• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیانبی ﷺ نےابن عمر﷜ کےطلاق حیض کوایک طلاق شمارکیا؟

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
کیانبی ﷺ نےابن عمر﷜ کےطلاق حیض کوایک طلاق شمارکیا؟


کفایت اللہ سنابلی​


عبد الله بن وهب بن مسلم المصري القرشي (المتوفى 197) نے کہا:
حدثنا ابن أبي ذئب أن نافعا أخبرهم عن ابن عمر أنه طلق امرأته وهي حائض، فسأل عمر رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن ذلك، فقال: «مره فليراجعها ثم ليمسكها حتى تطهر ثم تحيض ثم تطهر، ثم إن شاء أمسك بعد ذلك، وإن شاء طلق قبل أن يمس، فتلك العدة التي أمر الله أن تطلق لها النساء »وهي واحدة
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «انہیں حکم دو کہ اپنی بیوی کو واپس لیں اور پھر اسے روکے رکھیں یہاں تک وہ پاک ہوجائے پھر اسے حیض آئے پھر وہ پاک ہو پھر اس کے بعد اگر وہ چاہیں تو اسے روکیں اور چاہیں تو جماع سے پہلے طلاق دیں ، تو یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے »اور وہ ایک ہے۔
[الجامع لابن وهب ، انظر :زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 210 و المحلى لابن حزم، ت بيروت: 9/ 378، واخرجہ ایضا الدارقطنی فی السنن 4/ 9 و النجاد فی مسند عمر بن الخطاب ص: 47 من طریق یزید بن ھارون عن ابن ابی ذئب بہ ، واخرجہ ایضا أبو داود الطيالسي فی مسندہ 1/ 68 وعنہ البیھقی فی سننہ 7/ 326 عن ابن ابی ذئب مع اختلاف فی اللفظ ، واخرجہ ایضا ابن الجعد فی مسندہ ص: 409 من طریق أحمد بن منيع ولم یذکر لفظ وھی واحدۃ ]

اس روایت کے اخیر میں الفاظ(وهي واحدة) مرفوع حدیث میں ثابت نہیں ہے جیساکہ تفصیل آرہی ہے ۔
لیکن بالفرض اسے ثابت مان لین تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دوسری طلاق دینے کا حکم دیا تھا اسے ایک قراردیا ہے کیونکہ دوسری طلاق کے ذکر کے بعد ہی ان الفاظ کا تذکرہ ہے ۔
علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والصحيح الواضح أن قوله (وهي واحدة) إنما يراد به الطلقة التي ستكون في الطهر الثاني في قُبُل العدة لأنها أقرب مذكور إلى الضمير بل إنه لم يذكر غيرها في اللفظ النبوي الكريم، وطلقة الحيض أشير إليها فقط وفهمت من سياق الكلام، فلا يمكن أن يعود الضمير إليها، ويكون معنى قوله (وهي واحدة) إن طلق كما أمر كانت طلقة واحدة ولا تكون طلقة ثانية، لعدم الاعتداد بالأولى التي كانت لغير العدة
واضح اور صحیح بات یہ ہے کہ روایت کے الفاظ : (وهي واحدة) اس سے مراد وہ طلاق ہے جو دوسرے طھر میں عدت میں ابن عمر رضی اللہ عنہ دیں گے کیونکہ ضمیر سے سب سے قریب اسی کا تذکرہ ہے بلکہ اس کے علاوہ کسی اور طلاق کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور حیض والی طلاق کی طرف صرف اشارہ ہے جو کلام کے سیاق سے مستفاد ہوتا ہے ، لہٰذا اس کی طرف ضمیر لوٹنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ اس لئے (وهي واحدة ) اس کا معنی یہی ہوگا کہ اگر ابن عمر رضی اللہ عنہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق دوبارہ طلاق دیں گے تو یہ ایک طلاق شمار ہوگی نہ کہ دوسری ، کیونکہ پہلی طلاق غیر عدت میں دئے جانے کے سبب شمار ہی نہیں کی گئی ہے۔[نظام الطلاق في الإسلام ص 22]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
الفاظ (وهي واحدة) مرفوع نہیں


لیکن راجح بات یہ ہے کہ یہ الفاظ مرفوع حدیث کا حصہ ہرگز نہیں ہیں ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ نافع کے علاوہ اسی حدیث کو ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دس رواۃ نے بیان کی ہے ان دس میں سے کسی نے بھی مرفوع حدیث میں یہ الفاظ بیان نہیں کئے ہیں یہ دس رواۃ یہ ہیں:

(1) سالم بن عبد الله (صحيح البخاري 6/ 155رقم 4908)
(2) يونس بن جبير (صحيح البخاري 7/ 59 رقم 5333)
(3) أنس بن سيرين (صحيح مسلم 2/ 1097رقم1471)
(4) عبدالله بن دينار (صحيح مسلم 2/ 1095رقم 1471)
(5) طاوس بن كيسان (صحيح مسلم 2/ 1097رقم 1471)
(6) سعيد بن جبير (صحيح ابن حبان 10/ 81 رقم 4264 وإسناده صحيح علي شرط مسلم)
(7) محمد بن مسلم أبو الزبير (مصنف عبد الرزاق 6/ 309 رقم 10960 وإسناده صحيح)
(8) شقيق بن سلمة أبو وائل (مصنف ابن بي شيب. سلفية: 5/ 3 وإسناده صحيح)
(9) ميمن بن مهران (السنن الكبري للبيهقي، ط الهند: 7/ 326 وإسناده صحيح)
(10) مغيرة بن يونس (شرح معاني الآثار 3/ 53 رقم 4464 وإسناده حسن)

اسی طرح نافع سے بھی اس روایت کو گیارہ رواۃ نے نقل کیا ہے ان گیارہ میں سے صرف ابن ذئب نے یہ الفاظ بیان کئے باقی دس راویوں نے یہ الفاظ بیان نہیں کئے یہ دس رواۃ درج ذیل ہیں:

(1) الليث بن سعد عن نافع (صحيح البخاري 7/ 58 رقم 5332)
(2) مالک بن انس عن نافع (صحيح مسلم 2/ 1093 رقم 1471)
(3) عبيد الله بن عمر عن نافع (صحيح مسلم 2/ 1094رقم 1471)
(4) یحیی بن سعید عن نافع (سنن النسائي 6/ 212 رقم 3556 واسنادہ صحیح)
(5) موسی بن عقبہ عن نافع(سنن النسائي 6/ 212 رقم 3556 واسنادہ صحیح)
(6) محمدبن اسحاق عن نافع (سنن النسائي 6/ 212 رقم 3556 واسنادہ صحیح)
(7) أيوب السختيانى عن نافع (مصنف عبد الرزاق 6/ 308 واسنادہ صحیح)
(8) إسماعيل بن إبراهيم بن عقبة عن نافع(سنن الدارقطني 5/ 51 رقم 3968 واسنادہ صحیح)
(9) صالح بن كيسان عن نافع (سنن الدارقطني 4/ 9 واسنادہ صحیح)
(10) معقل بن عُبيد الله عن نافع (المعجم الأوسط 2/ 174 واسنادہ صحیح)

تنبیہ بلیغ:
نافع کے ایک اور شاگرد ابن جریج نے بھی یہ روایت بیان کی ہے لیکن یہ ثابت نہیں ہے چنانچہ:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
نا أبو بكر نا عياش بن محمد نا أبو عاصم عن بن جريج عن نافع عن بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : هي واحدة
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ ایک ہے [سنن الدارقطني: 4/ 10]

لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ ابن جریج نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے طبقہ کے مدلس ہیں دیکھئے : [طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 41]
مزید یہ کہ ابن جریج کے ایک دوسرے شاگرد سفیان ثوری نے ابن جریج سے یہی روایت بیان کی تو هي واحدة(وہ ایک طلاق ہے ) کے الفاظ مرفوعا بیان نہیں کئے بلکہ یہ بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حالت حیض میں ایک طلاق دی تھی اور باقی وہی الفاظ بیان کئے جو نافع کے مذکورہ دس شاگردوں نے بیان کئے ہیں چناچہ:
أبو بكر النجاد (المتوفى 348 ) نے کہا:
حدثنا محمد، ثنا سفيان، ثنا ابن جريج، عن نافع، أن عبد الله بن عمر طلق امرأته وهي حائض تطليقة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستفتى عمر النبي صلى الله عليه وسلم «فأمره أن يراجعها، ثم يمسكها حتى تطهر فإن بدا له أن يطلقها قبل أن يجامعها»
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حیض کی حالت میں ایک طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو واپس لیں اور پھر اسے روکے رکھیں یہاں تک وہ پاک ہوجائے پھر اس کے بعد اگر وہ چاہیں تو جماع سے پہلے اسے طلاق دے دیں [مسند عمر بن الخطاب للنجاد ص: 58 ]
یہ روایت معنوی طور پر صحیح ہے جیساکہ نافع کے دیگر شاگردوں سے ثابت ہے لیکن یہ سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں بھی ابن جریج کا عنعنہ ہے ۔

معلوم ہوا کہ ابن ابی ذئب سے اوپر کسی بھی طبقے میں ان کا کوئی متابع نہیں ہے بلکہ ہر طبقہ کی پوری جماعت نے ابن ابی ذئب کے خلاف یہ الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں ۔

امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456)فرماتے ہیں:
وأما حديث ابن أبي ذئب الذي في آخره «وهي واحدة» فهذه لفظة أتى بها ابن أبي ذئب وحده؛ ولا نقطع على أنها من كلام رسول الله - صلى الله عليه وآله وسلم -؛ وممكن أن تكون من قول من دونه - عليه الصلاة والسلام - والشرائع لا تؤخذ بالظنون.
اوررہی ابن ابی ذئب کی حدیث جس کے اخیر میں یہ الفاظ ہیں (وهي واحدة) تو یہ الفاظ صرف ابن ابی ذئب نے ہی تنہا بیان کیا ہے اور ہم اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں مان سکتے۔ بلکہ ممکن ہے کہ یہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کا قول ہے اور شریعت کا مسئلہ ظن وتخمین سے اخذ نہیں کیا جاسکتا[المحلى لابن حزم، ت بيروت: 9/ 380 ، 381]


ابوداؤد الطیالسی کا وہم:
واضح رہے کہ ابن ابی ذئب کے جو الفاظ ان کے شاگرد ابن وہب نے مذکورہ روایت میں بیان کئے ہی ان میں اس بات کی صراحت نہیں کہ یہ الفاظ (وهي واحدة ) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہے ۔
ابن ابی ذئب کے ایک دوسرے شاگرد یزید بن ھارون نے بھی ان سے یہی روایت بیان کررکھی ہے اورانہوں نے بھی ایسی کوئی صراحت نہیں کی ہے ۔دیکھئے: [سنن الدارقطنی 4/ 9 مسند عمر بن الخطاب للنجاد ص: 47 ]
نیز ابن ابی ذئب کے ایک تیسرے شاگرد أحمد بن منيع نے بھی ان سے یہی روایت بیان کی ہے اور انہوں نے سرے سے یہ الفاظ بیان ہی نہیں کئے بلکہ صرف مرفوع حصہ نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک طلاق والے الفاظ مرفوع حدیث میں شامل نہیں ہیں اسی لئے أحمد بن منيع نے اسے ترک کرکے روایت کیا ہے،دیکھئے:[مسند ابن الجعد ص: 409 ]

ابن ذئب کے مذکورہ تینوں شاگردوں کے خلاف جب ابوداؤد الطیالسی نے اسی روایت کو ابن ابی ذئب سے نقل کیا تو حد درجہ اختصار کرتے ہوئے ایک طلاق والی بات کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صراحتا منسوب کردیا چنانچہ کہا:
حدثنا ابن أبي ذئب، عن نافع، عن ابن عمر، رضي الله عنه، أنه طلق امرأته وهي حائض، فأتى عمر النبي صلى الله عليه وسلم، فذكر ذلك له، فجعلها واحدة.
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان سے اس کا تذکرہ کیا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک قرار دیا [مسند أبو داود الطيالسي 1/ 68 ومن طریق ابی داؤد اخرجہ البیھقی فی السنن الكبرى ، ط الهند: 7/ 326 ]

ظاہر ہے کہ یہ ابوداؤد الطیالسی کا وھم ہے انہوں نے اپنے استاذ ابن ابی ذئب سےروایت کرتے ہوئے غلطی سے ایسے الفاظ روایت کردئے جو ابن ذئب کے دیگر تین تلامذہ بیان نہیں کرتے۔

اور ابوداؤد الطیالسی سے اس طرح غلطی ہوجانا معروف بات تھی جیساکہ اہل فن نے صراحت کی ہے چنانچہ:

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
وكان كثير الحديث, ثقة، وربما غلط
یہ کثیر الحدیث اور ثقہ تھے اور کبھی کبھار غلطی کرجاتے تھے[الطبقات الكبير لابن سعد ت عمر: 9/ 299]

امام أبو مسعود أحمد بن الفرات الرازى (المتوفی258) نے کہا:
إنه يخطىء
یہ غلطی کرتے ہیں [طبقات المحدثين بأصبهان 2/ 50 واسنادہ صحیح]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
محدث صدوق كان كثير الخطأ
یہ محدث اور صدوق ہیں اور بکثرت غلطی کرتے تھے [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 4/ 112]

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
فكان يغلط
یہ غلطی کرتے تھے [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 9/ 26]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة حافظ غلط في أحاديث
یہ ثقہ اور حافظ ہیں انہوں نے کئی احادیث میں غلطی کی ہے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2550]

اہل فن کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ ابوداؤد الطیالسی سے متن حدیث وغیرہ میں اس طرح کی چوک ہوجایاکرتی تھی اس لئے ایک جماعت کے خلاف یہ الگ سیاق میں کوئی بات روایت کریں گے تو وہ ناقابل قبول ہوگی ۔
علامہ معلمی رحمہ اللہ اسی روایت سے متعلق فرماتے ہیں:
والطيالسي إمام حافظ ولكنه كثير الخطأ ۔۔۔۔ ومن قارن الأحاديث التي في مسنده بنظائرها مما يرويه غيره، وجد اختلافًا كثيرًا في المتون، وكأنه كان يروي بالمعنى، فاختصر حديث ابن أبي ذئب، وبنى على ما فهمه فقال: "فجعلها واحدة"
طیالسی امام اورحافظ ہیں لیکن بکثرت غلطی کرنے والے ہیں اور جو بھی ان کی مسند میں موجود احادیث کا موازنہ دیگر رواۃ سے مروی انہیں احادیث سے کرے گا، وہ متون میں بہت سارا اختلاف پائے گا ۔ گویا یہ روایت بالمعنی کیا کرتے تھے چنانچہ انہوں نے ابن ابی ذئب کی حدیث کو بھی مختصرکیا اور اپنی سمجھ کے مطابق بیان کرتے ہوئے کہہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک طلاق قرار دیا [الحكم المشروع في الطلاق المجموع: ص144۔145، آثار الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني 17/ 685-686]

معلوم ہوا کہ ابن ابی ذئب سے ابوداؤد الطیالسی کی بیان کردہ روایت کے الفاظ غلط ہیں اور ابن ابی ذئب کے درست الفاظ وہ ہیں جو ابن ابی ذئب کے دیگر اوثق شاگردوں نے نقل کئے ہیں۔

اس تفصیل سے صاف ظاہر ہے کہ ایک طلاق بتلانے والے الفاظ مرفوع روایت کا حصہ نہیں ہیں لہٰذا یہ الفاظ سرے سے حجت ہی نہیں ہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
الفاظ (وهي واحدة ) کے قائل اور ان کی مراد


اس روایت کے دیگر تمام طرق کو پیش نظر رکھنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ (وھی واحدۃ) کے الفاظ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں بلکہ ابن عمر کے شاگرد نافع کے ہیں اور ان الفاظ سے ان کا مقصود طلاق کو شمار کئے جانے کی خبر دینا نہیں ہے بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے دی گئی طلاق کی تعداد بتلانا ہے ۔
چنانچہ زیر بحث حدیث میں ابن ابی ذئب نے مرفوع حدیث میں نہیں بلکہ مرفوع حدیث روایت کرنے کے بعد الگ سے ابن عمر کے شاگرد نافع کی طرف سے یہ الفاظ ذکر کئے ہیں اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں ایک ہی طلاق دی تھی نہ کہ دو یاتین جیساکہ بخاری ومسلم میں نافع کے شاگرد اللیث نے بھی بیان کیا کہ :
طلق امرأة له وهي حائض تطليقة واحدة
ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں ایک طلاق دی [صحيح البخاري 7/ 58 رقم 5332 ، صحيح مسلم (2/ 1093) رقم 1471]

اسی طرح نافع کے ایک اور شاگرد صالح بن کیسان نے بھی بیان کیا کہ :
أن عبد الله إنما طلق امرأته تلك واحدة
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی اس بیوی کو ایک طلاق دی تھی [سنن الدارقطني: 4/ 9 واسنادہ صحیح]

نافع کے ایک تیسرے شاگرد أيوب السختيانى نے بھی نافع سے روایت کیا کہ :
أن ابن عمر كان طلق امرأته واحدة وهي حائض
ابن عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں ایک طلاق دی [مصنف عبد الرزاق الصنعاني 6/ 308 واسنادہ صحیح ]

اسی طرح نافع کے دیگر کئی شاگردوں مثلا عبيد الله بن عمر، إسماعيل بن إبراهيم بن عقبة اور محمد بن اسحاق نے بھی یہ بات بیان کی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ حالت حیض میں ایک طلاق دی تھی دیکھئے: سنن النسائي 6/ 140 رقم 3396 واسنادہ صحیح ، سنن الدارقطني 5/ 51 رقم 3968 واسنادہ صحیح ، مسند عمر بن الخطاب للنجادص: 58 واسنادہ صحیح ۔

ظاہر ہے کہ نافع کے دیگر کئی شاگرد نافع کی جو وضاحت بیان کررہے ہیں وہی وضاحت نافع کے شاگرد ابن ابی ذئب نے بھی بیان کی ہے یعنی ان کی روایت میں بھی (وھی واحدۃ) کا مطلب یہی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ حالت حیض میں ایک ہی طلاق دی تھی ۔

امام دارقطنی رحمہ اللہ جو ابن ابی ذئب کی اس حدیث کے راوی بھی ہیں اور ایک جلیل القدرمحدث اور عظیم ناقد ہیں وہ بھی یہ وضاحت کررہے ہیں کہ ابن ابی ذئب کی روایت میں (وھی واحدۃ ) کا مطلب یہی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حالت حیض میں ایک طلاق دی تھی ۔یعنی ان الفاظ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے حالت حیض میں دی گئی طلاق کی تعداد بتلائی گی ہے نہ کے اسے شمار کرنے کی بات کہی گئی ہے ۔

علامہ معلمی رحمہ اللہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت کرتےہوئے لکھتےہیں:
فصنيع الدارقطني في "سننه" يدل أنه يرى أن ذكر الواحدة في حديث ابن أبي ذئب إنما أصله أن ابن عمر طلَّق واحدة، أي: لم يطلق ثلاثًا، فإنه ساق من طريق أبي الزبير قال: سألت ابن عمر عن رجل طلَّق امرأته ثلاثًا وهي حائض، فقال: أتعرف ابن عمر؟ قال: قلت: نعم، قال: طلقت امرأتي ثلاثًا على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم وهي حائض فردها رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى السنة". ثم قال : "هؤلاء كلهم من الشيعة، والمحفوظ أن ابن عمر طلَّق امرأته واحدة في الحيض".
ثم ساق رواية عبيد الله عن نافع عن عبد الله: "أنه طلَّق امرأته وهي حائض تطليقة".
ثم قال : "وكذلك قال صالح بن كيسان وموسى بن عقبة وإسماعيل بن أمية وليث بن سعد وابن أبي ذئب وابن جريج وجابر وإسماعيل بن إبراهيم بن عقبة عن نافع عن ابن عمر: "أنه طلَّق امرأته تطليقة واحدة"، وكذلك قال الزهري عن سالم عن أبيه، ويونس بن جبير والشعبي والحسن".
ثم ساق الأحاديث مستدلاًّ على ذلك ، فذكر رواية عبيد الله عن نافع، ثم رواية يونس بن جبير عن ابن عمر، ثم رواية إسماعيل بن أمية عن نافع، ثم رواية صالح عن نافع، وفي طريق منها: "نا نافع أن ابن عمر إنما طلَّق امرأته تلك واحدة" .
وعقبه من طريق يزيد بن هارون أنا محمَّد بن إسحاق وابن أبي ذئب عن نافع عن ابن عمر أنه طلَّق امرأته في عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وهي حائض، فذكر عمر ذلك لرسول الله - صلى الله عليه وسلم -، ثم ذكر نحوه. وقال ابن أبي ذئب في حديثه: هي واحدة، فتلك العدة التي أمر الله أن تطلق لها النساء" .
ثم ذكر رواية موسى بن عقبة عن نافع، ثم رواية جابر عن نافع .
فيظهر مما ذكرناه أن الذي فهم الدارقطني من ذكر الواحدة في رواية ابن أبي ذئب: أن المقصود منها أن ابن عمر إنما طلَّق واحدة لا ثلاثًا، وهذا هو الموافق لرواية الجماعة عن نافع.

سنن دارقطنی میں امام دارقطنی کا طرزعمل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ابن ابی ذئب کی حدیث میں (واحدۃ) کے ذکر کا اصل مطلب یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہی طلاق دی تھی یعنی تین طلاق نہیں دی تھی کیونکہ امام دارقطنی نے ابوالزبیر کے طریق سے پہلے یہ روایت بیان کی کہ :
’’میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں تین طلاق دے دی تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم ابن عمر کو جانتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں ! تو انہوں نے کہا : میں نے اپنی بیوی کو عہد رسالت میں حیض کی حالت میں تین طلاق دی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنت کی طرف لوٹا دیا ‘‘
اس کے بعد امام دارقطنی نے کہا:
یہ روایت بیان کرنے والے سارے راوی شیعہ ہیں اور ابن عمر کی محفوظ روایت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک ہی طلاق دی تھی ۔
پھر امام دارقطنی نے عبيد الله عن نافع عن عبد الله کی یہ روایت بیان کی کہ : ’’ابن عمر نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں ایک طلاق دی ‘‘ ۔ اس کے بعد امام دارقطنی نے کہا:
اسی طرح صالح بن كيسان ،موسى بن عقبہ ،إسماعيل بن اميہ ، ليث بن سعد ،ابن ابي ذئب،ابن جريج ،جابر ،إسماعيل بن إبراہيم بن عقبہ نے بھی نافع عن ابن عمر کے طریق سے یہی بیان کیا ہے کہ ’’ابن عمر نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی‘‘ ۔اسی طرح زھری نے سالم عن ابیہ کے طریق سے اور یونس بن جبیر ، شعبی اورحسن نے بھی بیان کیا ہے۔
پھر امام دارقطنی نے اسی بات پر استدلال کرتے ہوئے احادیث روایت کرنی شروع کی چنانچہ عبيد الله عن نافع کی روایت بیان کی ، پھر إسماعيل بن أميہ عن نافع کی روایت بیان کی ، پھر صالح عن نافع کی روایت بیان کی جس کے ایک طریق میں یہ الفاظ ہیں : ’’ہم سے نافع نے بیان کیا کہ ابن عمر نے اپنی اس بیوی کو ایک طلاق دی تھی‘‘ ۔
اس کے بعد يزيد بن هارون أنا محمَّد بن إسحاق وابن أبي ذئب عن نافع عن ابن عمر کے طریق سے (زیر بحث) روایت بیان کی کہ : ’’ابن عمر رضی اللہ عنہ نے عہد رسالت میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا‘‘ اس کے بعد راوی نے گذشتہ روایت جیسے الفاظ ذکر کئے اور ابن ابی ذئب نے اپنی حدیث میں کہا کہ ’’یہ ایک ہے‘‘ ، ’’پس یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے ‘‘
پھرامام دارقطنی نے موسى بن عقبة عن نافع کی روایت ذکرکی پھر جابر عن نافع کی روایت ذکر کی ۔
تو ہماری ذکرکردہ اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ امام دارقطنی نے ابن ابی ذئب کی حدیث میں (واحدۃ) کا جو مطلب سمجھا ہے وہ یہ کہ راوی کا مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ ابن عمر نے ایک ہی طلاق دی تھی نہ کہ تین ۔ اور یہی بات نافع سے روایت کرنے والے دیگر شاگردوں کی روایات کے موافق ہے۔[الحكم المشروع في الطلاق المجموع: ص143۔144،آثار الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني 17/ 684-685]

امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) فرماتے ہیں:
والظاهر - أنه من قول من دون النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - مخبرا بأن ابن عمر كان طلقها طلقة واحدة،
ظاہر یہی ہے کہ یہ الفاظ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بعد کے راوی کے ہیں جس نے یہ بتلایا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک طلاق دی تھی [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 9/ 381]

امام ابن قيم رحمه الله (المتوفى751) فرماتے ہیں:
والظاهر أنها من قول من دون ابن عمر - رضي الله عنه - ومراده بها أن ابن عمر إنما طلقها طلقة واحدة، ولم يكن ذلك منه ثلاثا
ظاہر یہی ہے کہ یہ الفاظ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ ان کے بعد کے راوی کے ہیں اوراس سے راوی کی مراد یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہی طلاق دی تھی نہ کہ تین [زاد المعاد، ن مؤسسة الرسالة: 5/ 217]

امام دارقطنی ، امام ابن حزم ، امام ابن القیم اور علامہ معلمی رحمھم اللہ نے جو وضاحت کی ہے یہی بات اس روایت کے تمام طرق کے پیش نظر راجح معلوم ہوتی ہے۔یعنی ابن ابی ذئب کی اس روایت میں طلاق کو شمار کئے جانے کی بات نہیں کہی گی ہے بلکہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق کی تعداد بتلائی گئی ہے کہ یہ ایک طلاق تھی ۔

اگر کوئی شخص اب بھی ضد کرے اور یہی کہے کہ (ھی واحدۃ ) کے الفاظ میں طلاق کی تعداد نہیں بلکہ طلاق کو شمار کرنے کی بات کہی گئی ہے ۔
تو عرض ہے کہ ماقبل میں ہم پوری تفصیل سے ثابت کرچکے ہیں کہ یہ الفاظ مرفوع حصہ میں ثابت نہیں ہیں اس لئے یہ الفاظ غیر نبی کے ہونے کے سبب قابل حجت نہیں ہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
خلاصہ بحث

درج بالا پوری بحث سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ابن ابی ذئب کی روایت میں یہ الفاظ (وهي واحدة) مرفوع حدیث کا حصہ نہیں ہے۔
اوردیگرطرق میں موجود صراحتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نافع نے یہ بیان کیا ہے کہ حالت حیض میں ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہی طلاق دی تھی اسی بات کو ابن ابی ذئب نے مختصرا (وهي واحدة) کہہ کر بیان کردیا ہے ۔
امام دارقطنی ، امام ابن حزم ، امام ابن القیم اور معاصرین میں علامہ معلمی رحمھم اللہ کا یہی موقف ہے۔
لہٰذا اس سے یہ مراد لینا درست نہیں ہے کہ ان الفاظ میں حالت حیض میں دی گئی طلاق کو ایک طلاق شمار کیا گیا ہے ۔ اور اگر ان الفاظ سے یہ مراد لے بھی لیں تو یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ نہیں ہیں اس لئے حجت نہیں ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ
اللہ آپکے علم میں اضافہ فرمائے آمین
 
شمولیت
جون 16، 2011
پیغامات
100
ری ایکشن اسکور
197
پوائنٹ
97
ماشاء اللہ شیخ صاحب کافی عمدہ تحقیق ہے ایک بہن نے سوال پوچھا ہے ان کے شوہر نے اسی طرح طلاق دی ہے دو طہر میں اور ایک حیض میں، اب شوہر کہتا ہے کہ حیض والی طلاق واقع نہیں ہوئی، شیخ جودلیل اس طلاق کع شمار کرنے والے علماء اس بات سے دیتے ہیں کہ اگر طلاق واقع نہیں ہوئی تو ابن عمر نے رجوع کیسےکیا، اس کا جواب ضرور دیں. اور دوسری دلیل یہ دیتے ہیں کہ ابن عمر کا بخاری میں بیان ہے کہ اسے ایک طلاق شمار کیا گیا، اس کا جواب بھی دیں جزاک اللہ خیرا اب ہم کشمکش میں ہیں کہ اس بہن کو کیسا فتوی دیں
 
شمولیت
جون 16، 2011
پیغامات
100
ری ایکشن اسکور
197
پوائنٹ
97
اور شیخ صاحب اس حدیث کا جواب بھی درکار ہے یہاں تو رجور کا ذکر ہے
3275 -[2] (ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﻴﻪ) ﻭﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ: ﺃﻧﻪ ﻃﻠﻖ اﻣﺮﺃﺓ ﻟﻪ ﻭﻫﻲ ﺣﺎﺋﺾ ﻓﺬﻛﺮ ﻋﻤﺮ ﻟﺮﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﺘﻐﻴﻆ ﻓﻴﻪ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: «ﻟﻴﺮاﺟﻌﻬﺎ ﺛﻢ ﻳﻤﺴﻜﻬﺎ ﺣﺘﻰ ﺗﻄﻬﺮ ﺛﻢ ﺗﺤﻴﺾ ﻓﺘﻄﻬﺮ ﻓﺈﻥ ﺑﺪا ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﻄﻠﻘﻬﺎ ﻓﻠﻴﻄﻠﻘﻬﺎ ﻃﺎﻫﺮا ﻗﺒﻞ ﺃﻥ ﻳﻤﺴﻬﺎ ﻓﺘﻠﻚ اﻟﻌﺪﺓ اﻟﺘﻲ ﺃﻣﺮ اﻟﻠﻪ ﺃﻥ ﺗﻄﻠﻖ ﻟﻬﺎ اﻟﻨﺴﺎء» . ﻭﻓﻲ ﺭﻭاﻳﺔ: «ﻣﺮﻩ ﻓﻠﻴﺮاﺟﻌﻬﺎ ﺛﻢ ﻟﻴﻄﻠﻘﻬﺎ ﻃﺎﻫﺮا ﺃﻭ ﺣﺎﻣﻼ»
 
Top