• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کھانے کی دعوت قبول کر سکتے ہیں؟

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا سوال یہ ہے كے ایک آدمی ہے جو اپنے آپ کو مسلم بولتا ہے . لیکن قرآن کو اللہ کی کتاب نہیں سمجھتا اور نا ہی اللہ پر اسکا ایمان ہے کہ عرش پہ ہے. بولتا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی اللہ ہے (نعوذ باللہ) وہی سارے زمانے کا رب ہے. وہ ہماری پُکار کو سنتے ہیں. اور کہتا ہے قرآن کو اس زمانے میں لوگوں نے اپنی مرضی سے لکھا ہے. قرآن دوسرا آنے والا ہے!! تو کیا ہم ایسے آدمی کی گوشت یا سبزی کی دعوت قبول کر سکتے ہے. مہربانی کر كے اس کی وضاحت کریں . . . . . جزاک اللہ خیر
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا سوال یہ ہے كے ایک آدمی ہے جو اپنے آپ کو مسلم بولتا ہے . لیکن قرآن کو اللہ کی کتاب نہیں سمجھتا اور نا ہی اللہ پر اسکا ایمان ہے کہ عرش پہ ہے. بولتا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی اللہ ہے (نعوذ باللہ) وہی سارے زمانے کا رب ہے. وہ ہماری پُکار کو سنتے ہیں. اور کہتا ہے قرآن کو اس زمانے میں لوگوں نے اپنی مرضی سے لکھا ہے. قرآن دوسرا آنے والا ہے!! تو کیا ہم ایسے آدمی کی گوشت یا سبزی کی دعوت قبول کر سکتے ہے.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جیسا کہ آپ جانتے ہیں ایسا شخص مسلمان نہیں ہوسکتا جو قرآن کریم کو اللہ کا کلام حقیقی نہ مانے ،اورپیارے نبی اکرم ﷺ کو اللہ کا بندہ اور آخری نبی نہ مانے ،
اور یقیناً آپ جانتے ہی ہونگے کہ ایسا شخص اگر پہلےصحیح عقیدہ مسلم تھا اور پھر مذکورہ باطل عقائد قبول کیئے تو (مرتد ) کے درجہ میں ہوگا ،
اگر پہلے ہی سے یہی خیالات تھے ، تو عام کفار میں شمار کیا جاوے گا ، یا اس پر زندیق کا حکم لاگو ہوگا ،
عمومی طور پر زندیقین کیلئے درج ذیل فتوی پیش نظر رہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــ
مرزائی، رافضی، چکڑالوی وغیرہ کافر ہیں یا نہیں؟
شروع از بتاریخ : 12 June 2013 10:24 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
معتزلہ ، جہمیہ، قدریہ، جبریہ، مرزائیہ، چکڑالویہ، رافضیہ بلا تفضیلہ وغیرہ وغیرہ فرقے یہ قطعی کافر ہیں یا نہیں، نماز میں ان کی اقتداء اور ان سے سلام مصافحہ کرنا ردا ہے یا نہیں ان کی ورثہ مسلم کو یا مسلم کی وراثت ان کو پہنچتی ہے یا نہیں اور مسلم عورت کو ان کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر مسلمان عورت کا خاندان فرقوں میں داخل ہو جائے ، مذہب اہل سنت والجماعت بدل لے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ بلا طلاق وہ دوسری جگہ نکاح لے سکتی ہے یا نہیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان فرق کے گمراہ ،زندیق، ملحد، بدعتی ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں ،البتہ کافر ہونے میں تفصیل ہے، مرزائیہ، چکڑالویہ تو بے شک کافر ہیں۔ معتزلہ، جہمیہ، قدریہ، جبریہ بھی تقریباً ایسے ہی ہیں، لیکن صاف کافر کہنا ذرا مشکل ہے رافضیہ میں سے غالی قطعاً کافر ہیں۔ جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وغیرہم کو مرتد کہتے ہیں اور زیدیہ کافر نہیں جن کا عقیدہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت خطا نہیں ہے۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ افضل ہیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ میں ساکت ہیں نہ اچھا کہتے ہیں اور نہ برا۔
اگر ان فرقوں کی اور ان کے علاوہ باقی فرقوں کی تفصیل مطلبو ہو تو کتاب ملل والنحل ابن خرم اور شہرستانی وغیرہ کا مطالعہ کریں اور نواب صدیق حسن خان مرحوم کا بھی ایک رسالہ خبیءۃ الاکوان اس بارہ میں ہے وہ بھی اچھا ہے۔
رہا ان لوگوں سے میل ملاپ تو یہ بالکل ناجائز ہے۔ ابن کثیر جلد دوم صفحہ ۲۰۱ میں مسند احمد وغیرہ سے یہ حدیث ذکر کی ہے کہ جب تم متشابہ آیتوں کے پیچھے جانے والوں کو دیکھو تو ان سے بچو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں سے ناطہ رشتہ وغیرہ کرنا یا وسیے میل ملاپ رکھنا یا نماز میں امام بنانا یا اس قسم کا تعلق کوئی بھی جائز نہیں بلکہ جو ان میں سے کافر ہیں،، اگر اتفاقی طور پر ان کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے یا غلطی سے ان کے ساتھ نکاح کا تعلق ہو گیا ہو تو نماز بھی صحیح نہیں اور نکاح بھی صحیح نہیں ۔ نماز کا اعادہ کرنا چاہئے بلکہ اگر نکاح پڑھا ہوا ہو اور بعد میں ایسی بدعت کے مرتکب ہوئے جو حد کفر کو پہنچ گئی تو بھی نکاح خود بخود فسخ (۱) ہو جاتا ہے طلاق کی ضرورت نہیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(وَ لَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا )
’’یعنی مشرک مردوں کو نکاح نہ دو ۔‘‘
اور دوسری جگہ ہے :
(وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ )
’’یعنی کافر عورتوں کے ساتھ نکاح مت رکھو۔‘‘
اگر اسی حالت میں مر جائیں مسلمان ان کے وارث نہیں اور یہ مسلمانوں کے وارث نہیں۔( عبداللہ امرتسری فتاویٰ اہلحدیث روپڑی: جلد اول، صفحہ ۲)

جلد 09 ص 36​

محدث فتویٰ​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
مذہب دروز کے متعلق شرعی حکم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مذہب دروز کے متعلق شرعی حکم
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رضي الله عنه سے دروز اور نصیریوں کے متعلق شرعی حکم پوچھا گیا تو انہوں نے مندرجہ ذیل جواب دیا:
’’مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ درزی اور نصیری لوگ کافر ہیں ‘ ان کا ذبیحہ کھانا یا ان کی عورتوں سے نکاح حلال نہیں۔ بلکہ ان سے جزیہ لے کر (اسلامی سلطنت میں ) رہنے دینا بھی درست نہیں کیونکہ یہ مرتد ہیں۔ نہ وہ مسلمان ہیں ‘ نہ یہودی اور نہ عیسائی۔ یہ لوگ پانچ نمازوں کی فرضیت کے قائل ہیں نہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کے‘ نہ حج کی فرضیت کے‘ نہ یہ اللہ کی حرام کردہ اشیاء مثلاً مراد اور شراب وغیرہ کی حرمت کے قائل ہیں۔ ان عقائد کے حامل ہوتے ہوئے یہ زبان سے لاَ اِلٰہَ أِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا اقرار بھی کریں ‘ تب بھی کافر ہیں۔ ان عقائد ترک نہ کریں )۔ نصیری فرقہ کے لوگ ابو ثہیب محمد بن نصیر کے پیروکار ہیں۔ وہ ان غالی لوگوں میں سے تھا جو علی رضي الله عنه کو اللہ مانتے ہیں۔ اور یہ شعر پڑھتے ہیں۔ ؎
أَشْھَدُ أَنْ لاَ أِلاَ أِلاَّ حَیْدَرَة الْأَنْزَاعُ الْبَطِیْنُ
وَلاَ حِجَابَ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ الصَّادِقُ الْأَمِیْنُ
وَلاَ طَرِیقَ أِلَیْہِ أَلاَّ سَلْمَانُ ذُوالْقُوَّة الْمَتِیْنُ
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں سوائے گنجے سروالے‘ بڑے پیٹ والے حیدر کے اور اس پر کوئی پردہ نہیں سوائے سچے دیانت دار محمدﷺ کے‘
اور اس تک پہنچنے کاکوئی راستہ نہیں سوائے مضبوط طاقت والے سلمان کے۔ ‘‘
درزی فرقہ ھشتگین درزی کا پیروکار ہے۔ یہ شخص مصر کے عبیدی قبیلہ کے ایک باطنی حکمران ’’الحاکم بامرہ‘‘ کا آزاد کردہ غلام تھا۔ اس نے اسے وادی تیم اللہ بن تعلبہ کے باشندوں کی طرف بھیجا‘ اس نے انہیں حکم دیا کہ رب ماننے کی دعوت دی۔ یہ لوگ اسے ’’الباری الغلام‘‘ کے نام سے یاد کرتے اور اس کی قسم کھاتے ہیں۔ یہ اسماعیلی فرقہ کی ایک شاخ ہیں ‘ جن کا عقیدہ ہے کہ محمد بن اسماعیل نے حضرت محمدﷺ کی شریعت کو منسوخ کردیا ہے۔ یہ لوگ دوسرے غلو کرنے والے فرقوں سے زیادہ سخت کافر ہیں۔ دنیا کے ازلی ہونے کے قائل ہیں۔ قیامت کے منکر ہیں۔ اسلام کے فرائض ومحرمات کے منکر ہیں۔ ان کا تعلق باطنیہ کے فرقہ ’’قرامطہ‘‘ سے ہے جو یہودونصاریٰ اور مشرکین عرب سے بھی بڑھ کر کافر ہیں۔ زیادہ سے زیادہ انہیں فلسفی کہا جاسکتا ہے۔ جو ارسطو وغیرہ کے مذہب پر ہیں یا وہ مجوسی ہیں۔ ان کا عقیدہ فلسفیوں اور مجوسیوں کے عقائد کا ملغوبہ ہے۔ نفاق کے طور پر وہ خود کو شیعہ کہتے ہیں۔ ‘‘
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمتہ الله علیہ ہی نے روزے کے بعض فرقوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
’’ان لوگوں کے کفر میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ‘ بلکہ جو کوئی ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی انہیں جیسا کافر ہے۔ ان کا مقام اہل کتاب والا ہے نہ مشرکین والا بلکہ یہ گمراہ کافر ہیں۔ لہٰذا ان کا کھانا پینا جائز نہیں ‘ ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنایا جائے اور ان کے مال (غنیمت کے طور پر) لے لئے جائیں۔ یہ مرتد زندیق ہیں۔ ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی بلکہ جہاں ملیں انہیں قتل کیا جائے‘ ان سے پہرہ یا دربانی کی خدمت نہیں لی جاسکتی۔ ان کے علماء اور (بظاہر) صوفیہ کو بھی قتل کرنا واجب ہے تاکہ وہ دوسروں کو گمراہ نہ کریں۔ ان کے گھروں میں ان کے ساتھ سونا‘ ان کے ساتھ چلنا‘ جب ان میں سے کوئی مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ‘ سب حرام ہے۔ مسلمان حکمرانوں کے لئے جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے جو حد اور سزا مقرر کی ہے‘ اسے نافذ نہ کریں۔ واللہ المستعان وعلیہ التکلان


جلددوم -صفحہ 260

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
هل يجوز إجابة دعوة غير المسلم إلى الطعام للتقرب منه
السؤال :
الدعوة إلى الإسلام تستلزم إقامة علاقات شخصية مع الكفار ؛ أولاً لإزالة الغربة والتمهيد للدعوة ، فهل إذا دعاني أحدهم إلى طعام أو شراب ليس من المحرمات ، مثل الجبن والسمك والشاي ، يجوز لي تناوله ؟ إذا كان هناك احتمال استخدام الأوعية قبل ذلك في تناول الخنزير والخمر رغم غسلها بالماء والصابون ؟.

ــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد لله

العلاقات بين الناس أنواع ، فإذا كانت علاقة ود ومحبة وإخاء من مسلم لكافر فهي محرمة ، وقد تكون كفراً ، قال الله تعالى : ( لا تجد قوماً يؤمنون بالله واليوم الآخر يوادون من حاد الله ورسوله ولو كانوا آباءهم أو أبناءهم أو إخوانهم أو عشيرتهم أولئك كتب في قلوبهم الإيمان وأيدهم بروح منه ويدخلهم جنات تجري من تحتها الأنهار خالدين فيها رضي الله عنهم ورضوا عنه أولئك حزب الله ألا إن حزب الله هم المفلحون ) . وما في معناها من الآيات والأحاديث .

وإن كانت علاقة بيع أو شراء أو إجابة دعوة إلى طعام حلال أو قبول هدية مباحة مثلاً ، دون أن يكون في ذلك تأثير على المسلم ؛ فهي مباحة ، وتناول ما قُدِّمَ من الكافر إلى المسلم من الأطعمة والأشربة الحلال جائز ، ولو قدمت في إناء سبق أن استعمل في شراب خمر أو تناول لحم خنزير أو نحو ذلك ؛ إذا كان قد غسل بعد استعماله في محرمات أو نجاسات حتى زال ذلك منه تماماً ، وإذا كان في ذلك إعانة على إبلاغ الدعوة إلى الإسلام كان ذلك أدعى إلى الإجابة والاتصال ، وأرجى للأجر والثواب .

من فتاوى اللجنة الدائمة 12 / 254

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :کیا غیرمسلم کے قریب ہونے کے لیےکھانے کی دعوت قبول کرنا جائز ہے
اسلام کی دعوت تبلیغ کے لیے سب سے پہلےتو کفارسے شخصی تعلقات کا ہونا ضروری ہے تا کہ اجنبیت کا احساس ختم ہو اوردعوت وتبلیغ کی تمھیدقائم ہوسکے ، توکیا اگرمجھے کوئ کافر حرام اشیاء کے علاوہ کھانے یا پینے کی دعوت دیتاہے مثلا :
پنیر ، مچھلی ، چاۓ وغیرہ توکیا میرے لیے اس دعوت کوقبول کرنا اورکھانا جائز ہے ؟
اگرچہ یہاں پراحتمال ہے کہ انہیں برتنوں میں پہلے خنزیر کھایا اورشراب نوشی کی گئ ہولیکن بعد میں انہيں صابون سے دھویا گیا ہے ؟

ــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب ٭٭٭٭٭٭
الحمدللہ

لوگوں کے مابین تعلقات کی کئ انواع واقسام ہيں ، تواگر مسلمان کی جانب سے کافر کے ساتھ اخوت وبھائ چارہ اور محبت کے تعلقات ہوں تویہ حرام ہيں ایسے تعلقات رکھنا صحیح نہيں بلکہ بعض اوقات تویہ کفر تک جا پہنچتے ہیں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اللہ تعالی پراورقیامت کے دن پرایمان رکھنے والوں کوآپ اللہ تعالی اوراس کےرسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوۓ ہرگزنہیں پائيں گے اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائ یا ان کے کنبہ وخاندان کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں

یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالی نے ایمان لکھ دیا ہے ، اورجن کی تائید اپنی روح سے کی ہے ، اورجنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں ، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ تعالی ان اوریہ اللہ تعالی سے راضي و خوش ہیں یہ خدائ لشکر ہے آگاہ رہو بلاشبہ اللہ تعالی کے گروہ والےہی کامیاب ہیں } المجادلۃ ( 22 ) ۔

اس بارہ میں اوربھی بہت سی آیات واحادیث ہیں ۔

اوراگر ان کے تعلقات کا تعلق صرف حلال اشياء کی خریدوفروخت اور حلال کھانے کی دعوت اورمباح اشیاءکے تحفے اورھدیے وغیرہ قبول کرنے تک محدود ہوں اوران کا مسلمان پرکسی قسم کی اثربھی نہ پڑے توپھر اس میں کوئ حرج نہیں اوریہ مباح ہیں ۔

اورکافرکی طرف پیش کیے گۓ حلال کھانے پینے کوتناول کرنا جائز ہے اگرچہ وہ ایسے برتنوں میں ہی پیش کیے جائیں جوپہلے شراب نوشی اورخنزیر کا گوشت کھایا گیا ہو اوراسے اچھی طرح دھوکراس نجاست اورحرام چيزکو زائل کردیا گیا ہو ۔

اورجب یہ دعوت قبول کرنا اس کی دعوت میں ممدو معاون ثابت ہوں تویہ قبول کرنے کے زيادہ لائق ہے اوراس سے اجرو ثواب بھی حاصل ہوگا ۔ .

دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 12 / 254 ) مستقل فتوی کمیٹی کا فتوی
https://islamqa.info/ar/8798
 
Top