• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کھڑ ـــ کھڑا ــــ دینے ــــ والی :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کھڑ ـــ کھڑا ــــ دینے ــــ والی :


11110201_784007725000832_5328281873918721406_n.jpg

کھڑکھڑا دینے والی ، کیا ہے وہ کھڑکھڑا دینے والی ؟ تجھے کیا معلوم کہ وہ کھڑکھڑا دینے والی کیا ہے ؟ وہ (قیامت ہے) جس دن لوگ ایسے ہوں گے جیسے بکھرے ہوئے پتنگے ، اور پہاڑ ایسے ہو جائیں گے جیسے دھنکی ہوئی رنگ برنگ کی اون ، پھر جس کے (اعمال کے) پلڑے بھاری ہوں گے ، وہ دل پسند عیش میں ہوگا ، اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے ، اس کا مرجع ہاویہ ہے ، اور تم کیا سمجھے کہ ہاویہ کیا چیز ہے ؟
وہ دہکتی ہوئی آگ ہے


==============
(سورة القارعة) ‏‏
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سورة القارعة :


(سورة القارعة ۔ سورہ نمبر ۱۰۱ ۔ تعداد آیات ۱۱)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

الْقَارِ‌عَةُ ﴿١﴾

کھڑ کھڑا دینے والی

مَا الْقَارِ‌عَةُ ﴿٢﴾

کیا ہے (١) وہ کھڑ کھڑا دینے والی۔

٢۔١ یہ بھی قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اس سے قبل متعدد نام گزر چکے ہیں مثلاً اَ لْحاقَّۃُ، الطَّاَمَّۃُ، صَّاَخَّہُ، اَلْغَاشِیَۃُ، الْسَّاعَہُ، الْوَاقِعَۃُ وغیرہ، اسے الْقَارِعَۃُ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ اپنی ہولناکیوں سے دلوں کو بیدار اور اللہ کے دشمنوں کو عذاب سے خبردار کر دے گی، جیسے دروازہ کھٹکھٹانے والا کرتا ہے۔

وَمَا أَدْرَ‌اكَ مَا الْقَارِ‌عَةُ ﴿٣﴾

تجھے کیا معلوم کہ وہ کھڑ کھڑانے والی کیا ہے۔

يَوْمَ يَكُونُ النَّاسُ كَالْفَرَ‌اشِ الْمَبْثُوثِ ﴿٤﴾

جس دن انسان بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گے (١)


٤۔١فراش، مچھر اور شمع کے گرد منڈلانے والے پرندے وغیرہ۔ مبثوث، منتشر اور بکھرے ہوئے۔ یعنی قیامت والے دن انسان بھی پروانوں کی طرح پراگندہ اور بکھرے ہوئے ہوں گے۔

وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنفُوشِ ﴿٥﴾

اور پہاڑ دھنے ہوئے رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے۔

عھن، اس اون کو کہتے ہیں جو مختلف رنگوں کے ساتھ رنگی ہوئی ہو، منفوش، دھنی ہوئی۔ یہ پہاڑوں کی وہ کیفیت بیان کی گئی ہے جو قیامت والے دن انکی ہوگی۔ قرآن کریم میں پہاڑوں کی یہ کیفیت مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے، جسکی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اب آگے ان دوفریقوں کا اجمالی ذکر کیا جا رہا ہے جو قیامت والے دن اعمال کے اعتبار سے ہوں گے۔

فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ ﴿٦﴾

پھر جس کے پلڑے بھاری ہونگے۔ (۱)

٦۔۱ موازین، میزان کی جمع ہے۔ ترازو، جس میں صحائف اعمال تولے جائیں گے۔ جیسا کہ اس کا ذکر

(وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) 7۔الاعراف:8)

(اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ١٠٥؁) 18۔الکہف:105)

(وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا ۭ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِيْنَ 47؀) 21۔الانبیاء:47)

میں بھی گزراہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہاں یہ میزان نہیں، موزون کی جمع ہے یعنی ایسے اعمال جن کی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت اور خاص وزن ہوگا (فتح القدیر) لیکن پہلا مفہوم ہی راجح اور صحیح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کی نیکیاں زیادہ ہوں گی تو وزن اعمال کے وقت ان کی نیکیوں والا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔

فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّ‌اضِيَةٍ ﴿٧﴾

وہ دل پسند آرام کی زندگی میں ہوگا۔ (۱)

۷۔۱یعنی ایسی زندگی جس کو وہ صاحب زندگی پسند کرے گا۔

وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ ﴿٨﴾

جن کے پلڑے ہلکے ہونگے۔ (۱)

۸۔۱جس کی برائیاں نیکیوں پر غالب ہوں گی اور برائیوں کا پلڑا بھاری اور نیکیوں کا ہلکا ہوگا۔

فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ﴿٩﴾

اس کا ٹھکانا ہاویہ (جہنم) ہے۔ (۱)


۹۔۱ہاویہ جہنم کا نام ہے اس کو ہاویہ اس لیے کہتے ہیں کہ جہنمی اس کی گہرائی میں گرے گا۔ اور اس کو ام (ماں) سے اس لیے تعبیر کیا کہ جس طرح انسان کے لیے ماں، جائے پناہ ہوتی ہے اسی طرح جہنمیوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ ام کے معنی دماغ کے ہیں۔ جہنمی، جہنم میں سرکے بل ڈالے جائیں گے۔(ابن کثیر)

وَمَا أَدْرَ‌اكَ مَا هِيَهْ ﴿١٠﴾

تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے (١)


١٠۔١ یہ استفہام اس کی ہو لناکی اور شدت عذاب کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ انسان کے وہم و تصور سے بالا ہے انسانی علوم اس کا احاطہ نہیں کر سکتے اور اس کی کنہ نہیں جان سکتے۔

نَارٌ‌ حَامِيَةٌ ﴿١١﴾

وہ تند تیز آگ ہے (١)


١١۔١ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ :

انسان دنیا میں جو آگ جلاتا ہے، یہ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے، جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے ٦٩ درجہ زیادہ ہے
(صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ لنار وأنھا مخلوقۃ مسلم ، کتاب الجنۃ، باب فی شدۃ حرنار جھنم)

ایک اور حدیث میں ہے کہ :

"آگ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ میرا ایک حصہ دوسرے حصے کو کھائے جا رہا ہے، اللہ تعالٰی نے اسے دو سانس لینے کی اجازت فرما دی۔ ایک سانس گرمی میں اور ایک سانس سردی میں پس جو سخت سردی ہوتی ہے یہ اس کا ٹھنڈا سانس ہے، اور نہایت سخت گرمی جو پڑتی ہے، وہ جہنم کا گرم سانس ہے"(بخاری، کتاب و باب مذکور)

ایک اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"جب گرمی زیادہ سخت ہو تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش کی وجہ سے ہے۔(حوالہ مذکور، مسلم، کتاب المساجد)

http://forum.mohaddis.com/threads/تفسیراحسن-البیان-تفسیر-مکی.19532/page-462

 
Top