• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کہیں تقلید اپنے امام کی عبادت تو نہیں؟

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412

جی ہاں! حنفی اپنے امام، ابوحنیفہ کی عبادت کرتے ہیں۔


اس عنوان کو پڑھ کر ہر حنفی اس کا انکار کرتے ہوئے بڑے یقین سے کہے گا کہ یہ بات بالکل غلط اور خلاف واقع ہے کیونکہ ہم ہرگز ہرگز اپنے امام ابوحنیفہ کی عبادت نہیں کرتے بالکل ایسے ہی جیسے عیسائی مذہب کو چھوڑ کر دین اسلام قبول کرنے والے صحابی عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے قرآ ن کی آیت اتّخذوا احبارھم ورھبانھم ارباباً من دون اللہ (سورہ توبہ: ۳۱) سن کر کہا تھا کہ ہم نے توکبھی اپنے علماء کی عبادت نہیں کی(سنن ترمذی)

جس طرح عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ عیسائی ہوتے ہوئے اپنے علماء کی عبادت کر رہے تھے اور اس حقیقت سے لاعلم اور بے خبر تھے اسی طرح حنفی حضرات بھی حقیقت سے بے خبر دن رات ابوحنیفہ کی عبادت میں مصروف عمل ہیں ۔

رسول اللہ ﷺ نے تو یہ کہہ کر عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی غلط فہمی دور فرما دی کہ عیسائیوں کا اپنے علماء اور درویشوں کی حلال او ر حرام کردہ چیزوں کو تسلیم کر لینا ہی اصل میں ان کا اپنے علماء کو رب بنانا اور ان کی عبادت کرنا ہے۔ اس فعل میں عیسائی واقعتا ملوث تھے جس کا اعتراف عدی بن حاتم ؓ نے فرمایا۔اب ہم حنفیوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے ان کے علماء کی وہ تحریرات پیش کرتے ہیں جس سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جائے گی کہ عیسائیوں کی طرح حنفی بھی اللہ کی وحی کے مقابلے میں اپنے علماء اور اماموں کو واجب الاطاعت قرار دے کر ان کی عبادت میں مصروف ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ جس طرح عدی بن حاتم ؓ نے حقیقت کا اعتراف فرمالیا تھا اس طرح حنفی حضرات بھی اعتراف حقیقت کرتے ہیں یا اپنی روایتی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں۔

۱۔ غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۱کے تحت عدی بن حاتم ؓ کی حدیث بحوالہ جامع ترمذی درج کرنے کے بعد رقم طراز ہیں:
قرآن مجید کی اس آیت اور اس حدیث سے واضح ہوگیاکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مقابلہ میں اپنے کسی دینی پیشوا کے قول کو ترجیح دینا اور اس پر اصرار کرنا اس دینی پیشوا کو خدا بنا لینا ہے۔
(تبیان القرآن: ۵/۱۲۲)

۲۔ مولانا اشرف علی تھانوی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۱کی تفسیر میں فائدہ کے تحت رقم طرا ز ہیں:
یعنی ان کی اطاعت تحلیل اور تحریم میں مثل طاعت خدا کے کرتے ہیں کہ نص پر ان کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسی اطاعت بالکل عبادت ہے۔پس اس حساب سے وہ انکی عبادت کرتے ہیں۔
(القرآن الحکیم مع تفسیر بیان القرآن از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، صفحہ 172 طبع تاج کمپنی لمیٹیڈ پاکستان)

بریلویوں اور دیوبندیوں کے مستند علماء کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ قرآن و سنت کے مقابلے میں کسی عالم یا امام کے قول کو ترجیح دینا ہی اصل میں اس عالم یا امام کی عبادت کرنا اور اسے رب بناناہے۔

حنفیوں نے کس طرح قرآن و سنت کے مقابلے میں اپنے امام کے قول کو مقدم رکھکر اپنے امام کورب بنایا ہے اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

۱۔ قرآن کے بارے میں حنفیوں کا یہ اصول دیکھیں:
ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء حنفیہ)کے قو ل کے خلاف ہو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گااور اولیٰ یہ ہے کہ اس آیت کی تاؤیل کر کے اسے (فقہاء کے قول) کے موافق کر لیا جائے۔
(اصول کرخی، صفحہ 12 )

اصول کرخی میں ایسا ہی ایک اصول حدیث کے بارے میں بھی بنایا گیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حنفی فقہاء کے اقوال کو قرآن و حدیث کے مطابق بنانے کی کوشش کی جاتی لیکن حنفیوں نے الٹی گنگا بہاتے ہوئے اس کے برعکس کیا۔ حنفیوں کا یہ اصول اس بات کا منہ بولتا ثبو ت ہے کہ ان کے ہاں امام کی تقلید ہر حال میں واجب ہے اگر چہ وہ قرآن کے خلاف ہو یا حدیث کے۔ امام کے قول کے آگے آنی والی ہر دیوار چاہے وہ قرآن ہو یا حدیث اسے گرانا ضروری ہے مذکورہ بالا اصول اسی ضرورت کے تحت وضع کیا گیا ہے۔ اپنے اماموں کو رب بنانے اور ان کی عبادت کرنے کی یہ بدترین مثال ہے۔

۲۔ شیخ احمد سرہندی تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں:
جب روایات معتبرہ میں اشارہ کرنے کی حرمت واقع ہوئی ہو اور اس کی کراہت پر فتویٰ دیا ہو اور اشارہ و عقد سے منع کرتے ہوں اور اس کو اصحاب کا ظاہر اصول کہتے ہوں تو پھر ہم مقلدوں کو مناسب نہیں کہ احادیث کے موافق عمل کرکے اشارہ کرنے میں جرات کریں اور اس قدر علمائے مجتہدین کے فتویٰ کے ہوتے امر محرم اور مکروہ اور منہی کے مرتکب ہوں۔
(مکتوبات، جلد 1، صفحہ 718، مکتوب : 312)

لعنت ہے ایسی تقلید پر جو انسان کو قرآن وحدیث پر عمل کرنے سے روک دے۔

۳۔ محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:
والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔ کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔
(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)

یہی نص پر قول کو ترجیح دینا ہے جو کہ بقول اشرف علی تھانوی علماء کی عبادت ہے۔

۴۔ مفتی تقی عثمانی دیوبندی رقم طراز ہیں:
بلکہ ایسے شخص کو اگر اتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آجائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے...... اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پاکر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے، تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 87)

چناچہ اس کا کام صرف تقلیدہے، اور اگر اسے کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف نظر آئے تب بھی اسے اپنے امام کا مسلک نہیں چھوڑنا چاہیے۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 92)

ا ن کا کام یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے امام مجتہد کے قول پر عمل کریں،اور اگر انہیں کوئی حدیث امام کے قول کے خلاف نظر آئے تو اس کے بارے میں سمجھیں کہ اس کا صحیح مطلب یا صحیح محمل ہم نہیں سمجھ سکے۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 94)

انا اللہ وانا علیہ راجعون! تقی عثمانی صاحب کی اس تحریر سے یہ واضح ہوگیا کہ ان کے نزدیک امام کی مخالفت میں قرآن اور حدیث پرعمل کرنا گمراہی ہے جبکہ اس کے برعکس قرآن اور حدیث کی مخالفت میں امام کے قول پر عمل کرنا عین حق اور صراط مستقیم ہے۔استغفراللہ۔ یہ لوگ شاید اللہ کی پکڑ سے بے خوف ہوگئے ہیں جو مسلمانوں پر حدیث کو چھوڑنااور امام کے قول کو لازم پکڑنا فرض قرار دے رہے ہیں۔ثابت ہوگیا کہ حنفی قرآن اور حدیث کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں بلکہ چھوڑ چکے ہیں لیکن اپنے امام کے قول کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔

اس کے بعد بھی کیا یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ واقعی یہ لوگ اللہ کو اپنا رب مانتے ہیں؟! ایسے ماننے کا کوئی فائدہ نہیں کہ صرف زبانی کلامی رب اللہ کو مانا جائے اور عبادت اپنے امام کی کی جائے۔ یہ عبارات چیخ چیخ کر اعلان کر رہی ہیں کہ حنفی عملی طور پر اپنے امام کو اپنا رب بناتے ہوئے اس کی عبادت کرتے ہیں۔

۵۔ مفتی احمد یار نعیمی بریلوی حنفیوں کے نزدیک قرآن اور حدیث کی حیثیت یوں واضح کرتے ہیں:
کیونکہ حنفیوں کے دلائل یہ روایتیں نہیں ان کی دلیل صرف قول امام ہے۔
(جاء الحق، حصہ دوم، صفحہ 484)

ہم مسائل شرعیہ میں امام صاحب کا قول و فعل اپنے لئے دلیل سمجھتے ہیں اور دلائل شرعیہ میں نظر نہیں کرتے۔
(جاء الحق، حصہ اول، صفحہ 22)

معلوم ہوا کہ حنفیوں کے نزدیک قول امام کے سامنے قرآن اور حدیث کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ قرآن اور حدیث پر عمل کرنے والاحنفیوں کے نزدیک گمراہ اور گمراہ کرنے والاہے لیکن امام کے ہر صحیح اور غلط اقوال کو تھام لینے والاہی صراط مستقیم پر ہے۔احمد یار نعیمی بریلوی تفسیر صادی سے بطور رضامندی نقل کرتے ہیں:
یعنی چار مذہبوں کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں اگرچہ وہ صحابہ کے قول اور صحیح حدیث اور آیت کے موافق ہی ہو۔ جو ان چار مذہبوں سے خارج ہے وہ گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے۔ کیوں کہ حدیث و قرآن کے محض ظاہری معنےٰ لینا کفر کی جڑ ہے۔
(جاء الحق، حصہ اول، صفحہ 33)

غلام رسول سعیدی بریلوی کی تصریح کے مطابق حنفیوں کا یہی رویہ دینی پیشوا یا امام کو خدا بنالیناہے کہ یہ لوگ اللہ کے ارشاد کے مقابلہ میں اپنے دینی پیشوا یا امام یا عالم کے قول کو ترجیح دیتے ہیں ۔

۶۔ احمد رضا بریلوی نے پوری ایک کتاب بنام اجلی الاعلام ان الفتوی مطلقا علیٰ قول الامام صرف اس مسئلہ پر لکھی ہے کہ فتویٰ ہمیشہ قول امام پر ہوتا ہے۔اس بات سے انہیں کوئی غرض نہیں کہ امام کا فتویٰ قرآن کے مخالف ہے یا حدیث کے۔ بلکہ امام کے قول کے مقابلے میں یہ لوگ صحیح احادیث کی مخالفت کے لئے بھی بخوشی تیار ہو جاتے ہیں چناچہ احمد رضا لکھتے ہیں:
انھیں وجوہ سے صحیح و موکد احادیث کے خلاف کیا جاتا ہے۔
(اجلی الاعلام ان الفتوی مطلقا علیٰ قول الامام ص۱۲۸)
پھر مزید ایک جگہ لکھتے ہیں:
امام کا قول ضروری ایسا امر ہے جس کے ہوتے ہوئے نہ روایت پر نظر ہوگی نہ ترجیح پر۔
(اجلی الاعلام ان الفتوی مطلقا علیٰ قول الامام ص۱۶۳)

بریلویوں کے امام جناب احمد رضا صاحب کس قدر ڈھٹائی سے اقرار کر رہے ہیں کہ امام کے قول کے سامنے نہ روایت( قرآن وحدیث) دیکھی جائے گی نہ ترجیح اور یہ بھی اعتراف فرما رہے ہیں کہ ان کے مذہب میں صحیح احادیث کی مخالفت کی جاتی ہے۔ اب کوئی صاحب انصاف ہمیں بتائیں کہ اس کے علاوہ اور کیا چیز ہے جسے حنفیوں کی طرف سے ان کے امام، ابوحنیفہ کی عبادت سے تعبیر کیا جائے؟!

مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ حنفیوں کا اپنے امام ابوحنیفہ کی عبادت سے زبانی کلامی انکار ان کی لاعلمی اور جہالت کا نتیجہ ہے۔ جبکہ یہ لوگ حقیقتاً اپنے امام کی عبادت کرتے ہیں۔ اور جس طرح عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا اپنے علماء کو رب بنانے اور ان کی عبادت سے انکار خلاف واقع تھااسی طرح حنفیوں کا یہ انکار بھی غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے۔
حنفی حضرات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس معاملے میں ان کی جہالت اور بے خبری یا ہٹ دھرمی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی اور نہ ہی اس سے حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع ہوگی۔ انہیں اللہ سے ڈر جانا چاہیے اور ابوحنیفہ کی عبادت کو چھوڑ کر ایک اللہ واحد لاشریک کی عباد ت کرنی چاہیے تاکہ جنت کا حصول اور جہنم سے دوری ممکن ہوسکے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
ایک عام شبہ :
اس قسم کی آیات سے استدلال پر دیوبندیوں اور بریلویوں کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ آیات تو کفار کے حق میں نازل ہوئیں تھیں اسلئے ان آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرنا غلط ہے۔

ازالہ:
جب مسلمان اعمال میں کفار کے نقش قدم پر چلنے لگیں تو کفار کے حق میں نازل شدہ آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟!
جب عمل و عقیدہ یکساں ہو تو حکم بھی یکساں ہوتا ہے قطع نظر اس کے کہ آیت کس کے حق میں نازل ہوئی ہے اور مسلمانوں کا عیسائیوں اور یہودیوں جیسے اعمال کرنا اور ان کے نقش قدم پر چلنا تو حدیث سے بھی ثابت ہے چناچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد پاک ہے: تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلو گے۔ بالشت کے برابر بالشت اور ہاتھ کے برابر ہاتھ حتیٰ کہ اگر وہ سانڈھے کے بل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی ان کی پیروی کروگے، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ، یہود و نصاریٰ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اور کون؟ (صحیح بخاری: ۷۳۲۰، صحیح مسلم: ۲۶۶۹)

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان ضرور عیسائیوں اور یہودیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ اعمال کرینگے جن کی بنا پر عیسائیوں اور یہودیوں پر اللہ کا غضب نازل ہوا۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۱میں عیسائیوں کے جس عمل کی مذ مت اللہ رب العالمین نے فرمائی ہے حنفی حضرات آج عیسائیوں کے اسی عمل کی پیروی کرتے ہوئے قدم بہ قدم ان کے ساتھ ہیں جسے دلائل سے ثابت کردیا گیا ہے۔

جب عیسائیوں اور حنفیوں کا عمل ایک ہے تو قرآن کا حکم ان کے لئے ایک کیوں نہیں؟؟؟!!!
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
شاہد بھائی ابن آدم بھائی کو جوابا کچھ لکھنے سے پہلے مجھے ضرور رابطہ کیجئے گا۔ ابن آدم بھائی جس تناظر میں کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے۔ یاد رکھئے وہ آپ پر تنقید نہیں کر رہے بلکہ صرف یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ الفاظ کا استعمال درست اور احتیاط کے ساتھ ہونا چاہئے۔ والسلام۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

محترم ابن آدم بھائی آپکو میرا موقف سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ میں اللہ کی توفیق سے کوشش کرتا ہوں کہ آپکو میرا نقطہ نظر سمجھ میں آجائے۔

وہ چیز ہے : کلمہ طیبہ !
کم از کم اس زیر بحث معاملہ میں وہ چیز کلمہ طیبہ نہیں ہے۔دلیل آگے ذکر کی جائے گی ان شاءاللہ

کیونکہ میرے علم کے مطابق گناہ کبیرہ کا مرتکب ، اسلام کے دائرے سے خارج نہیں ہو جاتا۔
یہ خوارج کی بیماری ہے۔ میں نے بھی کہیں گناہ کبیرہ کے مرتکب کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کہا۔ اگر اس کا سبب یہ ہے کہ میں نے عیسائیوں کے حق میں نازل شدہ آیت کو کلمہ گو مقلدین پر چسپاں کردیا ہے تو اس کا مطلب انہیں دائرہ اسلام سے خارج کرنا کیسے ہوسکتا ہے؟

اس کا مطلب تو صرف اور صرف یہ ہے کہ جس خاص بیماری کا عیسائی شکار تھے مقلدین بھی اسی نامراد بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ جس طرح عیسائیوں نے زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر اپنے علماء کو اللہ کے سوا رب بنا لیا تھا بعینہ وہی عمل مقلدین نے بھی کیا۔ اور اس بات کے ثبوت میں، میں نے حدیث بھی پیش کردی ہے کہ یہ کلمہ گو مسلمان بھی وہی کام کرینگے جو یہودی اور عیسائی کرتے تھے۔

المختصر میں نے جو دعویٰ کیا اس کا ثبوت قرآن و حدیث اور خود مقلدین علماء کی تحریروں سے پیش کردیا ہے۔ الحمد اللہ

اور پھر صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول درج ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق خوارج نے یہ کام کیا کہ جو آیات کافروں کے باب میں اتری تھیں ، ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا۔
آپ کا یہ اعتراض بہت معقول ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ خوارج نے یہ کام کیا اور یہ کام غلط تھا۔ اور شاید آج بھی یہ کام ہو رہا ہے۔

لیکن یہاں یہ بات خصوصی طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے قرآن مجید میں جو احکامات و مسائل بیان ہوئے ہیں اگر چہ ان کے نزول کا سبب کفار ہی بنے ہوں لیکن وہ احکامات و مسائل صرف کفار کے ساتھ ہی خاص نہیں رہتے بلکہ جب کوئی مسلمان بھی وہی کام کرتا ہے تو قرآن کی انہیں آیات کو جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اسے اس مسلمان کے حق میں بیان کیا جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں ان آیات کو اس مسلمان پر چسپاں کردیا جاتا ہے۔

خوارج کا جرم یہ تھا کہ کفار کے حق میں نازل ہونے والی ایسی آیات کو انہوں نے مسلمانوں پر چسپاں کیا جس کا مصداق مسلمان کسی بھی طور پر نہیں تھے۔ لیکن جب مسلمان واقعتاً وہی کام کر بیٹھے تو پھر ان پر کفار کے حق میں نازل شدہ آیات چسپاں کر دینا صحیح ہے۔

شرک سے متعلق لاتعداد قرآن میں ایسی آیات ہیں جن کے نزول کا سبب مشرکین مکہ تھے جیسے اللہ کے تقرب کے لئے ناجائز وسیلہ اور غیر اللہ کی پکار وغیرہ لیکن جب بھی کسی کلمہ گو نے کفار کے ان اعمال کو اختیار کیا ہے سلف سے لے کر خلف تک علماء کرام نے کفار کے حق میں نازل شدہ آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کیا ہے۔ آج تک کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ علماء نے خوارج والا کام کیا ہے سوائے بریلویوں کے وہ یہ بات زور شور سے کہتے ہیں کہ یہ لوگ کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات ہمارے اوپر چسپاں کردیتے ہیں۔ لیکن بریلویوں کی اس بات کو کون قابل التفات جانتا ہے؟ کوئی بھی نہیں ! کیونکہ بریلویوں کی یہ بات بالکل غلط ہے۔

اللہ رب العالمین نے مشرکین مکہ کو ان کے شرکیہ اعمال کی بنیاد پر انہیں مشرک کہا۔ اگر مسلمان کے کلمہ کا ہر جگہ اعتبار کیا جائے تو پھر آج کوئی بھی غیراللہ کو پکارنے والا، ناجائز وسیلہ کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کرنے والا، غیراللہ کی نذر ماننے والا مشرک نہیں بلکہ مسلمان ہی کہلائے گا۔

اور کہا جائے گا کہ چونکہ مشرکین مکہ مسلمان نہیں تھے اس لئے وہ مشرک تھے لیکن آج جو شخص مشرکین مکہ والے کام کر رہا ہے اس نے کلمہ پڑھا ہے اس لئے اسے مشرک نہیں کہا جاسکتا۔ اس طرح قرآن کی لاتعداد آیات جو کفار کے حق میں نازل ہوئیں تھیں بے معنی ہو کر رہ جائیں گی۔ کیا مواحدین علماء میں اس کا کوئی قائل ہے کہ آج کے دور کا مشرک صرف اس لئے مشرک نہیں کہ اس نے کلمہ پڑھا ہے؟؟؟؟

مگر بھائی۔ آپ ایک بڑی بات بھول رہے ہیں۔ مسلمان اور کفار کے مابین ایک اہم عقیدہ "یکساں" نہیں ہے۔ یعنی اللہ واحد اور خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شہادت !
لہذا آپ ہی کے کہنے کے مطابق ، جب عقیدہ یکساں نہیں ہے تو پھر حکم بھی یکساں نہیں ہونا چاہئے
ضروری نہیں کہ ایک مسلمان کے عقائد میں کفار سے کلی طور پر ہی مطابقت اور یکسانیت ہو تو کفار کے حق میں نازل شدہ حکم کو مسلمان پر لاگو کیا جائےگا۔ بلکہ جزوی طور پر بھی اگر کوئی مسلمان وہی عقیدہ رکھے جو کسی کافر کا ہے تو اس خاص مسئلہ میں کافر کے لئے قرآن نے جو حکم بیان کیا ہے وہی حکم اس کلمہ گو مسلمان کے لئے بھی ہوگا۔ جیسے مشرکین مکہ کے شرکیہ عقائد کی وجہ سے قرآن نے انہیں مشرک کہا اب جو کلمہ گو وہی شرکیہ عقائد رکھے گا وہ بھی ان مشرکین مکہ کی طرح مشرک ہی ہوگا اور اس کا کلمہ اس کے شرک کے درمیان مانع نہیں ہوگا۔

کفار اور مسلمانوں کے درمیان عقائد میں کلی طور پر اتفاق محال ہے۔ جیسے خود ابن آدم بھائی نے ذکر کیا ہے کہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے اور کافر اس کا منکر ہے۔ لیکن اس کے باوجود جزوی طور پر کافر اور مسلمان کے عقیدہ اور عمل میں یکسانیت پائی جاسکتی ہے۔ اور حدیث کے مطابق یہ یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اسی لئے علماء نے کافروں والی آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کیا ہے۔

1۔ جس قرآنی آیت یعنی اتّخذوا احبارھم ورھبانھم ارباباً من دون اللہ (سورہ توبہ: ۳۱) ترجمہ: انھوں نے اپنے احبار(مولویوں) اور رہبان(پیروں) کو، اللہ کے سوا رب بنا لیا۔کو میں اپنے مضمون کی بنیاد بنایا ہے۔ اسی قرآنی آیت کو درج ذیل جلیل القدر علماء نے مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہوئے تقلید کا رد کیا ہے۔

1۔ ابن عبدالبر(جامع بیان العلم وفضلہ ج2 ص109)
2۔ ابن حزم (الاحکام فی اصول الاحکام ج6 ص283)
3۔ ابن القیم (اعلام الموقعین ج2 ص 190)
4۔ السیوطی (باقرارہ، الردعلیٰ من اخلدالی الارض ص120)
5۔ الخطیب البغدادی (الفقیہ والمتفقہ ج2 ص66)

2۔ رب العالمین فرماتا ہے: قل ھاتو ابرھانکم ان کنتم صدقین (البقرہ: 111، النحل: 64) ترجمہ: کہہ دو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔ قرآن کی یہ آیت کفار کے حق میں نازل ہوئی تھی لیکن اس آیت کو درج ذیل علماء نے مسلمانوں پر چسپاں کرکے تقلید کا ابطال کیا ہے۔

1۔ ابن حزم (الاحکام 6۔275)
2۔ الغزالی (المستصفیٰ 2۔389)
3۔ السیوطی (الرد علی من اخلد الی الارض ص130)

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علماء نے ان آیات کے ساتھ، ابطال تقلید پر استدلال کیا ہے۔ انھیں (ان آیات میں مذکورین کے) کفر نے استدلال کرنے سے نہیں روکا، کیونکہ تشبیہ کسی کے کفر یا ایمان کی وجہ نہیں ہے، تشبیہ تو مقلدین میں بغیر دلیل کے(اپنے)مقلد(امام، رہنما)کی بات ماننے میں ہے۔(اعلام الموقعین ج2 ص 191)

اس حدیث سے صرف یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان ضرور عیسائیوں اور یہودیوں کے نقش قدم پر چلیں گے۔ غیرمسلموں کے نقش قدم پر چلنے کی سزا بطور حکم اگر نبی صلی اللہ علیہ نے بیان کی ہے تو وہ کس حدیث میں درج ہے ، آپ کو اس کا حوالہ دینا چاہئے۔
میں نے صرف یہ بیان کیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عمل کی اطلاع فرمائی تھی کہ مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں کے نقش قدم پر چلیں گے۔ کلمہ گو مقلدین حضرات اپنے امام کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا کر عیسائیوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ میں نے جتنی بات کی اس کے دلائل بھی پیش کردیے ہیں جبکہ میں نے کسی سزا کا ذکر نہیں کیا۔

بطور تنبیہ عرض ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جس قوم کی تشبیہ اختیار کرے گا اس کا حشر بھی اسی قوم کے ساتھ ہوگا۔(مفہوم حدیث)
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
السلام علیکم شاہد نذیر بھائی میں نے آپکی بات کو 100% سمجھا ہے اور ابن آدم بھائی اس معاملے میں آپ کے لئے کچھ اسی قسم کی بات مولانا حالی بھی فرماگئے ہیں۔امید ہے ابن آدم صاحب غور ضرور فرمائینگے.

کرے غیرگربت کی پوجاتو کافر
جوٹھہرائے بیٹاخدا کا تو کافر

کہے آگ کو اپنا قبلہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ توکافر

مگرمومنوں پرکشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں

نبی کو جوچاہیں خداکردکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں

شہیدوں سے جاجاکے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے

نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
جس طرح اہل بدعت کی اصلاح میں مٹھاس اور رویہ مثبت رکھنے کی ضرورت ہے تو شاہد نزیر بھائی یا گڈ مسلم بھائی یا ہمارے کچھ دوسرے ساتھی ان سے گئے گزرے تو نہیں کہ ان کی اصلاح یا تربیت کے لیے زہر کو قلاقند کہنے کی نوبت آئے۔ میرے خیال میں تو شاہد نزیر بھائی نے کافی حد تک اپنی بات کی وضاحت دے دی ہے۔ جہاں تک کس کام کو کفر یا شرک کہنے کا تعلق ہے تو اس میں تو دو رائے ہونی ہی نہیں چاہئیں صرف اطلاق کے فرق کو سمجھایا جانا ضروری ہے لیکن اس کے لیے بھی رویہ مثبت اور میٹھا ہونا چاہئے۔ پھر جو عمومی بات کرے اس سے انفرادی فتووں کا مطالبہ بھی صحیح نہیں۔
یہ بات تو درست نہیں کہ اہل بدعت کی اصلاح کے لیے تو اثر اور مٹھاس ضروری ہو اور اپنے ہی بھائیوں کی اصلاح کے لیے خود ہمارا رویہ اس سے خالی ہو جائے۔ اللہ ہم سب کی اصلاح کرے اور ہم سب کے دلوں کو جوڑ دے، آمین یا رب العالمین۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
شاہد نذیر بھائی!ہم بار بار اپنے بھائیوں کو اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ ہمارا مقصود مناظرۃ یا مجادلہ نہیں بلکہ لوگوں کی اصلاح ہے اور مصلح اسی صورت اصلاح کر سکتا ہے جبکہ اس زبان میں شہد کی سی مٹھاس ہو۔ جب مٹھائی سے علاج ممکن ہو تو کسی کو کڑوی دوا دینا کیا دین کا کوئی حکم ہے؟
آپ کی پوسٹ کے ایک حصہ کو میں نے کچھ یوں ترتیب دیا ہے۔اس مقصود صرف یہ ہے کہ آپ ہی کی بات کچھ اس اسلوب بیان سے بھی سامنے آ سکتی تھی اور اس کا فائدہ میرے خیال میں زیادہ ہے جبکہ جو اسلوب بیان آپ کا ہے وہ مناظرے میں کسی کو ہرا توسکتا ہے لیکن قائل نہیں کر سکتا۔ آپ اپنے مقاصد کا تعین کریں کہ وہ ہرانا ہے یا قائل کرنا۔ پھر میرے خیال میں آپ کے اسلوب بیان میں نمایاں تبدیلی آ جائے گی ۔
کیاحنفی اپنے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں؟
یہ عنوان بہت ہی چونکا دینے والا ہے۔ شاید کوئی شخص اس عنوان سے یہ نتیجہ بھی نکالے کہ ہم حنفیہ پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ اپنے امام کی عبادت کرتے ہیں۔ ہم دراصل اس عنوان کے ذریعے اپنے حنفی بھائیوں کو ایک خاص نقطہ کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں اور وہ کتاب اللہ کی ایک آیت مبارکہ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ ۔
انہوں نے یعنی عیسائیوں نےاپنے علماء اور درویشوں کو رب بنالیاتھا۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے استفسار کیاکہ ہم نے اپنے علماء یا درویشوں کی کبھی عبادت نہیں کی ہے توآپ کے جواب کا مفہوم تھا کہ اپنے علماء اور پیروں کے حلال کو حلال جا لینا اورحرام کو حرام مان لینابھی تو ان کی عبادت ہے۔
پس ہمارے بعض حنفی بھائی بھی اہل الحدیث سے مناظرہ ومکالمہ اور ان کی تردید وتنقید میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ گمان ہونے لگتا کہ شاید وہ بھی اس آیت مبارکہ کا مصداق نہ بن جائیں۔ بعض معتدل مزاج حنفی علماء نے اپنے عوام الناس کو اس بارے توجہ دلائی ہے کہ انہیں کسی بھی عالم دین کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اس کے حلال کو وحلال اور حرام کو حرام نہیں قرار دینا چاہیے بلکہ اپنی تحقیق بھی کرنی چاہیے۔
1۔ غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۱کے تحت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی حدیث بحوالہ جامع ترمذی درج کرنے کے بعد رقم طراز ہیں:
قرآن مجید کی اس آیت اور اس حدیث سے واضح ہوگیاکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مقابلہ میں اپنے کسی دینی پیشوا کے قول کو ترجیح دینا اور اس پر اصرار کرنا اس دینی پیشوا کو خدا بنا لینا ہے۔
(تبیان القرآن: ۵/۱۲۲)
2۔ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سورہ توبہ کی آیت نمبر ۳۱کی تفسیر میں فائدہ کے تحت رقم طرا ز ہیں:
یعنی ان کی اطاعت تحلیل اور تحریم میں مثل طاعت خدا کے کرتے ہیں کہ نص پر ان کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسی اطاعت بالکل عبادت ہے۔پس اس حساب سے وہ انکی عبادت کرتے ہیں۔
(القرآن الحکیم مع تفسیر بیان القرآن از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، صفحہ 172 طبع تاج کمپنی لمیٹیڈ پاکستان)
پس مستند حنفی علماء کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ قرآن و سنت کے مقابلے میں کسی عالم یا امام کے قول کو ترجیح دینا ، اس عالم یا امام کی عبادت کرنے اور اسے رب بنانے کے مترادف ہے۔
ہمیں بعض اوقات بہت زیادہ پریشانی ہوتی ہے جبکہ بعض حنفی اہل علم کے ہاں اس قسم کی عبارتیں دیکھتے ہیں کہ جن میں وہ بظاہر اپنے ائمہ کے اقوال کو کتاب وسنت کی نصوص پر ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔
1۔ کتاب اللہ کے بارے یہ اصول دیکھیں:
ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء حنفیہ)کے قو ل کے خلاف ہو گی اسے یا تو منسوخ سمجھا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گااور اولیٰ یہ ہے کہ اس آیت کی تاؤیل کر کے اسے (فقہاء کے قول) کے موافق کر لیا جائے۔
(اصول کرخی، صفحہ 12 )
اگرچہ بعض حنفیہ نے اپنے ان امام کے اس اصول کا انکار کیا ہے لیکن بعض دوسروں نے اسے قبول بھی کیا ہے جو مذکورہ بالا آیت کے اعتبار سے لمحہ فکریہ ہے۔
2۔ شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں:
جب روایات معتبرہ میں اشارہ کرنے کی حرمت واقع ہوئی ہو اور اس کی کراہت پر فتویٰ دیا ہو اور اشارہ و عقد سے منع کرتے ہوں اور اس کو اصحاب کا ظاہر اصول کہتے ہوں تو پھر ہم مقلدوں کو مناسب نہیں کہ احادیث کے موافق عمل کرکے اشارہ کرنے میں جرات کریں اور اس قدر علمائے مجتہدین کے فتویٰ کے ہوتے امر محرم اور مکروہ اور منہی کے مرتکب ہوں۔
(مکتوبات، جلد 1، صفحہ 718، مکتوب : 312)
شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ کا مقام ومرتبہ اپنی جگہ، لیکن ایسے کلمات ان کے شایان شان نہیں تھے ۔ حدیث پر عمل نہ کرنے کے اس طرز عمل کی ایک بڑی وجہ اپنے آپ کو انڈر ایسٹیمیٹ کرنا بھی تھا یعنی ایک عالم دین یہ فرض کر لیتا تھا کہ اس کے پاس حدیث کا وہ علم کبھی ہو ہی نہیں سکتاہے جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے پاس تھا۔ پس اس خلاف واقعہ سوچ کی وجہ سے وہ حدیث پر عمل کرنے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔
3۔ مولانامحمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔
کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔
(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)
بہت بڑی بات ہے کہ ہم ایک مسئلہ میں حق بات پر تقلید کو ترجیح دیں
4۔ مفتی تقی عثمانی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
بلکہ ایسے شخص کو اگر اتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آجائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے...... اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پاکر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے، تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 87)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
چناچہ اس کا کام صرف تقلیدہے، اور اگر اسے کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف نظر آئے تب بھی اسے اپنے امام کا مسلک نہیں چھوڑنا چاہیے۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 92)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
ا ن کا کام یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے امام مجتہد کے قول پر عمل کریں،اور اگر انہیں کوئی حدیث امام کے قول کے خلاف نظر آئے تو اس کے بارے میں سمجھیں کہ اس کا صحیح مطلب یا صحیح محمل ہم نہیں سمجھ سکے۔
(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 94)
ہمارے خیال میں ان اقوال مذکورہ بالا میں تقلید میں جس قدر غلو کا اظہار کیا گیاہے، وہ ایک مسلمان کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا کر دیتا ہے کہ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی روایت میں موجود عیسائیوں کی اپنے علماء اور درویشوں کی تقلید اور آج کل کے مسلمانوں کی اپنے گدی نشینوں ، مفتیوں اور پیروں فقیروں کی تقلید میں کیا فرق ہے؟
5۔ مفتی احمد یار نعیمی بریلوی حنفی فرماتے ہیں:
کیونکہ حنفیوں کے دلائل یہ روایتیں نہیں ان کی دلیل صرف قول امام ہے۔
(جاء الحق، حصہ دوم، صفحہ 484)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
ہم مسائل شرعیہ میں امام صاحب کا قول و فعل اپنے لئے دلیل سمجھتے ہیں اور دلائل شرعیہ میں نظر نہیں کرتے۔
(جاء الحق، حصہ اول، صفحہ 22)
تقلید میں یہ غلو ہی ہے جو انسان کوجس انتہا پسندی تک لے جاتا ہے، اس کا ایک منظر درج ذیل کوٹیشن میں دیکھا جا سکتا ہے:
یعنی چار مذہبوں کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں اگرچہ وہ صحابہ کے قول اور صحیح حدیث اور آیت کے موافق ہی ہو۔ جو ان چار مذہبوں سے خارج ہے وہ گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے۔ کیوں کہ حدیث و قرآن کے محض ظاہری معنےٰ لینا کفر کی جڑ ہے۔
(جاء الحق، حصہ اول، صفحہ 33)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جہاں تک کس کام کو کفر یا شرک کہنے کا تعلق ہے تو اس میں تو دو رائے ہونی ہی نہیں چاہئیں صرف اطلاق کے فرق کو سمجھایا جانا ضروری ہے لیکن اس کے لیے بھی رویہ مثبت اور میٹھا ہونا چاہئے۔
بہت خوب! میں سمجھتا ہوں کہ یہی اصل نکتہ ہے جس پر زور دینا چاہئے، میں نے اس نکتے کی وضاحت ایک مرتبہ یہاں فورم پر ہی کی تھی۔ ورنہ شاہد نذیر بھائی اور ابن آدم بھائی دونوں کی بات صحیح ہے۔
شاہد نذیر بھائی کی بات اس حد تک صحیح ہے کہ جس عمل کو کتاب وسنت میں کفر وشرک، نفاق یا ظلم وفسق کہا گیا ہے، وہ عمل واقعی ہی کفر وشرک، نفاق اور ظلم وفسق ہی ہے، خواہ وہ کسی کافر سے صادر ہو یا مسلمان سے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور ان کے رسولﷺ کسی فعل پر ایک حکم لگا رہے ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں اس حکم کا انکار یا تاویل کرنے والے؟؟
ابن آدم بھائی کی بھی یہ بات صحیح ہے کہ ہم کسی متعیّن شخص، گروہ، فرقے اور جماعت پر اس حکم کا اطلاق کرنے والے کون ہیں؟ ہمیں کیا معلوم کسی نے یہ عمل کس نیت سے کیا ہے؟ جہالت سے کیا ہے یا علم سے، جان بوجھ کر کیا ہے یا بھول کر، اپنی مرضی سے کیا ہے یا مجبوری سے؟؟؟ وغیرہ وغیرہ
میرا خیال ہے کہ اصل خرابی اس پوسٹ کا عنوان ہے، جس کی طرف ابو الحسن علوی بھائی نے بھی اشارہ کیا ہے، اس عنوان میں ایک متعین گروہ (حنفیہ) پر غیر اللہ کی عبارت کا حکم لگایا گیا ہے، جو بالکل غیر مناسب ہے، جس سے فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
 
Top