هل يجوز إجابة دعوة غير المسلم إلى الطعام للتقرب منه
السؤال :
الدعوة إلى الإسلام تستلزم إقامة علاقات شخصية مع الكفار ؛ أولاً لإزالة الغربة والتمهيد للدعوة ، فهل إذا دعاني أحدهم إلى طعام أو شراب ليس من المحرمات ، مثل الجبن والسمك والشاي ، يجوز لي تناوله ؟ إذا كان هناك احتمال استخدام الأوعية قبل ذلك في تناول الخنزير والخمر رغم غسلها بالماء والصابون ؟.
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد لله
العلاقات بين الناس أنواع ، فإذا كانت علاقة ود ومحبة وإخاء من مسلم لكافر فهي محرمة ، وقد تكون كفراً ، قال الله تعالى : ( لا تجد قوماً يؤمنون بالله واليوم الآخر يوادون من حاد الله ورسوله ولو كانوا آباءهم أو أبناءهم أو إخوانهم أو عشيرتهم أولئك كتب في قلوبهم الإيمان وأيدهم بروح منه ويدخلهم جنات تجري من تحتها الأنهار خالدين فيها رضي الله عنهم ورضوا عنه أولئك حزب الله ألا إن حزب الله هم المفلحون ) . وما في معناها من الآيات والأحاديث .
وإن كانت علاقة بيع أو شراء أو إجابة دعوة إلى طعام حلال أو قبول هدية مباحة مثلاً ، دون أن يكون في ذلك تأثير على المسلم ؛ فهي مباحة ، وتناول ما قُدِّمَ من الكافر إلى المسلم من الأطعمة والأشربة الحلال جائز ، ولو قدمت في إناء سبق أن استعمل في شراب خمر أو تناول لحم خنزير أو نحو ذلك ؛ إذا كان قد غسل بعد استعماله في محرمات أو نجاسات حتى زال ذلك منه تماماً ، وإذا كان في ذلك إعانة على إبلاغ الدعوة إلى الإسلام كان ذلك أدعى إلى الإجابة والاتصال ، وأرجى للأجر والثواب .
من فتاوى اللجنة الدائمة 12 / 254
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :کیا غیرمسلم کے قریب ہونے کے لیےکھانے کی دعوت قبول کرنا جائز ہے
اسلام کی دعوت تبلیغ کے لیے سب سے پہلےتو کفارسے شخصی تعلقات کا ہونا ضروری ہے تا کہ اجنبیت کا احساس ختم ہو اوردعوت وتبلیغ کی تمھیدقائم ہوسکے ، توکیا اگرمجھے کوئ کافر حرام اشیاء کے علاوہ کھانے یا پینے کی دعوت دیتاہے مثلا :
پنیر ، مچھلی ، چاۓ وغیرہ توکیا میرے لیے اس دعوت کوقبول کرنا اورکھانا جائز ہے ؟
اگرچہ یہاں پراحتمال ہے کہ انہیں برتنوں میں پہلے خنزیر کھایا اورشراب نوشی کی گئ ہولیکن بعد میں انہيں صابون سے دھویا گیا ہے ؟
ــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب ٭٭٭٭٭٭
الحمدللہ
لوگوں کے مابین تعلقات کی کئ انواع واقسام ہيں ، تواگر مسلمان کی جانب سے کافر کے ساتھ اخوت وبھائ چارہ اور محبت کے تعلقات ہوں تویہ حرام ہيں ایسے تعلقات رکھنا صحیح نہيں بلکہ بعض اوقات تویہ کفر تک جا پہنچتے ہیں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اللہ تعالی پراورقیامت کے دن پرایمان رکھنے والوں کوآپ اللہ تعالی اوراس کےرسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوۓ ہرگزنہیں پائيں گے اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائ یا ان کے کنبہ وخاندان کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں
یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالی نے ایمان لکھ دیا ہے ، اورجن کی تائید اپنی روح سے کی ہے ، اورجنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں ، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ تعالی ان اوریہ اللہ تعالی سے راضي و خوش ہیں یہ خدائ لشکر ہے آگاہ رہو بلاشبہ اللہ تعالی کے گروہ والےہی کامیاب ہیں } المجادلۃ ( 22 ) ۔
اس بارہ میں اوربھی بہت سی آیات واحادیث ہیں ۔
اوراگر ان کے تعلقات کا تعلق صرف حلال اشياء کی خریدوفروخت اور حلال کھانے کی دعوت اورمباح اشیاءکے تحفے اورھدیے وغیرہ قبول کرنے تک محدود ہوں اوران کا مسلمان پرکسی قسم کی اثربھی نہ پڑے توپھر اس میں کوئ حرج نہیں اوریہ مباح ہیں ۔
اورکافرکی طرف پیش کیے گۓ حلال کھانے پینے کوتناول کرنا جائز ہے اگرچہ وہ ایسے برتنوں میں ہی پیش کیے جائیں جوپہلے شراب نوشی اورخنزیر کا گوشت کھایا گیا ہو اوراسے اچھی طرح دھوکراس نجاست اورحرام چيزکو زائل کردیا گیا ہو ۔
اورجب یہ دعوت قبول کرنا اس کی دعوت میں ممدو معاون ثابت ہوں تویہ قبول کرنے کے زيادہ لائق ہے اوراس سے اجرو ثواب بھی حاصل ہوگا ۔ .
دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 12 / 254 ) مستقل فتوی کمیٹی کا فتوی
https://islamqa.info/ar/8798