہ لوگ (یعنی نیکیاں کرنے والے)قیامت والے دِن کی خوفناکی سے محفوظ ہوں گے))))) سُورت النمل (27)/آیت89 ،
یعنی اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی طرف سے ایک نیکی کے بدلے میں لا محدود ، بے شمار ثواب عطاء کیا جانا حق ہے ، پس اللہ تعالیٰ جس کو چاہے اس کی کسی کی ایک ہی نیکی کے بدلے میں اسے اتنا ثواب دے سکتا ہے ، اور دیتا ہے ، اور دے گا کہ جو اس بندے کے سارے ہی گناہوں پر بھاری ہو جائے ، اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیجیے قارئین کرام ، کہ اعتراض کرنے والا قران کریم سے بھی جاھل ہے یا جان بوجھ کر صِرف ان ہی آیات شریفہ کا ذِکر کرتا ہے جنہیں وہ کسی طور اپنی خرافاتی باتوں کی تائید میں استعمال کر سکتا ہو،
اس کے علاوہ اعتراضی نے اپنی باطل باتوں کی تائید میں یہ فلسفہ بھی جھاڑا ہے کہ """""اس روایت میں امام بخاری نے ایک پیشہ ور فاحشہ عورت کے گناہ بخشوا دیے ۔ وہ بھی یوم المیزان سے ہزاروںلاکھوں برس پہلے ۔ چھوٹے چھوٹے کاموں پہ بڑے بڑے گناہوں معاف ہوجانے کے واقعات پر مبنی روایات ہماری ایرانی کتب ِ روایات میں عام ہیں ۔ یہ مسلم معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی عام کرنے کے لیے مردوںاور عورتوں کو نجات و بخشش کے جعلی گر بتائے جا رہے ہیں ، بلکہ سرٹیفیکیٹ دئے جا رہے ہیں کہ زندگی بھر جو مرضی کرتے پھرو ، زنا کرو، چوری کرو، ڈاکے ڈالو، دوسروں کے حقوق غصب کرو، غرض کہ ہر طرح کی بدکاری میں مشغول رہو اور ساتھ ہی کسی مناسب موقع کی تلاش میں رہو ، کوئی پیاسا کتا ڈھونڈو اور اسے پانی پلا دو تو تمہارے سب گناہ ، بدکاریاں ایک دم
Ctrl Aاور پھر Deleteکر دی جائیں گی ۔ اور تم جنتی ہو جاؤ گے """""،
قارئین کرام ، قیامت سے ہزاروں برس پہلے ہی کسی کو جنت میں داخل کر دیے جانے کا ثبوت اللہ کے کلام میں سے ہی پیش کر چکا ہوں ، لہذا یہ مذکورہ بالا اعتراض بھی قران کریم کی آیت کے دلیل سے مردُود ہوا ،
رہا معاملہ چھوٹے چھوٹے کاموں کے بدلے میں بڑے بڑے گناہ معاف ہونے کی اُن خبروں کا جو صحیح احادیث شریفہ میں ہیں ، تو وہ سب ہی صحیح احادیث شریفہ ابھی ابھی ذِکر کردہ دو آیات شریفہ کے عین مطابق ہیں ، کہ اللہ جس کے چاہے ایک نیکی کے بدلے میں بے شمار و بے حساب ثواب دیتا ہے ، اور اللہ جلّ و علا کے اِس فرمان کے عین مطابق ہیں کہ (((((وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَ ى لِلذَّاكِرِينَ ::: اور دِن کے دونوں کناروں کے وقت میں اور رات کا کچھ وقت گزر جانے کے بعد والے وقت میں نماز پڑھا کیجیے ، یقیناًٍٍ نیکیاں ، گناہوں کو مٹا دیتی ہیں، یہ نصحیت حاصل کرنےو الوں کے لیے نصیحت ہے)))))سُورت ھُود(11)/آیت 114،
پس اللہ تبارک و تعالیٰ بلا شک و شبہ اس پر قادر ہے کہ وہ جس بھی اِیمان والے بندے کے لیے چاہے اُس بندے کی نیکیوں کو سبب بنا کر اُس بندے کے گناہوں کو مٹا دے ،
کیا اعتراض کرنے والے کو قران پاک میں ہی یہ آیت شریفہ دکھائی نہیں دیتی ، یا اس سے بھی جان بوجھ کر صَرفء نظر کرتا ہے کہ (((((
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّاللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ::: (اے رسول میری طرف سے ) فرما دیجیے کہ (گناہ کر کے) اپنی جانوں پر زیادتی کرنے والے میرے بندو ،اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو، یقیناً اللہ سارے کے سارے گناہ بخشتا ہے ، بے شک اللہ بہت زیادہ بخشش کرنے والا (اور)بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے)))))سُورت الزُمر (39)/آیت53،
اعتراض کرنے والے کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرت بھی کمپیوٹر کی طرح کمانڈز کی محتاج لگتی ہے ، اسے اپنی خود ساختہ ، ہوائے نفس کی ماری ہوئی """خِلافءقران ،قران فہمی """ کے زعم میں اللہ القوی القدیر کا یہ فرمان یاد نہیں رہا (((((
إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ::: جب ہم کسی چیز کے لیے اِردہ فرمالیں تو اُس چیز کے لیے ہمارا فرمان اتنا ہی ہوتا ہے کہ ، ہو جا ، پس وہ ہوجاتی ہے)))))سُورت النحل (16)/آیت40،
پس اگر اللہ تعالیٰ کسی کے گناہ معاف فرمانے کا اردہ فرماتا ہے تو صرف اس کے کہنے پر ہی وہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، یہ صِرف اور صِرف اور صِرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی مرضی ہے جس کے جتنے گناہ چاہے معاف فرما دے ، اور وہ کسی کام کی تکمیل کے لیے مخلوق کی طرح ایک دسرے کی طرف سے کسی قسم کی کمانڈز کی ایگزیکیوشن کا پابند نہیں ، بلکہ ہر ایک چیز اُس کی کمانڈ""" کُن """ پر ایگزیکیوٹ ہونے کی پابند ہے ، اور یہ اس کی بے عیب حکمت اور مشیئت کے مطابق وہی جانتا ہے کہ اُس نے اپنے """ کُن """ کی ایگزیکیوشن کے لیے کیا کیا ایکٹیویٹ کر رکھا ہے ،
اللہ جلّ و عزّ کی ذات پاک کے افعال مبارکہ کو مادی چیزوں ، اور معایر اور مختلف آلات کی حرکات کے مطابق سجھ کر بے تکے اعتراض کرنے والے ، اور اُس کے ہم خیال ذرا سوچیں کہ (((((
أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ:::کیاوہ لوگ آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں)))))سُورت الزُخرُف(43) / آیت32۔
اللہ ہی جانے اعتراض کرنے والے کو ایرانیوں سے اتنا لگاؤ کیوں ہے کہ وہ بالکل ہی بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بار بار احادیث مبارکہ کی ساری ہی کتابوں کو ، اور سارے ہی محدثین کو بلا استثناء ایرانی کہتا ہے ، اور اس کی کوئی دلیل نہیں بتاتا ، اور اِن شاء اللہ کبھی بتا بھی نہیں سکے گا ، کیونکہ یہ بھی اُس کی جہالت یا تعصب پر مبنی تخیلات میں سے ایک خیال ہی ہے ،
الحمد للہ ،یہاں تک اعتراض کرنے والے سارے اعتراضات کا بطلان ثابت ہوا، اس کی طرف سے کیے گئے دوسرے اعتراضات کا بھی حال کچھ مختلف نہیں ،
قران کریم کی آیات شریفہ کو اپنی ہوائے نفس سے پھوٹنے والے خیالات کی تائید میں استعمال کرتے ہوئے اعتراض کرنے والے نے یہ بھی لکھ مارا کہ :::

"""""قارئین قران کریم ہی سے ثابت ہے کہ زبان باہر نکال کر ہانپتے رہنا کتے کی فطرت ہے ۔ پیاس ہو یا نہ ہو ۔ یہ جانور کسی مشقت اور بوجھ اٹھائے بغیر بھی بیٹھا بیٹھا خوامخواہ ہانپتا رہتا ہے ، ملاحظہ فرمایے :
فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ
(سورہ الاعراف۔آیت176)
اسکی مثال اس کتے کی سی ہوگئی کہ اگر اسے دوڑائیں ، مسقت کروائیں ، تب بھی وہ ہانپتا اور زبان لٹکاتا ہے ،اوراگر یونہی فارغ چھوڑ دو تب بھی ہانپتا اور زبان لٹکائے رکھتا ہے۔
حدیث ساز راویوں نے کتے کے لیے"یلھث"استعمال کر کے کتے کی فطری جبلت کی غلط ترجمانی کی ہے ۔ درج بالا آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہانپنا کتے کی فطری عادت ہے جسے حدیث کی روایوں اور محدثین کی کاریگری نے اپنی لاعلمی اور جہالت کی بنا پہ بوجہ پیاس ظاہر کیا ہے۔"""""،

قارئین کرام ، اعتراض کرنے والے کی جہالت یا سُنّت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے عناد بار بار ظاہر ہو رہا ہے ، محدثین کو لا علم اور جاھل کہنے والے کا اپنا مبلغ علم شاید کچھ ترجموں کی ورق گردانی سے زیادہ نہیں ، اوپر نقل کیے گئے اس کے الفاظ میں لکھا ہوا ترجمہ بھی درست نہیں ، کیونکہ اس آیت شریفہ میں کتے کو دوڑانے یا مشقت میں ڈالنے کا ذِکر نہیں ہے ، اور نہ ہی اُس کے ہانپنے کا ذِکر ہے ، بلکہ اُس پر حملہ کرنے یا نہ کرنے کا ذِکر ہے ، کیونکہ عام طور پر کتوں کو بار برادری ، یعنی بوجھ اٹھانے کے لیے اِستعمال نہیں کیا جاتا تھا ، اور نہ ہی کیا جاتا ہے ،
اور یوں بھی اللہ تعالی کا یہ فرمان سابقہ امتوں میں سے ایک شخص کے بارے میں لہذا اس سیاق کی روشنی میں ، یہاں کتے کابہر حال زبان نکالے رکھنا اس شخص کے واقعے کے مطابق ہدایت قبول نہ کرنا ہے ، لیکن اس اعتراضی شخص نے اپنی ہوائے نفس کی اتباع میں اللہ کے اس کلام کو بھی کہیں سے کہیں ذِکر کر ڈالا ،

ذرا یہ اعتراضی شخص بتائے تو ، اور صِرف قران کریم میں سے ہی بتائے کہ کتے کے زبان لٹکائے رکھنے کی عادت کے بیان والی اس آیت شریفہ میں جس شخص کا واقعہ ہے ، وہ شخص کون تھا ؟؟؟ اور اُس کا واقعہ کیا تھا ؟؟؟صِرف قران کریم میں سے اس آیت کی تفسیر بتائے ؟؟؟
قارئین کرام ، لغت میں""" لھث، یلھث ، الھاثا """سے مُراد کتے کا زبان لٹکانا ہے ، اوراِسی آیت کریمہ سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ کتے کا زبان لٹکانا کسی سبب سے ہو یا بلا سبب اسے عربی میں """ لھث، یلھث ، الھاثا """ ہی کہا جاتا ہے ،
پس جہالت محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں نہ تھی بلکہ اِس اعتراض کرنے والے کے ہاں ہے ،اور یہ اللہ جلّ جلالہُ کے کلام پاک کی معنوی تحریف کر کے اسے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا گناہ کما رہا ہے ۔

اس کے بعد اعتراض کرنے والا اپنی جہالت یا تعصب کے مزید مظاہرے کے طور پر لکھتا ہے :::
"""""آگے ایک روایت ہے جس میں رسول ﷺ کی جانب یہ حکم منسوب کیا جا رہا ہے کہ جس نے بھی کتا پالا ، اس کے عمل سے روازنہ ایک قیراط کم ہوتا جائے گا ۔سوائے کھیتی اور مویشیوں کے محافظ کتوں کے ۔"""""،
محترم قارئین ، اعتراض کرنے والا کا یہ منقولہ بالا کلام بھی (سوائے اللہ کے کلام کے) اس شخص کی جہالت یا جھوٹ اور بددیانتی پر ہی مشتمل ہے ، اور اللہ جلّ و علا کے کلام میں سے جوکچھ ذِکر کیا ہے اسے بھی اپنی بد دیانتی کی حمایت بنانے کے لیے ہی غلط طور پر استعمال کرنے کی بد حرکت کی ہے ،
سب سے پہلے تو اس نے کسی حدیث شریف کا مجھول سے انداز میں نا مکمل ذِکر کیا ہے ، صِرف اتنا سا ذِکر جس سے یہ شخص اپنی حدیث دشمنی کی کاروائی کر سکے ،
قارئین کرام ، اس بد دیانت شخص نے صحیح بخاری شریف کی جس حدیث شریف کا مجھول انداز میں ذِکر کیا ہے وہ حدیث شریف درج ذیل ہے:::
(((((
مَنْ أَمْسَكَ كَلْبًا فَإِنَّهُ يَنْقُصُ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطٌ،إِلاَّكَلْبَ حَرْثٍأَ وْ مَاشِيَةٍ :::جس نے کھیتی باڑی ،یا مویشیوں( کی حفاظت کرنے والےکتے) کے علاوہ کتا پالا تو اس کے(نیک ) عمل میں روزانہ ایک قیراط کے برابر کمی ہوگی)))))صحیح بخاری /حدیث/2322کتاب المزارعۃ /باب3،
صحیح بخاری شریف کے اسی مقام پر ، اور اس حدیث شریف سے بالکل بعد، سُفیان بن ابی زھیر رضی اللہ عنہ ُ سے مروی یہ حدیث شریف بھی موجود ہےکہ(((((
مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لاَ يُغْنِى عَنْهُ زَرْعًا وَ لاَ ضَرْعًا ، نَقَصَ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطٌ:::جس نے ایسا کتا پالا جو اُس کے لیے کھیتی باڑی(کی حفاظت ) نہ کرنے والا ہو ، اور نہ ہی مویشیوں (کی حفاظت)کرنے والا ہو ، تو پالنے والے کے(نیک )عمل میں روزانہ ایک قیراط کے برابر کمی ہوگی)))))صحیح بخاری / حدیث/2323کتاب المزارعۃ /باب3،
اور اسی صحیح بخاری شریف میں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی یہ حدیث پاک بھی موجود ہے کہ(((((
مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا إِلاَّكَلْبٌ ضَارٍ لِصَيْدٍ أَوْكَلْبَ مَاشِيَةٍ ، فَإِنَّهُ يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ::: جس نے شکار کے لیے سِکھائے(سِدھائے)ہوئے، یا مویشیوں( کی حفاظت کرنے والے)کتے کے علاوہ کتا ، تو پالنے والے کے(نیک ) عمل میں روزانہ دو قیراط کے برابر کمی ہوگی)))))صحیح بخاری / حدیث/5481کتاب الذبائح/باب6،
دیکھ لیجیے ، محترم قارئین، اسی صحیح بخاری شریف میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے شکار کے لیے سکھائے ہوئے کتے رکھنے کی بھی اجازت منقول ہے ،
الحمد للہ ، ایک دفعہ پھر واضح ہو گیا کہ محدثین کرام رحمہم اللہ قران کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کیطرف سے نازل کردہ تعلیمات سے بے خبر نہ تھے ، بلکہ اعتراض کرنے اس بیماری کا شکار ہے ، اللہ اُسے شِفاء عطاء فرمائے،
اور اللہ تعالیٰ اعتراض کرنے والے کو ہدایت دے ، اور اسے یہ توفیق دے کہ وہ کسی بھی معاملے میں بات کرنے سے پہلے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کسی بھی صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ پر کوئی اعتراض کرنے سے پہلے اس میں مذکور مسئلے یا معاملے کے بارے میں مکمل مطالعہ کرے ، اور اللہ کے کلام پاک کو اپنی ذاتی آراء کی بھینٹ چڑھانے کے گناہ سے بچنے کی کوشش کرے ۔
اللہ جلّ جلالہ کے کلام پاک کو اپنی جہالت کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے اس شخص نے لکھا ہے :::

""""" لگتا یوں ہے یہ ایرانی امام اور ان کے راویوں کی ٹیم قران کریم کی تعلیمات سے یکسر بے خبر تھی ورنہ انہیں قران کریم میں کتے کے متعلق درج ذیل احکامات نظر آجاتے جہاں شکار وغیرہ کے لیے کتوں کو تعلیم و تربیت دینے کا ذِکر ہے ، ملاحظہ فرمایے :
وَمَاعَلَّمْتُمْ مِن َالْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ
(سورہ المائدہ۔آیت4)
اور جو تم شکاری جانوروں ، شکاری کتوں کو تعلیم دیتے ہو ئے سکھاؤ۔ تم اس علم کی رو سے انہیں سکھاتے ہو جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے۔
(کلب ہر چیز پھاڑ دینے والے درندے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے ، لیکن خصوصی طور پہ یہ لفظ کے کے لیے مخصوص ہے جیسا کہ سورہ اعراف کی آیت 176میں اصحابِ کہف کے ساتھی کتے کے لیے کلب کا لفظ استعما ل ہوا ہے )"""""،

لگتا نہیں ، بلکہ ہے ہی ایسا کہ اعتراض کرنے والا جہالت کی اتھاہ گہرائیوں کے گھپ اندھیروں میں جا پڑا ہے جہاں اسےامیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہُ اللہ و رفع درجاتہ ُ اور دیگر محدثین اور ان کے راوی صاحبان صرف ایرانی ہی سنائے پڑھائے جاتے ہیں ، یا اسے ایرانیوں سے کوئی ایسا ذاتی تجربہ حاصل ہوا ہے کہ اسے اپنے ناپسندیدہ ہر کام کے ذمہ دار ایرانی ہی سوجھتے ہیں ،
اور نہ ہی ان لوگوں کو یہ سمجھ آتا ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ ،مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کی کوشش کرنے والے نہیں ، بلکہ وہ لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے والوں میں سے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو الگ الگ کر رکھنا چاہتے ہیں ، قران کریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ کے مطابق سمجھنے کی روش ختم کر کے اپنی ہوائے نفس کے مطابق سمجھنے کی روش رائج کرنا چاہتے ہیں تا کہاُس روش کو اپنانے والا مسلمان بے چارہ یہ سمجھتا رہے کہ وہ قران کریم کی اتباع کر رہا ہے اور درحقیقت وہ اُس کی مخالفت کر رہا ہو، جیسا کہ یہ لوگ نماز پڑھنے کے منکر ہو چکے ہیں ، مر د و عورت کے اختلاط کے داعی ہیں ، عورت کے پردے کو بوسیدہ عورتوں کی تجارت کہتے ہیں ، زکوۃ کی ادائیگی کے نصاب اپنی خواہشات کے مطابق بناتے ہیں ، اور ، اور ، اور ،،،،،
محترم قارئین ، آپ یہ دیکھیے کہ اعتراضی کے اس منقولہ بالا کلام میں بھی اس شخص نے سوائے اپنی جہالت یا اللہ کے دِین سے دُشمنی کے کچھ اور پیش نہیں کیا ،

آیت شریفہ کا ترجمہ سراسر غلط کیا ہے ، اور کتوں کا ذِکر صِرف کتوں کی وکالت کرتے ہوئے اپنی خرافات کی تائید کے لیے داخل کیا ہے ،یہ کاروائی اِس شخص کی بد دیانتی اور اللہ کے دِین کے دوسرے مصدر سّنّت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے دُشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے ، جو کہ در حقیقت صاحب سُنّت محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے دُشمنی ہے ، جس کا لا محالہ نتیجہ اللہ تبارک و تعالی سے دُشمنی ہے ،
مذکورہ بالا آیت شریفہ کے ذکر کردہ حصہ لازمی طور پر اس کے پہلے والے حصے کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے ہی صحیح مفہوم مہیا کرتا ہے ، پوری آیت مبارکہ درج ذیل ہے :::
(((((
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَ اذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ::: (اے محمد) لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ اُن کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے ؟آپ فرمایے ، تُم لوگوں کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں ، اور جو تمہارے سکھائے ہوئے شکاری جانور جنہیں تم اُس میں سے سکھاتے ہو جو تمہیں اللہ نے سکھایا (وہ جانور جو شکار کرتے ہیں وہ شکار حلال کیا گیا)، لہذا وہ جانور جو کچھ تمہارے لیے پکڑ لیں اُس میں سے کھاؤ اور(جانور چھوڑنے سے پہلے)اُس پر اللہ کانام لو اور اللہ (کی نافرمانی اور عذاب)سے بچو ، بے شک اللہ بہت ہی تیزی سے حساب کرنے والا ہے)))))سُورت المائدہ(5)/آیت 4،
محترم قارئین، اس آیت کریمہ میں وہ نہیں کہا گیا جو کچھ اعتراض کرنے والے نے اپنی بد دیانتی چھپانے کیے ترجمہ کیا کہ """""
وَمَاعَلَّمْتُمْ مِن َالْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ
اور جو تم شکاری جانوروں ، شکاری کتوں کو تعلیم دیتے ہو ئے سکھاؤ۔ تم اس علم کی رو سے انہیں سکھاتے ہو جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے۔"""""،
بلکہ اس آیت کریمہ میں کھانے کے لیے حلا ل کی گئی چیزوں کے ذِکر کے ساتھ ، شکار کے لیے سکھائے ہوئے جانوروں کے ذریعے شکار کیے ہوئے جانوروں کو کھانا حلال کیے جانے کا ذِکر ہے ، کیونکہ """ وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ""" معطوف ہے """ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ """ پر ،
لیکن اعتراض کرنے والے نے صرف کتوں کی وکالت میں اللہ کے کلام کو کچھ کا کچھ بنا ڈالا ، اور اللہ جلّ جلالہُ کے اس کلام پاک میں تحریف کرتے ہوئے خصوصی طور پر کتوں کا ذِکر بھی شامل کر دِیا ،
جبکہ"""
الجوارح """ جانوروں اور پرندوں میں سے شکار کرنے والے ایسے سب ہی جانوروں کا کہا جاتا ہے جو شِکار کو زخمی کر تے ہوئے شِکار کرتے ہیں ، جیسا کہ شیر ، چیتا ، بھیڑیا ، کتا ، وغیرہ ، اور عُقاب ، باز ، شاھین ، وغیرہ ، اور """ الجوارح """کمائی کرنے والے کو کہتے ہیں ، جو اپنے علاوہ کسی دوسرے کے لیے کمائی کرے ، اس لیے انسان کے کچھ اعضاء کو بھی """ جوارح """ کہا جاتا ہے ،
مذکورہ بالا آیت کریمہ میں """
الجوارح """ میں یہ دونوں ہی مفہوم پائے جاتے ہیں ،
"""
مکلِّبین """، """ مکلِّب """ کی جمع ہے، اور """ مکلِّب """(ل کے نیچے زیر کے ساتھ)جانوروں کوشِکار کی تربیت دینے والے کو کہا جاتا ہے ،
انسان سے تربیت پا کر اُس تربیت کے مطابق شِکار کرنے والے جانور صِرف کتے ہی نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی اب تک یہ معاملہ صِرف کتوں تک محدود ہے ، انسان دیگر جانوروں کوشکار کرنے کے لیے دیگر جانوروں کو بھی استعمال کرتا چلا آرہا ہے ، جن میں چوپایے بھی ہیں اور مختلف پرندے بھی جیسا کہ عُقاب ، باز، شاھین وغیرہ ، شِکار کرنے کے لیے تربیت پائے ہوئے سب ہی جانور اِس آیت کریمہ میں مذکور """
الجوارح """ کہا جاتا ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِن سب ہی جانوروں کے ذریعے شکار کیے ہوئے جانوروں کے حلال ہونے کا حکم فرمایا ہے ، جو سارےہی انسانی معاشرے میں قیامت تک شِکار کے لیے اِستعمال ہونے والے جانوروں کے لیے ہے ، صِرف کسی ایک معاشرے یا کسی خاص وقت تک کے لیے محدود نہیں ،

اگر ایسا سمجھا جائے تو دوسرے جانوروں کے ذریعے کیا ہوا شِکار تو حرام ہو گیا!!!
کیا اعتراض کرنے والا یہ فتویٰ دے سکتا ہے کہ کتے کے علاوہ کسی بھی اور جانور کے ذریعے کیا گیا شکار کھانا حرام ہے؟؟؟

قارئین کرام"""مکلِّبین"""سے مُرادصِرف کتوں کو تربیت دینے والے ہی نہیں ہیں ، بلکہ شِکار کرنے والے پالتو جانوروں کو شِکار کی تربیت دینے والوں کا ذِکر ہے ،
چونکہ اس کام کے لیے قدیم سے ہی عام طور پر کتوں کو استعمال کیا جاتا تھا ، اس لیے شکاری جانوروں کو شکار کی تربیت دینے والوں کا یہ نام لفظ """ کلب"""سے مشتق ہو کر معروف ہو گیا ،

پس یہ بات تفسیر ، حدیث اور لغت سے ثابت شدہ ہے کہ آیت کریمہ میں استعمال کردہ لفظ """مکلِّبین""" کا معنی یا مفہوم کتے نہیں ، بلکہ شِکار کرنے والے جانوروں کو تربیت دینے والے لوگ ہیں ، اور وہ تربیت بھی صِرف کتوں کی تربیت نہیں ہے ،
ملاحظہ کیجیے قارئین کرام کہ اعتراض کرنے والے نےاپنی خود ساختہ""" خِلافء قران ، قران فہمی""" کے زعم میں اللہ کے کلام کے معنی اور مفہوم کو بالکل ہی بدل کر رکھ دِیا اور پھر اپنی کی ہوئی اس معنوی تحریف کی تائید کے لیے یہ بھی لکھ مارا کہ :::
"""(کلب ہر چیز پھاڑ دینے والے درندے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے ، لیکن خصوصی طور پہ یہ لفظ کتے کے لیے مخصوص ہے جیسا کہ سورہ اعراف کی آیت 176میں اصحابِ کہف کے ساتھی کتے کے لیے کلب کا لفظ استعما ل ہوا ہے )"""،
اِن شاء اللہ ،یہاں تک کی معلومات سے یہ حقیقت مزید کھل کر سامنے آ چکی ہو گی کہ اعتراض کرنے والا یا تو جاھل مطلق ہے اور یا پھر جان بوجھ کر اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ ، جو کہ اللہ کے دِین کی دوسری بنیاد ہے ، کے خِلاف کام کرتا ہے ،
اِن شاء اللہ ، اگلی فرصت میں اس شخص کے باقی شدہ اعتراضات اور خرافات کا علمی جائزہ پیش کروں گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ ، یہاں تک اعتراض کرنے والے کی طرف نقل کردہ پہلی اور چوتھی ، اور پھر دوسری حدیث ، اور پھر تیسری حدیث شریف، اور پھر الگ سے ذِکر کردہ ایک اور حدیث شریف پر کیے گئے اعتراضات کی ٹارگٹ کِلنگ مکمل ہوئی ،اِن شاء اللہ یہ مذکورہ بالا معلومات ، اعتراض کرنے والے کی طرف سے کیے گئے تمام اعتراضات کی حقیقت واضح کرتے ہوئے انہیں دور کرنے کا سبب ہوں گی ،
و للہ الحمد والمنۃ ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد اِن شاء اللہ اگلی فرصت میں ہم اس اعتراض کرنے والے کے مضمون میں لکھی گئی دیگر جاہلانہ باتوں کی طرف چلیں گے ۔

و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَأَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
جزاک اللہ خیرا، عمر بھائی، یہاں کچھ حرکت کی خبر نہیں ہو رہی تھی پس میں اِس طرف آ ہی نہیں پایا، اگلا حصہ پیش خدمت ہے ۔
 
Top